طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2575/45-3942

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہماری معلومات کے مطابق جلد کے اندر سے ایک طرح کا روغن نکلتا رہتا ہے جس سے جلد کے اوپر چکناہٹ اور چمک پیدا ہوتی ہے، بعض مرتبہ ان مسامات سے جب روغن نکلنا بند ہو جاتا ہے یا کم نکلتا ہے تو ان میں میل جمع ہو جاتا ہے، وہی میل بعض مرتبہ سخت ہو جاتا ہے اور چاول کے دانوں کی طرح نظر آتا ہے اور باہر نکلتا ہے، بہر حال اس کے نکلنے سے نہ تو وضو ٹوٹتا ہے اور نہ ہی اس کے پانی میں گرنے سے پانی ناپاک ہوتا ہے، اسی طرح دانے نکلنے کی جگہ کا دھونا بھی ضروری نہیں ہے، تاہم اگر اس کے ساتھ خون بھی نکلے تو اس کا حکم مختلف ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام حَنَّہ ہے۔(۲)

(۲)أحمد بن محمد الصاوي،  تفسیر الصاوي: ج۳، ص ۳۶۔
{إِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ إِنِّيْ نَذَرْتُ لَکَ مَافِيْ بَطْنِيْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّيْج إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُہ۳۵} (سورۃ آل عمران: ۳۵)

قال الدمشقي: إمراء ۃ عمران ہذہ أم مریم بنت عمران علیہا السلام وہي حنہ بنت فاقوذ۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ آل عمران: ۳۵‘‘ : ج ۴، ص: ۳۲۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص229

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:ایسا بڑا تالاب جو کئی میل میں پھیلا ہوا ہے، اس کا پانی پاک ہے، اس میں دھویا ہوا کپڑا پاک ہے، ناپاک نہیں ہے۔(۲)

(۲)والغدیر العظیم الذي لا یتحرک أحد طرفیہ بتحریک الطرف الآخر إذا وقعت نجاسۃ في أحد جانبیہ، جاز الوضوء من الجانب الآخر۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ التوضؤ ومالا یجوز بہ،ج۱،ص:۳۶)، إذا ألقي في الماء الجاري شيء نجس کالجیفۃ … پچھلے صفحہ کا بقیہ حاشیہ …والخمر، لا یتنجس مالم یتغیر لونہ أو طعمہ أو ریحہ۔ (جماعۃ من علماء الہند ، الفتاوی الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الأول فیما یجوز بہ التوضؤ، ج۱، ص:۶۸)، الحوض إذا کان عشراً في عشر، جاز التوضیٔ منہ والاغتسال فیہ۔ (سراج الدین محمد، فتاویٰ سراجیہ، باب ما یجوز بہ الوضوء والغسل، ج۱، ص:۴۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص433

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:باتھ روم میں غسل کے دوران اگر ستر کھلا ہوا ہو تو بغیر ضرورت کے بات کرنا بہتر نہیں ہے؛ البتہ اگر ستر کھلا ہوا نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

’’وقال الطحاوي: وآداب الاغتسال ہي مثل آداب الوضوء وقد بیناہا إلا أنہ لا یستقبل القبلۃ حال اغتسالہ لأنہ یکون غالبا مع کشف العورۃ فإن کان مستورا فلا بأس بہ ویستحب أن لا یتکلم بکلام معہ ولو دعاء لأنہ في مصب الأقذار ویکرہ مع کشف العورۃ‘‘(۱)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص346

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حروف کی ادائیگی صحیح طریقہ پر ہونی چاہئے حتی الامکان امام صاحب کو اس کی کوشش کرنی چاہئے(۱) لیکن انگوٹھے چومنا اور دعاء میں یاغوث کہنا غلط عقیدہ ہے جو بدعت ہے ایسے شخص کو امام نہ بنانا چاہئے؛ بلکہ دیندار متبع سنت شخص کو نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کا امام بنانا چاہئے؛ البتہ حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا اور ایسے ہی شروع تکبیر میں کھڑا ہونا دونوں جائز ہیں اس بارے میں ایک فریق کو دوسرے پر نکیر نہ کرنی چاہئے مگر مذکورہ بالا غلط عقیدہ رکھنے والے بدعتی کی امامت مکروہ ہے۔ بیت المقدس تمام انبیاء کا قبلہ ہے اس کو آرام گاہ کہنا ہے بے ادبی ہے، اس لیے کہ وہ عبادت گاہ ہے آرام گاہ نہیں ہے۔(۲)

(۱) قولہ ثم الأحسن تلاوۃ و تجویدا أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ أي أجود لاأکثرہم حفظاً، وإن جعلہ في البحر متبادراً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
(۲) ویکرہ إمامۃ مبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف، وقال الشامي، بأنہا ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال…بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دیناً قویماً وصراطاً مستقیماً۔ (أیضًا)
وقال في مجمع الروایات، إذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص129

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ شخص کو اتنا وقت بھی نہ مل سکے کہ ایک وقت کی نماز وضو کر کے ادا کر لے اور اس وقت میں قطرہ نہ آئے، بلکہ قطرہ آجاتا ہو تو وہ شخص شرعاً معذور ہے اس کا حکم یہ ہے کہ ایک وقت میں وضو کر کے جس قدر نمازیں چاہے پڑھے، دوسری نماز کے لیے از سر نو وضو کرے یہ شخص معذور ہے جو غیر معذور کا امام نہیں بن سکتا۔(۲)

(۲) وصاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ أو استطلاق بطن أو انفلات ریح… إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتہا زمنا یتوضأ ویصلي فیہ خالیا عن الحدث ولو حکما لأن الانقطاع الیسیر ملحق بالعدم۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذورین‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۴)
ومعذور بمثلہ وذي عذرین بذي عذر، لا عکسہ کذي انفلات ریح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسۃ۔ (أیضًا:’’مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص226

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایک مسجد میں ایک آدمی اذان پڑھے اور وہی آدمی دوسری مسجد میں اسی وقت کی نماز پڑھاوے تو شرعاً جائز ہے، اس کی اقتداء میں پڑھی گئیں نمازیں بلاکراہت درست ہیں۔(۱)

(۱) کرہ تحریمہا للنھي خروج من لم یصل من سجد قد أذن فیہ إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘:  مطلب في کراہۃ الخروج من المسجد بعد الأذان، ۲، ص: ۵۰۶، ۵۰۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص236

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے دوران عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی او رعمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، عمل قلیل وکثیر کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں جن میں دو تعریفیں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ دیکھنے والے کو یقین یا ظن غالب ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے تو وہ عمل کثیر ہے ورنہ قلیل ہے اور دوسری یہ کہ جس میں دونوں ہاتھ کا استعمال ہو وہ کثیر ہے اور جس میں ایک ہاتھ کا استعمال ہو وہ قلیل ہے۔ صورت مذکورہ میں امام صاحب نے ایک ہاتھ سے موبائل نکال کر بلا دیکھے اسے بند کردیا ہے، تو بظاہر یہ عمل قلیل ہے جس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن امام صاحب کو اس طرح کے عمل سے بھی احتراز کرنا چاہیے اس سے بھی کراہت بہر حال پیدا ہوتی ہے۔
’’(و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا (ما لا یشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیہا) صححہ في البدائعِ، وتابعہ الزیلعي والولوالجي۔ وفي المحیط أنہ الأحسن۔ وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ۔ وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجي عن أصحابنا۔ حلیۃ۔ القول الثاني: أن ما یعمل عادۃ بالیدین کثیر وإن عمل بواحدۃ کالتعمم وشد السراویل، وما عمل بواحدۃ قلیل وإن عمل بہما کحل السراویل ولبس القلنسوۃ ونزعہا إلا إذا تکرر ثلاثا متوالیۃ وضعفہ في البحر بأنہ قاصر عن إفادۃ ما لا یعمل بالید کالمضغ والتقبیل‘‘(۱)

(۱) الحصکفي و ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص:۳۸۴، ۳۸۵)۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص69

خوردونوش

Ref. No. 841 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:اگر کوئی خلاف شرع امر نہ پایا جائے ،کوئی مذہبی موقع نہ ہو ،  اسی طرح کسی مفسدہ کا خطرہ نہ ہو تو اگرکھانا حلال ہےتو دعوت میں جانا بھی درست ہے اور  دعوت دے کر اپنے گھر مہمان نوازی کرنا بھی درست ہے۔ مسلمانوں کو غیروں سے بھی معاملات اچھے رکھنے چاہئیں۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 38 / 1143

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پالش اتارکر صرف ہاتھ دھولینے سے غسل صحیح ہوجائے گا۔ دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند