Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صبح صادق کے بعد سے طلوع آفتاب تک اور عصر کی نماز کے بعد سے غروب آفتاب تک نفل پڑھنا مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ ان دونوں وقتوں میں قضائے عمری پڑھنا اور سجدہ تلاوت کرنا درست وجائز ہے؛ لیکن سورج نکلنے اور غروب ہونے کے وقت قضاء نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے۔(۱)
(۱) تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل ومافی معناہا لا الفرائض، ہکذا في النہایۃ والکفایۃ۔ فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان، منہا: ما بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر۔۔۔۔ ومنہا: ما بعد صلاۃ الفجر قبل طلوع الشمس۔۔۔۔ ومنہا: ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التی لاتجوز الصلاۃ فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹، زکریا، دیوبند)
ولو سنۃ الفجر، بعد صلاۃ فجر وصلاۃ عصر ولو المجموعۃ بعرفۃ لا یکرہ قضاء فائتۃ ولو وترا أو سجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ وکذا الحکم من کراہۃ نفل وواجب لغیرہ لا فرض وواجب لعینہ بعد طلوع فجر سوی سنتہ … وفیہ جواب عما أوردہ من أن قولہ علیہ السلام: لا صلاۃ بعد العصر حتی تغرب الشمس ولا صلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس، رواہ الشیخان یعم النفل وغیرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۷، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص106
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: واقعی طور پر جمعہ کے دن نماز فجر میں مذکورہ سورتیں مسنون ومستحب ہیں، مگر اس پر دوام ثابت نہیں ہے؛ اس لیے امام صاحب کو چاہیے کہ اس پر دوام نہ کرے؛ بلکہ گاہے گاہے اس کو چھوڑ کر دوسری سورتوں کو بھی پڑھے۔
در مختار میں ہے ’’ویکرہ التعیین کالسجدۃ وہل أتی الإنسان لفجر کل جمعۃ بل یندب قراء تہما أحیاناً‘‘(۱) اس سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھی ان مذکورہ سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے۔(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۶۵، ۲۶۶۔
(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقرأ في الجمعۃ في صلوٰۃ الفجر ألم تنزیل (السجدۃ) وہل أتی علی الإنسان۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب ما یقرأ في صلاۃ الفجر یوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۲، رقم: ۸۹۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص376
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز باطل ہو جائے گی۔(۱)
(۱) ومنہا النوم ینقضہ النوم مضطجعا فی الصلاۃ وفی غیرہا، بلا خلاف بین الفقہاء وکذا النوم متورکا بأن نام علی أحد ورکیہ، ہکذا في البدائع وکذا النوم مستلقیا علی قفاہ کذا فی البحر الرائق۔ ولو نام قاعدا واضعا إلیتیہ علی عقبیہ شبہ المنکب لا وضوء علیہ، وہو الأصح، کذا فی محیط السرخسی۔ ولو نام مستندا إلی ما لو أزیل عنہ لسقط۔ إن کانت مقعدتہ زائلۃ عن الأرض نقض بالإجماع، وإن کانت غیر زائلۃ فالصحیح أن لا ینقض، ہکذا في التبیین۔ ولا ینقض نوم القائم والقاعد ولو فی السرج أو المحمل، ولا الراکع ولا الساجد مطلقا إن کان في الصلاۃ، وإن کان خارجہا فکذلک إلا فی السجود فإنہ یشترط أن یکون علی الہیئۃ المسنونۃ لہ، بأن یکون رافعا بطنہ عن فخذیہ، مجافیا عضدیہ عن جنبیہ، وإن سجد علی غیر ہذہ الہیئۃ انتقض وضوء ہ کذا فی البحر الرائق ثم فی ظاہر الروایۃ: لا فرق بین غلبتہ وتعمدہ، وعن أبی یوسف: النقض فی الثانی، والصحیح: ما ذکر فی ظاہر الروایۃ، ہکذا فی المحیط۔ واختلفوا فی المریض إذا کان یصلي مضطجعا فنام، فالصحیح أن وضوء ہ ینتقض، ہکذا فی المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۶۳)
عن عائشۃ أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا نعس أحدکم وہو یصلی فلیرقد حتی یذہب عنہ النوم؛ فإن أحدکم إذا صلی وہو ناعس لا یدري لعلہ یستغفر، فیسب نفسہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الوضوء، باب الوضوء من النوم و من لم یر من النعسۃ الخ ‘‘: ج ۱، ص:۳۴، رقم: ۲۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص75
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میںجو تکبیر ترک ہوئی ہے اس کے بارے میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک واجب ہے اس لیے اس کا اہتمام کرنا ضروری ہے لیکن راجح یہ ہے کہ وہ تکبیرات انتقالیہ میں سے ہے جن کو مسنون قرار دیا گیا ہے اس ترک سے نماز وتر کی ادائیگی میں کوئی نقصان نہیں آیا نماز ادا ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ علم ہونے کے بعد ترک نہ کرنا چاہئے جان بوجھ کر سنت کا ترک کرنا باعث گناہ ہے۔(۱)
(۱) ویکبر أي وجوبا، وفیہ قولان، کما مر في الواجبات، وقدمنا ہناک عن البحر أنہ ینبغي ترجیح عدمہ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب الوتر والنوافل، ج۲، ص: ۴۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص299
حج و عمرہ
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: شوال وذی قعدہ اشہر حج میں سے ہیں، لیکن ان مہینوں میں عمرہ کرنے یا مکہ چلے جانے سے حج فرض نہیں ہوجا تا بلکہ جب تک وہ صاحب استطاعت نہیں ہوگا اس پر حج فرض نہیں ہوگا،علاوہ ازیں حج زندگی میں صرف ایک بار ہی فرض ہوتا ہے۔اسی طرح اگر کوئی اشہر حج میں عمرہ کرکے گھر چلاگیااورپھر حج کے ایام میں حج کررہا ہے توپہلے عمرہ کا اس حج سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، حج تمتع کےلیے ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج اداکرنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hajj & Umrah
Ref. No. 41/982
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
The above mentioned hadith is recorded in Sunan Ibne Majah and its isnad is dhaeef (weak).
(حدیث نمبر1413، باب ماجاء فی الصلوۃ فی المسجد الجامع(
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 893/41-17B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حکومت کی پابندیوں پر عمل کرنا ہر شہری کے لئے ضروری ہوتا ہے،لہذا پابندیوں پر عمل کرنا چاہئے، تاہم کسی حکومت کے قوانین میں جو چیزیں شریعت کے اعتبار سے حلال ہیں ان کو حرام اور جو حرام ہیں ان کو حلال نہیں کرسکتے۔
یاایھاالذین آمنوا کلوا من طیبات ما رزقناکم (القرآن-البقرۃ)۔ یا ایھاالنبی لم تحرم ما احل اللہ لک (القرآن -التحریم)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1191/42-476
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) محض وسوسہ کی وجہ سے نہ تو کلما کی قسم واقع ہوتی ہے اور نہ ہی طلاق واقع ہوتی ہے وسوسے کی بنا پر کوئی حکم نہیں لگتا ہے اس لیے فضولی والے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے (2) کلما کے علاوہ الفاظ سے بھی طلاق کی قسم منعقد ہو جاتی ہے لیکن جو مثال ذکر کی ہے کہ میں فلاں کے ساتھ نہیں جاؤں گا اس سے قسم منعقد نہیں ہوگی اور نہ ہی طلاق واقع ہوگی (3) سوال واضح نہیں ہے، مکمل کلما کے الفاظ کے ساتھ قسم کی وضاحت کر کے معلوم کر لیں (4) وسوسے کا علاج یہ ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ دی جائے اور درود شریف کی کثرت کے ساتھ یہ دعا پڑھیں: اللھم انی اعوذ بک من ھمزات الشیاطین واعوذ بک ربی ان یحضرون۔
قال الليث الوسوسه حديث النفس وانما قيل موسوس لانه يحدث بما في ضميره وعن الليث لا يجوز طلاق الموسوس (رد المحتار4/224) ان الله تجاوز عن امتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل بها او تتكلم بها (مشکوۃ ص18)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
The Holy Qur’an & Interpretation
Ref. No. 1314/42-684
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The bank job in which one has to write interest based accounting is not allowed because such bank job is a kind of cooperation in interest business while the Holy Qur'an has encouraged to help in good deeds and clearly discouraged to help in evil deeds. There is a clear warning in Holy Hadith for such people: Hazrat Jabir (ra) narrates that the Prophet of Allah (saws) cursed the receiver and the payer of interest, the one who records it and the two witnesses to the transaction and said: They are all alike in guilt (Sahih Muslim).
Therefore, adopting bank job is not permissible. You have to look for another job. If you are already working in a bank, you may continue your current job and keep looking for another halal one at your level best.
وتعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان، واتقوا اللہ ان اللہ شدید العقاب (القرآن، سورۃ المائدۃ 2) "عن جابر قال: لعن رسول اﷲﷺآکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء". (الصحيح لمسلم، با ب لعن آکل الربا، ومؤکله 2/27)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 1453/42-929
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسے بچہ پر اگرچہ یتیم کی اصطلاحی تعریف صادق نہیں آتی ہے تاہم ولد الزنا کی کفالت پر بھی یتیم کی کفالت کا اجروثواب ملے گا، حدیث میں ہے: انا و کافل الیتیم لہ او لغیرہ فی الجنۃ کھاتین واشار باصبعیہ السبابۃ والوسطی ۔ یہاں پر لہ سے مراد معروف النسب ہے اور لغیرہ سے مراد مجہول النسب ہے۔
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كافل اليتيم له أو لغيره أنا وهو كهاتين في الجنة» وأشار مالك بالسبابة والوسطى (صحیح مسلم، باب الاحسان الی الارملۃ والمسکین 4/2287) ولد الزنا هو الذي تأتي به أمه من الزنا (ر: ولد الزنا ف1) . والصلة بين ولد الزنا واليتيم أن كليهما لا أب لهما إلا أن ولد الزنا لم يكن له أب شرعا بخلاف اليتيم فإنه قد كان له أب۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، الوصیۃ للیتیم 45/259)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند