نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دوبارہ جماعت خواہ وہ کسی بھی نماز کی ہو اس مسجد میں نہ کریں کیوں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب تراویح پڑھنے والوں کو (جو الگ الگ مسجد میں تراویح پڑھتے تھے) ایک امام کے پیچھے جمع کیا تھا۔ اس لیے مذکورہ عمل سنت طریقہ کے خلاف ہے۔ ہاں مسجدسے ہٹ کر اگر جماعت کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۲)

(۲) لو صلی التراویح مرتین في مسجد واحد یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶)ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 31

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: تراویح میں پورا قرآن کریم سننا اور سنانا سنت ہے۔ اور یہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ حتی الامکان مساجد میں قرآن پاک سننے سنانے کا اہتمام کرنا چاہئے خلاف ورزی درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) قولہ: التراویح سنۃ بإجماع الصحابۃ ومن بعدہم من الأمۃ منکرہا مبتدع ضال مردود الشہادۃ کما في المضمرات۔ (أحمد بن إسماعیل، طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۱)(ذکر لفظ الاستحباب والأصح أنہا سنۃ) یعني في حق الرجال والنساء، وفیہ نظر؛ لأنہ قال: یستحب أن یجتمع الناس، وہذا یدل علی أن اجتماع الناس مستحب، ولیس فیہ دلالۃ علی أن التراویح مستحبۃ، وإلی ہذا ذہب بعضہم فقال: التراویح سنۃ والاجتماع مستحب، وقولہ: (لأنہ واظب علیہا الخلفاء الراشدون) إنما یدل علی سنیتہا لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین من بعدي۔ (بدر الدین العیني، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل، فصل في قیام شہر رمضان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۱، دار الکتب العلمیۃ، بروت)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7 ص: 30

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دونوں کا وقت ایک ہی ہے، تراویح نماز عشاء کے بعد ہے، تراویح چھوٹ جانے کی صورت میں طلوع صبح صادق سے پہلے پہلے تک اس کو ادا کرسکتا ہے۔ اس کے بعد اس کی قضاء لازم نہیں۔(۱)

(۱) الأفضل إلی ثلث اللیل أو إلی النصف اعتباراً بالعشاء، ولو أخرہا إلی ماوراء النصف، اختلف فیہ: قال بعضہم: یکرہ استدلالا بالعشاء؛ لأنہ تبع لہا، والصحیح أنہ لایکرہ۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ: فصل وقت صلاۃ التراویح المستحب‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۱، دار الکتب العلمیۃ، بروت)ووقتہا ما بعد صلاۃ العشاء علی الصحیح إلی طلوع الفجر ولتبعیتہا للعشاء۔ (أحمد بن إسماعیل، طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۳، دار الکتاب، دیوبند)فتاوي دار العلوم وقف ديوبند: ج 7 ص: 30

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جان بوجھ کر تراویح ترک کرنا سنت مؤکدہ کو ترک کرنا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا اندیشہ ہے اور ایسا شخص گناہگار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک کا مقصد کچھ اور تھا اور اس شخص کا ترک کرنا سستی اور کاہلی ہے اور مزید یہ کہ اس لاأبالی پن کے لیے خوامخواہ دلیل بھی پکڑنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک کے مقصد کو کسی عالم سے سمجھ لیا جائے اور تراویح ضرور پڑھا کریں خوامخواہ گناہوں کی گٹھری نہ باندھیں۔(۱)

(۱) التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال والنساء إجماعا ووقتہا بعد صلاۃ العشاء إلی الفجر۔ وقال الشامي: سنۃ مؤکدۃ، صححہ في الہدایۃ وغیرہا، وہو المروي عن أبي حنیفۃ … وفي شرح منیۃ المصلي: وحکی غیر واحد الإجماع علی سنیتہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص : ۴۹۳)الجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ في الأصح، فلو ترکہا أہل مسجد أثموا إلا لو ترک بعضہم۔ قولہ: والجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ إلخ۔ أفاد أن أصل التراویح سنۃ عین، فلو ترکہا واحد کرہ، بخلاف صلاتہا بالجماعۃ فإنہا سنۃ کفایۃ فلو ترکہا الکل أساؤوا؛ أما لو تخلف عنہا رجل من أفراد الناس وصلی في بیتہ فقد ترک الفضیلۃ، وإن صلی أحد في البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد، وہکذا في المکتوبات، کما في المنیۃ، وہل المراد أنہا سنۃ کفایۃ لأہل کل مسجد من البلدۃ أو مسجد واحد منہا أو من المحلۃ؟ ظاہر کلام الشارح الأول؛ واستظہر الثاني؛ ویظہر لي الثالث، لقول المنیۃ: حتی لو ترک أہل محلۃ کلہم الجماعۃ فقد ترکوا السنۃ وأساؤوا۔ اھـ۔ (أیضاً: ص: ۴۹۵)فَصلٌ: وأما سننہا فمنہا الجماعۃ والمسجد؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قدرما صلی من التراویح صلی بجماعۃ في المسجد، فکذا الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم۔ صلوہا بجماعۃ في المسجد فکان أداؤہا بالجماعۃ في المسجدسنۃ، ثم اختلف المشایخ في کیفیۃ سنۃ الجماعۃ، والمسجد، أنہا سنۃ عین أم سنۃ کفایۃ؟ قال بعضہم: إنہا سنۃ علی سبیل الکفایۃ إذا قام بہا بعض أہل المسجد في المسجد بجماعۃ سقط عن الباقین۔ ولو ترک أہل المسجد کلہم إقامتہا في المسجد بجماعۃ فقد أسائوا وأثموا، ومن صلاہا في بیتہ وحدہ، أو بجماعۃ لایکون لہ ثواب سنۃ التراویح لترکہ ثواب سنۃ الجماعۃ والمسجد۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: صلاۃ التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۵)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی بالناس عشرین رکعۃ لیلتین، فلما کان في اللیلۃ الثالثۃ اجتمع الناس فلم یخرج إلیہم، ثم قال من الغد: خشیت أن تفرض علیکم فلا تطیقوہا۔ (التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الکبیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ التطوع‘‘: ج ۲، ص: ۲۱، رقم: ۵۴۰، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)فتاوي دار العلوم وقف ديوبند ج 7 ص 29

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مرد اپنی بیوی یا دیگر محرم عورتوں کی تراویح میں امامت کر سکتا ہے اور عورتیں پیچھے کھڑی ہوں۔(۱)

(۱) عن عبد الرحمن بْن أبي بکرۃ، عَن أبِیہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أقبل من نواحي المدینۃ یرید الصلاۃ، فوجد النَّاس قَد صلوا، فمال إلی منزلہ، فجمع أہلہ، فصلی بہم۔ (ابن رجب، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۶، ص ۸، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)

وہذا بخلاف المرأۃ الواحدۃ فإنہا تتأخر مطلقاً کالمتعددات الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۴)

المرأۃ إذا صلت مع زوجہا في البیت إن کان قدمہا محل أقدام الزوج لاتجوز صلاتہما بالجماعۃ، وإن کان قدمہا خلف قدم الزوج إلا أنہا طویلۃ تقع رأس المرأۃ في السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتہما؛ لأن العبرۃ للقدم۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ، باب في الإمامۃ، محاذاۃ المرأۃ للرجل في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۹، المکتبۃ الفیصل، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند  ج 7 ص 28

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بالغ لڑکا محرم عورتوں کی امامت کر سکتا ہے، اگر ان کے ساتھ غیر محرم عورتیں بھی پردہ کے ساتھ شامل ہوجائیں تو جائز ہے؛ البتہ اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو ایسی جگہ نامحرم عورتوں کا شامل ہونا جائز نہیں ہے، اس فتنہ کے دور میں عورتوں کے لیے یہ ہی بہتر ہے کہ اپنے اپنے گھر میں تنہا تنہا تراویح پڑھیں۔(۱)

(۱) تکرہ إمامۃ الرجل لہن فی بیت لیس معہن رجل غیرہ ولا محرم منہ کأختہ أو زوجتہ أو أمتہ أما إذا کان معہن واحد ممن ذکر أو أمہن في المسجد لایکرہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۳، زکریا دیوبند)عن أم حمید رضي اللّٰہ عنہا أنہا جاء ت إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالت: یارسول اللّٰہ! إني أحب الصلاۃ معک، قال: قد علمت أنک تحبین الصلاۃ معي وصلوتک في بیتک خیر من صلوتک فيحجرتک، الخ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج۶، ص:۳۷۱، رقم: ۲۷۰۹۰) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد 7 ص 27

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3213/46-7098

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی کو قرض دے کر بطور رہن کے اس کی زمین اپنے قبضہ میں لے لینا درست ہے، لیکن اس زمین پر کھیتی کرکے اس سے نفع اٹھانا درست نہیں ہے، اس لئے کہ  رہن سے نفع حاصل کرنا اگرچہ مالک کی اجازت ہو درست نہیں ہے یہ اپنے ہی قرض سے فائدہ اٹھانا ہے جو ناجائز ہے۔

  کل قرض جر منفعۃ فھو ربا (مصنف ابن ابی شیبۃ 2069)

لایحل لہ ان ینتفع بشیئ منہ بوجہ من الوجوہ وان اذن لہ الراہن لانہ اذن لہ فی الربا لانہ یستوفی دینہ کاملا فتبقی لہ المنفعۃ فضلا فیکون ربا (ردالمحتار 6/482)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اجماع و قیاس

Ref. No. 3212/46-7081

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ ضعیف حدیث جو  صحیح حدیث کی ہی  ایک ذیلی قسم ہے  وہ باطل اور موضوع نہیں ہے تو اگر متعلقہ باب میں کوئی  متصادم اثر ۔ کسی صحابی کا قول نہ ملے اور اجماع کے خلاف بھی نہ ہو تو احناف کے نزدیک قیاس کے مقابلہ میں اس حدیث ضعیف پر عمل کرنا اولیٰ ہوگا۔

مثال کے طور پر  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے نماز میں قہقہہ لگانے والی حدیث ضعیف  کو  قیاس پر ترجیح دی ہے، کھجور کے نبیذ سے وضو والی حدیث ضعیف  کو قیاس پر ترجیح دی ہے،  اسی طرح حیض کی اکثر مدت دس دن والی حدیث ضعیف کو  قیاس پر ترجیح دی ہے، اسی طرح  دس درہموں سے کم حق مہر نہیں ہے کی حدیث ضعیف کو قیاس پر ترجیح دی ہے۔ اس لئے احناف کے یہاں حدیث ضعیف کو قیاس پر ترجیح حاصل ہوگی۔

’’وأصحابنا ہم المتمسکون بالسنۃ والرأي في الـحقيقۃ فقد ظہر منہم من تعظيم السّنۃ ما لم يظہر من غيرہم ممّن يدعي أنہ صاحب الحديث، لأنہم جوزوا نسخ الکتاب بالسنۃ لقوّۃ درجتہا وجوزوا العمل بالمراسيل وقدموا خبر المجہول علی القياس وقدموا قول الصّحابيّ علی القياس، لأن فيہ شبہۃ السماع من الوجہ الّذي قررنا، ثمّ بعد ذٰلک کلہ عملوا بالقياس الصّحيح وہو المعنی الّذي ظہر أثرہ بقوتہ۔ فأما الشّافعي رحمہ اللہ حين لم يجوز العمل بالمراسيل فقد ترک کثيرا من السّنن وحين لم يقبل روايۃ المجہول فقد عطل بعض السّنۃ أيضا وحين لم ير تقليد الواحد من الصّحابۃ فقد جوز الإعراض عمّا فيہ شبہۃ السماع .. وتبين أن أصحابنا ہم القدوۃ في أحکام الشّرع أصولہا وفروعہا وأن بفتواہم اتّضح الطّريق للنّاس إلّا أنہ بحر عميق لا يسلکہ کل سابح ولا يستجمع شرائطہ کل طالب، واللہ الموفق ۔(أصول السرخسي:۲/ ۱۱۳)

﴿وھو الذی رحّجہ علی القیاس ولیس المراد بالضعیف عندہ الباطل ولا المنکر ولا مافی رواتہ متھم بحیث لا یسوغ الذھاب الیہ والعمل بہ ، بل الحدیث الضعیف عندہ قسم الصحیح وقسم من اقسام الحسن ولم یکن یقسم الحدیث الی صحیح وحسن وضعیف ، بل الی صحیح وضعیف﴾

​(اعلام الموقعین۲،ص۵۵ فصل الرابع اخذا لمرسل)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3201/46-7053

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چوری کرکے  بجلی استعمال کرنا جائز نہیں ہے، نیز اس میں ملکی  قانون کی خلاف ورزی  بھی ہے اور اپنی توہین کا شدید خطرہ بھی ۔اس لئے بلامیٹر کے بجلی استعمال کرنا درست نہیں ہے۔   البتہ جو کھانا پکایا اس کا کھانا جائز ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 3211/46-7070

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد اگر اپنی خوشی سے بیوی اور بالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقہ فطر اداکرنا چاہے، تو بیوی اور بالغ اولاد اگر صاحب نصاب ہیں توان سے اجازت لینا یا کم از کم ان کو اطلاع دیدینا چاہئے۔  کیونکہ والد کے ذمہ اپنا اور اپنی نابالغ اولاد کا صدقہ فطر لازم ہوتاہے، بیوی اور بالغ اولاد کا فطرہ باپ پر لازم نہیں ہے۔ تاہم استحسانا اگر بیوی اور بالغ اولاد(جو صاحب نصاب ہوں)  کی اجازت یا ان کو اطلاع کے بغیر اداکیا تو مذکورہ افراد کا صدقہ  فطرادا  ہوجائےگا۔

"ولا يؤدي عن زوجته، ولا عن أولاده الكبار، وإن كانوا في عياله، ولو أدى عنهم أو عن زوجته بغير أمرهم أجزأهم استحسانا كذا في الهداية. وعليه الفتوى كذا في فتاوى قاضي خان. ولا يجوز أن يعطي عن غير عياله إلا بأمره كذا في المحيط". ( فتاوی ھندیۃ، کتاب الزکات،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر،ج:1 ،ص: 193،دارالفکر)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند