نکاح و شادی

Ref. No. 2181/44-2287

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آئندہ پیش آنے والے واقعات واسرار کا علم یا کشف کسی نبی یا بزرگ کو ہوجانا تکوینی علم کہلاتاہے، تکوینی علم اور تشریعی علم میں فرق یہ ہے کہ تشریعی علم کا تعلق اللہ تعالی کے ظاہری احکام وقوانین سے ہوتاہے، جبکہ تکوینی علم موھوب من اللہ ہوتاہے، اس کا تعلق ظاہری احکام سے نہیں ہوتاہے،۔ آپ کا جہاں سے رشتہ آیاتھا اور انہوں نے تکوینی نظام کے تحت رشتہ کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کو معلوم کرنے کے لئے کہا ہے بظاہر ان کی مراد استخارہ ہوگی، کہ اس کے ذریعہ ظاہری اسباب کے بغیر دل میں کسی کام کے صحیح یا غلط ہونے کا القاء ہوجاتاہے، ورنہ انسان تشریعی نظام کا مکلف ہے، تکوینی نظام کا مکلف نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس مسئلے میں اختلاف ہے، مگر تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بشر تھے، مثل دوسرے انسانوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ماں باپ سے پیدا ہوئے تھے، آپ کھاتے پیتے اور شادیاں کرتے تھے، اور انسانی زندگی کی ضروریات آپ کو بھی ہوتی تھیں؛ اس لئے آپ کا سایہ ہوتا تھا؛ لیکن دھوپ کی وجہ سے بسا اوقات آپ کے اوپر ابر سایہ کرتا تھا، اس لئے آپ کا سایہ محسوس ہی نہیں تھا جس کو لوگ عدم سایہ سمجھ کر نور مجسم کے قائل ہوگئے، جو خلاف حقیقت ہے ایسے لوگوں کے اعتقاد کو ختم کرنے کے لئے قرآن پاک میں فرمایا گیا۔ {قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوْحٰی إِلَيَّ}(۱) آپ لوگوں سے فرمادیجئے کہ میں بھی تم جیسا انسان ہوں، فرق یہ ہے کہ میرے پاس وحی آتی ہے تمہارے پاس وحی نہیں آتی، اس سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سراپا نور مجسم نہیں تھے؛ بلکہ آپ انسان ہی تھے؛ بلکہ دوسرے انسانوں کی طرح بشر تھے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے تھے، اور نور مجسم ہونے کا شبہ ہونے لگتا تھا کہ دنیا میں آپ جیسا حسین وجمیل انسان نہ آپ سے پہلے پیدا ہوا اور نہ ہی آپ کے بعد قیامت تک ایسا حسین وجمیل انسان پیدا ہوگا جیسا کہ شمائل ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔(۲)

(۱) سورۃ الکہف: ۰۱۱
(۲) فبینما أنا یوما بنصف النہار، إذا أنا بظل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقبلٌ،…قال عفان: حدثینہ حمادٌ، عن شمیسۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ثم سمعتہ بعد یحدثہ عن شمیسۃ، عن عائشۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقال: بعد في حج أو عمرۃ، قال: ولا أظنہ إلا قال: في حجۃ الوداع (أخرجہ أحمد بن حنبل،فی مسند ہ: ج ۴۱، ص: ۴۶۳، رقم: ۲۵۰۰۳)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم صلاۃ الصبح ثم مد یدہ ثم أخرہا فلما سلم قیل لہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لقد صنعت في صلاتک شیئاً لم تصنعہ في غیرہا … أیضا … قال: حتی لقد رأیت ظلي وظلکم فأومأت إلیکم أن استأخروا۔ (ابن قیم الجوزیۃ، حادي الأروح إلی بلاد الإفراح، ’’الباب الأول في بیان وجود الجنۃ الآن‘‘: ج ۱، ص: ۲۱)
فلما کان شہر ربیع الأول، دخل علیہا، فرات ظلہ۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ: ج ۴۴، ص: ۴۳۶)
حتی رأیت ظلي وظلکم إلخ۔ (محمد بن اسحاق بن خزیمۃ، صحیح ابن خزیمۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الرخصۃ في تناول المصلي الشيء‘‘: ص: ۲۰۷، رقم: ۸۹۲
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص212

اسلامی عقائد

Ref. No. 2420/45-3684

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان کے ادب و احترام کاخیال رکھنا چاہئے اور قبروں کی بے حرمتی سے بچناچاہئے،  اسی وجہ سے قبروں کے اوپر چلنے اور بیٹھنے سے منع  کیاگیا ہے۔ البتہ اگر جوتے  پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہوتو ان کو پہن کر قبرستان میں چلنے کی گنجائش ہے،اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ البتہ کوشش یہ ہو کہ قبروں کے اوپر پیر نہ پڑیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کے نیچے سے بھینس نکالنا بدعت ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایسے کام وطریقہ کو فوراً چھوڑ دینا لازم ہے۔(۱)

(۱) إذا کان للرجل جو الق وفیہا دراہم مکتوب فیہا شيء من القرآن، أو کان في الجوالق کتب الفقہ أو کتب التفسیر أو المصحف، إن کان علی وجہ الاستخفاف یکفر وإلا لا کذا في الغرائب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، ’’الباب الخامس: في آداب المسجد والقبلۃ، والمصحف‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۳)
لا یلقی في موضع یخل بالتعظیم کذا في القنیۃ۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۵)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)


 فتاوی دارالعلوم، وقف ویوبند ج1ص533

نکاح و شادی

Ref. No. 2542/45-3879

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر لڑکا و لڑکی مجلس نکاح میں موجود ہوں، تو نکاح منعقد ہونے کے لئے متعاقدین کا ایجاب  و قبول زبانی کرنا ضروری ہے،  صرف متعاقدین کے نکاح نامہ پر دستخط کرنے سے نکاح منعقدہی نہیں ہوتاہے، اس لئےاگر لڑکی نے دھوکہ سے نکاح نامہ پر دستخط کردئے جس کے گواہ بھی موجود ہیں تو بھی یہ نکاح درست نہیں ہوگا۔ نکاح کے انعقاد صحیح کے لئے بالغہ لڑکی کا اپنی مرضی  سےایجاب یا قبول کرنا ضروری ہے،۔ ورنہ نکاح  منعقدنہیں  ہوگا۔

 (فلا ينعقد) بقبول بالفعل كقبض مهر ولابتعاط ولا بكتابة حاضر بل غائب بشرط إعلام الشهود بما في الكتاب۔
مطلب التزوج بإرسال كتاب قوله (ولا بكتابة حاضر) فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد بحر والأظهر أن يقول فقالت قبلت الخ إذ الكتابة من الطرفين بلا قول لا تكفي ولو في الغيبة تأمل۔ (الدر المختار مع رد المحتار: (12/3، ط: دار الفکر)
ولا ينعقد بالكتابة من الحاضرين فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد هكذا في النهر الفائق۔ (الفتاوی الھندیۃ: (270/1، ط: دار الفکر)
إن كان العاقدان حاضرين معاً في مجلس العقد وكانا قادرين على النطق فلا يصح بالاتفاق الزواج بينهما بالكتابة أو الإشارة۔ (الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (6531/9، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسئلہ عام ہے سائل کے سوال کے جواب کو بھی مسئلہ کہاجاتاہے، اسی طرح عوام الناس کے سامنے حکم شرعی کی وضاحت کو بھی مسئلہ کہاجاتاہے، جبکہ فتوی حکم شرعی کے طلب پر شریعت کا جو موقف واضح کیاجائے اس کا نام فتوی ہے، گویا فتوی خاص ہے اور مسئلہ عام ہے۔(۱)

(۱) فالحکم الشرعي ہو خطاب اللّٰہ تعالیٰ المتعلق بأفعال المکلفین طلبا أو اقتضاء أو تخییرا أما الفتویٰ فہي انزال الحکم الشرعي علی واقع المستفتی۔ (محمد أبوزہرہ، أصول الفقہ: ص: ۲۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص147

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دعاء کا مسنون طریقہ ہی افضل ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے، سجدہ میں مناجات اکثر فقہاء کے نزدیک مکروہ ہے۔(۱) اشعۃ اللمعات میں ہے سوم سجدہ مناجات (دعائیہ سجدہ) و ظاہر کلام اکثر فقہاء آنست کہ مکروہ است یعنی تیسرا سجدہ مناجات ہے اکثر علماء کے نزدیک مکروہ ہے۔
(۱) وأشار المصنف إلی أنہ لا یأتي في رکوعہ وسجودہ بغیر التسبیحات وما ورد في السنۃ من غیرہا فمحمول علی النوافل تہجداً أو غیرہ۔ (ابن نجیم، البحرا الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل ہو في اللغۃ فرق ما بین الشیئین‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۲)
وکذا) لیس بعد رفعہ من الرکوع دعاء، وکذا لا یأتي في رکوعہ وسجودہ بغیر التسبیح (علی المذہب) وما ورد محمول علی النفل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۲، ۲۱۳)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص360

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سفید مادہ عصر سے قبل سونے میں نکلا ہوگا اس لیے غسل کرکے، عصر ومغرب کی نماز بھی لوٹانی ہوگی،(۱) صرف خیالات کی وجہ سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔ خیالات کی وجہ سے اگر مادہ منویہ کا خروج ہوا، تو غسل واجب ہے ورنہ نہیں،(۲) چلتے پھرتے شہوت سے جو ایک چپچپا مادہ نکلتا ہے، اس کو مذی کہتے ہیں، اس میں وضو کافی ہے، مذی میں غسل واجب نہیں ہے۔(۳)
(۱) روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الرجل یجد البلل ولم یجد احتلاما قال یغتسل ولأن النوم راحۃ تہیج الشہوۃ وقد یرق المني لعارض والاحتیاط لازم في باب العبادات وہذا إذا لم یکن ذکرہ منتشراً قبل النوم۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل ما یوجب الاغتسال‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)
(۲) الماء من الماء۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث أبي أیوب الأنصاري‘‘: ج ۳۸، ص: ۵۱۱)(المؤسسۃ الرسالۃ، القاھرۃ)
(۳) لا یفترض الغسل عند خروج مذي … أو ودي بل الوضوء منہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’سنن الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص65

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :عمامہ اور ٹوپی پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے ٹوپی اور عمامہ پر مسح کیا، تو اس کا وضو درست نہیں ہوگا۔ ولایجوز المسح علی العمامۃ والقلنسوۃ لأنہما یمنعان إصابۃ الماء الشعر۔(۱)
ولا یجوز المسح علی العمامۃ والقلنسوۃ والبرقع والقفازین لأنہ لا حرج في نزع ہذہ الأشیاء الخ۔ (۲)

(۱)الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء، المسح علی العمامۃ والقلنسوۃ،‘‘ ج۱، ص:۷۱
(۲) المرغیناني، الہدایۃ ’’کتاب الطہارات، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۶۱)؛ و أبوبکر بن علی، الجوہرۃ النیرۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین‘‘ ج۱، ص:۳۳؛ وشمس الدین أبوبکر السرخیي، المسبوط للسرخسي، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۲۳۵(القاھرۃ، مؤسسۃ الرسالۃ، مصر)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص276

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب کا یہ طریقہ غلط ہے، ان کو تنبیہ کی جا سکتی ہے کیوں کہ داڑھی چھوٹی رکھنے والے کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمیٰ، ونحو الأعشیٰ … وکذا تکرہ خلف أمرد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸،۳۰۲)
ولأن الإمامۃ أمانۃ عظیمۃ فلا یتحملہا الفاسق؛ لأنہ لا یؤدي الأمانۃ علی وجہہا۔…(الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب بیان من یصلح للإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص148