نکاح و شادی

Ref.  No.  3351/46-9215

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  (۲-۱) عاقلہ بالغہ لڑکی کا لڑکے کو وکیل بنانا درست ہے اور پھرلڑکے کا لڑکی کی طرف سے وکیل بن کر دوگواہوں کی موجودگی میں اس کو اپنے نکاح میں  قبول کرنے سے نکاح  منعقد ہوگیا۔ لہذا  اس نکاح کے بعد ان کا آپس میں ملنا درست اور صحیح  ہوا۔ البتہ لڑکی کا  والدین کی اجازت کے بغیر نکا ح کرناشرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ۔ (۳) چونکہ مذکورہ نکاح درست تھا اس لئے اس کی دی ہوئی تمام طلاقیں بھی واقع ہوں گی۔

كما للوكيل) الذي وكلته أن يزوجها على نفسه فإن له (ذلك) فيكون أصيلًا من جانب وكيلًا من آخر." (رد المحتار3/ 98ط:سعيد)

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". (بدائع الصنائع، 2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3350/46-9212

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کرپٹو کرنسی یا ڈ یجیٹل کرنسی ایک فرضی کرنسی ہے ،اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط اب تک  موجود نہیں ہیں؛ سرکاری طور پر اس کی وہ حیثیت نہیں ہے جو عام کرنسیوں کی ہوتی ہے۔  لہذا کرپٹو کرنسی  کی خرید و فروخت اور اس کے ذریعہ کاروبار کرنا   جائز  نہیں ہے۔  اس کرنسی میں مبیع کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتاہے ، صرف ڈیجٹیل طور پر اکاونٹ کا حساب چلتا رہتاہے؛  لہذا کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی  کے لین دین سےاجتناب کیا جائے۔

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير. ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه." (شامی، کتاب البیوع،ج:4،ص:501،سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3348/46-9206

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایک ساتھ تین طلاق دینے سے بھی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اور اگر بچوں کے ساتھ ان کی ماں زندگی بسر کرنا چاہے اور دوسری جگہ شادی کے لئے تیار نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم  بچوں کے باپ سے پردہ کا پورا خیال رکھنا ضروری ہے۔ لیکن بہرحال ایک ہی مکان میں رہتے ہوئے شرعی حدود کی رعایت تقریبا ناممکن ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ عورت کے لئے بچے یا ان کا باپ الگ مکان کا نظم کردیں ، یا عورت خود دوسری جگہ شادی کرلے۔

﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

'' عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ''۔ (14) سنن ابی داؤد ، 1/324، باب فی اللعان، ط: رحمانیه(

ولھما ان یسکنا بعد الثلاث فی بیت واحد اذا لم یلتقیا التقائ الازواج ولم یکن فیہ خوف فتنۃ (شامی 3/538)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3347/46-9207

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبر پر آیات و ادعیہ کا پڑھنا لازم و ضروری نہیں ہے بلکہ ہر آدمی کا اختیاری عمل ہے، کوئی بھی سورت اور دعا کا پڑھنا جائز ہے۔  قبر کے سرہانے کھڑے ہوکرسورہ بقرۃ ازابتداء تا"مفلحون" اورپاؤں کی جانب کھڑے ہوکرسورہ بقرہ کی آخری آیات" آمن الرسول" سے آخرتک پڑھنامستحب ہے۔ اور سورہ فاتحہ  سے آغاز کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ سورہ فاتحہ پڑھنے کو ناجائز کہنا درست نہیں ہے۔ان آیات کو جہری اور سری دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔ تدفین کے  بعدآپ ﷺ سے انفرادی طورپرلمبی دعاء کرنا،دعامیں ہاتھ اٹھانا اورصحابہ کرام  کودعاء کاحکم دینا وغیرہ ہے، اور تدفین میں آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ اجتماعی دعابھی درست ہے۔ سول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ ذو البجادین رضی اللہ عنہ کے لیے قبلہ رُخ ہاتھ اٹھا کر بآواز دعا فرمائی جسے سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، البتہ جہر کو لازم نہ سمجھا جائے۔

وعن عبد الله بن عمر قال : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة وعند رجليه بخاتمة البقرة " رواه البيهقي في شعب الإيمان . وقال: والصحيح أنه موقوف عليه۔ (مشكاة المصابيح " 1 / 387)

قوله: (ويقول الخ) قال في الفتح: والسنة زيارتها قائما، والدعاء عندها قائما، كما كان يفعله (ص) في الخروج إلى البقيع ويقول: السلام عليكم،،،،ثم يدعو قائما طويلا، وإن جلس يجلس بعيدا أو قريبا بحسب مرتبته في حال حياته ۔ (حاشية رد المحتار"2 / 263)

قال النووی فی الأذکار: قال محمد بن أحمد المروزی: سمعت أحمد بن حنبل یقول: إذا دخلتم المقابر فاقروٴا بفاتحة الکتاب والمعوذتین، وقل ہو اللہ أحد، واجعلوا ثواب ذلک لأہل المقابر، فإنہ یصل إلیہم․ (مرقاة: ۴/ ۸۱باب دفن المیت)

أنهم إذا فرغوا من دفنه يستحب الجلوس عند قبره بقدر ما ينحر جزور ويقسم لحمه يتلون القرآن ويدعون للميت فقد ورد أنه يستأنس بهم وينتفع به وعن عثمان رضي الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال استغفروا لأخيكم وسلوا له التثبيت فإنه الآن يسأل ۔رواه أبو داود۔ حاشية الطحطاوي"1 / 408

وفي حديث بن مسعود رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم في قبر عبد الله ذي النجادين الحديث وفيه فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه أخرجه أبو عوانة في صحيحه۔ (فتح الباري لابن حجر " 11 / 144)

’’عن ابن مسعود قال: والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك، وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول الله وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه يقول: اللّٰهم إني أمسيت عنه راضياً فارض عنه، وكان ذلك ليلاً، فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (5 / 452)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3346/46-9242

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں شوہر نے متعدد بار لفظ آزاد استعمال کیا ہے تاہم ہر بار لفظآزاد کا سیاق و سباق کچھ ایسا رہا جس کی بنا پر لفظ آزاد سے طلاق کے معنی مراد لینا یقینی نہیں ہے۔ مثلا تو آزاد ہے میری بات مان یا نہ مان /  تو آزاد ہے اپنے رشتہ داروں کے یہاں جاسکتی ہے / اگر گھر کے اندر مجھکقو نہیں آنے دوگی تو تم آزاد ہو کہ گھر کا کرایہ  کا خود ہی بندوبست کرو / اگر اپنی من مانی ہی کرنی ہے تو تم آزاد ہو جو چاہے کرو ۔ ان تمام جملوں سے سیاق و سباق کی بنا پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لفظ آزاد اگرچہ صریح ہے مگر اصلا کنائی ہونے کی بناپر سیاق و سباق سے معنی بدل جاتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3343/46-9208

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فصل کاٹنے والے کی اجرت اسی خاص فصل سے طے کرنا جائز نہیں ہے، اس میں اجیر کا اپنے عمل کی اجرت لینا لازم آتاہے، جو کہ”قفیزطحان“کے قبیل سے ہے جس کی حدیث میں واضح ممانعت آئی ہے۔ البتہ اگر مستاجر غلہ کی ایک مقدار متعین کردے اور اس کو اجازت ہو کہ وہ کہیں سے بھی وہ غلہ دے تو پھر یہ معاملہ جائز ہوگا اور جو فصل کاٹی گئی ہے اس میں سے بھی دینا اس کے لئے درست ہوگا۔

ولو دفع غزلًا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أی بنصف الغزل أو استأجر بغلًا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطحن برّہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکلّ؛ لأنّہ استأجرہ بجزءٍ من عملہ، والأصل فی ذلک نہیہ - صلّی اللّہ علیہ وسلّم - عن قفیز الطّحّان إلخ (درمختار مع الشامي: ۹/۷۹، باب الإجارة الفاسدة، ط: زکریا، دیوبند)

’’وَكَذَا قَالُوا: لَايجوز إِذا اسْتَأْجر حماراً يحمل طَعَاماً بقفيز مِنْهُ، لِأَنَّهُ جعل الْأجر بعض مَا يخرج من عمله، فَيصير فِي معنى قفيز الطَّحَّان وَقد نهى عَنهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَأخرجه الدَّارَقُطْنِيّ وَالْبَيْهَقِيّ من حَدِيث أبي سعيد الْخُدْرِيّ، قَالَ: نهى عَن عسب الْفَحْل وَعَن قفيز الطَّحَّان، وَتَفْسِير: قفيز الطَّحَّان: أَن يسْتَأْجر ثوراً ليطحن لَهُ حِنْطَة بقفيز من دقيقه، وَكَذَا إِذا اسْتَأْجر أَن يعصر لَهُ سمسماً بِمن من دهنه أَو اسْتَأْجر امْرَأَة لغزل هَذَا الْقطن أَو هَذَا الصُّوف برطل من الْغَزل، وَكَذَا اجتناء الْقطن بِالنِّصْفِ، ودياس الدخن بِالنِّصْفِ، وحصاد الْحِنْطَة بِالنِّصْفِ، وَنَحْو ذَلِك، وكل ذَلِك لَا يجوز۔(عمدۃ القاری شرح البخاری، کتاب الزراعۃ، باب المزارعۃ بالشطر و نحوہ، 12/166 ،ط: دار احیاء التراث)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3342/46-9183

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جن کھیلوں میں کوئی  جسمانی فائدہ نہ ہو اور وہ کھیل  فساق و فجار کا کھیل ہو یا جس کی وجہ سے کسی گناہ کا ارتکاب لازم آتاہو تو ایسے کھیل سے گریز کرنا ضروری ہے، تفریح طبع کے لئے بھی کوئی اس طرح کا کھیل مناسب نہیں ہے۔ اور مسجد کے اندر ایسا کوئی عمل مزید قبیح ہوجاتاہے قرآنِ مجید میں کامیاب ایمان والوں  کا ایک وصف  لہو ولعب سے اعراض کرنے والا ہونا بیان ہوا ہے۔حدیث میں بھی لایعنی امور سے اجتناب کا حکم ہے، اس لئے لڈو یا شطرنج کھیلنا  درست نہیں ہے،  پھر مسجد کے اندر کھیلنا گرچہ موبائل پر ہو یہ اور بھی برا ہے۔   

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريمًا،... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حرامًا أو مكروهًا تحريمًا، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول ما شهدت التجربة  بأن ضرره أعظم من نفعه و مفاسده أغلب على منافعه، و أنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة فكان حرامًا أو مكروهًا، والثاني ماليس كذلك، فهو أيضًا إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، و إن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل، فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يود الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه". (تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی)

عن أبی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ۔ (سنن الترمذی، أبواب الزہد / باب ما جاء من تکلّم بالکلمة لیضحک الناس ،رقم: ۲۲۱۷)۔

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(1) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ(2) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(3) (سورۃ المومنون  1-3)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Fiqh

Ref. No. 3341/46-9179

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (۱) سودی رقم سے مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلا اور غسل خانہ بنانا درست نہیں ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اتنی مقدار رقم غریبوں  میں بلا نیت ثواب تقسیم کردی جائے، پھر اس کے بعد بیت الخلا اور غسل خانہ کا استعمال درست ہوگا۔

(۲) خرچ کم ہو اور آمدنی زیادہ  بتاکر چندہ کرنا دینی کام کے لئے جھوٹ بولنا ہے ، جھوٹ بولنا عام حالات میں گناہ کبیرہ ہے تو پھر دینی کام کرنے والے جھوٹ کا سہارا لے کر چندہ کریں ، یہ اور بھی قبیح عمل ہے۔ بہتر ہوگا کہ کام اور ضرورت کے مواقع تلاش کریں پھر اس ضرورت کے نام پر چندہ کریں تاکہ جھوٹ کے گناہ سے بچ سکیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3335/46-9142

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خواب میں پاخانہ کرتے دیکھنا اپنے آپ سے حرام کمائی اور حرام مال سے دور رکھنے کی کوشش کی علامت ہے، اور اپنے ارد گرد گندگیوں کو دیکھنا حرام کاروبار میں ملوث ہونے کے خطرے کی علامت ہے، لہذا حرام کمائی سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ اور حرام کاروبار کرنے والوں سے بھی دور رہیں، اور اگر آپ کسی حرام کمائی میں شامل ہیں تو اس سے اپنے آپ کو دور کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3340/46-9181

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ :۔ ڈیجیٹل تصاویر اور ویڈیوگرافی اگرچہ مختلف فیہ مسئلہ ہے،  لیکن ہندوستان کے اکثر اہل علم نے اس کو تصاویر محرمہ کے  ہی دائرہ میں رکھا ہے، اور صرف اشاعت دین اور دفاع دین کے لئے ہی ویڈیو گرافی  کی گنجائش دی گئی ہے، لیکن سوال میں جس وقت اور جگہ  ویڈیو گرافی کا تذکرہ کیاگیاہے ظاہر ہے کہ یہ ایک مذموم اور قابل ترک عمل ہے، جنازہ کا منظر عبرت حاصل کرنے  اور موت کو یاد کرنے کے لئے ہے، جنازہ کے ساتھ ذکرواذاکر کے ساتھ چلنے کاحکم ہے، اس لئے اس موقع پر لائیو اسٹریمنگ اور ویڈیوریکارڈنگ جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند