Frequently Asked Questions
Miscellaneous
Ref. No. 38 / 1189
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Istikhara is a very helpful way to ask for Allah’s guidance. So it is better to offer 2 Rakats with the intention of Istikhara then recites the Dua for Istikhara which may be found in all the books of prayer. You will be guided insha-Allah.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
حدیث و سنت
Ref. No. 40/877
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محدثین کے درمیان اس حدیث کی صحت و ضعف کے تعلق سے کافی اختلاف ہے، ہم اجمالااًایمان لانے کے مکلف ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 908/41-29B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمانہ حیض میں عورت کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ اگر رکھ لیا تو روزہ شمار نہ ہوگا۔ اور شریعت کے حکم کی خلاف ورزی کی بناء پر عورت گنہگار ہوگی۔ زمانہ حیض کے روزوں کی قضاء بعد میں بہرحال کرنی ہوگی۔
ولا يخفى أن الصوم الذي هو الإمساك عن المفطرات نهارا بنيته يتحقق من المسلم الخالي عن حيض ونفاس الی ان قال وذكر ما تتوقف عليه صحته وهي ثلاثة: الإسلام والطهارة عن الحيض والنفاس والنية كما في البدائع (رد المحتار 2/371)
قال - رحمه الله - (يمنع صلاة وصوما) أي الحيض يمنع صلاة وصوما لإجماع المسلمين على ذلك قال - رحمه الله - (وتقضيه دونها) أي تقضي الصوم دون الصلاة لما روي عن معاذة العدوية قالت سألت عائشة - رضي الله عنها - فقلت ما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة فقالت أحرورية أنت قلت لست بحرورية ولكني أسأل قالت «كان يصيبنا ذلك فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاة» أخرجاه في الصحيحين وعليه انعقد الإجماع؛ ولأن في قضاء الصلاة حرجا لتكررها في كل يوم وتكرار الحيض في كل شهر بخلاف الصوم حيث يجب في السنة شهرا واحدا والمرأة لا تحيض عادة في الشهر إلا مرة فلا حرج (تبیین الحقائق 1/56)
واجمعوا علی ان الحائض یحرم علیھا الصوم ولو صامت لم یصح ولزمھا القضاء (التفسیر المظھری 1/195)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1202/42-503
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکاری ملازم ہو یا کسی کمپنی کا ملازم ہو سفر کرنے پر جو خرچ آتا ہے وہی وصول کرنا چاہئے ، اگر کسی کے یہاں مہمان ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے کچھ خرچ نہیں ہوا تو ایسی صورت میں جو خرچ نہیں ہوا وہ لینا درست نہیں ہے، اس لئے کہ یہاں پر جھوٹ بول کر پیسہ وصول کرنا لازم آئے گا۔ اسی طرح سو روپئے کی جگہ دو سو روپئے وصول کرنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ یہ بھی جھوٹ اور دھوکہ کے دائرے میں آتاہے۔ ہاں اگر سو روپئے خرچ ہوئے لیکن کمپنی سے پچاس روپئے ہی ملے تو اگلے سفر میں بڑھاکر اپنےباقی پچاس روپئے وصول کئے جاسکتے ہیں۔
قال النبی ﷺ لیس منا من غش۔ (مسند احمد، ابتداء مسند ابی ھریرۃ، 7/123، حدیث نمبر 7290) لان عین الکذب حرام قلت وھو الحق قال اللہ تعالی قتل الخراصون (الذاریات 10) وقال علیہ السلام الکذب مع الفجور وھما فی النار (فتاوی شامی، فرع یکرہ اعطاء سائل المسجد 6/427) لو ظفر بجنس حقہ فلہ اخذہ (شامی، مطلب فی نفقۃ الاصول 3/622)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 1723/43-1410
In the name of Allah the most Grcious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
One should not recite the same Surah in both rak'ats in Fard namaz (obligatory prayers). The jurists have considered it disliked (Makrooh Tanzihi). However, there is no problem if this happens by mistake. In any case, there is no need to do sajdae sahw or to repeat the prayer. However, in Nawafil (optional prayers) it is permissible to recite the same surahs in both rak'ahs.
لا بأس أن يقرأ سورةً ويعيدها في الثانية. (قوله: لا بأس أن يقرأ سورةً إلخ ) أفاد أنه يكره تنزيها، وعليه يحمل جزم القنية بالكراهة، ويحمل فعله عليه الصلاة والسلام لذلك على بيان الجواز، هذا إذا لم يضطر، فإن اضطر بأن قرأ في الأولى: {قل أعوذ برب الناس} الناس أعادها في الثانية إن لم يختم، نهر (الدر المختار مع شرحه ردالمحتار (الشامي) (1 / 546)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1931/43-1830
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قسطوں پر خریداری کی مذکورہ صورت جائز نہیں ہے۔ اگر آپ اس طرح کی کسی کمپنی کے ساتھ معاملہ کریں تو وقت پر ادائیگی کریں تاکہ سود نہ دینا پڑے۔ جو اضافی رقم بطور جرمانہ کے ادا کیجاتی ہے وہ سود کے زمرے میں آتی ہے۔ سودی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ جس طرح کسی مسلمان کے لئے سود لینا جائز نہیں ہے اسی طرح اس کا دینا بھی جائز نہیں ہے۔ حدیث میں سودی معاملہ میں ہر طرح کے تعاون کو حرام قرار دیا گیا ہے، اور اسے سنگین جرم بتایاگیا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے مذکورہ طریقہ پر نفع حاصل کرنے سے احتراز لازم ہے۔
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة:2] ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ . فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ۔ عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»۔(الصحيح لمسلم ، كتاب البيوع ، باب لعن آكل الربوا ج: 2 ص: 27)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2036/44-2011
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمہور احناف کے نزدیک نفی پر انگلی کو اشارہ کے لئے اٹھانا اور اثبات پر انگلی کا رخ نیچے کردیناصحیح طریقہ ہے۔
والصحیح المختار عندجمہوراصحابنا انہ یضع کفیہ علی فخذیہ ثم عند وصولہ الی کلمۃ التوحید یعقد الخنصر والبنصر و یحلق الوسطی والابھام ویشیر بالمسبحۃ رافعا لھا عندالنفی وواضعا لھا عندالاثبات ثم یستمر علی ذلک لانہ ثبت العقد عندالاشارۃ بلاخلاف ولم یوجد امر بتفییرہ فالاصل بقاء الشئ علی ما ھو علیہ واستصحابہ الی آخر امرہ۔ (رسائل ابن عابدین 1/134) (نجم الفتاوی 2/354)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی پیر یا بزرگ کے نام پر جانور پالنے کا مقصد ہوتا ہے کہ اس کو اسی کے نام پر ذبح کیا جائے گا تو اگر اس کو پیر یا بزرگ ہی کے نام پر ذبح کیا جائے تو {ما أہل بہ لغیر اللّٰہ} کے نام پر ذبح کیا ہوا ہے اور اگر پیر یا بزرگ کا نام دینے سے مقصد یہ ہوکہ فلاں کو اس کا ثواب پہونچے، لیکن ذبح اللہ ہی کے نام پر ہو تو اس کا کھانا درست ہے اور ذبح جائز ہے، البتہ یہ طریقہ کہ فلاں کے نام کا جانور ہے پہلی صورت کی نشاندہی کرتا ہے؛ اس لئے اس طریقہ کو اختیار کرنا درست نہیں۔(۱)
(۱) لعن اللّٰہ من ذبح لغیرہ اللّٰہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأضاحي، باب تحریم الذبح‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۱، رقم: ۱۹۷۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
قال العلماء: لو أن مسلما ذابح ذبیحۃ …… وقصد بذبحہا التقرب إلی غیر اللّٰہ صار مرتداً فذبیحتہ مرتد۔ (امام طبري، جامع البیان: ج ۲، ص: ۱۲۰)
وأما النذر الذي ینذرہ أکثر العوام علی ما ہو مشاہد کأن یکون لإنسان غائب أو مریض، أو لہ حاحۃ ضروریۃ فیأتي بعض الصلحاء فیجعل سترہ علی رأسہ … إلی… فہذا النذر باطل بالإجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: قبیل باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص333
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2465/45-3778
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مرحوم کے بیٹے موجود ہیں تو پوتوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا، اور اگر میت کی کوئی مذکر اولاد نہیں ہے تو پھر پوتے بھی میراث کے مستحق ہوں گے۔ اب رہی یہ بات کہ کس کو کتنا ملے گا، اس کے لئے تمام ورثاء کی تفصیل مطلوب ہے مثلا والد کے انتقال کے وقت ان کی زوجہ باحیات تھیں یا نہیں، اولاد میں کتنے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، اور اگر بیٹے نہیں ہیں تو کتنے پوتے اور پوتیاں ہیں؟ تمام تفصیلات لکھ کر دوبارہ سوال کریں تاکہ صحیح تقسیم کے ساتھ جواب ارسال کیاجاسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 2540/45-3880
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مخنث ہونا جانور میں بھی عیب ہے، اس لئے اس کی قربانی جائز نہیں اور عقیقہ بھی جائز نہیں ۔ البتہ مخنث بکرے کا گوشت کھانا جائز ہے اور اس کا صدقہ کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح قربانی کے بکرے کی مانند عقیقہ کے بکرے کا بھی ایک سال پورا ہونا ضروری ہے، اور لڑکی کے عقیقہ میں بکری کر نا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک بکرا بھی کافی ہوگا۔ لڑکا ہو تو بکرااور لڑکی ہو تو بکری ضروری سمجھنا شریعت میں بے اصل اور بے بنیاد بات ہے۔
عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة۔۔الخ (المستدرک للحاکم: (کتاب الذبائح، رقم الحدیث: 7595، 266/4، ط: دار الكتب العلمية)
عن أم كرز قالت: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم بالحديبية أسأله عن لحوم الهدي، فسمعته يقول: «على الغلام شاتان، وعلى الجارية شاة، لا يضركم ذكرانا كن أم إناثا» (سنن النسائی: (156/7، ط: مكتب المطبوعات الاسلامية)
يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة۔۔۔۔شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصا، (رد المحتار: (336/6، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند