فقہ

Ref.  No.  3101/46-5093

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   طلاق کے واقع ہونے کے لئے پورے ہوش و حواس کے ساتھ طلاق کے الفاظ اداکرنا ضروری ہوتاہے ؛ محض وہم سے یا وسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ۔ اور نیند کی حالت میں طلاق کے الفاظ اگر نکل جائیں تو  بھی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ لہذا نیند کی حالت میں طلاق کے وہم اور وسوسہ سے بدرجہ اولی طلاق  واقع نہ ہوگی۔

لا یقع طلاق المولی علی امرأة عبدہ․․․ والنائم لانتفاء الإرادة إلخ․ (درمختار)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3099/46-5098

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر قرض لینا یاد ہے اور کس سے کیاتھا یہ بھی یاد ہے تو قرضخواہ کو  ادھار کی رقم واپس کرنا ضروری ہے لیکن اگر  یہ یاد نہیں کہ قرض کس سے لیا تھا یعنی قرض خواہ معلوم ہی نہیں ہےیا ایسے راستہ چلتے شخص سے قرض لیا جس  سے کسی بھی طرح رابطہ کرنا اور قرض ادا کرنا ممکن نہیں ہے تو ان تمام صورتوں میں قرض کے بقدر رقم صدقہ کردینا ضروری ہے۔  اگرقرض لینا  ہی یاد نہیں  ہے تو اس پر آخرت میں مواخذہ بھی نہیں ہوگا، البتہ یہ نیت ضرور رکھے کہ جب یاد آئےگا تو ادا  کردوں گا۔

اسی طرح اگر دوکاندار کو یاد نہیں ہے کہ  ادھار سامان کون لے گیا تھا اور  مقروض کون ہے تو ایسی صورت میں  مقروض  اس رقم کے صدقہ کی نیت کرسکتاہے، یا  قرض خواہ کو ہبہ کرنے کی نیت کرلے تو بھی درست ہے۔

لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال شداد والناطفي رحمهما الله تعالى: لا يؤاخذ به في الآخرة إذا كان الدين ثمن متاع أو قرضا، وإن كان غصبا يؤاخذ به في الآخرة، وإن نسي غصبه، وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة، وإن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة، وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة. ۔ ۔ ۔ ۔  (قوله: كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها) يشمل ما إذا كانت لقطة علم حكمها، وإن كانت غيرها فالظاهر وجوب التصدق بأعيانها أيضا (قوله: سقط عنه المطالبة إلخ) كأنه والله تعالى أعلم؛ لأنه بمنزلة المال الضائع والفقراء مصرفه عند جهل أربابه، وبالتوبة يسقط إثم الإقدام على الظلم". (شامی، کتاب اللقطة، مطلب فيمن عليه ديون ومظالم جهل أربابها، ج:4، ص:283، ط:ایچ ایم سعید)

"هبة الدين ممن عليه الدين جائزة قياسًا واستحسانًا ...هبة الدين ممن عليه الدين وإبراءه يتم من غير قبول من المديون ويرتد برده ذكره عامة المشايخ رحمهم الله تعالى، وهو المختار، كذا في جواهر الأخلاطي". (الھندیۃ، الباب الرابع في هبة الدين ممن عليه الدين، ج:4، ص:384، ط: رشيديه)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 3106/46-5095

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسی صورت میں اس وقت تک نمازوں کی قضا کرتا رہے جب تک کہ اسے یقین یا غالب گمان نہ ہوجائے کہ ساری قضا نمازیں ذمہ سے اتر گئیں ۔ جس قدر اندازہ ہو اس سے کچھ نمازیں زیادہ ہی پڑھے تاکہ  کوئی نماز ذمہ میں باقی نہ رہ جائے اور اطمینان ہوجائے۔

"خاتمة من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء." )حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح ص:447،كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت،ط:دارالكتب العلمية(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fasting & Ramazan

Ref. No. 3107/46-5094

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ا گر بالغ ہونا یاد نہیں ہے اور جب سے اس کو محسوس ہوا کہ اب بالغ ہوچکاہے تو اس نے  روزہ رکھنا شروع کردیا، تو جو سال گزرگئے اور روزے واجب ہونے کا شک ہے تو ان سالوں کے روزے اس پر فرض نہیں ہیں۔ اور اگر غالب گمان یہ ہوکہ کچھ روزے  اور نمازیں ضرور قضا ہوئی ہیں تو جس تعداد پر ظنِ غالب ہوجائے،اسی حساب سے دونوں چیزوں کی قضا کرنا شروع کردے،اور جب وہ تعداد پوری ہوجائے،تو قضا کرنا بند کردے۔

"وأدنى مدته له اثنتا عشرة سنة ‌ولها ‌تسع سنين هو المختار...قوله: وأدنى مدته أي مدة البلوغ والضمير في له للغلام وفي لها للجارية."

(ألدرالمختار ص:154،ج:6،کتاب الحجر،فصل بلوغ الغلام بالاحتلام،ط:سعيد)

"هي فرض عين على كل مكلف...وتاركها عمدا مجانة أي تكاسلا فاسق." (ألدرالمختار، ص:357،ج:1،کتاب الصلاة،ط:سعيد)

"لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين لأن فجر الخميس مثلا غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول أول فجر مثلا، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولا أو يقول آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخرا، ولا يضره عكس الترتيب لسقوطه بكثرة الفوائت." (ألدرالمختار، ص:76،ج:2،کتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت،ط:سعيد)

"خاتمة من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء." (حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح" ص:447،كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت،ط:دارالكتب العلمية)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3111/46-5086

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  (1،2) ہونٹوں سے اجڑنے والی چمڑی اگر  بالکل خشک ہو کہ اس میں کوئی تری نہ ہو  تو وہ پاک  ہے خواہ چمڑے کو اجاڑنے میں درد ہو یا نہ ہو، اوراگر یہ پانی میں گرجائے تو پانی بھی پاک ہی رہے گا۔ اور اگر چمڑی کے ساتھ رطوبت ہو تو پھر ایسی صورت میں وہ چمڑی ناپاک ہوگی،  اور یہ رطوبت کم ہو یا زیادہ ہو پانی میں گرنے سے  پانی ناپاک ہوجائے گا اگر ماء قلیل ہو۔

"قال الولوالجي - رحمه الله - ‌جلد ‌الإنسان ‌إذا ‌وقع ‌في ‌الإناء ‌أو ‌قشره إن كان قليلا مثل ما يتناثر من شقوق الرجل وما أشبهه لا تفسد وإن كان كثيرا تفسد ومقدار الظفر كثير؛ لأن هذه من جملة لحم الآدمي ولو وقع الظفر في الماء لا يفسده اهـ. قال قاضي خان جلد الآدمي أو لحمه إذا وقع في الماء إن كان مقدار الظفر يفسده، وإن كان دونه لا يفسده." (تبیین الحقائق، كتاب الطهارة، ماء البئر إذا وقعت فيه نجاسة، ج:1، ص:27، ط:دار الكتاب الإسلامي)

"(قوله: جلدة الآدمي إذا وقعت في الماء القليل إلخ) قال ابن أمير حاج وإن كان دونه لا يفسده صرح به غير واحد من أعيان المشايخ ومنهم من عبر بأنه إن كان كثيرا أفسده وإن كان قليلا لا يفسده وأفاد أن الكثير ما كان مقدار الظفر وأن القليل ما دونه، ثم في محيط الشيخ رضي الدين تعليلا لفساد الماء بالكثير؛ لأن هذا من جملة لحم الآدمي، وقد بان من الحي فيكون نجسا إلا أن في القليل تعذر الاحتراز عنه فلم يفسد الماء لأجل الضرورة وفيه قبل هذا قال محمد عصب الميتة وجلدها ‌إذا ‌يبس ‌فوقع ‌في ‌الماء ‌لا ‌يفسده؛ لأن باليبس زالت عنه الرطوبة النجسة." (البحر الرائق، كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:‌‌جلدة آدمي إذا وقعت في الماء القليل، ج:1، ص:243، ط:دار الكتاب الإسلامي)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3113/46-5087

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  متروکہ مال میں اگر مزید کوئی وارث نہیں ہے تو کل جائداد کو پانچ حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے دو حصے مرحومہ کے بیٹے محمد بلال کو اور ایک ایک حصہ تینوں بیٹیوں کو ملے گا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref.  No.  3095/46-5092

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عدت گزارنے والی عورت پر سوگ واجب ہے، لہذا عدت کے دوران اس کا گھر سے بلاعذر شدید نکلنا جائز نہیں ہے، گھر کے دیگر افراد ضروری سامان خریدیں اور انتظام میں تعاون کریں۔ عورت گھر کے اندر رہتے ہوئے تمام امور انجام دے، تاہم خیال رہے کہ عورت کے لئے زیب و زینت ترک کرنا لازم ہے، اس لئے شادی کے دنوں میں بھی زیب و زینت اختیار نہ کرے۔ اور اگر عورت کے باہر نکلے بغیر شادی کی تیاری نہ ہوسکتی ہو تو پھر شادی کی تاریخ مؤخر کردی جائے اور عدت گزرنے کے بعد شادی کی تاریخ طے کرلی جائے۔

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه،"(شامی، كتاب الطلاق، ج:3، ص:536، ط:ايج ايم سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3098/46-5089

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If the described question is and you have transferred your land to a developer who subsequently engages in illegal activities—such as unauthorized construction or bribery—without your knowledge, then the developer alone bears responsibility for those actions. The payment you receive from the constructed rooms on your land and property would be permissible (halal).

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

زیب و زینت و حجاب

Ref.  No.  30/-

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   عورتوں کے لئے لمبے بال باعث زینت ہیں، عورتوں کا بلاعذر شرعی سرکے بالوں کا کاٹنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی عذر ہو کہ بال سرین سے نیچے ہوجائیں اور عیب دار معلوم ہوتے ہوں تو فقط زائد بالوں کو کاٹنا جائز ہے۔ لہذا عورت کے لئے کندھے سے دس سینٹی میٹر نیچے سے بال کاٹنا جائز نہیں ہے۔

عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال"،(صحیح البخاری، کتاب اللباس الرقم 5885)

قطعت شعر راسھا اثمت ولعنت فی البزازیۃ ولو باذن الزوج ، لانہ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ولذا یحرم علی الرجل قطع لحیتہ والمعنی الموثر التشبہ بالرجال “(الدر المختار، کتاب الحظر والاباحۃ: (407/6، 9/670)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref.  No.  3097/46-5090

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عبادت یا ضروری سمجھے بغیر کسی بھی سال یا مہینہ یا دن کی مبارکباد دینا جائز ہے۔ مبارک باد کا مطلب یہ ہے کہ یہ سال، مہینہ یا دن برکت وخیر والا ہو۔ تو اس طرح دعادینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس کو ضروری سمجھنا یا رسم بنالینا بدعت اور ناجائز ہے۔ تاہم نئے اسلامی سال کے شروع ہونے پر یا ہر مہینہ کا چاند دیکھنے پر جو دعائیں منقول ہیں ان کا اہتمام کرنا چاہئے۔  چنانچہ  ہر مہینہ کا چاند دیکھ کر اور قمری سال کے آغاز میں یہ دعا پڑھناثابت ہے:اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ .

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند