طہارت / وضو و غسل
اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت مفتی صاحب میرا ایک سوال ہے مجھے پیشاب کے قطرے کی بیماری ہے میں پیشاب کے جگہ پر کپڑے کی جگہ میں پلاسٹک کی یوز کرتا ہوں کیا میں ایک نماز کے بجائے دوسری نماز تک کے لیے بھی اسے استعمال میں لا سکتا ہوں جبکہ پھیلاؤ ناپاکی کی زیادہ نہیں ہوتی مجھے مسلسل پیشاب کے قطرے کی بیماری ہے تو کیا میں پیشاب کو بغیر سکھائے ہوئے دھوکر کر فارغ ہو سکتا ہو جب کہ مجھے مسلسل قطرے کی بیماری ہے وضو کے فرض والے اعضاء کو میں نے ایک مرتبہ کے بجائے تین مرتبہ دھویا تو کیا میرا وضو ہوگااور میں اگر ان گنت دھو دو تو کیا میرا وضو ہوگا کہیں فرض کے خلاف تو نہیں نہ ہوگا ٹھنڈ میں ویسلین یوز کرتے ہیں ہوںٹھوں پر نماز م منہ کے اندر چلا جائے یہاں تک کہ حلق میں چلا جائے تو کیا نماز فاسد ہوجائے گی

متفرقات

Ref. No. 2030/44-1998

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اذہان، ذہن کی جمع ہے، اس لئے نام رکھنا درست ہے تاہم مناسب ہے کہ کوئی اور نام رکھ لیاجائے۔  مستبشرہ کے معنی ہیں خوشخبری دینے والی۔ یہ نام مناسب ہے ۔ قدسیہ نام رکھنا درست ہے مگر مناسب نہیں ہے۔ 'نضرۃ' کے معنی ہیں  تروتازگی، شادابی۔ یہ نام بھی    ٹھیک ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2116/44-2142

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم کا کل ترکہ چھیانوے ( 96) حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے بارہ  حصے مرحوم کی بیوی کو ، چودہ چودہ حصے ہر ایک بیٹے کو اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 2240/44-2386

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کھانے کے بعد کی دعا میں زیادہ تر روایتوں میں من کا لفظ نہیں ہے جب کہ بعض روایت میں جیسے کنز العمال اور جمع الفوائد میں من کے ساتھ بھی ہے اکثر احادیث کی کتابوں میں بغیر من کے ہی موجود ہے۔ مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے ،۔ عن إسماعيل بن أبي سعيد، قال: كان أبو سعيد الخدري إذا وضع له الطعام قال: الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمين(مصنف  ابن ابی شیبۃ ،باب تسمیۃ فی الطعام ،5/139)سنن ابن ماجہ میں روایت ہے  عن أبي سعيد، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم: إذا أكل طعاما قال:الحمد لله الذي أطعمنا، وسقانا وجعلنا مسلمين(سنن ابن ماجہ، باب ما یقول اذا فرغ من الطعام ،2/1092،حدیث نمبر:3283)سنن ابوداؤد میں ہے :عن أبي سعيد الخدري، أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان إذا فرغ من طعامه قال:الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمين(سنن ابوداؤد،باب ما یقول الرجل اذا طعم ،5/659)اس کے علاوہ مسند احمد، السنن الکبری ،شعب الایمان وغیرہ کتب حدیث میں یہ دعا موجود ہے لیکن من کا لفظ نہیں ہے جب کہ بعض کتب حدیث میں یہ لفظ موجود ہے جیسے کنز العمال میں ہے : كان إذا فرغ من طعامه قال: الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمين.(کنز العمال ،7/104)اس لیےدونوں طرح درست ہے ۔

جہاں تک قائل لفظ کا تعلق ہے یعنی زید کہتا ہے کہ میں اس کا قائل نہیں ہوں ا س کا مطلب ہے میں یہ لفظ ادا نہیں کرتا اس لیے کہ یہ روایت میں نہیں ہے، باقی قائل کا کوئی اصطلاحی مفہوم نہیں ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 2306/44-3453

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خزیمہ مذکر اور کبشہ مونث کے لئے استعمال ہوتاہے۔ خزیمہ صحابی کا نام ہے، اور کبشہ تقریبا سترہ صحابیات کا نام ہے،اگرچہ کبشہ کے معنی کف گیرکےہیں۔صحابہ وصحابیات کے ناموںپر نام رکھناباعث برکت و فضیلت  ہے اور اس نیت سے نام رکھنے میں معانی کو نہیں دیکھاجاتا، اس لئے یہ نام رکھ سکتے ہیں۔

والکبشۃ المغرفۃ –معرب کفجہ و فی الصحابۃ سبع عشرۃامرئۃ اسمھن کبشۃ ۔ وکبشۃ بنت کعب بنمالکتابعیۃ وھی امراۃ  ابن قتادۃ۔ (تاج العروس من جواہر القاموس ج17 ص350 ، دارالھدایۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن خوانی و ایصال ثواب بلا شبہ درست ہے اور اس کے لیے کوئی دن مقرر کرلینے میں بھی حرج نہیں تاکہ اعزاء و اقرباء ایصال ثواب میں شریک ہوجائیں، لیکن کسی دن کی اس طرح تعیین درست نہیں ہے کہ تیسرا ہی دن ہونا ضروری ہے یا چالیسواں ہی ہونا ضروری ہے۔(۱)

(۱) عن جریر بن عبد اللّٰہ البجليِّ قال: کنا نعد الاجتماع إلی أہل المیت وصنیعۃ الطعام بعد دفنہ من النیاحۃ۔ (أخرجہ أحمد، مسندہ، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ: ج ۱، ص: ۵۰۵، رقم: ۶۹۰۵)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ومنہا الوصیۃ من المیت باتخاذ الطعام والضیافۃ یوم موتہ أو بعدہ وبإعطاء دراہم لمن یتلو القرآن لروحہ أو یسبح أو یہلل لہ وکلہا بدع منکرات باطلۃ، والمأخوذ منہا حرام للآخذ، وہو عاص بالتلاوۃ والذکر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص419
 

فقہ

Ref. No. 2464/45-3780

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  موبائل کا ریچارج محض غلط کام کے لئے نہیں ہوتاہے، بلکہ اس کا استعمال جائزو ناجائز تمام امور کے لئے ہوتاہے، اس لئے وہ اگر ناجائز کاموں میں انٹرنیٹ صرف کرتاہے تو اس کا گناہ آپ پر نہیں ہوگا ۔

واذا اجتمع المباشر والمتسبب اضیف الحکم الی المباشر (الاشباہ 502)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی تھی؟ یہ بات تاریخ میں کسی جگہ وضاحت کے ساتھ نہیں ملتی، صرف اتنا ملتا ہے کہ اس وقت بہتر افراد شہید ہوئے تھے، ان تمام کو شہادت کے ایک دن بعد قریب کے گاؤں والوں نے دفن کیا تھا۔ (۲)

(۲) فقتل من أصحاب الحسین رضي اللّٰہ عنہ إثنان وسبعون رجلاً ودفن الحسین وأصحابہ أہل الغاضریۃ من بني أسد بعد ما قتلوا بیوم۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ: ج ۸، ص: ۱۸۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص237

طہارت / وضو و غسل

 الجواب وباللّٰہ التوفیق:گھروں، کمروں اور رہائش کی جگہوں پر جو پانی کھلا ہوا رکھا ہو وہ اکثر قلیل پانی ہوتا ہے اور قلیل پانی میں بلی منہ ڈال دے اور اس نے اسی وقت چوہا کھایا ہو تو پانی ناپاک ہو جاتا ہے، اس کا استعمال درست نہیںہے؛ لیکن یہ صورت کم پیش آتی ہے، بلی نے اگر فوراً چوہا نہیں کھایا تھا، تو بلی کا جھوٹا پانی استعمال کرنا مکروہ ہے، اس پانی سے کپڑا وغیرہ دھویا یا وضو کی، تو ان کپڑوں اور اس وضو سے پڑھی گئی نمازیں مکروہ ہوئی ہیں تاہم اعادہ ضروری نہیں ہے۔
’’وہرۃ فور أکل فارۃ نجس: قولہ: أکل فارۃ فإن مکثت ساعۃ ولحست فمکروہ‘‘(۱)
’’الأمر الثالث: سؤر الہرۃ الأہلیۃ فإذا شربت الہرۃ الأہلیۃ من ماء قلیل فإنہ یکرہ  ’’الأمر الثالث: سؤر الہرۃ الأہلیۃ فإذا شربت الہرۃ الأہلیۃ من ماء قلیل فإنہ یکرہ استعمالہ لأنہا لا تتحاشی النجاسۃ وإن کان سؤرہا مکروہا ولم یکن نجسا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في السؤر‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۳۔
(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: حکم الماء الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص44

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہر وہ چیز جو وضو اور غسل میں پانی پہونچنے کے لیے مانع ہو، اس سے وضو اور غسل نہیں ہوتا، اسی میں فیوی کوک اور فیوی کول وغیرہ بھی داخل ہے: اس لیے پہلے اس کو جدا کرکے پانی بہایا جائے، پھر نماز ادا کی جائے، ورنہ اس سے غفلت کی بنا پر جو نماز ادا کی جائے گی، وہ نماز ادا نہیں ہوگی: ولابد من زوال ما یمنع من وصول الماء للجسد کشمع وعجین الخ(۱)ہو إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن إسالتہ علیہ من البدن من غیر حرج مرۃ واحدۃ حتی لو بقیت لمعۃ لم یصبہا الماء لم یجز الغسل(۲)المراد وبالأثر اللون والریح فإن شق إزالتہما سقطت(۳) البتہ پوری کوشش کے باوجود اگر فیوی کول وغیرہ کا کچھ حصہ رہ جائے تو ضرورت و حاجت کی وجہ سے وضو اور غسل میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی۔

(۱)حسن بن عمار بن علي، الشرنبلالي، مراقي الفلاح  شرح نور الإیضاح،’’فصل یفترض في الاغتسال‘‘ الخ  ص:۱۰۲
(۲) زین الدین ابن نجیم الحنفی، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص ۸۶
(۳) و یعني أثر شق زوالہ بأن یحتاج في إخراجہ إلی نحو الصابون۔ (إبراھیم بن محمد، جمع الأنھر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،‘‘ ج۱، ص۹۰)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص158