Death / Inheritance & Will

 

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Your uncle's opinion is not correct. Passing the reward of Quranic recital, tasbeeh and nawafil to the deceased is also approved. And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 37 / 1095

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مولانا وحیدالدین خان صاحب کےبہت سے عقائد ونظریات اہل سنت والجماعت دیوبند کے عقائد ونظریات سے متصادم ہیں، تاہم کسی وحیدی فرقہ کا ہمیں علم نہیں ہے۔ ان کی کتابوں میں جو نظریات ملتے ہیں بہت سے علماء نے ان پر قلم اٹھایا ہے اور ان نظریات کے بطلان کو واضح کیا ہے۔اس سلسلہ میں عرض ہے کہ  جو لوگ رطب ویابس کی تمیز رکھتے ہیں وہی ان کتابوں کو دیکھیں ۔ البتہ عوام کو ان کی کتابیں پڑھنے سے گریز کرنا چاہئے تاکہ ان کےاپنے نظریات متاثر نہ ہوں اورجمہور علماء کے عقائدپر ہی قائم رہیں۔    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 38 / 1199

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مشین سے ذبح کرنے کی واقعی  صورت کا ہمیں علم نہیں ہے ۔  البتہ ذبح میں اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جن رگوں کا کٹنا ضروری ہے وہ تمام رگیں کٹ جائیں اورجانور کے اندر کا  پورا خون  نکل جائے ، نیز ہر جانور کو ذبح کرتے وقت الگ الگ اس پر بسم اللہ پڑھا گیا ہو۔ ایک مرتبہ بسم اللہ پڑھ کر کئی جانور کا ذبح کرنا درست نہیں ہوگا۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 40/873

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حالت احرام میں مردوں کے ٹخنے کھلے رہنے ضروری ہیں اس لئے وہ چپل پہنتے ہیں، لیکن عورتوں کے لئے یہ حکم نہیں ہے؛ عورتیں چپل جوتے جو بھی پہننا چاہیں پہن سکتی ہیں  تاہم ہوائی چپل لیجانے میں  اور اسکی حفاظت میں سہولت ہوتی ہے اس لئے عورتیں بھی اسی کو استعمال کرتی ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/1152

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لغت میں ایمان کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے اور اسلام اطاعت و فرمانبرداری کا، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا بھی قلب اور سب عضاء و جوارح ، لیکن شرعا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعا اس وقت تک معتبر نہیں جب تک زبان سے اس تصدیق کا اظہار اور اطاعت و فرماں برداری کا اقرار نہ کرے اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرماں برداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو۔خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے مگر شرعا ایمان بدون اسلام کے اور اسلام بدون ایمان کے معتبر نہیں (خلاصہ معارف القرآن)۔ عرب کے محقق عالم دین شیخ عثیمن لکھتے ہیں کہ جب لفظ ایمان اور اسلام اکٹھے ہوں تو پھر اسلام سے ظاہر ی اعمال مراد لیے جاتے ہیں جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات اور اعضاء سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والامومن یا کمزور ایمان والامومن بھی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: قالت الاعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما لم یدخل الایمان فی قلوبکم اسی طرح منافق شخص ہے کہ اسے ظاہر ی طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے اور ایمان سے مراد باطنی یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اوریہ کام صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو حقیقی مومن ہے جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم و اذا تلیت علیہم آیاتہ زادتہم ایمانا و علی ربہم یتوکلون، الذین یقیمون الصلاۃ و مما رزقنہم ینفقون اولئک ہم المؤمنون حقا (انفال ۴۲)اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہوگا لہذا ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے (مجموع فتاوی و رسائل عثیمن ۴/۲۹) بہر حال اس طرح کی مختلف تعبیریں حضرات علماء سے منقول ہیں، لیکن اتنی بات طے ہے کہ ایمان کے لیے اسلام ضروری ہے اور اسلام کے لیے ایمان ضروری ہے، انسان کو اپنے ظاہر ی اعمال کے ساتھ باطنی اعمال اور قلبی یقین کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت
السلام علیکم۔ حضرت ترمذی میں کوئی ایسی حدیث ہے جسمیں یہ ذکر ہو کی امیر جو ہونا چاہیے وہ قریش میں سے ہو۔ اس امیر سے کیسا امیر مراد ہے اور اسکے لیے کیا شرائط ہے اس وقت ہمارا امیر کون ہے ۔۔ ایک بندہ بولتا ہے کی حضرت مولانا سعد صاحب قریش خاندان میں سے ہے وہ پوری دنیا کے امیر ہے اس کی کیا حقیقت ہے تسلّی فرمائیں۔ انس آگرہ

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1640/43-1285

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گاڑی والے سے فون پر معاملہ طے کرلینے کے بعد آڈتی کی کوشش اور محنت سے گاڑی مل گئی تو اس آڈتی کا اپنا معاوضہ لینا جائز ہے، اور یہ دلالی کے زمرے میں آئے گا۔  آڈتی شخص اگر خود اپنے طور پروہ کام  کرا دیتا ہے اور کچھ بھی طے نہیں کرتا ہے تو اس کا یہ کام اس کی  جانب سے تبرع شمار ہوگا اس پر معاوضہ طلب کرنے کاحق  نہیں۔ تاہم اگر پولس کے ساتھ مل کر آڈتی نے کوئی پلاننگ کی ہو تو یہ درست نہیں ہے۔ 

عن الحکم وحماد عن إبراہیم وابن سیرین قالوا: لا بأس بأجر السمسار إذا اشتری یدا بید۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، في أجر السمسار، موسسۃ علوم القرآن ۱۱/ ۳۳۹، رقم: ۲۲۵۰۰)وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل۔ وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ، … لکثرۃ التعامل۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في أجرۃ الدلال، کراچی ۶/ ۶۳، زکریا ۹/ ۸۷، تاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۱۳۷، رقم: ۲۲۴۶۲)

قال في الشامیۃ عن البزازیۃ: إجارۃ السمسار والمنادی والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ، ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل۔ (شامي، کاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۹/ ۶۴، کراچی ۶/ ۴۷، بزازیۃ، زکریا جدید ۲/ ۲۳، وعلی ہامش الہندیۃ ۵/ ۴۰) وأما الدلال: فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا (تحتہ في الشامیۃ) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو علیہما بحسب العرف۔ (شامي، کتاب البیوع، قبیل مطلب في حبس المبیع لقبض الثمن … زکریا ۷/ ۹۳، کراچی ۴/ ۵۶۰، تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ۱/ ۲۴۷)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1730/43-1428

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید کا مذکورہ معمول درست نہیں ہے۔ مسجد کی پہلی جماعت کے ساتھ ہی سب کو باجماعت نماز اداکرنی چاہئے،  درس حدیث بعد نمازبھی  جاری  رکھ سکتے ہیں۔  مسجد میں ایک مرتبہ جماعت ہوجانے کے بعد اس میں دوبارہ جماعت  کرنا مکروہ ہے۔ اور اس کا معمول بنالینا اور بھی زیادہ بُرا ہے۔

عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله ﷺ ، إذا دخلوا المسجد، وقد صلي فیه، صلوافرادي‘‘. (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، ولا یجمعون. مؤسسة علوم القرآن جدید ۵/۵۵، رقم:۷۱۸۸)

لأن التکرار یؤدی إلی تقلیل الجماعة لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فیستعجلون فتکثرالجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم یتأخرون فتقل الجماعة وتقلیل الجماعة مکروه‘‘. (بدائع،کتاب الصلاة، فصل في بیان محل وجوب الأذان ۱/۱۵۳

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2175/44-2295

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 'تجھ سے میرا رشتہ ختم' یہ کنائی الفاظ میں سے ہے، اور کنائی الفاظ سے طلاق واقع ہونے کے لئے نیت شرط ہے، اس لئے اگر شوہر نے یہ جملہ کہتے ہوئے طلاق کی نیت کی تھی تو ایک طلاق بائن  واقع ہوگئی۔ میاں بیوی دوبارہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ شوہر کو خیال رہے کہ آئندہ صرف دو طلاق کا اختیار رہے گا۔ 

"ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى." (فتاوى ہندیہ كتاب الطلاق، الباب الثاني في ايقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:375، ط:رشيديه)

"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.

(قوله: وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق." (فتاوی شامی كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:297،296، ط:سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس تقریب میں اگر رسم ورواج کا دخل نہ ہو اور ایصال ثواب کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع نہ کیا گیا ہو، بس لوگ جمع ہیں، مٹھائی شربت وغیرہ شادی کی وجہ سے ہے توایصال ثواب کے لیے تلاوت میں کوئی حرج نہیں ہے؛ البتہ اگر بطور رسم دعوت دے کر قرآن خوانی کے لیے جمع کیا گیا تو درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ للقوم أن یقرؤوا القرآن جملۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلوٰۃ والتسبیح وقراء ۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص425