احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1089/42-282

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آدمی اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک ہے، اور خودمختار ہے۔ وراثت کی تقسیم مرنے کے بعد ہوتی ہے، تاہم اگر کوئی اپنی زندگی میں قرآنی اصول وراثت کے مطابق تقسیم کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے ، البتہ بہتر یہی ہے کہ سب میں برابر برابر تقسیم کرے۔ نیز اگر کوئی بیٹا یا بیٹی زیادہ ضرورتمند ہو تو اس کو زیادہ بھی دے سکتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1445/42-905

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داڑھی منڈوانا یا کٹواکر ایک مشت سے کم رکھنا گناہ ہے،ایسا شخص فاسق ہے، اس کو امام بنانا مکروہِ  تحریمی ہے، اگرتوبہ کرلے تو  پھر جب تک داڑھی ایک مشت نہ ہو جائے اس وقت وہ شخص امامت کا اہل نہیں ہے۔

"و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما فعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد، و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم". (٢/ ٤١٨، ط: سعيد( و أیضاً: "صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة". و في الشامية: "(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع".(شامی 1/562)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1923/44-1876

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آیات قرآنیہ اور اسمائے الہیہ کا ذکر بطور استعانت اور نبی علیہ السلام کے اسماء کا ذکر بطور  تبرک کے جائز ہے۔ اس لئے جھاڑ پھونک میں برکت کے لئے نبی علیہ السلام کا نام لینا درست ہے، البتہ آپﷺ کا ذکر بطور استعانت جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند  


 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کے لئے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’آب حیات‘‘ اور حضرت مولانا محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’انبیاء کی حیات‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔(۱) نیز حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی متعدد تصانیف میں یہ مسئلہ موجودہے جمال قاسمی میں بھی ایک مکتوب میں نہایت واضح طور پر مثال دے کر ادلۂ نقلیہ اور عقلیہ سے اس کو ثابت کیا ہے۔

(۱) حضرۃ الرسالۃ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حي في قبرہ الشریف وحیوتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دنیویۃ من غیر تکلیف وہي مختصۃ بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبجمیع الأنبیاء صلوات اللّٰہ علیہم۔ (خلیل احمد سہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۱۳){وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا ط بَلْ أَحْیَآئٌ عِنْدَرَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ ہلا۱۶۹} (سورۃ آل عمران: ۱۶۹)
فذہب جماعۃ من العلماء إلی أن ہذہ الحیوۃ مختص بالشہداء، والحق عندي عدم اختصاصہا بہم بل حیوۃ الأنبیاء أقوی منہم وأشد ظہورا آثارہا في الخارج حتی لا یجوز النکاح بأزواج النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- بعد وفاتہ بخلاف الشہید۔ (محمد ثناء اللّٰہ، تفسیر مظہري، ’’سورۃ بقرۃ: ۱۵۴‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۰)
عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من صلی علي عند قبري سمعتہ، ومن صلی علي نائیا أبلغتہ۔ (أبوبکر البیہقي، ’’شعب الإیمان، الخامس عشر: باب في تعلیم النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- وإجلالہ وتوقیرہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸، رقم: ۱۵۸۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص 203
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ کی ہمت افزائی کے طور پر ایسا کیا جائے تو مباح ہے، ممنوع نہیں؛ لیکن اس کو رسم بنانا درست نہیں۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص531

حج و عمرہ

Ref. No. 2533/45-3904

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ؛ بعض حضرات منیٰ کو داخل مکہ مانتے ہیں اور نعض خارج مکہ۔ میرا رحجان یہ ہے کہ منی اب مکہ مکرمہ کا حصہ ہے، لہذا مقیم اور مسافر ہونے میں  مکہ بشمول منی میں قیام کی نیت معتبر ہوگی۔

وقال اکثر اہل العلم منھم عطاء والزھری والثوری لکوفیون وابوحنیفۃ واصحابہ والشافعی واحمد ابوثور لایقصر الصلوۃ اہل مکۃ بمنی وعرفات اذا کانوا حجاجا اتموا۔ (عمدۃ القاری 7/119)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تھا، یہ آپ سے کس نے کہہ دیا، یا آپ نے کہاں دیکھ لیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تھا، یہ غلط ہے۔(۱) (۱) حیاۃ الحیوان میں لکھا ہے کہ: جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے، تو لوگ …حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ہمارے علم کے مطابق آپ سے زیادہ کوئی خلافت کا مستحق نہیں ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انکار کیا، لیکن جب لوگوں کا اصرار ہوا، تو انہوں نے کہا کہ میں گھر میں خفیہ بیعت نہیں کر سکتا؛ چنانچہ لوگ مسجد میں جمع ہو گئے اور تمام مہاجرین وانصار آپ کی بیعت پر متفق ہو گئے۔ (حیاۃ الحیوان اردو: ج ۱، ص: ۲۰۱؛ تاریخ الخلفاء اردو: ص: ۲۱۹) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص241

متفرقات

Ref. No. 2636/45-4000

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شاید آپ کے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے، بیت الخلاء میں قبلہ کی جانب پیٹھ کرنا خلاف  ادب اور ناجائزہے۔  حدیثِ پاک میں نبی کریم ﷺنے قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی جانب پشت کرنے اور رخ کرنے سے منع فرمایاہے۔  چنانچہ مشکاۃ  شریف میں ہے :

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  جب تم بیت الخلا جاؤ تو  قبلہ کی طرف  نہ منہ کرو اور نہ پشت، بلکہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت رکھو‘‘۔مطلقا قبلہ کی طرف پیٹھ کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہاتھی کی سونڈ سے نکلنے والا پانی در حقیقت اس کا لعاب ہوتا ہے، دیگر درندوں کے لعاب کی طرح ہاتھی کا لعاب اور اس کا جھوٹا بھی ناپاک ہے؛ اس لئے ہاتھی کی سونڈ سے نکلنے والا پانی بھی ناپاک ہے اگر کسی کے کپڑے پر لگ جائے، تو اس کا کپڑا ناپاک ہوگا اور اس کا دھونا ضروری ہے۔
’’لعاب الفیل نجس کلعاب الفہد والأسد إذا أصاب الثوب بخرطومہ ینجسہ‘‘(۱)
’’وسور خنزیر وکلب وسباع بہائم ومنہ الہرۃ البریۃ وقال: ابن عابدین ہي ماکان یصطاد بنا بہ کالأسد والذئب والفہد والنمر والثعلب والفیل‘‘(۲)
’’وعرق کل شیء معتبر بسؤرہ‘‘(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ والنوع الثاني: المخففۃ ومما یتصل بذلک مسائل‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳؛ وفتاویٰ قاضي خان، ’’ ‘‘: ج ۷، ص: ۱۵۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ مطلب في السؤر‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۲۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث في المیاہ الفصل الثاني: فیما لا یجوز بہ الوضوء ومما یتصل بذلک مسائل‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص50

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو کرنے بعد تولیہ کا استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اس سے ہاتھ اور چہرہ کا پونچھنا درست ہے : و لابأس بأن یمسح بالمندیل۔(۱)
 وضو کے بعد اعضاء پر جو پانی رہ جاتا ہے، وہ پانی ناپاک نہیں ہے، اس کے ساتھ مصلے پر
 جانا بلا شبہ جائز ہے؛ اس لیے کہ وہ ماء مستعمل یا نجس نہیں ہے  ما یصیب مندیل المتوضي وثیابہ عفوا اتفاقا و إن کثر وھو طاہر۔(۲)

(۱) زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق کنز الدقائق، ’’سنن الوضوء،‘‘  ج۱،ص:۵۵
(۲)ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ،باب المیاہ،‘‘ ج۱، ص:۳۵۲

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص161