فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اجماع حجت شرعیہ فرعیہ ہے، اسے ماننا یقینا ضروری ہے لیکن منکر خارج از ایمان نہیں ہے(۲) اور اہل حدیث کو بھی خارج از ایمان کہنا غلط ہے، لیکن قادیانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے منکر ہیں؛ اس لیے کافر ہیں۔(۳)

(۲) إجماع الأمۃ موجب للعلم قطعاً کرامۃ علی الدین لانقطاع توہم إجتماعہم علی الضلالۃ الخ۔ (المدخل إلی الفتاوی علی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۳۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص146

عائلی مسائل

Ref. No. 2594/45-4093

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    نکاح کے ایجاب و قبول کے نتیجہ میں شوہر پر بیوی کے حقوق اور بیوی پر شوہر کے حقوق واجب ہوجاتے ہیں، ان میں سے جو بھی دوسرے کی حق تلفی کرے گا، حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا، گہنگار ہوگا، اس لئے اگر شوہر بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ گنہگار، اور ملامت کا مستحق  ہوگا۔ بیوی اگر پریشان ہواور علیحدگی چاہتی ہو تو کسی شرعی دارالقضاء میں فسخ نکاح کا دعوی کرسکتی ہے۔

فقال سبحانه وتعالى : ( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ"أي : ولهن على الرجال من الحق مثل ما للرجال عليهن ، فليؤد كل واحد منهما إلى الآخر ما يجب عليه بالمعروف۔ (ابن كثير رحمه الله "تفسير القرآن العظيم" (1/363)

عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في خطبته في حجة الوداع :  (فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ ، فَإِنَّكُم أَخَذتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ ، وَاستَحلَلتُم فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ ، وَلَكم عَلَيهِنَّ أَنْ لا يُوطِئْنَ فُرُشَكُم أَحَدًا تَكرَهُونَهُ ، فَإِن فَعَلنَ ذَلِكَ فَاضرِبُوهُنَّ ضَربًا غَيرَ مُبَرِّحٍ ، وَلَهُنَّ رِزقُهُنَّ وَكِسوَتُهُنَّ بِالمَعرُوفِ)  (صحيح مسلم [1218])

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2637/45-4041

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسبوق ہو يا مدرک ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال کے وقت تکبیر کہے گا۔

’’عن عبد اللہ بن مسعود قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکبر فی کل خقض ورفع وقیام وقعود وابوبکر وعمر‘‘ (ترمذی، ’’باب ما جاء فی التکبیر عند الرکوع والسجود‘‘: ص: ٩٥)

’’ثم رفع رأسہ مکبرا النہوض بلا اعتماد علی الارض بیریہ وبلا تعود‘‘ (نور الایضاح: ص: ٦٧)

فاذا اطمأن ساجدا کبر واستون قائما علی صدر قدمیہ‘‘ (ہدایۃ: ج ١، ص: ١١٠)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مینگنی اگر چاول میں صحیح سالم ہے، تو اس کے آس پاس کے کچھ دانوں کے علاوہ پورے چاولوں کا کھانا درست ہے اور اگر مینگنی چاولوں میں گھل گئی ہے، تو پھر پورے چاولوں کا کھانا درست نہیں ہے، کیونکہ چوہے کی مینگنی ناپاک ہے۔
کبیری میں ہے:
’’وبول الحمار، وخرء الدجاج، والبط، وکذا خرء الأوز والجباریٰ وما أشبہ ذلک مما یستحیل إلی نتن وفساد نجس بنجاسۃ غلیظۃ إجماعا‘‘(۱)
’’قال العلامۃ الحلبي، لو وقع بعر الفأرۃ في الحنطۃ فطحنت حیث لا ینجس ما لم یظہر أثرہ في الدقیق إذا الضرورۃ ہناک أشد حتی أن کثیراً ما یفرخ فیہا والاحتراز عنہ متعذر … والاحتراز عنہ ممکن في الماء غیر ممکن في الطعام والثیاب فیعفی عنہ فیہما الخ‘‘(۲)
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’الحاصل أن ظاہر الروایۃ نجاسۃ الکل لکن الضرورۃ متحققۃ في بول الہرّۃ في غیر المائعات کالثیاب وکذا في خرء الفأرۃ في نحو الحنطۃ دون الثیاب والمائعات … لکن عبارۃ التاترخانیۃ بول الفأرۃ وخرؤہا نجس‘‘(۳)

(۱) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الأنجاس‘‘: ج۱،ص: ۱۲۹، ۱۳۰۔(دارالکتاب دیوبند)
(۲) أیضاً: ص: ۱۳۱۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مبحث في بول الفأرۃ وبعرہا وبول الہرۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص63

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :حدیث میں ہے: عن المغیرۃ بن شعبۃ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسح علی الخفین فقلت یا رسول اللہ أنسیت؟ قال بل أنت نسیت بہذا أمرني ربي عز و جل۔(۲) عن المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللہ عنہ قال رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یمسح علی الخفین وقال غیر محمد علی ظہر الخفین،(۳) عن ابن عباس رضي اللہ عنہ قال: أشہد لقد علمت أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم مسح علی الخفین(۴) (مذکورہ تینوں) احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خفین پر مسح کرنا ثابت ہے اور خفین کا اطلاق محدثین اور فقہاء کے یہاں چمڑے کے موزوں پر ہوتا ہے۔ کما لا یخفي علی من ینظر کلام الفقہاء و المحدثین؛ لہٰذا اگر چمڑے کے موزے ہوں، تو ان پر بلا کسی اختلاف کے مسح جائز ہے اور اگر چمڑے کے موزے نہ ہوں؛ بلکہ سوت یا اون  کے موزے ہوں، تو فقہاء نے ایسے موزوں پر جواز مسح کے لیے درج ذیل شرطیں تحریر فرمائی ہیں ۔
یجوز المسح علیہ لو کان ثخیناً بحیث یمکن أن یمشي معہ فرسخا من غیر تجلید و تنعیل، و إن کان رقیقاً فمع التجلید أو التنعیل۔ (۱)
ایک وہ موزہ جو ایسے دبیز، موٹے اور مضبوط ہوں کہ ان کو پہن کر تین میل پیدل چلا جا سکے دوسرے یہ کہ پنڈلی پر بغیر باندھے (کپڑے کے موٹا ہونے کی وجہ سے) پیر پر ٹھہر سکتے ہوں تیسرے یہ کہ ان میں پانی نہ چھنے اور جذب ہوکر پاؤں تک نہ پہونچے اگر سوت یا اون کے ایسے ہی موزے ہوں، تو ان پر مسح کرنا جائز ہے؛ اس لیے کہ ایسے موزے چمڑے کے موزے کے حکم میں آجاتے ہیں، نائلون کے موزے اول تو دبیز نہیں ہوتے؛ بلکہ بالکل رقیق ہوتے ہیں، ان کو پہن کر تین میل چلنا مشکل ہے، پھٹ جانے کا اندیشہ ہے اور اگر نہ بھی پھٹیں، تب بھی ان میں یہ کمی ہے کہ اگر ان پر پانی ڈالا جائے، تو جذب ہوکر پیر تک چلا جاتا ہے اس لیے ایسے نائلون کے موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ مجمع الأنہر میں ہے:  و اجمعوا علی أنہ لو کان منعلاً أو مبطنا یجوز   و لو کان من الکرباس لا یجوز المسح علیہ، و إن کان من الشعر فالصحیح أنہ إن کان صلباً مستمسکاً یمشي معہ فرسخاً أو فراسخ۔(۲)

(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین‘‘ ج۱، ص:۲۱، رقم : ۱۵۶
(۳) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب کیف المسح‘‘ ج۱، ص: ۲۲، رقم :۱۶۱(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۴)أخرجہ البزاز ، في مسندہ، ج۳، ص:۱۱۳، رقم:۷۴۳۰(مؤسسۃ الرسالۃ ، القاھرۃ)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۴۳۸
(۲) الحصفکي، مجمع الأنہر في شرح ملقتی الٔابہر، ’’کتاب الطہارۃ، المسح علی الجبیرۃ،‘‘ ج۱، ص:۷۵(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص274

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ حافظ کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔(۱) نماز فرض ہو یا تراویح کی امامت دونوں کا ایک حکم ہے۔ اگر مسجد یا محلہ کے افراد اسی کو امام بنانا چاہیں تو وہ بڑی غلطی کریں گے۔ پس مذکورہ صورت میں مقتدی دوسری مسجد میں نماز تراویح پڑھ سکتے ہیں۔(۲)

(۱) وتکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والأعمیٰ والفاسق وولد الزنا فإن تقدموا جاز۔ (إبراہیم بن محمد بن إبراہیم، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘: ص: ۹۱)
(۲) عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول إن أشد الناس عذاباً عند اللّٰہ المصورون۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب بیان عذاب المصورین یوم القیامۃ‘‘: ج۲، ص: ۸۴۰،  رقم: ۵۹۵۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص147

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کی امامت بلاکراہت درست ہے، بائیں ہاتھ کی کمزوری کی وجہ سے شبہ نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) ولو کان لقدم الإمام عوج وقام علی بعضہا یجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص242

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں مسجد کی جماعت کے ترک کرنے کا جو عذر بیان کیا گیا ہے وہ ترک جماعت کا معقول عذر نہیں ہے، اس کی وجہ سے عمر کے لیے مسجد کی جماعت کی نماز کو ترک کرنا جائز نہیں ہے، احادیث میں اس طرح کی چیزوں کو ترک جماعت کا عذر نہیں بتایا گیا ہے، عمر کو چاہیے کہ نماز کے وقت مسجد جائے اگر لوگوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے، تو ہونے دے مسجد اللہ کا گھر ہے اور ا للہ کا حکم مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہے؛ اس لیے بندوں کو دیکھنے کے بجائے اللہ تعالی کے حکم کی طرف نظر رہنی چاہیے۔
’’عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال الجفاء کل الجفاء و الکفر والنفاق من سمع  منادي اللّٰہ إلی  الصلاۃ فلا یجیبہ‘‘(۱)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من سمع المنادي فلم یمنعہ من اتباعہ عذر قالوا: و ما العذر؟ قال خوف أو مرض، لم تقبل منہ الصلاۃ التي صلی‘‘(۲)

(۱) مسند أحمد، مسند المکیین، حدیث معاذ ابن أنس الجھني، ج۲۴، ص:۳۹۰، رقم:۱۵۶۲۷
(۲) سلیمان بن الأشعث، سنن أبي داؤد، ’’کتاب الصلاۃ، باب في التشدید في ترک الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۱۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص355

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں بغیر غسل و طہارت نماز ادا نہیں ہوگی جب معلوم ہو تو اس نماز کو لوٹا لے جو اس حالت میں پڑھی گئی ہو۔(۱)

(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِط} (سورۃ المائدہ: ۶)
والطہارۃ مفتاحہا بالنص وہو ما رواہ السیوطي في الجامع الصغیر من قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مفتاح الصلاۃ الطہور وتحریمہا التکبیر وتحلیہا التسلیم۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار: ’کتاب الطہارۃ ‘‘: ج۱، ص: ۱۸۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص251

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اولی و اخیرہ میں شہادت سے پہلے، آخر کی دو چھوٹی انگلیوں کو بند کرلیا جائے، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنالیا جائے اور ’’لا الہ‘‘ پر شہادت کی انگلی اٹھائی جائے اور ’’الا اللہ‘‘ پر گرادی جائے اور انگلیوں کا حلقہ سلام تک باقی رکھا جائے۔ یہ سنت طریقہ ہے، سنن ابی داؤد و سنن ابن ماجہ میں یہ موجود ہے۔ اعلاء السنن میں تفصیلی بحث موجود ہے:
’’حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، عن عاصم بن کلیب، عن أبیہ عن وائل بن حُجر قال: قلت: لأنظرن إلی صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیف یُصلي، قال: فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فاستقبل القبلۃ، فکبر فرفع یدیہ حتی حاذتا أذنیہ، ثم أخذ شمالہ بیمینہ، فلما أراد أن یرکع رفعہما مثل ذلک، ثم وضع یدیہ علی رکبتیہ، فلما رفع رأسہ من الرکوع رفعہما مثل ذلک، فلمَّا سجدَ وضع رأسہ بذلک المنزل من بین یدیہ، ثم جلس فافترش رجلہ الیسری ووضع یدہ الیسری علی فخذہ الیسری، وحد مرفقہ الأیمن علی فخذہ الیمنی، وقبض ثنتین وحلق حلقۃ، ورأیتہ یقول: ہکذا، وحلق بشر الإبہام والوسطی، وأشار بالسبابۃ ‘‘(۱)
’’عن عاصم بن کلیب الجرمی عن أبیہ، عن جدہ، قال: دخلت علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو یصلي وقد وضع یدہ الیسری علی فخذہ الیسری ووضع یدہ الیمنی علی فخذہ الیمنی وقبض أصابعہ وبسط السبابۃ، وہو یقول: یَا مقلب القلوب، ثبت قلبي علی دینک‘‘(۲)
’’الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا، یرفعہا عند النفي ویضعہا عند الإثبات وفی الشامیۃ: الثاني بسط الأصابع إلی حین الشہادۃ فیعقد عندہا ویرفع السبابۃ عند النفي ویضعہا عند الإثبات، وہذا ما اعتمدہ المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحۃ ولصحۃ نقلہ عن أئمتنا الثلاثۃ الخ‘‘(۳)
’’یرفعہا الخ وعند الشافعیۃ یرفعہا لذا بلغ الہمزۃ من قولہ إلا اللّٰہ، ویکون قصدہ بہا التوحید والإخلاص عند کلمۃ الإثبات والدلیل للجانبین في المطولات۔ قولہ: وأشرنا إلی أنہ لا یعقد شیئا من أصابعہ وقیل الخ، صنیعہ یقتضي ضعف العقد ولیس کذلک إذ قد صرح في النہر بترجیحہ وأنہ قول کثیر من مشایخنا، قال: وعلیہ الفتوی کما في عامۃ الفتاوی وکیفیتہ أن یعقد الخنصر والتي تلیہا محلقا بالوسطی والإبہام‘‘(۱)
’’أصابعہ أي بسط أصابعہ في إطلاق البسط إیماء إلی أنہ لایشیر بالسبابۃ عندالشھادتین عاقدا الخنصر والتي تلیھا محلقا الوسطی والإبھام وعدم الاشارۃ خلاف الروایۃ والدرایۃ ففي مسلم کان النبي ﷺ یشیر بأصبعہ التي تلی الإبھام قال محمد ونحن نصنع بصنعہ ﷺ وفي المجتبی لما اتفقت الروایات وعلم عن أصحابنا جمیعا کونھا سنۃ وکذا عن الکوفیین والمدنیین وکثرت الأخباروالآثار کان العمل بھا أولی وھو الأصح ثم قال الحلواني: یقیم الأصابع عندالنفي ویضعہ عندالإثبات، واختلف في وضع الید الیمنی فعن أبي یوسف أنہ یعقد الخنصر والبنصر ویحلق الوسطی والإبھام وفي درر البحار المفتی بہ عندنا أنہ یشیر باسطا أصابعہ کلھا وجاء في الأخبار وضع الیمنی علی صورۃ عقد ثلاثۃ وخمسین أیضا فتح وعیني وغیرہ‘‘(۲)

(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب رفع الیدین‘‘: ج ۱، ص:۱۰۴، رقم: ۷۲۶
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات: باب‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۵، رقم: ۳۵۸۷۔
(۳) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننھا‘‘: ج ۱، ص:۲۷۰۔
(۲) أبوالبرکات عبداللّٰہ بن أحمد النسفي، کنزالدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: کیفیۃ أداء الصلاۃ، حاشیۃ: ص:۲۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص397