Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1555/43-1086
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تکبیرات انتقالیہ مسنون ہیں ، امام کے لئے ان کو جہرا ادا کرنا بھی مسنون ہے، اگر امام نے تکبیر سرا کہی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اور سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوگا۔ صورت مسئولہ میں سجدہ سہو نہیں کرناچاہئے تھا لیکن اگر کرلیا تو بھی نماز درست ہوگئی۔
فلا بد من رفع الرأس ليتحقق الانتقال إليها والتكبير سنة. وقوله: (لما روينا) إشارة إلى قوله "؛ لأن «النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يكبر عند كل خفض ورفع» (العنایۃ شرح الھدایۃ، باب صفۃ الصلوۃ 1/307) (ثم يرفع) المصلي (رأسه) من السجود (مكبرا) الرفع فرض، والتكبير سنة كذا في أكثر الكتب لكن الصحيح من مذهب الإمام أن الانتقال فرض، والرفع سنة كما في المطلب. (مجمع الانھر، فصل صفۃ الشروع فی الصلوۃ 1/98)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2031/44-1997
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کو اس قدر جلدبازی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ شوہر کے غائب ہونے کی رپورٹ کرکے کسی دارالقضاء سے رجوع کرنا چاہیے تھا تاکہ مناسب طریقہ سے نکاح کو فسخ کیاجائے۔ کم از کم کسی مفتی صاحب سے ہی مسئلہ معلوم کرلینا چاہیے تھا۔ بہرحال صورت مسئولہ میں یہ عورت اپنے پہلے شوہر کی ہی بیوی ہے، دوسرے مرد سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔ اور شوہر کا مال شوہر کی ہی ملکیت میں رہے گا، عورت کا اس کو اپنے نام کرالینا ناجائز اور حرام ہے۔ جو زمین مسجد کو دیدی گئی وہ زمین بھی شوہر کے حوالہ کردی جائے، اس پر شوہر کو مکمل اختیار ہے، چاہے تو مسجد رہنے دے اور چاہے تو واپس لے لے۔
ولو قضى على الغائب بلا نائب ينفذ) في أظهر الروايتين عن أصحابنا". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 414)
"قلت: ويؤيده ما يأتي قريبا في المسخر، وكذا ما في الفتح من باب المفقود لايجوز القضاء على الغائب إلا إذا رأى القاضي مصلحة في الحكم له وعليه فحكم فإنه ينفذ؛ لأنه مجتهد فيه اهـ". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 414)
وقال في الدر المنتقى: ليس بأولى، لقول القهستاني: لو أفتى به في موضع الضرورة لا بأس به على ما أظن اهـ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 295)
"وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس" (المبسوط للسرخسي ـ موافق للمطبوع (11/ 64)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2117/44-2140
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی اس خالی زمین پر جو مسجد کے لئے وقف تھی، مسجد بنانا بلا شبہہ جائز ہے، اس کو مسجد ہی رہنے دیا جائے، اب اس پر مسجد کے احکام نافذ ہوں گے۔ جولوگ وہاں مسجد بنانے کے خلاف ہیں ان کے پاس ممانعت کی کوئی وجہ شرعی اگر ہو تو ضرور مطلع کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2307/44-3470
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں صدقہ کرنا واجب ہے، اس لئے کہ صدقہ ان چیزوں میں سے ہے جس کی نذرماننا درست ہے، اور دشمن کی موت کی تمنا کرنا کوئی معصیت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:افطار کے وقت اس طرح اجتماعی دعاء وایصال ثواب کا ثبوت کہیں دیکھا نہیں(۱) اگر اتفاق سے اس طرح دعاء کی گئی تو کوئی حرج نہیں، لیکن اس کو سنت سمجھ کر اس کا التزام نہ کیا جائے۔(۲)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
(۲) من أحدث حدثا أو آوي محدثا فعلیہ لعنۃ اللّٰہ والملائکۃ والناس أجمعین لا یقبل اللّٰہ منہ صرفاً ولا عدلاً۔ (فتاویٰ عزیزی فارسي، رسالہ بیع کنیزان: ص: ۷۵؛ بحوالہ کفایت المفتي: ج ۲، ص: ۲۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص420
مساجد و مدارس
Ref. No. 2577/45-3951
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طالب علم کو سبق پڑھانا اور سبق یاد کرانے کے لئے اس سے پوچھنا اور تنبیہ کرنا استاذ کی اخلاقی ذمہ داری ہے،بچہ کے دماغ میں بٹھانا اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اور ذمہ داروں کی پوچھ گچھ کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پر کوئی الزام لگانا مقصود ہے، چنانچہ جو بچہ غبی ہے، کئی بار یاد کرانے پر بھی وہ یاد نہیں رکھ پاتاہے تو ذمہ داران اس کی بابت کوئی سوال نہیں کرتے ہیں۔ لیکن جو طالب علم ذہنی طور پر ٹھیک ہے اور پھر بھی فیل ہورہاہے اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ استاذ کی مکمل توجہ اور تنبیہ نہ ہونے کی وجہ سے بچہ نے سستی کی، اگر متعلقہ استاذ تھوڑی سختی سے پیش آتے تو بچہ فیل نہ ہوتا۔ تاہم اگر استاذ نے اپنے طور پر سبق سن کر ، تنبیہ اور سختی سے پیش آکر سبق یاد کرانے کی کوشش کی لیکن پھر بھی بچہ فیل ہوا تو استاذ پر کوئی الزام نہیں۔ اگر استاذ نے پڑھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی، اپنی ذمہ ادری کو مکمل طور پر پورا کیا، اور کلاس کے اکثر بچے پاس ہوئے پھر ایک دو بچے فیل ہوجائیں تو یہ استاذ کی غلطی متصور نہ ہوگی، اور اس طالب علم کے حوالہ سے استاذ مسئول نہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
اسلامی عقائد
Ref. No. 2633/45-4040
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈاکٹر کے لئے مخصوص لیب والوں سے ٹیست کرانے پر بالخصوص میڈیکل اسٹور سے دوا خریدنے پر مجبور کرنا اور کمیشن لینا شرعاً ناجائز ہے، کیونکہ ڈاکٹر مریض کو دیکھنے اور دوا تجویز کرنے کی فیس لینا ہے اس پر لازم ہے کہ مریض کے ساتھ ہمدردی وخیرخواہی کرے اس لئے ڈاکٹروں کا کمیشن لینا خیر خواہی کے خلاف ہے جب کہ شرعی حکم ہے:’’وینصح لہ اذا غاب أو شہد‘‘ (ترمذی: رقم: ٢٧٣٧)
حکم خدا وندی ہے:
یا ایہا الذین آمنوا لاتأکلوا أموالکم بینکم بالباطل‘‘ اس کی تفسیر میں علامہ آلوسی نے فرمایا ’’والمعنی لا یأکل بعضکم أموال بعض والمراد بالباطل ما یخالف الشرع کالربا والقمار البخس والظلم‘‘ (تفسیر روح المعانی: ج ٥، ص: ١٧، النساء: ٢٩)
صورت مسئولہ میں ڈاکٹر کی طرف سے کوئی ایسا عمل نہیں پایا گیا جس پر شرعاً معاوضہ لینا جائز ہو، بلکہ کمیشن کے نام پر لینا رشوت ہے، جس پر لینے اوردینے والے دونوں گناہگار ہوں گے، البتہ اگر کمیشن نہ دینے پر لیب کے بند ہونے کا یقین ہو تو کمیشن دینے کی گنجائش ہوگی البتہ لینا ناجائز ہی ہوگا۔
لأن الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجر‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الاجارۃ‘‘: ج ٩،ص: ٠٣١)
وکذلک اذا قال ہذا لقول شخص معین فدلہ علیہ بالقول بدون عمل فلیس لہ اجرۃ لأن الدلالۃ والاشارۃ لیستا مما یؤخذ علیہما اجر‘‘ (درر الاحکام شرح مجلۃ الاحکام: ج ١، ص: ٥٠٢، ٥٠٣)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نجاست صاف کرنے کے لئے کپڑے یا ٹیشو پیپر کا استعمال کرنا چاہئے، لکھنے کے قابل کاغذ سے استنجا کرنا یا نجاست زائل کرنا درست نہیں، انگریزی اخبار پر موجود انگریزی حروف بھی قابل احترام ہیں ان کی توہین کرنا اور ان سے نجاست صاف کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ انگریزی میں بھی کوئی قابل احترام جملہ لکھا ہوا ہو سکتا ہے۔
’’إن للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ … ومفادہ الحرمۃ بالمکتوب مطلقاً وإذا کانت العلۃ في الأبیض کونہ آلۃ للکتابۃ کما ذکرناہ یؤخذ منہا عدم الکراہۃ فیما لا یصلح لہا إذا کان قالعاً للنجاسۃ غیر متقوم کما قدمناہ من جوازہ بالخرق البوالي‘‘(۲)
’’ولو قطع الحرف من الحرف أو خیط علی بعض الحروف حتی لم تبق الکلمۃ متصلۃ لا تزول الکراہۃ لأن للحروف المفردۃ حرمۃ وکذا لو کان علیہا الملک أو الألف وحدہا أو اللام‘‘(۱)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۰۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فصل في االلبس‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص45
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں جن چیزوںکا ذکر کیا گیا ہے، ان سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ وضو کرلینا مستحب ہے: الوضوء ثلاثۃ أنواع فرض علی المحدث للصلوۃ، و واجب للطواف بالکعبۃ، ومندوب بعد غیبۃ وکذب، و نمیمۃ و انشاد شعر الخ(۱)
ولا ینقض الکلام الفاحش الوضوء الخ۔(۲)
والکلام الفاحش لا ینقض الوضوء و إن کان في الصلوٰۃ! لأن الحدث اسم لخارج نجس، ولم یوجد ہذا الحدث في الکلام الفاحش۔(۳)
(۱)محمد بن فرامرز، دررالحکام شرح غرر الأحکام ، ’’باب نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۲
(۲) السرخسي، المبسوط، ’’ باب الوضوء والغسل،‘‘ج۱، ص:۷۹۲
(۳)أبوالمعالي، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني في بیان ما یوجب الوضوء و مالا یوجب، نوع آخر من ھذا الفصل،‘‘ ج۱، ص:۷۵
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص158