تجارت و ملازمت

Ref. No. 1931/43-1830

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قسطوں پر خریداری کی مذکورہ صورت جائز نہیں ہے۔  اگر آپ  اس طرح کی کسی کمپنی کے ساتھ معاملہ کریں تو وقت پر ادائیگی کریں تاکہ سود نہ دینا پڑے۔ جو اضافی رقم بطور جرمانہ کے ادا کیجاتی ہے وہ سود کے زمرے میں آتی ہے۔ سودی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ جس طرح کسی مسلمان کے لئے سود لینا جائز نہیں ہے اسی طرح اس کا  دینا بھی جائز نہیں ہے۔ حدیث میں سودی معاملہ میں ہر طرح کے تعاون کو حرام قرار دیا گیا ہے، اور اسے سنگین جرم بتایاگیا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے مذکورہ طریقہ پر نفع حاصل کرنے سے احتراز لازم ہے۔ 

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة:2] ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ . فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ۔ عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»۔(الصحيح لمسلم ، كتاب البيوع ، باب لعن آكل الربوا ج: 2 ص: 27)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2036/44-2011

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمہور احناف کے نزدیک نفی پر انگلی  کو اشارہ کے لئے اٹھانا اور اثبات پر انگلی کا رخ نیچے کردیناصحیح طریقہ ہے۔

والصحیح المختار عندجمہوراصحابنا  انہ یضع کفیہ علی فخذیہ ثم عند وصولہ الی کلمۃ التوحید یعقد الخنصر والبنصر و یحلق الوسطی والابھام ویشیر بالمسبحۃ  رافعا لھا عندالنفی وواضعا لھا عندالاثبات ثم یستمر علی ذلک لانہ ثبت  العقد عندالاشارۃ بلاخلاف ولم یوجد امر بتفییرہ فالاصل بقاء الشئ علی ما ھو علیہ واستصحابہ الی آخر امرہ۔ (رسائل ابن عابدین 1/134) (نجم الفتاوی 2/354)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی پیر یا بزرگ کے نام پر جانور پالنے کا مقصد ہوتا ہے کہ اس کو اسی کے نام پر ذبح کیا جائے گا تو اگر اس کو پیر یا بزرگ ہی کے نام پر ذبح کیا جائے تو {ما أہل بہ لغیر اللّٰہ} کے نام پر ذبح کیا ہوا ہے اور اگر پیر یا بزرگ کا نام دینے سے مقصد یہ ہوکہ فلاں کو اس کا ثواب پہونچے، لیکن ذبح اللہ ہی کے نام پر ہو تو اس کا کھانا درست ہے اور ذبح جائز ہے، البتہ یہ طریقہ کہ فلاں کے نام کا جانور ہے پہلی صورت کی نشاندہی کرتا ہے؛ اس لئے اس طریقہ کو اختیار کرنا درست نہیں۔(۱)

(۱) لعن اللّٰہ من ذبح لغیرہ اللّٰہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأضاحي، باب تحریم الذبح‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۱، رقم: ۱۹۷۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
قال العلماء: لو أن مسلما ذابح ذبیحۃ …… وقصد بذبحہا التقرب إلی غیر اللّٰہ صار مرتداً فذبیحتہ مرتد۔ (امام طبري، جامع البیان: ج ۲، ص: ۱۲۰)
وأما النذر الذي ینذرہ أکثر العوام علی ما ہو مشاہد کأن یکون لإنسان غائب أو مریض، أو لہ حاحۃ ضروریۃ فیأتي بعض الصلحاء فیجعل سترہ علی رأسہ … إلی… فہذا النذر باطل بالإجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: قبیل باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص333

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2465/45-3778

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر مرحوم کے بیٹے موجود ہیں تو پوتوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا، اور اگر میت کی کوئی مذکر اولاد نہیں  ہے تو پھر پوتے بھی  میراث کے مستحق ہوں گے۔  اب رہی یہ بات کہ کس کو کتنا ملے گا، اس کے لئے تمام ورثاء کی تفصیل مطلوب ہے مثلا والد کے انتقال کے وقت ان کی زوجہ  باحیات تھیں یا نہیں، اولاد میں کتنے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، اور اگر بیٹے نہیں ہیں تو کتنے پوتے اور پوتیاں ہیں؟  تمام تفصیلات لکھ کر دوبارہ سوال کریں تاکہ صحیح تقسیم کے ساتھ جواب  ارسال کیاجاسکے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 2540/45-3880

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مخنث ہونا جانور میں بھی عیب ہے، اس لئے اس کی قربانی جائز نہیں اور عقیقہ بھی جائز نہیں ۔ البتہ مخنث بکرے کا  گوشت کھانا جائز ہے اور اس کا صدقہ کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح قربانی کے بکرے کی  مانند عقیقہ کے بکرے کا بھی ایک سال پورا ہونا  ضروری ہے،  اور لڑکی کے عقیقہ میں بکری کر نا ضروری نہیں ہے بلکہ  ایک  بکرا  بھی کافی ہوگا۔ لڑکا ہو تو بکرااور لڑکی ہو تو بکری ضروری سمجھنا  شریعت میں  بے اصل اور بے بنیاد بات ہے۔

عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة۔۔الخ (المستدرک للحاکم: (کتاب الذبائح، رقم الحدیث: 7595، 266/4، ط: دار الكتب العلمية)
عن أم كرز قالت: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم بالحديبية أسأله عن لحوم الهدي، فسمعته يقول: «على الغلام شاتان، وعلى الجارية شاة، لا يضركم ذكرانا كن أم إناثا» (سنن النسائی: (156/7، ط: مكتب المطبوعات الاسلامية)
يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة۔۔۔۔شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصا، (رد المحتار: (336/6، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2581/45-3946

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نوافل کی جماعت تداعی کے ساتھ مکروہ ہے، اور دولوگوں میں تداعی کا تحقق نہیں ہوتاہے، اس لئے  اوابین ، تہجد یا کسی اور نفل نماز میں ایک حافظ دوسرے کو جماعت میں قرآن سنائے  تاکہ قرآن پختہ ہوجائے اور رمضان میں تراویح پڑھانے میں سہولت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نجاست حقیقی سے پاک ہونے کو طہارت حقیقی کہتے ہیں اور نجاست حکمی سے پاک ہونے کو طہارت حکمی کہتے ہیں۔
’’عرّف صاحب البحر الطہارۃ شرعاً بأنہا زوال حدث أو خبث وہو تعریف صحیح لصدقہ بالوضوء وغیرہ کالغسل من الجنابۃ أو الحیض أو النفاس بل وبالتیمم  أیضاً‘‘(۱)
’’ویختص الخبث بالحقیقي ویختص الحدث بالحکمي‘‘(۲)
’’ثم الخبث یطلق علی الحقیقي والحدث علی الحکمي والنجس یطلق علیہما … والتطہیر إن فسرہا بالإزالۃ فحسن إضافۃ التطہیر إلیہا وإن فسر باثبات الطہارۃ فالمراد طہارۃ محلہا کالبدن والثوب والمکان لأن نجاسۃ ہٰذہ الأشیاء مجاورۃ النجاسۃ فإذا زالت ظہرت الطہارۃ الأصلیۃ‘‘(۳)
(۱) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’ کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۔…بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ پر…
…(۲) المرجع السابق، ’’باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ج ، ص: ۱۵۲۔
(۳)  بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس وتطہیرہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص60

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صاحب نور الایضاح نے اٹھارہ اشیا تحریر کی ہیں:
(۱) دونوں ہاتھوں کو مع کہنیوں کے دھونا۔
(۲) شروع میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا۔
(۳) ابتداء میں مسواک کرنا۔
(۴) تین دفعہ کلی کرنا۔
(۵) ناک میں پانی ڈالنا۔
(۶) کلی اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا، علاوہ روزہ دار کے۔
(۷) داڑھی کا خلال کرنا۔
(۸) انگلیوں کا خلال کرنا۔
(۹) ہر عضو کو تین تین بار دھونا۔
(۱۰) پورے سر کا ایک مرتبہ مسح کرنا۔
(۱۱) دونوں کانوں کا مسح کرنا۔
(۱۲) مَل کر دھونا۔
(۱۳) پے در پے وضو کرنا یعنی پہلا عضو خشک ہونے سے پہلے دوسرا شروع کر دینا۔
(۱۴) وضو کی نیت کرنا۔
(۱۵) اعضاء وضو کو دھونے میں ترتیب قائم رکھنا، جیسا کہ کلام پاک میں ہے۔
(۱۶) دائیں جانب سے شروع کرنا۔
(۱۷) مسح میں سر کے سامنے سے شروع کرنا
(۱۸) گردن کا مسح کرنا۔
’’یسن في الوضوء ثمانیۃ عشر شیئاً غسل الیدین … إلی قولہ مسح الرقبہ لا الحلقوم‘‘(۱)

(۱) الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل یسن في الوضوء‘‘: ص: ۳۴۔ و ہکذا في المراقي مع حاشیۃ الطحطاوي: ’’کتاب الطہارۃ: فصل في سنن الوضوء‘‘: ج ، ص: ۶۴، یا ۷۴۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص170

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :ایسا شخص آنکھ کے علاوہ چہرہ کے دیگر حصہ کو دھوئے گا یا تر ہاتھ اس طرح پھیرے گا کہ چہرہ پر پانی بہنے لگے؛ البتہ آنکھ پر اگر ممکن ہو، تو مسح کرلے اور اگر مسح باعث تکلیف ہو، تو مسح بھی ترک کردے ’’و إذا رمد و أمر أن لایغسل عینہ۔۔۔جاز لہ المسح و إن ضرہ المسح ترکہ‘‘ (۱)

(۱) الشرنبلالي، نورالإیضاح،  ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، فصل إذا افتصد أو جرح،‘‘ ج۱،ص:۴۷، و إذا رمد و أمر أي أمرہ طبیب مسلم حاذق أن لا یغسل عینہ أو غلب علی ظنہ ضرر الغسل ترکہ۔ (طحطاوي،حاشیۃ الطحطاوی، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الجبیرۃ و نحوہا،‘‘ج۱، ص:۱۳۷)؛ و فاعلم أنہ لا خلاف في أنہ إذا کان المسح علی الجبیرۃ یضرہ أنہ یسقط عنہ المسح لأن الغسل یسقط بالعذر فالمسح أولی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۳۲۱، دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص271

نماز / جمعہ و عیدین
ٹی وی دیکھنے والے کی امامت: (۱۱۷)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک مسجد کا مؤذن ہے جو وقتاً فوقتاً امامت بھی کرتا ہے اور ٹی وی بھی دیکھتا ہے۔ یعنی فلم تو نہیں دیکھتا لیکن ٹی وی میں صرف کھیل دیکھتا ہے۔ مذکورہ بالا شخص اذان اور نماز کے فرائض انجام دے سکتا ہے یا نہیں؟ فقط: والسلام المستفتی: محمد شفیق، قنوج