Frequently Asked Questions
مساجد و مدارس
Ref. No. 1185/42-
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح مسجد کے نچلے حصہ کا احترام ضروری ہے اسی طرح مسجد کی چھت کا بھی احترام ضروری ہے، تاہم اگر چپل میں کوئی گندگی لگی ہوئی نہیں ہے توچھت پر چپل پہن کر چلنے میں حرج نہیں ہے جبکہ چھت بھی ننگے پیر چلنے کے قابل نہ ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1308/42-679
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر حشفہ پر کوئی ایسا باریک کپڑا ہے کہ عورت کے بدن کی گرمی محسوس ہوتی ہے تو شرمگاہ میں حشفہ کے غائب ہوجانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضاء کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا۔ لیکن اگر کپڑا موٹا ہے کہ ایک دوسرے کی گرمی محسوس نہ ہوسکے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ الا یہ کہ انزال ہوجائے تو قضاء لازم ہوگی کفارہ نہیں۔
يشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين بلا حائل يمنع الحرارة (ردالمحتار 3/414، مطلب فی حیلۃ اسقاط عدۃ المحلل) ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال (الھندیۃ 1/473 فصل فیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ)، (البحرالرائق 4/62)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1540/43-1040
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے بعدنام تبدیل کرنے سے نکاح پر کوئی فرق نہیں آئے گا، نکاح بدستور باقی ہے اس لئے کہ منکوحہ عورت تو ایک ہی ہے اسی کو تنزیلہ اور اسی کو عائشہ کہاجائے گا۔
قوله: أي فإنها لو كانت مشاراً إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر؛ لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال: اقتديت بزيد هذا، فإذا هو عمرو، فإنه يصح (شامی 3/26)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1627/43-1204
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے پاس جو کچھ آپ کی ملکیت میں ہے آپ اس میں خود مختار ہیں جس کو جتنا دیناچاہیں دے سکتے ہیں؛ شرعی طور پر آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے بیٹے ضرورتمند ہیں، اور آپ صاحب حیثیت ہیں ، توآپ ان کی مدد کرسکتے ہیں، کسی بیٹے کو زیادہ ضرورت ہے تو زیادہ دے سکتے ہیں، کسی کو ضرورت نہیں ہے تو بالکل نہ دیں اس کی بھی اجازت ہے۔ اس سلسلہ میں آپ بیٹیوں سے اجازت لینے کے بھی مکلف نہیں ہیں، ہاں اگر سب کے مشورے سے ہوتو اس میں کسی کو شکوہ و شکایت نہیں رہتی ہے۔ البتہ اگر بیٹیاں بھی ضرورتمند ہیں تو ان کو فراموش کرنا بہتر نہیں ہے۔ والد کو اپنے اولاد میں انصاف کرنے کو ترجیح دینا چاہئے الا یہ کہ کوئی خاص وجہ ہو۔ نیز وراثت سے محروم کرنے کا ارادہ نہ ہو ورنہ گناہ گارہ ہوں گے۔
قال فی الہندیة: لو وہب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (لہندیة 4/391 کتاب الہبة، الباب السادس) وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2019/44-1979
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سونے اور چاندی میں بیع سلم جائز نہیں ہے۔ بیع سلم میں ثمن پیشگی دی جاتی ہے اور مبیع ادھار ہوتی ہے ، سونے اور چاندی میں مبیع بننے کی صلاحیت نہیں ہے وہ ہر حال میں ثمن ہی ہوں گے۔ نیز سونے اور چاندی کو مبیع قرار دینے میں قلب موضوع لازم آتاہے۔
قال: "وهو جائز في المكيلات والموزونات" لقوله عليه الصلاة والسلام: "من أسلم منكم فليسلم في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم" والمراد بالموزونات غير الدراهم والدنانير لأنهما أثمان، والمسلم فيه لا بد أن يكون مثمنا فلا يصح السلم فيهما ثم قيل يكون باطلا، وقيل ينعقد بيعا بثمن مؤجل تحصيلا لمقصود المتعاقدين بحسب الإمكان، والعبرة في العقود للمعاني والأول أصح لأن التصحيح إنما يجب في محل أوجبا العقد فيه ولا يمكن ذلك. (الھدایۃ، باب السلم 3/70)
خرج بقوله (مثمن) الدراهم والدنانير لأنها أثمان فلم يجز فيها السلم خلافا لمالك: (قوله فلم يجز فيها السلم) لكن إذا كان رأس المال دراهم أو دنانير أيضا كان العقد باطلا اتفاقا، وإن كان غيرها كثوب في عشرة دراهم لا يصح سلما اتفاقا، وهل ينعقد بيعا في الثوب بثمن مؤجل؟ قال أبو بكر الأعمش: ينعقد وعيسى بن أبان لا وهو الأصح نهر وهذا صححه في الهداية ورجح في الفتح الأول وأقره في البحر واعترضه في النهر بما هو ساقط جدا كما أوضحته فيما علقته على البحر. (شامی، باب السلم 5/210)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2295/44-3446
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی کوئی حدیث ہماری نظر سے نہیں گزری۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No 2453/45-3724
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معنی میں ایسا تغیر ہوا ہے جو فاحش ہے اس لئے نماز درست نہیں ہوئی، لہذا نماز کا اعادہ کیاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کتاب فردوس سے جن الفاظ سے آپ نے حدیث نقل کی ہے، وہ کتب صحاح ستہ میں نہیں ہے؛ البتہ دیگر احادیث موجود ہیں، جن سے علماء کی عزت اور ان کے احترام کرنے کا حکم ملتا ہے۔ بخاری شریف میں ہے ’’إن علماء ہم ورثۃ الأنبیاء، ورّثوا العلم من أخذہ أخذ بحظ وافر‘‘(۱) قرآن کریم میں ہے: {إنما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء، وما یعقلہا الالعالمون، وقال ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون، من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین، وأما العلم بالتعلیم} دین ومذہب اور احکامِ شریعت سے واقف کردینے والے علماء حق ہی ہیں، اگر ان کا اتباع نہ کیا جائے، تو ضلالت وگمراہی پھیل جائے۔(۱)
(۱) عن قیس بن کثیر عن أبي الدرداء رضي اللّٰہ عنہ، أن الني صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، قال: من سلک طریقاً یطلب فیہ علماً سہل اللّٰہ لہ طریقاً إلی الجنۃ، وأن الملائکۃ لتضع أجنحتہا رضي لطالب العلم، وأن العالم لیستغفر لہ من في السموٰت ومن في الأرض، حتی الحیتان في الماء۔ وفضل العالم علی العابد کفضل القمر لیلۃ البدر علی سائر الکواکب، وأن العلماء ورثۃ الأنبیاء، وأن الأنبیاء، علیہم السلام، لم یورثوا دیناراً ولا درہما، وإنما ورثوا العلم فمن أخذہ أخذ بحظ وافر۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاری، ’’باب العلم قبل القول والعمل لقولہ تعالیٰ {فَاعْلَمْ أَنَّہٗ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ} (سورۃ المحمد: ۱۹) فبدأ بالعلم‘‘: ج ۲، ص: ۳۹، رقم: ۶۷)
وإنما ورثوا العلم): لإظہار الإسلام ونشر الأحکام أو بأحوال الظاہر والباطن علی تباین أجناسہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۶، رقم: ۲۱۲)
قال ابن حجر: والفقہ ہو الفہم قال اللّٰہ تعالیٰ: لا یکادون یفقہون حدیثا، أي: لا یفہمون والمراد الفہم في الأحکام الشرعیۃ قولہ: وإنما العلم بالتعلم ہو حدیث مرفوعٌ، أیضاً: أوردہ بن أبي عاصم والطبراني من حدیث معاویۃٌ أیضاً: بلفظ یا أیہا الناس: تعلموا إنما العلم بالتعلم والفقہ بالتفقہ ومن یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین إسنادہ حسنٌ۔ (ابن حجر، فتح الباري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب العلم: قولہ باب العلم قبل القول والعمل‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۱، رقم: ۶۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص130
متفرقات
Ref. No. 2620/45-3988
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمارا عرف یہی ہے کہ بچہ کا ایک ہی نام رکھاجاتاہے، لیکن بچہ کا ایک سے زائد نام رکھنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، تاہم دستاویز کے اعتبار سے ایک ہی نام رکھنا ضروری ہوگا، اس لئے اگر دستاویز میں ایک نام تجویز کردیاگیاہے اور پھر لوگوں کی آسانی کے لئے یا پکارنے کےلئے کوئی دوسرا نام تجویز کرلیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔واضح رہے کہ نکاح اور دیگر شرعی اور قانونی مسائل میں اس کا وہی نام معتبر ہوگا جو دستاویزات میں تجویز کیا گیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2674/45-4133
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس عورت کو خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق ہوجائے اس پر عدت نہیں ہوتی ہے۔ بہرحال بارہ سال کا لڑکا مراہق ہے، اس لئے اس کا نکاح اور وطی کرنا درست ہے اور اس سے وہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی؛ حلالہ میں دخول شرط ہے انزال شرط نہیں ہے، اس لئے قریب البلوغ بچہ کا جماع کرنا بھی معتبر ہوگا۔ البتہ یہاں ایک مسئلہ جان لینا چاہئے کہ نابالغ مراہق طلاق دینے کا اہل نہیں ہے اس لئے اس کی طلاق معتبر نہیں ہے، اس کی طلاق بلوغ کے بعد ہی قابل نفاذ ہوگی۔اس لئے ابھی جو طلاق ہوئی اور پہلے شوہر سے نکاح کردیاگیا یہ درست نہیں ہوا۔
ولو مراھقا) ھو الدانی من البلوغ نھر ولا بد ان یطلقھا بعد البلوغ لان طلاقہ غیر واقع در منتقی عن التتارخانیة (قولہ: یجامع مثلہ) تفسیر للمراھق ذکرہ فی الجامع، وقیل ھو الذی تتحرک آلتہ ویشتھی النساء کذا فی الفتح، والأولی ان یکون حرا بالغا: فان الانزال شرط عند مالک کما فی الخلاصة۔ملخصًا (رد المحتار علی الدر المختار،٤١٠/٣)
"(وكره) النكاح كراهة تحريم (بشرط التحليل) بأن يقول: تزوجتك على أن أحللك أو تقول هي، وعلى هذا حمل ما صححه الترمذي: (لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل والمحلل له) قيد باشتراط؛ لأنهما لو نوياه فقط لم يكره، بل يكون الرجل مأجورًا لقصده الإصلاح، وإن وصلية حلت (للأول)". النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 423)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند