آداب و اخلاق

Ref. No. 40/1060

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ اشیاء کا استعمال مکروہ ہے، البتہ ان سے وضو نہیں ٹوٹے گا، اسی طرح تمباکو وغیرہ کھا کر قرآن کی تلاوت بھی مکروہ ہے۔ تلاوت سے قبل منھ کی بدبو زائل کرلینی چاہئے۔

۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Business & employment

Ref. No. 1094/42-278

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It appears nothing wrong to do this course as you mentioned. However, if you find anything wrong, write to us in detail.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1181/42-448

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جائز ہے، البتہ  احتیاط کے خلاف ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1305/42-658

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خون مسلمان کے حق میں ایک ناپاک شیئ ہے، اور مال نہیں ہے، لیکن غیرمسلم کے لئے استفادہ کی گنجائش ہے۔ اس پر آپ کے خاموش  رہنے پر امید ہے کہ کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1537/43-1042

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا کام شرک میں براہ راست اعانت  نہیں ہے، اس لئے آپ کی کمائی حلال ہے، لیکن یہ تقوی  اور احتیاط کے خلاف ہے۔

أي لأجرة إنما تکون فی مقابلة العمل.(شامی، باب المہر / مطلب فیما أنفق علی معتدة الغیر 4/307 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنیٰ لہ بیعة أو کنیسةً جاز ویطیب لہ الأجر. (الفتاویٰ الہندیة،الإجارة / الباب الخامس عشر، الفصل الرابع 4/250 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنی لہ بیعةً،أو صومعةً، أو کنیسةً جاز، ویطیب لہ الأجر.(الفتاویٰ التاتارخانیة 15/131 زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2226/44-2358

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کتابوں میں تلاش کرنے سے ہمیں ایک واقعہ یہ ملا کہ حضرت عبداللہ بن عمر  کے سامنے یہ بیان کیا گیا کہ ایک شخص نے خراسان سے اپنی والدہ کو کندھے پر بٹھاکر حج کرایا تو کیا اس نے حق ادا کردیا تو آپ نے فرمایا کہ اس نے ماں کے پیٹ میں  دوران حمل ایک بار  گھومنے کا بھی حق ادا نہیں کیا۔ لیکن اس واقعہ میں اس شخص کے نام کی صراحت نہیں ہے۔ 

اور اس میں کوئی استبعاد نہیں ہے، ایسا ممکن ہے، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب کے لئے اس طرح کے واقعات بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ کفر کے کلمات ہیں، ایسا اعتقاد رکھنے والا اور اس کی تعلیم دینے والا مسلمان نہیں ہے کافر و مرتد ہے(۱)، مسلمانوں کو اس کی مکاریوں سے احتراز لازم ہے۔

(۱) {وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُط قُلْ أَبِااللّٰہِ وَأٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِئُ وْنَہ۶۵} (سورۃ التوبۃ:۶۵)
وإذا قال الرجل لغیرہ: حکم الشرع في ہذہ الحادثۃ کذا، فقال ذلک الغیر: ’’من برسم کار می کنم نہ بشرع‘‘ یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: مایتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)
والاستہزاء بأحکام الشرع کفرٌ، کذا في ’’المحیط‘‘۔ (أیضا: ’’ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۱)
ومن اعتقد أن الإیمان والکفر واحدٌ فہو کافر، کذا في الذخیرۃ۔ (أیضا: ’’ومنہا: ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص299

کھیل کود اور تفریح

Ref. No. 2411/44-3640

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سفر پرجانے کا جو راستہ اختیار کیا ہے اس کا اعتبار ہوگا، اور جب وہ وہاں پہونچ کر مسافر ہوگیا تو اب وہ اسی راستہ لوٹے یا کسی ایسے دوسرے راستہ سے لوٹے جس میں مسافت کم ہوجاتی ہو تو اس سے قصر کے مسئلہ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جب اپنی بستی کی آبادی میں داخل ہوگا اس وقت قصر کاحکم فوت ہوگا۔  

"وتعتبر المدة من أي طريق أخذ فيه، كذا في البحر الرائق. فإذا قصد بلدة وإلى مقصده طريقان: أحدهما مسيرة ثلاثة أيام ولياليها، والآخر دونها، فسلك الطريق الأبعد كان مسافراً عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان. وإن سلك الأقصر يتم، كذا في البحر الرائق". )الفتاوى الهندية (1/ 138(

"وقال أبو حنيفة: إذا خرج إلى مصر في ثلاثة أيام وأمكنه أن يصل إليه من طريق آخر في يوم واحد قصر". ) بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 94(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث موضوع نہیں ہے؛ ہاں ایک روای کے نام میں اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہے۔ امام ترمذی، امام احمد اور ابن حبان وغیرہ نے اپنی کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے، امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کرکے ’’ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ‘‘ کا حکم لگایا ہے؛ اس لیے یہ حدیث موضوع نہیں ہے۔ جمعہ کے خطبہ وغیرہ میں اس کا پڑھنا درست ہے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن مغفل، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ اللّہ في أصحابي، لا تتخذوہم غرضا من بعدي، فمن أحبہم فبحبي أحبہم، ومن أبغضہم فببغضي أبغضہم، ومن آذاہم فقد أٓذاني، ومن أٓذاني فقد آذی اللّٰہ، ومن آذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ۔(۱) إسنادہ ضعیف۔ عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن، ویقال: عبد الرحمن بن زیاد، ویقال عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، وقال الذہبي: لا یعرف۔ وجاء في ’’التہذیب‘‘ في ترجمۃ عبد الرحمن بن زیاد: قیل إنہ أخو عبید اللّٰہ بن زیاد بن أبیہ، وقیل: عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن۔(۲)

 (۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب المناقب، باب في من سب أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵، رقم: ۳۸۶۲۔
(۲) أخرجہ محمد بن حبان بن أحمد، في صحیح ابن حبان، ’’باب ذکر الزجر عن اتخاذ المرء أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غرضاً بالتنقص‘‘: ج ۸، ص: ۲۴۴، رقم: ۷۲۵۶۔
إسنادہ ضعیف لجہالۃ عبد الرحمن بن زیاد أو عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۳۴، ص: ۱۶۹، رقم: ۲۰۵۴۸۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص128

اسلامی عقائد

Ref. No. 2617/45-3990

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر کپڑا مس ہونے پر پسینہ کپڑے میں جذ ب ہوگیا تو کپڑا ناپاک ہوجائے گا، اور اگر صرف ٹھنڈک محسوس ہوئی تواس سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔

ولو ابتل فراش أو تراب نجسا" وكان ابتلالهما "من عرق نائم" عليهما "أو" كان من "بلل قدم وظهر أثر النجاسة" وهو طعم أو لون أو ريح "في البدن والقدم تنجسا" لوجودها بالأثر "وإلا" أي وإن لم يظهر أثرها فيهما "فلا" ينجسان.

وله: "من عرق نائم" قيد اتفاقي فالمستيقظ كذلك كما يفهم من مسألة القدم ولو وضع قدمه الجاف الطاهر أو نام على نحو بساط نجس رطب إن إبتل ما أصاب ذلك تنجس وإلا فلا ولا عبرة بمجرد النداوة على المختار كما في السراج عن الفتاوى (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: (باب الأنجاس و الطهارة عنها، ص: 158، ط: دار الكتب العلمية))

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند