نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں نماز ادا ہوجاتی ہے لیکن اگر لوگوں کا اس پر اصرار نہ ہو تو کسی غیر معذور شخص کو امام بنا لینا چاہئے۔(۱)
(۲) امام بنانا درست ہے ۔
(۳) اس مضمون کی روایات مشکوٰۃ شریف میں موجود ہیں ص ۱۰۱، ۱۰۲۔ مطالعہ کرلیا جائے۔(۲)

(۱) صح اقتداء قائم بقاعد یرکع ویسجد۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، زکریا دیوبند)
(۲) وقید القاعد یکون یرکع ویسجد لأنہ لو کان مومیا لم یجز اتفاقاً۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص239

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت کے ساتھ نماز کسی بھی پاک جگہ میں پڑھی جاسکتی ہے ،اس کا خیال رکھنا ضرروی ہے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو ، عیدگاہ میں عارضی مصلی بنایا جاسکتا ہے اور گرمی اور دھوپ سے حفاظت کے لیے ٹین بھی ڈالی جاسکتی ہے اس سے وہاں کے لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی سہولت ہوجائے گی اور عیدگاہ میں نماز پرھنے والوں کا کوئی نقصان نہیں ہے؛ اس لیے کہ عید کی نماز اس مصلی میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر قبرستان پرانا ہوجائے اور وہاں پر مُردوں کو دفن کرنے کی ضرورت باقی نہ رہ جائے تو اس کو مسجد بنایا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ قبرستان بھی مسلمانوں کے لیے وقف ہے اور مسجد بھی مسلمانوں کے لیے وقف ہوتی ہے ۔اس لیے عیدگاہ کمیٹی کی اجازت سے وہاں پر عارضی مصلی بنایا جاسکتا ہے اور باہمی مشورہ سے اسے مستقل مسجد بھی بنایا جا سکتا ہے تاکہ وہاں نماز پڑھنے والوں کو شرعی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب مل جائے۔
’’لو أن مقبرۃ من مقابر المسلمین عفت فبنی قوم علیہا مسجدا لم أربذلک بأسا و ذلک لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاہم لا یجوز لأحد أن یملکہا فإذا  درست و استغنی عن الدفن فیہا جاز صرفہا إلی المساجد لأن المساجد أیضاً  وقف من اوقاف المسلمین‘‘(۱)

(۱) العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في مربض الغنم‘‘: ج ۴، ص: ۱۷۹)
الثامنۃ في وقف المسجد أیجوز أن یبنی من غلتہ منارۃ قال في الخانیۃ: معزیا إلی أبي بکر البلخي إن کان ذلک من مصلحۃ المسجد بأن کان أسمع لہم فلا بأس بہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف، باب وقف المسجد أیجوز أن یبنی من غلتہ منارۃ‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۳)
عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ-  قال: لما قدم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ، فقال: یا بنی نجار ثامنوني بحائطکم ہذا، قالوا: لا واللّٰہ لا نطلب ثمنہ إلا إلی اللّٰہ فقال أنس: فکان فیہ ما أقول لکم قبور المشرکین، وفیہ خرب و فیہ نخل، فأمر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بقبور المشرکین، فنبشت، ثم بالخرب فسویت، وبالنخل فقطع، فصفوا النخل قبلۃ المسجد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ہل تنبش قبور مشرکي الجاہلیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۳، رقم: ۴۲۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص350

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثناء کے بعد سورۃ فاتحہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا ضروری (واجب) نہیں ہے۔ ’’بسم اللّٰہ‘‘ کی شرعی حیثیت کے متعلق فقہاء نے لکھا ہے کہ سورۃ فاتحہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت ہے۔
اور سورۃ فاتحہ کے بعد اور ضم سورہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنے کو فقہاء نے بہتر اور مستحسن لکھا ہے؛ اس لیے اگر کسی سے ’’بسم اللّٰہ‘‘ چھوٹ جائے تو نماز درست ہو جاتی ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفتتح صلاتہ‘‘ (بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم)(۱)
’’قولہ (وما صححہ الزاہدي من وجوبہا) یعني في أول الفاتحۃ وقد صححہ الزیلعي أیضا۔
قولہ (ضعفہ في البحر … من أنہا سنۃ لا واجب فلا یجب بترکہا شيء۔
قال في النہر والحق أنہما قولان مرجحان إلا أن المتون علی الأول۔ أہـ أقول أي إن الأول مرجح من حیث الروایۃ، والثاني: من حیث الدرایۃ‘‘(۲)
’’(ثم یسمی سرا) کما تقدم (ویسمی) کل من یقرأ في صلاتہ (في کل رکعۃ) سواء صلی فرضا أو نفلا (قبل الفاتحۃ) بأن یقول ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ وأما في الوضوء والذبیحۃ فلا یتقید بخصوص البسملۃ بل کل ذکر لہ یکفي (فقط) فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقا للسورۃ سواء جہر أو خافت بالسورۃ وغلط من قال لایسمی إلا في الرکعۃ الأولی‘‘(۱)
’’فائدۃ یسن لمن قرأ سورۃ تامۃ أن یتعوذ ویسمی قبلہا واختلف فیما إذا قرأ آیۃ والأکثر علی أنہ یتعوذ فقط ذکرہ المؤلف في شرحہ من باب الجمعۃ ثم أعلم أنہ لا فرق في الإتیان بالبسملۃ بین الصلاۃ الجہریۃ والسریۃ وفي حاشیۃ المؤلف علی الدرر واتفقوا علی عدم الکراہۃ في ذکرہا بین الفاتحۃ والسورۃ بل ہو حسن سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جہریۃ‘‘(۲)
’’إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ کان حسناً عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ‘‘(۳)

(۱) أخرجہ الترمذي، فيسننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب: من رأی الجہر ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘: ج ۲، ص: ۱۴، رقم: ۲۴۵۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۳۔
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننہا‘‘: ج ۱، ص:۲۶۰۔
(۳) ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل إذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص392

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 886 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کمیٹی میں کسی کو کم یا زیادہ رقم نہ ملے بلکہ صرف یہ مقصود ہو کہ ہر ایک کو اکٹھی رقم مل جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Adornment & Hijab

Ref. No. 1264

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Your dream indicates that you will have special mercy and help from Allah soon insha Allah. You have to guard strictly your daily prayers and take care to worship.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Business & employment

Ref. No. 38 / 1193

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Their income is not Haram. Some of their acts maybe non Islamic, but this will not make their whole income haram.  

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 40/1099

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال، حقوق متقدمہ علی الارث کی ادائیگی  کے بعد کل ترکہ کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے۔ مرحوم کی بیوی کو64 میں سے آٹھ حصے، ہر ایک بیٹی کو سات سات، اور ہر ایک بیٹے کو چودہ چودہ حصے ملیں گے۔ لہذا بارہ لاکھ میں سےمرحوم کی بیوی کو ایک لاکھ پچاس ہزار (150000) ملیں گے،  ہر ایک بیٹی کو ایک لاکھ اکتیس ہزار دو سو پچاس  (131250) ملیں گے،  اور ہر ایک بیٹے کو دو لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو  روپئے (262500) ملیں گے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1325/42-708

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقف قبرستان کے بیچ  سے عام  راستہ  نکالنا درست نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ  قبریں نئی ہیں تو ان کو مسمار کرنا اور ان کو بلاوجہ شرعی  زمین بوس کرکے برابر کردینا جائز نہیں ہے۔ البتہ جنازہ دوسری طرف لیجانے کے لئے اگر راستہ نہ ہوتو مردے کو قبرتک پہنچانے کےلیے بقدر ضرورت عارضی راستہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن خیال رہے کہ یہ عام راستہ نہیں ہوسکتاہے اور ضرورپڑنے پر  تدفین کے کام میں  اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ولو وجد طريقاً في المقبرة وهو يظن أنه طريق أحدثوا لا يمشي في ذلك وإن لم يقع ذلك في ضميره لا بأس بأن يمشي فيه (فتاوى قاضيخان (1/ 95) وفی السراج :فان لم یکن لہ طریق الاعلی القبر،جاز لہ المشی علیہ للضرورۃ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ص:620)
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1728/43-1444

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موبائل پر لڑکا و لڑکی ایجاب وقبول کریں ، اس طرح نکاح درست نہیں ہوتاہے، لیکن پھر معلوم ہونے کے بعد جب آپ نے  وکیل مقرر کیا اور دوگواہوں کی موجودگی میں وکیل نے لڑکی یا لڑکے کی جانب سے مجلس نکاح میں نکاح کو قبول کرلیا تو اب نکاح صحیح ہوگیااور لڑکا ولڑکی میں میاں بیوی کا رشتہ قائم ہوگیا۔  نکاح کے لئے ایک ہی مجلس میں دوگواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کا ہونا ضروری ہے، خواہ لڑکا ولڑکی خود موجود ہوں یا ان کا وکیل موجود ہو۔

قال: " النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي "  - - - لأن هذا توكيل بالنكاح والواحد يتولى طرفي النكاح على ما نبينه إن شاء الله تعالى " - -  - قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود - - - قال: " ومن أمر رجلا بأن يزوج ابنته الصغيرة فزوجها والأب حاضر بشهادة رجل واحد سواهما جاز النكاح " لأن الأب يجعل مباشرا للعقد لاتحاد المجلس فيكون الوكيل سفيرا أو معبرا فيبقى المزوج شاهدا " وإن كان الأب غائبا لم يجز " لأن المجلس مختلف فلا يمكن أن يجعل الأب مباشرا  (الھدایۃ 2/305-307 مکتبہ ملت دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1932/43-1832

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  استاذ کی فیس آپ پر قرض ہے، جہاں آپ پہلے رہتے تھے، وہاں کسی دوسرے کا نمبر اگر ہو تو ان سے  استاذ جی کا پتہ معلوم کرسکتے ہیں۔ اگر آپ نے ہر طرح کوشش کرلی مگر ان تک رسائی نہ ہوسکی اور کوئی سراغ نہ مل سکا تو اب ان کی جانب سے وہ پیسے غریبوں پر صدقہ کردیں کہ ان پیسوں کا ثواب ان تک پہونچ جائے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ بعد میں جب کبھی بھی ان کے بارے میں پتہ لگ جائے، اور ان تک رسائی حاصل ہوجائے  اور وہ صدقہ منظور نہ کرکے فیس کا مطالبہ کریں تو ان کی فیس ان کو ادا کرنی لازم ہوگی۔ اور پہلے جو کچھ آپ نے دیا وہ آپ کی طرف سے صدقہ ہوجائے گا۔

قال فی الدر: وعرف أي نادیٰ علیہا حیث وجدہا وفي المجامع الیٰ أن علم أن صاحبہا لا یطلبہا قال الشامی لم یجعل للتعریف مدة اتباعاً للسرخسي فإنہ بنی الحکم علی غالب الرأي، فیعرف القلیل والکثیر إلي أن یغلب علی رأیہ أن صاحبہ لا یطلبہ صححہ في الہدایة وفي المضمرات والجوہرة وعلیہ الفتویٰ،( ج: ۶/۴۳۶، الدر مع الرد )

فإن جاء صاحبھا وإلا تصدق بھا ، ایصالا للحق إلی المستحق وھو واجب بقدر الإمکان … فإن جاء صاحبھا یعنی بعد ما تصدق بھا ، فھو بالخیار إن شاء أمضی الصدقۃ ولہ ثوابھا؛لأن التصدق وإن حصل بإذن الشرع لم یحصل بإذنہ فیتوقف علی اجازتہ۔( الہدایہ: ۲؍۲۱۸)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند