بدعات و منکرات

Ref. No. 1633/43-1214

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   

الصلاة والسلام على النبی الکریم صلى الله عليه وسلم قبل الأذان غیر مشروعة واما الصلاة والسلام على النبی الکریم صلى الله عليه وسلم بعد الأذان فمستحبۃ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: إذا سمعتم مؤذناً فقولوا مثلَ ما يقول، ثم صلوا علي، فإنه من صلَّى عليَّ صلاةً صلَّى الله عليه بها عَشْراً، ثم سَلْوا ليَ الوَسيلَة، فإنها منزلةٌ فيِ الجنة لا تنبَغي إلا لعبد من عباد الله، وأرجو أنْ أكَونَ أناَ هو، فمن سألَ لي الوَسيلَة حلَّت عليه الشفاًعة (مسند احمد شاکر، اول مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص 6/141، الرقم 6569)  أما إذا كان المؤذن يقول ذلك برفع صوت كالأذان فذلك بدعة؛ لأنه يوهم أنھا جزء من الأذان، والزيادة في الأذان لا تجوز؛ و لو كان ذلك خيرا لسبق إليه السلف الصالح فی القرون المشھود لھا بالخیر ولم یوجد ذلک فیھا۔  فعلینا أن نحافظ على ما كان عليه العمل أيام الرسول صلى الله عليه وسلم وصحابته ومن بعدھم من عدم رفع المؤذن صوته بها۔ فلذا  رفع الصوت بالصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم غير مشروعة، وعلینا ان نصلی ونسلم علی النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم سرًا.  واما الصلوۃ والسلام علی النبی الکریم بعد الصلوات الخمسۃ سرا، و قبل ابتداء المدرسۃ و انتھائھا فلا باس بہ مالم یعتقد لزومھا و لم یلم احدا علی ترکھا۔   

وفي جميع الأحوال، لا يجوز تحويل هذه المسألة الفرعية إلى سبب للشقاق والنزاع في مساجد المسلمين، فالأصل احترام العمل والعاملین والمجادلۃ بالتی ھی احسن۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1828/43-1628

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہرشخص اپنی زمین میں پورے طو پر تصرف کا مالک ہوتاہے، اپنی زمین کے چاروں جانب  کچھ حصہ چھوڑ کردیوار چلانا، اور بغیر جگہ چھوڑے بالکل آخری  کنارہ پر دیوار چلانا بھی درست ہے۔  البتہ اگر آپ نے اپنی زمین کے آخری کنارہ پر دیوار اٹھائی تو پھر اس جانب کھڑکی یا دروازہ یا روشن دان  کھولنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہمارے عرف اورملک  کے قانون  میں بھی کھڑکی وغیرہ کھولنے کی اجازت صرف  اسی جانب ہوتی ہے  جس جانب اپنی زمین ہو۔ اس لئے دوسرے کی زمین کی طرف گرچہ وہ  ابھی تعمیر سے خالی ہو، کھڑکی وغیرہ کھولنا درست نہیں ہے۔  ملک  کے قانون کے مطابق عمل کریں۔

ہمارے یہاں بعض علاقوں میں یہ عرف ہے کہ ہر دومکانوں کے درمیان کچھ جگہ (گلی کے لئے) چھوڑی جاتی ہے تاکہ دونوں مکان والے اپنی کھڑکی اس گلی میں کھول سکیں ، جہاں یہ عرف ہو وہاں اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2032/44-2137

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خواب خوش آئند ہے، اور مرحومہ ان شاء اللہ جنت کی بہاروں میں ہے ، اور خواب دیکھنے والی کے لئے یہ بشارت اس میں ہے۔ حسب گنجائش صدقہ کرنا اچھی بات ہے،

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Miscellaneous

Ref. No. 2040/44-2016

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Difficulties are a part of life; the servants of Allah should not despair of Allah in any circumstances and should rely on Allah in order to live their lives in this world. One should always keep in mind that this world is short, tolerating people's words and being kind to relatives are among the basic teachings of Islam. Pay attention to the five daily prayers, recite the Holy Quran, say 100 times Durood Sharif and 100 times Istighfar, and pray to Allah. Also read “Rabbna Aatina fid dunya hasanah and fil aakhirati hasanah wa qina azaaban Naar” time and again. God willing, all problems will be solved soon.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دن مقرر کر کے مسجد میں درود شریف پڑھنے کا التزام کرنا درست نہیں ہے(۱) اتفاقاً ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے۔

(۱) عن ابن مسعود رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أنہ أخرج جماعۃ من المسجد یہللون ویصلون علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جہراً وقال ما أراکم إلا مبتدعین۔ (ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص420

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عقیقہ کرنا مسنون ہے جو ساتویں دن یا اس کے بعد کبھی بھی ہو جائے لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا اللہ کے نام عقیقہ کی نیت سے ذبح کیا جائے، پھر اس کو تقسیم کردیا جائے یا پکاکر لوگوں کو غریب امیر رشتہ داروں وغیرہ کو کھلا دیا جائے اور بچے کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کردی جائے۔
مذکورہ فی السوال طریقہ جو رائج ہے اس میں مسنون عقیقہ ادا نہیں ہوتا اور اگر رسم ورواج کے طور پر ہو تو بدعت ہوجائے گا، جس سے بچنا ضروری ہے، جہاں تک ہو سکے عقیقہ کردیا جائے اس سے بچہ کے سر سے بلائیں اور آفات بھی دور ہوجاتی ہیں۔ (۱)

(۱) عن سمرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: کل غلام رہینۃ بعقیقۃ، تذبح عنہ یوم السابع، وتحلق رأسہ، ویدمیٰ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ،…بقیہ  ’’کتاب الضحایا: باب في العقیقۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۲، رقم: ۲۸۳۷)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525

متفرقات

Ref. No. 2531/45-3903

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تصویر میں چہرہ اصل ہے، ایسا عضو جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا، اگر اس عضو کو کاٹ دیاجائے تو وہ تصویر کے زمرے میں نہیں ہے۔ اس لئے ایسی تصویر حرام نہیں ہے۔  اگر چہرہ کا دائرہ بناہواہو مگر آنکھ، ناک وغیرہ بناہوانہ ہو تو اس پر تصویر کا حکم نہیں ہوگا۔

وان کانت مقطوعۃ الراس لاباس بہ، وکذا لو محی وجہ الصورۃ فھو کقطع الراس (خلاصہ الفتاویٰ ، کتاب الصلوۃ 1/58)

او ممحوۃ عضو لاتعیش بدونہ لایکرہ ، لانھا لاتعبد وخبر جبریل مخصوص بغیرالمھانۃ (شامی، باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیھا، سعید ج1ص648)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے تین سال بعد ۵۷۴ء میں ہوئی۔(۱)
(۲) جس سال ابرہہ بادشاہ نے بیت اللہ پر حملہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ابابیل پرندوں کے ذریعہ اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اس واقعہ کے تیرہ سال کے بعد ۵۸۴ عیسوی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی اور آپ نے بعمر ۲۷؍ سال اسلام قبول کیا۔(۲)
(۳) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یکم محرم الحرام ۲۴ھ کو خلیفہ منتخب ہوئے۔ اور آپ کو اسود تجیی نے ۳۵ھ بروز جمعہ کو شہید کیا، حضرت حکیم بن حزام نے نماز جنازہ پڑھائی، ہفتہ کی شب میں جنت البقیع میں دفن کئے گئے، آپ کی کل عمر ۸۲ سال ہوئی۔ (۳)

(۱) أبو الحسن علی بن أبي الکرم، الکامل في التاریخ: ج۲، ص: ۴۱۹۔
 (۲) جلال الدین السیوطي، تاریخ الخلفاء: ص: ۱۰۹۔
(۳) بدر الدین العیني، عمدۃ القاري: ج۳، ص: ۵۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص239

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2634/45-4432

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If there is no Sunnat Namaz after Farz Namaz, it is masnoon to recite ‘Tasbih-e-Fatimi just after farz. But if there is sunnat namaz after Farz as in Zuhr, one should recite Tasbih Fatimi after sunnah namazs.

(قوله إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة. (فتاوی شامی، کتاب الصلوۃ ، باب صفة الصلوۃ جلد ۱ ص: ۵۳۰ ط: دارالفکر)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء نے جو لکھا ہے کہ پانی کے اوصاف بدل جائیں، تو اس کا استعمال درست نہیں ہے یہ بات علی الاطلاق نہیں ہے؛ بلکہ مراد یہ ہے کہ نجاست وگندگی کے ملنے سے اوصاف بدل جائیں، تو پانی ناپاک ہوتا ہے، پانی کے رکے رہنے کی وجہ سے یا کسی جگہ پانی میں کوئی پاک چیز مل جانے کی وجہ سے اگر اوصاف بدل جائیں، تو اس پانی کو ناپاک نہیں کہا جائے گا گاؤں، دیہات میں جو تالاب ہوتے ہیں ان میں پانی رکے رہنے کی وجہ سے ان کے اوپر کائی جم جاتی ہے، اوصاف بدل جاتے ہیں؛ لیکن پھر بھی وہ پانی پاک ہی رہتا ہے، کپڑے دھونے کے لئے پانی پاک ہی نہیں؛ بلکہ صاف بھی ہونا چاہئے تاکہ طبعی کراہت بھی نہ ہو تاہم اگر اس پانی سے کپڑے دھوئے جاتے ہیں، تو ان کپڑوں کو ناپاک نہیں کہا جائے گا، وہ کپڑے پاک ہیں اور ان میں نماز پڑھنی درست ہے، علامہ جزیری رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت فرمائی ہے:
’’قد یتغیر لون الماء وطعمہ ورائحتہ ومع ذلک یبقی طہور الصحیح استعمالہ في العبادات من وضوء وغسل ونحو ذلک ولکن ذلک مشروط بعد م  الضرر للشخص في عضو من أعضائہ فإنہ لا یحل لہ أن یتوضأ من ذلک الماء وقد یضطر سکان البوادی والصحاری إلی استعمال المیاہ المتغیرۃ حیث لا یجدون سواہا فأبا حت الشریعۃ الإسلامیۃ لمثال ہؤلاء أن یستعملوا ذلک الماء إذا أمنوا شرہ‘‘(۱)
’’لا لو تغیر بطول مکث فلو علم نتنہ بنجاسۃ لم یجز‘‘(۲)
(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: ما لا یخرج الماء عن الطہوریۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب حکم سائر المائعات کالماء في الأصح‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص46