نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اذان کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرنا درست ہے، بشرطیکہ نمازیوں کو نماز کی اطلاع کرنا مقصد نہ ہو اور عام لوگوں کو نماز کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اذان کے بعد حمد، نعت پڑھنا اور الصلوۃ خیر من النوم کہنا عربی یا اردو میں کوئی دوسرا جملہ کہنا اور اس کو ثواب سمجھنا بدعت ہے صرف ایسے لوگوں کے لیے اجازت ہے جو عامۃ المسلمین کے کاموں میں ہر وقت مشغول رہتے ہوں تاکہ ترک جماعت نہ ہو جیسے قاضی مفتی وغیرہ۔(۱)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ،’’کتاب الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج۲، ص: ۷۷ رقم ۱۷۱۸، اعزازیہ دیوبند)
کما یستفاد أن علیا رأی مؤذناً یثوب في العشاء فقال: أخرجوا ہذا المبتدع من المسجد۔ (المبسوط للسرخسي، ’’کتاب الأذان، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص223

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: علمائے احناف کے نزدیک مطلقاً قرأت کرنا فرض ہے اگر کسی شخص سورہ فاتحہ پڑھی اور قرأت کرنا یعنی کوئی سورت پڑھنا بھول گیا، اخیر رکعت میں ایک سلام کے بعد سجدہ سہو کر لیا یا اس نے ثناء پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ کے بجائے بھول سے قرأت (کوئی سورت یا آیات کریمہ پڑھ لی) کر لی اور اخیر رکعت میں سجدہ سہو کر لیا تو دونوں صورتوں میں نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ اگر جان بوجھ کر کسی نے سورہ فاتحہ یا سورت نہ ملائی تو نماز نہیں ہوگی اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے، امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے: ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ سورہ فاتحہ اور سورتوں میں جو بھی یاد ہو اس کو پڑھ لیا کریں۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أمرنا نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۱)
نیز فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورت کو ملایا جائے گا باقی رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ
پڑھی جائے گی جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت پڑھتے، پہلی میں طویل قرأت کرتے اور دوسری میں مختصر اور کسی آیت کو قصداً سنا بھی دیتے اور نماز عصر میں سورۂ  فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے اور پہلی رکعت میں قرأت طویل فرماتے اور نماز فجر کی پہلی رکعت میں بھی قرأت فرماتے اور دوسری میں مختصر پڑھتے۔
’’کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في الرکعتین الأولیین من صلاۃ الظہر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، یطول في الأولٰی، ویقصر في الثانیۃ، ویسمع الآیۃ أحیانا، وکان یقرأ في العصر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، وکان یطول في الأولٰی، وکان یطول في الرکعۃ الأولٰی من صلاۃ الصبح، ویقصر في الثانیۃ‘‘(۱)
وفي الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:
’’ضم سورۃ إلی الفاتحۃ في جمیع رکعات النفل والوتر والأولیین من الفرض ویکفی في أداء الواجب أقصر سورۃ أو ما یماثلہا کثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ والأیات القصار الثلاث‘‘(۲)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ‘ ’’کتاب الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ بفاتحۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۶ ، رقم:۸۱۸۔
(۱) أخرجہ البخاري، فی صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب القراء ۃ في الظہر‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، رقم: ۷۵۹۔
(۲) عبد الرحمن الجزیري، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’واجبات الصلاۃ (في حاشیۃ)‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۹۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص367

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2810/45-4386

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی عورت کو حیض آتاہے ، چاہے وہ چھ ماہ بعد آئے یا ایک سال بعد آئے وہ عورت ذوات الحیض میں سے ہے، اس کی عدت حیض سے ہی شمار ہوگی۔ یعنی اس کی عدت  مکمل تین ماہورایاں  گزرنے کے بعد ہی پوری ہوگی،اس صورت میں اس لڑکی کو چاہیے کہ کسی ماہر ڈاکٹر کے مشورہ سے بذریعہ علاج معالجہ یا جلدی ماہواری جاری کرنےکی دوا وغیرہ کھا کر مزید دو ماہوریاں گزار کراپنی عدت مکمل کرلے۔ مکمل عدت گزرنے کے بعد ہی اس کی دوسری جگہ شادی ہوسکتی ہے۔ 

"التي حاضت ثم امتد طهرها لا تعتد بالأشهر إلا إذا بلغت سن الإياس. وعن مالك انقضاؤها بحول وقيل بتسعة أشهر ستة لاستبراء الرحم (وثلاثة أشهر) للعدة ولو قضى به قاض نفذ.قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة خصوصًا الإمام والدي/ وفي (البزازية) والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة." (النہر الفائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:2، ص:476، ط:دار الکتب العلمیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اتفاقی طور پر کچھ لوگ جمع ہوکر صلاۃ الستبیح ادا کرلیں، تو شرعاً گنجائش ہے؛ لیکن اس نماز کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع کرنا اور نماز پڑھانا بدعت ہے جس کی اصل خیر القرون میں نہیں ملتی۔(۱)

(۱) ولا یصلی الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أی یکرہ ذلک علی سبیل التداعي بأن یقتدی أربعۃ بواحد کما في الدرر ولا خلاف في صحۃ الاقتداء۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰، زکریا دیوبند)
ومثل ذلک یقال في صلاۃ التطوع جماعۃ اذا کان علی غیر وجہ التداعي یحرر۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقي، ’’فصل في صلاۃ التراویح‘‘: ص: ۴۱۲، اشرفیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص411

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No.2843/45-4481

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دلال اگرکسی کا کوئی کام کراتا ہے اور اس کام پر معاوضہ طے کرلیتا ہے تو اس پر وہ طے شدہ معاوضہ  لے سکتا ہے جس کو دلالی کی اجرت کہاجاتاہے،  بشرطیکہ کام جائز ہو اور دلال کی جانب سے محنت و عمل بھی پایا جائے۔اس لئے دلالی کی اجرت جائز ہے،  البتہ اگر دلال جھوٹ اور مکروفریب سے کام لیتاہے تو اس کا وبال اس پر ہوگا اور وہ ان ناجائز امور کا مرتکب ہونے کی بناء پر گنہگار ہوگا۔  سوال میں مذکور باتیں اگر درست ہیں اور مبنی بر  حقیقت ہیں تو ایسا شخص فاسق ہےاور اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، ‌وما ‌تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."(رد المحتار كتاب الاجارة، ج:6، ص:63، ط:سعيد)

"كره إمامة "الفاسق" العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة وإذا تعذر منعه ينتقل عنه إلى غير مسجده للجمعة وغيرها وإن لم يقم الجمعة إلا هو تصلى معه"۔ (حاشیۃالطحطاوی، کتاب الصلاۃ، فصل فی بیان الأحق بالإمامة، ص:303، 304، ط:دار الکتب العلمیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Miscellaneous

Ref. No. 37 / 1039

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is hereunder:

In the above mentioned case it is allowable for you to use the nickname given by the company temporarily and your Iman isn’t in danger. So don’t worry about it.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/1065

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   مذکورہ مسئلہ کو مقامی اہم علماء کے سامنے واضح طور پرپیش کیاجائے گا۔

۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 880/41/04B

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں نکاح درست نہیں ہوا، جس مجلس میں سابقہ شوہر کو تحریر ملی ، اگر اس مجلس میں دو گواہوں کی موجودگی میں سابق شوہر نے کہا کہ میں اس عورت کو اپنے نکاح میں قبول کررہا ہوں تو نکاح درست ہوگا ورنہ نہیں۔

ولاینعقد نکاح المسلمین الا بحضور شاھدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین او رجل وامراتین۔ (ھدایہ ج2 ص286)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1083/41-255

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  مدت اجارہ میں جو تنخواہ  ملازم کو دی جارہی ہے اس سے زائد کے مطالبہ  کا وہ شرعا  مستحق نہیں ہے، البتہ  اضافہ کی درخواست  کرنے میں حرج  بھی  نہیں ہے۔ تاہم  اجارہ کی مدت پورا ہونے کے بعد  اگلے دورانیہ کے لئے تنخواہ میں  اضافہ کا مطالبہ کرنا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1304/42-661

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو لاکھ روپئے کی زکوۃ پانچ ہزار روپئے ہوتے ہیں (زکوۃ ڈھائی  فی صدواجب ہوتی ہے)۔ عورت کے زیورات کی زکوۃ   کی ادائیگی خودعورت پر لازم ہے، تاہم اگر اس کا شوہر ادا کردے توبھی ادائیگی درست  ہوجائے گی ۔  اگر نقد روپئے کا نظم نہیں ہے  تو سونا یا چاندی میں سے تھوڑا سا بیچ کر زکوۃ ادا کریں۔   اور اس کی آسان صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سال پورا ہونے پر جو مقدار زکوۃ  واجب ہوئی ہے اس کو لکھ لیا جائے اور جب  کبھی سو پچاس کسی مانگنے والے یا غریب کو دے تو اس میں  زکوۃ کی نیت کرلے اور اس کو لکھ لے اس طرح سال کے پورا ہونے پر دیکھے کہ کس قدر رقم  زکوۃ  میں ادا ہوچکی ہے۔ اور جو باقی رہ جائے اس وقت ادا کردی جائے، اس طرح آسانی سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔

(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض (شامی 2/267)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند