Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1649/43-1232
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔یہ دلالی کا کام ہے، اور علماء نے ضرورت کے پیش نظر اس کی اجازت دی ہے۔ ایک آدمی جائز کام کرتاہے مگر کچھ رکاوٹیں آتی ہیں ، اور کام کا مکمل تجربہ نہیں ہوتاہے اور کام میں خطرہ کم سے کم مول لینا چاہتاہے تو وہ دلال سے ایک معاملہ طے کرلیتاہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے آدمی کا پیسہ لینا بھی درست ہے۔ البتہ اگر خلاف قانون کام ہو تو اس سے بچنا ضروری ہوگا تاکہ مال، عزت وآبرو کی حفاظت برقرار رہے۔
عن الحکم وحماد عن إبراہیم وابن سیرین قالوا: لا بأس بأجر السمسار إذا اشتری یدا بید۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، في أجر السمسار، موسسۃ علوم القرآن ۱۱/ ۳۳۹، رقم: ۲۲۵۰۰)وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل۔ وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ، … لکثرۃ التعامل۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في أجرۃ الدلال، کراچی ۶/ ۶۳، زکریا ۹/ ۸۷، تاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۱۳۷، رقم: ۲۲۴۶۲)
قال في الشامیۃ عن البزازیۃ: إجارۃ السمسار والمنادی والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ، ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل۔ (شامي، کاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۹/ ۶۴، کراچی ۶/ ۴۷، بزازیۃ، زکریا جدید ۲/ ۲۳، وعلی ہامش الہندیۃ ۵/ ۴۰) وأما الدلال: فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا (تحتہ في الشامیۃ) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو علیہما بحسب العرف۔ (شامي، کتاب البیوع، قبیل مطلب في حبس المبیع لقبض الثمن … زکریا ۷/ ۹۳، کراچی ۴/ ۵۶۰، تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ۱/ ۲۴۷)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1933/43-1832
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مندرجہ ذیل وظیفہ پڑھیں ان شاء اللہ مرض سے شفاء ہوگی۔:
سورہ فاتحہ – تین بار پڑھ کر سینے پر دم کریں۔
الذین آمنوا وتطمئن قلوبھم بذکراللہ، الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر سات مرتبہ پڑھیں۔
یا قوی قونی وقلبی – سینے پر ہاتھ رکھ کر سات مرتبہ پڑھیں
معوذتین – سات مرتبہ سونے کے وقت پڑھیں
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2176/44-2302
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں تھوڑا ابہام ہے، اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ ایک مدرسہ کے تحت فلاحی اسپتال ہے جس میں میڈیکل اسٹور آپ ماہانہ کرایہ پر چلاتے ہیں یعنی مدرسہ کے اسپتال کے تحت آپ کا میڈیکل اسٹور ہےجو آپ ماہانہ کرایہ پر چلاتے ہیں یہ میڈیکل اسٹور آپ کا ذاتی ہے جو آپ نے اپنے پیسوں سے بنایا ہے اور میڈیکل اسٹور کھولتے وقت مدرسہ یا اسپتال سے آپ کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا تو ادارے کا ماہانہ آمدنی ظاہر کرنے کا مطالبہ درست نہیں ہے ۔ اگر سوال میں مزید کچھ وضاحت ہو تو دوبارہ سوال کریں۔ باقی معاملہ کی تفصیل چونکہ سوال میں نہیں ہے اس لئے واضح جواب نہیں لکھاجاسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:انبیاء کے معصوم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اندر گناہ کی بالکلیہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں اور ان کے اندر بھی بشری تقاضے ہوتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا نظام ہے کہ ان کی گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ اور انبیاء کرام گناہوں سے بچنے میں بے اختیار نہیں ہیں؛ بلکہ بااختیار ہیں، اوراپنے اختیار سے گناہوں سے بچنا یقینا کمال ہے۔(۱)
(۱) إن الأنبیاء معصومون۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’أول الأنبیاء آدم -علیہ السلام-وآخرہم محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-‘‘: ص: ۱۳۹)
والأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کلہم منزہون عن الصغائر والکبائر والکفر والقبائح … أي جمیعہم الشامل مرسلہم ومشاہیر ہم وغیرہم أولہم آدم علیہ الصلاۃ والسلام علی ما ثبت بالکتاب والسنۃ وإجماع الأمۃ … منزہون أي معصومون من جمیع المعاصي۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الأنبیاء منزہون عن الکبائر والصغائر‘‘: ص: ۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص210
اسلامی عقائد
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:(۱) نوٹوں کا ہار گلے میں ڈالنا غیروں کا طریقہ ہے، اس کو اختیار کرنا درست نہیں ہے اور مسرت وخوشی کے موقعہ پر پھولوں کا ہار ڈالنے میں مضائقہ نہیں؛ بشرطیکہ کسی غیر قوم کا شعار نہ ہو اور اس کو ضروری بھی نہ سمجھا جائے۔(۱)
(۲) اگر اس کو لازم نہ سمجھا جائے تو درست ہے؛ بلکہ دینے والے ہدیہ کے طور پر دیدیا کریں تو اس میں ثواب بھی ہے؛ لیکن آج کل یہ ایک رسم بن چکی ہے اور خوشی سے نہیں دیا جاتا؛ بلکہ بعد میں اس کو اپنی شادی میں وصول کرنا مقصود ہوتا ہے اور نہ دینے پر ناگواری ہوتی ہے؛ اس لئے بچنا ضروری ہے۔(۱)
(۳) بغرض اعلان نکاح دف بجانا درست ہے(۲) باجہ وغیرہ درست نہیں ہے، یہ فضول خرچی واسراف ہے، شادی میں سادگی مطلوب ہے۔(۳)
(۴) قطعاً جائز نہیں ہے۔
(۵) کھانا کھانا جائز ہے؛ مگر استطاعت سے زیادہ لڑکی والوں پر بوجھ نہ رکھا جائے۔(۴)
مذکورہ امور اگر ثواب سمجھ کرکیے جاتے ہیں تو بدعت ہیں۔
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
مسلم را تشبہ بکفار حرام است۔ (ثناء اللہ پانی پتی، مالا بد منہ: ص: ۱۳۳)
(۱) {وَمَآ أَتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِيْٓ أَمْوَالِ النَّاسِ فَلاَ یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج} (سورۃ الروم: ۳۹)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۲) أعلنوا ہذا النکاح واجعلوہ في المساجد واضربوا علیہ بالدفوف۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب النکاح، باب ما جاء في إعلان النکاح‘‘: ج ۲،ص: ۳۹۰، رقم: ۱۰۸۹)
(۳) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أعظم النکاح برکۃ أیسرہ مؤنۃ،ر واہ البیہقي في شعب الإیمان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب النکاح: الفصل الثالث‘‘: ج ۶، ص: ۲۵۰، رقم: ۳۰۹۷)
(۴) لڑکی والے بغیر التزام کے اپنی مرضی سے کھانا دیدیں تو مباح ہے نہ دیں تو کوئی الزام نہیں ہے۔ (کفایۃ المفتی: ج ۷، ص: ۴۷۱، فاروقیہ) جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے، تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر کھائیں گے، اپنے مہمان کو کھلانا تو شریعت کا حکم ہے۔ (فتاوی محمودیہ: ج ۱۲، ص: ۱۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص424
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یقینا موجودہ حالات کا علم رکھنا ایک مفتی کے لیے انتہائی ضروری ہے، ان حالات کو جانے بغیر صحیح رائے نہیں دی جاسکتی، علاوہ ازیں بہت ساری چیزیں عام حالات میں ناجائز ہوتی ہیں، مگر خاص حالات میں ان کی اجازت مع شرائط دی جاتی ہے۔ (۱)
(۱) من جہل بأہل زمانہ فہو جاہل۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین: ج ۲، ص: ۱۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص145
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان کو پاک پانی سے دھو لیا جائے اور ان کپڑوں کو پہن کر جو نماز یں اداء کی تھیں ان کی قضا کرلی جائے۔ (۱)
(۱) أما لو غسل في غدیر أو صب علیہ ماء کثیر أو جریٰ علیہ الماء طہر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفیف وتکرار غمس ہو المختار۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۲)
النجاسۃ إن کانت غلیظۃ وہي أکثر من قدر الدرہم فغسلہا فریضۃ والصلوٰۃ بہا باطلۃ وإن کانت مقدار درہم فغسلہا واجب والصلوٰۃ معہا جائزۃ وإن کانت أقل من الدرہم فغسلہا سنۃ وإن کانت خفیفۃ فإنہا لا تمنع جواز الصلوٰۃ حتی تفحش، کذا في المضمرات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث، في شروط الصلوٰۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص63
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں پے در پے وضو کرنا یعنی ایک عضو کے سوکھنے سے پہلے دوسرے عضو کو دھو لینا سنت ہے، اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے۔ تولیہ اور خارجی آلہ سے اعضائے وضو کو بغیر کسی عذر کے خشک کرنا بھی مکروہ ہے؛ البتہ وضو ہو جائے گا۔
نیز پے در پے وضو کرنے کے سنت ہونے کا تعلق بھی عام حالت کے ساتھ ہے کہ جب کوئی عذر نہ ہو؛ لیکن اگر کوئی عذر اور مجبوری ہو جس کی وجہ سے وضو میں تسلسل برقرار رکھنا اور اس سنت پر عمل پیرا ہونا مشکل ہو، تو ایسی صورت میں یہ معاف ہے جیسے اگر کسی شخص نے وضو کرتے وقت کچھ اعضائے وضو دھو لیے اس کے بعد پانی ختم ہو جائے اور وہ پانی کی تلاش میں مشغول ہو جائے جس کی وجہ سے وضو میں تسلسل برقرار نہ رہے اور اس بنا پر دوسرا عضو دھونے میں اس قدر تاخیر ہو جائے کہ پہلا عضو خشک ہو جائے تو یہ معاف ہے، اس کی وجہ سے وضو میں تسلسل کی سنت کی خلاف ورزی اور کراہت لازم نہیں آئے گی۔
’’ومنہا: الموالاۃ وہي التتابع، وحدہ أن لا یجف الماء علی العضو قبل أن یغسل ما بعدہ في زمان معتدل، ولا اعتبار بشدۃ الحر والریاح ولا شدۃ البرد ویعتبر أیضا استواء حالۃ المتوضئ، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ وإنما یکرہ التفریق في الوضوء إذا کان بغیر عذر، أما إذا کان بعذر بأن فرغ ماء الوضوء فیذہب لطلب الماء أو ما أشبہ ذلک فلا باس بالتفریق علی الصحیح۔ وہکذا إذا فرق في الغسل والتیمم، کذا في السراج الوہاج‘‘(۱)
’’ہذا وقد عرفہ في البدائع بأن لا یشتغل بین أفعال الوضوء بما لیس منہ۔ ولا یخفی أن ہذا أعم من التعریفین السابقین من وجہ، ثم قال: وقیل: ہو أن لا یمکث في أثنائہ مقدار ما یجف فیہ العضو۔ أقول: یمکن جعل ہذا توضیحا لما مر بأن یقال: المراد جفاف العضو حقیقۃ أو مقدارہ، وحینئذ فیتجہ ذکر المسح، فلو مکث بین مسح الجبیرۃ أو الرأس وبین ما بعدہ بمقدار ما یجف فیہ عضو مغسول کان تارکا للولاء، ویؤیدہ اعتبارہم الولاء في التیمم أیضا کما یأتي قریبا مع أنہ لا غسل فیہ، فاغتنم ہذا التحریر۔ (قولہ: حتی لو فنی ماؤہ إلخ) بیان للعذر۔ (قولہ: لا بأس بہ) أي علی الصحیح، سراج (قولہ: ومثلہ الغسل والتیمم) أي إذا فرق بین أفعالہما لعذر لا بأس بہ کما في السراج، ومفادہ اعتبار سنیۃ الموالاۃ فیہما‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني، في سنن الوضوء ومنہا: الموالاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص173
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :(۱) خفین پر مسح کرنا ائمہ اربعہ اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نزدیک جائز ہے؛ سوائے شیعہ کے ایک فرقہ روافض کے (امامیہ) ان کے نزدیک مسح علی الخفین جائز نہیں روافض کی دلیل أرجلکم میں دوقرأت ہیں، قراء ت نصب تقاضہ کرتی ہے پاؤں کے دھونے کے وجوب پر اور قرأ ت کسرہ تقاضا کررہی ہے پاؤں پر مسح کرنے کے وجوب پر نہ کہ خفین پر مسح کرنے پر، اس لیے روافض کے نزدیک خفین پر مسح جائز نہیں۔
(۲) مدت مسح کے بارے میں احناف اور امام مالکؒ کے درمیان اختلاف ہے، امام مالکؒ کے نزدیک صرف سفر کی حالت میں جائز ہے، حضر کی حالت میں جائز نہیں؛ اس لیے کہ مسح مشقت اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے مشروع ہوا ہے اور مشقت کی جگہ سفر ہے نہ کہ حضر ۔
احناف کے نزدیک خفین پر مسح کرنا جس طرح حالت سفر میں جائز ہے، اسی طرح حالت حضر میں بھی جائز ہے؛ البتہ مقیم خفین پر ایک دن اور ایک رات مسح کرے گاجب کہ مسافرتین دن اور تین رات مسح کرے گا۔ فالمسح علی الخفین جائز عند عامۃ الفقہاء و عامۃ الصحابۃؓ۔ (۱) وقال مالک یجوز للمسافر ولا یجوز للمقیم، واحتج من أنکر المسح بقولہ تعالی: ’’یاأیہا الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوہکم‘‘ الآیۃ، فقراء ۃ النصب تقتضي وجوب غسل الرجلین مطلقاً عن الأحوال، لأنہ جعل الأرجل معطوفۃ علی الوجہ والیدین وہي مغسولۃ فکذا الأرجل، و قراء ۃ الخفض تقتضي وجوب المسح علی الرجلین لا علی الخفین۔(۱)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۷
(۱) ایضاً، ج۱،ص:۷۶
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص273
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: گالی دینا اور اس کی عادت بنا لینا موجب فسق ہے شریعت اسلامی اور وقار امامت کے خلاف ہے؛ اس لیے امام پر لازم ہے کہ گالیوں کو ترک کرے اور توبہ واستغفار کرے، اگر وہ اس گناہ سے باز نہ آئے تو منصب امامت سے علیحدہ کرنا ہی بہتر ہے۔(۲)
(۲) عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال قال: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سباب المؤمن فسوق وقتالہ کفر، متفق علیہ۔ (مشکاۃ المصابیح، ’’باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۱، رقم:۴۸۱۴، یاسر ندیم دیوبند)
ولذکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
ولو أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص146