Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: لپسٹک اگر اتنی ہلکی سی لگی ہو کہ وضو وغسل کے وقت ہونٹوں تک پانی پہنچے میں رکاوٹ نہ بنے، تو اس کے لگے ہونے کی حالت میں وضو و غسل درست ہے اور اگر اتنی زیادہ لگی ہوکہ وہ پانی پہنچنے سے مانع ہو، تو وضو اور غسل کے وقت اسے بالکل صاف کرنا ضروری ہے وضو درست ہونے کے بعد اگر لپسٹک لگائی ہو،تو نماز درست ہے : شرط صحتہ أي الوضوء ۔۔۔ زوال ما یمنع وصول الماء إلی الجسد کشمع وشحم۔(۴) ولایمنع الطہارۃ ونیم وحناء و درن و وسخ وتراب في ظفر مطلقاً، ولایمنع ما علی ظفر صباغ ۔۔۔ وقیل إن صلبا منع(۱) والخضاب إذا تجسد ویبس یمنع تمام الوضوء والغسل کذا في السراج الوھاج۔(۲)
(۴)حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في أحکام الوضوء،‘‘ ص:۲۵
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل، فرض الغسل،‘‘ ج۱، ص:۲۸۸
(۲) جماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الأول: في فرائض الوضوء، الفرض الثاني: غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴؛ و أبوبکر بن علي، الجوہرۃ النیرۃ علی مختصر القدوری، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص159
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :شریعت میں خفین اس کو کہتے ہیں، جو چمڑے یا چمڑے جیسی کسی چیز سے بنائے جائیں۔
وہ پیروں کو ٹخنے یا پنڈلی تک ڈھانپ لیں۔
پاؤں سے متصل رہیں۔
اور ان میں پانی نہ چھن سکے۔
ہر قسم کے موزے کو خف نہیں کہا جاتا، محدثین کا یہ ہی قول ہے۔(۱)
(۱)و أما المسح علی الجوربین فإن کانا مجلدین أو منعلین یجزیہ بلا خلاف، و إن لم یکونامجلدین ولا منعلین فإن کانا رقیقین یشفان الماء لا یجوز المسح علیھما بالإجماع۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی درالمختار، ج۱، ص:۳۱۵)؛ و الاوّل : کونہ ساتر محل فرض الغسل القدم مع الکعب۔والثاني: کونہ مشغولا بالرجل لیمنع سرایۃ الحدث الخ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۳۷-۴۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص262
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کو چاہئے کہ اتنی جلدی نہ کرے کہ مقتدیوں کو پریشانی ہو بلکہ تعدیل ارکان (نماز کے ارکان کو اطمینان سے ادا کرنے) پر عمل کرے سنت یہ ہے کہ اس قدر اطمنان سے رکوع وسجدہ کی تسبیحات پڑھے کہ مقتدیوں کے لیے بھی پڑھنا آسان ہو، تاہم اگر امام اتنی جلدی قرأت شروع کردے کہ مقتدی ثناء مکمل نہ کرسکے تو اگر ایک آدھ جملہ ثناء کا باقی رہے تو مقتدی کو چاہئے کہ جلد اس کو پورا کرکے امام کی قرأت سننے میں مشغول ہوجائے اور اگر پوری ثناء یا اکثر حصہ باقی رہے تو اس کو چھوڑ کر امام کی قرأت کے سننے میں مشغول ہوجائے۔(۲)
رکوع و سجدے میں بھی ایسا ہی ہے کہ امام کے ساتھ ہی رکوع سجدے سے اٹھ جائے اگر تسبیح شروع کردی ہے تو اس کو جلد پورا کرے اور نہیں شروع کی تو امام کے ساتھ اٹھ جائے دیر نہ کرے کہ امام کی متابعت واجب ہے اور تسبیح رکوع وسجود سنت ہے۔(۱)
(۲) یرکع ویتابع الإمام ویترک الثناء … لأن الواجب علی المسبوق متابعۃ الإمام في ما أدرکہ ولا یجوز لہ أن ینفرد عنہ قبل أن یتم صلوتہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۲۶۶)
(۱) حدیث بن مسعود عنہ علیہ السلام أنہ قال إذا رکع أحدکم فلیقل ثلث مرات سبحان ربي العظیم وذلک أدناہ وإذا سجد فلیقل سبحان ربي الأعلی ثلث مرات وذلک أدناہ والمراد أدنی مایتم بہ تحقق السنۃ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۲۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص380
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسجد کی چھت پر وتر وتراویح کا ادا کرنا جائز ہے، لیکن افضل اور بہتر یہ ہی ہے کہ مسجد کے اصل حصہ میں (جس جگہ نماز فرض ادا کی ہے) نماز تراویح بھی ادا کی جائے۔(۳)
(۳) ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید کراہۃ الصعود علی سطح المسجد اھـ۔ ویلزمہ کراہۃ الصلاۃ أیضاً فوقہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۸، زکریا دیوبند)
الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ، ولہذا إذا اشتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ، کذا فی الغرائب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۳)
و إن صلی أحد فی بیتہ بالجماعۃ حصل لہم ثوابہا وأدرکوا فضلہا، ولکن لم ینالوا فضل الجماعۃ التي تکون في المسجد لزیادۃ فضیلۃ المسجد وتکثیر جماعتہ وإظہار شعائر الإسلام۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’باب التراویح‘‘:ص: ۴۰۲)
وکل ما شرع بجماعۃ فالمسجد فیہ أفضل، وإن صلی أحد فی البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲،ص: ۴۹۵، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص312
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ التسبیح اوقات منہیہ کے علاوہ کسی بھی وقت میں پڑھ سکتے ہیں تہجد کے وقت اور جمعہ کے دن نماز جمعہ سے قبل پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ اور اس کا طریقہ جو بہشتی زیور میں لکھا ہے۔(۱) کہ پہلی رکعت میں ثناء کے بعد تسبیحات نہ پڑھیں؛ بلکہ دونوں سجدوں سے فارغ ہوکر بیٹھ کر پڑھیں اور پھر کھڑے ہوں اور ایسے ہی تیسری رکعت میں بھی کریں وہ درست ہے اور حدیث ابن عباس میں یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ علامہ شامی نے دوسرا طریقہ بھی ذکر کیا ہے اور اسی کو قول مختار بتایا ہے۔(۲)
(۱) بہشتی زیور، ’’سنت اور نفل نمازوں کا بیان‘‘: ج ۱، ص: ۳۰، کتب خانہ اختری۔)
(۲) عن ابن عباس، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للعباس بن عبد المطلب: یا عباس، یا عماہ، ألا أعطیک، ألا أمنحک، ألا أحبوک، ألا أفعل لک عشر خصال إذا أنت فعلت ذلک غفر اللہ لک ذنبک؛ أولہ وآخرہ، وقدیمہ وحدیثہ، وخطأہ وعمدہ، وصغیرہ وکبیرہ، وسرہ وعلانیتہ؟ عشر خصال: أن تصلي أربع رکعات تقرأ في کل رکعۃ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ، فإذا فرغت من القراء ۃ في أول رکعۃ قلت وأنت قائم: سبحان اللّٰہ، والحمد للّٰہ، ولا إلہ إلا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر خمس عشرۃ مرۃ، ثم ترکع فتقول وأنت راکع عشرا، ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولہا عشرا، ثم تہوی ساجدا فتقول وأنت ساجد عشرا، ثم ترفع رأسک من السجود فتقولہا عشرا، ثم تسجد فتقولہا عشرا، ثم ترفع رأسک من السجود فتقولہا عشرا، فذلک خمسۃ وسبعون في کل رکعۃ تفعل في أربع رکعات، إن استطعت أن تصلیہا في کل یوم مرۃ فافعل، فإن لم تستطع، ففي کل جمعۃ مرۃ، فإن لم تفعل ففي کل شھر مرۃ، فإن لم تفعل ففي عمرک مرۃ۔ حکم الحدیث: صحیح۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ ’’کتاب الصلاۃ: ما جاء في صلاۃ التسبیح‘‘: ص: ۹۹)
(قولہ وأربع صلاۃ التسبیح إلخ) یفعلہا فی کل وقت لا کراہۃ فیہ، أو فی کل یوم أو لیلۃ مرۃ، وإلا ففي کل أسبوع أو جمعۃ أو شہر أو العمر، وحدیثہا حسن لکثرۃ طرفۃ۔(الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ التسبیح ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۱، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص422
روزہ و رمضان
Ref. No. 40/1105
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نذر پوری ہونے کی صورت میں صرف اسی شخص پر روزہ لازم ہوگا، پورے گھر والوں پر نہیں۔ اس لئے کہ نذر کے ذریعہ انسان اپنے اوپر مالی یا جسمانی عبادت کو لازم کرسکتا ہے دوسروں پر کوئی چیز لازم نہیں کرسکتا ہے۔ البتہ اگر اس شخص نے گھر کے تمام افراد کی موجودگی میں یہ نذر مانی اور سب لوگوں نے زبانی رضامندی ظاہر کی تو اس صورت میں تمام لوگوں پر روزہ لازم ہوگا۔ من نذر نذرا مطلقا او معلقا بشرط وکان من جنسہ واجب وھو عبادۃ مقصودۃ ووجد الشرط لزم الناذر لحدیث من نذر وسمی فعلیہ الوفاء بما سمی کصوم وصدقۃ ۔ وان لایکون ماالتزمہ اکثر مما یملکہ او ملکا لغیرہ ، فلو نذر التصدق بالف ولایملک الا مائۃ لزمہ المائۃ فقط۔ (ردالمحتار5/519)۔ وفی البحر عن الخلاصۃ لوقال للہ علی ان اھدی ھذہ الشاۃ وھی ملک الغیر لایصح النذر۔ (ردالمحتار5/519)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 903/41-11B
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
One should wear proper clothing while praying namaz. Allah says in the Quran: O Children of Adam! Take your adornment while praying. It means one should dress up for namaz and adopt clothing that is interpreted by Islamic scholars as being in accordance with the teachings of Islam.
Secondly, wearing a garment against its proper form is also disliked. Therefore, praying in half sleeved garment without any proper reason is Makrooh (disliked).
(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل (الدرالمختار 1/640)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1198/42-491
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ادھار قسط وار بیع میں نقد ثمن کے مقابلہ میں زیادہ قیمت وصول کرنا درست ہے بشرط کہ عقد کے وقت ہی ایک معاملہ طے کرلیا جائے اور قسط وار کی وجہ سے جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ سود نہیں ہے بلکہ قیمت کا ہی حصہ ہے۔ مذکورہ صورت میں اگر گاڑی کو فائنانس کے ذریعہ قسط وار خریدا اور فائنانس کا معاملہ براہ راست کمپنی سے ہے بینک سے نہیں ہے تو اس صورت میں قسط وار خریدنے کی یہ صورت درست ہے۔ البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطہ صحیح، یلزم ان تکون المدۃ معلومۃ فی البیع بالتاجیل والتقسیط (شرح المجلۃ، رقم المادۃ 245/246) والثمن ماتراضی علیہ المتعاقدان سواء زاد علی القیمۃ او نقص (ردالمحتار علی الدرالمختار: 1227، مطلب فی الفرق بین القیمۃ والثمن، ط زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1634/43-1220
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
نعم حکم العام الذی لم یخص عنہ البعض فی منزلۃ الخاص فی وجوب العمل بہ، وآیۃ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا عامۃ لم یخص عنھا البعض، فلماذا یخصون البعض بان یصلوا علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد الصلوۃ الجماعۃ الخمسۃ وقبل الاذان و فی ھذہ الآیۃ حکم مطلق والمطلق یجری علی اطلاقہ۔ فلھذا لایختص الصلوۃ والوقت للصلوۃ والسلام علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الاوقات المذکورۃ لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد، متفق علیہ، مشکوۃ المصابیح 1/27، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ایوب علیہ السلام کے جسد مبارک میں کیڑے پڑنے کی روایات معتبر نہیں ہیں، جن روایات وآثار سے کیڑے پڑنے اور جسد اطہر میں پھوڑے پھنسی وغیرہ کا ثبوت ہوتا ہے ان پر محققین نے رد کیا ہے، کیونکہ انبیاء علیہ السلام کو بشری بیماری لاحق ہونا تو ثابت ہے؛ لیکن ایسی بیماری کا لاحق ہونا جس سے انسانی طبیعت نفرت کرتی ہو نصوص شرعیہ کے خلاف ہے؛ بلکہ صحیح روایات اور آیت قرآنی سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوا تھا۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں لکھاہے: قرآن میں اتنا تو بتلایا گیا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصہ پر پھوڑے نکل گئے تھے یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو کوڑی پر ڈال دیا تھا، لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بیماریاں تو آسکتی ہیں، لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلانہیں کیا جاتا جن سے لوگ گھن کرنے لگیں۔(۱)
۱) مفتی محمد شفیع عثماني صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۵۲۲۔
قال: أہل التحقیق أنہ لا یجوز أن یکون بصفۃ یستقذرہ الناس علیہا …لأن فی ذلک تنفیرا فأما الفقر والمرض وذہاب الأہل فیجوز أن یمتحنہ اللّٰہ تعالی بذلک‘‘۔
وفي ہدایۃ المرید للفاني أنہ یجوز علی الأنبیاء علیہم السلام کل عرض بشری لیس محرما ولا مکروہا ولا مباحا مزریا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس ولا مما یؤدي إلی النفرۃ ثم قال بعد ورقتین: واحترزنا بقولنا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس عما کان کذلک کالإقعاد والبرص والجذام والعمی والجنون، وأما الإغماء، فقال النووي: لا شک في جوازہ علیہم لأنہ مرض بخلاف الجنون فإنہ نقص، وقید أبو حامد الإغماء بغیر الطویل وجزم بہ البلقینی، قال السبکي: ولیس کإغماء غیرہم لأنہ إنما یستر حواسہم الظاہرۃ دون قلوبہم لأنہا معصومۃ من النوم الأخف، قال: ویمتنع علیہم الجنون وإن قل لأنہ نقص ویلحق بہ العمی ولم یعم نبي قط، وما ذکر عن شعیب من کونہ کان ضریرا لم یثبت، وأما یعقوب فحصلت لہ غشاوۃ وزالت اہ۔
وفرق بعضہم في عروض ذلک بین أن یکون بعد التبلیغ وحصول الغرض من النبوۃ فیجوز وبین أن یکون قبل فلا یجوز، ولعلک تختار القول بحفظہم بما تعافہ النفوس ویؤدي إلی الاستقدار والنفرۃ مطلقا، وحینئذ فلا بد من القول بأن ما ابتلی بہ أیوب علیہ السلام لم یصل إلی حد الاستقذار والنفرۃ کما یشعر بہ ما روي عن قتادۃ ونقلہ القصاص في کتبہم، وذکر بعضہم أن دائہ کان الجدري ولا أعتقد صحۃ ذلک واللہ تعالی أعلم۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ’’سورۃ ص: ۳۷ تا ۴۵‘‘، ج ۷، ۳۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص203