مساجد و مدارس

Ref. No. 1930/43-1831

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کھیتی کی زمین جو مسجد کے لئے وقف ہے، اور وہاں اب تک مسجد نہیں بنی ہے، بلکہ مسجد کے لئے آمدنی اس سے آتی ہے تو اس کو بدل کر دوسری زمین لینا جو اس سے بہتر ہو، درست ہے۔ اس صورت میں مسجد کے لئے آمدنی دوگنی ہوجاتی ہے اور یہ بظاہر واقف کے منشاء کے خلاف بھی نہیں ہے۔ اس لئے مذکورہ زمین تبدیل کی جاسکتی ہے۔ اور سابقہ زمین کو قبرستان بنایاجاسکتاہے۔

والثانی أن لایشرطہ سواء شرط عدمہ أو سکت لکن صار بحیث لاینتفع بہ بالکلیۃ بأن لایحصل منہ شیئ أصلا أو لا یفی بمؤنتہ فہو أیضا جائز علی الأصح۔ (شامی، کتاب الوقف مطلب فی استبدال الوقف وشروطہ، مطبوعہ کوئٹہ ۳/۴۲۴، کراچی ۴/۳۸۴، زکریا ۶/۵۸۳، البحر الرائق کوئٹہ ۵/۲۲۳، زکریا ۵/۳۷۳)

وصح شرط أن یستبدل بہ أی بالوقف غیرہ أی یبیعہ و یشتری بثمنہ أرضا أخریٰ إذا شاء عند أبی یوسف استحسانا لأن فیہ تحویلہ إلی ما یکون خیرا من الأول أو مثلہ فکان تقریراً لا إبطالا فإذا فعل صارت الثانیۃ کالأولیٰ فی شرائطہا۔ (مجمع الأنہر، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۲/۵۷۶)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2035/44-2010

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1)  مسجد کے تہہ خانے میں دوکانیں بناکر کرایہ پر دینا درست ہے۔ مسجد شہید ہونے سے تمام مکان پر مسجدیت لازم نہیں ہوگئی۔(2) جو حصہ خارج مسجد ہے تعمیر کے وقت نیت کرکے اس کو مسجد میں داخل کیاجاسکتاہے، وہ حصہ آئندہ سے مسجد شرعی کا حصہ ہوگا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2122/44-2180

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر نجاست مَرئی ہو یعنی نجاست دکھائی دے تو عین نجاست کو زائل کرنا فرض ہے، چاہے ایک مرتبہ میں ہی زائل ہوجائے، اور اگر نجاست غیرمرئی ہو یعنی دکھائی نہ دے تو اس کو تین مرتبہ دھونا ضروری ہے تاکہ ازالۂ نجاست یقینی ہوجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2177/44-2293

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح میں عورتوں کی گواہی  قبول کی جاتی ہے ، لیکن ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس لئے ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی میں نکاح جائز نہیں ہے، بلکہ کم از کم دو عورتوں کا ہونا لازم ہے۔  اگر ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی میں نکاح کیاگیا تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

ومنها:) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح، هكذا في البدائع. وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام ... ويشترط العدد فلاينعقد النكاح بشاهد واحد، هكذا في البدائع. ولايشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين". (فتاوی ہندیہ (6/418)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ میلاد (جس میں التزام قیام و شیرینی کی تقسیم اور غیر صحیح روایات کا بیان ہوتا ہے) کا پڑھنا نہ تو فرض ہے نہ واجب نہ مسنون و مستحب ہے بلکہ بدعت ہے، اس سے پرہیز ہر مسلمان کے لئے لازم اور ضروری ہے۔(۲)

البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اگر صحیح روایات پڑھی جائیں اور کوئی قیام وغیرہ کی رسمیں نہ کی جائیں اور اس خاص وقت کی تعیین دائمی طور پر نہ کی جائے تو میلاد باعث ثواب ہے۔(۱)
پس میلاد کی نذر ماننے سے میلاد کرانا ضروری نہیں ہے اگر مروجہ طریقہ پر میلاد کرائی جائے گی، تو نیکی برباد اور گناہ لازم آئے گا ،اس رقم کو جو میلاد پر خرچ کرنے کا ارادہ ہو غرباء و مساکین اور ضرورت مندوں پر خرچ کردے کہ اس کا ثواب اس کو مل جائے گا۔(۲)

(۲) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ -رحمہ اللّٰہ- تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
آنچہ بر قبور اولیاء عمارت ہائے رفیع بنا می کنند وچراغاں روشن کنند وازیں قبیل ہرچہ می کنند حرام است یا مکروہ۔
ترجمہ: وہ جو کچھ اولیاء کرام کی قبروں پر کیا جاتا ہے کہ اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں اور چراغ روشن کرتے ہیں اور اس قسم کی جو چیز بھی کرتے ہیں حرام ہے، یا مکروہ۔ (قاضی ثناء اللہ، مالابد منہ: ص: ۷۸)

(۱) الاحتال بذکر الولادۃ الشریفۃ إن کان خالیا من البدعات المروجۃ فہو جائز بل مندوب کسائر أذکارہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (امداد الفتاوی: ج ۶، ص: ۳۲۷)
(۲)  المولد الذي شاع في ہذا العصر وأحدثہ صوفي في عہد سلطان أربل ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
وأقبح منہ النذر بقراء ۃ المولد في المقابر۔ (أیضاً:)
ومع اشتمالہ علی الغناء واللعب وإیہاب ثواب ذلک إلی حضرۃ المصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ‘‘کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص332

اسلامی عقائد

Ref. No. 2539/45-3881

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ حقائق اور اخبار  جن کی حدیثیں متواتر طور پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، یعنی صحابہ سے لے کر بعد کی نسلوں تک ہر زمانے میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرنے والے اتنے لوگ رہے ہیں کہ ان کا کسی کذب بیانی یا غلط فہمی پر متفق ہونا عقلاً محال اور ناممکن ہے اور یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کی خبر دی ہے اور اپنی امت کو ان کے بارے میں بتلایا ہے۔ ایسی چیزوں کو علماء کی اصطلاح میں ’’ضروریات دین‘‘ کہتے ہیں ۔ یعنی وہ باتیں جن کے بارے میں یقین کے درجے میں یہ بات ثابت ہے کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے اور ان کی بابت اپنی امت کو تعلیم دی ہے۔

سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرنا جو ضروریاتِ دین ہیں ایمان کہلاتاہےاور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں، اگرچہ باقی تمام ضروریات  دین کی تصدیق کرتا ہو۔ اس لئے  ایسا شخص  جو متواتر احادیث کا  بلا تاویل منکر ہو وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے، البتہ اگر کوئی تاویل یا توجیہ پیش کرے جس سے کسی حدیث کا انکار لازم آئے تو ایسا شخص گمراہ ہے، جادۂ مستقیم سے ہٹاہوا ہے۔ ایسا شخص دین کے سلسلے میں لائق توجہ نہیں ہے، اس لئے  اپنے عقیدہ کی حفاظت کرنا اور ایسے شخص کی کتابوں اور مضامین  سے  دور رہنا  ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2580/45-3953

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صف اول کا اہتمام کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے، لیکن مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے کسی کےلیے مسجد میں اپنی مخصوص جگہ متعین کرنے کی گنجائش نہیں ہے، جو شخص مسجد میں پہلے آئے گا وہی آگے  کی صف میں موجود خالی جگہ کا زیادہ حق دار ہوگا، صف اول میں پہلے آکر رو مال وغیرہ ڈال دینے سے وہ جگہ اس کے لیے مخصوص نہیں  ہوجاتی ہے،  ہاں اگر فوراً واپس آنا ہو اور مذکورہ جگہ پر رومال ڈال دے تو اس کے لیے وہ جگہ مخصوص ہوگی، حضرات فقہاء نے فوری طور پر لوٹنے کی صورت میں اس جگہ کو مخصوص کرنےکی اجازت دی ہے۔  لہٰذا مذکورہ صورت کہ رومال ڈال کر صف کے اخیر میں قرآن پڑھنے سے وہ جگہ مخصوص نہیں ہوگی۔

وتخصيص المكان لنفسه، وليس له إزعاج غيره. لأنه يخل بالخشوع، قال في القنية: له في المسجد موضع معين يواطب عليه وقد شغله غيره قال الأوزاعي له أن يزعجة وليس له ذلك عندنا لأن المسجد ليس ملكا لأحد قلت وينبغي تقيده بما اذا لم يقم عنه علي نيه عوده بلا مهلة كما لو قام للوضوء ومثلاً ولا سيما اذا وضع فيه ثوبه لتحقق سبق يده. (شامي: ج 3، ص: 436)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ناپاک کپڑے کی تری پاک کپڑے میں لگ جائے اور وہ گیلا ہو جائے، تو وہ کپڑے ناپاک ہو جائیں گے اور اگر ناپاکی کا اثر دوسری چیز یا کپڑے میں ظاہر نہ ہو تو وہ چیزیں یا وہ کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے اور اگر پیشاب کی ایک دو چھینٹیں پڑ جائیں، تو تین مرتبہ دھونا ضروری ہے؛ البتہ اگر ایک درہم سے کم لگی ہوں اور اسے دھونا یاد نہ رہا ہو اور اسی حالت  میں نماز شروع کردی، تو فقہاء نے لکھا ہے کہ نماز پڑھ لینے سے نماز اداء ہو جائے گی۔
’’ولو ابتل فراش أو تراب نجسا وکان ابتلالہما من عرق نائم علیہما أو کان من بلل قدم وظہر أثر النجاسۃ وہو طعم أو لون أو ریح في البدن والقدم تنجسا لوجودہا بالأثر وإلا أي: وإن لم یظہر أثرہا فیہما فلا ینجسان‘‘ ’’کما لا ینجس ثوب جاف طاہر لف في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب لو عصر لعدم انفصال جرم النجاسۃ إلیہ۔ واختلف المشایخ فیما لو کان الثوب الجاف الطاہر بحیث لو عصر لا یقطر فذکر الحلواني أنہ لا ینجس في الأصح وفیہ نظر لأن کثیرا من النجاسۃ یتشربہ الجاف ولا یقطر بالعصر کما ہو مشاہد عند ابتداء غسلہ فلا یکون المنفصل إلیہ مجرد نداوۃ إلا إذا کان النجس لا یقطر بالعصر فیتعین أن یفتی بخلاف ما صحح الحلواني ولا ینجس ثوب رطب بنشرہ علی أرض نجسۃ ببول أو سرقین لکونہا یابسۃ فتندت الأرض منہ أي: من الثوب الرطب ولم یظہر أثرہا فیہ‘‘(۱)
وفي الدر المختار مع رد المحتار:
’’(وعفا) الشارع (عن قدر درہم) وإن کرہ تحریما، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیہا فیسن، وفوقہ مبطل‘‘(۲)
’’والأقرب أن غسل الدرھم وما دونہ مستحب مع العلم بہ والقدرۃ علی غسلہ فترکہ حینئذ خلاف الأولی، نعم الدرھم غسلہ آکد مما دونہ فترکہ أشد کراھۃ کما یستفاد من غیرما کتاب من مشاھیر کتب المذھب الخ‘‘(۳)

(۱) حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: …بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ پر…
باب الأنجاس والطہارۃ، عنہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰۔    (۳) أیضاً۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص58


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آن لائن قرآن پڑھنے سے اگر لیپ ٹاپ، کمپیوٹر یا موبائل فون کی اسکرین پر کھلا ہوا قرآن پڑھنا مراد ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ موبائل یا لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھ کر قرآن کریم پڑھنا جائز ہے، تلاوت خواہ وضو کی حالت میں ہو یا بے وضو ہو اور اس دوران بے وضو موبائل کو مختلف اطراف سے چھونا اور پکڑنا، تو جائز ہے؛ لیکن اسکرین کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ جس وقت قرآن کریم اسکرین پر کھلا ہوا ہوتا ہے، اس وقت اسکرین کو چھونا قرآن کو چھونے کے حکم میں ہوتا ہے۔
اور اگر آن لائن پڑھنے کا مطلب کسی قاری صاحب سے آن لائن قرآن پڑھنا ہے، مثلا استاذ قرآن کی تلاوت کرے اور طالب علم سن کر اس کی اصلاح وتصحیح کرے دونوں میں سے کسی کے سامنے قرآن نہ ہو، تو اس صورت میں بلا وضو قران کی تلاوت کرنا جائز ہوگا او راگر استاذ موبائل میں انٹرنیٹ کی مدد سے پڑھائے اور طالب کے سامنے قرآن کھلا ہو، تو اس کو چھونے کے لیے وضو کرنا ضروری ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن چھونے کے لیے وضو کی ضرورت ہے،قرآن کی تلاوت کے لیے وضو کی ضرورت نہیں ہے، اور موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین پر کھلا قرآن یہ عام قرآن کے حکم میں ہے اس کو بلا وضو چھونا جائز نہیں ہے۔
’’ولیس لہم مس المصحف إلا بغلافہ ولا أخذ درہم فیہ سورۃ من القرآن إلا بصرتہ، وکذا المحدث لا یمس المصحف إلا بغلافہ؛ لقولہ علیہ السلام لا یمس القرآن إلا طاہر‘‘(۱)
’’(و) یحرم (بہ) أي بالأکبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فیہ آیۃ کدرہم وجدار، وہل مس نحو التوراۃ کذلک؟ ظاہر کلامہم لا (إلا بغلاف متجاف) غیر مشرز أو بصرۃ بہ یفتی، وحل قلبہ بعود، (قولہ: أي ما فیہ آیۃ إلخ) أي المراد مطلق ما کتب فیہ قرآن مجازاً، من إطلاق اسم الکل علی الجزء، أو من باب الإطلاق والتقیید۔ قال ح: لکن لایحرم في غیر المصحف إلا بالمکتوب: أي موضع الکتابۃ کذا في باب الحیض من البحر، وقید بالآیۃ؛ لأنہ لو کتب ما دونہا لایکرہ مسہ کما في حیض القہستاني۔ وینبغي أن یجری ہنا ما جری في قرائۃ ما دون آیۃ من الخلاف، والتفصیل المارین ہناک بالأولی؛ لأن المس یحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القرائۃ فکانت دونہ تأمل … (قولہ: غیر مشرز) أي غیر مخیط بہ، وہو تفسیر للمتجافی، قال في المغرب: مصحف مشرز أجزاؤہ مشدود بعضہا إلی بعض من الشیرازۃ ولیست بعربیۃ۔ فالمراد بالغلاف ما کان منفصلاً کالخریطۃ وہي الکیس ونحوہا؛ لأن المتصل بالمصحف منہ حتی یدخل في بیعہ بلا ذکر۔ وقیل: المراد بہ الجلد المشرز، وصححہ في المحیط والکافي، وصحح الأول في الہدایۃ وکثیر من الکتب، وزاد في السراج: أن علیہ الفتوی۔ وفي البحر: أنہ أقرب إلی التعظیم۔ قال: والخلاف فیہ جار في الکم أیضاً۔ ففي المحیط: لایکرہ عند الجمہور، واختارہ في الکافي معللاً بأن المس اسم للمباشرۃ بالید بلا حائل۔ وفي الہدایۃ: أنہ یکرہ ہو الصحیح؛ لأنہ تابع لہ، وعزاہ في الخلاصۃ إلی عامۃ المشایخ، فہو معارض لما في المحیط فکان ہو أولی۔ أقول: بل ہو ظاہر الروایۃ کما في الخانیۃ، والتقیید بالکم اتفاقي فإنہ لایجوز مسہ ببعض ثیاب البدن غیر الکم کما في الفتح عن الفتاوی۔ وفیہ قال لي بعض الإخوان: أیجوز بالمندیل الموضوع علی العنق؟ قلت: لا أعلم فیہ نقلاً۔ والذي یظہر أنہ إذا تحرک طرفہ بحرکتہ لایجوز وإلا جاز، لاعتبارہم إیاہ تبعاً لہ کبدنہ في الأول دون الثاني فیما لو صلی وعلیہ عمامۃ بطرفہا الملقی نجاسۃ مانعۃ، وأقرہ في النہر والبحر۔ (قولہ: أو بصرۃ) راجع للدرہم، والمراد بالصرۃ ما کانت من غیر ثیابہ التابعۃ لہ۔ (قولہ: وحل قلبہ بعود) أي تقلیب أوراق المصحف بعود ونحوہ لعدم صدق المس علیہ‘‘(۱)

(۱) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’مس المصحف للمحدث و الحائض‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۹۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء‘‘: ج۱، ص: ۳۱۵ - ۳۱۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص168

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :چمڑے کے موزوں پر مسح کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ در مختار میں ہے کہ سنت مشہورہ سے اس کا ثبوت ہے۔ اور مسح علی الخفین کے راوۃِ حدیث اسی (۸۰) صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے زیادہ ہیں، ان میں عشرۂ مبشرہ بھی شامل ہیں۔(۲)

(۲) و في التحفۃ ثبوتہ بالإجماع بل بالتواتر، رواتہ أکثر من ثمانین منھم العشرۃ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، مطلب تعریف الحدیث المشہور،‘‘ ج۱، ص:۴۴۶)، والأخبار فیہ مستفیضۃ قال أبوحنیفۃ: ما قلت بالمسح حتی جاء ني فیہ مثل ضوء النھار، و عنہ أخاف الکفر علی من لم یر المسح علی الخفین: لأن الآثار التي جاء ت فیہ في حیز التواتر۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۱۴۶مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص270