طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نجاست حقیقیہ وہ ہے جو دیکھنے میں آتی ہے اور شریعت نے اسے ناپاک قرار دیا ہے، نجاست حقیقیہ کی دو قسمیں ہیں: (۱) نجاست غلیظہ (۲) نجاست خفیفہ:
 نجاست غلیظہ: امام صاحب کے نزدیک وہ نجاست ہے جس کے نجس ہونے پر نص وارد ہو اور اس کے خلاف کوئی نص نہ ہو اور صاحبین کے نزدیک نجاست غلیظہ وہ نجاست ہے جس کے نجس ہونے پر ائمہ کا اتفاق ہو اور اگر اختلاف ہو تو نجاست خفیفہ ہے۔ نجاست غلیظہ کی مثال جیسے پیشاب پاخانہ شراب وغیرہ، نجاست غلیظہ مقدار درہم معاف ہے۔ عالمگیری میں ہے:
’’النجاسۃ نوعان: الأول : المغلظۃ وعفی منہا قدر الدرہم … کل ما یخرج من بدن الإنسان مما یوجب خروجہ الوضوء أو الغسل فہو مغلظ کالغائط‘‘(۱)
(۲) نجاست خفیفہ: اگر کپڑے عضو یا بدن پر لگی ہو تو دیکھا جائے گا کہ اگر نجاست خفیفہ اس حصے کے چوتھائی سے کم پر ہے، تو معاف ہے اور اگر چوتھائی یا اس سے زائد پر ہے تو دھونا ضروری ہوگا۔
’’والنوع الثاني المخففۃ: وعفي منہا مادون ربع الثوب، کذا في أکثر المتون … وربع العضو المصاب کالید والرِجل إن کان بدناً وصححہ صاحب التحفۃ … وعلیہ الفتویٰ کذا في البحر الرائق‘‘(۲)
دوسری قسم نجاست حکمیہ ہے: نجاست حکمیہ اسے کہتے ہیں جو بظاہر دیکھنے میں نہ آئے؛ لیکن شریعت کا حکم ہونے کی وجہ سے ناپاک مان کر پاکی حاصل کرنا فرض ہوتا ہے اس کی بھی دو قسمیں ہیں:
(۱) حدث اکبر: جیسے منی، اس کے خروج سے غسل واجب ہوتا ہے (۲) حدث اصغر: جیسے ریح اس کے خارج ہونے سے وضو واجب ہوتا ہے۔
’’الطہارات في الإتیان بالجمع إشارۃ إلی أن الطہارۃ أنواع فإن رفع النجاسۃ طہارۃ ورفع الخبث أیضاً طہارۃ وہما نوعان مختلفان‘‘(۳)
’’وإنما صح إلحاق المائعات المزیلۃ بالماء المطلق لتطہیر النجاسۃ الحقیقیۃ لوجود شرط الإلحاق وہي تناھي أجزاء النجاسۃ بخروجہا مع الغسلات وہو منعدم في الحکمیۃ لعدم نجاسۃ محسوسۃ بأعضاء المحدث والحدث أمر شرعي لہ حکم النجاسۃ لمنع الصلاۃ معہ وعین الشارع لإزالتہ أنہ مخصوصۃ فلا یمکن إلحاق  غیرہا بہا‘‘(۱)
’’وذکر الکرخي أن النجاسۃ الغلیظۃ عند أبي حنیفۃ: ما ورد نص علی نجاستہ ولم یرد نص علی طہارتہ معارضاً لہ، وإن اختلف العلماء فیہ والحقیقۃ ما تعارض نصان في طہارتہ ونجاستہ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا: الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الأول: المغلظۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۲) أیضا، ’’النوع الثاني المخففۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱۔
(۳) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: (حاشیہ نمبر: ۱۵)‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۔

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ، ص: ۲۴۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص56

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو کے شرائط و ارکان میں کوئی ذکر نہیں ہے؛ اس لیے بغیر کسی ذکر ودعا کے بھی وضو درست ہے؛ البتہ وضو کے شروع میں یعنی ہاتھوں کو دھوتے وقت ہی تسمیہ مسنون ہے، کوئی بھی ذکر کر لیا جائے، تو یہ سنت ادا ہو جاتی ہے؛ لیکن یہ چند اذکار افضل ہیں، ان میں سے کوئی ایک ہو یا سب کو جمع کر لیا جائے۔
’’(۱) بسم اللّٰہ العظیم والحمد للّٰہ علی دین الإسلام، (۲) أعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، (۳) بسم اللّٰہ والحمد للّٰہ‘‘
’’البدائۃ بالتسمیۃ قولا وتحصل بکل ذکر لکن الوارد عنہ علیہ الصلاۃ والسلام بسم اللّٰہ العظیم والحمد للّٰہ علی دین الإسلام، قال ابن عابدین: وقیل عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بسم اللّٰہ العظیم والحمد للہ علی دین الإسلام وقیل الأفضل بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم بعد التعوذ وفي المجتبی یجمع بینہما وفي شرح الہدایۃ للعیني: المروي عن رسول اللّٰہ علیہ وسلم بسم اللّٰہ والحمد للّٰہ‘‘(۱)
’’منہا التسمیۃ وہي سنۃ لازمۃ سواء کان المتوضي مستیقظاً من نوم أولا ومحلہا عند الشروع في الوضوء‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب سائر بمعنی باقی لا بمعنی جمع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۶۔
(۲) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: بیان عدد السنن وغیرہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص166

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق :علامہ شامی نے بیان کیا ہے: معتبر روایت کے اعتبار سے  چوتھائی سر کا مسح فرض ہے اور پورے سر کا سنت ہے۔(۱)

(۱)ومسح ربع الرأس مرّۃ واعلم أن في مقدار فرض المسح روایات، أشھرھا في المتن الثانیۃ مقدار الناصیۃ، واختارھا القدوري و في الھدایۃ وھي الربع… والحاصل أن المعتمد روایۃ الربع و علیھا مشی المتاخرون کابن الھمام و تلمیذ۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في معنی الاشتقاق و تقسیمہ،‘‘ ج۱، ص:۲۱۳)؛والمفروض في مسح الرأس مقدار الناصیۃ وھو ربع الرأس لما روي المغیرۃ بن شعبۃ أن النبي ﷺ أتی سباطۃ قوم فبال و توضأ و مسح علی ناصیتہ و خفیہ، والکتاب مجمل فالتحق بیاناً بہ، یستوعب رأسہ بالمسح وھو سنۃ، (ابن ہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات‘‘، ج۱، ص:۱۳ -۳۴)؛  و صح المسح علی الخفین في الطھارۃ من الحدث الأصغر لما ورد فیہ من الأخبار المستفیضۃ فیخشی علی منکرہ الکفر… و ذکر الحافظ في فتح الباري عن بعضھم: أنہ روي المسح أکثر من ثمانین منھم العشرۃ المبشرون۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي؟ کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، ج۱،ص:۱۲۸، دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص269

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ مسلم فنڈ کا تعلق اور واسطہ سرکاری بینکوں سے پڑتا ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے مسلم فنڈ کی ملازمت کو مطلقاً ناجائز کہنا غلط ہے، بلکہ پہلے مسلم فنڈ کے نظام کے بارے میں تحقیق کریں، اس لیے مذکورہ امام کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے۔(۱)

(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًامبِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَہ۶} إن جاء کم فاسق بنبإ، أي بخبر فتبینوا، وقرئ: فتثبتوا، أي: فتوقفوا واطلبوا بیان الأمر وانکشاف الحقیقۃ ولاتعتمدوا علی قول الفاسق أن تصیبوا أي کیلا تصیبوا بالقتل والسبي قوماً بجہالۃ أي جاہلین حالہ وحقیقۃ أمرہم فتصبحوا علی مافعلتم أي من إصابتکم بالخطإ نادمین۔ (علي بن محمد بن إبراہیم، تفسیر الخازن، ’’سورۃ الحجرات: ۶‘‘: ج۴، ص: ۱۷۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص143

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر نابینا امامت کرے اور امامت کی پوری شرائط نابینا کے اندر پائی جاتی ہوں، پاکی اور صفائی کا پورا خیال بھی رکھنے والا ہو تو نابینا کی امامت بلا کراہت درست ہے۔ صاحب ہدایہ نے جو اعمیٰ کی امامت کو مکروہ لکھا ہے اس سے مراد مکروہ تنزیہی ہے اور وہ اس لیے کہ عام طور پر نابینا بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے پاکی اور صفائی وغیرہ کا پورا پورا خیال نہیں رکھ پاتا اور قبلہ کی جانب سے انحراف کا بھی اندیشہ رہتا ہے اس لیے صاحب ہدایہ نے احتیاط کے طور پر امامت کو مکروہ یعنی خلاف اولیٰ کہا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ وہ نابینا جو احتیاط نہ کر پائے اسے امام نہ بنایا جائے، البتہ اگر جماعت میں اس نابینا سے زیادہ کوئی علم وفضل میں زیادہ نہ ہو اور کوئی دوسری وجہ مانع امامت بھی نہ ہو تو نابینا کی امامت بلاشبہ جائز ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے کہ: اعرابی اور اندھا اور غلام کی امامت کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
’’تجوز إمامۃ الأعرابي والأعمیٰ والعبد ۔۔۔۔۔ إلا أنہا تکرہ‘‘(۱)
علامہ حصکفیؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’ویکرہ تنزیہاً إمامۃ أعمیٰ إلا أن یکون أعلم القوم‘‘(۲)
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین بنایا کہ وہ امامت کریں اور وہ نابینا تھے۔

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳۔
(۲) الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم استخلف ابن أم مکتوم یؤم الناس وہو أعمیٰ‘‘(۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص237


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جو جگہ کارخانہ کے مالک نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لیے دی ہے اس جگہ پر نماز پنج وقتہ ونماز جمعہ وعیدین وغیرہ سبھی نمازیں جائز اور درست ہوں گی، اس پر شبہ نہ کیا جائے،البتہ وہ جگہ عارضی طور پر نماز کے لیے ہے، جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے، اس لیے وہ شرعی مسجد نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) ویزول ملکہ عن المسجد والمصلی بالفعل و (بقولہ جعلتہ مسجدا) وفي القہستاني ولا بد من إفرازہ: أي تمییزہ عن ملکہ من جمیع الوجوہ، فلو کان العلو مسجدا والسفل حوانیت أو بالعکس لا یزول ملکہ لتعلق حق العبد بہ کما في الکافي۔ (ابن عابدین، رد المحتار،’’کتاب الوقف، مطلب إذا وقف کل نصف علی حدۃ صارا وقفین ‘‘: ج۶، ص: ۵۴۴،۵۴۵)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص348

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شروع زمانہ میں نماز کی ہر نقل وحرکت کے ساتھ رفع یدین کا معمول تھا حتی کہ صحابہ کرامؓ سلام پھیرتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے؛ لیکن بعد میں بتدریج ہر ہر نقل وحرکت کے وقت رفع یدین سے منع کر دیا گیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ کرام سے نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت صحیح اور معتبر روایات سے ہے؛ اس لیے حنفیہ کے نزدیک وہ روایات قابل ترجیح ہیں جن میں ترک رفع یدین کا ثبوت ہے؛ لہٰذا تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین کرنا خلاف سنت ہوگا۔ حضرت ابراہیم نخعیؒ نے حضرت وائل ابن حجر ؓکی رفع یدین والی حدیث کے بارے میں فرمایا اگر حضرت وائل ؓنے آپ کو ایک مرتبہ رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود نے آپ کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
’’عن المغیرۃ قال قلت لإبراہیم حدیث وائل أنہ رأي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرفع یدیہ إذا افتتح الصلوٰۃ وإذا رکع وإذا رفع رأسہ من الرکوع فقال إن کان وائل رآہ مرۃ یفعل ذلک فقد رآہ عبد اللّٰہ خمیس مرۃ لا یفعل ذلک‘‘(۱)
’’عن علقمۃ عن عبد اللّٰہ ابن مسعود رضياللّٰہ قال صلیت خلف النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر فلم یرفعوأیدیہم إلا عند افتتاح الصلوٰۃ‘‘(۲)
’’عن إبراہیم عن الأسود قال رأیت عمر بن الخطاب یرفع یدیہ في أول تکبیرۃ ثم لا یعود قال ورأیت إبراہیم والشعبي یفعلان ذلک‘‘(۳)
’’عن عاصم بن کلیب الجرمی عن أبیہ قال رأیت علی بن طالب رضي اللّٰہ عنہ رفع یدیہ في التکبیرۃ الأولیٰ من الصلوٰۃ والمکتوبۃ ولم یرفعہما فیما سویٰ ذلک‘‘(۴)
’’ولا یسن مؤکداً رفع یدیہ إلا فی سبع مواطن کما ورد … تکبیرۃ افتتاح وقنوت، در مختار وفي الشامي الوارد ہو قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا ترفع الأیدی إلا في سبع مواطن تکبیرۃ الافتتاح وتکبیرۃ القنوت وتکبیرات العیدین الخ قال في فتح القدیر والحدیث غریب بہذا اللفظ‘‘(۱)
فلا یرفع یدیہ عند الرکوع إلا عند الرفع منہ لحدیث أبي داود عن البراء قال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ حین افتتح الصلوٰۃ ثم لم یرفعہما حتی انصرف‘‘(۲)
’’عن جابر بن سمرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال مال أراکم رافعي أیدیکم کأنہا أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلوٰۃ‘‘(۳)
’’ویرفع یدیہ مع التکبیر حتی یحاذي بإبہامیہ شحمۃ أذنیہ‘‘(۴)
’’عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسم کان إذا کبر رفع یدیہ حذاء أذنیہ‘‘(۵)
’’قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کبر لافتتاح الصلوٰۃ رفع یدیہ حتی إبہاماہ قریباً من شحمتي أذنیہ ثم لایعود، ومثل ذلک أحادیث کثیرۃ‘‘(۶)

(۱) أخرجہ أبو جعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلاۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘ ج۱، ص:۱۳۲، رقم: ۱۳۵۱۔
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ: ج ۲، ص: ۷۹۔
(۳) أخرجہ أبوجعفر أحمد بن محمد، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۳، رقم: ۱۳۶۴۔
(۴) الموطأ لإمام محمد: ص: ۹۲۔
(۱) ابن عابدین،  ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۴، زکریادیوبند۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۳۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب الدہر بالسکون في الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۳۰۔
(۴) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۵) أیضًا:
(۶) أخرجہ أبو جعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘ ج۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۱۳۴۶۔
عن المغیرۃ قال: قلت لإبراہیم حدیث واعمل أنہ رأی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرفع یدیہ وإذا افتتح الصلاۃ وإذا رکع وإذا رفع رأسہ من الرکوع فقال: إن کان وائل رآہ مرۃ یفعل ذلک فقد رآہ عبداللّٰہ خمسین مرۃً لایفعل ذلک۔ (أخرجہ أبوجعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۱۳۵۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص387

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  مہر کا مال عورت کی ملک ہے۔مرنے والے کی وصیت اس کے تہائی مال میں جاری ہوتی ہے۔ لہذا  اس عورت کے مرنے کے بعداس کے ایک  تہائی مال سے اس  گود لئے بچے کی بیوی کو زیور بناکر دیدیاجائے  اور بقیہ دو تہائی  مال وارثوں کے درمیان بطور میراث تقسیم کرلیا جائے۔ میراث کی تقسیم کے لئے وارثین کی تفصیلات لکھ کر بھیجیں تواسکا جواب لکھاجائے گا۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 40/1097

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔درست بات یہی ہے کہ آندھی، طوفان ، زلزلہ یا دیگر آفات سماویہ آنے پر اذان دینا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ لہذا اگر لوگ یہ عمل سنت یا حکم شرعی سمجھ کر کرتے ہیں تو غلط ہوگا، لیکن اگر لوگ محض غموں کو دور کرنے کا آلہ اور ہتھیار سمجھتے ہیں اس لئے اذان دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو جمع خاطر نصیب ہو تو یہ ایک مستحب عمل ہے ۔ علامہ شامی نے مواقع اذان میں کتب شافعیہ کے حوالے سے اسے سنت کہا ہے  کہ مغموم وغمزدہ شخص کی دلجوئی  کے لئے اذان دی جائے کیونکہ اذان غموں کو کافور کردیتی ہے۔ فی المواضع التی یندب لھا الاذان فی غیرالصلوۃ قالوا یسن للمھموم ان یامر غیرہ ان یؤذن فی اذنہ فانہ یزیل الھم۔ (فتاوی شامی 3/63)۔   

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 907/41-28B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صوفہ کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ اس کو پانی سے دھویاجائے اور ہر مرتبہ کے بعد اتنی دیر چھوڑدیاجائے کہ پانی ٹپکنا بندہوجائے، نچوڑنا دشوار ہو تو نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ اور اگر تر کپڑا نجاست لگی جگہ پر پھیردیاجائے تو بھی صوفہ پاک ہوجاتا ہے۔

(و) قدر (بتثليث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غيره) أي: غير منعصر مما يتشرب النجاسة وإلا فبقلعها۔

في حاشية الواني على الدرر. (قوله: أي: غير منعصر) أي: بأن تعذر عصره كالخزف أو تعسر كالبساط (الدرالمختار 1/332)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند