نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2581/45-3946

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نوافل کی جماعت تداعی کے ساتھ مکروہ ہے، اور دولوگوں میں تداعی کا تحقق نہیں ہوتاہے، اس لئے  اوابین ، تہجد یا کسی اور نفل نماز میں ایک حافظ دوسرے کو جماعت میں قرآن سنائے  تاکہ قرآن پختہ ہوجائے اور رمضان میں تراویح پڑھانے میں سہولت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نجاست حقیقی سے پاک ہونے کو طہارت حقیقی کہتے ہیں اور نجاست حکمی سے پاک ہونے کو طہارت حکمی کہتے ہیں۔
’’عرّف صاحب البحر الطہارۃ شرعاً بأنہا زوال حدث أو خبث وہو تعریف صحیح لصدقہ بالوضوء وغیرہ کالغسل من الجنابۃ أو الحیض أو النفاس بل وبالتیمم  أیضاً‘‘(۱)
’’ویختص الخبث بالحقیقي ویختص الحدث بالحکمي‘‘(۲)
’’ثم الخبث یطلق علی الحقیقي والحدث علی الحکمي والنجس یطلق علیہما … والتطہیر إن فسرہا بالإزالۃ فحسن إضافۃ التطہیر إلیہا وإن فسر باثبات الطہارۃ فالمراد طہارۃ محلہا کالبدن والثوب والمکان لأن نجاسۃ ہٰذہ الأشیاء مجاورۃ النجاسۃ فإذا زالت ظہرت الطہارۃ الأصلیۃ‘‘(۳)
(۱) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’ کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۔…بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ پر…
…(۲) المرجع السابق، ’’باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ج ، ص: ۱۵۲۔
(۳)  بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس وتطہیرہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص60

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صاحب نور الایضاح نے اٹھارہ اشیا تحریر کی ہیں:
(۱) دونوں ہاتھوں کو مع کہنیوں کے دھونا۔
(۲) شروع میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا۔
(۳) ابتداء میں مسواک کرنا۔
(۴) تین دفعہ کلی کرنا۔
(۵) ناک میں پانی ڈالنا۔
(۶) کلی اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا، علاوہ روزہ دار کے۔
(۷) داڑھی کا خلال کرنا۔
(۸) انگلیوں کا خلال کرنا۔
(۹) ہر عضو کو تین تین بار دھونا۔
(۱۰) پورے سر کا ایک مرتبہ مسح کرنا۔
(۱۱) دونوں کانوں کا مسح کرنا۔
(۱۲) مَل کر دھونا۔
(۱۳) پے در پے وضو کرنا یعنی پہلا عضو خشک ہونے سے پہلے دوسرا شروع کر دینا۔
(۱۴) وضو کی نیت کرنا۔
(۱۵) اعضاء وضو کو دھونے میں ترتیب قائم رکھنا، جیسا کہ کلام پاک میں ہے۔
(۱۶) دائیں جانب سے شروع کرنا۔
(۱۷) مسح میں سر کے سامنے سے شروع کرنا
(۱۸) گردن کا مسح کرنا۔
’’یسن في الوضوء ثمانیۃ عشر شیئاً غسل الیدین … إلی قولہ مسح الرقبہ لا الحلقوم‘‘(۱)

(۱) الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل یسن في الوضوء‘‘: ص: ۳۴۔ و ہکذا في المراقي مع حاشیۃ الطحطاوي: ’’کتاب الطہارۃ: فصل في سنن الوضوء‘‘: ج ، ص: ۶۴، یا ۷۴۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص170

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :ایسا شخص آنکھ کے علاوہ چہرہ کے دیگر حصہ کو دھوئے گا یا تر ہاتھ اس طرح پھیرے گا کہ چہرہ پر پانی بہنے لگے؛ البتہ آنکھ پر اگر ممکن ہو، تو مسح کرلے اور اگر مسح باعث تکلیف ہو، تو مسح بھی ترک کردے ’’و إذا رمد و أمر أن لایغسل عینہ۔۔۔جاز لہ المسح و إن ضرہ المسح ترکہ‘‘ (۱)

(۱) الشرنبلالي، نورالإیضاح،  ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، فصل إذا افتصد أو جرح،‘‘ ج۱،ص:۴۷، و إذا رمد و أمر أي أمرہ طبیب مسلم حاذق أن لا یغسل عینہ أو غلب علی ظنہ ضرر الغسل ترکہ۔ (طحطاوي،حاشیۃ الطحطاوی، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الجبیرۃ و نحوہا،‘‘ج۱، ص:۱۳۷)؛ و فاعلم أنہ لا خلاف في أنہ إذا کان المسح علی الجبیرۃ یضرہ أنہ یسقط عنہ المسح لأن الغسل یسقط بالعذر فالمسح أولی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۳۲۱، دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص271

نماز / جمعہ و عیدین
ٹی وی دیکھنے والے کی امامت: (۱۱۷)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک مسجد کا مؤذن ہے جو وقتاً فوقتاً امامت بھی کرتا ہے اور ٹی وی بھی دیکھتا ہے۔ یعنی فلم تو نہیں دیکھتا لیکن ٹی وی میں صرف کھیل دیکھتا ہے۔ مذکورہ بالا شخص اذان اور نماز کے فرائض انجام دے سکتا ہے یا نہیں؟ فقط: والسلام المستفتی: محمد شفیق، قنوج

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں نماز ادا ہوجاتی ہے لیکن اگر لوگوں کا اس پر اصرار نہ ہو تو کسی غیر معذور شخص کو امام بنا لینا چاہئے۔(۱)
(۲) امام بنانا درست ہے ۔
(۳) اس مضمون کی روایات مشکوٰۃ شریف میں موجود ہیں ص ۱۰۱، ۱۰۲۔ مطالعہ کرلیا جائے۔(۲)

(۱) صح اقتداء قائم بقاعد یرکع ویسجد۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، زکریا دیوبند)
(۲) وقید القاعد یکون یرکع ویسجد لأنہ لو کان مومیا لم یجز اتفاقاً۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص239

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت کے ساتھ نماز کسی بھی پاک جگہ میں پڑھی جاسکتی ہے ،اس کا خیال رکھنا ضرروی ہے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو ، عیدگاہ میں عارضی مصلی بنایا جاسکتا ہے اور گرمی اور دھوپ سے حفاظت کے لیے ٹین بھی ڈالی جاسکتی ہے اس سے وہاں کے لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی سہولت ہوجائے گی اور عیدگاہ میں نماز پرھنے والوں کا کوئی نقصان نہیں ہے؛ اس لیے کہ عید کی نماز اس مصلی میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر قبرستان پرانا ہوجائے اور وہاں پر مُردوں کو دفن کرنے کی ضرورت باقی نہ رہ جائے تو اس کو مسجد بنایا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ قبرستان بھی مسلمانوں کے لیے وقف ہے اور مسجد بھی مسلمانوں کے لیے وقف ہوتی ہے ۔اس لیے عیدگاہ کمیٹی کی اجازت سے وہاں پر عارضی مصلی بنایا جاسکتا ہے اور باہمی مشورہ سے اسے مستقل مسجد بھی بنایا جا سکتا ہے تاکہ وہاں نماز پڑھنے والوں کو شرعی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب مل جائے۔
’’لو أن مقبرۃ من مقابر المسلمین عفت فبنی قوم علیہا مسجدا لم أربذلک بأسا و ذلک لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاہم لا یجوز لأحد أن یملکہا فإذا  درست و استغنی عن الدفن فیہا جاز صرفہا إلی المساجد لأن المساجد أیضاً  وقف من اوقاف المسلمین‘‘(۱)

(۱) العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في مربض الغنم‘‘: ج ۴، ص: ۱۷۹)
الثامنۃ في وقف المسجد أیجوز أن یبنی من غلتہ منارۃ قال في الخانیۃ: معزیا إلی أبي بکر البلخي إن کان ذلک من مصلحۃ المسجد بأن کان أسمع لہم فلا بأس بہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف، باب وقف المسجد أیجوز أن یبنی من غلتہ منارۃ‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۳)
عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ-  قال: لما قدم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ، فقال: یا بنی نجار ثامنوني بحائطکم ہذا، قالوا: لا واللّٰہ لا نطلب ثمنہ إلا إلی اللّٰہ فقال أنس: فکان فیہ ما أقول لکم قبور المشرکین، وفیہ خرب و فیہ نخل، فأمر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بقبور المشرکین، فنبشت، ثم بالخرب فسویت، وبالنخل فقطع، فصفوا النخل قبلۃ المسجد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ہل تنبش قبور مشرکي الجاہلیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۳، رقم: ۴۲۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص350

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثناء کے بعد سورۃ فاتحہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا ضروری (واجب) نہیں ہے۔ ’’بسم اللّٰہ‘‘ کی شرعی حیثیت کے متعلق فقہاء نے لکھا ہے کہ سورۃ فاتحہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت ہے۔
اور سورۃ فاتحہ کے بعد اور ضم سورہ سے قبل ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنے کو فقہاء نے بہتر اور مستحسن لکھا ہے؛ اس لیے اگر کسی سے ’’بسم اللّٰہ‘‘ چھوٹ جائے تو نماز درست ہو جاتی ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفتتح صلاتہ‘‘ (بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم)(۱)
’’قولہ (وما صححہ الزاہدي من وجوبہا) یعني في أول الفاتحۃ وقد صححہ الزیلعي أیضا۔
قولہ (ضعفہ في البحر … من أنہا سنۃ لا واجب فلا یجب بترکہا شيء۔
قال في النہر والحق أنہما قولان مرجحان إلا أن المتون علی الأول۔ أہـ أقول أي إن الأول مرجح من حیث الروایۃ، والثاني: من حیث الدرایۃ‘‘(۲)
’’(ثم یسمی سرا) کما تقدم (ویسمی) کل من یقرأ في صلاتہ (في کل رکعۃ) سواء صلی فرضا أو نفلا (قبل الفاتحۃ) بأن یقول ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ وأما في الوضوء والذبیحۃ فلا یتقید بخصوص البسملۃ بل کل ذکر لہ یکفي (فقط) فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقا للسورۃ سواء جہر أو خافت بالسورۃ وغلط من قال لایسمی إلا في الرکعۃ الأولی‘‘(۱)
’’فائدۃ یسن لمن قرأ سورۃ تامۃ أن یتعوذ ویسمی قبلہا واختلف فیما إذا قرأ آیۃ والأکثر علی أنہ یتعوذ فقط ذکرہ المؤلف في شرحہ من باب الجمعۃ ثم أعلم أنہ لا فرق في الإتیان بالبسملۃ بین الصلاۃ الجہریۃ والسریۃ وفي حاشیۃ المؤلف علی الدرر واتفقوا علی عدم الکراہۃ في ذکرہا بین الفاتحۃ والسورۃ بل ہو حسن سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جہریۃ‘‘(۲)
’’إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ کان حسناً عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ‘‘(۳)

(۱) أخرجہ الترمذي، فيسننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب: من رأی الجہر ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘: ج ۲، ص: ۱۴، رقم: ۲۴۵۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۳۔
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننہا‘‘: ج ۱، ص:۲۶۰۔
(۳) ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل إذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص392

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 886 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کمیٹی میں کسی کو کم یا زیادہ رقم نہ ملے بلکہ صرف یہ مقصود ہو کہ ہر ایک کو اکٹھی رقم مل جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Adornment & Hijab

Ref. No. 1264

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Your dream indicates that you will have special mercy and help from Allah soon insha Allah. You have to guard strictly your daily prayers and take care to worship.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband