فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یقینا موجودہ حالات کا علم رکھنا ایک مفتی کے لیے انتہائی ضروری ہے، ان حالات کو جانے بغیر صحیح رائے نہیں دی جاسکتی، علاوہ ازیں بہت ساری چیزیں عام حالات میں ناجائز ہوتی ہیں، مگر خاص حالات میں ان کی اجازت مع شرائط دی جاتی ہے۔ (۱)

(۱) من جہل بأہل زمانہ فہو جاہل۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین: ج ۲، ص: ۱۳۱)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص145

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان کو پاک پانی سے دھو لیا جائے اور ان کپڑوں کو پہن کر جو نماز یں اداء کی تھیں ان کی قضا کرلی جائے۔ (۱)

(۱) أما لو غسل في غدیر أو صب علیہ ماء کثیر أو جریٰ علیہ الماء طہر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفیف وتکرار غمس ہو المختار۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۲)
النجاسۃ إن کانت غلیظۃ وہي أکثر من قدر الدرہم فغسلہا فریضۃ والصلوٰۃ بہا باطلۃ وإن کانت مقدار درہم فغسلہا واجب والصلوٰۃ معہا جائزۃ وإن کانت أقل من الدرہم فغسلہا سنۃ وإن کانت خفیفۃ فإنہا لا تمنع جواز الصلوٰۃ حتی تفحش، کذا في المضمرات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث، في شروط الصلوٰۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص63

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں پے در پے وضو کرنا یعنی ایک عضو کے سوکھنے سے پہلے دوسرے عضو کو دھو لینا سنت ہے، اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے۔ تولیہ اور خارجی آلہ سے اعضائے وضو کو بغیر کسی عذر کے خشک کرنا بھی مکروہ ہے؛ البتہ وضو ہو جائے گا۔
نیز پے در پے وضو کرنے کے سنت ہونے کا تعلق بھی عام حالت کے ساتھ ہے کہ جب کوئی عذر نہ ہو؛ لیکن اگر کوئی عذر اور مجبوری ہو جس کی وجہ سے وضو میں تسلسل برقرار رکھنا اور اس سنت پر عمل پیرا ہونا مشکل ہو، تو ایسی صورت میں یہ معاف ہے جیسے اگر کسی شخص نے وضو کرتے وقت کچھ اعضائے وضو دھو لیے اس کے بعد پانی ختم ہو جائے اور وہ پانی کی تلاش میں مشغول ہو جائے جس کی وجہ سے وضو میں تسلسل برقرار نہ رہے اور اس بنا پر دوسرا عضو دھونے میں اس قدر تاخیر ہو جائے کہ پہلا عضو خشک ہو جائے تو یہ معاف ہے، اس کی وجہ سے وضو میں تسلسل کی سنت کی خلاف ورزی اور کراہت لازم نہیں آئے گی۔
’’ومنہا: الموالاۃ وہي التتابع، وحدہ أن لا یجف الماء علی العضو قبل أن یغسل ما بعدہ في زمان معتدل، ولا اعتبار بشدۃ الحر والریاح ولا شدۃ البرد ویعتبر أیضا استواء حالۃ المتوضئ، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ وإنما یکرہ التفریق في الوضوء إذا کان بغیر عذر، أما إذا کان بعذر بأن فرغ ماء الوضوء فیذہب لطلب الماء أو ما أشبہ ذلک فلا باس بالتفریق علی الصحیح۔ وہکذا إذا فرق في الغسل والتیمم، کذا في السراج الوہاج‘‘(۱)
’’ہذا وقد عرفہ في البدائع بأن لا یشتغل بین أفعال الوضوء بما لیس منہ۔ ولا یخفی أن ہذا أعم من التعریفین السابقین من وجہ، ثم قال: وقیل: ہو أن لا یمکث في أثنائہ مقدار ما یجف فیہ العضو۔ أقول: یمکن جعل ہذا توضیحا لما مر بأن یقال: المراد جفاف العضو حقیقۃ أو مقدارہ، وحینئذ فیتجہ ذکر المسح، فلو مکث بین مسح الجبیرۃ أو الرأس وبین ما بعدہ بمقدار ما یجف فیہ عضو مغسول کان تارکا للولاء، ویؤیدہ اعتبارہم الولاء في التیمم أیضا کما یأتي قریبا مع أنہ لا غسل فیہ، فاغتنم ہذا التحریر۔ (قولہ: حتی لو فنی ماؤہ إلخ) بیان للعذر۔ (قولہ: لا بأس بہ) أي علی الصحیح، سراج (قولہ: ومثلہ الغسل والتیمم) أي إذا فرق بین أفعالہما لعذر لا بأس بہ کما في السراج، ومفادہ اعتبار سنیۃ الموالاۃ فیہما‘‘(۱)

 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني، في سنن الوضوء ومنہا: الموالاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص173

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :(۱) خفین پر مسح کرنا ائمہ اربعہ اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نزدیک جائز ہے؛ سوائے شیعہ کے ایک فرقہ روافض کے (امامیہ) ان کے نزدیک مسح علی الخفین جائز نہیں روافض کی دلیل أرجلکم میں دوقرأت ہیں، قراء ت نصب تقاضہ کرتی ہے پاؤں کے دھونے کے وجوب پر اور قرأ ت کسرہ تقاضا کررہی ہے پاؤں پر مسح کرنے کے وجوب پر  نہ کہ خفین پر مسح کرنے پر، اس لیے روافض کے نزدیک خفین پر مسح جائز نہیں۔
(۲) مدت مسح کے بارے میں احناف اور امام مالکؒ کے درمیان اختلاف ہے، امام مالکؒ کے نزدیک صرف سفر کی حالت میں جائز ہے، حضر کی حالت میں جائز نہیں؛ اس لیے کہ مسح مشقت اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے مشروع ہوا ہے اور مشقت کی جگہ سفر ہے نہ کہ حضر ۔
احناف کے نزدیک خفین پر مسح کرنا جس طرح حالت سفر میں جائز ہے، اسی طرح حالت حضر میں بھی جائز ہے؛ البتہ مقیم خفین پر ایک دن اور ایک رات مسح کرے گاجب کہ مسافرتین دن اور تین رات مسح کرے گا۔ فالمسح علی الخفین جائز عند عامۃ الفقہاء و عامۃ الصحابۃؓ۔ (۱) وقال مالک یجوز للمسافر ولا یجوز للمقیم، واحتج من أنکر المسح بقولہ تعالی: ’’یاأیہا الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوہکم‘‘ الآیۃ، فقراء ۃ النصب تقتضي وجوب غسل الرجلین مطلقاً عن الأحوال، لأنہ جعل الأرجل معطوفۃ علی الوجہ والیدین وہي مغسولۃ فکذا الأرجل، و قراء ۃ الخفض تقتضي وجوب المسح علی الرجلین لا علی الخفین۔(۱)
 

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۷
(۱) ایضاً، ج۱،ص:۷۶

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص273


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: گالی دینا اور اس کی عادت بنا لینا موجب فسق ہے شریعت اسلامی اور وقار امامت کے خلاف ہے؛ اس لیے امام پر لازم ہے کہ گالیوں کو ترک کرے اور توبہ واستغفار کرے، اگر وہ اس گناہ سے باز نہ آئے تو منصب امامت سے علیحدہ کرنا ہی بہتر ہے۔(۲)

(۲) عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال قال: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سباب المؤمن فسوق وقتالہ کفر، متفق علیہ۔ (مشکاۃ المصابیح، ’’باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۱، رقم:۴۸۱۴، یاسر ندیم دیوبند)
ولذکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
ولو أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص146

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں لنگڑے اور بیٹھ کر امامت کرنے والے کی امامت تراویح اور دیگر نمازوں میں درست ہے جب کہ امام رکوع اور سجدہ ادا کرنے پر قادر ہو، لیکن اگر دوسرا لائق امامت وتندرست موجود ہو تو اسی کو امام بنایا جائے ایسی صورت میں لنگڑے کو امام بنانا بہتر نہیں ہے۔
’’وصح اقتداء … قائم بقاعد یرکع ویسجد لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی آخر صلاتہ قاعدا وہم قیام وأبوبکر یبلغہم تکبیرہ قولہ وقائم بقاعد أي قائم راکع
ساجد أو موم وہذا عندہما خلافا لمحمد وقید القاعد بکونہ یرکع ویسجد لأنہ لو کان مومیا لم یجز اتفاقا‘‘(۱)
’’ولا قادر علی رکوع وسجود بعاجز عنہما لبناء القوی علی الضعیف قولہ بعاجز عنہما أي بمن یومی بہما قائما أو قاعداً بخلاف ما لو أمکناہ قاعداً فصحیح کما سیأتي …‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، ۳۳۷۔    (۲) أیضًا۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص241

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت میں جماعت اور مسجد کی بڑی فضیلت آئی ہے  ایک نابینا شخص نے آپ B سے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگی، تو آپ B نے فرمایا: تم اذان کی آواز سنتے ہو انہوں نے کہا جی! تو آپ B نے فرمایا: پھر تم مسجد میں آیا کرو۔ مسجد میں جماعت کی نماز کا ثواب گھر کی نماز سے بہت زیادہ ہے،(۱) اس کے علاوہ مسجد مسلمانوں کا مرکز ہے جس سے ہر مسلمان کو وابستہ رہنا چاہیے، گھر میں جماعت کی پابندی سے کئی مسائل بھی پیدا ہوں گے مسجد کی برکت سے محرومی، مسجد میں افراد زیادہ ہوتے ہیں جتنے زیادہ افراد ہوں گے اتنا ثواب زیادہ ملے گا،(۲)
مسجد میں کوئی اللہ والا بھی شریک ہے کہ اس کی دعا میں ہم بھی شریک ہو جائیں گے، اس لیے فقہاء نے ایسے لوگوں کو جو مسجد آسکتے ہیں گھر میں نماز کے اصرار کو ناپسند کیا ہے۔ آپ نے جن دو مصلحت کا ذکر کیا ہے، ایک راستہ ہے، اگر واقعی راستہ پر خطر ہو، تو ایسی صورت میں گھر میں جماعت کرنے کی گنجائش ہو سکتی ہے؛(۱) لیکن دوسری وجہ کہ گھر پر زیادہ لوگ شریک ہوں گے او رمسجد میں کم لوگ جائیں گے یہ عذر نہیں ہے؛ اس لیے کہ وہ لوگ جو مسجد نہیں جاتے ہیں انہیں ترغیب دی جائے اور مسجد کی نماز کی فضیلت کو بیان کیا جائے او رایک ایک نماز میں آہستہ آہستہ ان کو مسجد لانے کا پابند بنایا جائے، مسجد میں صرف جماعت کا ہی نہیں بلکہ تکثیر جماعت کا اہتمام ہونا چاہئے۔ (۲)

(۱) إن ابن أم مکتوم أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکان ضریر البصر فشکا إلیہ وسألہ أن یرخص لہ في صلاۃ العشاء والفجر، وقال: إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبینک أشیاء، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہل تسمع الأذان، قال: نعم! مرۃ أو مرتین فلم یرخص لہ في ذلک۔ (المعجم الأوسط، ’’باب من اسمہ: محمود‘‘: ج ۸، ص: ۳۰،الشاملۃ)
(۲) أن صلاۃ الرجل مع الرجل أزکی من صلاتہ وحدہ وصلاتہ مع الرجلین أزکی من صلاتہ مع الرجل وما کثر فہو أحب إلی اللّٰہ تعالیٰ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۶؛ ’’أزکی‘‘ أي أکثر ثواباً۔ (عون المعبود، ’’کتاب الصلاۃ، باب في فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۲)
(۱) ویسقط حضور الجماعۃ بواحد من ثمانیۃ عشر شیئاً مطر وبرد وخوف۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب فصل یسقط حضور الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
(۲) لأن قضاء حق المسجد علی وجہ یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ مکروہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۰)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص353

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف رفع سبابہ عند التشہد کی سنیت کے قائل ہیں۔ اور یہ ثابت من الشریعہ ہے۔
’’الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا یرفعہا عند النفي ویضعہا عند الإثبات۔۔۔۔ الثاني  بسط الأصابع إلی حین الشہادۃ، فیعقد عندہا ویرفع السبابۃ عند النفي ویضعہا عنــد الإثبــات، وہذا ما اعتمد المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحۃ ولصحۃ نقلہ عن أئمتنا الثلاثۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب مہم في عقدالأصابع عند التشہد‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸، زکریا۔
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قعد یدعو وضع یدہ الیمنی علی فخذہ الیمنی ویدہ الیسری علی فخذہ الیسری وأشار بإصبعہ السبابۃ ووضع إبہامہ علی إصبعہ الوسطی ویضم کفہ الیسری رکبتہ‘‘ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ’’باب صفۃ الجلوس في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۲۱۶، رقم:۵۷۹)
عن مالک بن نمیر النخراعي عن أبیہ قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم واضعاً ذراعہ الیمنی علی فخذہ الیمنی رافعاً أصبعہ السبابۃ قدحناہا شیئاً۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الرکوع والسجود، باب الإشارۃ في التشہد‘‘: ج۱، ص:۱۴۲،رقم: ۹۹۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص396

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: فجر کی نماز میں امام کو اتنی مختصر قرأت کی عادت ڈال لینا خلاف سنت ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے کوئی خاص عذر نہ ہو، تو نماز فجر میں سورۃ حجرات سے لے کر، سورہ بروج تک کی سورتوں میں کسی سورت کا پڑھنا مسنون اور مستحب ہے یا کسی اور جگہ سے کم از کم چالیس آیات کا پڑھنا مسنون ومستحب ہے؛(۱) البتہ اگر وقت کی تنگی ہو یا کسی اور ضرورت یا عذر کی بناء پر قرأت مختصر کرے، تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

(و) یسن (في الحضر) لإمام ومنفرد، ذکرہ الحلبي، والناس عنہ غافلون (طوال المفصل) من الحجرات إلی آخر البروج (في الفجر والظہر، و) منہا إلی آخر لم یکن (أوساطہ في العصر والعشاء، و) باقیہ (قصارہ في المغرب) أي في کل رکعۃ سورۃ مما ذکر، ذکرہ الحلبی، واختار في البدائع عدم التقدیر، وأنہ یختلف بالوقت والقوم والإمام۔
وفي حاشیۃ ابن عابدین: (قولہ واختار في البدائع عدم التقدیر إلخ) وعمل الناس الیوم علی ما اختارہ في البدائع، رملی۔ والظاہر أن المراد عدم التقدیر بمقدار معین لکل أحد وفي کل وقت، کما یفیدہ تمام العبارۃ، بل تارۃ یقتصر علی أدنی ما ورد کأقصر سورۃ من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورۃ من قصارہ عند ضیق وقت أو نحوہ من الأعذار، لأنہ علیہ الصلاۃ والسلام قرأ في الفجر بالمعوذتین لما سمع بکاء صبي خشیۃ أن یشق علی أمہ، وتارۃ یقرأ أکثر ما ورد إذا لم یمل القوم، فلیس المراد إلغاء الوارد ولو بلا عذر، ولذا قال في البحر عن البدائع: والجملۃ فیہ أنہ ینبغي للإمام أن یقرأ مقدار ما یخف علی القوم ولا یثقل علیہم بعد أن یکون علی التمام، وہکذا في الخلاصۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘:ج ۲، ص: ۲۵۹، ۲۶۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص194

 

ربوٰ وسود/انشورنس

 

سوال مذکور کا جواب دیا جاچکا ہے، فتوی نمبر 886 دیکھئے۔

Ref. No. 886 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کمیٹی میں کسی کو کم یا زیادہ رقم نہ ملے بلکہ صرف یہ مقصود ہو کہ ہر ایک کو اکٹھی رقم مل جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند