نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا بغیر سجدہ سہو کے نماز درست ہوگئی۔(۱)

(۱) فلو قرأ آیۃ طویلۃ قدر ثلاثین حرفاً یکون قد أتی بقدر ثلاث آیات۔ (الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹)ثم یضم إلی الفاتحۃ سورۃ أو ثلاث آیات ہکذا في شرح المنیۃ لابن أمیر الحاج، والآیۃ الطویلۃ تقوم مقامہا، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلا: الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ،الفصل الثالث: في سنن الصلاۃ، وآدابہا، وکیفیتہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 227

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں تھا بغیر سجدہ سہو کے بھی نماز مکمل ہوجاتی مگر جب کہ سجدہ سہو کرلیا تو بھی نماز صحیح ہوگئی ہے، مسئلہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں سجدہ سہو کرلینے سے نماز میں کوئی نقص نہیں آتا۔(۱)

(۱) وفي أظہر الروایات لایجب لأن القراء ۃ فیہما مشروعۃ من غیر تقدیر والاقتصار علی الفاتحۃ مسنون لاواجب۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۰)وإن قرأ الفاتحۃ في إحدی الأخر بین مرتین أو ضم فیہما سورۃ أو قرأ التشہد مرتین في القعدۃ الأخیرۃ أو تشہد قائماً أو راکعاً أو ساجداً ألا سہو علیہ۔ (إبراہیم، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في سجود السہو‘‘: ص: ۳۹۷، دار الکتاب، دیوبند)وحدیث أبي قتادۃ أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقرأ في الرکعتین الأولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ وفي الاخریین بفاتحۃ الکتاب۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، ج ۳، ص: ۲۶۱، رقم: ۳۷۴۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 226

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں نماز درست ہوگئی، زید پر سجدہ سہو لازم نہیں تھا۔(۱)

(۱) ولو فرغ المؤتم قبل إمامہ سکت اتفاقاً وأما المسبوق فترسل یفرغ عند سلام إمامہ وقبل یتم وقیل یکرر کلمۃ الشہادۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: مہم في عقد الأصابع عند التشہد‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۰)قولہ: (وقیل: یکرر کلمۃ الشہادۃ) کذا في شرح المنیۃ والذي في البحر والحلیۃ والذخیرۃ یکرر التشہد تامل۔(أیضاً: ج ۲، ص: ۲۲۱)(ومنہا) أن المسبوق ببعض الرکعات یتابع الإمام في التشہد الأخیر وإذا أتم التشہد لا یشتغل مما بعدہ ومن الدعوات، ثم ماذا یفعل؟ تکلموا فیہ وعن ابن شجاع أنہ یکرر التشہد أي قولہ: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وہو المختار، کذا في الغیاثیۃ والصحیح أن المسبوق یترسل في التشہد في بفرغ عند سلام الإمام، کذا في الوجیز للکردري، وفتاویٰ قاضي خان، وہکذا في الخلاصۃ… وفتح القدیر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل السابع: في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹)سہو المؤتم لا یوجب السجدۃ ولو ترک الإمام سجود السہو فلا سہو علی المأموم، کذا في المحیط۔ (أیضاً، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 225

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس بھول پر فرائض میں سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اس پر سنت و نوافل میں بھی سجدہ سہو لازم ہوگا نہ کرنے کی صورت میں اعادہ ضروری ہوگا۔(۱)

(۱) ضم سورۃ أو ثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ إلی الفاتحۃ، فإن لم یقرأ شیئا… أو قرأ آیۃ قصیرۃ وجب علیہ سجود السہو، أما إن قرأ آیتین قصیر تین فإنہ لا یسجد لأن للأکثر حکم الکل۔ (عبد الرحمن الجزیری، الفقہ علی مذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الصلاۃ: مباحث سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۱)ولا یجب السجود إلا بترک واجب أو تأخیرہ أو تأخیر رکن أو تقدیمہ أو تکرارہ أو تغییر واجب بأن یجہر فیما یخافت وفي الحقیقۃ وجوبہ بشيء واحد وہو ترک الواجب، کذا في الکافي … ولو کررہا في الأولیین یجب علیہ سجود السہو بخلاف مالو أعادہا بعد السورۃ او کررہا في الأخریین، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الثاني: عشر في سجود السہود‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 224

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں ہے، نماز درست ہوگئی۔(۲)

(۲) ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوساً إلا إذا ختم فیقرأ من البقرہ، وفي القنیۃ قرأ في الأولی الکافرون وفي الثانیۃ ألم تر أو تبت ثم ذکریتم وقیل یقطع ویبدأ ولا یکرہ في النفل شيء من ذلک۔قولہ (وأن یقرا منکوساً) بأن یقرا في الثانیۃ سورۃ أعلیٰ مما قرأ في الأولیٰ،… لأن ترتیب السورۃ في القراء ۃ من واجبات التلاوۃ وإنما جوز للصغار تسہیلاً لضرورۃ التعلیم، ط: (قولہ إلا إذا ختم الخ) قال في شرح المنیہ: وفي الولواجبۃ: من یختم القرآن في الصلاۃ إذا فرغ من المعوذتین في الرکعۃ الأولیٰ یرکع ثم یقرأ في الثانیۃ بالفاتحۃ وشيء من سورۃ البقرۃ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیر الناس الحال المرتحل أي الخاتم المفتتح۔ اہـ (قولہ وفي الثانیۃ) في بعض النسخ وبدأ في الثانیۃ، والمعنی علیہا (قولہ ألم تر أوتبت) أي نکس أو فصل بسورۃ قصیرۃ، ط: (قولہ ثم ذکر یتم أفاد أن التنکیس أو الفصل بالقصیرۃ إنما یکرہ إذا کان عن قصد، فلو سہواً فلا کما في شرح المنیۃ، وإذا انتفت الکراہۃ فإعراضہ عن اللتي شرع فیہا لا ینبغي وفي الخلاصۃ: افتتح سورۃ وقصدہ سورۃ أخری فلما قرأ آیۃ أو آیتین أراد أن یترک تلک السورۃ ویفتتح اللتي أرادہا یکرہ۔ اہـ۔ وفي الفتح: ولو کان أي المقر و أحرفاً واحداً (قولہ ولا یکرہ في النفل شيء من ذلک) عزاہ في الفتح إلی الخلاصۃ: ثم قال: وعندي في ہذہ الکلیۃ نظر، فإنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہي بلالاً رضي اللّٰہ عنہ عن الانتقال من سورۃ إلی سورۃ وقال لہ: إذا ابتدأت سورۃ فأتمہا علی نحوہا حین سمعہ ینتقل من سورۃ إلی سورۃ في التہجد۔ اھـ۔ واعترض ح أیضاً بانہم نصوا بأن القراء ۃ علی الترتیب عن واجبات القراء ۃ فلو عکسہ خارج الصلاۃ یکرہ فکیف لایکرہ في النفل؟ تأمل وأجاب ط: بأن النفل لاتساع بابہ نزلت کل رکعۃ منہ فعلاً مستقلاً فیکون کما لو قرأ إنسان سورۃ ثم سکت ثم قرأ ما فوقہا فلا کراہۃ فیہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: الإستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹، ۲۷۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 223

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن اسباب کی بنا پر دیگر نمازوں میں سجدہ سہو لازم ہوتا ہے انہیں اسباب کی بنا پر تراویح میں بھی سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اس کے خلاف سمجھنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) وإذا تذکروا أنہ فسد علیہم شفع من اللیلۃ الماضیۃ فأراد والقضاء بنیۃ التراویح یکرہ ولو تذکر والتسلیمۃ بعد أن صلوا الوتر قال محمد بن الفضل: لا یصلونہا بجماعۃ وقال الصدر الشہید: یجوز أن یصلوہا بجماعۃ کذا في السراج الوہاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع: في النوافل، فصل: في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶)

وإذا تذکروا في اللیلۃ الثانیۃ أنہ فسد علیہم شفع في اللیلۃ الأولی فأرادوا أن یقضوا یکرہ لأنہم لو قضوا بنیۃ التراویح یزید علی التراویح ہذہ اللیلۃ، وإنہ مکروہ۔ (فتاوی تاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث عشر: في التراویح نوع آخر: في قضاء التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 222

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز درست ہوگئی شبہ نہ کرنا چاہئے مگر اس کو فرض سے واجب کی طرف لوٹنا نہیں چاہئے تھا۔(۱)

(۱) ومن سہا عن القعدۃ الأولیٰ ثم تذکر وہو إلی حالۃ القعود أقربُ عاد وقعد وتشہد، لأن ما یقرب من الشيء یأخذ حکمہ، ثم قیل یسجد للسہو للتاخیر، والأصح أنہ لایسجد کما إذا لم یقم، ولو کان إلی القیام أقربُ لم یعد لأنہ کالقائم معنی ویسجد للسہو لأنہ ترک الواجب۔ (المرغیناني، الہدایۃ شرح البدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹)(سہا عن القعود الأول من الفرض) ولو عملیا، أما النفل فیعود مالم یقید بالسجدۃ (ثم تذکرہ عاد إلیہ) وتشہد ولا سہو علیہ في الأصح (مالم یستقم قائما) في ظاہر المذہب وہو الأصح فتح (والا) أي وإن استقام قائما (لا) یعود لاشتعالہ بفرض القیام (وسجد للسہو) لترک الواجب، (فلو عاد إلی القعود) بعد ذلک (تفسد صلاتہ) لرفض الفرض لما لیس بفرض وصححہ الزیلعي (وقیل: لا) تفسد؛ لکنہ یکون مسیئاً ویسجد لتاخیر الواجب (وہو الأشبہ) کما حقہ الکمال وہو الحق بحر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷، ۵۴۸، ۵۴۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 222

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر تکبیرات مسنون ہیں جان کر ان کو ترک کرنا درست نہیں اگر بھول سے چھوٹ جائے تو نہ سجدہ سہو لازم ہوگا نہ نماز فاسد ہوگی اور ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ‘‘ کے بجائے ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہدے تو بھی نماز درست ہے۔(۱)

(۱) ولا یجب السجود إلا بترک واجب أو تأخیرہ أو تأخیر رکن أو تقدیمہ أو تکرارہ أو تغییر واجب بأن یجہر فیما یخافت، وفي الحقیقۃ وجوبہ بشیء واحد وہو ترک الواجب کذا في الکافي، ولا یجب بترک التعوذ والبسملۃ في الأولیٰ والثناء وتکبیرات الانتقالات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)(ثم یرفع رأسہ من رکوعہ مسمعاً) قولہ: (مسمعا) … لما روي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبابکر وعمر وعلیا وأبا ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہم کانو یکبرون عند کل خفض ورفع فقد أجاب في المعراج بأن المراد بالتکبیر الذي فیہ تعظیم اللّٰہ تعالیٰ جمعاً بین الروایات واآثار والأخبار۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 221

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز صحیح ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)

(۲) وإعادتہا بترکہ عمداً أي مادام الوقت باقیا، وکذا في السہو إن لم یسجد لہ وإن لم یعدہا حتی خرج الوقت تسقط مع النقصان وکراہۃ التحریم ویکون فاسقاً آثماً، وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم، والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولیٰ لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ ویندب اعادتہا لترک السنۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، … حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۷)ویسجد للسہو للقطع ما لم یتحول عن القبلۃ أو یتکلم لإبطالہما التحریمۃ … (أنہ صلی رکعتین) أو علم أنہ ترک سجدۃ صلبیۃ أو تلاویۃ (أتمہا) بفعل ما ترکہ (وسجد للسہو) لبقاء حرمۃ الصلاۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۷۲، ۴۷۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 220

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں ترک ضم سورت سے اس کے اوپر سجدہ سہو لازم ہوگیا تھا، جو اس نے ادا کر لیا، لہٰذا نماز اس کی صحیح اور درست ہوگئی۔(۱)

(۱) وتجب قراء ۃ الفاتحۃ وضم السورۃ أو مایقوم مقامہا من ثلاث آیات قصارٍ أو آیۃ في الأولیین بعد الفاتحۃ، کنا في النہر الفائق، وفي جمیع رکعات النفل والوتر ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني: في واجبات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۸)ضم سورۃ أو ثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ إلی الفاتحۃ، فإن لم یقراء شیئاً أو قرأ آیۃ قصیرۃ وجب علیہ سجود السہو، أما إن قرأ آیتین قصیر تین فإنہ لا یسجد لأن للأکثر۔ (عبد الرحمن الجزیری، الفقہ علی مذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الصلاۃ: مباحث سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 219