تجارت و ملازمت

Ref. No. 1201/42-211

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   معاملہ کی مذکورہ صورت درست ہے۔ اور پہلے ڈرائیور کی حیثیت دلال اور بروکر کی ہوگی؛ اور دلال کی طرف سے اگر محنت اور کام پایاجائے تو اس کے لئے کمیشن لینا درست ہے، اس لئے مذکورہ معاملہ درست ہے۔

الاجرالذی  یاخذہ السمسارحلال لانہ اجر علی عمل  وجھد معقول (الفقہ الاسلامی وادلتہ : الشرط الثانی من شروط صیغ البیع 5/3326)۔ واجرۃ السمسار والمنادی والحمامی والصکاک ومالایقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لماکان الناس بہ حاجۃ (الدر مع الرد 5/32)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1322/42-694

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  تعلیم کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نظر بہت واضح ہے، تعلیم جس طرح مردوں کے لئے ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے، تعلیم کا پہلا حصہ دینی تعلیم ہے، اس لئے کہ اس پر دنیا کی تربیت اور آخرت کی کامیابی موقوف ہے، دینی تعلیم مرد و عورت دونوں کے لئے یکساں ہے۔ جہاں تک عصری تعلیم کا تعلق ہے تو وہ تعلیم جو قوم اور سماج کی ترقی اور انسانیت کی فلاح و بہبود سے متعلق ہےایسی تعلیم حاصل کرنا وقت کا تقاضہ ہے ۔ البتہ عورتوں کے لئے اپنی عفت وعصمت کی حفاظت پردہ اور غیرمحرم کے ساتھ اختلاط سے اجتناب یہ ضروری اور بنیادی امرہے اس کی رعایت کے ساتھ ایسی تعلیم جس کے ذریعہ مطلوبہ شرائط کے ساتھ وہ سماج کی خدمت کرسکیں، عورتوں کے لئے بھی مطلوب ومستحسن عمل ہے۔ سوال میں جن مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کی بنیاد دینی تعلیم وتربیت کا فقدان ہے ، اگر دینی تعلیم وتربیت کو ملحوظ رکھ کر عصری علوم میں آگے بڑھاجائے ان شاء اللہ اس طرح کے مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1725/43-1411

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس جگہ خزانہ ہوتاہے اسی جگہ چوری ہوتی ہےاور ڈاکہ ڈالاجاتاہے۔ آپ کے اندر ایمان کی دولت موجود ہے اس لئے اس میں غلط خیال آتے ہیں جن پر آپ کا اختیار اور کنٹرول نہیں ہے۔ ایسے وساوس سے ایمان پر کوئی فرق نہیں آئے گا بلکہ یہ تو ایمان کی علامت ہے، بشرطیکہ زبان سے کچھ بھی نہ کہا ہو۔ اگر کلمات کفر زبان سے نکل گئے، اللہ تعالی کو زبان سے برابھلا کہہ دیا تو  ایمان جاتارہا اس لئے کہ زبان چلانا اپنےاختیار میں تھا، ایسی صورت میں تجدید ایمان وتجدید نکاح ضروری ہے۔  وسوسوں کے دفعیہ کے لئے مندرجہ ذیل کلمات کثرت سے پڑھیں: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ،  اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه ،  هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم، ربِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ ۔  اور اپنے  آپ کو زیادہ سے زیادہ کاموں میں مصروف رکھیں۔ ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ: «أَو قد وجدتموه»؟ قَالُوا: نعم. قَالَ: «ذَاك صَرِيح الْإِيمَان» . رَوَاهُ مُسلم". (مشكاة المصابيح (1/ 26)

"( «في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به» ) أي: نجد في قلوبنا أشياء قبيحة نحو: من خلق الله؟ وكيف هو؟ ومن أي شيء؟ وما أشبه ذلك مما يتعاظم النطق به لعلمنا أنه قبيح لايليق شيء منها أن نعتقده، ونعلم أنه قديم، خالق الأشياء، غير مخلوق، فما حكم جريان ذلك في خواطرنا؟ ... (صريح الإيمان) أي: خالصه يعني أنه أمارته الدالة صريحاً على رسوخه في قلوبكم، وخلوصها من التشبيه، والتعطيل؛ لأن الكافر يصر على ما في قلبه من تشبيه الله سبحانه بالمخلوقات، ويعتقده حسنا، ومن استقبحها، وتعاظمها لعلمه بقبحها، وأنها لاتليق به تعالى كان مؤمناً حقاً، وموقناً صدقاً فلا تزعزعه شبهة، وإن قويت، ولا تحل عقد قلبه ريبة، وإن موهت، ولأن من كان إيمانه مشوباً يقبل الوسوسة، ولايردها". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 136)

"وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خلق كَذَا؟ مَنْ خَلَقَ كَذَا؟ حَتَّى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ؟ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ". "وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ: آمَنت بِاللَّه وَرُسُله".(مشكاة المصابيح (1/ 26)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 2121/44-2158

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن و حدیث میں واضح احکام کے مطابق سود کا لین دین حرام ہے، اور سودی قرض  لینا بلا ضرورت شدیدہ جائز نہیں ہے۔ آپ نے جس مقصد کے لئے قرض لیا ہے اس کو پورا کرکے جلد از جلد قرض  سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوشش کریں۔ سودی قرض لے کر بے فکر ہوجانا بہت بری بات ہے، گناہ کا باعث ہے۔ آپ پر عمرہ لازم نہیں اس لئے آپ عمرہ پر جانے کے مقابلہ میں  سودی قرض کی ادائیگی پر توجہ دیں۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2179/44-2292

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے انعقاد کے لئے ایجاب و قبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا ضروری ہے۔ اس لئے لڑکا اور لڑکی دو الگ الگ جگہوں پر ہوں اور ویڈیو کال پر نکاح کریں تو نکاح درست نہیں ہوگا۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ لڑکا  یا لڑکی  کسی کواپنا وکیل بنادیں اور وہ مجلس نکاح میں موجود ہو وہ غائب شخص کی جانب سے  نکاح کو قبول کرے ۔ اس طرح ایک اصیل اور ایک وکیل کی موجودگی میں دوگواہوں کے سامنے نکاح منعقد ہوجائے گا۔

قال الحصكفي ؒ: "ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين."

قال ابن عابدين ؒ: "(قوله: لو حاضرين) احترز به عن كتابة الغائب، لما في البحر عن المحيط الفرق بين الكتاب والخطاب أن في الخطاب لو قال: قبلت في مجلس آخر لم يجز وفي الكتاب يجوز؛ لأن الكلام كما وجد تلاشى فلم يتصل الإيجاب بالقبول في مجلس آخر فأما الكتاب فقائم في مجلس آخر، وقراءته بمنزلة خطاب الحاضر فاتصل الإيجاب بالقبول فصح. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/14، دار الفكر)

قال الحصكفي ؒ: "(وشرط سماع كل من العاقدين لفظ الآخر) ليتحقق رضاهما."

علق عليه ابن عابدين ؒ في حاشيته: "(قوله: سماع كل) أي ولو حكما كالكتاب إلى غائبة؛ لأن قراءته قائمة مقام الخطاب كما مر." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/21، دار الفكر)

قال الحصكفي ؒ:" (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين)۔۔۔."

قال ابن عابدينؒ: " قال في الفتح: ومن اشترط السماع ما قدمناه في التزوج بالكتاب من أنه لا بد من سماع الشهود ما في الكتاب المشتمل على الخطبة بأن تقرأه المرأة عليهم أو سماعهم العبارة عنه بأن تقول إن فلانا كتب إلي يخطبني ثم تشهدهم أنها زوجته نفسها. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/23، دار الفكر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ طریقہ غیر اسلامی ہے، اہل سنت والجماعت کے عقیدے اور طریقہ کے خلاف اور بدعت ہے، اسلامی طریقہ تو یہ ہے کہ ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا جائے یعنی اللہ کے نام پر قربانی بچے کی طرف سے کی جائے اور اس کے بال کٹواکر اس کے وزن کے مطابق چاندی غرباء پر تقسیم کی جائے اس کے علاوہ مذکورہ فعل مشرکانہ ہے جو بالکل بے اصل ہے طریقۂ سنت کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرنا بدعت اور باعث گناہ ہے ایسی غلط باتوں اور رسموں سے ہر مسلمان پر پرہیز کرنا لازم ہے۔ (۱) ۱) وأما النذر الذي ینذرہ أکثر العوام علی ما ہو مشاہد کأن یکون لإنسان غائب أو مریض، أو لہ حاجۃ ضروریۃ فیأتي بعض الصلحاء فیجعل سترہ علی رأسہ فہذا النذر باطل بالإجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: باب ما یلزم الوفاء بہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۹۳) إن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو بالإجماع باطل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص331

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی کے انتقال پر تیجہ، دسواں ورسم اور اس کے بعد دعوت وغیرہ کا اہتمام، اس کے لئے مردو عورتوں کا اجتماع، یہ سب بدعت و گمراہی ہے۔ جس سے بچنا لازم اور ضروری ہے جو حضرات اسے جلسہ تعزیت کہتے ہیں وہ سوچیں کہ کیا جلسہ تعزیت کے لیے و خاص تاریخ اور خاص وقت کی تعیین کو لازم سمجھنا اور اس کا التزام کہیں سے ثابت ہے، اگر بغیر کسی التزام دن و وقت جلسہ تعزیت ہو، تو اس کو کون منع کرتا ہے، لیکن غیر لازم کو لازم سمجھنا اور ان کو دین و شریعت کا کام سمجھ کر کرنا ان سب پر اصرار اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن جریر بن عبد اللّٰہ البجليِّ قال: (کنا نعد الاجتماع إلی أہل المیت وصنیعۃ الطعام بعد دفنہ من النیاحۃ۔ (أخرجہ أحمد، مسندہ، ’’مسند عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۵، رقم: ۶۹۰۵)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱) ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ومنہا الوصیۃ من المیت باتخاذ الطعام والضیافۃ یوم موتہ أو بعدہ وبإعطاء دراہم لمن یتلو القرآن لروحہ أو یسبح أو یہلل لہ وکلہا بدع منکرات باطلۃ، والمأخوذ منہا حرام للآخذ، وہو عاص بالتلاوۃ والذکر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۸
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص422
 

Fiqh

Ref. No. 2537/45-3874

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

1. If someone has an illness that makes it impossible to fast, or fasting threatens his life or the disease is feared to be aggravated or you are a Musafir, in all these cases, the Shariah has allowed him not to fast and make up for them later on. . You should describe your situation in detail so that the Shariah ruling can be found out for you.

2. If you need more time to stop urine dripping, start your preparation accordingly. Purity is compulsory for prayer, and if it takes you a long time to attain purity, you have to spend more time to attain purity. There is no room for you in this regard. You should also get it treated by a specialist.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس وقت ہاتھ اٹھانا اور آمین کہنا ممنوع ہے کیونکہ اس کا ثبوت خیر القرون میں نہیں ملتا ۔ ’’وما یفعلہ المؤذنون حال الخطبۃ من الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم والترضی من الصحابۃ والدعاء للسلطان بالنصر ینبغی أن یکون مکروہاً اتفاقاً‘‘۔(۱)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۴۔
قولہ: (یصلی سراً) بحیث یسمع نفسہ کذا آفادہ القہستاني وفي الشرح عن الحسامي یصلی في نفسہ وفي الفتح عن أبي یوسف ینبغي في نفسہ لأن ذلک مما لا یشغلہ عن سماع الخطبۃ فکان إحرازاً للفضیلتین وہو الصواب۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۹)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص358

طہارت / وضو و غسل
ناخن، سر کے بال، بغل کے بال، زیر ناف کے بالوںکو کاٹنے کے بعد کہاں پھینکنا چاہیے؟ (۲۷)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ناخن، سر کے بال، بغل کے بال، زیر ناف کے بالوں، کو کاٹنے کے بعد ان کو کہیں بھی پھینک دیں یا ان کو کہیں زمین میں یا کہیں صاف جگہ دبا دیں؟ ذرا تفصیل سے سمجھا دیں۔ فقط: والسلام المستفتی: محمدعبد اللہ، حیدرآباد