نماز / جمعہ و عیدین
والدین کی اطاعت نہ کرنے والے کی امامت: (۱۱۸)سوال:عبادت نافلہ بہتر ہے یا اطاعت والدین اور جو شخص اپنے والدین کی اطاعت نہ کرے وہ فاسق ہے یا نہیں؟ اور ایسے شخص کی امامت کا کیا حکم ہے؟ فقط: والسلام المستفتی: آفاق احمد ،میرٹھ

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جو عالم قرآن کریم کو صحیح پڑھتے ہیں اور نماز کے لیے جس قدر حفظ کی ضرورت ہے اتنا قرآن ان کو یاد ہے تو وہ قاری بھی ہوئے اور اعلم بالسنہ بھی ہوئے جو شخص عالم نہیں ہے؛ بلکہ صرف حافظ ہے وہ صرف قاری ہے اعلم بالسنۃ نہیں ہے اس لیے عالم مقدم ہے الا یہ کہ حافظ امام متعین ہو۔(۱)
’’الأولیٰ بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلوٰۃ ہکذا في المضمرات … ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ما تقوم بہ سنۃ القراء ۃ، ہکذا في التبیین … فإن تساووا فأقرؤہم أي أعلمہم بعلم القراء ۃ‘‘(۲)

(۱) والأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصباً الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفساداً … وحفظہ قدر فرض وقیل واجب وقیل سنۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ‘‘ (ابن عابدین، ردالمحتار، …’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص240

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بچوں کو نماز کی تربیت دینا درست ہے اور نیچے جو جماعت ہورہی ہے وہی مستقل جماعت ہے، جماعت ثانیہ نہیں ہے، ہاں! تربیت کے لیے ایسا کیا جائے کہ اوپر ہونے والی بچوں کی جماعت میں صرف نابالع بچے شریک ہوں اور ان کا امام بھی نابالغ ہو، تو اس طرح پہلی جماعت نفل ہوگی اور دوسری جماعت اصل ہوگی اور اگر بالغ بچے پڑھانے والے ہوں اور پڑھنے والے بھی چند بالغ ہوں گے، تو ایسی صورت میں پہلی جماعت فرض ہوجائے گی، تو دوسری جماعت، جماعت ثانیہ کہلائے گی۔(۱)

(۱) عن أبي بکر أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أقبل من نواحي المدینۃ یرید الصلاۃ فوجد الناس قد صلوا فمال إلي منزلہ فجمع أہلہ فصلی بہم۔ (المعجم الأوسط للطبراني، ’’باب من اسمہ: عبدان‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۴۶۰۱)(شاملہ)
ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن (قولہ ویکرہ) أي تحریما لقول الکافي لا یجوز والمجمع لا یباح وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي (قولہ بأذان وإقامۃ إلخ) ۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص352

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: رکوع و سجدہ میں کم از کم تین مرتبہ تسبیح پڑھنا مسنون ہے، ایک مرتبہ پڑھنے سے بھی رکوع اور سجدہ ادا ہو جاتا ہے اور اگر نہ بھی پڑھے تب بھی رکوع وسجدہ ادا ہو جائے گا اور وہ رکعت میں شامل ہونے والا کہلائے گا؛ البتہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی رکوع کرے اور اپنے رکوع میں تین مرتبہ ’’سبحان ربي العظیم‘‘ کہے اور جب سجدہ کرے تو تین مرتبہ ’’سبحان ربي الأعلی‘‘ کہے تو اس کا رکوع پورا ہو گیا اور یہ ادنیٰ درجہ ہے۔ جیسا کہ ابوداؤد شریف کی روایت ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا رکع أحدکم فلیقل ثلاث مرات: سبحان ربي العظیم، وذلک أدناہ، وإذا سجد فلیقل: سبحان ربي الأعلی ثلاثا، وذلک أدناہ‘‘(۱)
’’ویقول في رکوعہ سبحان ربي العظیم ثلاثا وذلک أدناہ فلوترک التسبیح أصلا أو أتی بہ مرۃ واحدۃ یجوز ویکرہ‘‘(۲)
’’إن أدنیٰ تسبیحات الرکوع والسجود الثلاث وأن الأوسط خمس مرات والأکمل سبع مرات الخ‘‘(۳)
’’والزیادۃ مستحبۃ بعد أن یختم علی وتر خمس أو سبع أو تسع ما لم یکن إماماً فلا یطول الخ‘‘(۱)
’’ونقل في الحیلۃ عن عبد اللّٰہ بن المبارک وإسحاق وإبراہیم والثوری أنہ یستحب للإمام أن یسبح خمس تسبحات لیدرک من خلفہ الثلث الخ‘‘(۲)
’’واعلم أن التطویل المکروہ وہو الزیادۃ علی قدر أدنیٰ السنۃ عند ملل القوم حتی أن رضوا بالزیادۃ لا یکرہ وکذا إذا ملوا من قدر أدنیٰ السنۃ، لا یکرہ الخ‘‘(۳)
’’أما الإمام فلا یزید علی الثلاث إلا أن یرضی الجماعۃ الخ‘‘(۴)

حلبی کبیری اور در مختار وغیرہ کا خلاصہ یہ ہے کہ: سنت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ تین مرتبہ تسبیحات پڑھی جائیں، اوسط درجہ پانچ مرتبہ، اور اکمل درجہ سات مرتبہ پڑھی جائیں یا اس سے زائد ایسے ہی امام کو چاہئے کہ مقتدی کی رعایت کرتے ہوئے ادنیٰ درجہ پر عمل کرے۔

(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۴، رقم: ۸۸۶۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱۔
(۳) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، مسائل تتعلق بالرکوع: ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ دار العلوم دیوبند۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطاعۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۹۔
(۳) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ص: ۲۸۲، اشرفیہ دیوبند، رحیمہ دیوبند: ص: ۳۰۸۔
(۴) صغیری مطبع مجتبائی دہلی: ص: ۱۵۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص394

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: امام بلند آواز، خوش الحان، تجوید کے مطابق صحیح صحیح قرأت کرنے والا ہونا چاہیے جو اس قدر بلند آواز سے پڑھے کہ تمام مصلی یا جماعت کا اکثر حصہ ان کی آواز کو سن سکے اور اگر امام صاحب کی آواز اتنی پست ہو کہ تمام یا اکثر مصلی ان کی آواز کو نہ سن سکیں، تو کم از کم اگر پہلی صف کے آس پاس کے مصلی ان کی آواز سن سکتے ہوں تو نماز ہو جائے گی مگر ایسے پست آواز والے کو امام بنانا بہتر نہیں ہے درمختا میں ہے:
’’وأدنی الجہر إسماع غیرہ، وأدنی المخافتۃ إسماع نفسہ ومن بقربہ؛ فلو سمع رجل أورجلان فلیس بجہر، والجہر أن یسمع الکل، خلاصۃ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب في الکلام علی الجہر والمخافتۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۲، ۲۵۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص193

Marriage (Nikah)

Ref. No. 38 / 1197

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب لڑکی کا مناسب رشتہ مل جائے  اور نکاح کا ارادہ ہو تو  دونوں کے گھروالوں کے  مابین  نکاح کا مسنون خطبہ پڑھے ، پھردومناسب گواہوں کی موجود گی میں  لڑکی کا نام مع ولدیت لے کر لڑکے سے کہے میں نے فلاں بنت فلاں کو  بعوض اتنے روپئے تمہارے نکاح میں دیا ، کیا تم نے قبو ل کیا؟ لڑکا جواب میں کہے کہ ”میں نے اس کو قبول کیا“۔تو اس ایجاب و قبول کے بعد نکاح منعقد ہوگیا۔  لڑکی کی طرف سے اس کی اجازت سے  اس کا ولی یا وکیل ایجاب کرے  اورلڑکا قبول کرلے تو بھی نکاح درست ہوگا، پھرحسب گنجائش  چھوارےتقسیم کئے جائیں۔ اور لڑکی کو لڑکے کے گھر بھیج دیاجائے۔ ہر جزء کی تفصیل کے لئے  متعلقہ کتابوں کی طرف رجوع کریں۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 40/1163

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Islam commands the one who has orphans under his care to look after them properly and raise them well, and if they have wealth he is to guard it. A stern warning has been given in the Quran against those who use up the orphan’s wealth unjustly. Quran says: “Verily, those who unjustly eat up the property of orphans, they eat up only a fire into their bellies, and they will be burnt in the blazing Fire!”Surah An-Nisa (4:10)

When this verse was revealed, the Sahaba avoided eating with orphans. Even they threw the food left over by the orphan but they couldn’t eat.  So another Quranic verse was revealed: “And they ask you concerning the orphans, Say: To set right for them (their affairs) is good, and if you become copartners with them, they are your brethren; and Allah knows the mischief-maker and the pacemaker. So the scholars say that the orphan’s wealth in the hands of guardian is an amanat (trust), which gave the guardians permission to eat with the orphans without crossing the limit. The guardians must look after the wealth of orphan and can eat with them without misusing his wealth. If the guardian is poor, he can eat from the wealth of the orphan for his services. The sincere guardians are advised to invest his wealth in business to increase his assets so that it will not end when he is in need at later stages of life.

Now you are advised to separate the orphan’s share from your all wealth and put it aside then take out monthly expenditure from it and spend jointly with your wealth. The shariah insists on not usurping the orphans’ shares and forbids misusing it. If you are needy, you can take from the wealth of orphans meant for your services with no intention of usurping. May Allah help you in this very important matter!  

و فی الاستحسان یجوز ان یاکل بالمعروف اذا کان محتاجا بقدر ما سعی (رد المحتار، باب الوصی، 713/6)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1002

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

A woman in period will perform all the hajj rituals except tawaf. A menstruating woman cannot do any kind of Tawaf. Although, if a woman finds no chance to do Tawaf e Ziyarat while it is Fardh, she is allowed to perform only Tawafe Ziyarat even being in period. But there must be a penalty on her for this offence. So she must slaughter an animal, such as camel and cow, in the Haram premises. For details, read the Hajj related books.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. No. 1100/41-291

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح جانور پال پر دینا جائز نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیں: Ref. No. 927/41-53B

https://dud.edu.in/darulifta/?qa=2305/%D8%A8%DA%A9%D8%B1%DB%8C-%D8%AF%DB%8C%D9%86%D8%A7-%DB%81%D9%88%DA%AF%D8%A7-%D8%AA%D9%82%D8%B3%DB%8C%D9%85-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7%DA%A9%DB%8C%D8%B3%D8%A7-%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C-%D8%AA%D9%81%D8%B5%DB%8C%D9%84-%D8%A8%D8%AA%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%B1-%D9%84%DA%A9%DA%BE%D9%86%D8%A4&show=2305#q2305

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1203/42-502

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اسلام میں نماز کا جو حکم ہے وہ مسجد کی  جماعت کے ساتھ  مطلوب ہے۔ اسی لئے مسجد چھوڑکر جو لوگ گھروں میں نماز پڑھتے تھے، ان پر آپ ﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا، اس لئے حتی الامکان مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے تاہم اگر کسی وجہ سے مسجد نہ جاسکیں تو باقی لوگوں کو چاہئے کہ دوکان میں ہی  باجماعت نماز پڑھیں کہ کم از کم جماعت کے ثواب سے محروم نہ ہوں۔

صلوۃ الجماعۃ تفضل صلوۃ احدکم بسبع و عشرین درجۃ (مسند احمد شاکر، سند عبداللہ بن عمر، 5/239، حدیث نمبر 5779)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند