Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’بسم اللّٰہ، والّٰلہ أکبر، اللہم لک وإلیک، ہذہ عقیقۃ فلان‘‘ (فلان کی جگہ بچہ کا نام لیں)۔(۱)
(۱) عبد الرزاق عن ابن جریج قال: حدثت حدیثا، رفع إلی عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أنہا قالت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن حسن شاتین، وعن حسین شاتین ذبحہما یوم السابع قال: ومشقہما وأمر أن یماط عن رؤوسہما الأذی، قالت:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اذبحوا علی إسمہ، وقولوا: بسم اللّٰہ اللہم لک وإلیک، ہذہ عقیقۃ فلان۔ (أخرجہ أبو بکر عبد الرزاق، في مصنفہ: ج ۴، ص: ۳۳۰، رقم: ۷۰۶۳)
أخرج ابن أبي شیبۃ من طریق ہشام عن قتادۃ نحوہ قال: یسمی علی العقیقۃ کما یسمی علی الأضحیۃ بسم اللّٰہ عقیقۃ فلانٍ ومن طریق سعید عن قتادۃ نحوہ وزاد اللہم منک ولک عقیقۃ فلانٍ بسم اللّٰہ أللّٰہ أکبر ثم یذبح۔ (ابن حجر، فتح الباري: ج ۹، ص: ۵۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص378
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: بیت الخلا میں جاتے وقت دعا میں تین قسم کے الفاظ حدیث میں مذکور ہیں اور تینوں مصنف ابن ابی شیبہ میں ہیں:
عن أنس بن مالک قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا دخل الخلاء، قال: أعوذ باللہ من الخبث، والخبائث (۱)
عن زید بن أرقم، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن ہذہ الحشوش محتضرۃ، فإذا دخل أحدکم فلیقل: أللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث(۲)
عن أنس: أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا دخل الخلاء، قال: بسم اللہ أللہم إنی أعوذ بک من الخبث والخبائث‘‘ (۳)
ان تینوں میں کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں؛ البتہ مناجات مقبول میں جو دعا ہے، وہ معنی کے اعتبار سے زیادہ جامع ہے، اس لیے اس کا پڑھنا بھی درست ہے۔
(۱) أخرجہ ابن أبی شیبۃ، في مصنفہ، حققہ محمد عوامہ، کتاب الطہارۃ، ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، ج۱، ص:۲۱۹،رقم: ۱(بیروت : دارارقم، لبنان)
(۲) ایضاً،ج۱، ص:۲۲۱، رقم: ۲۹۸۹۹ (۳)ایضاً،ج۱، ص:۲۲۳، رقم: ۲۹۹۰۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص92
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال شخص بلا شبہ فاسق ہے جس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے(۱) لیکن اگر کوئی شخص فاسق و گناہگار ہو سچی توبہ کرے اور اپنی توبہ کا اعلان کرے تو اس کو اللہ رب العزت معاف کردیتے ہیں حدیث شریف میں ہے۔ ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(۲) جس شخص نے توبہ کرلی وہ ایسا ہو جاتا ہے کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو؛ اس لیے مذکورہ فی السوال حافظ کی اقتداء میں تراویح یا دیگر نماز پڑھنا بلا شبہ درست ہے اس کی اقتداء میں جو لوگ تراویح پڑھ رہے ہیں شرعاً ان کا یہ فعل بلا شبہ درست ہے۔(۳)
(۱) إمامۃ الفاسق مکروہۃ تحریماً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ‘‘:ص: ۳۰۳، رقم: ۴۲۵۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص56
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: جھوٹا الزام لگانے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے(۲) اس لیے بشرطِ صحت سوال مذکورہ شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ اس شخص سے معافی و توبہ و استغفار کے بعد امامت درست ہے، جس پر الزام لگایا گیا باہمی مشورے سے متولی و ذمہ داران مسئلہ کو حل کریں۔(۳)
(۲) إن الکذب یہدی إلی الفجور وإن الفجور یہدی إلی النار وإن الرجل لیکذب حتی یکتب عند اللّٰہ، کذابا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الآداب باب قول اللّٰہ، یاأیہا الذین آمنوا اتقو اللّٰہ وکونوا مع الصادقین وما ینہی عن الکذب‘‘: ج ۵، ص: ۵۳، رقم: ۶۰۹۴)
(۳) ومن أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ… کرہ لہ ذلک تحریماً وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إجعلوا أئمتکم خیارکم فإنہم وفدکم بینکم وبین ربکم، (محمد بن علی الشوکاني، نیل الأوطار، ’’کتاب الصلوۃ، باب ماجاء في إمامۃ الفاسق‘‘: ج۳، ص:۱۴۲، رقم: ۱۰۸۸)
وقد أخرجہ الحاکم في ترجمۃ مرتد الغنوي عنہ أن سرکم أن تقبل صلوتکم فلیؤمکم خیارکم فإنہم وفدکم بینکم وبین ربکم ویؤید ذلک حدیث ابن عباس المذکور۔ (أیضًا: ’’کتاب الصلوۃ، باب ماجاء في إمامۃ الصبي‘‘: ج۳، ص: ۱۹۶، رقم: ۱۰۹۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص184
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر شوہر اس کو اس قبیح فعل سے منع کرتا ہے، تو اس کی امامت درست ہے، لیکن اگر وہ اپنے شوہر کی مرضی یا شوہر کے حکم سے ایسا کرتی ہے، تو پھر اس کی امامت درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) {ٰٓیاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا} أي اعملوا الأعمال الصالحۃ وأتمروا بالأوامر واجتنبوا النواہي وأمروا أہلیکم بہا ولزموہم الطاعۃ والعبادۃ لتتقوا بذلک النار۔ (أوضح التفاسیر، ’’الباب السادس‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۶)
إن رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول أن الناس إذا أرادوا المنکر ولا یغیرونہ…یوشک اللّٰہ عز وجل أن یعمہم بعقابہ۔ (التیسیر في أحادیث التفسیر، ’’الربع الثاني من الحزب الثالث عشر‘‘: ج ۲، ص: ۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص274
اسلامی عقائد
Ref. No. 2753/45-4292
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح اذان دینا درست نہیں، اور مذکورہ غلطیوں کی وجہ سے اذان واجب الاعادہ ہوتی ہے، اس لئے کسی مناسب مؤذن کا نظم کرنا چاہئے اور ان کو منع کردینا چاہئے۔البتہ اب تک جو نمازیں ہوئیں وہ درست ہوگئیں ان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔ متولی صاحب کو اس پر توجہ دینی چاہئے، اگر کوئی مناسب اذان دینےوالا نہ ہو تو امام صاحب خود بھی اذان و اقامت کہہ سکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:اذان یا تکبیر میں اگر کوئی کلمہ چھوٹ جائے اور پھر یاد آجائے تواس جگہ سے اذان واقامت لوٹائیں جہاں کوئی کلمہ چھوٹا ہے، اگر اذان یا اقامت سے فارغ ہوجانے کے بعد یاد آیا تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ اکثر کلمات ادا ہوگئے یا اکثر چھوٹ گئے اگر اکثر کلمات چھوٹ گئے تو اعادہ کیا جائے ورنہ اعادہ کی ضرورت نہیں، اور اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔(۱)
(۱) قال (وإذا قدم المؤذن في أذانہ أو إقامتہ بعض الکلمات علی بعض فالأصل فیہ أن ما سبق أداؤہ یعتد بہ حتی لا یعیدہ في أذانہ) وما یقع مکررا لا یعتد بہ فکأنہ لم یکرر۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵، دارالکتاب العلمیہ، بیروت)
وإذا قدّم المؤذن في أذانہ وإقامتہ بعض الکلمات علی البعض، نحو أن یقول أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ قبل قولہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، فالأفضل في ہذا أن ما سبق أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ؛ لأن الأذان شرعت متطوعۃ مرتبۃ فتؤدی علی نظیرہ وترتیبہ إن مضی علی ذلک جازت صلاتہم۔ (أبو المعالي برہان الدین المرغینانی، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني: ’’کتاب الصلاۃ، بیان الصلاۃ التي لہا أذان والتي لا أذان لہا، في تدارک الحد الواقع فیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸)
وإذا قدم فی أذانہ أو في إقامتہ بعض الکلمات علی بعض نحو أن یقول: أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ قبل قولہ: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ وإن مضی علی ذلک جازت صلاتہ کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني: في الأذان‘‘ الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص161
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سینہ تک اٹھائیں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان قدرے فاصلہ رکھیں۔(۱)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: المسألۃ أن ترفع یدیک حذ ومنکبیک أو نحوہما۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الدعاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹، رقم: ۱۴۸۹)
عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رفع یدیہ في الدعاء لم یحطہما حتی یمسح بہما وجہہ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في رفع الیدین عند الدعاء‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۳، رقم: ۳۳۸۶)
فیبسط یدیہ حذاء صدرہ نحو السماء لأنہا قبلہ ویکون بینہما فرجۃ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فيإطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص430
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: فرض نمازوں میں امام کا ایک سانس میں سورۂ فاتحہ پڑھنا کوئی کمال نہیں ہے۔ اور اس کی عادت ڈال لینا ناپسندیدہ ہے کراہت تنزیہی سے خالی نہیں ہے۔ لہٰذا جو حضرات اعتراض کرتے ہیں اور اس کو اچھا نہیں سمجھتے وہ لوگ اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ترتیل کے ساتھ معانی میں تدبر کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے۔(۲)
(۲) عن یعلی بن مملک، أنہ سأل أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عن قراء ۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وصلاتہ، فقالت: مالکم وصلاتہ، کان یصلي، ثم ینام قدر ماصلی، ثم یصلي قدر مانام، ثم ینام قدر ما صلی حتی یصبح۔ ثم نعتت قرائتہ فإذا ہی تنعت …قرائۃ مفسرۃ حرفاً حرفاً۔ وقال أبو عیسی: ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: کیف کانت قراء ۃ النبي‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۰، رقم: ۲۹۲۳)
عن أبي حمزۃ قال: قلت لابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: إني سریع القرآن إني أقرأ القرآن في ثلاث، قال: لئن أقرأ البقرۃ في لیلۃ أتدبرہا وارتلہا أحب إلی أن أقرأ کما تقرأ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان، فصل في أومان تلاوۃ القرآن‘‘: ج ۳، ص: ۴۰۶، رقم: ۱۸۸۲)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقال لصاحب القرآن: إقرأ وارتق، ورتل کما کنت ترتل في الدنیا؛ فإن منزلک عند آخر آیۃ تقرأہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یستحب الترتیل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۶، رقم: ۱۴۶۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص227
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت مؤکدہ کبھی کبھار ترک ہو جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے، لیکن ترک پر اصرار کرنا گناہ کا باعث ہے اور چھوڑ نے کی عادت بنا لینا موجب فسق ہے۔ سنت مؤکدہ کے ترک پر بہت سی احادیث میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جو شخص ظہر کی پہلی چار سنت مؤکدہ چھوڑ دے اس کو میری شفاعت نصیب نہ ہوگی،(۱) اور مؤکدہ سنتوں کا پڑھنا بھی احادیث سے ثابت ہے، طبرانی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے سفر وحضر یا مرض وصحت میں کبھی فجر کی سنتیں چھوڑی ہوں،(۲) ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل چار رکعت سنت اور ظہر کے بعد دو رکعت سنت، مغرب کے بعد دو رکعت سنت اور عشاء کے بعد دو رکعت سنت اور فجر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے تھے۔(۳) ان روایات سے سنن مؤکدہ کے پڑھنے کی تاکید اور چھوڑنے پر گناہ معلوم ہوتا ہے، سنت مؤکدہ کیوں مشروع ہوئیں؟ اس کی وضاحت فرمائی کہ فرض نماز سے پہلے شیطان انسانوں کو بہکاتا ہے جب انسان فرض سے پہلے سنت پڑھتا ہے تو شیطان یہ تصور کرتا ہے کہ جس نے فرض سے کم درجہ کی چیز سنت نہیں چھوڑی تو وہ فرض بدرجہ اولیٰ نہیں چھوڑے گا اور بہکانا بند کر دیتا ہے اور جب انسان فرض نماز ادا کرتا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ کوتا ہی ضرور ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ کی یہ عبادت اس کی شایان شان نہیں ہو پائی تو بعد والی سنتوں سے اس نقصان کو پورا کیا جاتا ہے ایک حدیث میں ہے کہ نماز روزہ وزکوٰۃ کا فریضہ جب پورا نہ ہو تواس کو تطوع (سنت) سے پورا کیا جائے گا، جمہور علماء ومفتیان کے نزدیک یہ ہی وضاحت ہے،(۴) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے سنت مؤکدہ کا تذکرہ نہ کرنے سے سنت مؤکدہ کی تاکید کم نہیں ہوتی۔
(۱) لأن فیہا وعیداً معروفاً قال علیہ الصلاۃ و السلام من ترک أربعاً قبل الظہر لم تنلہ شفاعتي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)
(۲) وفي أوسط الطبراني عنہا أیضاً: لم أراہ ترک الرکعتین قبل صلاۃ الفجر في سفر ولا حضر ولا صحۃ ولا سقم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۳، ۸۴)
(۳) عن عبد اللّٰہ بن شقیق قال: سألت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من التطوع فقالت: کان یصلي قبل الظہر أربعاً في بیتي الخ۔ (أخرجہ ابوداؤد،… في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب التطوع ورکعات السنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸، دار الکتاب دیوبند)
(۴) لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: ھل یفارقہ الملکان؟‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶، زکریا دیوبند)
(قولہ لجبر النقصان) أي لیقوم في الآخرۃ مقام ما ترک منہا لعذر کنسیان، وعلیہ یحمل الخبر الصحیح أن فریضۃ الصلاۃ والزکاۃ وغیرہما إذا لم تتم تکمل بالتطوع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲، زکریا دیوبند)
وفي التنجیس والنوازل والمحیط: رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقاً فقد کفر لأنہ ترک استخفافاً، وإن رأی حقاً منہم من قال لا یأثم والصحیح أنہ یأثم لأنہ جاء الوعید بالترک۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص353