نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس وقت ہاتھ اٹھانا اور آمین کہنا ممنوع ہے کیونکہ اس کا ثبوت خیر القرون میں نہیں ملتا ۔ ’’وما یفعلہ المؤذنون حال الخطبۃ من الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم والترضی من الصحابۃ والدعاء للسلطان بالنصر ینبغی أن یکون مکروہاً اتفاقاً‘‘۔(۱)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۴۔
قولہ: (یصلی سراً) بحیث یسمع نفسہ کذا آفادہ القہستاني وفي الشرح عن الحسامي یصلی في نفسہ وفي الفتح عن أبي یوسف ینبغي في نفسہ لأن ذلک مما لا یشغلہ عن سماع الخطبۃ فکان إحرازاً للفضیلتین وہو الصواب۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۹)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص358

طہارت / وضو و غسل
ناخن، سر کے بال، بغل کے بال، زیر ناف کے بالوںکو کاٹنے کے بعد کہاں پھینکنا چاہیے؟ (۲۷)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ناخن، سر کے بال، بغل کے بال، زیر ناف کے بالوں، کو کاٹنے کے بعد ان کو کہیں بھی پھینک دیں یا ان کو کہیں زمین میں یا کہیں صاف جگہ دبا دیں؟ ذرا تفصیل سے سمجھا دیں۔ فقط: والسلام المستفتی: محمدعبد اللہ، حیدرآباد

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت زندگی کے تمام مراحل میں اعتدال کو پسند کرتی اور اسی کی ترغیب دیتی ہے، بے اعتدالی کو شریعت ناپسند کرتی ہے، افراط وتفریط اسلامی مزاج کے خلاف ہے، پانی کے استعمال میں بھی اس امر کی تاکید کی گئی ہے کہ وضو وغسل وغیرہ میں پانی ضرورت کے بقدر ہی استعمال کیا جائے، مطلوبہ مقدار سے زیادہ پانی استعمال کرنا اسراف اور کم استعمال کرنا تقتیر کہلاتا ہے۔ شریعت میں اسراف بھی ناپسندیدہ ہے اور تقتیر بھی کراہت کے زمرہ میں ہے۔
’’کما یکرہ الإسراف في الوضوء کراہۃ تنزیہیۃ کذلک التقتیر کراہۃ تنزیہیۃ والتقتیر عند الحنفیۃ ہو أن یکون تقاطر الماء عن العضو المغسول غیر ظاہر‘‘(۱)
اگر کوئی شخص وضو یا غسل میں مطلوبہ پانی سے کم استعمال کرتا ہے، تو وہ تقتیر ہے اور اگر مطلوبہ مقدار سے زیادہ استعمال کرتا ہے، تو وہ اسراف ہے، پانی کی فراوانی کی صورت میں لوگ زیادہ غفلت کرتے اور اسراف سے کام لیتے ہیں، یہ صورت ناپسندیدہ اور ممنوع ہے، روایت ہے:
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بسعد، وہو یتوضأ، فقال: ما ہذا السرف، فقال: أ في الوضوء إسراف؟ قال: نعم: وإن کنت علی نہر جار‘‘(۲)
وضو وغسل میں میانہ روی کے لئے پیمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد یعنی تقریباً ساڑھے چھ سو گرام پانی سے وضو اور ایک صاع یعنی تقریباً چھبیس سو گرام پانی سے غسل فرما یا کرتے تھے۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یتوضأ بالمد ویغتسل بالصاع، فقیل لہ: إن لم یکفنا فغضب وقال لقد کفی من ہو خیر منکم وأکثر شعراً‘‘(۳)
تاہم وضو وغسل وغیرہ میں پانی کے استعمال میں یہ مقدار لازمی وحتمی نہیں ہے؛ بلکہ ادنیٰ کفایتی مقدار کا بیان ہے، حسبِ ضرورت وحسبِ موقع اس میں اس حد تک کمی یا اضافہ درست ہے کہ وہ اسراف یا تقتیر کے تحت نہ آ جائے۔
’’ثم ہذا التقدیر الذي ذکرہ محمد من الصاع والمد في الغسل والوضوء لیس بتقدیر لازم بحیث لا یجوز النقصان عنہ أو الزیادۃ علیہ بل ہو بیان مقدار أدنی الکفایۃ عادۃ‘‘(۱)
حاصل کلام یہ ہے کہ وضو وغسل میں اتنا پانی استعمال کرنا چاہئے جس سے وضو وغسل مکمل طور پر درست ہوں اور اطمینان حاصل ہو جائے، اس سے کم پانی استعمال کرنا پسندیدہ نہیں ہے، اسی طرح ضرورت سے زیادہ پانی استعمال نہیں کرنا چاہئے کہ یہ اسراف اور مکروہ ہے۔
 

(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: مباحث الوضوء، مکروہات الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ وسننہا: باب ما جاء في القصد في الوضوء وکراہیۃ التعدي فیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’کتاب الطہارۃ: آداب الغسل‘‘ج ۱، ص: ۱۴۴۔
(۱) أیضاً: ج ۱، ص: ۱۴۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص165

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :(۱) مقیم (غیر مسافر) کے لیے ایک دن ایک رات (۲۴؍ گھنٹے) اور مسافر شرعی کے لیے تین دن تین رات خفین پر مسح کرنے کی شرعاً اجازت ہے ’’عن المغیرۃ قال آخر غزوۃ غزونا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمرنا أن نمسح علی خفافنا للمسافر ثلثۃ أیام ولیالیہن وللمقیم یوم ولیلۃ‘‘ (۱)
(۲) جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، ان تمام چیزوں سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے؛ اس لیے جب سو گیا، تو وضو کے ساتھ مسح بھی ٹوٹ گیا۔ اگر وضو کیا مسح نہیں کیا، تو وضو درست نہیں ہوگا۔ ’’وینقض المسح کل شيء ینقض الوضوء لأنہ بعض الوضوء‘‘ (۲)
(۳) جو موزہ چمڑے کا نہ ہو؛ لیکن ایسا موٹا اور دبیز ہو کہ پیر کی کھال نظر نہ آتی ہو اور اس میں پانی نہ چھنتا ہو اور اس کو پہن کر بغیر جوتے کے میل بھر چلنا بھی دشوار نہ ہو، تو ایسے موزہ پر بھی مسح کرنے کی شرعاً اجازت ہے۔ کیوںکہ اصل میں چمڑے کے موزے پر مسح کرنا جائز ہے، اس لیے یہ شرطیں اگر کسی اور موزے میں پائی جائیں، تو وہ خفین کے مشابہ ہوگا اور اس پر بھی مسح درست ہوگا۔
     ’’ولا یجوز المسح علی الجوربین عند أبي حنفیۃ إلا أن یکونا مجلدین أو منعلین وقالا یجوز إذا کانا ثخینین لایشفان لما روي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسح علی جوربیہ۔ وعنہ أنہ رجع إلی قولہما وعلیہ الفتویٰ‘‘ (۱)
(۴) جوتا نکالے بغیر جوتے پر مسح کرنے سے خفین پر مسح شمار نہ ہوگا؛ کیوںکہ جوتا پیروں کا بدل نہیں بن سکتا؛ لہٰذا جوتا نکال کر خفین پر ہی مسح کرنا ضروری ہوگا۔ اگر کوئی خفین پر مسح کر کے جوتے پر بھی مسح کرلے، تو اس میں حرج نہیں؛ لیکن صرف جوتوں پر مسح کرنا اور خفین پر مسح ترک کر دینا درست نہیں۔
 ’’عن المغیرۃ ابن شعبۃ قال توضأ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومسح علی الجوربین والنعلین(۲) ولو کان الجرموق (الخف الذي یلبس فوق الخف) من کرباس لا یجوز المسح علیہ لأنہ لا یصلح بدلا عن الرجل إلا أن تنفذ البلۃ إلی الخف‘‘ (۳)

(۱)الطبراني، الداریۃ في تخریج أحادیث الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم،‘‘ ج۱، ص: ۵۶ (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان، مکتبہ شاملہ)
(۲)المرغینانی، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص: ۵۹
(۱)ایضاً، ج ۱، ص: ۶۱
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب في المسح علی الجوربین والنعلین،‘‘ ج۱، ص: ۲۹ (مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۳) المرغینانی، الہدایۃ، کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، ج۱، ص: ۶۱

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص268

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر واقعی طور پر ایسا کیا ہے تو زید گناہگار ہے؛ کیوں کہ اس کے لیے پانچ ماہ کے حمل کو ضائع کرا دینا جائز نہیں تھا پس زید پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ سے توبہ کرے اور اگر زید نے لا علمی میں ایسا کیا ہے تب بھی زید پر ضروری تھا کہ کسی معتمد عالم یا مفتی سے معلوم کر لیتا پھر اس کے مطابق عمل کرتا بہر حال اگر زید نے اللہ تعالیٰ سے سچی پکی توبہ کرلی تو اس کا گناہ ختم ہونے کی بناء پر اس کی امامت درست اور جائز ہے اور اگر وہ اپنے اس عمل کو صحیح کہتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے اور توبہ بھی نہیں کرتا تو پھر چوں کہ وہ گناہگار ہے

(۱) رجل أم قوماً وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)
ومن یعمل سوء اً أو یظلم نفسہ ثمَّ یستغفر اللّٰہ یجد اللّٰہ غفوراً رحیماً (سورۃ النساء: ۱۱۰)، ففي ہذہ الآیۃ دلیل علی حکمین: أحدہما أن التوبۃ مقبولۃ عن جمیع الذنوب الکبائر والصغائر لأن قولہ: ومن یعمل سوء اً أو یظلم نفسہ عم الکل، والحکم الثاني أن ظاہر الآیۃ یقتضي أن مجرد الاستغفار کاف، وقال بعضہم: إنہ مقید بالتوبۃ لأنہ لا ینفع الاستغفار مع الإصرار علی الذنوب۔ (ابن کثیر، تفسیر الخازن، ’’سورۃ النساء: ۱۱۰‘‘ ج۱، ص: ۴۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص141

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: عذر کی وجہ سے اگر رکوع کا سنت طریقہ مکمل طور پر نہ ہو پائے اور رکوع اصلاً ہو رہا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں نماز اور امامت درست ہے(۱) مذکورہ صورت میں کوئی کراہت نہیں۔(۲)

(۱) المشقۃ تجلب التیسیر۔ (ابن نجیم، الاشباہ، ج۱، ص: ۱۶)
(۲) و إذا لم یقدر علی القعود مستویا وقدر متکئاً أو مستنداً إلی حائط أو انسان یجب أن یصلی متکئاً أو مستنداً ۔۔۔۔۔ ولا یجوز لہ أن یصلي مضطجعاً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر في صلاۃ المریض‘‘: ج۱، ص: ۱۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص236

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر کے فرض سے پہلے دو رکعت سنت تمام سنتوں میں سب سے زیادہ مؤکدہ ہیں، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے: ’’رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا‘‘(۱) فجر کی دو رکعت سنت دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ فجر کی دو سنت پڑھا کرو اگرچہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں؛(۲) اس لیے فتاویٰ دار العلوم میں جولکھا ہے وہی حنفیہ کا مذہب ہے۔

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر والحث علیہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۱، رقم: ۷۲۵۔
(۲) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ-  قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تدعو ہما وإن طردتکم الخیل۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في تخفیفہما‘‘: ج۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۱۲۵۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص348

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:واضح رہے کہ حضرات فقہاء کرام نے عمومی طور پر نماز کے لیے جو اذان واقامت کہی جاتی ہے وہ اذان واقامت کہنا عورتوں کے لیے مکروہ لکھا ہے؛ کیوںکہ اس میں آواز کو بلند کرنا پڑتا ہے اور عورتوں کے لئے آواز بلند کرنا حرام ہے؛ لیکن بچے کے کانوں میں اذان واقامت بلند آواز سے نہیںدی جاتی ہے؛ بلکہ بچے کے نرم ونازک کان کے پردوں کا خیال کرتے ہوئے آہستہ آواز سے اذان واقامت کہی جاتی ہے، اس لیے کراہت کا سبب نہیں پایا جاتا ہے اور جب کراہت کا سبب نہیں پایا گیا تو عورت کا بچے کے کان میں اذان واقامت کہنا درست ہے، اس لیے آپ نے جو اذان واقامت کہی ہیں وہ بلا کراہت درست ہے؛ حالاںکہ ذکر کردہ سوال میں آپ نے مسلم مرد کو اسپتال میں تلاش بھی کیا ہے؛ لیکن دستیاب نہ ہونے کی صورت میں مجبوراً آپ نے اذان واقامت کہی ہے اس لیے اذان واقامت کے درست ہونے میں کوئی شک وشبہ نہ کریں۔
’’وأذان امرأۃ، لأنہا إن خفضت صوتہا أخلت بالإعلام وإن رفعتہ ارتکبت معصیۃ لأنہ عورۃ۔ تحتہ في حاشیۃ الطحطاوي ’’أنہ عورۃ‘‘ ضعیف والمعتمد أنہ فتنۃ‘‘(۱)
’’اعلم أن الأذان والإقامۃ من سنن الجماعۃ المستحبۃ فلا یندبان لجماعۃ النساء والعبید والعراۃ لأن جماعتہم غیر مشروعۃ کما في البحر وکذا جماعۃ المعذورین یوم الجمعۃ للظہر في المصر فإن أدائہ بہما مکروہ کما في الحلبي قولہ: من کراہتہما لہن لأن مبنی حالہن علی الستر ورفع صوتہن حرام والغالب أن الإقامۃ تکون برفع صوت إلا أنہ أقل من صوت الأذان‘‘(۱)
’’(قولہ: للرجال) أما النساء فیکرہ لہن الأذان وکذا الإقامۃ، لما روي عن أنس وابن عمر من کراہتہما لہن؛ ولأن مبنی حالہن علی الستر، ورفع صوتہن حرام إمداد‘‘(۲)
’’وأما أذان المرأۃ فلأنہ لم ینقل إلینا عن أحد السلف حین کانت الجماعۃ مشروعۃ في حقہن فیکون من المحدثات، لا سیما بعد انتساخ جماعتہن؛ ولأن المؤذن یستحب لہ أن یشہر نفسہ ویؤذن علی المکان العالي ویرفع صوتہ والمرأۃ منہیۃ عن ذلک کلہ، ولہذا جعل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم التسبیح للرجال والتصفیق للنساء‘‘(۳)

(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹،      دار الکتاب دیوبند؛ وابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۷۸۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۵۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸۔
(۳) فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۹، ۲۵۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص247

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’أشہد أن لا إلہ‘‘ پر انگلی اٹھائی جائے اور ’’إلا اللّٰہ‘‘ پر گرائی جائے۔
’’وصفتہا أن یحلق من یدہ الیمنیٰ عند الشہادۃ الإبہام والوسطیٰ ویقبض البنصر والخنصر ویشیر بالمسبحۃ أو یعقد ثلاثۃ وخمسین بأن یقبض الوسطیٰ والخنصر، ویضع رأس إبہامہ علیٰ حرف مفصل الوسطیٰ الأوسط ویرفع الأصبع عند النفي ویضعہا عند الإثبات‘‘ (۱)
’’وفي الشرنبلالیۃ عن البرہان: الصحیح أنہ یشیر بمسبحۃ وحدہا، یرفعہا عند النفي ویضعہا عند الإثبات‘‘ (۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي، ج ۲، ص: ۲۱۷۔
(۲) أیضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص387

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ یہ بھی درست ہے؛ مگر بہتر یہ ہے کہ فرض کے بعد اول دو سنت مؤکدہ پڑھے اور پھر صلاۃ الاوابین چھ رکعت پڑھے۔ کیوں کہ صلاۃ الاوابین کی رکعت کم از چھ اور زیادہ سے زیادہ بیس ہیں۔
’’عن أبي سلمۃ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینہن بسوء، عدلن لہ بعبادۃ ثنتي عشر سنۃ‘‘(۲)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من صلی بعد المغرب عشرین رکعۃ، بنی اللّٰہ لہ بیتا في الجنۃ‘‘(۳)

(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃباب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم:۴۳۵ نعیمیہ۔)
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم:۴۳۵نعیمیہ۔)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص427