Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :کھال تو دباغت سے پاک ہو جاتی ہے اور موزے پاک چمڑے کے ہی بنائے جاتے ہیں اس لیے اس میں شبہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)
(۲) کل إھاب دبغ فقد طھر، و جازت الصلوٰۃ فیہ والوضوء منہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر،’’کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي مایجوز بہ الوضو مالا یجوز،‘‘ ج۱، ص:۹۶)؛ ومنھا الدباغ للجلود النجسۃ، فالدباغ تطھیر للجلود کلھا إلا جلد الإنسان والخنزیر؛ الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في بیان مقدار ما یصیر بہ المحل نجسا، الدباغۃ،‘‘ ج۱، ص:۲۴۳مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص264
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی خواہش کرنا کہ ہمارا انتظار کیا جائے خواہ جماعت میں تاخیر ہوجائے درست نہیں ہے اس سے دوسرے حاضرین کو تکلیف ہوگی اور وقت کی پابندی کا اہتمام لوگوں کے دلوں سے نکل جائے گا۔(۱)
(۱) ورئیس المحلۃ لا ینتظر ما لم یکن شریراً والوقت متسع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب ہل باشر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الأذان بنفسہ؟‘‘: ج ۲، ص:۷۱)
ولا ینتظر رئیس المحلۃ وکبیرہا، کذا في معراج الدرایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني من کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴، زکریا دیوبند)
ولا ینتظر رئیس المحلۃ لأن فیہ ریاء وإیذاء لغیرہ۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۳۲۶، دار الکتاب دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص344
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حالت قیام سے رکوع میں آتے وقت، رکوع میں جاتے جاتے تکبیر مکمل ہونی چاہئے۔ اسی طرح ہر رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوتے ہوئے تکبیرات کہی جائیں، سجدے میں جاتے ہوئے بھی سجدہ میں سر رکھنے پر تکبیر پوری ہو جانی چاہئے لیکن اگر پیشانی ٹکنے پر آواز مکمل ہوئی، تو بھی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔(۱)
(۱) ولو ترک التسمیع حتی استوی قائماً لا یأتی بہ کما لو لم یکبر حالۃ الانحطاط حتی رکع أو سجد ترکہ ویجب أن یحفظ ہذا ویراعی کل شيء في محلہ وہو صریح في أن القومۃ لیس فیہا ذکر مسنون۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص382
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر تہجد میں اٹھنے کا عزم ہو اور آنکھ کھل جاتی ہو یا تہجد پڑھنے کی عادت ہو، تو وتر بھی تہجد ہی کے وقت میں اور وہ نفل بھی اسی وقت پڑھنے چاہئیں۔(۲)
(۲) عن أبي سلمۃ، قال: سألت عائشۃ، عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقالت: کان یصلي ثلاث عشرۃ رکعۃ؛ یصلی ثمان رکعات، ثم یوتر، ثم یصلي رکعتین وہو جالس، فإذا أراد أن یرکع قام، فرکع، ثم یصلي رکعتین بین النداء والإقامۃ من صلاۃ الصبح۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ اللیل‘‘: ج۱، ص: ۲۵۴)
عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وترا۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’باب لیجعل آخر صلاتہ وتراً‘‘:ج۱، ص۱۳۶، رقم: ۹۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص315
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: استخارہ جب چاہیں کرسکتے ہیں ایک دو روز قبل بھی درست ہے اور اس سے پہلے بھی درست ہے ؛ لیکن یہ خیال رہے کہ استخارہ ایک امر مباح ہے، کریں تو بہتر ہے نہ کریں تو بھی گناہ نہیں ہے؛ لیکن اگر استخارہ کرلیا تو پھر اس کے خلاف نہیں کرنا چاہئے۔(۱)
(۱) روی ابن السني: یا أنس إذا ہممت بأمر فاستخربک فیہ سبع مرات، ثم انظر إلی الذي سبق إلی قلبک فإن الخیر فیہ، ولو تعذرت علیہ الصلاۃ استخار بالدعاء …… والمسموع من المشائخ أنہ ینبغي أن ینام علی طہارۃ مستقبل القبلۃ بعد قراء ۃ الدعاء المذکور، فإن رأی في منامہ بیاضاً او خضرۃ فذلک الأمر خیر، وإن رأی فیہ سواداً او حمرۃ فہو شر ینبغي أن یجتنب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في رکعتي الاستخارۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۰، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص424
نماز / جمعہ و عیدین
راجع الی فتوی رقم 943
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 38 / 1182
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی ہر اس شخص پر واجب ہے جو قربانی کے دنوں میں نصاب کا مالک ہو۔ آج کے حساب سے 612 گرام چاندی یا اس کی قیمت موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hadith & Sunnah
Ref. No. 39/1104
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
It is allowable for you to do so but you must be very honest.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 992/41-157
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد شرعی تحت الثری سے آسمان کی فضا تک مسجد کے حکم میں ہوتی ہے۔ وحاصلہ ان شرط کونہ مسجد ا ان یکون سفلہ وعلوہ مسجدا ینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی وان المساجد للہ ۔ (شامی)
سوال میں مذکور دونوں صورتوں میں بنائی گئی عمارت مسجد شرعی کے حکم میں نہیں ہے، بلکہ مصلی یا جماعت خانہ کہلائے گا۔
ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پورے حصہ کو یا کچھ حصہ کو مکمل طور پر مسجد بنادیا جائے اور پھر حسب ضرورت وہاں مسجد ہی میں دینی تعلیم بھی ہوجایا کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1098/42-292
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سیف اللہ کی پہلی بیوی اگر اپنے میکہ رہتی ہے یا شوہر کے گھر کو چھوڑ کر کہیں بھی رہتی ہے تو از روئے شرع سیف اللہ پر اس کا نان و نفقہ لازم نہیں ہوگا۔ شوہر کے پاس رہے گی تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اس کے مکمل خرچہ کا بار اٹھائے۔ تاہم اگر تبرعا وہ خرچ برداشت کرے تو بہتر ہے اور باعث اجروثواب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند