Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرونِ اولیٰ میں بھی میت کے ایصال ثواب کے لیے کھانا وغیرہ کھلایا جاتا تھا، مگر تیجہ، نواں، چالیسواں وغیرہ کی عرفی تعیین سے ہٹ کر کیف مااتفق جب بھی انتظام ہوجاتا ہو ایصال ثواب کے لیے کھانا کھلایا جاتا تھا جس کے کھانے والے غرباء، فقراء، مساکین ہوتے تھے۔
چنانچہ میت کے ایصال ثواب کے لیے کوئی شخص بلا تعیین عرفی فقراء ومساکین کو کھانا کھلا سکتا ہے(۱) (جو لوگوں نے اپنی طرف سے مقرر کرلیا ہے، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے) شرط یہ ہے کہ میت کے تمام وارثین خوشی سے اس کی اجازت دیں اور کوئی وارث نابالغ بھی نہ ہو اگر نابالغ ہے تو میت کے ترکہ سے اس کا حصہ نکال کر بالغ ورثاء اپنی طرف سے کرسکتے ہیں کیوںکہ میت کے ترکہ میں وارثوں کا حق ہوجاتا ہے اور اگر میت نے اپنے لیے کھانا کھلانے کی وصیت زندگی میں کی تھی تو پھر ترکہ کے ایک ثلث یا اس سے کم میں بطور وصیت کھانا مستحقین کو کھلایا جاسکتا ہے۔(۲)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أن رجلا أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: إن أمي افتلتت نفسہا ولم توص وإني أظنہا لو تکلمت لتصدقت فلہا أجر إن تصدقت عنہا ولي أجر؟ قال: نعم۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الوصایا: باب من مات ولم یوص‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۵، رقم: ۲۷۱۶)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رجلا قال للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أبي مات وترک مالا، ولم یوص، فہل یکفر عنہ؟ قال: نعم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الوصیۃ: باب وصول الصدقات إلی المیت‘‘: ج۲، ص: ۴۱، رقم: ۱۶۳۰)
(۲) ولو أوصی المیت بأن یتصدق عنہ بکذا وکذا من مالہ ولم یعین الفقیر لا ینفرد بہ أحد الوصیتین عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالٰی، وعند أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی ینفرد، وإن عین الفقیر ینفرد بہ أحدہما عند الکل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوصایا: الباب التاسع: في الوصي وما یملکہ‘‘: ج ۶، ص: ۱۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص411
متفرقات
Ref. No. 2393/44-3624
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمارے عرف میں ’’سید‘‘ صرف وہ گھرانے ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحب زادگان حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد سے ہوں، ان ہی کا لقب ’’سید‘‘ ہے، اور یہ ان کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبی نسبت کی علامت ہے؛ لہٰذا موجودہ دور میں جو بھی سید ہونے کا مدعی ہو اس سے اس کا نسب معلوم کرنا چاہئے۔ میری معلومات کے مطابق ہندوستان میں شاہ برادری کی علاقائی اعتبارسے مختلف قسمیں ہیں، ہوسکتاہے ان میں سے کوئی سید ہونے کا مدعی ہو۔ بہرحال جو دعوی کرے اسی سے اس سلسلسہ میں معلوم کرنا بہتر ہوگا۔
۔۔۔ فحث على كتاب الله ورغب فيه، ثم قال: «وأهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي». فقال له حصين: ومن أهل بيته؟ يا زيد! أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس قال: كل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم".(صحيح مسلم (4 / 1873)
"(قوله: وعلى آله) اختلف في المراد بهم في مثل هذا الموضع؛ فالأكثرون أنهم قرابته صلى الله عليه وسلم الذين حرمت عليهم الصدقة على الاختلاف فيهم، وقيل: جميع أمة الإجابة، وإليه مال مالك، واختاره الأزهري والنووي في شرح مسلم، وقيل غير ذلك، شرح التحرير.وذكر القهستاني: أن الثاني مختار المحققين". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 13)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2517/45-3830
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز تراویح باجماعت پڑھنا سنت ہے، تراویح کی نماز خود نبی کریم ﷺ نے اور صحابہ کرام نے باجماعت ادافرمائی ہے۔ اس لئے تراویح باجماعت پڑھنا سنت ہے۔ نماز وتر رمضان میں نماز تراویح کے تابع ہے اور باجماعت ادا کرنا مستحب ہے، یہ حضرت عمر ؓکے اثر سے ثابت ہے اور اسی پر امت کا اجماع ہے۔
اگر تراویح یا وتر کی جماعت چھوٹ جائے تو تنہا ادا کرلے لیکن تراویح کو تنہا پڑھنے کی عادت بنالینا درست نہیں ہے ورنہ گنہگار ہوگا۔ البتہ نماز وتر باجماعت مستحب ہے، اس لئے اگر کوئی اس کو تنہا پڑھے تو اضافی ثواب سے محروم ہوگا لیکن کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح تراویح میں پورا قرآن سننا بھی بہتر اور افضل ہے، اگر کوئی چھوٹی تراویح باجماعت پڑھے، تو اس کو پورا قرآن نہ سننے پر گناہ تو نہیں ہوگا لیکن رمضان کے بابرکت مہینہ میں بڑے اجر سے محروم رہے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:بستر میں جو ناپاکی جذب ہوگئی ہے، اس کو پاک کرنے کے لیے دھونا ہی لازم ہے۔ خشک ہونے سے پاکی حاصل نہیں ہوگی، اگر دھونے سے پہلے اس پر نماز پڑھنی پڑے تو اس پر نماز پڑھنے کے لیے کوئی موٹا کپڑا بچھالیا جائے۔(۱)
(۱)ومالا ینعصر یطھر بالغسل ثلاث مرات، والتجفیف في کل مرۃ، لأن للتجفیف أثرا في استخراج النجاسۃ۔ و حدُّ التجفیف: أن یخلیہ حتی ینقطع التقاطر، ولا یشترط فیہ الیبس، ھکذا في ’’التبیین‘‘ ھذا إذا تشربت النجاسۃ کثیراً، و إن لم تشرب فیہ، أو تشربت قلیلا، یطھر بالغسل ثلاثاً، ھکذا في ’’محیط السرخسي‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، ج۱، ص:۹۶)؛ و قال ابن نجیم في البحر : و في النجاسۃ الحقیقیۃ المرئیۃ إزالۃ عینھا، و في غیر المرئیۃ غسل محلھا ثلاثا والعصر في کل مرۃ إن کان مما ینعصر والتجفیف في کل مالا ینعصر الخ۔(زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج۱، ص۱۰)؛ و عند أبي یوسف: ینقع في الماء ثلاث مراتٍ و یجفف في کل مرۃ إلا أن معظم النجاسۃ قد زال فجعل القلیل عفواً في حق جواز الصلاۃ للضرورۃ۔ (علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ، کتاب الطہارۃ، فصل : و أما بیان ما یقع بہ التطہیر، ج۱، ص:۲۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص438
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کپڑے کی نجاست کو اگر دور کر دیا گیا، تو نجاست کے اثر کا باقی رہ جانا مضر نہیں، لہٰذا دھبہ کے ہوتے ہوئے بھی ایسا کپڑا پاک ہے اور کپڑے کے دھبہ کو صابن یا آلہ سے زائل کرنا ضروری نہیں ہے۔
’’فإذا غسل طہر لأنہ اثر یشق زوالہ لأنہ لا یزول إلا بسلخ الجلد أو جرحہ فإذا کان لا یکلف بإزالۃ الأثر الذي یزول بماء حار أو صابون فعدم التکلیف ہنا أولیٰ‘‘ (۲)
’’قال ولا یضر بقاء أثر یشق زوالہ لقولہ علیہ السلام في دم الحیض اغسلیہ ولا یضرک أثرہ دفعاً للحرج‘‘(۳)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۰۔
(۳) عبد اللّٰہ بن محمود الحنفي، الاختیار لتعلیل المختار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل فیما یجوز إزالۃ النجاسۃ بہ ومالا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰۔(دار الرسالۃ العالمیۃ، بیروت)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص30
آداب و اخلاق
Ref. No. 2702/45-4166
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روضہ اقدس پر حاضری کے وقت آپ کی مذکورہ کیفیت ایمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت ہے اس پر شکر کے ساتھ استقامت کی دعاء کیا کریں، تاہم داڑھی نہ رکھنا اور مقامات مقدسہ کی ویڈیو گرافی کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہے تاہم اس کی وجہ سے دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھنا بھی غلط ہے، سب کے لئے اصلاح کی دعاء کیا کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدث اصغر وحدث اکبر دونوں صورتوں میں تیمم ایک ہی طرح سے ہوتا ہے، اور تیمم کے بعد آدمی پاک ہو جاتا ہے اور دونوں کا درجہ برابر ہے، اس وجہ سے صورت مسئولہ میں خواہ کوئی بھی امامت کرے درست ہے۔ ہاں امام دیگر وجوہ ترجیح کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہتر ہو سکتا ہے۔(۱)
(۱) اقتداء المتوضي بالمتیمم في صلاۃ الجنازۃ جائز بلا خلاف( ابن الہمام، فتح القدیر، ’’باب الإمامۃ‘‘ ج ۱، ص:۳۷۸) والحدث والجنابۃ فیہ سواء۔ (المرغیناني، ہدایہ مع فتح القدیر،’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۵۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص351
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں بشرط صحت سوال ایسے شخص کی امامت درست ہے۔(۱)
(۱) وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ فالاقتداء بغیرہ أولٰی تاترخانیۃ وکذا أجذم، بیر جندي، ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ، فتاویٰ الصوفیۃ عن التحفۃ، والظاہر أن العلۃ النفرۃ ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہراً ولعدم إمکان إکمال الطہارۃ أیضاً في المفلوج والأقطع والمجبوب۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص233
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال معقول شرعی عذر کا ہونا ضروری ہے مذکورہ لوگوں کی دلیل درست نہیں اس لیے ان کی بات معتبر نہیں ہے۔(۱)
(۱) ومن حکمہا نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم، قال الشامي: نظام الألفۃ بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلوات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۲)
ولو أم قومًا وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ ذلک تحریماً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
رجل أم قومًا وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص337
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام کے بعد مقتدی نے بھی سجدہ کرلیا اس لیے نماز واقتدا درست ہوگئی ’’کما لورکع إمامہ فرکع معہ مقارنا أومعاقبا وشارکہ فیہ أو بعد مارفع منہ الخ‘‘(۱) لیکن امام کو اتنی جلدی نہیں کرنی چاہئے کہ مقتدی اس کے ساتھ شامل نہ ہوپائے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، مطلب مہم في تحقیق متابعۃ الإمام‘‘: ج۲، ص : ۱۶۶۔
نعم تکون المتابعۃ فرضا؛ بمعنی أن یأتی بالفرض مع إمامہ أو بعدہ، کما لو رکع إمامہ فرکع معہ مقارنا أو معاقبا وشارکہ فیہ أو بعد ما رفع منہ، فلو لم یرکع أصلا أو رکع ورفع قبل أن یرکع إمامہ ولم یعدہ معہ أو بعدہ بطلت صلاتہ۔ (أیضًا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص459