Frequently Asked Questions
Business & employment
Ref. No. 38 / 1193
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Their income is not Haram. Some of their acts maybe non Islamic, but this will not make their whole income haram.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 40/1099
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، حقوق متقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد کل ترکہ کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے۔ مرحوم کی بیوی کو64 میں سے آٹھ حصے، ہر ایک بیٹی کو سات سات، اور ہر ایک بیٹے کو چودہ چودہ حصے ملیں گے۔ لہذا بارہ لاکھ میں سےمرحوم کی بیوی کو ایک لاکھ پچاس ہزار (150000) ملیں گے، ہر ایک بیٹی کو ایک لاکھ اکتیس ہزار دو سو پچاس (131250) ملیں گے، اور ہر ایک بیٹے کو دو لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو روپئے (262500) ملیں گے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1325/42-708
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقف قبرستان کے بیچ سے عام راستہ نکالنا درست نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ قبریں نئی ہیں تو ان کو مسمار کرنا اور ان کو بلاوجہ شرعی زمین بوس کرکے برابر کردینا جائز نہیں ہے۔ البتہ جنازہ دوسری طرف لیجانے کے لئے اگر راستہ نہ ہوتو مردے کو قبرتک پہنچانے کےلیے بقدر ضرورت عارضی راستہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن خیال رہے کہ یہ عام راستہ نہیں ہوسکتاہے اور ضرورپڑنے پر تدفین کے کام میں اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ولو وجد طريقاً في المقبرة وهو يظن أنه طريق أحدثوا لا يمشي في ذلك وإن لم يقع ذلك في ضميره لا بأس بأن يمشي فيه (فتاوى قاضيخان (1/ 95) وفی السراج :فان لم یکن لہ طریق الاعلی القبر،جاز لہ المشی علیہ للضرورۃ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ص:620)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1728/43-1444
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موبائل پر لڑکا و لڑکی ایجاب وقبول کریں ، اس طرح نکاح درست نہیں ہوتاہے، لیکن پھر معلوم ہونے کے بعد جب آپ نے وکیل مقرر کیا اور دوگواہوں کی موجودگی میں وکیل نے لڑکی یا لڑکے کی جانب سے مجلس نکاح میں نکاح کو قبول کرلیا تو اب نکاح صحیح ہوگیااور لڑکا ولڑکی میں میاں بیوی کا رشتہ قائم ہوگیا۔ نکاح کے لئے ایک ہی مجلس میں دوگواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کا ہونا ضروری ہے، خواہ لڑکا ولڑکی خود موجود ہوں یا ان کا وکیل موجود ہو۔
قال: " النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي " - - - لأن هذا توكيل بالنكاح والواحد يتولى طرفي النكاح على ما نبينه إن شاء الله تعالى " - - - قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود - - - قال: " ومن أمر رجلا بأن يزوج ابنته الصغيرة فزوجها والأب حاضر بشهادة رجل واحد سواهما جاز النكاح " لأن الأب يجعل مباشرا للعقد لاتحاد المجلس فيكون الوكيل سفيرا أو معبرا فيبقى المزوج شاهدا " وإن كان الأب غائبا لم يجز " لأن المجلس مختلف فلا يمكن أن يجعل الأب مباشرا (الھدایۃ 2/305-307 مکتبہ ملت دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1932/43-1832
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استاذ کی فیس آپ پر قرض ہے، جہاں آپ پہلے رہتے تھے، وہاں کسی دوسرے کا نمبر اگر ہو تو ان سے استاذ جی کا پتہ معلوم کرسکتے ہیں۔ اگر آپ نے ہر طرح کوشش کرلی مگر ان تک رسائی نہ ہوسکی اور کوئی سراغ نہ مل سکا تو اب ان کی جانب سے وہ پیسے غریبوں پر صدقہ کردیں کہ ان پیسوں کا ثواب ان تک پہونچ جائے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ بعد میں جب کبھی بھی ان کے بارے میں پتہ لگ جائے، اور ان تک رسائی حاصل ہوجائے اور وہ صدقہ منظور نہ کرکے فیس کا مطالبہ کریں تو ان کی فیس ان کو ادا کرنی لازم ہوگی۔ اور پہلے جو کچھ آپ نے دیا وہ آپ کی طرف سے صدقہ ہوجائے گا۔
قال فی الدر: وعرف أي نادیٰ علیہا حیث وجدہا وفي المجامع الیٰ أن علم أن صاحبہا لا یطلبہا قال الشامی لم یجعل للتعریف مدة اتباعاً للسرخسي فإنہ بنی الحکم علی غالب الرأي، فیعرف القلیل والکثیر إلي أن یغلب علی رأیہ أن صاحبہ لا یطلبہ صححہ في الہدایة وفي المضمرات والجوہرة وعلیہ الفتویٰ،( ج: ۶/۴۳۶، الدر مع الرد )
فإن جاء صاحبھا وإلا تصدق بھا ، ایصالا للحق إلی المستحق وھو واجب بقدر الإمکان … فإن جاء صاحبھا یعنی بعد ما تصدق بھا ، فھو بالخیار إن شاء أمضی الصدقۃ ولہ ثوابھا؛لأن التصدق وإن حصل بإذن الشرع لم یحصل بإذنہ فیتوقف علی اجازتہ۔( الہدایہ: ۲؍۲۱۸)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2027/44-1992
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ افنان (الف کے ساتھ) کے معنی ہیں 'شاخ'۔ قرآن میں سورۃ رحمن میں یہ لفظ آیاہے۔ عفنان (عین کے ساتھ) یہ لفظ ہمیں کہیں نہیں ملا۔ غفران (غین کے ساتھ) اس کے معنی ہیں معاف کرنے والا، یہ نام رکھاجاسکتاہے، البتہ 'عفران' (عین کے ساتھ) کسی لغت میں یہ لفظ ہمیں نہیں ملا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2582/45-3948
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ بچہ کے لئے بھی دعاء مغفرت کرنا جائز ہے، کیونکہ دعاء کا ایک ہی فائدہ نہیں بلکہ ہرشخص کو اس کے مناسب احوال اس کا فائدہ پہونچتاہے، چنانچہ بچے کو اگر چہ مغفرت کی دعا کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بچہ کے لیے دعا کرنے سے بچہ کو بھی درجات کی بلندی کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
"(ولا يستغفر فيها لصبي ومجنون) ومعتوه لعدم تكليفهم (بل يقول بعد دعاء البالغين: اللهم اجعله لنا فرطا) بفتحتين: أي سابقا إلى الحوض ليهيئ الماء، وهو دعاء له أيضا بتقدمه في الخير، لا سيما، وقد قالوا: حسنات الصبي له لا لأبويه بل لهما ثواب التعليم.
(قوله: وهو دعاء له) أي للصبي أيضا: أي كما هو دعاء لوالديه وللمصلين لأنه لا يهيئ الماء لدفع الظمأ أو مصالح والديه في دار القرار إلا إذا كان متقدما في الخير، وهو جواب عن سؤال، حاصله أن هذا دعاء للأحياء، ولا نفع للميت فيه ط (قوله لا سيما وقد قالوا إلخ) حاصله أنه إذا كانت حسناته: أي ثوابها له يكون أهلا للجزاء والثواب، فناسب أن يكون ذلك دعاء له أيضا لينتفع به يوم الجزاء". (فتاوی شامی، باب صلاۃ الجنازۃ،ج:2،ص:215،سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
اشیاء کی پاکی کے تقریباً دس طریقے ہیں:
(۱) دھونا، جیسے کپڑے وغیرہ کو دھو کر پاک کیا جاتا ہے۔
(۲) صاف کر دینا، جیسے شیشے وغیرہ کو صاف کر کے پاک کیا جاتا ہے۔
(۳) کھرچنا، یہ طریقہ منی سے پاک کرنے کے سلسلے میں مذکور ہے اگر بہت گاڑھی ہو۔(۴) ملنا اور رگڑنا یہ طریقہ اس صورت کے لئے ہے جب نجاست خشک ہونے کے بعد نظر آتی ہو۔
(۵) سوکھ جانا، یہ حکم زمین سے متعلق ہے جیسے دیواریں اینٹیں وغیرہ۔
(۶) جلانا، جیسے گوبر وغیرہ راکھ بن کر پاک ہو جاتا ہے۔
(۷) تبدیل حقیقت، یعنی ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہو جانا جیسے شراب کا سرکہ بن جانا۔
(۸) دباغت: یہ طریقہ خنزیر اور آدمی کے علاوہ تمام مردار جانوروں کی کھالوں کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔
(۹) ذکاۃ: یعنی جانوروں کو ذبح کر کے ان کی جلد کو پاک کر دینا۔
(۱۰) نزح: یعنی اگر کنویں یا ٹنکی میں نجاست گر جائے تو نجاست نکال کر پانی کی خاص مقدار نکال کر پاک کرنا۔
مذکورہ دس طریقے علامہ شامیؒ اور علامہ حصکفیؒ نے اپنی اپنی کتابوں میں کچھ اشعار میں نقل کئے ہیں:
علامہ شامیؒ نقل فرماتے ہیں:
وآخر دون الفرک والندف الجفاف
والنحت قلب العین والغسل یطہر
ولا دبغ تخلیل ذکاۃ تخلل
ولا المسح والنزح الدخول التغور
وزاد شارحہا بیتاً، فقال:
وأکل وقسم غسل بعض ونحلہ
وندف وغلی بیع بعض تقور‘‘(۱)
علامہ حصکفیؒ اس طرح فرماتے ہیں:
وغسل ومسح والجفاف مطہِّر
ونحت وقلب العین والحفر یذکر
ودبغ وتخلیل ذکاۃ تخلل
وفرک ودلک والدخول التغور
تصرفہ في البعض ندف ونزحہا
ونار وغلی غسل بعض تقور‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۸۔
(۲) أیضاً۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص61
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صاحب نور الایضاح نے مکروہات وضو کی تعداد چھ بیان کی ہے:
(۱) اسراف یعنی ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنا۔
(۲) کمی کرنا، یعنی اس قدر کم پانی استعمال کرنا کہ اعضاء وضو کے دھلنے میں کمی رہ جائے۔
(۳) پانی کو چہرے پر مارنا یعنی وضو کرتے ہوئے پانی کو چہرے پر زور زور سے مارنا۔
(۴) وضو کرتے وقت دنیاوی باتیں کرنا۔
(۵) بغیر عذر وضو میں دوسرے سے مدد لینا۔
(۶) نئے پانی سے تین بار مسح کرنا۔
’’ویکرہ للمتوضي ستۃ أشیاء الإسراف في الماء والتقتیر فیہ وضرب الوجہ بہ والتکلم بکلام الناس والاستعانۃ بغیرہ من غیر عذر وتثلیث المسح بماء جدید‘‘(۱)
(۱) الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۶۔
ہکذا في المراقي مع حاشیۃ الطحطاوي: ’’کتاب الطہارۃ: فصل في المکروہات‘‘: ج ، ص: ۸۰، یا ۸۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص171
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :بالوںکی افزائش کے بعد وضو اور غسل کے احکام میں یہ پہلو قابل غور ہوگا کہ بالوں کی افزائش کس طرح کی گئی ہے: اگر سرجری کے طور پر بالوںکو اگایا گیا ہے، یا مستقل طو رپر بالوںکو چسپاں کیا گیا ہے، تو ظاہر ہے: یہ ایک مستقل عضو کے حکم میں ہوگا اور جو احکام فطری بالوں کے ہوتے ہیں وہی احکام یہاں پر بھی جاری ہوں گے، ان بالوں پر مسح کے لیے یا غسل کے لیے ان کا نکالنا ضروری نہیں ہوگا اور اگر بالوں کو مستقل طور پر چسپاں نہیں کیا گیا؛ بلکہ عارضی طور پر لگایا گیا کہ لگانے والا یا لگانے والی عورت جب چاہے اپنی مرضی سے بلا مشقت کے نکال لے اور جب چاہے ان کو لگالے، تو ان کا حکم خارجی شے کا ہوگا اور ان پر وضو میںمسح کرنے یا غسل کرنے سے فرض ادا نہیں ہوگا؛ بلکہ وضو میں مسح کے لیے یا غسل فرض کے لیے ان کو نکالنا لازم و ضروری ہوگا، یہ ایسے ہی ہے؛ جیسے کہ دانت کے مسئلہ میں حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر دانت کو نکالنا آسان ہو، تو غسل میں اس کا نکالنا ضروری ہوگا اور اگر دانت کا نکالنا آسان نہ ہو، تو اس کو مستقل عضو قراردیا جائے گا۔فتاوی حبیبیہ میں حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں :
وِگ (مصنوعی بال) پر مسح کرنا جائز نہیں ہے، ان پر مسح درست نہیں ہوگا، وگ اتار کر مسح کرنا ضروری ہے، وگ کا استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہے، اس کے سرپر لگانے سے احتراز کرنا چاہیے، اگر کسی نے وگ کے اوپر مسح کیا، تو ا س کا وضو صحیح نہ ہوگا اور نماز بھی صحیح نہ ہوگی ۔ (۱)
’’ولا یجوز المسح علی القلنسوۃ و العمامۃ‘‘ (۲)
(۱)مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی، فتاویٰ حبیبیہ، فرائض وضو، ج۱، ص: ۹۴
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الرابع مسح الراس،‘‘ ج۱، ص: ۵۶)؛ و (لا یصح المسح) علی عمامۃ و قلنسوۃ و برقع و قفازین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، باب المسح علی الخفین، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۳۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص272