Frequently Asked Questions
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 39 / 968
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
In the above mentioned case you are not obliged to do ghusl; only wadhu will be enough to perform namaz. You must abstain from waswasa.
And Allah know best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Fiqh
Ref. No. 41/1036
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
your question is not clear to us. Can you please send us detail about the incentives? It will help us understand the matter well.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
روزہ و رمضان
Ref. No. 884/41-01B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آکسیجن لینے سے ذرات اندر داخل ہوجاتے ہیں۔ اس لئے اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔
اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ شُرْبَ الدُّخَانِ الْمَعْرُوفِ أَثْنَاءَ الصَّوْمِ يُفْسِدُ الصِّيَامَ، لأِنَّهُ مِنَ الْمُفْطِرَاتِ. (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ ج28 ص36)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1080/41-252
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ بکر کے واش روم میں لیکیج ہے تو بکر کو چاہئے کہ اپنا واش روم ٹھیک کرائے ۔ زید کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اگر دونوں باہمی مشورہ اور صلح کے ساتھ کچھ طے کرلیں تو زیادہ بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1624/43-1197
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کا بلاکسی وجہ کے انکارکرنا سخت گناہ ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے پھر عورت قربت سے انکار کردے اور شوہر اسی طرح ناراضگی کی حالت میں رات گزارے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ عورت کو سمجھائیں کہ یہ سخت گناہ ہے، اور اللہ کی سخت ناراضگی کا سبب ہے، نماز و روزہ کی طرح اس کو اسلامی حکم سمجھے اور شوہر کو ہرگز منع نہ کرے۔ البتہ اگر کبھی عورت کی سچ مچ مجبوری ہو تو شوہر کو اس کا خیال رکھنا چاہئے،۔ عورت کی شہوت میں کمی کسی بیماری کی وجہ سے بھی ہوتی ہے، کسی ماہر حکیم سے بتاکر اس کا علاج کرانابھی مفید رہے گا۔ اگر دوسرا نکاح کرنے کے تذکرے سے بات بن جائے تو یہ طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتاہے۔ یا پھر اگر وسعت ہو تو دوسرا نکاح بھی کیاجاسکتاہے۔ شریعت نے اس سلسلہ میں شوہر کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔ تاہم طلاق دینے سے بہرصورت شوہر گریز کرے۔ دوسرا نکاح کرنے کے لئے پہلی بیوی کو طلاق دینا شرعا ضروری نہیں ہے۔ شوہر کے لئے خودلذتی اور استمناء بالید جائز نہیں ہے۔
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ، فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا، لَعَنَتْهَا الْمَلائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ". رواه البخاري( بدء الخلق/2998) "وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :"إِذَا بَاتَتْ الْمَرْأَةُ مُهَاجِرَةً فِرَاشَ زَوْجِهَا لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تَرْجِعَ". رواه البخاري.(النكاح/4795) "وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهَا فَتَأْبَى عَلَيْهِ إِلا كَانَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّى يَرْضَى عَنْهَا". رواه مسلم. (النكاح/1736) "وعَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا الرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَهُ لِحَاجَتِهِ فَلْتَأْتِهِ وَإِنْ كَانَتْ عَلَى التَّنُّورِ". رواه الترمذي". ( الرضاع/ 1080) فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا (سورۃ النساء 3) (أو جامع فيما دون الفرج ولم ينزل) يعني في غير السبيلين كسرة وفخذ وكذا الاستمناء بالكف وإن كره تحريما لحديث «ناكح اليد ملعون» ولو خاف الزنى يرجى أن لا وبال عليه. قال ابن عابدین: وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ. ۔۔۔۔۔۔ بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم. (شامی، باب ما یفسد الصوم 2/399) الاستمناء حرام، وفيه التعزير، ولو مكن امرأته، أو أمته من العبث بذكره، فأنزل، فإنه مكروه، ولا شيء عليه، كذا في السراج الوهاج. (الھندیۃ، الباب الاول فی بیان السرقۃ 2/170) (فتح القدیر، باب مایوجب القضاء والکفارۃ 2/330) وهل يحل الاستمناء بالكف خارج رمضان إن أراد الشهوة لا يحل لقوله - عليه السلام - «ناكح اليد ملعون» ، وإن أراد تسكين الشهوة يرجى أن لا يكون عليه وبال كذا في الولوالجية (البحرالرائق، باب ما یفسد الصوم 2/293)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1710/43-1376
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلع سے شرعا ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے، اس لئے جب شوہر نے پہلی مرتبہ خلع کو قبول کیا تو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی، اور اس عورت کی عدت شروع ہوگئی۔ عورت کے بائنہ ہوجانے کے بعد دوسری مرتبہ خلع قبول کرنے پر دوسری طلاق بائن واقع نہیں ہوئی، اس لئے کہ طلاق بائن کے بعد طلاق بائن واقع نہیں ہوتی ہے۔ لیکن صریح طلاق بائن کے ساتھ ملحق ہوتی ہے، اس لئے خلع کے بعد صریح طلاق دینے سے دوسری طلاق واقع ہوگئی ۔اب شوہر کی جانب سے بیوی پر دوطلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اگر شوہر و بیوی دونوں نکاح کرنا چاہیں توعدت کے زمانے میں یا عدت گزرنے کے بعد نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں۔ لیکن خیال رہے کہ آئندہ شوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا، آئندہ کبھی بھی ایک طلاق دے گا تو عورت پر تین طلاقیں مکمل ہوجائیں گی اور عورت شوہر کے لئے شرعا پورے طور پر حرام ہوجائے گی۔
"الطَّلَاقُ الصَّرِيحُ يَلْحَقُ الطَّلَاقَ الصَّرِيحَ بِأَنْ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ وَقَعَتْ طَلْقَةٌ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ تَقَعُ أُخْرَى، وَيَلْحَقُ الْبَائِنُ أَيْضًا بِأَنْ قَالَ لَهَا: أَنْتِ بَائِنٌ أَوْ خَالَعَهَا عَلَى مَالٍ، ثُمَّ قَالَ لَهَا: أَنْتِ طَالِقٌ وَقَعَتْ عِنْدَنَا، وَالطَّلَاقُ الْبَائِنُ يَلْحَقُ الطَّلَاقَ الصَّرِيحَ بِأَنْ قَالَ لَهَا: أَنْتِ طَالِقٌ ثُمَّ قَالَ لَهَا: أَنْتِ بَائِنٌ تَقَعُ طَلْقَةٌ أُخْرَى، وَلَايَلْحَقُ الْبَائِنُ الْبَائِنَ". (الھندیۃ 1/377)
(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح ۔۔۔ (لا) يلحق البائن (البائن (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 306)
الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَامْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِاحْسَان۔۔۔۔۔۔۔ الی قولہ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ (سورۃ البقرۃ 230)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2023/44-1976
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سیلاب وغیرہ آفات میں تقسیم ہونے والی اشیاء زکوۃ کی مد سے بھی ہوتی ہیں اور نفلی صدقہ سے بھی ہوتی ہیں، اس لئے تمام متاثرین یہ امداد قبول کرسکتے ہیں۔ یہ امدادی اشیاء تقسیم کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ زکوۃ کی رقم ان کے مستحقین تک پہونچائیں، اور غیرمستحق کو زکوۃ کی رقم سے نہ دیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2332/44-3499
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ مسجد کے اخراجات مدرسہ کی آمدات سے پورے ہوتے ہیں، اس لئے ذمہ دار کی اجازت سے مسجد کا کوئی سامان مدرسہ میں کسی مصلحت کی بناء پر استعمال کیا جاسکتاہے۔ البتہ اگر کسی نے کوئی سامان خاص طور پر مسجد کے لئے وقف کیا ہو تو پھر اس کو مدرسہ میں لگانا جائز نہیں ہوگا۔
"لايجوز لمتولي الشيخونية بالقاهرة صرف أحد الوقفين للآخر". (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 234)
قالوا مراعاة غرض الواقفین واجبة۔ (رد المحتار علی الدر المختار6/665، ط: زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن خوانی کے بعد کھانے کو ضروری سمجھنا اور التزام کرنا بدعت ہے۔ جیسا کہ آج کے زمانے میں رائج ہے کہ کھانا عرف میں اجرت کی طرح ہے، پس ایسا کرنا درست نہیں ہے(۱)، اس سے قرآن خوانی کا ثواب نہیں ملتا، کہ سبھی پڑھنے والے حضرات کھانے کے لالچ میں پڑھتے ہیں، جس سے خود ان کو ثواب نہیں ملے گا تو وہ دوسروں کو کیا ثواب بخشیں گیں(۲)، اس مروجہ قرآن خوانی سے تو بہتر یہ ہے کہ خود ہی الحمد شریف یا سورہ اخلاص وغیرہ پڑھ کر ایصال ثواب کردے یا صرف غریبوں کو کھانا ہی کھلادے اور ایصال ثواب کردے؛ البتہ اگر عرف میں کھانا اجرت نہ ہو تو پھر بغیر التزام وہ صورت بھی درست ہے۔
(۱) فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
(۲) إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في استئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
ومنہا التزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعیین في الشریعۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، کتاب الاعتصام: ج ۱، ص: ۲۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص407
متفرقات
Ref. No. 2507/45-3826
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سمارت فون پر گیم کھیلنا ایک لغو عمل ہے، اپنے قیمتی وقت کو کسی مفید کام میں لگانا چاہئے۔
عن أبی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ۔ (سنن الترمذی، أبواب الزہد / باب ما جاء من تکلّم بالکلمة لیضحک الناس ،رقم: ۲۲۱۷)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند