نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گرمی کی وجہ سے مسجد کے اصل جماعت خانہ اور صحن مسجد کو چھوڑ کر چھت پر عشاء اور تراویح کی جماعت کرنا مکروہ ہے، ہاں جن کونیچے جماعت خانہ اور صحن میں جگہ نہ ملے اگر وہ چھت پر جاکر نماز پڑھ لیں، تو بلا کراہت جائز ہے، کہ یہ مجبوری ہے، فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ؛ ولہذا إذا شتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذٍ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ‘‘(۱) شامی میں ہے ’’ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید کراہۃ الصعود علی سطح المسجد الخ، ویلزمہ کراہۃ الصلوۃ أیضاً فوقہ فلیتأمل‘‘(۲) اس لیے گرمی میں صحن مسجد میں نماز باجماعت بدون حرج کے بھی صحیح ہے(۳) اور اگر کسی جگہ صحن داخل مسجد نہ ہو اور مسجد سے خارج ہو، تو بانی مسجد یا متولی مسجد اور جماعت کے لوگ باہم متفق ہوکر اس کے داخل کرنے کی نیت کرلیں، تو صحن داخل مسجد ہو جائے گا اور اس پر مسجد کے جملہ احکام جاری ہوں گے۔(۴)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲، زکریا دیوبند)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۸۔
(۳) وفناء المسجد لہ حکم المسجد۔ (أیضًا:’’باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۲)
(۴) أرض وقف علی مسجد والأرض بجنب ذلک المسجد وأرادوا أن یزیدوا في المسجد شیئاً من الأرض جاز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف: الباب الحادي عشر في المسجد وما یتعلق بہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص517

نماز / جمعہ و عیدین

الجــواب وباللہ التوفـیـق:عیدین میں جماعت سے قبل اذان دینا بلا شبہ بدعت ہے۔(۱)

(۱) وروي محمد بن الحسن أنا أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ عن حماد بن أبي سلیمان عن إبراہیم النخعي عن عبد اللّٰہ بن مسعود وکان قاعداً في المسجد الکوفۃ ومعہ حذیفۃ بن الیمان وأبو موسیٰ الأشعري فخرج علیہم الولید ابن عقبۃ بن أبي معیط وہو أمیر الکوفۃ یومئذ فقال: إن غداً عیدکم فکیف أصنع؟ فقالا: أخبرہ یا أبا عبد الرحمن! فأمرہ عبد اللّٰہ بن مسعود أن یصلی بغیر أذان والإقامۃ الخ‘‘ (إبراہیم الحلبي، الحلبي کبیري، ’’فصل في صلاۃ العید‘‘: ص: ۴۹۰، دار الکتاب دیوبند)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی یوم العید بغیر أذان ولا إقامۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما جاء في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۹۱، رقم: ۱۲۷۴)
الأذان سنۃ للصلوات الخمس والجمعۃ لا سواہا للنقل المتواتر۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، دار الکتاب دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص157

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نمازپوری ہوجانے کے بعد اتفاقاً دو چار آدمیوں کا صف سے الگ یا تھوڑا ہٹ کر تسبیح پڑھنے والوں کو منافق کہنا درست نہیں تسبیح کے دوران صف سے تھوڑا آگے پیچھے ہوجانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)

(۱)عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب یستقبل الإمام الناس إذ سلّم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۷: )
یستحب للإمام التحول لیمین القبلۃ یعني یسار المصلي لتنفل أو وردٍ۔ وخیرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمینا وشمالا وأماما وخلفا وذہابہ لبیتہ، واستقبالہ الناس بوجہہ۔ (ابن عابدین،در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فیما لو زاد علی العدد في التسبیح عقب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۸)
و یستحب أن یستقبل بعدہ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل الناس إن شاء أن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولیٰ لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللّٰہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۱۱۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص426

بدعات و منکرات

Ref. No. 2805/45-4393

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی تقریبات میں چھوٹی بچیوں کے ذریعہ  نعت و ترانے پیش کرنے اور مختصر اشارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم  بچیوں کو غیرشرعی لباس پہنانا یا ترانے و نعت میں ڈانس کے طور پر اشارے کرانا جائز نہیں ہے۔ بڑی اور بالغ بچیوں کو پروگرام میں  سب کے سامنےلانا فتنہ کا باعث ہے یہاں تک کہ پردہ کے ساتھ بھی مناسب نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ظاہر روایت میں جمعہ کے بعد چار کعت ایک سلام کے ساتھ سنت مؤکدہ ہیں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چھ رکعت سنت مؤکدہ ہیں؛ اس لیے نماز جمعہ کے بعد چار رکعت ایک سلام سے سنت مؤکدہ کی نیت سے اور دو رکعت سنت مؤکدہ کی نیت سے الگ سے پڑھے اور صرف چار رکعت سنت مؤکدہ پڑھنے والے کو ملامت نہ کی جائے۔
’’وأربع قبل الجمعۃ وأربع بعد ہا وکذا ذکر الکرخي، وذکر الطحاوي عن أبي یوسف أنہ قال: یصلي بعدہا ستاً وقیل ہو مذہب علي رضي اللّٰہ عنہ وما ذکرنا أنہ کان یصلي أربعاً مذہب ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ‘‘(۱)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: الصلاۃ المسنونۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵۔)
(و السنۃ قبل الجمعۃ أربع وبعدہا أربع) … (وعند أبي یوسفؒ) السنۃ بعد الجمعۃ (ست) رکعات وہو مروي عن علي رضي اللّٰہ عنہ و الأفضل أن یصلی أربعاً ثم رکعتین للخروج عن الخلاف۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملی، ’’فصل في النوافل‘‘: ج ، ص: ۳۳۷، دارالکتاب دیوبند)
وسنّ مؤکداً (أربع قبل الظہر و) أربع قبل (الجمعۃ) وأربع (بعدہا بتسلیمۃ)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص:۴۵۱، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص350

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2831/45-4434

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Your question is not clear. If you want to know the status of one who throws the unused wrapper with the halal marks in the trash, so it does not make one a disbeliever and you should not be in doubt unreasonably. If you want to know anything else, do re-send your query.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1079 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  بلا وجہ شرعی طلاق دینا  اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ عمل ہے، ابغض المباحات الی اللہ الطلاق۔ اس لئے طلاق دینے سے بہر صورت اجتناب کیا جانا چاہیے۔ عورتیں  کمزور اور کم عقل ہوتی ہیں، ان کی غلطیوں کو معاف کردیا جائے۔ نافرمانی حد سے بڑھے تو بستر الگ کردیا جائے، باز نہ آنے پر گھر کے افراد  بیٹھ کر معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کریں ۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود طلاق دینا ہی ناگزیر ہو تو عورت کے پاکی کے ایام میں ایک طلاق دے کر اس سے الگ ہوجائے،تین حیض   پورے گذرنے سے پہلے اگر بیوی کو واپس نکاح میں لینا ہو تو رجعت کرلے اور دوگواہوں کی موجودگی میں کہے کہ گواہ رہو میں نے رجعت کرلی، اور اگر تین ماہواری پوری ہوگئی تو اب  عورت نکاح سے نکل  گئی ، اور جس سے  چاہے گی نکاح کرسکے گی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 878

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-: میت کی قبر کے پاس اذان دینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، عالم برزخ کے احوال دنیا کے احوال سے مختلف ہیں، اس لئے مقصد اذان کی تعیین بھی ناقابل فہم ہے، قبر کے اوپر درخت کی ہری ڈالی رکھنا درست ہے اور اس کے کفن پر خوشبو چھڑکنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور قبر پر بھی چھڑکا جاسکتا ہے، تاہم اگربتی جلانے سے بعض مرتبہ آگ وغیرہ لگنے کا خطرہ رہتا ہے  اس لئے اس سے احتراز کیا جانا بہتر ہے۔ واللہ تعالی اعلم  بالصواب878

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات
Ref. No. 38/ 936 الجواب وباللہ التوفیق بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس کی گنجائش ہے، بشرطیکہ ان کے مذہبی شعار میں شرکت نہ ہو۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 41/1027

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ضرار نام رکھنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس کا معنی ہے نقصان پہنچانے والا، اور نام کے معانی کے اثرات  انسان کی ذات پر پڑتے ہیں۔ اس لئے کوئی دوسرا نام رکھ لینا چاہئے جیسے عبد اللہ ، عبدالجبار ،زبیر وغیرہ۔ ہاں، اگر جرّار جیم سے ہو تو معنی میں کوئی خرابی نہیں ہے، جرار کے معنی ہیں کھینچنے والا، بہادر، دلیر۔ اس لئے یہ نام رکھا جاسکتاہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند