نکاح و شادی

Ref. No. 1081 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  شرعاً اس کی کوئی  حیثیت نہیں۔ رسم و رواج سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ نیزدولہا وغیرہ کا آنگن میں جانا اور نامحرم عورتوں  کا سامنا کرنا ، یہ تمام غیرشرعی امور ہیں جن سے اجتناب کیا جانا ضروری ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

کھیل کود اور تفریح

Ref. No. 837

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  چونکہ تجربہ سے ثابت ہے کہ اس کھیل  میں غفلت حد درجہ پائی جاتی ہے، اس لئے احتراز کیا جا نا ضروری ہے۔ باقی تفصیل آپ کے گذشتہ سوال کے جواب میں لکھدی گئی ہے۔  واللہ تعالی اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1029/41-259

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   دین  کی تعلیم ، تبلیغ اور عمل کے لئے قرآن اور احدیث کافی ہیں، صرف بخاری میں تمام صحیح احادیث  نہیں ہیں، بلکہ بخاری کے علاوہ دیگر کتابوں میں بھی صحیح احادیث ہیں۔ خود امام بخاری کا قول ہے کہ میں نے صحیح احادیث کو جمع کیا ہے ، میں نے تمام صحیح احادیث کو جمع نہیں کیا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1240/42-561

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احادیث میں مسواک کرنے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، تاہم مسواک کرنے پر ثواب ہے اور نہ کرنے  پرکوئی ملامت اور کوئی گناہ نہیں ہے۔

واما ماورد من افضلیۃ الصلوۃ التی بسواک علی غیرھا فیدل علی الاستحباب  وھو الحق ( البحر الرائق 1/42 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1362/42-768

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس میں دینی چیزوں  کی ناقدری ہے اور  توہین ہے۔ اس لئے اس  سے بچنا چاہئے۔ لا يقرأ جهرا عند المشتغلين بالأعمال) الفتاوى الهندية :5/ 316(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
نعیم نے نجمہ کو 4 آدمیوں کے سامنے کہا نجمہ میری بیوی ہے کیا نکاح ہوگیا جبکہ نجمہ چپ رہی. جبکہ نجمہ کی ایسی نیت نہ تھی کے نعیم کو بطور شوہر قبول کرے.

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1663/43-1274

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مسجد میں جماعت اولی کے ساتھ نماز پڑھنا ہی اصل سنت ہے، اور اسی کی تاکید ہے اور اسی پر بعض نے وجوب کاحکم لگایا ہے، اس کو ترک کرنے والا اس وعید کا مستحق ہوگا جو حدیث میں وارد ہوئی ہے، البتہ ترک کرنے سے مراد عادت بنالینا ہے، کبھی اتفاقی طور پر کسی وجہ سے ترک ہوجانامراد نہیں ہے۔ اس لئے اگر کبھی کسی  وجہ سے  جماعت چھوٹ جائے، توتنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ  گھر میں جماعت  کرلی جائے جیسا کہ  ایسی صورت میں نبی علیہ السلام سے گھر جاکر جماعت سے نماز پڑھنا ثابت ہے۔  حضرت ابی بکرۃ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ کے دیہی علاقوں سے لوٹ کر آئے اور نماز کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  گھر چلے گئے اور گھر کے افراد کو جمع کیا اور ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔ ( معجم الکبیر للطبرانی، مجمع الزوائد ۲/۴۵، المعجم الاوسط ۵/۳۵ / ۴۶۰۱ ، ۷/۵۱/ ۶۸۲۰، المجروحین لابن حبان ۳ / ۴۔۔۵، الکامل لابن عدی ۶/۲۳۹۸

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک مرتبہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے نکلے تو دیکھا کہ لوگ مسجد سے باہر آرہے ہیں اور جماعت ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس گھر آئے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (اس روایت کو امام طبرانی نے "المعجم الکبیر ۹۳۸۰" میں صحیح سند کے ساتھ ذکر فرمائی ہے نیز ابن عبد الرزاق نے "مصنف ۲/۴۰۹/۳۸۸۳" میں ذکر فرمائی ہے)۔

عن أبی ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقد ہممت أن آمر فتیتي فیجمعوا لي حزماً من حطب ثم آتي قوما یصلون فی بیوتہم لیست بہم علة فأحرقہا علیہم“ (أبوداوٴد: ۱/۸۰، ط: اشرفی دیوبند) صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً. بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، 1 : 231، رقم (619

قال فی الشامی: (قولہ: وتکرار الجماعة) لما روی عبد الرحمن بن أبي بکر عن أبیہ ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی فی المسجد بجماعة فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعة“ (شامی: ۲/ ) المرأة إذا صلت مع زوجہا فی البیت إن کان قدمہا لحذاء قدم الزوج لاتجوز صلاتہما بالجماعة، وإن کان قدماہا خلف قدم الزوج إلا أنہا طویلة تقع رأس المرأة فی السجود قِبَل رأس الزوج جازت صلاتہا؛ لأن العبرة للقدم ۔ (درمختار مع الشامی: ۱/۵۷۲، کراچی) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1744/43-1467

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پیشاب کے قطروں کی بیماری میں جبکہ آپ معذور کے حکم میں ہوں آپ پر ہر نماز کے وقت وضو کرنا اور پیشاب لگے ہوئے ناپاک کپڑے بدلنا ضروری ہے۔ پیشاب کے قطروں کے لئے جو پلاسٹک استعمال کرتے ہیں  اگر قطرے اس میں آگئے تو اس کو اگلی نماز کے لئے بدلنا ضروری ہوگا۔ پیشاب کرنے کے بعد اچھی طرح سے پیشاب کی نالی میں موجود قطروں کو نکالنا لازم ہے،  جب مکمل پیشاب کے قطرے نکل گئے تو اب اس کو سکھانے کی ضرورت نہیں ہے دھولینا بھی کافی ہے۔ (2) اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونا فرض ہے اور تین تین بار دھونا سنت ہے، اس سے زیادہ ان گنت مرتبہ دھونا مکروہ ہے اور اسراف میں داخل ہے، وضو درست ہوجائے گا مگر بلاوجہ ایسا کرنا مکروہ ہوگا۔ (3) ہونٹوں  کا وہ حصہ جو منھ بند کرنے پر چھپ جاتاہے، اس پر  ویسلین یا کوئی کریم استعمال  نہ کریں یہ نقصاندہ بھی ہے۔ البتہ اگر لگالیا اور منھ کے اندراس کا اثر  حلق میں محسوس کیا توچونکہ یہ مقدار بہت ہی قلیل ہےاور صرف اس کا اثر محسوس ہوا ہے اس لئے  اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی، نماز درست ہوجائے گی۔

’’(1) وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضةبأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته‘‘.(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 305)

’’شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار‘‘.(الهندیة(1/40,41)

(2)"(والإسراف) ومنه الزيادة على الثلاث (فيه) تحريمًا ولو بماء النهر، والمملوك له. أما الموقوف على من يتطهر به، ومنه ماء المدارس، فحرام

(قوله: والإسراف) أي بأن يستعمل منه فوق الحاجة الشرعية، لما أخرج ابن ماجه وغيره عن عبد الله بن عمرو بن العاص «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بسعد وهو يتوضأ فقال: ما هذا السرف؟ فقال: أفي الوضوء إسراف؟ فقال: نعم، وإن كنت على نهر جار»، حلية (قوله: ومنه) أي من الإسراف الزيادة على الثلاث أي في الغسلات مع اعتقاد أن ذلك هو السنة لما قدمناه من الصحيح أن النهي محمول على ذلك، فإذا لم يعتقد ذلك وقصد الطمأنينة عند الشك، أو قصد الوضوء على الوضوء بعد الفراغ منه فلا كراهة كما مر تقريره (قوله: فيه) أي في الماء (قوله: تحريمًا إلخ) نقل ذلك في الحلية عن بعض المتأخرين من الشافعية وتبعه عليه في البحر وغيره، وهو مخالف لما قدمناه عن الفتح من عده ترك التقتير والإسراف من المندوبات، ومثله في البدائع وغيرها، لكن قال في الحلية: ذكر الحلواني أنه سنة؛ وعليه مشى قاضي خان، وهو وجيه اهـ واستوجبه في البحر أيضا وكذا في النهر. قال: والمراد بالسنة المؤكدة لإطلاق النهي عن الإسراف، وجعل في المنتقى الإسراف من المنهيات فتكون تحريمية لأن إطلاق الكراهة مصروف إلى التحريم، وبه يضعف جعله مندوبا.

أقول: قد تقدم أن النهي عنه في حديث «فمن زاد على هذا أو نقص فقد تعدى وظلم» محمول على الاعتقاد عندنا، كما صرح به في الهداية وغيرها. وقال في البدائع: إنه الصحيح، حتى لو زاد أو نقص واعتقد أن الثلاث سنة لا يلحقه الوعيد وقدمنا أنه صريح في عدم كراهة ذلك يعني كراهة تحريم، فلاينافي الكراهة التنزيهية، فما مشى عليه هنا في الفتح والبدائع وغيرهما من جعل تركه مندوبًا مبني على ذلك التصحيح، فيكره تنزيهًا، ولاينافيه عده من المنهيات كما عد منها لطم الوجه بالماء، فإن المكروه تنزيهًا منهي عنه حقيقةً اصطلاحًا، ومجازًا لغةً كما في التحرير. وأيضًا فقد عده في الخزانة السمرقندية من المنهيات، لكن قيده بعدم اعتقاد تمام السنة بالثلاث، كما نقله الشيخ إسماعيل، وعليه يحمل قول من جعل تركه سنةً، وليست الكراهة مصروفة إلى التحريم مطلقًا كما ذكرناه آنفًا، على أن الصارف للنهي عن التحريم ظاهر، فإن من أسرف في الوضوء بماء النهر مثلاً مع عدم اعتقاد سنية ذلك نظير من ملأ إناء من النهر ثم أفرغه فيه، وليس في ذلك محذور سوى أنه عبث لا فائدة فيه، وهو في الوضوء زائد على المأمور به؛ فلذا سمي في الحديث إسرافًا". (لدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 132)

(3) ثم القدر الذي يتعلق به الفساد ما يفسد الصوم عزي إلى غريب الرواية لأبي جعفر وهو قدر الحمصة من بين أسنانه، أما من خارج فلو أدخل سمسمة فابتلعها تفسد، وعن أبي حنيفة وأبي يوسف لا تفسد، ولو كانت بين أسنانه فابتلعها لا تفسد، ولو كان عين سكرة في فيه فذابت فدخل حلقه فسدت، ولو لم يكن عينها بل صلى على أثر ابتلاعها فوجد الحلاوة لا تفسد، ولو لاك هليلجة فسدت كمضغ العلك، ولو لم يلكها لكن دخل في جوفه منه شيء يسير لا تفسد.۔ وذكر شيخ الإسلام أكل بعض اللقمة وبقي في فيه بعضها فدخل في الصلاة فابتلعه لا تفسد ما لم تكن ملء الفم (فتح القدیر للکمال، فصل یکرہ للمصلی ان یعبث بثوبہ 1/412)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2047/44-2026

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بچوں کی تعلیم و تربیت  نہایت اہم اور نیک کام ہے، لیکن اگر نیک کام میں شرعی اصول و ضوابط کی رعایت نہ کی جائے تو وہ نیک کام بھی گناہ کا باعث بن جاتاہے۔ بچوں کی تعلیم  وتربیت میں نرمی و سختی دونوں پہلوؤں میں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں استاذ کا شاگردوں کے ساتھ  حد سے زیادہ مارنا درست نہیں ہے۔ اگر متوجہ کرنے اور سمجھانے پر بھی استاذ مذکور کا یہی معمول رہے تو کسی دوسرے استاذ یا مدرسہ میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں ، لیکن مذکور ہ استاذ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھئے۔

لوضرب المعلم الصبی  ضربا فاحشا فانہ یعزرہ  ویضمنہ لومات (قولہ ضربا فاحشا) قید بہ لانہ لیس لہ ان یضربھا فی التادیب ضربا فاحشا وھو الذی یکسر العظم او یخرق الجلد او یسودہ کما فی التاتارخانیۃ قال فی البحر وصرحوا بانہ اذا ضربھا بغیرحق وجب علیہ التعزیر ای وان لم یکن فاحشا (ردالمحتار 4/79 کتاب الحدود ، باب التعزیر )

روی ان النبی ﷺ قال لمرداس المعلم رضی اللہ عنہ ایاک ان تضرب فوق الثلاث فانک اذا ضربت فوق الثلاث اقتص اللہ منک (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ 13/13 الضرب للتعلیم)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:خلافت سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور صحیح اعتبار سے خلافت راشدہ کا دور حضرت حسن رضی اللہ عنہ پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت، خلافتِ راشدہ کا دور نہیں؛ بلکہ ملوکیت کا دور ہے اور بنی امیہ کے دور سے تعبیر کیا جاتا ہے، بنو امیہ کے بعد بنو عباس کا دور آیا، جن کی حکومت ہلاکو خان کے حملہ کے بعد معتصم باللہ پر ختم ہوگئی۔ یہ امراء کے ادوار، خلافت راشدہ نہیں؛ بلکہ ادوار ملوکیت ہیں(۱)۔ دوسرا دور جوخلافت کا چلتا ہے وہ خلافت راشدہ کا نہیں ہے، بلکہ وہ تصوف کا درجہ ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہونچتا ہے اور یہی خلافت پیری ومریدی کے سلسلہ کو قائم کرتی ہے؛ لیکن پیر ہونے یا پیر کا خلیفہ ہونے کے لئے شرائط ہیں جو ان شرائط پر پورا اترتا ہو وہ ہی پیر ہوگا اور جو ان شرائط کو پورا نہیں کرتے اور خود کو پیر کہتے ہیں وہ دنیا داری میں مبتلا ہوکر ریاکاری کرتے ہیں، حقیقت میں وہ نہ تو پیر ہیں اور نہ ہی ان کی خلافت صحیح ہے، ان سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ ۱) عن سفینۃ قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: ألخلافۃ ثلثون سنۃ ثم تکون ملکا۔ (مشکوۃ المصابیح،’’کتاب الفتن: باب مناقب الصحابۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۰، رقم: ۲۱۹۱۹؛ مسند أحمد بن حنبل، مسند الأنصار، حدیث: أبي عبد الرحمن سفیۃ مولیٰ رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص236