ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے متعلق کہ عقیقہ کے جانور کی عمر کیا ہونی چاہیے؟ اگر کسی نے عقیقہ میں ایک سال سے کم عمر بکرہ ذبح کر دیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ اب کیا کرے؟

طلاق و تفریق

Ref. No. 1541/43-1050

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی کو اختیار تو اس طرح بھی  مل جائے گا اور عورت کو جب بھی  معلوم ہوگا وہ اپنے اختیار کو استعمال کرکے طلاق دے سکتی ہے۔   

قوله:  ولو قال لها: أنت طالق متى شئت أو متى ما شئت أو إذا شئت أو إذا ما شئت فلها أن تشاء في المجلس وبعد القيام عن المجلس ولو ردت لم يكن ردا ولا تطلق نفسها إلا واحدة كذا في الكافي. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی المشیئۃ، 1/406)

ولو قال لها: أنت طالق متى شئت أو متى ما شئت أو إذا شئت أو إذا ما شئت أو كلما شئت لا يقع الطلاق ما لم تشأ فإذا شاءت وقع؛ لأنه أضاف الطلاق إلى وقت مشيئتها ووقت مشيئتها هو الزمان الذي توجد فيه مشيئتها فإذا شاءت فقد وجد ذلك الزمان فيقع ولا يقتصر هذا على المجلس بخلاف قوله: إن شئت وما يجري مجراه؛ لأن هذا إضافة وذا تمليك لما نبين في موضعه.(بدائع الصنائع، فصل فی شرائط رکن الطلاق وبعضھا یرجع الی، 3/134)

(وفي) قوله أنت طالق (حيث) شئت (وأين) شئت (لا) تطلق حتى تشاء (ويتقيد بالمجلس) لأن حيث وأين من أسماء المكان والطلاق لا يتعلق بالمكان حتى إذا قال: أنت طالق في الشام تطلق الآن فيلغو ويبقى ذكر مطلق المشيئة فيقتصر على المجلس بخلاف الزمان فإن له تعلقا به حتى يقع في زمان دون زمان فوجب اعتباره خصوصا كما لو قال: أنت طالق غدا إن شئت، أو عموما كما لو قال أنت طالق في أي وقت شئت. (درر الحکام شرح غرر الاحکام، باب التفویض 1/372)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2020/44-1973

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  انجینئر کو پانچ فی صد رقم غالبا  کمیشن کے طور پر دی جاتی ہے،  اگر یہ انجینئر سرکاری ملازم نہیں ہے، بلکہ محض ایک درمیانی واسطہ ہے تو کمیشن لینا جائز ہے بشرطیکہ  پہلے سے معاملہ طے ہو۔  اور اگر انجینئر کو سرکار سے تنخواہ ملتی ہے تو پھر اس کا اپنی مفوضہ ذمہ داری کی انجام دہی پر  کمیشن لینا رشوت ہوگا اور حرام ہوگا۔

ولايجوز أخذ المال ليفعل الواجب (شامی كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج: 5، صفحہ: 362، ط: سعید)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 222/44-2367

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ شرط کے پائے جانے پر اس کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی،  اور بار بار اس شرط کو ذکر کرنے سے کئی طلاقیں واقع نہیں ہوں گی۔ لہذا اگر شرط پائی گئی اور صلح کرلی تو اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، عدت کے اندر اس سے رجعت کرلے اور اگر عدت گزرگئی ہو تو اس سے دوبارہ نکاح کرسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2294/44-3447

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں چونکہ متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہیں تو اس طرح  نیت کریں  کہ  مثلاً جتنی فجر کی نمازیں مجھ سے قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، تو اس طرح جتنے سالوں کی نمازیں ذمہ میں ہوں  گی اتنے سال کا حساب کرکے ادا کرلیں۔  ایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں،یعنی فجر کی نمازاداکرنے کے بعد فجر کی قضانماز ایک ادا کرلیں۔  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں۔ اورجو طریقہ آپ نے لکھاہے کہ ایک لسٹ بناکر جو نمازیں اداکرتے ر ہیں ان پر نشان لگاتے رہیں تو یہ بھی حساب کے لئے بہت بہتر طریقہ ہے۔

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره. (قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردے کو ایصال ثواب کرنے کی شرعاً اجازت ہے؛ لیکن کوئی وقت مقرر کرنا، یا کھانے کی قسم مقرر کرنے کی شرعی اجازت نہیں ہے، جس کام کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی کوئی شرعی اصل نہیں ہے، یہ غلط اور بے اصل ہے، اس رواج کو توڑنا ضروری اور باعث ثواب ہے، مردے کو کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا جائے، کسی مستحق کو کتابیں کپڑے وغیرہ دیدیئے جائیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلادیا جائے؛ ان سب کا ثواب مرحوم کو پہونچا دیا جائے۔(۱)

(۱) فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ کذا في البدائع، وبہذا علم أنہ لا فرق بین أن یکون المجعول لہ میتاً أو حیًا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۶)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص405

اسلامی عقائد

Ref. No. 2408/44-3648

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اللہ تعالی کے معنی ہیں: 'اللہ کی ذات بلندوبالا' ہےاس لئے اللہ تعالی کہنا درست بلکہ افضل ہے۔ لفظ 'مولی' ایک مشترک لفظ ہے جس کے متعدد معانی آتے ہیں، سیاق و سباق سے معنی کی تعیین ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے لئے لفظ 'مولی' کو 'دوست اور محبوب' کےمعنی میں استعمال فرمایاہے، اس لئے اس معنی میں اس کا استعمال درست ہے۔ اسی طرح 'مولی' کا ایک معنی 'سردار' کے ہیں، اس معنی کے اعتبار سے بھی 'مولی علی' کہنا درست ہے، تاہم آج کل یہ کلمہ ایک خاص گمراہ فرقہ کا شعار ہے اس لئے ا س کےاستعمال سے بچنا چاہئے، نیز 'مولی' کا ایک معنی 'مالک اور کارساز' کے بھی ہیں، اس معنی کے اعتبار سے اللہ تعالی کو 'مولی' کہنا جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں اس رات کی عظمت و شرافت و کرامت کی وجہ سے اس کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر ورّاق ؒ فرماتے ہیں کہ گناہوں کی وجہ سے جس آدمی کی کوئی قدر وعظمت اللہ کے یہاں نہیں ہوتی وہ شخص اس رات میں توبہ و استغفار کرکے، عبادت کرکے صاحب قدر ومنزلت ہو جاتا ہے۔ اور قدر کے دوسرے معنی تقدیر و حکم کے بھی آتے ہیں چونکہ سال بھر کے حالات ومعاملات اس رات میں لکھے جاتے ہیں اس لئے اس کو قدر کہتے ہیں۔(۱)

(۱) وقال مجاہد: سلام الملائکۃ والروح علیک تلک اللیلۃ خیر من سلام الخلق علیک ألف شہر۔ قولہ: {تنزل الملائکۃ والروح} أي: جبریل علیہ والسلام {فیہا} أي: لیلۃ القدر، قولہ: {من کل أمر} أي: تنزل من أجل کل أمر قضاہ اللّٰہ وقدرہ في تلک السنۃ إلی قابل، تم الکلام عند قولہ: {من کل أمر} ثم ابتدأ فقال: {سلام} أي: ما لیلۃ القدر إلا سلامۃ وخیر کلہا لیس فیہا شر وقال الضحاک، لا یقدر اللّٰہ في تلک اللیلۃ إلا السلامۃ کلہا، فأما اللیالي الأخر فیقضي فیہن البلاء والسلامۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ج ۱۱، ص: ۱۲۹)
فضل لیلۃ القدر ثبت في روایۃ أبي ذر قبل الباب بسلمۃ، ومعنی لیلۃ القدر: لیلۃ تقدیر الأمور وقضائہا والحکم الفضل، یقضي اللّٰہ فیہا قضاء السنۃ، وہو مصدر قولہم: قدر اللّٰہ الشيء قدرا وقدراً، لغتان، کالنہر والنہر، وقدرہ تقدیرا بمعنی واحد۔ وقیل: سمیت بذلک الخطرہا وشرفہا۔ وعن الزہري: ہي لیلۃ العظمۃ والشرف، من قول الناس: فلان عند الأمیر قدر، أي: جاہ ومنزلۃ۔ ویقال: قدرت فلاناً، أي: عظمتہ، قال اللّٰہ تعالیٰ: {وما قدروا اللّٰہ حق قدرہ}۔ أي: ما عظموہ حق عظمتہ۔ (العیني، عمدۃ القاري: ج ۱۱، ص: ۲۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص131

Fiqh

Ref. No. 2621/45-3987

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If the interest amount is received from the same bank from which you paid the rent amount, then it is allowable to give it to the bank, but it is not permissible to receive the interest amount from the bank and give it to a company. You are not allowed to use interest money for your cause, but you have to bear the loss expenses from your own pocket. The interest amount must be given freely to the poor without intention of getting reward.

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ. وَقَالَ : هُمْ سَوَاءٌ۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٥٩٨)

وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (شامی : ٩/٣٨٥)فقط

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:جب تک اس بات کا یقین نہ ہو کہ غیرمسلم کے ہاتھ نجس ہیں، تو رس و پانی کے ناپاک ہونے کا حکم نہ ہوگا، پس غیر مسلم سے رس خریدنا، اس کا استعمال کرنا اور ان کے ہاتھ کا بنا ہوا کولھو کا سامان خریدنا (گڑ و شکر وغیرہ) جائز اور پاک ہے، ان کے ہاتھ سے لیا گیا پانی پاک ہے، اس سے وضوء درست ہے اور نماز کی ادائے گی اس سے صحیح ہے۔(۲)

(۲)و في الھندیۃ: قال محمد: و یکرہ الأکل والشرب في أواني المشرکین قبل الغسل، و مع ھذا لو أکل أو شرب فیھا قبل الغسل جاز۔۔۔ ھذا إذا لم یعلم بنجاسۃ الأواني۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع عشر في أھل الذمۃ والأحکام التي تعود إلیھم،ج ۵، ص:۳۴۷) 

 فسؤر آدمي مطلقا ولو جنبا أو کافرا أو إمرأۃ لأن علیہ السلام أنزل بعض المشرکین في المسجد علی مافي الصحیحین۔ فالمراد بقولہ تعالیٰ: إنما المشرکین نجس(التوبہ) النجاسۃ في اعتقادھم ( ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ،باب المیاہ، مطلب في السؤر،ج۱، ص:۳۸۱) ، فأما إذا لم یتیقن نجاستہ فالأصل طھارتہ و کذلک میاھھم و ثیابھم علی الطھارۃ فقد روي أن النبي ﷺ توضأ من مزادۃ مشرکۃ و توضأ عمر من ماء في جرۃ، باب ما یجوز الصید بہ (الإمام البغوي، شرح السنۃ ، ج۱۱، ص:۲۰۰)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص429