Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 2434/45-3690
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ کے نام کے آگے کوئی حمدیہ جملہ استعمال کرنا افضل ہے، یہ کوئی لازم و ضروری امر نہیں ہے، اس لئے اگر کوئی حمدیہ جملہ ترک کردے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کی جگہ اللہ نے فرمایا کہنا جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تعلیم نسواں کی موجودہ دور میں شدید ضرورت ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر لڑکیاں تعلیم و تہذیب یافتہ ہوںگی، تو نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہوگی لیکن اس کے ساتھ شریعت کے اصولوں کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے اس لیے بالغ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو ہی معلمات مقرر کیا جائے لیکن اگر بڑی کتابوں کو پڑھانے کے لیے معلمات دستیاب نہ ہوں تو بدرجہ مجبوری پردہ کے نظم کے ساتھ مرد وں کو مقرر کیا جاسکتا ہے اور ایسے مردکے پیچھے نماز درست ہے۔(۱)
(۱) ثلاثۃ لہم أجران: رجل من أہل الکتاب آمن بنبیہ وآمن بمحمد والعبد المملوک إذا أدی حق اللّٰہ وحق موالیہ ورجل لہ أمۃ فأدبہا فأحسن تأدیبہا علمہا فأحسن تعلیمہا ثم اعتقہا فتزوج فلہ أجران۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۱۱)
قالت النساء للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: غلبن علیک الرجال فاجعل لنا یوماً من نفسک فوعدہن یوماً لیقہن فیہ فوعظہن وأمرہن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم، باب ہل یجعل للنساء یوماً علی حدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص180
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں پیشاب کا قطرہ کپڑے پر لگا ہوگا؛ مگر وہ اتنی مقدار میں نہیں ہوتا کہ نماز کے لئے مانع ہو؛ اس لیے نماز درست ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے مگر آئندہ ایسا نہ کریں، نماز جیسی اہم عبادت کو ذرا سی لاپرواہی (استنجا نہ کرنا) سے ناقص کردینا اچھا نہیں ہے، کیوںکہ اگر اس طرح پیشاب کے قطرات کی زیادہ مقدار ہو گئی، تو ظاہر ہے کہ نماز نہ ہوگی۔(۱)
(۱) و أما الفرض فھي ما إذا کانت النجاسۃ أکثر من قدر الدرھم، و أما السنۃ إذا کانت النجاسۃ أقل من قدر الدرھم فالاستنجاء حینئذ سنۃ۔ والدلیل أن المراد عدم الوجوب لأن قدر الدرھم معفو، فعلم أن الاستنجاء لیس بواجب۔ (بدرالدین العینی، البنایہ شرح الھدایۃ، ’’فصل فيالاستنجاء،‘‘ج۱، ص:۷۴۸)؛ والاستنجاء سنۃ۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۷۸)؛ والغسل سنۃ و یجب إن جاوز المخرج نجس۔ (’’ابن، عابدین، در المختار،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجی في ماء قلیل،‘‘ج۱، ص:۴۹-۵۵۰)؛ و في موضع آخر منہ، و عفا الشارع عن قدر درھم و إن کرہ تحریما فیجب غسلہ و ما دونہ تنزیھا فیسن و فوقہ مبطل فیفرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،‘‘ ج۱، ص:۵۲۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص89
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعد نماز فجر دعاء دائماً بالجہر خلاف سنت نبوی ہے، خطبہ جمعہ عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھنا مکروہ ہے اور خطبہ کو اتنا لمبا کرنا جس سے لوگوں کو پریشانی ہو اور لوگوں کی ناراضگی کا سبب بنے تو اس میں دینی حرج ہے؛ اس لیے شرعاً درست نہیں ہے اور اگر مقتدی اس پر راضی ہوں، تو طویل خطبہ میں کوئی حرج نہیں اور خطبہ نکاح کا مذکورہ طریقہ بھی خلاف سنت ماثورہ ہے۔ نماز جنازہ کے بعد دعا اور فاتحہ منقول نہیں ہے اور گیارہویں، بارھویں میں شریک ہونااس لیے جائز نہیں کہ اس کا ثبوت نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نہ صحابہ کرامؓ سے ہے نیز یہ بہت سے مفاسد کا ذریعہ ہے؛ لہٰذا مذکورہ امام کے اگر ایسے حالات ہوں تو وہ مشعل راہ نہیں ہیں امام کو چاہئے کہ شریعت کا پابند رہے حتی کہ تہمت کی جگہوں اور افعال سے بھی پرہیز کرے اور یہ شخص اگر اس طریقہ کو نہ چھوڑے تو امام بدل دیا جائے۔(۱)
(۱) وکرہ إمامۃ المبتدع، بارتکابہ ما أخذت علی خلاف الحق الملتقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم وعمل أو مال بنوع شبہۃ أو استحسان، وروی محمد عن أبي حنیفۃؒ وأبي یوسفؒ أن الصلاۃ خلف أہل الأہواء لاتجوز والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لاتکفرہ بدعتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص54
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب نے بلا شرعی ضرورت کے سود پر پیسے لے کر کاروبار شروع کیا ہے تو وہ کمائی حلال نہیں ہے، ان کا یہ عمل غلط ہے، اس کاروبار کو فورا ترک کردینا چاہئے اور توبہ کرنی چائیے، بعد توبہ کے امام صاحب کی امامت درست ہوگی، اور اس سے قبل ان کی امامت مکروہ ہے، نیز اگر تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہو کہ کل آمدنی یا غالب آمدنی حرام ہے تو ایسی صورت میں ان کی دعوت کھانا جائز نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اور بھی کاروبار یا آمدنی ہے جو حلال طریقہ سے کمائی ہوئی ہے اس حلال پیسے سے دعوت کرے تو ایسی صورت میں دعوت قبول کرنے کی گنجائش ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وفاسق وفاسق، من الفسق وھو الخروج عن الاستقامۃ۔ ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر‘‘(۱)
’’وأماالفاسق فقد عللوا کراھۃ تقدیمہ بأنہ لا یھتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیھم إھانتہ شرعا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلۃ، فإنہ لا یؤمن أن یصلي بھم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال‘‘(۱)
’’وکسبہ حرام فالمیراث حلال ثم رمز وقال لا ناخذ بھذہ الروایۃ وھو حرام مطلقا علی الورثۃ‘‘(۲)
(۱) (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸۔
(۱) أیضًا:ص: ۲۹۹۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج۹، ص:۴۴۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص181
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2750/45-2750
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں یہ باب درست ہے کہ مقتدی کی اقتداء پہلے سلام کے بعد ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا امام کے دوسرے سلام کی تکمیل سے پہلے مقتدی اپنا دوسرا سلام پھیر سکتا ہے تاہم بلا کسی عذر کے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔
’’وتنقطع التحريمة بتسليمة واحدة ........ وتنقضى قدوة بالأول قبل عليكم بالمشهور قال في التنجيس الامام اذا فرغ من صلاته فلما قال السلام جاء رجل واقتدى به قبل أن يقول عليكم لا يصير داخلا في صلاته‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار’’كتاب الصلاة‘‘: ج 2، ص: 126 اور 239)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز درست ہوگئی اگر پہلی رکعت کے رکوع میں یا رکوع سے پہلے امام کے ساتھ شامل ہوگیا ہو اور اگر رکعت چھوٹ گئی اور اس نے امام کے بعد کھڑے ہوکر اس رکعت کو پورا کرلیا تب بھی نماز درست ہو جائے گی؛ لیکن ایسا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) قطع العبادۃ الواجبۃ بعد الشروع فیہا بلا مسوغ شرعي غیر جائز باتفاق الفقہاء لأن قطعہا بلا مسوغ شرعي عبث یتنافی مع حرمۃ العبادۃ وورد النہي عن إفساد العبادۃ، قال تعالیٰ: ولا تبطلوا أعمالکم۔ أما قطعہا بمسوغ شرعي فمشروع فتقطع الصلوۃ لقتل حیۃ ونحوہا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج۳۴، ص:۵۰، ۵۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص5518
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اذان دینے کے وقت مؤذن کا کانوں میں انگلیوں کو ڈالنا لازم اور ضروری نہیں ہے؛ البتہ اذان کا مقصد دور تک آواز پہونچانا ہے اور آواز کو بلند کرنے کے لیے عموماً دیکھا گیا ہے کہ کانوں میں انگلیاں رکھی جاتی ہیں تاکہ آواز بلند اور سانس لمبی ہو، اس بات کی تائید حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوتی ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کے وقت انگلیوں کو کانوں میں ڈال کر اذان دینے کا حکم دیا تاکہ آواز بلند ہو؛ اس لیے اذان دینے کے وقت کانوں میں انگلی رکھنے کو فقہاء نے مستحب لکھا ہے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمر بلالا أن یجعل إصبعیہ في أذنیہ وقال: إنہ أرفع لصوتک‘‘ (۱)
’’وأخرج البخاري تعلیقاً: ویذکر عن بلال أنہ جعل إصبعیہ في أذنیہ، وکان ابن عمر لا یجعل إصبعیہ في أذنیہ‘‘(۲)
’’ویستحب أن یجعل إصبعیہ في أذنیہ، لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لبلال رضي اللّٰہ عنہ: ’’إجعل إصبعیک في أذنیک فإنہ أرفع صوتک‘‘(۳)
’’ویجعل ندباً إصبعیہ في صماخ أذنیہ، فأذانہ بدونہ حسن وبہ أحسن‘‘(۴)
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ: ’’کتاب الصلاۃ، أبواب الأذان والسنۃ فیہا‘‘ ص: ۵۲، رقم: ۱۰۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب: ہل یتتبع المؤذن فاہ ہہنا وہہنا؟‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۸؛ وہکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب: في أول من بنی المنائر للأذان، ج ۲، ص: ۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص158
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی اقتداء تکبیر تحریمہ سے شروع ہو کر سلام تک ہے۔ سلام کے بعد امام اور اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، دعا میں اقتداء ضروری نہیں ہے، نماز کے بعد دعا کرنا احادیث سے ثابت ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے، اس لیے دعا کا اہتمام ہونا چاہئے اور جب سب ہی لوگ کریں گے تو اجتماعی صورت پیدا ہو جائے گی، اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ لیکن یہ نماز والی اقتداء نہیں ہے نہ ہی اس کو لازم سمجھنا درست ہے۔(۱)
’’عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال یا معاذ واللّٰہ أني لأحبک فقال: أوصیک یا معاذ لا تدعن في دبر کل صلاۃ تقول: اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘(۲)
(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: مفتاح الصلاۃ الطہور وتحریمہا التکبیر وتحلیہا التسلیم، قال أبو عیسیٰ ہذا الحدیث أصح شيء في ہذا الباب۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء أن مفتاح الصلاۃ الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۵، رقم: ۳)
عن المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول: في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ: لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شيء قدیر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶، رقم: ۸۴۴)
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في الاستغفار‘‘: ج۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۱۵۵۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص427
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اگر جان بوجھ کر ایسا کیا تو نماز بکراہت تنزیہی ادا ہوگی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اور اگر بھول سے ایسا ہوگیا تو نماز بلا کراہت ادا ہوگئی ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ فصلہ بسورۃ بین سورتین قرأہما في رکعتین لما فیہ من شبہۃ التفضیل والہجر، وقال بعضہم: لایکرہ إذا کانت السورۃ طویلۃ کما لوکان بینہما سورتان قصیرتان۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۲، شیخ الہند دیوبند)
وإذا جمع بین سورتین بینہما سور أو سورۃ واحدۃ في رکعۃ واحدۃ … یکرہ وقال بعضہم: إن کانت السورۃ طویلۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص224