Frequently Asked Questions
حج و عمرہ
Ref. No. 2458/45-3725
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مکہ شہر سے مدینہ جانے والے راستہ پر تنعیم کے مقام پر حرم مکہ کی حدود ختم ہوجاتی ہے، یہاں ایک مسجد ہے جو حضرت عائشہ ؓ سے موسوم ہے۔ اہل مکہ یا جو لوگ مکہ مکرمہ میں قیام پذیر ہوں اور وہ عمرہ کرنا چاہیں تو حدود حرم سے باہر نکل کر حل میں سے کہیں سے بھی احرام باندھ سکتے ہیں، البتہ مسجد عائشہ سے افضل ہے۔ تاہم مسجد عائشہ میقات نہیں ہے، بلکہ تنعیم میقات ہے، اور مکہ مکرمہ کی توسیع سے حدود حرم کا دائرہ وسیع نہیں ہوگا، ۔
"ولایکره الإکثار منها أي من العمرة في جمیع السنة، بل یستحب أي الإکثار منها، وأفضل مواقیتها لمن بمکة التنعیم والجعرانة، والأول أفضل عندنا". (مناسك ملا علي القاري ۴۶۷)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 479):
"(و) الميقات (لمن بمكة) يعني من بداخل الحرم (للحج الحرم وللعمرة الحل)؛ ليتحقق نوع سفر، والتنعيم أفضل".
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 479):
"(قوله: والتنعيم أفضل) هو موضع قريب من مكة عند مسجد عائشة، وهو أقرب موضع من الحل، ط أي الإحرام منه للعمرة أفضل من الإحرام لها من الجعرانة وغيرها من الحل عندنا، وإن كان صلى الله عليه وسلم أحرم منها؛ لأمره عليه الصلاة والسلام عبد الرحمن بأن يذهب بأخته عائشة إلى التنعيم؛ لتحرم منه، والدليل القولي مقدم عندنا على الفعلي".
"المغني“ لابن قدامة (3/111 ):
قال ابن قدامة رحمه الله:"إن ميقات العمرة لمن كان بمكة سواء من أهلها أو ممن قدموا عليها هو الحل، وقال: لانعلم في هذا خلافاً". ("المغني" لابن قدامة 3/111).
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2509/45-3829
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد شرعی میں ایک سے زائد جماعت کرنا شرعا مکروہ ہے۔ اور جو سلسلہ کسی مجبوری میں شروع کیاگیاہو تو جب مجبوری باقی نہ رہے تو وہ سلسلہ بھی بند کردینا چاہئے، اس لئے جس مسجد میں لاک ڈاؤن کے دوران ایک مجبوری کے تحت دو جماعتیں شروع کی گئی تھیں، اب ان کو بند کردینا چاہئے، البتہ اب تک جو دو جماعتیں ہوتی رہیں ان سب کی نماز درست ہوگئی۔ شرعی مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد بھی کچھ لوگوں کا اپنی بات پر ضد کرنا درست نہیں ہے، جس طرح پہلے ایک ہی جمعہ ہوتاتھا اسی پرانے سلسلہ کو بحال کیاجائے اور ایک ہی جماعت سے جمعہ کی نماز ادا کی جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت زکریا علیہ السلام کی اہلیہ کا نام ایشاع بنت فاقوذ ہے۔(۱)
(۱) قولہ تعالیٰ: {وکانت امرأتي عاقراً} امرأتہ ہي إیشاع بنت فاقوذ ابن قبیل، وہي أخت حنہ بنت فاقوذا قالہ الطبري، وحنۃ ہي أمّ مریم۔
وقال القرطبي: امرأۃ زکریا ہي إیشاع بنت عمران فعلی ہذا القول: یکون یحییٰ ابن خالۃ عیسیٰ علیہما السلام علی الحقیقۃ، وعلی القول الأخر یکون ابن خالۃ أمہ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد، تفسیر القرطبي، ’’سورۃ مریم: ۱۵‘‘: ج ۱۱، ص: ۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص228
خوردونوش
Ref. No. 2625/45-3983
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کھانے یا پینے کی چیزوں کو ضائع کرنے سے منع کیاگیا ہے، اس لئے کولڈڈرنک جو ایک مشروب ہے اور پینے کی چیز ہے، اس سے کلی کرنا مناسب نہیں ہے۔ سادہ پانی سے کلی کرنا چاہئے پھر کولڈڈرنک یا شربت نوش کرنا چاہئے۔ اگر کوئی مجبوری ہو جیسے نماز پڑھنی ہے اور کلی کرنے کے لئے پانی نہیں ہے تو پھر گنجائش ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ برتن کا پانی پاک ہے اس کو ناپاک نہیں سمجھنا چاہیے۔(۱)
(ا)فسؤر الآدمي مطلقاً ولو جنباً أو کافراً أو امرأۃ۔ قولہ: أو کافراً؛ لأنہ علیہ الصلاۃ والسلام أنزل بعض المشرکین في المسجد علی ما في الصحیحین، فالمراد بقولہ تعالیٰ ’’إنما المشرکون نجس‘‘ النجاسۃ في اعتقادھم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب في أحکام السؤر، ج ۱، ص:۳۸۱)؛ و سؤر الآدمي طاھر، و یدخل في ھذا، الجنب والحائض والنفساء والکافر۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ کتاب الطہارۃ، فصل فیما لا یجوز بہ التوضؤ ،ج۱، ص:۷۶)؛ و سؤر الحائض والنفساء والجنب والکافر طاھر۔ (سراج الدین محمد، الفتاویٰ السراجیۃ، باب الآسار، ج۱،ص:۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص433
سیاست
Ref. No. 2299/45-4186
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت خنساء کے چار بیٹوں کی شہادت کا واقعہ مشہورہے اور مختلف کتب تاریخ میں مذکور ہے ،ابن الاثیر نے اسدالغابۃ میں،ابن حجر نے الاصابۃ میں اور زرکلی نے الاعلام میں اس کو بیان کیا ہے ، تاہم اس پر نقدو تبصرہ کرنے والوں نے نقد بھی کیا ہے بعض حضرات کا خیال ہے کہ خنساء کو ان کے دوسرے شوہر مرداس بن عمر سلمی سے چار بیٹے نہیں تھے بلکہ تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی پھر چار بیٹوں کاشہید ہونا کس طرح صحیح ہوسکتاہے اس میں ان کے ایک بیٹےعباس بن مرداس سلمی مشہور صحابی ہیںانہوں نے غزوۃ حنین میں مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا اس پر آپ نے صحابہ سے فرمایا تھا کہ ان کو دو یہاں تک کہ وہ راضی ہوجائیں،اس لیے اگر قادسیۃ میں ان کی شرکت ہوتی تومجاہدین قادسیہ میں مورخین ان کے مشہور ہونے کی وجہ سے ضرور ان کا تذکرہ کرتے اس لیے بعض حضرات نے اس واقعہ پر شک کا اظہار کیاہے۔جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں پہلے شوہر کے ایک بیٹا اور دوسرے شوہر کے تین بیٹے شریک تھے ۔تاہم یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ اس پرکسی عقیدہ کی صحت کا مدار موقوف ہو اس لیے اس باب میں مورخین کی روایات کو قبول کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔
وذكر الزبير بن بكار، عن محمد بن الحسين المخزومي، عن عبد الرحمن بن عبد الله، عن أبيه، عن أبي وجزة، عن أبيه، أن الخنساء شهدت القادسية ومعها أربعة بنين لها، فقالت لهم أول الليل: يا بني، إنكم أسلمتم وهاجرتم مختارين والله الذي لا إله غيره إنكم لبنو رجل واحد، كما أنكم بنو امرأة واحدة، ما خنت أباكم ولا فضحت خالكم، ولا هجنت حسبكم، ولا غيرت نسبكم.
وقد تعلمون ما أعد الله للمسلمين من الثواب الجزيل في حرب الكافرين.واعلموا أن الدار الباقية خير من الدار الفانية، يقول الله عَزَّ وَجَلَّ: {يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} . فإذا أصبحتم غدا إن شاء الله سالمين فاغدوا إلى قتال عدوكم مستبصرين، وبالله على أعدائه مستنصرين.وإذا رأيتم الحرب قد شمرت عن ساقها، واضطرمت لظى على سياقها، وجللت نارا على أرواقها، فتيمموا وطيسها، وجالدوا رئيسها عند احتدام خميسها، تظفروا بالغنم والكرامة، في دار الخلد والمقامة.فخرج بنوها قابلين لنصحها، وتقدموا فقاتلوا وهم يرتجزون، وأبلوا بلاء حسنا، واستشهدوا رحمهم الله.فلما بلغها الخبر، قالت: الحمد لله الذي شرفني بقتلهم، وأرجو من ربي أن يجمعني بهم في مستقر رحمته.(اسد الغابۃ،7/89)وقد ذكروا خنساء في الصحابة، وأنها شهدت القادسية، ومعها أربع بنين لها، فاستشهدوا وورثتهم.(الاصابۃ،فی تمییز الصحابۃ،6/126)وكان لها أربعة بنين شهدوا حرب القادسية (6/126) ـ فجعلت تحرضهم على الثبات حتى قتلوا جميعا فقالت: الحمد للَّه الّذي شرفني بقتلهم! (الاعلام للزرکلی،2/86)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بدعت اور شرک دونوں الگ ہیں، دونوں میں بڑا فرق ہے، شرک کرنے والے کے پیچھے نماز نہیںہوگی؛ لیکن اگر کوئی گنہگار ہے خواہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کیوں نہ ہو اور وہ بدعتی ہے تو ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے؛ لیکن اگر نماز ان کے پیچھے پڑھی گئی تو فریضہ ادا ہوجائے گا اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ اگر وہ تفسیر کی ایسی کتاب پڑھتا ہے جس میں مصنف نے تفسیر بالرائے کی ہو تو ایسی کتاب پڑھنی نہیں چاہئے اور اگر وہ تفسیر بالرائے کو صحیح مانتا ہے یا خود تفسیر بالرائے کرتا ہے تو ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے، انگوٹھے چومنا، مسجد میں بلند آواز سے سلام پڑھنا بدعت اور خلاف سنت ہے۔(۱)
(۱) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق والمبتدع بارتکابہ ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي۔ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ أو استحسان وروي محمد عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وأبي یوسفؒ أن الصلاۃ خلف أہل الأہواء لاتجوز، والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لا تکفرہ بدعتہ الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘ص: ۳۰۳، ۳۰۲، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لابمعاندۃ بل بنوع شبہۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹، ۲۹۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص128
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص کی امامت شرعاً درست ہے۔(۱)
(۱) ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہرا ولعدم إمکان إکمال الطہارۃ أیضاً…في المفلوج والأقطع والمجبوب۔ (ابن عابدین، در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص226
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ایسا کرنا جائز نہیں ہے، مکروہ تحریمی ہے؛ لیکن بیع ہوجائے گی البتہ عاقدین کو ایک ناجائز معاملہ کرنے کی وجہ سے توبہ واستغفار کرنے کے ساتھ مذکورہ معاملہ کو ختم کرنا چاہئے۔
{فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط}(۱)
’’ووجب یسعي إلیہا وترک البیع ولو مع السعي وفي المسجد أعظم وزرًا … قال الشامي أو علیٰ بابہ وحاصلہ أن السعي نفسہ فرض والواجب کونہ في وقت الأذان الأول‘‘(۲)
’’وکرہ تحریماً مع الصحۃ (البیع عندالأذان الأول)‘‘(۳)
’’إلا إذا تبایعا یمشیان فلا بأس بہ لتعلیل النہي بالإخلال بالسعي فإذا انتفی انتفی‘‘(۴)
(۱) سورۃ الجمعہ: ۹۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقي بین یدیی الخطیب‘‘ ج ۳، ص: ۳۸۔
(۳) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب البیوع: باب البیع الفاسد، مطلب أحکام نقصان المبیع فاسدًا‘‘: ج۷، ص: ۳۰۴۔ (۴) أیضًا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص235
Marriage (Nikah)
Ref. No. 2794/45-4360
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Before marriage the fiancée is a stranger, it is not permissible for you to talk to her. Meanwhile, you can also give your suggestion to her parents that the marriage should take place now and sending her as bride to the husband’s home will be after completing her studies. So in such a case it will be permissible for you to talk to her just after marriage.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband