Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل الأذان غیر مشروعۃ وأما الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد الأذان فمستحبۃ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا سمعتم مؤذنا فقولوا مثل ما یقول، ثم صلوا علي، فإنہ من صلی علي صلاۃ صلی اللّٰہ علیہ بہا عشرا، ثم سلوا لی الوسیلۃ۔ فإنہا منزلۃ في الجنۃ لا تنبغي إلا لعبد من عباد اللّٰہ، وأرجو أن أکون أنا۔ فمن سأل لي الوسیلۃ حلت لہ الشفاعۃ‘‘(۱)
أما إذا کان المؤذن یقول ذلک برفع صوت کالأذان فذلک بدعۃ؛ لأنہ یوہم أنہا جزء من الأذان، والزیادۃ في الأذان لا تجوز؛ ولو کان ذلک خیرا لسبق إلیہ السلف الصالح في القرون المشہود لہا بالخیر ولم یوجد ذلک فیہا۔ فعلینا أن نحافظ علی ما کان علیہ العمل أیام الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصحابتہ ومن بعدہم من عدم رفع المؤذن صوتہ بہا، فلذا رفع الصوت بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غیر مشروعۃ، وعلینا أن نصلي ونسلم علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سرا، وأما الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم بعد الصلوات الخمسۃ سرا، وقبل ابتداء المدرسۃ و انتہائہا فلا بأس بہ مالم یعتقد لزومہا ولم یلم أحدا علی ترکہا۔ وفي جمیع الأحوال، لا یجوز تحویل ہذہ المسألۃ الفرعیۃ إلی سبب للشقاق والنزاع في مساجد المسلمین فالأصل احترام العمل والعاملین والمجادلۃ بالتي ہي أحسن۔
(۱) أخرجہ أحمد، في مسندہ، أول مسند عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص، ج۶، ص: ۱۴۱،رقم: ۶۵۶۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص242
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حالت سجدہ میں انگلیوں کو ملا کر رکھنا مسنون ہے، انگلیوں کو بہت کھول کر رکھنا خلاف سنت ہے۔(۱)
(۱) (قولہ ضاما أصابع یدیہ) أي ملصقا جنبات بعضہا ببعض قہستاني وغیرہ، ولا یندب الضم إلا ہنا ولا التفریج إلا في الرکوع کما في الزیلعي وغیرہ (قولہ لتتوجہ للقبلۃ) فإنہ لو فرجہا یبقی الإبہام والخنصر غیر متوجہین، وہذا التعلیل عزاہ في ہامش الخزائن إلی الشمني وغیرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۳)
(وجہہ بین کفیہ ضاما أصابع یدیہ) فإن الأصابع تترک علی العادۃ فیما عدا الرکوع والسجود۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ: صفۃ الشروع في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص384
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز دوبارہ نہیں پڑھی جاتی اگر تنہا فرض نماز پڑھ لی اور پھر جماعت شروع ہوئی تو اگر وہ نماز عشاء یا ظہر کی ہے تو نفل نماز کی نیت کرکے امام کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے۔ اور اگر فجر، عصر یا مغرب کی نماز ہے تو پھر جماعت میں شریک نہ ہو۔(۲)
(۲) وصح اقتداء متنفل بمفترض۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۸)
وإذا أتمہا یدخل مع القوم، والذي یصلي معہم نافلۃ، لأن الفرض لایتکرر في وقت واحد۔ (المرغیناني، ہدایہ، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص425
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 37 / 1083
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال جبکہ اس جگہ جمعہ قائم کرنے کی شرائط مفقود ہیں تو وہاں جمعہ کی نماز بند کردینی چاہئے، اور اب ظہر کی نماز ہی پڑھنی چاہئے۔ جمعہ پڑھنے سے ظہر کا فرض ساقط نہیں ہوگا، بلکہ وہ بدستور باقی رہے گا۔ تاہم مذکورہ بستی کا کسی ماہر مفتی سے ،معائنہ کرادیا جائے اور وہ جو فتوی دیں اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Zakat / Charity / Aid
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 39/1078
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موبائل کی گھنٹی سے دوسرے نمازیوں کو خلل ہوتا ہے اس لئے نماز سے پہلے ہی اس کا دھیان رکھنا چاہئے اور موبائل کو سائلنٹ پر رکھ دینا چاہئے۔ لیکن اگر بند کرنا بھول گیا اور نماز میں گھنٹی بجی تو ایک ہاتھ سے بٹن دباکر بند کردینا چاہئے، اور اگر ایک ہاتھ کو جیب میں ڈالا اور نکال کربند کردیا تو بھی نماز ہوجائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے، اور زیادہ دیر لگنے سے نماز کے فاسد ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ اس لئے ایسا کرنے سے بچنا چاہئے۔ اوراگر دونوں ہاتھ لگادیا یا کوئی اور عمل کثیر کردیا تو نماز ٹوٹ جائے گی اور دوبارہ بڑھنی ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 904/41-10B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی میں نماز میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا درست نہیں ہے۔ اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ دراصل قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا خارج نماز شخص سے لقمہ لینے کے مترادف ہے جو کہ مفسد صلوۃ ہے۔ حدیث ذکوان کو روایت کرنے والی تنہا حضرت عائشہ ہیں، اور اس روایت کی مختلف توجیہات علماء نے ذکر کی ہیں، مثلا یہ کہ حضرت ذکوان سلام پھیرنے کے بعد قرآن کریم دیکھتے تھے اور پھر نماز شروع کرتے تھے وغیرہ۔
ذكروا لأبي حنيفة في علة الفساد وجهين. أحدهما: أن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير. والثاني أنه تلقن من المصحف فصار كما إذا تلقن من غيره. وعلى الثاني لا فرق بين الموضوع والمحمول عنده، وعلى الأول يفترقان وصحح الثاني في الكافي تبعا لتصحيح السرخسي؛ (الدرالمختار 1/624)
أثر ذكوان إن صح فهو محمول على أنه كان يقرأ من المصحف قبل شروعه في الصلاة أي ينظر فيه ويتلقن منه ثم يقوم فيصلي، وقيل: تؤول بأنه كان يفعل بين كل شفعين فيحفظ مقدار ما يقرأ في الركعتين، فظن الراوي أنه كان يقرأ من المصحف فنقل ما ظن، ويؤيد ما ذكرناه أن القراءة في المصحف مكروهة، ولا نظن بعائشة - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - أنها كانت ترضى بالمكروه، وتصلي خلف من يصلي بصلاة مكروهة. (البنایۃ شرح الھدایۃ 2/420)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 994/41-158
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرکیہ وکفریہ اعمال سے بچتے ہوئے کسی بھی غیرمسلم سے علاج کرایاجاسکتا ہے۔ ولاباس بالرقی مالم یکن فیہ شرک (مسلم)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1483/42-906
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسیلمہ کذاب دعوی نبوت کی وجہ سے کافر و مرتد ہوگیاتھا اسی وجہ سے اسے قتال کیا گیاتھا، بغاوت ضمنی چیز تھی ۔(2) مسیلمہ کذاب کو اس کے دعوی نبوت کی وجہ سے مرتد کہا جائے گا زندیق نہیں ۔علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں مختلف جگہ اس کو مرتد قرار دیا ہے ہاںآپ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں دو گروہ تھے ایک مرتد تھاجیسے مسیلمہ کا گروہ اور ایک باغیوں کا گروہ تھا جو اسلام پر رہتے ہوئے زکوۃ دینے سے انکار کررہاتھااور دونوں سے ہی قتال کیا گیا تھا اور مسیلمہ نے فوج تیار کی تھی اور اپنی فوج کےساتھ جنگ کے لیے آیا تھا اس لیے شبہ ہورتاہے کہ وہ باغی تھا یا مرتد تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مرتد تھا۔
(3) دعوت مرتد کو بھی دی جاسکتی ہے او رزندیق کو بھی یہی وجہ ہے کہ علماء نے زندیق کے توبہ قبول کرنے کی بات کہی ہے تاہم چوں کہ زندیق اس شخص کو کہتے ہیں جو ا پنے عقائد کفریہ کو دجل و تلبیس نیز ملمع سازی کرتے ہوئے اس خباثت باطنیہ کو اسلامی صورت میں ظاہر کرتا ہے اس لیے ایسے شخص کو اسلامی دعوت مفید نہیں ہوتی ہے اس لیے کہ اپنے دجل و فریب سے لوگوں کے سامنے اپنے اسلام کو دکھا کر باطل کی اسلامی تاویل کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ۔
كانوا صنفين صنف ارتدوا عن الدين ونابدوا الملة وعادوا إلى كفرهم وهم الذين عناهم أبو هريرة بقوله " وكفر من كفر من العرب " وهذه الفرقة طائفتان إحداهما أصحاب مسيلمة من بني حنيفة وغيرهم الذين صدقوه على دعواه في النبوة وأصحاب الأسود العنسي ومن كان من مستجيبيه من أهل اليمن وغيرهم وهذه الفرقة بأسرها منكرة لنبوة سيدنا محمد - صلى الله عليه وسلم - مدعية للنبوة لغيره فقاتلهم أبو بكر رضي الله تعالى عنه حتى قتل الله مسيلمة باليمامة والعنسي بالصنعاء وانقضت جموعهم وهلك أكثرهم والطائفة الثانية ارتدوا عن الدين فأنكروا الشرائع وتركوا الصلاة والزكاة وغيرهما من أمور الدين وعادوا إلى ما كانوا عليه في الجاهلية فلم يكن مسجد لله تعالى في بسيط الأرض إلا ثلاثة مساجد مسجد مكة ومسجد المدينة ومسجد عبد القيس في البحرين في قرية يقال لها جواثى والصنف الآخر هم الذين فرقوا بين الصلاة والزكاة فأقروا بالصلاة وأنكروا فرض الزكاة ووجوب أدائها إلى الإمام وهؤلاء على الحقيقة أهل بغي وإنما لم يدعوا بهذا الاسم في ذلك الزمان خصوصا لدخولهم في غمار أهل الردة فأضيف الاسم في الجملة إلى الردة إذ كانت أعظم الأمرين وأهمهما وأرخ قتال أهل البغي في زمن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه إذا كانوا منفردين في زمانه لم يختلطوا بأهل الشرك(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ، باب وجوب الزکاۃ ،8/244) ۔وذهب مالك إلى أن توبة الزنديق لا تقبل ويحكى ذلك أيضا عن أحمد وقال النووي اختلف أصحابنا في قبول توبة الزنديق وهو الذي ينكر الشرع جملة فذكروا فيه خمسة أوجه لأصحابنا أصحها والأصوب منها قبولها مطلقا للأحاديث الصحيحة المطلقة. والثاني لا تقبل ويتحتم قتله لكنه إن صدق فيه توبته نفعه ذلك في الدال الآخرة وكان من أهل الجنة. والثالث أنه إن تاب مرة واحدة قبلت توبته فإن تكرر ذلك منه لم تقبل. والرابع إن أسلم ابتداء من غير طلب قبل منه وإن كان تحت السيف فلا تقبل. والخامس إن كان داعيا إلى الضلال لم تقبل منه وإلا قبل منه (قلت) تقبل توبة الزنديق عندنا وعن أبي حنيفة إذا أوتيت بزنديق استتبه فإن تاب قبلت توبته وفي رواية عن أصحابنا لا تقبل توبته. وفيه أن الردة لا تسقط الزكاة عن المرتد إذا وجبت في ماله قاله في التوضيح (ایضا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1926/43-1835
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرخود کا حصہ نہیں ہے تو اس جانور کے گوشت بنانے کی اجرت لینا جائز ہے جس میں بیوی نے حصہ لے رکھا ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند