Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 3262/46-8073
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تمام فرائض و واجبات کی ادائیگی تو بہرحال ضروری ہے، تاہم اس کے علاوہ جو نفلی چیزیں ہیں، جیسے صدقہ کرنا، کسی غریب کی مدد کرنا، کسی پریشان حال کی پریشانی دور کرنا ، کسی مغموم ورنجیدہ کی تسلی کا سامان فراہم کرنا، نفلی نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، مریض کی عیادت کرنا یا اہل میت کی تعزیت کرنا وغیرہ جو ثواب کے کام ہیں ان کے کرنے میں بھی پیش پیش رہنا چاہئے۔ اگر کسی کو دیکھے کہ وہ کوئی نیک کام کررہاہے تو خود بھی اس نیت سے کہ میں زیادہ نیکی کا ضرورتمند ہوں اس کام کو کرے، کبھی صدقہ کرتا کسی کو دیکھے تو اس سے بڑھ کر صدقہ کرنے کی کوشش کرے کہ میں بھی صدقہ کی نیکی کے ثواب میں فلاں شخص سے بڑھ جاؤں ۔البتہ کبھی کوئی کام کسی دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہرگزنہ کرے بلکہ نیکی کے جتنے کام ہیں ان میں اخلاص کے ساتھ اپنا بھرپور تعاون پیش کرے اور سب سے آگے رہنے کی کوشش کرے اور خود کو ثواب کا زیادہ ضرورتمند سمجھے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 3261/46-8074
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چندہ کی رقم مدرس کے پاس بطور امانت کے ہوتی ہے، مدرس کو چندہ کی رقم خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، اس لئے مدرس کا خود ہی بچوں پر خرچ کرنا مناسب نہیں ہے، گوکہ وہ چندہ مدرسہ کے بچوں کے ہی لئے ہوا ہے، طلبہ پر خرچ کرنے کے لئے بھی مہتمم یا متعلقہ ذمہ دار افراد کو مطلع کرنا اور ان سے اجازت لینا ضروری ہے، تاکہ شفافیت اور امانت داری برقرار رہے۔ بغیر اطلاع یا اجازت کے چندے کی رقم خرچ کرنا مناسب نہیں ہے، کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتاہے اور خیانت کا الزام آسکتاہے۔ یہ کسی بھی ادارہ کی پالیسی اور انتظام کے خلاف عمل ہے، اس لئے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے تاہم اب تک جو ہوا اس کا ضمان اس مدرس پر نہیں لگایا جاسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3260/46-8071
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ صرف اپنے تین لاکھ روپئے اور تین تولہ سونا واپس لے سکتے ہیں، مزید نفع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ بیع فاسد میں مشتری صرف اپنے ثمن کا ہی حق دار ہوتاہے، مزید کسی چیز کا بھی حق دار نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3259/46-8056
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نکاح و طلاق کے باب میں مذاق بھی حقیقت کا حکم رکھتاہے، لہذا مذاق میں بھی اگر نکاح ہوگا تو نکاح منعقد ہوجائے گا، اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں نکاح منعقد ہوگیا اور اس سلسلہ میں گواہوں کا ایجاب و قبول سن لینا کافی ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3258/46-8057
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں سب برابر ہیں، اور حدیث میں آیاہے:"لا فضل لعربی علی عجمی الا بالتقوی" ، تاہم نکاح میں کفاءت کا حکم افضل اور غیرافضل ہونے کی بناء پر نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتظامی مصلحت ہے، اس لئے کہ نکاح کے ذریعہ دو اجنبی ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اور زندگی گزارنے اور رہن سہن کے مختلف ہونے کی وجہ سے بسا اوقات نکاح میں وہ پائیداری نہیں ہوتی جو شرعا مطلوب ہے، اس لئے نکاح میں کفائت کا حکم دیاگیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پٹھان انصاری کا کفو ہے یا نہیں؟ تو معلوم ہونا چاہئے کہ عجمیوں کے حق میں نسب میں کفاءت کا اعتبار نہیں ہے، اس لئے کہ عام طور پر عجمیوں کے پاس نسب محفوظ نہیں ہے ، اس لئے پٹھان انصاری کا کفو ہوسکتاہے، ہمارے معاشرہ میں نکاح میں برادری وغیرہ کا اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح عرب و عجم میں کفاءت نہ ہونا بھی سابقہ مصلحت کے پیش نظر ہے، آپ غیرانصاری برادری میں شادی کرسکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہندوستان میں کفاءت دیانت، مال اور پیشہ میں معتبر ہے اس کے علاوہ میں نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
BottoTop of Form
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3301/46-9057
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیت لا تضار والدۃ کا مفہوم یہ ہےکہ اگر میاں بیوی کے درمیان علاحدگی ہوجائے اور بیوی اجرت مثل یا بلا اجرت کے دودھ پلانے پر راضی ہوجائے تو بچے کو ماں سے جد ا کرکے اس کو تکلیف نہ دی جائے گی ،اسی طرح اگر بچہ ماں کے علاوہ کا دودھ قبول کررہاہو اور ماں دودھ پلانے کے لیے تیار نہ ہو تو ماں کو مجبور کرکے تکلیف نہیں دی جائے گی اسی طرح ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر ماں دودھ پلاتی ہے تو باپ کو اجرت مثل سے زیادہ دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔اس آیت کا تعلق جرم و سزا اور قصاص سے متعلق نہیں ہےاس لیے اگر چہ قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا لیکن دیت وغیرہ دینی ہوگی،اسی طرح ہم دیکھتے ہیں بیٹے کو قاتل کو میراث نہیں ملے گی۔ ۔ لا تُضَارَّ والِدَةٌ بِوَلَدِها يعني لا ينزع الولد من أمه بعد أن رضيت بإرضاعه ولا يدفع إلى غيرها وقيل معناه لا تكره الأم على إرضاع الولد إذا قبل الصبي لبن غيرها لأن ذلك ليس بواجب عليها وَلا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ يعني لا تلقي المرأة الولد إلى أبيه وقد ألفها تضاره بذلك، وقيل معناه لا يلزم الأب أن يعطي أم الولد أكثر مما يجب عليه لها إذا لم يرضع الولد من غير أمه، فعلى هذا يرجع الضرار إلى الوالدين فيكون المعنى: لا يضار كل واحد منهما صاحبه بسبب الولد. وقيل يحتمل أن يكون الضرر راجعا إلى الولد. والمعنى: لا يضار كل واحد من الأبوين الولد فلا ترضعه حتى يموت فيتضرر(تفسیر خازن،1/166)ومعنى {لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّه بِوَلَدِهِ}: لا تضار والدة زوجها بسبب ولدها، بأن تطلب منه ما ليس بعدل من الرزق والكسوة، وأن تشغل قلبه بالتفريط في شأن الولد، وأن تقول له: اطلب مرضعًا، بعد أن ألفها الرضيع، ولا يضر مولود له - وهو الأب - زوجته المرضعة بسبب ولده، بأن يمنعها شيئًا مما وجب لها عليه من رزق أو كسوة، أو يأخذ منها الصبي - وهي تريد إرضاعه - أو يكرهها على الإرضاع(.التفسیر الوسیط،1/393) "ولا قصاص على الأبوين، والأجداد، والجدات من قبل الآباء، والأمهات عندنا، وقال مالك إن رمى الأب ولده بسيف أو سكين فقتله فلا قصاص عليه... وحجتنا في ذلك قوله: عليه السلام «لا يقاد الوالد بولده ولا السيد بعبده» وقضى عمر بن الخطاب رضي الله عنه في من قتل ابنه عمدا بالدية في ماله، ومنهم من استدل بقوله - عليه السلام - «أنت ومالك لأبيك» فظاهر هذه الإضافة يوجب كون الولد مملوكا لأبيه ثم حقيقة الملك تمنع وجوب القصاص كالمولى إذا قتل عبده فكذلك شبهة الملك باعتبار الظاهر ... ثم على الآباء، والأجداد الدية بقتل الإبن عمدا في أموالهم في ثلاث سنين...وإن كان الوالد قتل ولده خطأ فالدية على عاقلته، وعليه الكفارة في الخطأ، ولا كفارة عليه في العمد عندنا؛ لأن فعله محظور محض كفعل الأجنبي والمحظور المحض لا يصلح سببا لإيجاب الكفارة عندنا." (کتاب المبسوط ،كتاب الديات،109،10،11،12/25/26،ط:دار الكتب العلمية)
"(سئل) هل يحبس الوالد في دين ولده أم لا؟ (الجواب) : لا يحبس والد في دين ولده كما صرح به في الملتقى وغيره من الكتب المعتبرة ونكر الوالد ليدخل جميع الأصول فلا يحبس أصل في دين فرعه؛ لأنه لا يستحق العقوبة بسبب ولده وكذا لا قصاص عليه بقتله ولا بقتل مورثه ولا يحد بقذفه ولا بقذف أمه الميتة كما في البحر من الحبس وقال في محيط السرخسي من آخر كتاب أدب القضاء لا يحبس أحد الأبوين والجدين والجدتين إلا في النفقة لولدهما لقوله تعالى {وصاحبهما في الدنيا معروفا} [لقمان: 15] وليس الحبس من المعروف ولأن في الحبس نوع عقوبة تجب ابتداء للولد ولا يجوز أن يعاقب ابتداء بتفويت حق على الولد كالقصاص اهـ."(العقود الدریۃ،كتاب القضاء،باب الحبس،مسائل شتى،307/1،ط:دارالمعرفة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3288/46-9006
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب شرعی طور پر حویلی کی تقسیم ہوچکی ہے اور بہنوں نے اپنا حصہ فروخت بھی کر دیا ہے تو اب دوبارہ اس طرح کا مطالبہ کرنا جس میں دوسرے فریق کو اس قدر ضرر اور نقصان لازم آئے بالکل درست نہیں ہے، بہنوں کو جائداد کی تقسیم کے وقت یہ مطالبہ کرنا چاہئے تھا۔ اب جس قدر آپسی رضامند سے طے ہو جائے وہ کر لیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3255/46-8066
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(۱) سوال میں مذکور مفتی صاحب سے منع کرنے کی وجہ معلوم کریں، نیز مقامی علماء سے معلوم کریں ، وہ وہاں کے حالات کے اعتبار سے جو فتوی دیں اس پر عمل کریں۔ (۲) جن صاحب نے قبرستان کے لئے زمین دی ہے ان کے ورثاء سے تحریری طور پر لکھوالیاجائے اور اسے سرکاری طور پر قبرستان کے نام پر رجسٹرڈ کرالیا جائے تاکہ آئندہ اس زمین کے تعلق سے کوئی نزاع نہ پیدا ہو، (۳) جب وہ زمین قبرستان کے لئے ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں دوسرے میت کو بھی دفن کرنا چاہئے تاکہ قبرستان ہونے کی حیثیت واضح ہوسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 3254/46-8066
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اس سے پہلے بھی اس سے متعلق وضاحت کی گئی تھی کہ اس میں کئی چیزیں تحقیق طلب اور قابل غورہیں، (1) ہر فرد حج و عمرہ مشن کے تحت جو ممبر بنائے جائیں گے ان سے صرف ایک مرتبہ پانچ ہزار یا تین ہزار رجسٹریشن فیس لی جائے گی یا ہر ماہ کوئی فیس کی مقدارطے ہے۔ (2) اگر صرف رجٹریشن فیس لی جائےگی اور اس پر ان کو فری گفٹ دیا جائے گااور قرعہ اندازی کے ذریعہ جس کا نام آئے گا اس کو حج یا عمرہ پر بھیجاجائے گا تو ظاہر ہے کہ سو لوگوں نے پیسہ جمع کیا ایک کا نام نکلا اس کو حج پر بھیجاگیا ،باقی لوگوں کا پیسہ ڈوب گیا،اور جو فری کوپن ہے وہ سفر کرنے کی صورت میں ایک قسم کی سہولت ہے ، کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی کو انٹرنیشنل سفر کی سہولت میسر ہو۔ اس لئے بظاہر اس میں قمار اور جوا کا پہلو نکلتاہے۔ اگر یہی صورت حال ہے جس کے جواب کا تذکرہ کیاگیا ہے تو یہ درست نہیں ہے، اور اگر کوئی دوسری صورت ہے تو مزید وضاحت کرکے سوال کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 3253/46-8040
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پہلے، دوسرے جملہ کا معنی یہ ہے کہ میں تجھکو طلاق دیدیوں گا، تیسرے جملہ (طلاق دےئی تھے نا) کا مطلب ہے کہ میں نے تجھکو طلاق دی، پھر اپنے گھر جا اس کے بعد شوہر نے کہا کہ میں تجھکو طلاق دے رہاہوں۔ اگر اس طرح مفہوم ہے تو صورت مسئولہ میں دو طلاقیں واقع ہوئیں۔ اگر اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں دی ہے تو ان دو طلاقوں کے بعد شوہر کو اختیار ہے کہ چاہے تو عدت میں رجعت کرلے اور بیوی سے یا دوگواہوں کے سامنے کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لیا۔ تو بیوی نکاح میں باقی رہ جائے گی۔ اور اگر عدت (تین ماہواری)گزرچکی ہے تو اب دوبارہ دونوں نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ اب شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔ اگر ایک طلاق بھی آئندہ دے دی تو بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔ اور اگر مذکورہ بالا الفاظ کا کوئی اور مطلب ہے تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کریں۔
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاکٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ۔۔۔۔الخ (القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 229) واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقة رجعیة او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا۔ (الھدایة: (کتاب الطلاق، 394/2) فان طلقھا ولم یراجعھا بل ترکھا حتی انقضت عدتھا بانت وھذا عندنا۔ (بدائع الصنائع: (180/3) اذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فلہ ان یتزوجھا فی العدۃوبعد انقضاءالعدۃ۔ (الفتاوی الھندیۃ: (473/1)
"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب". ) رد المحتار) (3/ 409(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند