Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 2171/44-2285
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ جگہ سرکاری نہیں تھی بلکہ برادری کے لوگوں کے پیسے سے خریدی گئی تھی، تو اگر ان کے مالکان کا علم ہے تو ان کو لوٹادیا جائے۔ اور اگر اس کا علم نہیں ہوسکتاہے اور تمام منہیاران رہتواروں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے تو جو لوگ اس پنچایتی جگہ کے بننے کے وقت وہاں تھے اور اب وہاں نہیں رہتے ہیں تو ان کا بھی حصہ ہوگا، اور اگر وہ پیسے والد کو مل رہے ہیں تو بھائی کے ساتھ بہنوں کا بھی حصہ ہوگا۔
اگر معاملات کو سمجھنے یا طے کرنے میں دشواری ہو تو کسی شرعی دارالقضاء سے یا کسی ماہر مفتی سے معاملہ طے کرالیا اور تقسیم کرالی جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حیات برزخی ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر اطہر میں اپنے جسد مبارک کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ الحاوی للفتاوی میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
حیاۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبرہ ہو وسائر الأنبیاء معلومۃ عندنا علما قطعیا لما قام عندنا من الأدلۃ في ذلک وتواترت (بہ) الأخبار، وقد ألف البیہقي جزئا في حیاۃ الأنبیاء في قبورہم، فمن الأخبار الدالۃ علی ذلک ما أخرجہ مسلم عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیلۃ أسري بہ مر بموسی علیہ السلام وہو یصلي في قبرہ، وأخرج أبو نعیم في الحلیۃ عن ابن عباس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بقبر موسی علیہ السلام وہو قائم یصلي فیہ، وأخرج أبو یعلی في مسندہ، والبیہقي في کتاب حیاۃ الأنبیاء عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلون، وأخرج أبو نعیم في الحلیۃ عن یوسف بن عطیۃ قال: سمعت ثابتا البناني یقول لحمید الطویل: ہل بلغک أن أحدا یصلي في قبرہ إلا الأنبیاء؟ قال: لا، وأخرج أبو داود والبیہقي عن أوس بن أوس الثقفي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من أفضل أیامکم یوم الجمعۃ فأکثروا علي الصلاۃ فیہ، فإن صلاتکم تعرض علي، قالوا: یا رسول اللّٰہ وکیف تعرض علیک صلاتنا وقد أرمت؟ یعني: بلیت، فقال: إن اللّٰہ حرم علی الأرض أن تأکل أجسام الأنبیاء، وأخرج البیہقي في شعب الإیمان، والأصبہاني في الترغیب عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی عليّ عند قبري سمعتہ ومن صلی علي نائیا بلغتہ۔
’’وأخرج البخاري في تاریخہ عن عمار سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن للّٰہ تعالیٰ ملکا أعطاہ أسماع الخلائق قائم علی قبري فما من أحد یصلي علي صلاۃ إلا بلغتہا، وأخرج البیہقي في حیاۃ الأنبیاء، والأصبہاني في الترغیب عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی علی مائۃ في یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ، قضی اللّٰہ لہ مائۃ حاجۃ سبعین من حوائج الأخرۃ وثلاثین من حوائج الدنیا، ثم وکل اللّٰہ بذلک ملکا یدخلہ عليَّ في قبري کما یدخل علیکم الہدایا‘‘(۱)
(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا احادیث سے ثابت ہے؛بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دعا مانگنے کی ترغیب و تعلیم دی ہے، اس لیے آپ کے وسیلے سے دعا مانگنے کا انکار اور اسے شرک قرار دینا غلط ہے۔
’’عن عثمان بن حنیف، أن رجلا ضریر البصر أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: أدع اللّٰہ أن یعافیني قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فہو خیر لک۔ قال: فادعہ، قال: فأمرہ أن یتوضّأ فیحسن وضوئہ ویدعو بہذا الدعاء: اللہم إني أسألک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمۃ، إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضی لي، اللہم فشفعہ في قال أبو عیسیٰ ہذا حدیث حسن صحیح غریب‘‘۔(۱)
ومن أداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، لیستجاب الدُّعَاء،(۲) وقال الشوکاني في ’’ تحفۃ الذاکرین‘‘: وفي الحدیث دلیل علی جواز التوسل برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی اللّٰہ عز وجل، مع اعتقاد أن الفاعل ہو اللّٰہ سبحانہ وتعالی، وأنہ المعطی والمانع، ما شاء اللّٰہ کان، وما لم یشأ لم یکن‘‘(۳)
(۳) صحابہ کرام تمام کے تمام عادل اور معیار حق ہیں، صحابہ کرام نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس قدر دین برحق سیکھا وہ دوسروں کو اسی طرح پہنچایا اس میں اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا، کوئی حکم نہیں بدلا، کوئی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط منسوب نہیں کی جس بات کو صحابہ کرام نے یہ فرمایا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے وہ بالکل صحیح ہے اس کو صحیح ماننا لازم ہے، صحابہ کرام پراگر اعتماد نہ ہو او ران کے نقل دین کو حق تسلیم نہ کیا جائے تو پھر سارے دین سے اعتماد ختم ہوجائے گا اور صحیح دین دوسرے تک پہونچانے کی صورت نہیں رہے گی جیسا کہ روافض نے صحابہ کرام پر اعتماد نہیں کیا تو ان کے نزدیک نہ احادیث قابل اعتماد ہیں اور نہ قرآن پر ان کو اعتماد ہے، ان کے پاس دین برحق پہنچنے کی کوئی صورت نہیں ہے اور وہ اس نعمت الٰہی اور ذریعہ نجات سے محروم ہیں لہٰذا نقل دین میںصحابہ معیار حق ہیں جن حضرات کے یہ خیالات ہیںوہ غلط ہیں ان کو اس سے توبہ کرنا چاہیے تاہم وہ مسلمان ہیں ان کو سلام کرنا، ان کی دعوت قبول کرنا، ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے اگرچہ کراہت ضرور ہے اسی طرح نکاح بھی درست ہے تاہم اگر مصلحت نکاح کے خلاف ہو تو احتراز بہتر ہے۔(۱)
۱) الحاوي للفتاویٰ، ’’أنباء الأذکیاء بحیاۃ الأنبیاء‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما جاء في جامع الدعوات، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، رقم: ۳۵۷۸۔
(۲) الشاہ ولي اللّٰہ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ:ج ۲، ص: ۱۰۔
(۳) علامہ شوکاني، تحفۃ الذاکرین، ’’باب: صلاۃ الضرر والحاجۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲۔
(۱) ویکف عن ذکر الصحابۃ إلا بخیر لما ورد عن الأحادیث الصحیحۃ في مناقبہم، ووجوب الکف عن الطعن فیہم کقولہ علیہ السلام: لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذہبا ما بلغ مد أحد ہم ولا نصیفہ إلخ۔ (علامہ سعد الدین تفنازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث یجب الکف عن الطعن في الصحابۃؓ‘‘: ص: ۱۶۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص 205
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی کوئی اصل نہیں اور ایسا اعتقاد واجب الترک ہے۔ اس سے بدعات کو فروغ ملتا ہے اور بے اصل وبے بنیاد چیزیں مذہب میں داخل ہوجاتی ہیں اور لوگ اس کو شریعت سمجھنے لگتے ہیں۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص531
نکاح و شادی
Ref. No. 2534/45-3873
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب دومعتبر گواہوں کی موجود گی میں زبانی ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح ہوگیا تو یہ نکاح درست ہوگیا۔ اب اگر نکاح ہوجانے کے بعد گواہوں نے نکاح نامہ پراپنا غلط نام لکھوایا تو اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ مدارس ہی دینی تعلیم و تربیت اور مذہب اور اس کے احکام کو سمجھنے اور سمجھانے کا اصل ذریعہ ہیں ان کو اساس اور بنیاد کا درجہ حاصل ہے علم دین کے حصول کے بغیر۔ تبلیغ کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا مذہب اور صحیح مسائل وہ کس طرح قوم تک پہونچیائے گا جس کو صحیح معلومات اور مذہبی معاملات اور مسائل سے کما حقہ واقفیت نہ ہو، مدارس بھی صحیح تبلیغ کا ذریعہ ہیں۔(۱)
(۱) الأمر بالمعروف یحتاج إلی خمسۃ أشیاء أولہا العلم لأن الجاہل لا یحسن الأمر بالمعروف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السابع عشر في الغناء واللہو‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۷)
فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دل علی خیرٍ فلہ مثل أجر فاعلہ، (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإمارۃ: باب فضل إعانۃ الغازي في سبیل اللّٰہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۸۹۳)
فالفرض العین ہو العلم بالعقائد الصحیحۃ ومن الفروع ما یحتاج إلیہ۔ (محمد ثناء اللّٰہ پانی پتیؒ، تفسیر المظہري: (سورۃ التوبۃ: ۱۲۲)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین وفي الباب عن عمر رضي اللّٰہ عنہ، وأبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، ومعاویۃ رضي اللّٰہ عنہ، ہذا حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب إذا أراد اللّٰہ بعبد خیرا فقہہ في الدین‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص353
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں لوٹے یا بوتل میں موجود پانی اگر ناپاک ہوجائے تو اس کو استعمال نہیں کرسکتے؛ کیوں کہ وہ مائِ قلیل (کم پانی) ہے، اگر وضو وغسل کے لیے اس کے علاوہ پانی نہ ہو، تو تیمم کیا جائے:
{وَإِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی أَوْ عَلٰی سَفَرٍ أَوْجَآئَ أَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ أَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَأَیْدِیْکُمْ مِّنْہُط}(۱)
’’من عجز عن استعمال الماء المطلق الکافی لطہارتہ لصلاۃ تفوت إلی خلف الخ‘‘(۲)
(۱) سورۃ المائدہ: ۶۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص51
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق : اعضاء وضو وغسل پر پینٹ لگ جائے اور وہ وضو اور غسل وغیرہ میں پانی پہونچنے کے لیے مانع ہو، تو اس صورت میںوضو اور غسل نہیں ہوگا۔ نیز اس حالت میں جو نماز ادا کی جائے گی، وہ نماز ادا نہیں ہوگی، جب تک پینٹ کو صاف کرکے اس پر پانی نہ بہا دیا جائے۔ کذا فی الفقہ ۔(۱)
(۱) ولابد من زوال ما یمنع من وصول الماء للجسد کشمع وعجین۔ (حسن بن عمار بن علي، الشرنبلالي، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل یفترض في الأغتسال،‘‘ ج۱، ص:۴۵)؛ و إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن إسالتہ علیہ من البدن من غیر حرج مرۃ واحدۃ؛ حتی لو بقیت لمعۃ لم یصبہا الماء لم یجز الغسل۔ وکذا في الوضو۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطھارۃ، فصل: فرائض الغسل،‘‘ ج۱، ص:۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص162
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :صورت مذکورہ میں شرعی عذر کی وجہ سے پٹی باندھی ہو اور اس سے خون نہ بہتا ہو، تو اس پر مسح کر کے امامت کرنا درست ہے(۱) ’’ویجوز اقتداء الغاسل بماسح الخف وبالماسح علی الجبیرۃ‘‘(۲)
(۱)و یجوز المسح علی الجبائر و إن شدھا علی غیر وضوء۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۱۵۹-۱۶۱)؛ و کذا یجوز اقتداء الغاسل بالماسح علی الجبائر لما مر أنہٗ بدل عن المسح قائم مقامہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، بیان شرائط الاقتداء،‘‘ ج۱، ص:۳۵۵)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث: في بیان من یصلح إماما لغیرہ،‘‘ ج۱، ص:۱۴۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص265
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی امر دینی کی وجہ سے مقتدی امام سے ناراض ہوں اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے پر اعتراض کرتے ہوں تو اس امام کی امامت مکروہ ہے، اس کو خود امامت سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہئے یہ کہنا کہ زبردستی پڑھاؤں گا بالکل غلط ہے۔ اس کو اس کا حق نہیں ہے جھگڑے اور فتنہ سے بچنا ضروری ہے، متولی کے لیے ضروری ہے کہ معاملہ کو سلجھائیں۔ اور امام مذکور کو امامت سے سبکدوش کریں۔(۱)
(۱) (ولو أم قوماً وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریماً؛ لحدیث أبي داؤد: لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک: أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم، في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقاً لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو اثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج۳، ص: ۱۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص137
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے جو اوقات مقرر ہیں انہیں اوقات میں جماعت ہونی چاہیے، جماعت کو اپنے وقت مقررہ سے اتنا مؤخر کرنا کہ مقتدیوں کو تکلیف ہوتی ہو شرعاً اچھا نہیں ہے؛ ہاں! اگر کبھی اتفاقا کسی دینی امر کی وجہ سے معمولی سی تاخیر ہو جائے تو مقتدیوں کو بھی اعتراض نہیں کرنا چاہیے، تاہم بہت زیادہ تاخیر نہ ہونی چاہئے اور اس کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے، اور آیت کا مفہوم کسی عالم سے سمجھ لینا چاہیے، آیت سے وہ مراد نہیں ہے جو آپ سمجھے۔(۱)
(۱) فلو انتظر قبل الصلاۃ ففي أذان البزازیۃ لو انتظر الإقامۃ لیدرک الناس الجماعۃ یجوز لواحد بعد الاجتماع لا إلا إذا کان داعراً شریراً … أن التأخیر المؤذن وتطویل القرائۃ لإدراک بعض الناس حرام، ہذا إذا مال لأہل الدنیا تطویلاً وتأخیراً یشق علی الناس، فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۸-۱۹۹)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص344