بدعات و منکرات

Ref. No. 2224/44-2370

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مدرسہ میں نمازوں کے بعد جو معمولات ہوتے ہیں ان میں ذمہ داران کے پیش نظر کوئی نہ کوئی تعلیمی پہلو ہوتاہے، یعنی طلبہ کی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایسا عمل کیاجاتاہے۔  اس لئے اہل مدارس اگر تعلیمی وتربیتی لحاظ سے کوئی عمل کریں تو اس کو بدعت نہیں کہا جائے گا بلکہ وہ بھی تعلیم کا ایک حصہ ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2298/44-3448

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چونکہ وہ کنواں اب استعمال میں نہیں ہے، اس لئے اگر وہ آپ کی ملکیت میں ہے تو اس میں بیت الخلاء کی ٹنکی بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن  اگر سرکاری ہے تو اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔

"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ،فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل:6/264،ط:دار الكتب العلمية)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

خوردونوش

Ref. No. 2413/44-3645

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بلاکسی ظاہری سبب کے کسی پر شک کرنا تقوی کے خلاف عمل ہے، اگر وکئی وجہ ہو، تو پرہیز کرنا چاہئے، اور ایسی صورت میں کوئی آپ پر لعن طعن بھی نہیں کرے گا، لیکن بلاکسی وجہ کے کسی کے بارے میں بدگمانی رکھنا درست نہیں ہے،۔ اس لئے اگر والد صاحب کھانے ک لئے کہیں تو ان کی اطاعت ہی اقرب الی التقوی ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سلطان سے مراد ہر صاحب اقتدار بادشاہ ہے۔(۱)

(۱) أفضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الملاحم: باب الأمر والنہي‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۷، رقم: ۴۳۴۴)
نقل في الحاشیۃ: عن مرقات الصعود قال الخطابي: وإنما صار ذلک أفضل الجہاد لأن من جاہد العدو کان مترددا بین رجاء وخوف لا یدري ہل یغلب أو یغلب وصاحب السلطان مقہور في یدہ فہو إذا قال الحق وأمرہ بالمعروف فقد نعرض للتلف واہراق نفسہ للہلاک فصار ذلک أفضل أنواع الجہاد من أجل غلبۃ الخوف۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود، ’’کتاب الملاحم: باب الأمر بالمعروف الخ‘‘: ج ۵، ص: ۱۱۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص75

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2602/45-4123

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    سوئی کے ناکے کے برابرپیشاب کی باریک چھینٹیں  بدن یا کپڑوں پر پڑجائیں اور نظر نہ آتی ہوں بلکہ صرف احساس ہوا ہو تو وہ معاف ہیں، البتہ اگر پیشاب کی چھینٹیں نظر آرہی ہوں  اور مجموعی طور پر ایک درہم (یعنی سوا انچ کے برابر )کے پھیلاؤ سے زیادہ ہوں تو پھر وہ معاف نہیں ہوں  گی اور ان کو دھوئے بغیر نماز نہیں ہوگی۔ ہاں اگر ایک درہم کے پھیلاؤ سے کم ہوں تو ان میں نماز تو ہوجائے گی لیکن جان بوجھ کر اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

۔و بول انتفخ كررؤس ابر وكذا جانبها الأخر و ان كثر باصابة الماء للضرورة (فتاوى شامي  580/1)

(.كرؤوس ابر ) بكسر الهمزه جمع ابرة احتراز عن المسئلة كما في” شرح منيه “ر “الفتح ” ، قوله : ( وكذا جانبها الاخر ) اي : خلافا” لابي جعفر الهندواني حيث مع جانب الاخر ، وغيره من المشائخ قالوا : لا يعتبر الجا نبان ، و اختاره “الكافي ” “حليه” فرؤوس الابر تمثيل للتقليل كما في” القهستاني ” عن الطلبه ، لكن في ايضا” عن الكرماني ان هذا ما لم ير على الثوب ، والا وجب غسله اذا صار بالجمع اكثر من قدر الدرهم اه‍… ( فتاوى شامي  580/1)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) پیشاب کے قطروں سے حفاظت کے لیے ٹیشو پیپر کا استعمال کرنا درست ہے، اور اس قدر اہتمام سے بھی عذاب قبر سے نجات ہوگی ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ (۲)اگر قطرہ نکلنے کا شبہ ہوا تو کھول کر دیکھنا ضروری ہوگا، دیکھنے کے بعد تسلی ہوگئی، اب پھر شبہ ہوا تو اب اسی میں نماز پڑھے جب تک نکلنے کا غالب گمان نہ ہوجائے۔ اور اس صورت میں اگر سوراخ کی جانب ٹیشو پیپر پر تری نظر نہیں آتی ہے، تو پاک سمجھا جائے گا، اور اسی میں نماز ہوجائے گی (۳) اگر نماز کے بعد ٹیشو پیپر کھول کر دیکھا تو سوراخ سے چپکاہوا تھا؛ لیکن اس کے علاوہ ٹیشو کے دوسرے حصے گیلے نہیں ہوئے تھے، تو بھی نماز ہوگئی۔
’’قلت: ومن کان بطیء الاستبراء فلیفتل نحو ورقۃ مثل الشعیرۃ ویحتشی بہا في الإحلیل، فإنہا تتشرب ما بقی من أثر الرطوبۃ التی یخاف خروجہا، وینبغی أن یغیبہا في المحل؛ لئلا تذہب الرطوبۃ إلی طرفہا الخارج‘‘(۱)
’’قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: (کما) ینقض (لو حشا إحلیلہ بقطنۃ وابتل الطرف الظاہر) ہذا لو القطنۃ عالیۃ أو محاذیۃ لرأس الإحلیل، وإن متسفلۃ عنہ لا ینقض (وإن ابتل) الطرف (الداخل لا) ینقض ولو سقطت، فإن رطبہ انتقض، وإلا لا‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار  مع رد المحتار، ’’فروع في الاستبراء‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۵۔
(۲) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص418

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز ایسی جگہ پر پڑھنی چاہئے جہاں خشوع وخضوع مکمل طور پر باقی رہ سکے، سامنے سوتا ہوا آدمی اچانک اٹھ جائے، تو خشوع وخضوع میں خلل پڑے گا؛ لہٰذا بغیر عذر اس طرح نماز پڑھنا مناسب نہیں؛ لیکن مذکورہ طریقہ پر ادا کی گئی نماز بلا شبہ درست وادا ہوجائے گی۔(۱)

(۱) ویکرہ أن یصلي وبین یدیہ قیام، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷)
ویکرہ أن یکون فوق رأسہ أو خلفہ أو بین یدیہ أو بحذائہ صورۃ … أو یکون بین یدیہ قوم قیام یخشی خروج مایضحک أو یخبل أو یقابل وجہاً وإلا فلا کراہۃ لأن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي صلاۃ اللیل کلہا وأنا معترضۃ بینہ وبین القبلۃ فإذا أراد أن یوتر أیقظني فأوتر۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۶۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص453

حدیث و سنت

Ref. No. 2768/45-4309

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ انسان کو اپنی صلاحیت کے مطابق کتابیں پڑھنی چاہئے، تاکہ اس کو صحیح طور پر سمجھ سکے اور اس پر مکمل طور پر عمل کر سکے، احادیث کی بھی بہت سی کتابیں اسی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں اس سلسلے میں حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب کی معارف الحدیث بہت عمدہ ہے اسی طرح حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی صاحب کی ترجمان السنۃ ہے، حضرت مفتی سعید احمد صاحب کی تحفہ المعی بھی حدیث کو سمجھنے کے لیے مفید کتاب ہے تاہم یہ ترمذی کی شرح ہے جس میں بعض بحثیں علمی ہیں اسی طرح مختلف جگہوں پر سند سے کلام ہوتا ہے جو عام لوگوں کے لیے نہیں ہے، حجۃ اللہ البالغہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی ہے اس کی شرح مفتی سعید احمد صاحب کی رحمت اللہ الواسعہ کے نام سے ہے اس کے مباحث دقیق ہیں جو عام لوگوں کے فہم سے بلند ہیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ کے کان میں اذان واقامت قبلہ رخ ہونی چاہیے، یہی افضل ہے۔ اگرچہ جائز دوسرا رخ بھی ہے۔(۱)

(۱) ویلتفت فیہ وکذا فیہا مطلقاً وقیل إن المحل متسعاً یمیناً ویساراً فقط لئلا یستدبر القبلۃ بصلاۃ وفلاح ولو وحدہ أو لمولود لأنہ سنۃ الأذان مطلقاً۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۳، زکریا دیوبند)
قولہ: حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود ینبغي أن یحول قال السندي: فیرفع المولود عند الولادۃ علی یدیہ مستقبل القبلۃ ویؤذن في أذنہ الیمنیٰ ویقیم في الیسریٰ ویلتفت فیہما بالصلاۃ لجہۃ الیمین وبالفلاح لجہۃ الیسار، وفائدۃ الأذان في أذنہ أنہ یدفع أم الصبیان منہ۔ (تقریرات الرافعي علی رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵)
(قولہ ولو وحدہ الخ) أشار بہ إلی رد قول الحلواني: إنہ لا یلتفت لعدم الحاجۃ إلیہ وفي البحر عن السراج أنہ من سنن الأذان فلا یخل المنفرد بشيء منہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج۲، ص: ۵۳، زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص222

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک مرتبہ کے بقدر کافی ہے۔(۱)

(۱)سنتہا رفع الیدین للتحریمۃ … والقومۃ والجلسۃ … وکذا الطمأنینۃ فیہا قدر تسبیحۃ، کذا في شرح المنیۃ لابن الحاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
 قولہ وتسن الجلسۃ بین السجدتین، المراد بہا الطمانینۃ في القومۃ وتفترض عند أبي یوسف، ومقدار الجلوس عندنا بین السجدتین مقدار تسبیحۃ ولیس فیہ ذکر مسنون، کما في السراج۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان سننہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص366