Death / Inheritance & Will

Ref. No. 3417/46-9292

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Every individual has full authority over their property during their lifetime and may distribute it to whomever they wish, in any proportion they choose. Therefore, if a father distributes his property while still alive, he has the right to do so—even if the distribution is unequal—and such a distribution is valid under Islamic law. Nevertheless, equal treatment among heirs is recommended and preferable.

If certain sons assisted their father—while living with him—in constructing a house or acquiring property, their contribution is regarded as an act of goodwill and generosity (tabarru‘). After the father's passing, all sons, including the one who contributed, will inherit equally from those properties.

However, if a son independently built a separate house or purchased property with his own resources, that property will be considered his personal asset, and the other siblings will have no claim to it.

للإنسان أن يتصرف في ماله كيف شاء حال حياته، ما دام عاقلاً بالغاً." (الدر المختار مع رد المحتار (6/62)

"الهبة تنعقد بالإيجاب والقبول والقبض، وتملك بالقبض." (بدائع الصنائع (6/126)

"ويجوز تفضيل بعض الأولاد على بعض في العطية، وإن كان خلاف الأولى."  (رد المحتار (6/61)

"من أنفق على مال غيره بدون إذنه أو بدون عقد، فلا يملك شيئاً." (الدر المختار (5/102)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 3416/46-9291

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      ایک پارے کے نصف  آخر  کو پہلی دس رکعتوں میں پڑھنا اور نصف اول کو بعد کی دس رکعتوں میں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس کی عادت بنالینا مناسب   نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Business & employment

Ref. No. 3415/46-9290

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

(1) If the seller has clearly disclosed certain defects of the item (mabi‘) at the time of sale, then returning the item due to those disclosed defects is not valid. If a buyer returns the item later based on the same defects that were already explained at the time of the contract, the seller is not obligated to accept the return and refund the payment as per Shariah. However, if the seller takes the item back and refunds the money, it would be better in the light of shariah.

(2) If the buyer has already seen the item (mabi‘), the right of cancellation based on inspection (khiyār al-ru’yah) is no longer applicable. However, if a defect becomes apparent later, the buyer will have the right of cancellation based on defect (khiyār al-‘ayb).

(3) Since there is often a difference between the appearance of an item in online photos and its reality, merely seeing an item in pictures does not revoke the right of inspection (khiyār al-ru’yah). Therefore, after receiving the item, the buyer retains the right to inspect it and may choose to return it. However, if the defect has been clearly described in the pictures or written in description, then the buyer does not have the right to return the item on the basis of that defect.

وإن باعه على أنه بريء من كل عيب لا يرد به." ( الهداية، کتاب البيوع، ج3، ص82)

"وَإِنْ بَاعَهُ مَعَ بَيَانِ الْعَيْبِ لَا خِيَارَ لَهُ، لِأَنَّهُ تَصَرَّفَ عَلَى بَيَانِ الْعَيْبِ فَرَضِيَ بِهِ، فَسَقَطَ خِيَارُهُ."( بدائع،ج5، ص201)

"وَلَا خِيَارَ فِي الْمَعِيبِ إِذَا بَيَّنَ لَهُ الْبَائِعُ، لِأَنَّهُ اشْتَرَاهُ وَقَدْ عَلِمَ بِالْعَيْبِ." ( البحر الرائق، ج6، ص 77)

"وَلِمَنْ اشْتَرَى شَيْئًا وَلَمْ يَرَهُ فلہ أَنْ يَرُدَّهُ إِذَا رَآهُ، إِذَا لَمْ يُوَافِقْ وَصْفَهُ." (الهداية، ج3، ص83)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

حدیث و سنت

Ref. No. 3414/46-9289

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      حالتِ جنابت میں قرآن مجید کی تلاوت سننا جائز ہے، خواہ کسی انسان سے سنے، یا کمپیوٹر، یا موبائل وغیرہ سے سنے۔  تاہم قرآنی آیات کے علاوہ  ذکروادعیہ کا زبان سے پڑھنا بھی جائز ہے۔

"(و) يحرم به (تلاوة القرآن) ۔ (قوله: تلاوة القرآن) أي ولو بعد المضمضة كما يأتي". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 172):

رد المحتار: (293/1، ط: سعید) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئاً من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به، كما قدمناه عن العيون لأبي الليث، وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية".

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 3411/46-9296

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      بشرط صحت سوال، مذکورہ کاروبار جب کہ تینوں بھائیوں کے درمیان مشترک تھا ، ایک بھائی کی وفات کے بعد تقسیم کے بغیر اس کا بھائی حسب سابق کاروبار کی دیکھ بھال کررہاہے۔ اور مرحوم بھائی کی اولاد کو بھی اپنے ساتھ لگالیا تو اس کاروبار میں مرحوم کی اولاد کی بھی شرکت قائم ہوگئی۔ لہذا مذکورہ کاروبار سے حاصل ہونے والی تمام جائدادوں میں مرحوم کی اولاد بھی برابر درجہ کی شریک رہے گی۔ یعنی مشترکہ تمام جائداد تین حصوں میں برابر تقسیم ہوگی۔ اور جس بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اس کے حصے کے مالک اس کے ورثہ ہوں گے۔

والمراد ان شرکۃ الملک لا تبطل ای لا یبطل الاشتراک فیھا بل یبقی المال مشترکا بین الحیی وورثۃ المیت کما کان۔ (شامی، 6/504 کتاب الشرکۃ زکریا دیوبند)

فیہ ایضا: فما کان من ربح فھو بینھما علی قدر رووس اموالھا وماکان من وضعیۃ او تبعیۃ فکذالک (شامی، کتاب الشرکۃ 6/475 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 3410/46-9300

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔     اگر مدرسہ یا ادارہ معتبر ہو، اور ان کی دیانت و امانت معروف ہو اوران کے ذبیحہ کا انتظام شریعت کے مطابق ہو، اور وہ واقعی قربانی کرتے ہوں اور گوشت مستحقین کو پہنچاتے ہوں، تو ایسے مدارس یا اداروں کے ذریعے فون، واٹس ایپ یا آن لائن طریقے سے قربانی کروانا شرعاً جائز ہے۔قیمت کا فرق علاقے کے اعتبار سے ہوتا ہے۔مثلاً یوپی، بہار یا ہریانہ میں قربانی کے جانور نسبتاً سستے ہوتے ہیں، خاص طور پر مدارس والے  زیادہ تعداد میں بڑے جانور خریدتے ہیں تو ان کو جانور سستے ملتے ہیں۔ اگر واقعی جانور شریعت کے مطابق ہو اور قربانی صحیح طریقے سے ہو رہی ہو، تو قیمت کم ہونے کی وجہ سے  دوسری جگہ قربانی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

ويجوز التوكيل في الأضحية، فيذبح الوكيل عن الموكل." (الفتاویٰ الهندية، ج 5، ص 296)

"ويجوز التوكيل فيها (أي: الأضحية)، كما في سائر القرب." (رد المحتار، ج 6، ص 326)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Zakat / Charity / Aid

Ref. No. 3408/46-9302

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔     زکوٰۃ صرف ان لوگوں کو دی جا سکتی ہے جو "فقیر" یا "مسکین" ہوں۔ یعنی جن کے پاس نصاب کی مقدار سے کم مال ہو (یعنی تقریباً ساڑھے 52 تولہ چاندی کی مالیت جتنا سونا/چاندی/رقم یا سامانِ تجارت نہ ہو) ، صرف بیوہ ہونا مستحق زکوۃ ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔ بیوہ عورت کے پاس جو سونا یا دیگر زائد اشیا موجود ہیں ان کو بیچ کر اپنا خرچ چلائے ۔ زیورات  اگر نصاب کی مقدار کے برابر ہیں تو اس کے لئے مستقل آمدنی نہ ہونے کی بنا پر زکوۃ لینا جائز نہیں ہوجائےگا۔ بلکہ صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے خود اس پر زکوۃ کی ادائیگی فرض ہے۔

"أعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم."(بخاری، حدیث: 1395)

"من كان مالكًا للنصاب فلا تحل له الزكاة..." (رد المحتار، ج 2، ص 342)

ولا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابًا فاضلًا عن حاجته الأصلية." (الفتاویٰ الهندیة، جلد 1، ص 188)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 3407/46-9303

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔     اگر جانور نر ہو لیکن پیدائشی طور پر خصیتین نہ ہوں، تو ایسے جانورکی قربانی جائز ہے، کیونکہ یہ عیب نہیں بلکہ پیدائشی طور پر اس کی یہ حالت ہے ۔ اور  اگر نر جانور کے خصیے بعد میں کاٹ دیے گئے ہوں تاکہ اس کا گوشت لذیذ ہو تو حنفی فقہ میں  خصی جانور کی قربانی افضل مانی گئی ہے۔ کیونکہ اس کا گوشت زیادہ لذیذ اور عمدہ ہوتا ہے۔

 اوراگر وہ جانور خنثیٰ مشکل ہو (یعنی جس میں نرومادہ  کی علامتوں  إٰن سے کوئی علامت  واضح نہ ہو)، تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے لیکن اگر وہ خنثیٰ غیر مشکل ہو (یعنی ایک جنس غالب ہو)، تو اس کی قربانی جائز ہوگی ۔

 الخصي من الضحايا أفضل من الفحل، لأنه أطيب لحماً.  (رد المحتار، ج 6، ص 326)

ولا تجوز الأضحية بالخنثى، لأنه لا يعرف أنه ذكر أو أنثى."(بدائع الصنائع، ج 5، ص 71)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Hajj & Umrah

Ref. No. 3406/46-9304

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

If a pilgrim unknowingly passed through Muzdalifah before Fajr and performed the Wuquf (obligatory stay) at Mina and later realized that they did not stay at Muzdalifah at all, a wājib (obligatory act) of Hajj has been missed. This is because staying in Muzdalifah for some time after Fajr is a required obligation of Hajj.

Therefore: If you did not enter Muzdalifah at all and instead offered the Fajr prayer and stayed in Mina, a dum (sacrifice of a sheep or goat) becomes obligatory upon you as a penalty.

However, if you did enter Muzdalifah but mistakenly believed it to be Mina, and performed the Wuquf, and supplications, and prayers there, no dam is required — provided that the location was indeed within the boundaries of Muzdalifah.

And Allah knows best.

Darul Ifta Darul Uloom Waqf, Deoband

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3405/47-9346

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔     اگر دادا کی جائیداد  کی تقسیم کے وقت آپ کی پھوپھی کو حصہ نہیں دیا گیا تھا، اور یہ جائیداد وراثت کی تھی (نہ کہ ہبہ کی)، تو آپ کی پھوپھی کا ان میں شرعی حصہ بنتا ہےاور تقسیم سے قبل آپ کی دادی کا ہبہ کرنا شرعا غیرمعتبر ہے۔  لہٰذا: اگر جائیداد کا قبضہ کسی کو ہبہ کی بنیاد پر ان کی زندگی میں نہیں دیا گیا تھا، تو سب ورثاء (پانچ بھائی اور ایک بہن) اس میں برابر شریک ہوں گے، اور بہن کو آدھا حصہ ملے گا جتنا ایک بھائی کو ملتا ہے۔ اگر جائیداد کی تقسیم میں پھوپھی کی رضامندی نہیں لی گئی تھی، یا ان کو کچھ دیا ہی نہیں گیا تھا، تو اب وہ اپنی شرعی میراث کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند