اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں مذکورہ تمام رواج اور رسمیں (دسواں بیسواں منانا اس میں گوشت وغیرہ کا اہتمام) شرعاً ناجائز ہیں ان کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے نیز میت کے اعمال کی قبولیت اور عدم قبولیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں میت کے جنتی یا دوزخی ہونے کا مدار اس کے اعمال اور عقیدے پر ہے ان برائیوں اور ناجائز امور میں حصہ نہ لیا جائے اور اس میں لوگوں کے برا بھلا کہنے اور طعن وتشنیع کی پروا نہ کی جائے۔(۲)

(۲) یکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
 کم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہ۔ (سباحۃ الفکر لعبد الحي: ص:
۷۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص421

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دعاء کے آداب میں سے ہے کہ دونوں ہاتھ سینہ تک اٹھاکر دعا کرے اور دونوں کے درمیان فاصلہ ہو، ملاکر رکھنا خلاف اولیٰ ہے۔(۱)

(۱) الأفضل فيالدعاء أن یبسط کفیہ ویکون بینہما فرجۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع، فی الصلاۃ، والتسبیح، وقراء ۃ القرآن‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۷)
من آداب الدعاء بعد الصلوٰۃ رفع الیدین بحذاء صدرہ۔ (وزارۃ الأوقاف، الموسوعۃ الفقہیۃ، ’’رفع الیدین في الدعاء خارج الصلاۃ‘‘: ج ۴۵، ص: ۴۶۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص358

طہارت / وضو و غسل
نجاست غلیظہ کتنی معاف ہے؟ (۲۶)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام، مفتیان عظام کہ: نجاست سے مکمل پرہیز تو ممکن نہیں ہے، تو کیا تھوڑی بہت نجاست کے ساتھ اگر نماز پڑھ لی جائے تو نماز ہو جائے گی؟ نجاست غلیظہ کی کتنی مقدار معاف ہے، اس کی وضاحت فرما دیں کرم ہوگا۔ فقط: والسلام المستفتی: محمد سرور، غازی آباد

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک چہرہ دھوتے وقت پانی کا بہانا شرط ہے، جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں مذکور ہے: الغسل ہو الاسالۃ اور اسالۃ کہتے ہیں: پانی کے بہانے کو اس لیے چہرہ پر پانی کا بہانا ضروری ہے، اس کے بغیر وضو درست نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) و أن تسییل الماء شرط في الوضوء في ظاہر الروایۃ فلا یجوز الوضوء ما لم یتقاطر الماء۔(جماعۃ من الہند، الفتاوی الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول، في الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۵۳)؛ والغسل ہو إسالۃ المانع علی المحل، والمسح ہو الإصابۃ؛ حتی لو غسل أعضاء  وضوء ہ، ولم یسل الماء بأن استعملہ مثل الدہن لم یجز في ظاہر الروایۃ۔ ( الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، تفسیر الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۵)؛ و لا یجوز الوضوء والغسل بدون التسییل في الغسل۔ (علاء الدین السمرقندي، تحفۃ الفقھاء، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص164

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :اگر یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ امام صاحب نے نقض وضو کے بعد پاؤں دھونے کے بجائے عام موزوں پر مسح کیا ہے، تو احناف کے نزدیک امام کا وضو نہ ہونے کی وجہ سے ایسے امام کی اقتداء کرنا جائز نہیں،جو موزہ چمڑے کا نہ ہو؛ لیکن ایسا دبیز ہو کہ اس میں پانی نہ چھنتا ہو اور اس کو پہن کر میل بھر چلنا ممکن ہو، تو ایسے موزے پر مسح جائز ہے؛ لیکن عام موزوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی؛ اس لیے ان پر مسح جائز نہیں۔ (۱)   حنفی مسلک والے لوگوں کی دوسری جماعت ممکن ہو، تو جماعت سے پڑھ لیں؛ ورنہ تنہا پڑھیں؛ بوجہ مجبوری ترک جماعت کے گناہ سے محفوظ رہیں گے، ان شاء اللہ، چاروں ائمہ کرام کا مسلک حق ہے(۲)۔ صرف سہولت کے لیے مسلک تبدیل کرنا درست نہیں۔(۳)

(۱)أو جوربیہ ولو من غزل أو شعر الثخینین بحیث یمشي فرسخا، و یثبت علی الساق بنفسہ، ولا یری ماتحتہ ولا یشف۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’باب المسح علی الخفین ، مطلب: اعراب قولھم إلا أن یقال،‘‘ ج۱، ص:۴۵۱)
(۲)إن ھذہ المذاھب الأربعۃ المحررۃ قد أجمعت الأمۃ -أو من یُعتدّ بہ منھا- علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا، و في ھذا من المصالح مالا یخفی، لا سیما في ھذہ الأیام التي قصرت فیھا الھمم جداً، و أشربت النفوس الھوی، و أعجب کل ذي رأي برأیہ۔ (الشاہ ولی اللہ الدہلوي، حجۃ اللہ البالغہ، ’’فصل: حکم التقلید والرد علی ابن حزم في تحریمہ،‘‘ ج۱، ص:۵۰۶، مکتبۃ فیصل دیوبند)
(۳)و  أن الحکم الملفق باطل بالإجماع، و أن الرجوع عن التقلید بعد العمل باطل إتفاقا، وھو المختار في المذھب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’مقدمہ، مطلب: لا یجوز العمل بالضعیف حتی لنفسہ عندنا،‘‘ج ۱، ص:۱۷۷)، یجوز للحنفي أن ینتقل إلی مذھب الشافعي وبالعکس لکن بالکلیۃ، أما في مسئلۃ واحدۃ، فلا یمکن، کما لو خرج دم من بدن حنفي و سال، فلا یجوز لہ أن یصلي قبل أن یغسلہ اقتداء بمذھب الشافعي في ھذہ المسألۃ، فإن صلّی، بطلت صلاتہ (لعدم مراعاتہ شروط الشافعي في حکم الطھارۃ والصلاۃ بأجمعھا)  و قال بعضھم : لیس لعامي أن یتحول من مذھب إلی مذھب حنفیاً کان أو شافعیا (أي لکونہ انتقالہ مبنیاً علی التشھي والتلھي غالباً۔ والتلھي بالمذاھب حرام بالإجماع) انتھی۔ (ظفر احمد العثماني، إعلاء السنن، ’’فوائد في علوم الفقہ، الفائدۃ الحادیۃ عشرۃ،‘‘ ج ۲۰، ص:۲۹۳المکتبۃ الاشرفیۃ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص267

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بات یہی ہے کہ زید ایسا ہی شخص ہے کہ عید گاہ اور جامع مسجد کے روپیہ میں غیر محتاط ہے اور اپنے خرچ میں لے آتا ہے اور حساب بھی نہیں دیتا ہے اور قرآن بھی صحیح نہیں پڑھتا تو ایسا شخص شرعی مجرم وفاسق ہے اس کو امام نہ بنانا چاہئے۔(۱)

(۱) لا تجوز إمامۃ الفاسق بلا تأویل کالزاني وشارب الخمر۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳، نعیمیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص140

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: بشرط صحت سوال اگر کوئی دوسرا اچھا قاری ہو تو اس کو مقرر کرلیا جائے اور اگر ان سے اچھا پڑھنے والا کوئی نہ ہو تو پھر اس کی امامت درست ہے۔(۲)

(۲) ومن لا یحسن بعض الحروف ینبغي أن یجتہدو لایعذر في ذلک فإن کان لاینطق لسانہ في بعض الحروف إن لم یجد آیۃ لیس فیہا تلک الحروف تجوز صلاتہ ولا یؤم غیرہ وإن وجد آیۃ لیس فیہا تلک الحروف فقرأہا جازت صلاتہ عند الکل، وإن قرأ الآیۃ التي فیہا تلک الحروف، قال بعضہم: لاتجوز صلاتہ، ہکذا في فتاویٰ قاضی خان وہو الصحیح کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند،   …الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج۱، ص: ۱۳۷)، زکریا۔
ولا غیر الألثغ بہ أي بالألثغ علی الأصح کما في البحر عن المجتبی وحرر الحلبي وابن الشحنۃ أنہ بعد بذل جہدہ دائماً حتما کالأمي فلا یؤم الأمثلۃ ولا تصح صلاتہ إذا أمکنہ الاقتداء بمن یحسنہ أو ترک جہدہ أو وجد قدر الفرض مما لا لثغ فیہ ہذا ہو الصحیح المختار في حکم الألثغ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الألثغ‘‘: ج۲، ص: ۳۲۷، ۳۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص235

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں پہونچ کر معلوم ہوا کہ جماعت ہوچکی ہے، تو دوسری مسجد میں جماعت کی تلاش میں جانا واجب نہیں ہے، اگر جانا چاہے، تو جا سکتا ہے منع بھی نہیں ہے، اگر چلا جائے گا اور جماعت میں شرکت کرے گا، تو نماز جماعت کا ثواب پائے گا۔(۱)

(۱) الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج ولو فاتتہ ندب طلبہا في مسجد آخر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘ : ج ۲، ص: ۲۹۰، ۲۹۱)
عن عبد الرحمن بن أبي بکرۃ عن أبیہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم أقبل من بعض نواحي المدینۃ یرید الصلاۃ فوجد الناس قد صلوا فذہب إلی منزلہ فجمع أہلہ ثم صلی بہم۔ (سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الأوسط: ج ۷، ص: ۵۰، رقم: ۶۸۲۰)
عن الحسن قال: کان أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا دخلوا المسجد وقد صلی فیہ صلوا فرادیٰ۔ (أبو بکر عبد اللّٰہ بن محمد بن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۲، ص: ۳۳، رقم: ۷۱۸۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص347

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچے کے کان میں جو اذان دی جاتی ہے اس اذان کا جواب دینا شریعت اسلامیہ میں مستحب ہے؛ اس لیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً اذان سننے والے کو جواب دینے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما یقول المؤذن، وأیضاً: قال یحی وحدثني بعض إخواننا: أنہ قال: لما قال حي علی الصلوٰۃ قال: لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ وقال: ہکذا سمعنا نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول‘‘(۲)
مرد ہو یا عورت جو کوئی اذان کی آواز سنے اور مؤذن جو الفاظ کہے اسی کو دہرائے؛ لیکن جب مؤذن ’’حي علی الصلوٰۃ‘‘ اور حي علی الفلاح‘‘ کہے تو سننے والا ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ‘‘ کہے گا۔
اس سلسلے میں علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: کیا نماز کی اذان کے علاوہ دیگر اذانوں کا بھی جواب دیا جائے گا، مثلاً بچے کی پیدائش کے وقت اذان دینا وغیرہ؟ اس کا جواب خود دیتے ہیں کہ میں نے اس مسئلہ پر اپنے ائمہ میں سے کسی کی تصریح نہیں دیکھی مگر ظاہر ہے کہ دیگر اذانوںکی طرح اس اذان کا جواب بھی دیا جائے گا۔
’’ھل یجیب أذان غیر الصلاۃ کالأذان للمولود؟ لم أرہ لأئمتنا والظاہر نعم!‘‘(۲)
نیزبچہ یا بچی کی پیدائش پر اسے غسل دینے کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مسنون عمل ہے۔
ترمذی شریف میں روایت ہے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت پر ان کے کان میں اذان کہی تھی‘‘ اور امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
’’عن عبید بن أبي رافع عن أبیہ قال رأیت رسول اللّٰہ صلیٰ اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم أذن في أذن الحسن بن علي حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ، ہذا حدیث حسن صحیح‘‘(۳)
’’عن حسین قال: قال رسول اللّٰہ صلیٰ اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم: من ولد لہ فأذن في أذنہ الیمنی وأقام في أذنہ الیسری، لم تضرہ أم الصبیان‘‘(۴)
الحاصل: نومولود بچے کی پیدائش کے بعد کانوں میں اذان واقامت کہنا مسنون ہے، جب کہ اس اذان کا جواب دینا مستحب ہے۔

(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب ما یقول إذا سمع المنادي‘‘: ج۱ ، ص: ۱۲۶رقم ۶۱۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲، ص: ۶۶۔
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبـواب الأضــاحي: باب الأذان في أذن المولود‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸، رقم: ۱۵۱۴۔
(۴) أخرجہ أبو یعلی، في مسندہ: ج ۱۲، ص: ۱۵۰، رقم: ۶۷۸۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص245

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اصح قول کے مطابق مسنون یہ ہے کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے جائیں اور عورت اپنا ہاتھ سینہ کے اوپر باندھے۔ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا روایات سے ثابت ہے ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہے۔
’’وکونہ تحت السرۃ للرجال لقول علي رضي اللّٰہ عنہ: من السنۃ وضعہما تحت السرۃ‘‘(۱)
’’ورأي بعضہم أن یضعہما تحت السرۃ‘‘(۲)
’’قال: موسیٰ بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن أبیہ، قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۳)
’’عن أبي وائل عن أبي ہریرۃ أخذ الأکف علی الأکف في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۴)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال ثلاث من أخلاق النبوۃ: تعجیل الإفطار وتأخیر السجود ووضع الید الیمنی علی الیسریٰ في الصلوٰۃ تحت السرۃ‘‘ (۵)
’’عن أبي جحیفۃ أن علیا قال السنۃ وضع الکف علی الکف في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۶)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۷۲۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في وضع الیمین علی الشمال في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹، رقم: ۲۵۲۔
(۳) أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ: ج ۱، ص: ۱۳۹۔
(۴)  أخرجہ أبي داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰، رقم:۷۵۸۔
(۵) فخرالدین العثمان الماردیني، الجوہر النقي: ج ۲، ص: ۱۳۲
(۶) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰، رقم:۷۵۶

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص385