اسلامی عقائد

Ref. No. 2038/44-2013

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو مچھلیاں خارجی سبب سے مرتی ہیں، جیسے پانی سے باہر نکالنے کی وجہ سے مرجائیں تو وہ حلال ہیں۔ اور جو مچھلیاں پانی میں خود طبعی موت مرجائیں وہ احناف کے نزدیک حلال نہیں ہیں۔ مچھلی میں رگوں کا خون نہیں ہوتاہے جو ناپاک ہے، اس لئے ذبح کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔

ماالقی البحر او جزر عنہ فکلوہ ومامات فیہ و طفا فلاتاکلوہ (سنن ابی داؤد الرقم 3815 باب فی اکل الطافی من السمک)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2237/44-2372

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خیال رہے کہ وسوسے عمومًا شیطانی اثرات سے پیش آتے ہیں، شیطان مومن کو مختلف شکوک وشبہات میں مبتلا کرتاہے، آپ ان وساوس سے جو کہ غیراختیاری ہیں پریشان نہ ہوں، بلکہ جب کوئی وسوسہ آئے تو اس کو جگہ نہ دیں بلکہ فورا اس کو ہٹاکر ذکر اللہ میں مشغول ہوجائیں۔جہاں پر ایمان کی دولت ہو، شیطان کا حملہ بھی وہیں ہوتاہے، اس لئے اس طرح وساوس کے آنے کو حدیث میں ایمان کی علامت قرار دیاگیاہے۔ لہذا وسوسہ آنے پر اس کی طرف بالکل دھیان نہ دیں، اور نہ اس کے مقتضی پر عمل کریں، اور نہ ہی لوگوں کے سامنے اس کا اظہار کریں۔ نمازوں کی ان کےتمام آداب کے ساتھ وقت پر باجماعت ادائیگی، ذکراللہ  اور درود شریف کی کثرت، ہر عمل میں سنت کی پیروی، اور قرآن کی صبح و شام تلاوت، اور مراقبہ اور محاسبہ جیسے امور محبت الہی اور اتباع رسول ﷺ کی کلیدی  اساس ہیں۔

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: «أو قد وجدتموه» قالوا: نعم. قال: «ذاك صريح الإيمان» . رواه مسلم

(کتاب الایمان، باب الوسوسة، رقم الحدیث:64، ج:1، ص:26، ط: المکتب الاسلامی)

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يأتي الشيطان أحدكم فيقول: من خلق كذا؟ من خلق كذا؟ حتى يقول: من خلق ربك؟ فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته "

(کتاب الایمان، باب الوسوسۃ، رقم الحدیث:65، ج:1، ص:26، ط:المکتب الاسلامی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:لفظ ’’یا‘‘ اس کے لئے استعمال ہوتا ہے جو سامنے موجود ہو اسی لئے روضۂ اطہر پر اس کا استعمال درست ہے کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور جہاں موجود نہیں وہاں لفظ ’’یا‘‘ کا استعمال درست نہیں ہے جو لوگ ہر جگہ لفظ ’’یا‘‘ سے پکارتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرجگہ موجود مانتے ہیں جب کہ یہ درست نہیں ہے ہر جگہ موجود ہونا صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔(۱)

۱) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی علی عند قبري سمعتہ ومن صلی عليّ نائیا أ بلغتہ۔ (رواہ  البیہقي في شعب الإیمان، (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الفصل الثالث‘‘: ج ۳، ص: ۱۷، رقم: ۹۳۴)
وعن ابن مسعود قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (إن للّٰہ ملائکۃً سیاحین في الأرض یبلغوني من أمتي السلام)۔ رواہ النسائي والدارمي، (أیضاً: الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص: ۹، رقم: ۹۲۴)
حیاۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبرہ ہو وسائر الأنبیاء معلومۃ عندنا علما قطعیاً لما قام عندنا من الأدلّۃ في ذلکوتواترت ]بہ[ الأخبار، وقد ألف البیہقی جزء اً في حیاۃ الأنبیاء في قبورہم، فمن الأخبار الدّالۃ وعلی ذلک ما أخرجہ مسلم عن أنس: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیلۃ أسري بہ مر بموسیٰ علیہ السلام وہو یصلي في قبرہ۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، الحاوي للفتاوی: ج۲، ص: ۱۷۸)
عن عمرو بن شرجیل رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال عبد اللّٰہ: قال رجل: یا رسول اللّٰہ أي الذنب أکبر عند اللّٰہ؟ قال: أن تدعوا للّٰہ ندا وہو خلقک۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان، باب بیان کون الشرک أقبح الذنوب‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۸۳)
ویکفر بقولہ: أرواح المشائخ حاضرۃ تعلم۔ (إبراہیم بن محمد، مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۵)
وعلی ما ذکرنا یکون الواقف مستقبلاً وجہہ -علیہ الصلاۃ والسلام- وبصرہ فیکون أولیٰ، ثم یقول في موقفہ: السلام علیک یا رسول اللّٰہ إلخ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج: مسائل منثورۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص217

فقہ

Ref. No. 2675/45-4134

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موقوفہ زمین کو بیچنا یا اس کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہوتاہے، اس لئے اس کو حتی الامکان بچانے کی کوشش ہونی چاہئے، قانونی کارروائی کے ساتھ اس کا تحفظ ہوسکے تو ایسا کرلیا جائے اور اس میں تالا لگاکر اس کو بند کردیاجائے۔  اور اگر وقف کی زمین کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے اور اس کا تحفظ کسی طرح ممکن نہیں ہے  تو ایسی صورت میں اس کو بیچ کر کسی دوسری جگہ منتقل کیاجاسکتاہے۔

" إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته " ۔ (الفقه الاسلامی وادلته ۱۰/۷۶۱۷ ، الباب الخامس الوقف ، الفصل الثالث حکم الوقف)

"سئل شمس الأئمة الحلواني عن مسجد أو حوض خرب لايحتاج إليه لتفرق الناس هل للقاضي أن يصرف أوقافه إلى مسجد آخر أو حوض آخر؟ قال: نعم (الھندیۃ،الباب الثالث، 2/478 ط: بيروت)

"ولا سيما في زماننا فإن المسجد أو غيره من رباط أو حوض إذا لم ينقل يأخذ أنقاضه اللصوص والمتغلبون كما هو مشاهد وكذلك أوقافه يأكلها النظار أو غيرهم، ويلزم من عدم النقل خراب المسجد الآخر المحتاج إلى النقل إليه (رد المحتار، 4/360، ط: سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کئی بار تجربہ اس بات کا ہو چکا ہے کہ گرم پانی سے مرض بڑھ جاتا ہے،تو ایسی حالت میں غسل یا وضو کے لیے تیمم کیا جا سکتا ہے۔
یہ جب ہے کہ جب کہ ٹھنڈے پانی سے بھی مرض بڑھ جاتا ہو اگر ایسا نہیں ہے، تو ٹھنڈے پانی سے غسل ووضو کرے۔
در مختار میں ہے:
’’من عجز عن استعمال الماء لبعدہ میلاً أو لمرض یشتد بغبلۃالظن أو قول حاذق مسلم … تیمم لہذہ الأعذار کلہا۔‘‘(۱)
بدائع الصنائع میں ہے:
’’ولنا قولہ تعالیٰ: {وإن کنتم مرضیٰ أو علیٰ سفر … إلی قولہ … فتیمموا صعیداً طیباً} أباح التیمم للمریض مطلقاً من غیر فصل بین مرض ومرض إلا أن المرض الذي لا یضر معہ استعمال الماء لیس بمراد فبقی المرض الذي یضر معہ
استعمال الماء مراداً بالنص‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۳۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: باب شرائط التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص366

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا ظلم ہے، مذکورہ شخص فاسق ہے اس کی امامت واقتداء مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق، من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في السمجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، زکریا دیوبند)
بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص154

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت میں شریک ہونے کے لیے مسجد کی طرف دوڑنے کی ممانعت حدیث مبارک میں موجود ہے۔ جماعت میں شرکت کے لیے سکون وقار سے چلنا چاہئے خواہ رکعت نکلنے کا اندیشہ ہو۔(۲)

(۲) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: إذا کان أحدکم مقبلا إلی الصلاۃ فلیمش علی رسلہ فإنہ في صلاۃ فما أدرک فلیصل وما فاتہ فلیقض۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاری، ’’کتاب الأذان، باب قول الرجل فاتتنا الصلاۃ‘‘: ج۵، ص: ۱۵۰، رقم:۶۳۵)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص361

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مؤذن نیک اور دیندار، متبع سنت اور اذان کے طریقے سے واقف اور بلند آواز ہونا چاہئے؛ کیوں کہ مؤذن اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی اور کامیابی کے لیے پکارنے والا ہے پس مؤذن جتنا دیندار ہوگا اس کا اچھا اثر لوگوں پر ہوگا۔(۴)

(۴) ویستحب أن یکون المؤذن صالحاً، أي متقیا لأنہ أمین في الدین عالماً بالسنۃ في الأذان وعالماً بدخول أوقات الصلاۃ لتصحیح العبادۃ۔ (أحمد بن اسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷، شیخ الہند، دیوبند)
ثم اعلم أنہ ذکر في الحاوي القدسي من سنن المؤذن: کونہ رجلاً عاقلاً صالحاً عالماً بالسنن والأوقات مواظباً علیہ محتسباً ثقۃ متطہراً مستقبلاً۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ، ج ۲، ص: ۶۲، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص125

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس مریض کو پیشاب کی تھیلی لگی ہوئی ہے، وہ شرعاً معذور ہے، اس کے لیے اس حال میں نماز پڑھنا جائز ہے، نماز معاف نہیں ہے، لیکن وہ تھیلی کے ساتھ مسجد میں داخل نہ ہو، بلکہ گھر میں تنہا نماز ادا کرے۔
’’قولہ: وإدخال نجاسۃ فیہ یخاف منہا التلویث ومفادہ الجواز لو جافۃ، لکن في الفتاویٰ الہندیۃ لا یدخل المسجد من علی بدنہ نجاسۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۷۔
وکذا مریض لا یبسط ثوباً إلا تنجس قولاً لہ ترکہ والمعذور إنما تبقي طہارتہ في الوقت۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض: مطلب في أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)
مریض تحتہ ثیاب نجسۃ إن کان بحال لا یبسط شيء إلا وینجس من ساعتہ یصلي علی حالہ وکذا إذا لم ینتجس الثاني، لکن یلحقہ زیادۃ مشقۃ بالتحویل۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص257

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثنا کے بعد پہلی رکعت میں قرأت نہ کرنے کی وجہ سے فرض ترک ہوا ہے؛ اس لیے پہلی رکعت باطل ہوگئی اور پہلی رکعت باطل ہونے کی بنا پر پور ی نماز میں فساد آ گیا اس لیے نماز کا لوٹانا واجب ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے {فاقرء وا ما تیسر من القرآن}(۱) اس آیت سے نفس قرأت کی فرضیت معلوم ہوتی ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا حکم دیا گیا ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ’’أمرنا نبینا أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۲)
اس حدیث پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ سورۃ الفاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم سے میسر آئے اسے پڑھا کریں، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے ’’لا صلاۃ إلا بقراء ۃ‘‘(۳)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’ومنہا القرائۃ وفرضہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ، کذا في المحیط‘‘(۱)
مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ترکِ فرض ( قرأت) کی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے سجدہ سہو کرنے سے بھی نماز درست نہیں ہوگی۔

(۱) سورۃ المزمل:۲۰۔
(۲) أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب تفریع استفتاح الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۸۱۸۔
(۳) أخرجہ مسلم ، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ في کل رکعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۷، رقم: ۳۹۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ ومنہا: القرائۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص202