Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’(ولو سجد مع الإمام ثم سہا فیہا یقضي فعلیہ السہو ثانیاً‘‘(۱)
اور مسبوق (جس کی امام سے کوئی رکعت رہ گئی) مطلقاً اپنے امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا خواہ اقتداء سے پہلے امام بھولا یا بعد۔ پھر فوت شدہ (بقیہ) نماز کی قضاء کرے اور اگر بعد والی نماز میں بھول گیا تو دوبارہ سجدہ سہو کرے۔
علامہ ابن عابدین شامی مذکورہ عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’(ولو سہا فیہ) أي فیما یقضیہ بعد فراغ الإمام یسجد ثانیا لأنہ منفرد فیہ والمنفرد یسجد لسہوہ، وإن کان لم یسجد مع الإمام لسہوہ ثم سہا ہو أیضا کفتہ سجدتان عن السہوین، لأن السجود لایتکرر‘‘(۲)
اور اگر امام کے فارغ ہونے کے بعد مقتدی رہ جانے والی نماز قضاء کرتے ہوئے بھول گیا تو دوبارہ اکیلا سجدہ سہو کرے۔ اور اگر امام کے ساتھ اس مسبوق نے سجدہ سہو نہیں کیا تھا، پھر وہ بھی امام کی طرح بھول گیا اسے دو بار سجدہ سہو کے بجائے ایک بار سجدہ سہو کرنا کافی ہے کیوں کہ سجدہ (سہو) میں تکرار نہیں ہوتا۔
’’المسبوق یسجد مع إمامہ مطلقاً سواء کان السہو قبل الاقتداء أو بعدہ ثم یقضی ما فاتہ ولو سہا فیہ سجد ثانیا … وإن کان لم یسجد مع الإمام لسہو ثم سہا ہو أیضاً کفتہ سجدتان عن السہوین، لأن السجود لا یتکرر‘‘(۳)
اور مسبوق جو بعد میں قضاء کرے اور بھول جائے تو سجدہ سہو کرے۔ اور اگر اس کا امام بھول گیا اور مسبوق نے اس کے ساتھ سجدہ نہیں کیا اور باقی رہ جانے والی نماز میں مسبوق بھول گیا تو (بعد میں) اس کا سجدہ دونوں کے لئے کافی ہے یعنی آخر میں ایک بار ہی سجدہ سہو کرنا کافی ہے۔(۱)مذکورہ بالا عبارت کی رو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ:اگر مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو نہ کرے تو اپنی نماز مکمل ہونے سے قبل اس پر سجدہ سہو کرنا ضروری ہے، ایسے میں اگر امام کے ساتھ اس نے سجدہ سہو کر لیا پھر چھوٹی ہوئی نماز کے درمیان اس پر دوبارہ سجدہ سہو لازم ہوا تو مسبوق دوبارہ سجدہ سہو کرے گا نیز مسبوق اگر امام کے ساتھ سجدہ سہو نہیں کر سکا پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس کے اوپر دوبارہ سجدہ سہو لازم ہوگیا اس صورت میں ایک ہی سجدہ سہو کر لینا کافی ہے دوبارہ سجدہ سہو نہیں گرے، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے۔(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۶۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷۔(۳) أیضاً:۔(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو، فصل: سہو الإمام یوجب علیہ وعلی من خلفہ السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸۔فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 217
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جو شخص نماز میں قیام کے علاوہ حالت رکوع اور سجدہ وغیرہ میں قرآن کریم پڑھتا ہے اس شخص کے لیے ان مقامات میں پڑھنا جائز نہیں ہے، فقہاء نے ان جگہوں پر تلاوت کرنے کو مکروہ تحریمی لکھا ہے۔
جیسا کہ علامہ ابن نجیمؒ نے البحر الرائق میں اور ابراہیم الحلبیؒ نے غنیۃ المستملی میں لکھا ہے کہ اگر کسی نے رکوع، سجدہ یا تشہد کی جگہ قرآن پاک پڑھا تو اس پر سجدہ سہو واجب ہے؛ اس لیے مذکورہ شخص کو قیام کے علاوہ رکوع، سجدہ وغیرہ میں قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرنی چاہئے۔
’’لو قرأ القرآن في رکوعہ أو في سجودہ أو في موضع التشہد یجب علیہ سجود السہو‘‘(۱)
’’قال ابن نجیم: لو قرأ آیۃ في الرکوع أو السجود أو القومۃ فعلیہ السہو‘‘(۲)
فتاویٰ خانیۃ میں ہے:
’’لو قرأ الفاتحۃ أو آیۃ من القرآن في القعدۃ أوفي الرکوع أو في السجود کان علیہ السہو‘‘(۳)
قیام کے علاوہ میں تلاوت کرنے کی وجہ سے سجدہ سہو اس لیے واجب ہے کہ قرأت اس جگہ پائی گئی جہاں قرأت کرنا جائز نہیں تھا اس سے بچنا ضروری تھا، جیسا کہ شیخ ابراہیم حلبی نے حلبی کبیر میں لکھا ہے:
’’للقرأۃ فیما لم یشرع فیہ والتحرز عن ذلک واجب‘‘(۴)
مذکورہ عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن مقامات میں قرأت ہوئی ہے وہ محلِ قرأت نہیں ہے اس لیے افعالِ نماز میں سے ایک فعل اپنے محل میں واقع نہیں ہے؛ اس لیے سجدہ سہو لازم ہے صاحب مجمع الانہر نے لکھا ہے: ’’لأن کلا منہا لیس بمحل القرأۃ فیکون فعل من افعال الصلاۃ غیر واقع في محلہ فیجب‘‘(۱)
ایسے ہی رکوع اور سجدے وغیرہ کی حالت میں بقصد تلاوت فرائض کی طرح نوافل میں بھی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ قرآن پاک کی وہ آیتیں جو دعائیہ ہیں ان سے دعا کرنا صرف نفل نماز پڑھنے والے کے لیے جائز ہے، فرائض میں اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔
’’ولا بأس للمتطوع المنفرد أن یتعوذ من النار، ویسأل الرحمۃ عند آیۃ الرحمۃ وإن کان في الفرض یکرہ، وأما الإمام والمقتدی فلا یفعل ذلک فی الفرض ولا فی النفل‘‘(۲)
(۱) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني: فیما یکرہ في الصلاۃ، وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 215
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ذکر کردہ سوال میں پہلے سورت کی تلاوت ہوئی پھر سورہ فاتحہ پڑھی گئی اور قعدہ اخیرہ میں آپ نے سجدہ سہو بھی کر لیا اس لئے نماز بلا کراہت درست ہوگئی اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
البتہ فقہاء نے لکھا ہے کہ: اگر سورہ فاتحہ سے قبل ایک آیت سے کم تلاوت ہوئی ہو اور یاد آنے پر سورہ فاتحہ پڑھ لی تو اس قدر تاخیر ہونے پر سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیوں کہ ایک آیت کے بقدر تلاوت کرنا رکن ہے اور ایک رکن ادا کرنے کی مقدار سورۂ فاتحہ کی تلاوت میں تاخیر اگر واقع نہیںہوئی تو سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوتا۔ جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے لکھا ہے:’’لو قرأ حرفا من السورۃ ساہیا ثم تذکر یقرأ الفاتحۃ ثم السورۃ، ویلزمہ سجود السہو بحر، وہل المراد بالحرف حقیقتہ أو الکلمۃ؟ … وقیدہ في فتح القدیر بأن یکون مقدار ما یتأدی بہ رکن۔ أہـ۔ أي لأن الظاہر أن العلۃ ہي تأخیر الابتداء بالفاتحۃ والتأخیر الیسیر، وہو ما دون رکن معفو عنہ تأمل‘‘(۱)(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل شفیع من النفل صلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۲۔وإن کان قرأ حرفا من السورۃ وکذلک إذا تذکر بعد الفراغ من السورۃ…أو في الرکوع … فإنہ یأتي بالفاتحۃ ثم یعید السورۃ ثم یسجد للسہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۶)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 214
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام عارضی ہو یا مستقل نماز شروع کرنے سے قبل ہرامام کو چاہئے کہ لوگوں کی امامت کی نیت کرے، لیکن امامت کی نیت کے بغیر بھی نماز درست ہوجاتی ہے،
البتہ اقتداء کے لئے نیت شرط ہے۔ اگر امام غلطی سے سری نماز میں تین آیت کے بقدر جہر کردے یا جہری نماز میں سری قرأت کردے، تو اس پر سجدہ سہو لازم ہے۔ ’’وجہر (أي الإمام وجوبا) بقراء ۃ الفجر وأولیی العشائین‘‘(۱)(۱) کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۲۷، مکتبہ تھانوی، دیوبند۔قال العلامۃ ابن عابدین الشامي: والجہر فیما یخافت فیہ (للإمام) (وعکسہ) لکل مصل في الأصح والأصح تقدیرہ (بقدر ما تجوز بہ الصلاۃ في الفصلین۔ (في المسألتین مسألۃ الجہر والإخفاء)۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۵)(والجہر فیما یخافت فیہ) للإمام (وعکسہ) لکل مصل في الأصح والأصح تقدیرہ (بقدر ما تجوز بہ الصلاۃ في الفصلین۔ وقیل) قائلہ قاضي خان یجب السہو (بہما) أي بالجہر والمخافتۃ (مطلقا) أي قل أو أکثر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۵)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 213
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدہ سہو میں دو سجدے واجب ہیں، اس لیے کہ ایک سجدہ کرنے پر واجب کا ترک لازم آتاہے اور ترک واجب کی صورت میں نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے وقت کے اندراس کا اعادہ واجب اور وقت کے بعد اس کا اعادہ مستحب ہے، اس لیے مذکورہ صورت میں بہتر ہے کہ نماز کا اعادہ کرلیا جائے،جو مسبوق حضرات ہیں ان کا حکم بھی وہی ہے جو دیگر مقتدیوں کا ہے۔
’’یجب لہ بعد سلام واحد عن یمینہ فقط سجدتان(۱) وکذا کل صلاۃ أدّیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا، وفي الشامي: وأن النقص إذا دخل في صلاۃ الإمام ولم یجبر وجبت الإعادۃ علی المقتدی‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰، ۵۴۱۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۷۔(یجب بعد سلام واحد عن یمینہ فقط) لأنہ المعہود، وبہ یحصل التحلیل وہو الأصح بحر عن المجتبی۔ وعلیہ لو أتی بتسلیمتین سقط عنہ السجود؛ ولو سجد قبل السلام جاز… وکرہ تنزیہا۔ وعند مالک قبلہ في النقصان وبعدہ في الزیادۃ، فیعتبر القاف بالقاف والدال بالدال (سجدتان)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰، ۵۴۱)یجب بعد السلام سجدتان بتشہد وتسلیم لترک واجب وإن تکرر) بیان لأحکام الأول وجوب سجدتي السہو، وہو ظاہر الروایۃ لأنہ شرع لرفع نقص تمکن في الصلاۃ ورفع ذلک واجب، وذکر القدوري أنہ سنۃ کذا في المحیط، وصحح في الہدایۃ وغیرہا الوجوب، لأنہا تجب لجبر نقصان تمکن في العبادۃ فتکون واجبۃ کالدماء في الحج ویشہد لہ من السنۃ ما ورد في الأحادیث الصحیحۃ من الأمر بالسجود، والأصل في الأمر أن یکون للوجوب ومواظبۃ النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- وأصحابہ علی ذلک وفي معراج الدرایۃ، إنما جبر النقصان في باب الحج بالدم وفي باب الصلاۃ بالسجود لأن الأصل أن الجبر من جنس الکسر وللمال مدخل في باب الحج فیجبر نقصانہ بالدم ولا مدخل للمال في باب الصلاۃ فیجبر النقصان بالسجدۃ۔ اہـ۔ لکل سہو سجدتان بعد السلام۔وفي صحیح‘‘ في سنن أبي داؤد أنہ علیہ الصلاۃ السلام قال البخاري في باب التوجہ نحو القبلۃ حیث کان في حدیث قال فیہ: إذا شک أحدکم في صلاتہ فلیتحر الصواب فلیتم علیہ ثم لیسلم ثم لیسجد سجدتین فہذا تشریع عام قولي بعد السلام عن سہو الشک‘‘ والتحري ولا قائل بالفصل بینہ وبین تحقق الزیادۃ والنقص۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو: ص: ۴۶۰)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 212
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں اسی وقت اس نماز کا اعادہ کر لے اگر نہیں کر سکا اور وقت گزر گیا، تو قضاء واجب ہوگی۔(۱)
(۱) وإعادتہا بترکہ عمدا أي ما دام الوقت باقیا، وکذا في السہو إن لم یسجد لہ، وإن لم یعدہا حتی خرج الوقت تسقط مع النقصان وکراہۃ التحریم ویکون فاسقا آثما، وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم، والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولی لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ، ویندب إعادتہا لترک السنۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۲۴۷)(لہا واجبات) لا تفسد بترکہا، وتعاد وجوباً في العمد والسہو إن لم یسجد لہ، وإن لم یعدہا یکون فاسقا آثما، وکذا کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا۔ والمختار أنہ جابر للأول۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۶، ۱۴۷، ۱۴۸)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 211
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں مسبوق امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے، بلکہ بغیر سلام پھیرے امام کے ساتھ سجدہ سہو میں شریک ہو جائے اور اگر غلطی سے امام کے ساتھ مسبوق نے سلام پھیر دیا اور سجدہ سہو امام کے ساتھ کر لیا، تو اس غلطی سے مسبوق کی نماز میں کوئی فساد نہیں آئے گا اور نہ بعد میں مسبوق پر کوئی سجدہ سہو لازم آئے گا۔(۲)
(۲) والمسبوق یسجد مع إمامہ قید بالسجود؛ لأنہ لا یتابعہ في السلام؛ بل یسجد معہ ویتشہد، فإذا سلم الإمام قام إلیٰ القضا، فإن سلم فإن کان عامدا فسدت وإلا لا، ولا سجود علیہ إن سلم سہواً قبل الإمام أو معہ، وإن سلم بعدہ لزمہ لکونہ حینئذ منفرداً بحر، وأراد بالمعیۃ المقارنۃ وہو نادر الوقوع کما في شرح المنیۃ: وفیہا ولو سلم علی ظن أن علیہ أن یسلم فہو سلام عمد یمنع البناء۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷، ۵۴۶)ثم قال: فعلی ہذا یراد بالمعیۃ حقیقتہا، وہو نادر الوقوع قلت: بشیر إلیٰ أن الغالب لزوم السجود لأن الأ غلب عدم المعیۃ وہذا مما یغفل عنہ کثیر من الناس فلیتنبہ لہ۔ (أیضا: ’’باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۰)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 210
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر سجدہ سہو نہیں کیا، تو اعادہ ضروری ہوگا۔(۱)
(۱) وإعادتہا بترکہ عمداً أي ما دام الوقت باقیا، وکذا في السہو إن لم یسجد لہ، وإن لم یعدہا حتی خرج الوقت تسقط مع النقصان، وکراہہ التحریم، ویکون فاسقاً آثما، وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم، والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر، والفرض سقط بالاولیٰ؛ لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ، ویندب إعادتہا لترک السنۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۲۴۸)ولا یجب السجود إلا بترک واجب أو تاخیرہ، أو تاخیر رکن، أو تقدیمہ أو تکرارہ… … ولو أخر الفاتحۃ عن السورۃ فعلیہ السہو، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵، ۱۸۶)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 209
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر قعدہ اولی میں ’’اللہم صل علی محمد‘‘ تک پڑھ دیا، تو سجدہ سہو لازم ہوگا اور اگر اس سے کم پڑھا، تو سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) و کذا لو زاد علی التشہد الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم … یجب علیہ سجود السہو … بقولہ اللہم صلی علی محمد … وہو الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۷)ولا یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدۃ الأولی في الأربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدہا ولا یستفتح إذا قام إلی الثالثۃ منہا، وفي البواقي من ذوات الأربع یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: في لفظۃ ثمان‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۶، ۴۵۷)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 209
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر قعدہ اولیٰ ترک کرنے کا یقین ہو، تو سجدہ سہو کرنا ضروری ہے، کیوں کہ اس صورت میں واجب ترک ہو رہا ہے۔(۱)
(۱) ومن سہا عن القعدۃ الأولی ثم تذکر وہو إلی حالۃ القعود أقرب عاد، وقعد، وتشہد؛ لأن ما یقرب من الشيء یأخذ حکمہ ثم قیل: یسجد للسہو للتأخیر، والأصح أنہ لا یسجد، کما إذا لم یقم، ولو کان إلی القیام أقرب لم یعد لأنہ کالقائم معنیً، ویسجد للسہو لأنہ ترک الواجب۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹، مکتبہ ملت، دیوبند)(سہا عن القعود الأول من الفرض) ولو عملیا، أما النفل فیعود ما لم یقید بالسجدۃ (ثم تذکرہ عاد إلیہ) … (ما لم یستقم قائما) في ظاہر المذہب، وہو الأصح ’فتح‘ (وإلا) أي وإن استقام قائما (لا) یعود لاشتغالہ بفرض القیام، وسجد للسہو لترک الواجب، فلو عاد إلی القعود بعد ذلک تفسد صلاتہ لرفض الفرض۔ وصححہ الزیلعي: (وقیل: لا) تفسد لکنہ یکون مسیئاً ویسجد لتأخیر الواجب (وہو الأشبہ) کما حققہ الکمال وہو الحق بحر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷، ۵۴۸، ۵۴۹)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 208