Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2576/45-3941
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے تینوں بھائی شرکت میں جو کاروبار کررہے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے؟ اگر وہ کاروبار والد کا قائم کیا ہوا ہے، اور والد کے ساتھ تینوں بھائی لگ کر اس کام میں تعاون کررہے ہیں تو یہ تینوں بھائی اس کاروبار میں از راہ تبرع کام کررہے ہیں، اور والد کی مدد کررہے ہیں، اس لئے وہ کاروبار صرف والد کی ملکیت ہے، تو ایسی صورت میں والد کو چاہئے کہ چاروں بیٹوں میں کاروبار کو برابر تقسیم کریں۔ اور اگر اس کاروبار میں باپ کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ تین بھائیوں نے مل کر ایک کاروبار شروع کیا ہے، تو ایسی صورت میں چھوٹے بھائی (جو اس کاروبار میں شریک نہیں ہے)کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت یوسف علیہ السلام کے زلیخا سے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ ’’افراثیم، میشا‘‘ (۱)
(۱) وقیل إنہ لما مات زوجہ إمرأتہ زلیخا فوجدہا عذراء، لأن زوجہا کان لا یأتي النساء فولدت لیوسف علیہ السلام رجلین وہما افراثیم ومنشا۔ (ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ’’ذکر ما وقع من الأمور‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰)
فزوج الملک یوسف راعیل امرأۃ العزیز، فلما دخل علیہا قال: ألیس ہذا خیراً مما کنت تریدین؟ فقالت: أیہا الصدیق لا تلمني، فأني کنت المرأۃ حسناء ناعمۃ کما تری، وکان صاحبي لا یأتي النساء، وکنت کما جعلک اللّٰہ من الحسن فغلبتني نفسي۔ فوجدہا یوسف عذراء فأصابہا فولدت لہ رجلین إفراثیم بن یوسف، ومنشا بن یوسف۔ (القرطبي، الجامع لأحکام القرآن: ج ۹، ص: ۲۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص230
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:ایسی صورت میں نہ غسل فرض ہے، نہ واجب ہے، جس حصے پر چھینٹ پڑی ہے، اس کو دھو لیا جائے۔(۱)
(۱) (وعفي) و دم السمک و لعاب البغل والحمار و بول انتضح کرؤوس الإبر۔۔۔ و قید برؤوس الإبر لأنہ لو کان مثل رؤوس المسلۃ منع۔(ابن نجیم، البحر الرائق، باب الأنجاس، ج۱، ص:۴۰۸)، أي ویجب غسل المحل بالماء إن تعدت النجاسۃالمخرج لأن للبدن حرارۃ جاذبۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۱، ص:۴۱۹)؛ و بول انتضح مثل رؤس الإبر عفو، (ابراہیم بن محمد ، ملتقی الأبحر، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص434
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ نے جو پڑھا وہ ٹھیک پڑھا ہے، جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو، ناپاکی کی حالت میں اب تک جو نمازیں پڑھی گئیں سب واجب الاعادہ ہیں، اندازہ کرکے تمام نمازیں لوٹانی لازم ہیں۔ فرائض وواجبات کو کسی عالم سے سمجھ لینا ہر مسلمان پر فرض ہے، علوم دینیہ سے اس قدر ناواقفیت افسوسناک ہے۔ اللہ صحیح فہم عطاء کرے۔
’’وخرجہ الإمام أحمد، عَن عفان، عَن ہمام وأبان، عَن قتادۃ، ولفظ حدیثہ:(إذا جلس بین شعبہا الأربع، فأجہد نفسہ، فَقد وجب الغسل، أنزل أو لم ینزل)‘‘(۱)
(۱) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري: ج ۱، ص: ۲: رقم: ۳۶۷۔(مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص347
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال اگر وہ امام بدعت میں شرک کی حد تک پہنچ گیا جیسے قبر کو سجدہ کرنا وغیرہ تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اور اگر شرکیہ عقائد نہ ہوں تو نماز تو ہو جائے گی؛ لیکن مکروہ ہوگی اس لیے صورت مسئولہ میں اس بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے کے مقابلہ بہتر ہے۔ تنہا نماز پڑھنے سے جماعت کی نماز افضل ہے اگرچہ کسی فاسق کے پیچھے ہو، اس سلسلے میں بڑی حکمت عملی سے کام لیا جانا چاہئے، آہستہ آہستہ سارے کام ٹھیک ہوتے ہیں جلد بازی کرکے مسجد چھوڑ دینا، کسی فساد و جھگڑے کا سبب بننا، عقلمندی کا تقاضا نہیں ہے، آپ کوشش کرتے رہیں ان شاء اللہ دیر سہی کامیابی ہوگی فی الحال فساد سے بچنا لازم ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وھي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول … لا یکفر بہا … وإن کفر بہا … فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً … قولہ وہي اعتقاد عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أولا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ‘‘(۱)
’’وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ … قولہ نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث : من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي … أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند۔
(۲) أیضًا:ص: ۳۰۱۔
وحاصلہ إن کان ہوی لایکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا لا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص130
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰـہ التوفیق:ایسا نابینا جو خود بھی نجاست سے پرہیز نہ کرے اور دوسرے بھی اس کی دیکھ بھال نہ کریں اس کی امامت مکروہ تنزیہی ہے۔ دوسرے اچھے شخص کے ہوتے ہوئے اس کو امام نہ بنایا جائے تاہم اگراس کے پیچھے نماز پڑھی جائے اور اس کوامام بنایا جائے تو تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے، نماز کا فریضہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر بھی ادا ہو جائے گا اور جماعت کا ثواب بھی مل جائے گا۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعمیٰ، و في الشامیۃ قید کراہۃ إمامۃ الأعمیٰ في المحیط وغیرہ بأن لا یکون أفضل القوم فإن کان أفضلہم فہو أولیٰ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص:۲۹۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص227
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: واقعی طور پر اگر مذکورہ گاؤں میں مسلمانوں کی آبادی متفرق ہے اور اذان کی آواز بھی نہیں پہونچتی اور لوگ جماعت سے محروم رہ جاتے ہیں اور مائک کا بھی انتظام نہیں ہوسکتا ہے تو ایسی مجبوری کی صورت میں جب تک اذان کی آواز پہونچنے کا انتظام نہ ہوسکے اس وقت تک اذان پڑھنے کے بعد لوگوں کو نماز و جماعت کی اطلاع کے لیے گھنٹہ بجانا درست ہے تاکہ لوگ جماعت میں شرکت کرسکیں۔(۱)
(۱) أن بدء الأذان کان بالمدینۃ علی ما في مسلم کان المسلمون حین قدموا المدینۃ یجتمعون ویتحینون الصلاۃ ولیس ینادي لہا أحد فتکلموا في ذلک فقال بعضہم ننصب رایۃ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، کتاب الصلاۃ،’’باب الأذان‘‘: ج ۲، ص:۴۸)
(قولہ: في الکل) أي کل الصلوات لظہور التواني في الأمور الدینیۃ۔ قال في العنایۃ: أحدث المتأخرون التثویب بین الأذان والإقامۃ علی حسب ما تعارفوہ في جمیع الصلوات سوی المغرب مع إبقاء الأول یعني الأصل وہو تثویب الفجر، وما رآہ المسلمون حسنا فہو عند اللّٰہ حسن۔ (قولہ: للکل) أي کل أحد، وخصہ أبو یوسف بمن یشتغل بمصالح العامۃ کالقاضي والمفتي والمدرس، واختارہ قاضي خان وغیرہ نہر۔ (قولہ: بما تعارفوہ) کتنحنح، أو قامت قامت، أو الصلاۃ الصلاۃ، ولو أحدثوا إعلاما مخالفا لذلک جاز نہر عن المجتبی۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذن‘‘: مطلب في الکلام علی حدیث ’’الأذان جزم‘‘، ج ۲، ص: ۵۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص236
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں وسوسہ دفع کرنے کے لیے بار بار ’’أعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم‘‘ پڑھنے کی روایت صحیح نہیں ہے، اگرچہ نماز فاسد ہونے میں فقہاء کا اتفاق نہیں ہے، مگر کراہت سے خالی نہیں ہے۔ یعنی نماز میں ’’أعوذ باللّٰہ‘‘ بار بار پڑھنا اگر دنیاوی امور کے وسوسہ کی وجہ سے ہے، تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر امور آخرت کے وسوسہ کے لیے ہے، تو نماز فاسد نہ ہوگی۔(۲)
’’ولو تعوذ لدفع الوسوسۃ لا تفسد مطلقاً (إلی قولہ) ولو تعوذ لدفع الوسوسۃ لا تفسد مطلقاً فیہ نظر إذ لا فرق بینہما وبین الحوقلۃ فلیتأمل‘‘(۱)
(۲) ولو وسوسہ الشیطان فقال لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ إن کان ذلک لأمر الآخرۃ لا تفسد وإن کان لأمر الدنیا تفسد خلافا لأبي یوسف۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۲، ص:۷)
ولو عود نفسہ بشيئٍ من القرآن للحمی ونحوہا تفسد عند ہم اھـ۔ بخلاف التعوذ لدفع الوسوسۃ لا تفسد مطلقاً کما في القنیۃ۔ (أیضاً)
(۱) أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۶)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص70
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 38 / 1140
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ایسی صورت میں قرآن شریف اٹھاکر بوسہ دیدینا ہی کافی ہے ، کسی طرح کا صدقہ وغیرہ لازم نہیں ہے۔ اس کو ضروری نہ سمجھنا چاہئے۔ البتہ اگر اس غلطی کے بعد ثواب کی نیت سے کچھ صدقہ کردے تو بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 41/987
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
The ruling you have read in Bahishti Zewar is correct and you are not obliged to take bath in this case.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband