نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خالد کے جو حالات سوال میں تحریر ہیں ان کی روسے خالد کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے اس کو معزول کرنا جائز ہے(۱)  اور تلک کی رقم لینا قطعاً جائز نہیں۔

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمیٰ ونحوہ الأعشیٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۸۵)
قولہ وفاسق) من الفسق، وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، کذا في البرجندی۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۰، ۵۶۱، سعید کراچی)
ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ لإمامۃ وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص144

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال جب امام رکوع و سجود وجلسہ بھی نہیں کرسکتے تو مذکورہ شخص کی امامت درست نہیں، دوسرا نظم ضروری ہے۔
’’ولا یصلي الذي یرکع ویسجد خلف المؤمي‘‘(۲)

(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص238

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اذان ہو جانے کے بعد نماز پڑھے بغیر بلا عذر شرعی مسجد سے نکلنا مکروہ تحریمی ہے۔ اگر جماعت کے وقت واپس آنے کا ارادہ ہے، تو مکروہ نہیں ہے۔
’’وکرہ تحریماً للنہي خروج من لم یصل من مسجد أذن فیہ جری علی الغالب والمراد دخول الوقت أذن فیہ أولا إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری أو کان الخروج لمسجد حیہ ولم یصلوا فیہ أولأستاذہ لدرسہ أو لسماع الوعظ أو لحاجۃ ومن عزمہ أن یعود‘‘(۱)
وعن عثمان رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أدرکہ الأذان في المسجد ثم خرج لم یخرج لحاجۃ وہو لا یرید الرجعۃ فہو منافق‘‘(۳)

(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ،   …مطلب في کراھۃ الخروج من المسجد بعد الأذان‘‘:ج ۲، ص: ۵۰۸۔
یکرہ الخروج بعد الأذان تحریماً لمن کان داخل المسجد، وہذا الحکم مقتصر علی من کان داخل المسجد۔ (الکشمیري، العرف الشذي شرح سنن الترمذي: ج ۱، ص: ۲۱۹)
(۳) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الأذان والسنۃ فیہا، باب إذا أذن وأنت في المسجد فلا تخرج‘‘: ج۱، ص: ۵۴، رقم: ۷۳۴۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص349

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہنا بالاتفاق مسنون ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ سری وانفرادی نمازوں میں آمین آہستہ کہی جائے گی، حنفیہ کے نزدیک جہری نمازوں میں بھی آہستہ آمین کہنا افضل ہے جس کی تائید متعدد نصوص شرعیہ سے ہوتی ہے۔ لفظ آمین ایک دعاء ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت عطاء ؒکے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں ’’الآمین دعاء‘‘(۱) مجمع البحار میں ہے ’’معناہ استجب لي‘‘(۲)
اور دعاء مانگنے میں اصل اور افضل آہستہ دعاء مانگنا ہے۔{أدعوا ربکم تضرعا وخفیۃ}(۳) حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی آہستہ دعاء کی تھی {اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّاہ۳ }(۴)
’’عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقال آمین خفض بہا صوتہ‘‘(۵)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال إذا قال الإمام ’’ولا الضالین‘‘ فقولوا آمین‘‘ فإن الإمام یقولہا، رواہ أحمد، والنسائي والدارمي وإسنادہ صحیح‘‘(۶)

اس روایت میں ’’فإن الإمام یقولہا‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ ’’آمین‘‘ آہستہ کہے گا ورنہ اس جملہ کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
’’عن أبي وائل قال لم یکن عمر وعلي یجہران ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ولا التعوذ ولا آمین‘‘(۱)
’’عن أبي وائل قال کان علي وعبد اللّٰہ لا یجہران … بالتأمین‘‘(۲)

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اور آثار صحابہؓ سے معلوم ہوا ہے کہ نماز میں ’’آمین‘‘ آہستہ کہی جائے گی۔
امام طبریؒ فرماتے ہیں: ’’إن أکثر الصحابۃ والتابعین رضي اللّٰہ عنہم کانوا یخفون بہا‘‘(۳)
’’ عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: قال عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ یخفی الإمام أربعاً التعوذ وبسم اللّٰہ الرحمن الرحیم وآمین وربنا لک الحمد‘‘(۴)
’’قال شیخ الإسلام أبو بکر المرغیناني وإذا قال الإمام ولاالضالین قال آمین، ویقولہا المؤتم قال ویخفونہا‘‘(۵)
’’قال الشیخ بدر الدین العیني أي یخفی الإمام والقوم جمیعاً لفظہ آمین‘‘(۶)
’’وسننہا … والتأمین وکونہن سراً‘‘(۷)
’’وإذا فرغ من الفاتحۃ قال آمین والسنۃ فیہ الإخفاء ویخفی الإمام والمأموم‘‘(۸)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب جہر الإمام بالتأمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷۔
(۲) جمال الدین، محمد طاہر بن علی، مجمع البحار: ج ۱، ص: ۱۰۵۔
(۳) سورۃ الاعراف: ۵۵۔
(۴) سورہ مریم: ۳۔
(۵) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، باب ما جاء في التأمین‘‘: ج ۲، ص: ۵۷، رقم: ۲۴۸۔
(۶) أو جز المسالک، ’’کتاب الصلوۃ: التأمین خلف الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲۔
(۱) أخرجہ أبوجعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار: ’’کتاب الصلاۃ‘‘ ج ۱، ص: ۹۹۔
(۲) المعجم الکبیر: رقم: ۹۲۰۷، مکتبہ العلوم والحکم۔(شاملہ)
(۳) أبوظفر العثماني، إعلاء السنن: ج ۲، ص: ۲۲۳
(۴) اندلسي، المحلی بالآثار: ج۲، ص: ۲۸۰(شاملہ)
(۵) ابن الہمام، فتح القدیر مع الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱
(۶) العیني، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵
(۷) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب سنن الصلاۃ‘‘: ج ۲،ص: ۱۷۲
(۸) الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث کیفیۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۷، زکریا دیوبندـ۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص390

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1289

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  زکوة کی ادائیگی کے لئے یا تو آپ  والد صاحب  کو پیسے دیدیں اور وہ اپنے اختیار سے  اپنی زکوة دیں یا آپ ان کی اجازت لے کر ان کی طرف سے بھی زکوة ادا کرسکتے ہیں۔ ان کی اجازت کے بغیر ان کی طرف سے دیں گے تو زکوة ادا نہیں ہوگی۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 38 / 1189

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Istikhara is a very helpful way to ask for Allah’s guidance. So it is better to offer 2 Rakats with the intention of Istikhara then recites the Dua for Istikhara which may be found in all the books of prayer. You will be guided insha-Allah.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

حدیث و سنت

Ref. No. 40/877

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  محدثین کے درمیان اس حدیث  کی صحت و ضعف کے تعلق سے  کافی اختلاف  ہے، ہم اجمالااًایمان لانے کے  مکلف ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 908/41-29B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمانہ حیض میں عورت کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ اگر رکھ لیا تو روزہ شمار نہ ہوگا۔ اور شریعت کے حکم کی خلاف ورزی کی بناء پر عورت گنہگار ہوگی۔ زمانہ حیض کے روزوں کی قضاء بعد میں بہرحال کرنی ہوگی۔

ولا يخفى أن الصوم الذي هو الإمساك عن المفطرات نهارا بنيته يتحقق من المسلم الخالي عن حيض ونفاس الی ان قال وذكر ما تتوقف عليه صحته وهي ثلاثة: الإسلام والطهارة عن الحيض والنفاس والنية كما في البدائع (رد المحتار 2/371)

قال - رحمه الله - (يمنع صلاة وصوما) أي الحيض يمنع صلاة وصوما لإجماع المسلمين على ذلك قال - رحمه الله - (وتقضيه دونها) أي تقضي الصوم دون الصلاة لما روي عن معاذة العدوية قالت سألت عائشة - رضي الله عنها - فقلت ما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة فقالت أحرورية أنت قلت لست بحرورية ولكني أسأل قالت «كان يصيبنا ذلك فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاة» أخرجاه في الصحيحين وعليه انعقد الإجماع؛ ولأن في قضاء الصلاة حرجا لتكررها في كل يوم وتكرار الحيض في كل شهر بخلاف الصوم حيث يجب في السنة شهرا واحدا والمرأة لا تحيض عادة في الشهر إلا مرة فلا حرج (تبیین الحقائق 1/56)

واجمعوا علی ان الحائض یحرم علیھا الصوم ولو صامت لم یصح ولزمھا القضاء (التفسیر المظھری 1/195)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1202/42-503

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   سرکاری ملازم ہو یا کسی کمپنی کا ملازم ہو سفر کرنے پر جو خرچ آتا ہے وہی وصول کرنا چاہئے ، اگر کسی کے یہاں مہمان ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے کچھ خرچ نہیں ہوا تو ایسی صورت میں جو خرچ نہیں ہوا وہ لینا درست نہیں ہے، اس لئے کہ یہاں پر جھوٹ بول کر پیسہ وصول کرنا لازم آئے گا۔ اسی طرح سو روپئے کی جگہ دو سو روپئے وصول کرنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ یہ بھی جھوٹ اور دھوکہ  کے دائرے میں آتاہے۔ ہاں اگر سو روپئے خرچ ہوئے لیکن کمپنی سے پچاس روپئے ہی ملے تو اگلے سفر میں بڑھاکر اپنےباقی پچاس روپئے وصول کئے جاسکتے ہیں۔

قال النبی ﷺ لیس منا من غش۔ (مسند احمد، ابتداء مسند ابی ھریرۃ، 7/123، حدیث نمبر 7290) لان عین الکذب حرام قلت وھو الحق قال اللہ تعالی قتل الخراصون (الذاریات 10) وقال علیہ السلام الکذب مع الفجور وھما فی النار (فتاوی شامی، فرع یکرہ اعطاء سائل المسجد 6/427) لو ظفر بجنس حقہ فلہ اخذہ (شامی، مطلب فی نفقۃ الاصول 3/622)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 1723/43-1410

In the name of Allah the most Grcious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

One should not recite the same Surah in both rak'ats in Fard namaz (obligatory prayers). The jurists have considered it disliked (Makrooh Tanzihi). However, there is no problem if this happens by mistake. In any case, there is no need to do sajdae sahw or to repeat the prayer. However, in Nawafil (optional prayers) it is permissible to recite the same surahs in both rak'ahs.

لا بأس أن يقرأ سورةً ويعيدها في الثانية. (قوله: لا بأس أن يقرأ سورةً إلخ ) أفاد أنه يكره تنزيها، وعليه يحمل جزم القنية بالكراهة، ويحمل فعله عليه الصلاة والسلام لذلك على بيان الجواز، هذا إذا لم يضطر، فإن اضطر بأن قرأ في الأولى: {قل أعوذ برب الناس} الناس أعادها في الثانية إن لم يختم، نهر (الدر المختار مع شرحه ردالمحتار (الشامي) (1 / 546)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband