Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 2167/44-2273
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پیشاب کرنے کے بعد ٹشو پیپر عضو کے منھ پر رکھ کر کھڑے ہوجائیں، یا کھنکھار کریں تاکہ نالی میں پیشاب جو کچھ باقی ہے وہ باہر آجائے، اسی طرح پیشاب کی نالی کو دباکر آگے کی طرف لائیں ، اس طرح بھی قطرات باہر آجاتے ہیں۔عضو کے منھ پر ٹشو پیپر لپیٹ کر کچھ دیر کے بعد ہٹادیں ۔ جب یہ کام کرلیں تو اب اس کی طرف بالکل دھیان نہ دیں، بار بار اس کی طرف دھیان کرنے سے وسوسہ کا مرض پیداہوتاہے۔ اس لئے اس کا فوری علاج یہ ہے کہ طریقہ مذکورہ پر عمل کریں اور کپڑے پر چھینٹا مارلیں تاکہ پیشاب کے وسوسہ سے بچ سکیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنت میں حوریں ملیں گی ان کی سردار وہ بیوی ہوگی جو دنیا میں رہی نیز وہاں پر خواہشات نفسانی جس طرح دنیا میں ہوتی ہیں اس طرح نہیں ہوں گی، سوکن کے خلاف جو جذبہ ہوتا ہے وہ بھی نہ رہے گا شوہر بیوی ایک ساتھ رہیں گے بس اصولی طور پر یہ بات یاد رکھیں کہ جنت میں ہر خواہش پوری ہوگی اور جنت کے احوال کو دنیا پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ (۱)
(۱) {وَزَوَّجْنٰھُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍہ۲۰}(۱) ہم نے ان کا نکاح بڑی بڑی آنکھوں والی سے کردیا ہیں۔
(۲) {إِنَّ أَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْیَوْمَ فِيْ شُغُلٍ فٰکِھُوْنَہج ۵۵}(۲) جنتی لوگ آج کے دن اپنے مشغلوں میں ہشاش بشاش ہوں گے۔
(۳) {أُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ تُحْبَرُوْنَہ۷۰}(۳) تم اور تمہاری بیویاں جنت میں داخل ہو جاؤ۔
(۴) ’’وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أدنیٰ أہل الجنۃ الذي لہ ثمانون ألف خادم وإثنتان وسبعون زوجۃ‘‘(۴)
(۵) ’’وقال لعائشۃ فأنت زوجتي في الدنیا والآخرۃ‘‘۔
(۶) ’’و ما في الجنۃ أعزب‘‘۔
(۱) عن أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا، قلت: یا رسول اللّٰہ وبما ذاک؟ قال:…’’بصلاتہن وصیامہن وعبادتہن اللّٰہ ألبس اللّٰہ وجوہہن النور وأجسادہن الحریر بیض الألوان خضر الثیاب صفراء الحلی مجامرہن الدر وأمشاطہن الذہب یقلن: ألا نحن الخالدات فلا نموت أبدا، ألا ونحن الناعمات فلا نبؤس أبدا، ألا ونحن المقیمات فلا نظعن أبدا، ألا ونحن الراضیات فلا نسخط أبدا، طوبی لمن کنا لہ وکان لنا‘‘ قلت: یا رسول اللّٰہ المرأۃ منا تتزوج زوجین والثلاثۃ والأربعۃ ثم تموت فتدخل الجنۃ ویدخلون معہا من یکون زوجہا؟ قال: ’’یا أم سلمۃ إنہا تخیر فتختار أحسنہم خلقا فتقول: أي رب إن ہذا کان أحسنہم معي خلقا في دار الدنیا فزوجنیہ یا أم سلمۃ ذہب حسن الخلق بخیر الدنیا والآخرۃ۔ (سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الکبیر: ج ۲۳، ص: ۳۶۷رقم: ۸۷۰)
(۱) سورۃ الطور: ۲۰۔ (۲) سورۃ یٰسٓ: ۵۵۔
(۳) سورۃ الزخرف: ۷۰۔ (۴) مشکوٰۃ: ج ۲، ص: ۴۹۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص298
متفرقات
Ref. No. 2363/44-3567
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بوقت شدید ضرورت، خون خرید کر اس سے مریض کا علاج کرنا جائز ہے، خون کے لئے محرم یا غیرمحرم کی کوئی قید نہیں ہے، اور محض خون دینے یا لینے کی وجہ سے محرمیت کا رشتہ قائم نہیں ہوتا ہے۔
لاتثبت المصاہرة بادخال الدم ، لأن حرمة المصاہرة تثبت بثلاثة اشیاء؛ بالنکاح الصحیح او بالزنا او بدواعیہ ۔ وادخال الدم لیس من ھذہ الثلاثة۔۔۔الخ) کتاب الفقہ علی مذاھب الاربعة : کتاب النکاح ، 58/4، دارالفکر، بیروت(
أسباب التحريم أنواع قرابة مصاهرة رضاع۔۔۔الخ )رد المحتار: (فصل في المحرمات، 28/3، ط: دار الفکر(
انتقال الدم من شخص لآخر لا يسمى رضاعا لغة ولا شرعا ولا عرفا فلهذا لا يثبت له شيء من أحكام الرضاع من نشر الحرمة وثبوت المحرمية وغيرها۔۔الخ )فتاویٰ اللجنۃ الدائمة: (146/21(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 2402/44-3629
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عید کی مبارکباد دینے اور اظہار مسرت کے لئے اسٹیٹس لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم اسے کوئی کار ثواب نہ سمجھاجائے۔
عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه، فهو ردٌّ))؛ (البخاري، کتاب الصلح 1/371، رقم 2697)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں سواری پر سوار ہوکر دیا۔(۲)
(۲) عن خالد بن العداء، قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخطب الناس…… یوم عرفۃ علی بعیر قائما في الرکابین۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب المناسک: باب الخطبۃ علی المنبر بعرفۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۵، رقم: ۱۹۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص75
اسلامی عقائد
Ref. No. 2601/45-4124
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس جانور کو حلال طریقہ پر ذبح نہ کیا گیا ہو وہ نجس اور ناپاک ہے۔ جس برتن میں اور جس تیل میں اس کو پکایاجائے گا وہ بھی ناپاک ہوجائے گا۔ اگر اسی ناپاک تیل میں پھرسبزی یا سالن پکایاگیا تو وہ بھی نجس ہوگا اس کاکھانا جائز نہیں ہوگا۔ اس لئے جس ہوٹل کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہاں مردار کا گوشت پکایاجاتاہے وہاں گوشت کے علاوہ بھی کوئی چیز کھانا درست نہیں ہے۔
قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْـزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورۃ الانعام 6/145)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2616/45-3989
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بہن اگرضرورت مند ہے، تو اس کی ضروریات اور نان ونفقہ کا خرچہ آپ پر لازم ہے، لیکن اگر بہن ضرورتمند نہیں ہے بلکہ شادی شدہ ہے اور شوہر اس کا خیال رکھتاہے تو اس کا خرچ یا اس کے بچوں کا خرچ آپ پر لازم نہیں ہے، تاہم ایسی صورت میں بھی اپنی بیوی اوربچوں کی ضروریات سے زائد مال میں سے ان پر خرچ کریں تو کارِ ثواب ہے اور برکت کا ذریعہ ہے۔
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (القرآن الکریم: سورۃ البقرة، الآیۃ: 215)
وعن سلمان بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة وصلة ". رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي. (مشکوۃ المصابیح رقم الحدیث: 1939)
لا يقضي بنفقة أحد من ذوي الأرحام إذا كان غنيا أما الكبار الأصحاء فلا يقضي لهم بنفقتهم على غيرهم، وإن كانوا فقراء، وتجب نفقة الإناث الكبار من ذوي الأرحام، وإن كن صحيحات البدن إذا كان بهن حاجة إلى النفقة كذا في الذخيرة. (الھندیۃ (566/1)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2723/45-4241
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں بیویوں کو ایک گھر میں رکھنا شرعا درست ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، تاہم سونے میں دونوں کو الگ رکھیں ، ایک کی موجودگی میں دوسری سے صحبت کرنا بےحیائی کی بات ہوگی ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یورینل (Urinal) بطورِ خاص مریضوں کے پیشاب کرنے کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ اس کی ضرورت تب ہی پیش آتی ہے جب مریض اُٹھ کر باتھ روم تک جانے کی قوت وطاقت نہ رکھتا ہو۔ یقینا ایسی صورت میں مریض باتھ روم جانے کا مکلف نہیں ہے؛ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنے ہی کام کا مکلف ٹھہرایا ہے جتنا کہ اس میں استطاعت موجود ہے جیساکہ قرآن میں ہے:
{لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا} (۱)
’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا‘‘
ایک اورآیت میں ہے کہ {فَاتَّقُوْا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} (۲)
’’پس جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو‘‘
اور امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے ’’وإذا أمرتکم بأمر فأتوا منہ ما استطعتم‘‘(۳)
’’جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل کرلیا کرو‘‘
حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی حالت میں چار پائی پر ایک لکڑی سے بنے برتن میں ہی پیشاب کرلیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اس حدیث میں ہے: ’’کان للنبي قدح من عیدان تحت سریرہ یبول فیہ باللیل‘‘(۴)
اس حدیث کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں کہ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت مرض میں ایسا کیا کرتے تھے‘‘(۵)
مذکورہ آیات اور احادیث سے معلوم ہوا کہ مریض کے لیے یورینل کا استعمال مباح وجائز ہے؛ البتہ ہوش مند مریض کے لیے پیشاب کے بعد استنجا کرنا ضروری ہے۔ اگرپانی سے استنجا ممکن نہ ہو، تو مٹی کے ڈھیلے استعمال کرے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو، تو ٹشو پیپر سے ہی استنجا کرلے۔
(۱) سورۃ البقرۃ: ۲۸۶۔ (۲) سورۃ التغابن: ۱۶۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۸۲، رقم: ۷۲۸۸۔
(۴) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الرجل یبول باللیل في الإناء‘‘: ج ۱، ص:۵ رقم: ۲۴۔(مکتبۃ نعیمیہ دیوبند)
(۵) شمس الحق عظیم آباد، عون المعبود شرح أبوداود: ج ۱، ص: ۲۸۔(القاھرۃ: القدس للنشر والتوزیع، مصر)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص419
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر دھوکہ سے کوئی شخص نمازی کے بالکل ہی آگے پہونچ جائے اور آگے پہونچ کر پھر خبر لگے کہ نمازی نماز پڑھ رہا ہے، تو اس کو چاہئے کہ پیچھے کی طرف لوٹ جائے کہ یہ ہی بہتر ہے اور اگر دوسری جانب کو چلا گیاتواب واپس نہ لوٹے۔(۲)
(۲) وقد أفاد بعض الفقہاء أن ہنا صوراً أربعاً، الأولیٰ: أن یکون للمار مندوحۃ عن المرور بین یدي المصلي ولم یتعرض المصلي لذلک فیختص المار بالإثم دون المار، والثانیۃ: مقابلتہا، وہو أن یکون المصلي تعرض للمرور والمار لیس لہ مندوحۃ عن المرور فیختص المصلي بالإثم دون المار، الثالثۃ: أن یتعرض المصلي للمرور ویکون للمار مندوحۃ فیأثمان أما المصلي فلتعرضہ وأما المار فلمرورہ مع أمکان أن لایفعل، الأربعۃ: أن لایتعرض المصلي ولا یکون للمار مندوحۃ فلا یأثم واحد منہما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۳۹۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص453