اسلامی عقائد

Ref. No. 2029/44-1999

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق دینے کا اختیار صرف مرد کو ہے۔ عورت کو طلاق کا اختیار بالکل نہیں ہے۔ اگر عورت اپنے شوہر کو طلاق دے گی تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ تاہم شریعت نے عورت کے لئے خلع رکھا ہے۔ عورت اپنے شوہرسے  مہر کی معافی یا کچھ پیسوں کے عوض شوہر سے طلاق لے سکتی ہے۔  اگر شوہر کسی صورت طلاق دینے کے لئے تیار نہ ہو تو عورت دارالقضاء سے رجوع کرسکتی ہے؛ قاضی  اپنے اعتبار سے مناسب سمجھے گا تو نکاح کو فسخ  کردے گا۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کے لئے ایصال ثواب کرنا بلا تعیینِ ایام شریعت مطہرہ میں جائز ہے اور مقصود بھی ہے؛ لیکن اس کے لئے ہر شخص اپنے اپنے مقام پر تلاوت کر سکتا ہے اور تسبیحات بھی پڑھ سکتا ہے اجتماعی طور پر مجلس لگانے کی ضرورت نہیں ہے، علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اجتماعی طور پر قرآن کی تلاوت کو بدعت کہا ہے:
’’ومن البدع الإضافیۃ التي تقرب من الحقیقۃ أن یکون الأصل العبادۃ مشروعا إلا أنہا تخرج عن أصل شرعیتہا بغیر دلیل توہما أنہا باقیۃ علی أصلہا تحت مقتضی الدلیل وذلک بأن یقید إطلاقہا بالرأي أو یطلق تقییدہا وبالجملۃ فتخرج عن حدہا الذي حد لہا‘‘(۱)
مزید امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ آگے لکھتے ہیں: ’’ومن ذلک قراء ۃ القرآن بہیئۃ الاجتماع‘‘(۲) یہ سب رسم رواج کے طور پر کیا جاتا ہے جو کہ غیر مشروع ہے؛ اس لیے ایسے رسم ورواج اور بدعات میں شرکت کرنے سے آس پڑوس اور محلہ وغیرہ کے سب ہی لوگوں کو پر ہیز کرنا چاہئے۔
’’وہذا کلہ إن فرضنا أصل العبادۃ مشروعا فإن کان أصلہا غیر مشروع فہي بدعۃ حقیقیۃ مرکبۃ‘‘(۱) ’’فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ‘‘(۲)
آج کل ایصال ثواب کے لئے خود ساختہ طور پر رسمیں گھڑھ لی گئی ہیں شریعت کی نظر میں یہ بے اصل اور اکابر اسلاف سے یہ ثابت نہیں ہے ’’من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد‘‘ (۳) ایسے ہی قرآن خوانی ایصال ثواب کے لئے ہو، تو اس کی اجرت ممنوع ہے اور قرآن خوانی کے بعد کھانا کھلانا شیرنی وغیرہ تقسیم کرنا اجرت میں شمار ہوگا؛ اس لئے ایصال وثواب کے لئے اس طرح مجلس قائم کرنا دعوت کرنا بدعت اور ناجائز ہے، اس سے نہ پڑھنے والے کو ثواب ملتا ہے اور نہ ہی میت کو جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري‘‘(۴) ’’فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز‘‘(۵)

(۱) أبو إسحاق، الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۲) ’’أیضاً‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
(۱)  أبو إسحاق، الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۲۔
(۲) ابن عابدین،الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ، من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷۔
(۴) أبو إسحاق الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام، ’’البدع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۵) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص417

اسلامی عقائد

Ref. No. 2529/45-3876

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدہ کی وفات کے وقت جو اولاد زندہ تھی ، ان کو میراث میں شرعاً  حصہ  ملے گا، اور جن  اولاد کا انتقال والدہ کی حیات میں ہی  ہوگیاتھاان کو شرعا میراث میں حصہ نہیں ملے گا، لہذا جس بھائی کا انتقال والدہ کی حیات میں ہوگیا تھا اس کا یا اس کی  اولاد کا میراث میں شرعا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ البتہ جس بھائی کا انتقال والدہ کی وفات کے بعد ہوا ہے، وہ تمام بھائی بہنوں کے ساتھ میراث میں اپنے حصہ  کا حقدار ہے، اس کا حصہ اس کی اولاد کو دیدیاجائے گا جو وہ آپس میں شرعی ضابطہ سے تقسیم کرلیں گے۔

بہر حال اب کل ترکہ تین بھائی اور پانچ بہنوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر ایک بھائی کو دوہرا ،اور ہر ایک بہن کو اکہرا حصہ ملے گا۔ لہذا ماں کا کل ترکہ  گیارہ حصوں میں تقسیم کریں گے؛ ہر ایک بھائی کو دو دو حصے اور ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

تقسیم کے بعد اگر یہ ورثاء اپنے حصہ میں سے اپنی مرضی سے متوفی بھائی کی اولاد پر کچھ خرچ کریں یا ان کو دیدیں توبہت اچھا ہے، اس کار ثواب پر اجر عظیم کے مستحق ہوں گے، ان شاء اللہ۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا، اسلام سے قبل آپ آتش پرست تھے اور آپ کا پہلا نام مابہ ابن بوزخشاں تھا ۔(۱)

(۱) قال حدثني سلمان الفارسي: من فیہ قال: کنت رجلا فارسیاً من أہل قریۃ یقال لہا جی (اسم المدینۃ) وکان أبي دہقان قریتہ وکنت أحب خلق اللّٰہ إلیہ لم یزل حبہ إیاي حتی حبسني في بیتہ کما تحبس الجاریۃ واجتہدت في المجوسیۃ حتی کنت قطن النار التی یوقدہا لا یترکہا تخبو ساعۃ الخ۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، إسلام سلمان الفارسي: ج ۳، ص: ۳۸۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص237

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں کپڑے کے نوچے ہوئے اور پھٹے ہوئے حصہ پر کتے کا لعاب ضرور لگا ہوگا؛ اگر وہ ایک درہم سے کم ہے تو مانع نماز نہیں ہے اور جب تک لعاب کے کثیر ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو قلیل پر محمول کیا جائے گا اور اس کپڑے کو پہن کر پڑھی گئی نماز درست ہوگی اعادہ کی ضرورت نہیں، اگر کثیر ہونے کا اندازہ ہو تو نماز کا اعادہ کیا جائے۔
’’والأصح أنہ إن کان فمہ مفتوحا لم یجز لأنہ لعابہ لبس فی کمہ فینجس لو أکثر من قدر الدر ہم‘‘(۱)
’’الکلب إذا أخذ عضو إنسان أو ثوبہ لا ینجس ما لم یظہر فیہ أثر البلل راضیا کان أو غضبان‘‘(۲)
’’وعفا الشارع عن قدر الدرہم وإن کرہ تحریماً فیجب غسلہ وما دونہ تنزیہا فیسن وفوقہ مبطل فیفرض … أشارہ إلی أن العفو عنہ بالنسبۃ إلی صحۃ الصلاۃ بہ فلا ینافي الإثم‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في    أحکام الدباغۃ، باب المیاہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ، النوع الثاني الخففۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار مع الد المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص43

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اٹیچ باتھ روم کا رواج آج کل عام ہے اور بظاہر غسل خانہ میں نجاست بھی نہیں ہوتی؛ اس لیے اس طرح کے باتھ روم میںوضو کرنا اور اس وضو سے نماز ادا کرنا بالکل درست ہے: کما قال ابن نجیم : أن لا یتوضأ في المواضع النجسۃ لأن لماء الوضوء حرمۃً کذا في المضمرات (۲) والتوضؤ في مکان طاہر لأن لماء الوضوء حرمۃ۔(۳)

(۲) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، باب سنن الوضوء، ج۱، ص:۳۰
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثالث في المستحبات، و من الأدب،‘‘ ج۱، ص:۵۹

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص157

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق :مذکورہ شخص کے لیے پیر دھونا تو مشکل ہے، پاؤں کو دھونے کے بجائے، اس پر ہاتھ بھگو کر مسح کر نا چاہیے۔(۱)

(۱) و یمسح نحو مفتصد وجریح علی کل عصابۃ مع فرجتھا في الأصح، قولہ علی کل عصابۃ أي علی کل فرد من أفرادھا، سواء کانت تحتھا جراحۃ وھي بقدرھا، أو زائدۃ علیھا کعصابۃ المفتصد أو لم یکن تحتھا جراحۃ أصلا بل کسرا وکي، و ھذا معنی قول الکنز کان تحتھا جراحۃ أولا، لکن إذا کانت زائدۃ علی قدر الجراحۃ فإن ضرہ الحل والغسل مسح الکل تبعاً، و إلا فلا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، مطلب في لفظ کل إذا دخلت علی منکر أو معروف،‘‘ ج۱، ص:۴۷۱مکتبۃ زکریا دیوبند)؛ و یجوز أي یصح مسحھا کالغسل إن ضر و إلا لایترک وھو أي مسحھا مشروط بالعجز عن مسح نفس الموضع، فإن قدر علیہ فلا مسح علیھا۔ والحاصل لزم غسل المحل ولو بماء حار، فإن ضر مسحہ، فإن ضر مسحھا، فإن ضر سقط أصلاً۔۔۔ والرجل والمرأۃ والجنب في المسح علیھا و علی توابعھما سواء۔ (ابن عابدین ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، مطلب الفرق بین الفرض العملي والقطعي والواجب،‘‘ج۱، ص:۴۷۰-۴۷۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص260

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص جس کو پانی ملنے کی امید ہو اس کے لیے مستحب ہے کہ نماز کو اخیر وقت تک موخر کرے، لیکن اگر اس نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی تو تیمم کی اہلیت ہونے کی وجہ سے نماز درست ہوجائے گی بشرطیکہ مصلی اور پانی کے درمیان کم از کم ایک میل یا زیادہ کا فاصلہ ہو۔
و ندب لراجیہ رجاء قویا آخر الوقت المستحب ولو لم یؤخر و تیمم و صلی جاز، إن کان بینہ و بین الماء میل و إلا لا۔(۲)

(۲)ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم، مطلب في الفرق بین الظن و غلبۃ الظن‘‘ ج۱، ص:۱۸-۴۱۷؛  و الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي،’’ کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۱۲۲

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص359

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جن لوگوں نے رکوع کیا ہی نہیں؛ بلکہ بغیر رکوع امام کے ساتھ سجدے میں چلے گئے ان حضرات کی نماز نہیں ہوئی از سرِ نو اپنی اپنی نماز ادا کریں(۱) ان لوگوں میں جو مسافر ہیں وہ جب قضا کریں تو قصر قضا کریں۔(۲)

(۱) لورکع إمامہ فرکع معہ مقارنا أو معاقباً وشارکہ فیہ أو بعدما رفع منہ فلو لم یرکع أصلا أو رکع ورفع قبل أن یرکع إمامہ ولم یعدہ معہ أو بعدہ بطلت صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، مطلب مہم في تحقیق متابعۃ الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۶۶)
(۲)وإن اقتدی مسافر بمقیم أتم أربعا وان أفسدہ یصلي رکعتین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر‘‘: ج۱، ص: ۲۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص472

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وتر کے بعد جو چاہے نماز پڑھے کوئی مخالفت نہیں ہے، ہاں صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب تک نوافل مکروہ ہیں۔(۱)

(۱) لا صلاۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب لا تتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس،‘‘:ج۱، ص ۸۲، ۸۳ رقم، ۵۶۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص310