اسلامی عقائد

Ref. No. 1032/41-258

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   شادی کے موقع پر اس طرح کا پروگرام، جس میں شادی کے فضائل ومسائل کا تذکرہ ہو، اور نکاح کے دوام و بقاء کی دعا کی جائے ،درست ہے۔ اس کے علاوہ اگر مزید کچھ امور انجام دئے جاتے ہوں تو اس  کی وضاحت کرکے مسئلہ معلوم کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1141/42-370

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید نے چونکہ اپنی زندگی میں مکان فروخت کردیا اور آٹھ بیٹوں اور ایک بیٹی کا حصہ متعین کردیا تھا، اس لئے باپ کے مرنے کے بعد بقیہ رقم ان بیٹوں وبیٹی میں تقسیم کی جائے گی جن کو ان کا حصہ نہیں ملا۔ یہ رقم ترکہ شمار نہ ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1490/42-962

الجواب وباللہ التوفیق:۔  پانچ سال کی مدت سعودی میں رہنا وہاں جی لگنے کی وجہ سے ہے، علاوہ ازیں  زید نے جو اپنے دوست کو امامت کی ملازمت دلوائی ہے اس کا یہ احسان ہے، اور تبرع ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ عارف اب ہمیشہ کے لئے زید کا ملازم ہوگیا کہ وہ جب چاہے رکھے اور جب چاہے نکالدے۔ عارف کےمسجد کی ملازمت پر لگنے کے بعد زید کی ملازمت کا استحقاق ختم ہوگیا۔ اب عارف  ہی اس مسجد کا امام ہے۔عارف اگر زید کا احسان مانتے ہوئے خود ملازمت سے سبکدوش ہوجائے تو بہت بہتر ہے، اور بڑی فراخدلی کی بات ہے۔نیز اہل محلہ اور متولیانِ مسجد اس سلسلہ میں آپسی مشورہ سے جو طے کریں اس پر عمل کرلیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1863/43-1731

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) کریڈٹ کارڈ میں کمپنی پیسہ قرض دیتی ہے اور  جو کچھ آپ اس میں سے خرچ کرتے ہیں اس کی ادائیگی کی ایک مدت متعین ہوتی ہے، اگر اس مدت میں آپ نے وہ رقم اپنے اکاؤنٹ سے کریڈٹ کارڈ میں ٹرانسفر کردیا تو چارج نہیں لگتاہے، لیکن اگر مدت میں ادائیگی نہیں ہوسکی تو پھر اس پر سود دینا پڑتاہے، اس سود سے بچنے کے لئے اس کا استعمال درست نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شدید مبجوری ہو تو  کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرنے کی گنجائش ہے البتہ مدت میں ہی ادائیگی کردی جائے تاکہ سودی چارج  سے بچاجاسکے، تاہم  اس پر ملنے والے پوائنٹس کو استعمال میں لانا جائز ہے۔  (2) جمع شدہ رقم پر بینک جو انٹرسٹ اور سود دیتاہے اس کا اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔ بینک سے نکال کر کسی غریب کو بلانیٹ ثواب صدقہ کردینا لازم ہے۔ (3) آن لائن خریداری پر کچھ ایپس کیش بیک دیتے ہیں ، یہ رقم اپنے کسٹمر کے لئے ترغیبی انعام ہے، اس کو اپنے استعمال میں لانا جائز  اور حلال ہے۔  (4) کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر ملنے والا ڈسکاؤنٹ  بینک  نہیں دیتاہے بلکہ ادارہ یا کمپنی دیتی ہے اس لئے وہ ڈسکاؤنٹ  حاصل کرنا جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کلام کو احیاء موتیٰ کے مقصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے، اس لئے کہ متکلم کا مقصد یہ نہیں ہوتا۔ مراد یہ ہے کہ جن لوگوں کے دل مر گئے بدعقیدگی میں مبتلا ہو کر ان کو راہِ راست پر لے آئے۔ یہ مقصد مستحن ہے اور متکلم کا منشاء بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اسی سے ملتا ہوا شعر ہے:
آناںکہ خاک رابنظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشہ چشم بما کنند
اس کے جواب میں شاہ عبدالعزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ان کے بارے میں آپ کیاکہیں گے۔ پس کلام کے کہنے والے کی اصل منشاء اور مقصد معلوم ہونے کے بعد ہی کوئی حکم لگاناچاہئے اور توجیہ القول بمالا یرضی قائلہ کا مرتکب ہو کر گناہگار نہ ہونا چاہئے۔(۱)

۱) إذا کان في المسئلۃ وجوہ توجب الکفر، ووجہ واحد یمنع، فعلی المفتي: أن یمیل إلیٰ ذلک الوجہ، کذا في ’’الخاصۃ‘‘۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳)
إذا أنکر آیۃ من القرآن أواستخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع … کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان، مجمع الأنھر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)
ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان ونسمیہ مؤمناً حقیقۃ۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص238
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب چڑھاوے وغیرہ کا سارا مال بالیقین حرام ہے، تو اس کو خود کھانا یا اپنی ذات پر یا مدرسہ یا مسجد میں استعمال کرنا بھی ناجائز و حرام ہی ہے؛ بلکہ اسے صدقہ کر دے۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ طیب لا یقبل إلا الطیب۔ (مشکوۃ شریف، ’’کتاب البیوع: باب الکسب وطلب الحلال‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)
وحرام مطلقاً علی الورثۃ) أي سواء علموا أربابہ أولا، فإن علموا أربابہ ردوہ علیہم، ولا تصدقوا بہ کما قدمناہ آنفاً من الزیلعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۴)
(وقولہ: لو بمالہ الحلال) قال تاج الشریعۃ: أما لو انفق في ذلک ما لا خبیثاً ومالا سببہ الخبیث والطیّب فیکرہ لأن اللّٰہ تعالیٰ لا یقبل إلا الطیّب، فیکرہ تلویث بیتہ بمالا یقبلہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما لا یکرہ فیہا، مطلب کلمۃ لا بأس دلیل أن علی أن المستحب غیرہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۱
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص366

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قتل وقتال کی یہاں کوئی اجازت نہیں، شیعوں سے یا کسی اورجماعت سے کتنا بھی اختلاف ہو، غیر اسلامی ملک میں تو قتال کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے اور اسلامی ممالک میں شرعی احکام کے مطابق عمل ہوگا۔ رہا مسئلہ شیعہ کا تو ان میں الگ الگ طرح کے لوگ ہیں جو غالی شیعہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے وحی لانے میں غلطی کا عقیدہ درست سمجھتے ہیں، اسی طرح نصوص شرعیہ صریحہ کے منکر ہیں۔ وہی خارج از اسلام ہیں، باقی شیعہ، جو ایسے نہیں؛ بلکہ صرف نام کے شیعہ ہیں ان پر کفر کا فتویٰ نہیں ہے۔(۱)

(۱) الرافضي إن کان ممن یعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ، أو أن جبرائیل علیہ السلام غلط في  الوحي، أو کان ینکر صحبۃ الصدیق، أو یقذف السیدۃ الصدیقۃ فہو کافر لمخالفۃ القواطع المعلومۃ من الدین بالضرورۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطلاق: فروع طلق امرأتہ تطلیقتین ولہا منہ‘‘: ج ۳، ص: ۴۶)
بخلاف ما إذا کان یفضل علیاً أو یسب الصحابۃ فإنہ مبتدع لا کافر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع طلق امرأتہ تطلیقتین ولہا منہ‘‘:  ج ۳، ص: ۱۴۶)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: إذا رأیتم اللذین یسبون أصحابي فقولوا: لعنۃ اللّٰہ علی شرکم۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب‘‘: ج ۵، ص: ۶۹۷، رقم: ۳۸۶۶)
الرافضي إذا کان یسب الشیخین، ویلعنہما، والعیاذ باللّٰہ، فہو کافر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین موجبات الکفر أنواع منہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص285

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اعمال صالحہ (خواہ زبانی یا قلب) کی نیت پر صرف نیت کا ثواب ملتا ہے اور جب اس عمل کو بندہ کرتا ہے، تو کرنے کا ثواب بھی ملتا ہے، ظاہر ہے کہ نیک عمل کرنے کا ثواب صرف نیت والے ثواب سے زیادہ ہوگا۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: قال اللّٰہ عز وجل: إذا ہم عبدي بحسنۃ ولم یعملہا کتبتہا لہ حسنۃ فإن عملہا کتبتہا لہ عشر حسنات إلی سبعمائۃ ضعف وفي روایۃ إلی أضعاف کثیرۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب إذا ہمّ العبد بحسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۸)
کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر أمثالہا إلی سبعمائۃ ضعف۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصیام: باب فضل الصیام‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۳، رقم: ۱۱۵۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص385

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبرستان ایسی جگہ کا نام ہے کہ وہاں جا کرآدمی کو آخرت اور اللہ تعالیٰ کی رضاء کے کام کرنے کی طرف توجہ ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے آخرت کی طرف توجہ ہوتی ہے، کسی قبر پر یا قبروں کے قریب استنجا کرنا یا گوبر وغیرہ ڈالنا حماقت وجہالت ہے، یہ صورت بالکل ناجائز ہے، لوگوں کو اس سے روکا جائے اور قبرستان کی حفاظت کے جو عرفی طریقے ہیں وہ اختیار کئے جائیں۔
’’یحرم قضاء الحاجۃ فوق المقبرۃ وعلۃ ذلک ظاہرۃ فإن المقابر محل عظات وعبرۃ فمن سوء الأدب والخلق أن یکشف الإنسان فوقہا سوئتہ ویلوثہا بالأقذار الخارجۃ منہ علی أنہ قد صح عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ حث علی زیارۃ القبور لتذکر الآخرۃ فمن الجہل والحماقۃ أن یتخذ الناس الأماکن التي تزار للتذکروالاعتبار محلا للبول والتبرز‘‘(۱)
’’وفي مقابر لأن المیت یتأذي بما یتأذي بہ الحي والظاہر أنہا تحریمیۃ‘‘(۲)

(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: محبث آداب قضاء الحاجۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۱۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب القول المرجح علی الفعل‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص95

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں بغیر مسواک کے منہ کی صفائی کی سنت تو ادا ہو جائے گی؛ لیکن لکڑی کے فوائد سے محروم ہوں گے۔(۱)

(۱)عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ یجزئ من السواک الأصابع۔ و روی الطبراني عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنھا قالت : قلت یارسول اللہ ﷺ الرجل یذھب فوہ یستاک؟ قال نعم: قلت کیف یصنع؟ قال یدخل أصبعہ في فیہ۔ قال النووي : و یستحب أن یبدأ بالجانب الأیمن من فمہ عرضا ولا یستاک طولا لئلا یدمی لحیۃ أسنانہ فإن خالف صح مع کراھۃ۔ (علي بن محمد ملا علي، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’باب السواک،‘‘ ج۲، ص:۸۰مکتبۃ فیصل، دیوبند)؛ و تقوم الأصبع أوالخرقۃ الخشنۃ مقامہ عند فقدہ أو عدم أسنانہ في تحصیل الثواب لا عند وجودہ۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱، ص:۲۱ (شاملہ))؛  وعن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ  قال قال رسول اللّٰہ ﷺ تجزئ الأصابع مجري السواک۔ (أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الاستیاک بالأصابع،‘‘ ج۱، ص:۱۳۴، رقم:۱۷۸(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص199