طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام طہارت وپاکیزگی والا دین ہے، شریعت اسلامیہ میں ظاہر وباطن کی طہارت کو نہایت اہمیت دی گئی ہے؛ چنانچہ زیر ناف بالوں کو کاٹنا ہر مسلمان بالغ مرد اور عورت پر لازم ہے جس کی صفائی کی آخری حد چالیس روز ہے، اس سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ تحریمی اور گناہ کا باعث ہے۔ حدیث شریف میں اس کی سخت وعید آئی ہے۔ امام مسلمؒ نے نقل کیا ہے:
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال أنس: وقت لنا في قص الشارب وتقلیم الأظفار ونتف الإبط وحلق العانۃ أن لا نترک أکثر من أربعین لیلۃ‘‘(۱)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن کاٹنے بغل اور زیر ناف کی صفائی کے سلسلے میں ہمارے واسطے حد مقرر کردی گئی ہے کہ چالیس روز سے زیادہ نہ چھوڑیں۔
زیر ناف کاٹنے کی حد ناف کے نیچے پیڑو کی ہڈی (اگر آدمی اکڑو بیٹھے، تو ناف سے تھوڑا نیچے جہاں پیٹ میں بل پڑتا ہے وہاں) سے لے کر شرم گاہ اور اس کے آس پاس کا حصہ، خصیتین اسی طرح مقعد کے آس پاس کا حصہ اور رانوں کا صرف وہ حصہ جہاں نجاست ٹھہرنے یا لگنے کا خطرہ ہو یہ تمام بال کاٹنے کی حد ہے اور انہیں صاف کرنے کی ابتداء ناف کے نیچے سے کرنی چاہئے۔
’’ویبتدئ في حلق العانۃ من تحت السرۃ، ولو عالج بالنورۃ في العانۃ یجوز کذا في الغرائب‘‘(۲)
’’وأما الاستحداد فہو حلق العانۃ سمی استحداداً لاستعمال الحدیدۃ وہي الموسی، وہو سنۃ، والمراد بہ نظافۃ ذلک الموضع، والأفضل فیہ الحلق، ویجوز بالقص والنتف والنورۃ والمراد بالعانۃ الشعر الذي فوق ذکر الرجل وحوالیہ وکذلک الشعر الذي حوالي فرج المرأۃ‘‘(۱)
’’والعانۃ الشعر القریب من فرج الرجل والمرأۃ ومثلہا شعر الدبر بل ہو أولی بالإزالۃ؛ لئلایتعلق بہ شيء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر‘‘(۲)
اگر کوئی نابینا شخص ہے، تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ حجام سے زیر ناف کٹوائے جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’حلق عانتہ بیدہ وحلق الحجام جائز إن غض بصرہ، کذا في التتار خانیۃ‘‘(۳)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأۃ شعرہا ووصلہا شعر غیرہا‘‘: ج ۵، ص: ۴۱۳۔
(۱) النووي، شرح النووي علی مسلم، ’’کتاب الطہارۃ: باب خصال الفطرۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۲۸۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الحج: فصل في الإحرام و صفۃ المفرد‘‘: ج ۲، ص: ۴۸۱۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع عشر في الختان والخصاء‘‘: ج ۵، ص: ۴۱۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص48

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اہل سیر کے درمیان اجماع ہے کہ وضو اور غسل مکی زندگی میں نماز کے ساتھ فرض ہوا۔
 وأجمع أہل السیر أن الوضوء والغسل فرضا بمکۃ مع فرض الصلوٰۃ یتعلم جبریل علیہ السلام۔(۳)
 حضرت جبریل امینؑ نے اس کی تعلیم دی جیسا کہ آپ Bنے ارشاد فرمایا :
 ان رسول اللّٰہ ﷺ: توضأ مرۃ مرۃ و قال: ھذا وضوء لا یقبل اللّٰہ الصلوۃ إلا بہ، و توضأ مرتین مرتین و قال: ھذا وضوء من یضاعف اللّٰہ لہ الأجر مرتین، و توضأ ثلاثا ثلاثا و قال: ھذا وضوئي و وضوء الأنبیاء من قبلي(۴) مذکورہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ امت ِ محمدیہ سے قبل بھی دوسری امتوں میں وضو کا حکم تھا۔
(۳)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في اعتبارات المرکب التام،‘‘ ج۱، ص:۱۹۸
(۴) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’الموالاۃ في الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۱۳

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص160

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :اگر خفین پر پیشاب لگ جائے، تو اس کا بھی دھونا فرض ہے اور اگر کوئی سخت نجاست لگ جائے، تو اس کو بھی خفین سے دور کرنا ضروری ہے؛ البتہ اگر خفین چکنے ہوں اور اس کا اثرپورے طور پر رگڑ کر یا کسی چیز سے صاف کر دیا جائے تو پاک ہو جاتا ہے۔(۲)
اگر نجاست غلیظہ ہو، مثلاً :خون اور انسان کا پیشاب وغیرہ اور ایک درہم سے کم لگ جائے، تو اس پر مسح کرکے نماز پڑھ لی جائے، تو نماز ہو جاتی ہے(۳) اور اگر نجاست خفیفہ ہو  جیسے: ان جانوروں کا پیشاب جن کا گوشت کھایا جاتا ہے، تو خفین کا بھی چوتھائی حصہ تک معاف ہے(۱)؛ مگر جان بوجھ کر اتنی نجاست لگا رکھنا، مکروہ تحریمی ہے۔

(۲)الخف إذا أصابہ النجاسۃ إن کانت متجسدۃ کالعذرۃ والروث والمني یطھر بالحت إذا یبست، و إن کانت رطبۃ لا یطھر إلا بالغسل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، و منھا: الحت والدلک،‘‘ ج۱، ص:۴۴، مکتبۃ فیصل دیوبند)
(۳)و إن لم تکن النجاسۃ متجسدۃ کالخمر والبول إذا التصق بھا مثل التراب أو ألقی علیھا فمسحھا یطھر؛ وھو الصحیح ھکذا في التبیین وعلیہ الفتویٰ۔ (ایضاً،ج۱، ص:۹۹)
(۱) وعفي قدر الدرھم وزنا في المتجسدۃ و مساحۃ في المائعۃ، وھو قدر مقعر الکف داخل مفاصل الأصابع من النجاسۃ المغلظۃ فلا یعني عنھا إذا زادت علی الدرھم مع القدرۃ علی الإزالۃ۔(احمد بن محمد، مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنھا،‘‘ ج۱، ص:۶۲)؛  و عفي دون ربع ثوب من نجاسۃ مخففۃ۔ (ابن عابدین، درمختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مبحث في بول فأرۃ و بعرھا و بول الہرۃ،‘‘ ج۱، ص:۵۲۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص263

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عام حالات میں نمازی کے آگے سے گزرنا درست نہیں ورنہ گزرنے والا شخص سخت گنہگار ہوگا؛ البتہ اگر جماعت میں شریک ہونے کے لیے نمازی کے آگے سے گزرنا پڑے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہ ہو تو آگے سے گزر کر جماعت میں شریک ہو سکتے ہیں، خود نمازی کو ایسی جگہ کھڑا نہ ہونا چاہئے ورنہ تو وہ خود ہی گنہگار ہوگا۔ (۱)

(۱) إن الکلام فیما إذا شرعوا: وفي القنیۃ قام في آخر صف وبین الصفوف مواضع خالیۃ، فللداخل أن یمر بین یدیہ لیصل الصفوف۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج۲، ص: ۳۱۳)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص343

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے مختلف قسم کے تشہد منقول ہیں، جن میں قدرے الفاظ کا فرق ہے کسی جگہ پر کچھ الفاظ زیادہ بھی ذکر کئے گئے ہیں۔ ہمارے یہاں جو تشہد نماز میں پڑھا جاتا ہے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔یہ احناف کے نزدیک افضل ہے، اس کے علاوہ دوسرے تشہد جن میں الفاظ زیادہ ہیں، ان کو بھی پڑھا جاسکتا ہے جس کو جو پسند آئے اس کو اختیار کرے مضائقہ نہیں ہے۔ اور ایسے ہی درود شریف میں لفظ سیدنا پڑھنا بھی منقول ہے۔ اس کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔(۲)

(۲) واحترز بتشہد ابن مسعود عن غیرہ لیخرج تشہد عمر رضي اللّٰہ عنہ، وہو: التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات الصلوات للّٰہ السلام علیک أیہا النبي ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ۔ رواہ مالک في الموطأ وعمل بہ إلا أنہ زاد علیہ (وحدہ لاشریک لہ) الثابت في تشہد عائشۃ المروي في الموطأ أیضا وبہ علم تشہدہا وخرج تشہد ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما المروي في مسلم وغیرہ مرفوعاً: التحیات المبارکات الصلوات الطیبات للّٰہ السلام علیک أیہا النبي ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدا رسول اللّٰہ إلا أن في روایۃ الترمذي سلام علیک بالتنکیر وبہذا أخذ الشافعي وقال: إنہ أکمل التشہد ورجح مشایخنا تشہد ابن مسعود بوجوہ عشرۃ ذکرہا الشارح وغیرہ أحسنہا: أن حدیثہ اتفق علیہ الأئمۃ الستۃ في کتبہم لفظا ومعنی، واتفق المحدثون علی أنہ أصح أحادیث التشہد بخلاف غیرہ حتی قال الترمذي إن أکثر أہل العلم علیہ من الصحابۃ والتابعین وممن عمل بہ  أبوبکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہ وکان یعلمہ الناس علی المنبر کالقرآن، ثم وقع لبعض الشارحین أنہ قال والأخذ بتشہد ابن مسعود أولی فیفید أن الخلاف في الأولویۃ حتی لو تشہد بغیرہ کان آتیا بالواجب۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’ کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۶۷، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص381

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وتر کی نماز کے سلسلے میں حضرات فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ وتر کو واجب قرار دیتے ہیں جب کہ صاحبینؒ اور ائمہ ثلاثہ ؒوتر کو سنت قرار دیتے ہیں اور دونوں حضرات کے پاس دلائل ہیں یہ جو آپ نے سنا کہ ایک رکعت فرض ایک واجب اور ایک سنت ہے یہ کسی کا بھی قول نہیں ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے وجوب کے دلائل یہ ہیں:
(۱)حضرت خارجہ بن حذافہ ؓکی حدیث ہے:
’’إن اللّٰہ أمدکم بصلاۃ ہي خیر لکم من حمر النعم : الوتر، جعلہ اللّٰہ لکم فیما بین صلاۃ العشاء إلی أن یطلع الفجر‘‘(۱)
’’عن أبي سعید الخدريؓ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من نام عن وترہ أو نسیہ فلیصلہ إذا ذکرہ‘‘(۲)
’’عن بریدۃؓ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول : الوتر حق، فمن لم یوتر فلیس منا‘‘(۳)
اسی طرح وتر کی نماز تین رکعات ایک سلام سے ہیں۔ اس سلسلے میں احناف کے پاس مختلف روایتیں ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أن رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان لا یسلم في رکعتي الوتر۔إسنادہ صحیح‘‘(۴)
’’قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  لا یسلم في الرکعتین الأولیین من الوتر وقال: ہذا حدیث صحیح علیٰ شرط الشیخین واقرأ علیہ الذہبي في تلخیصہ وقال: علیٰ شرطہما۔ اھـ۔ وعنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم إلا في آخرہن‘‘(۵)
’’واستشہد بہ قال وہذا وترا یسر وعنہ أخذہ أہل المدینۃ وسکت عنہ الذہبي في تلخیصہ فہو حسن وکذا نقلہ عن عمر بن الخطاب الزیلعي في نصب الرایۃ۔ (۲۷۷۱) بلفظ لا یسلم وکذا نقلہ الحافظ في الدرایۃ (۱۱۴) بلفظ لا یسلم إلا فيآخرہن وکلاہما عزاہ إلی الحاکم‘‘(۱)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر، باب ما جاء في الوتر‘‘: ج ۱ ، ص:۱۰۳، رقم: ۴۵۲۔)
(۲) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب تفریع أبواب الوتر، باب في الدعاء بعد الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳، رقم: ۱۴۳۱۔)
(۳) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’باب في من لم یوتر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۱، رقم: ۱۴۱۹۔)
(۴)أخرجہ النسائي، في سننہ، کتاب قیام اللیل و تطوع النہار، باب کیف الوتر بثلاث، ج۱، ص۱۹۱، رقم ۱۶۹۸
(۵) أخرجہ الحاکم: ج ۱، ص: ۲۰۴۔)
(۱)ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’أبواب الوتر باب الایثار بثلاث موصولۃ وعدم الفصل بینہن بالسلام الخ‘‘: ج ۶، ص: ۲۸، ۳۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص313

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کھڑے ہوکر نفل پڑھنے میں پورا ثواب ہے اور بیٹھ کر پڑھنے میں نصف ثواب ہے اس لیے کھڑے ہوکر پڑھنا ہی افضل ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص اتباع رسول کی نیت سے بیٹھ کر پڑھے گا تو اس کو دو ثواب ملیں گے، نفلوں کا آدھا اور اتباع رسول کا علیحدہ۔
’’ویتنفل مع قدرتہ علی القیام قاعداً لا مضطجعاً إلا بعذر ابتداء وکذا بناء بعد الشروع بلا کراہۃ في الأصح کعکسہ۔ وفیہ أجر غیر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی النصف إلا بعذر۔ قولہ وفیہ أجر غیر النبي أما النبيؐ فمن خصائصہ أن نافلتہ قاعداً مع القدرۃ علی القیام کنافلتہ قائماً، ففي صحیح مسلم عن عبد اللّٰہ بن عمرو قلت: حدثت یا رسول اللّٰہ أنک قلت : صلاۃ الرجل قاعداً علیٰ نصف الصلاۃ، وأنت تصلی قاعداً، قال: أجل ولکني لست کأحد منکم۔ قولہ علی النصف إلا بعذر،  أما مع العذر فلا ینقص ثوابہ عن ثوابہ قائماً، لحدیث البخاري في الجہاد إذا مرض العبد أو سافر کتب لہ مثل ماکان یعمل مقیما صحیحاً‘‘(۱)
’’عن عمران بن حصین أنہ سأل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن صلاۃ الرجل قاعداً فقال إن صلی قائماً فہو أفضل، ومن صلی قاعداً فلہ نصف أجر القائم ومن صلی نائماً فلہ نصف أجر القاعد‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۸۳، ۴۸۴، زکریا، دیوبند۔)
(۲) أخرجہ البخاري في صحیحہ، أبواب تقصیر الصلاۃ، باب صلاۃ القاعد: ج ۱، ص:۱۵۰، رقم۱۱۱۵۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص423

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 40/866

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If your brother has no other sources of halal income, you should avoid eating at his home. Now, it is your duty to help him find another halal job. It will be a great help from your side.

 And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

روزہ و رمضان

Ref. No. 40/1104

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی یہ نذر مانے کہ میرا کام ہوگیا تو مسجد میں جنریٹر دوں گا تو نذر پوری ہونے پر وہ مسجد میں جنریٹر دے سکتا ہے۔ او ر اگر مسجد میں جنریٹر کی ضرورت نہ ہو تو اس مالیت کی دوسری چیز دے سکتا ہے۔ اس طرح کی نذر درحقیقت وقف کرنے کی نذر ہے، اس لئے اس کا استعمال مسجد میں ہوسکتا ہے۔ ولذا صححوا النذر بالوقف لان من جنسہ واجبا وھو بناء مسجد للمسلمین  الخ۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 911/14-23B

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

You are already receiving money from government for your work. So, the commission you are taking is a bribe which is extremely prohibited in Islam. It is Haram and a major sin. A Muslim must abstain from taking or receiving bribe.

One who took a bribe while being on job must seek repentance from Allah give back rights to those they belong or give it to the poor without the intention of reward.

The Almighty Allah (saws) has cursed the bribe-giver and taker. (Tirmizi) There is another Hadith which states that the bribe-giver and taker both will go to Hell (Jahannam). May Allah save us all from it. Aameen

ولاتاکلوا اموالکم  بینکم بالباطل  وتدلوا بھا الی الحکام لتاکلوا فریقا من اموال الناس بالاثم وانتم تعلمون (البقرۃ 188)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom waqf Deoband