نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں لنگڑے اور بیٹھ کر امامت کرنے والے کی امامت تراویح اور دیگر نمازوں میں درست ہے جب کہ امام رکوع اور سجدہ ادا کرنے پر قادر ہو، لیکن اگر دوسرا لائق امامت وتندرست موجود ہو تو اسی کو امام بنایا جائے ایسی صورت میں لنگڑے کو امام بنانا بہتر نہیں ہے۔
’’وصح اقتداء … قائم بقاعد یرکع ویسجد لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی آخر صلاتہ قاعدا وہم قیام وأبوبکر یبلغہم تکبیرہ قولہ وقائم بقاعد أي قائم راکع
ساجد أو موم وہذا عندہما خلافا لمحمد وقید القاعد بکونہ یرکع ویسجد لأنہ لو کان مومیا لم یجز اتفاقا‘‘(۱)
’’ولا قادر علی رکوع وسجود بعاجز عنہما لبناء القوی علی الضعیف قولہ بعاجز عنہما أي بمن یومی بہما قائما أو قاعداً بخلاف ما لو أمکناہ قاعداً فصحیح کما سیأتي …‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، ۳۳۷۔    (۲) أیضًا۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص241

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت میں جماعت اور مسجد کی بڑی فضیلت آئی ہے  ایک نابینا شخص نے آپ B سے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگی، تو آپ B نے فرمایا: تم اذان کی آواز سنتے ہو انہوں نے کہا جی! تو آپ B نے فرمایا: پھر تم مسجد میں آیا کرو۔ مسجد میں جماعت کی نماز کا ثواب گھر کی نماز سے بہت زیادہ ہے،(۱) اس کے علاوہ مسجد مسلمانوں کا مرکز ہے جس سے ہر مسلمان کو وابستہ رہنا چاہیے، گھر میں جماعت کی پابندی سے کئی مسائل بھی پیدا ہوں گے مسجد کی برکت سے محرومی، مسجد میں افراد زیادہ ہوتے ہیں جتنے زیادہ افراد ہوں گے اتنا ثواب زیادہ ملے گا،(۲)
مسجد میں کوئی اللہ والا بھی شریک ہے کہ اس کی دعا میں ہم بھی شریک ہو جائیں گے، اس لیے فقہاء نے ایسے لوگوں کو جو مسجد آسکتے ہیں گھر میں نماز کے اصرار کو ناپسند کیا ہے۔ آپ نے جن دو مصلحت کا ذکر کیا ہے، ایک راستہ ہے، اگر واقعی راستہ پر خطر ہو، تو ایسی صورت میں گھر میں جماعت کرنے کی گنجائش ہو سکتی ہے؛(۱) لیکن دوسری وجہ کہ گھر پر زیادہ لوگ شریک ہوں گے او رمسجد میں کم لوگ جائیں گے یہ عذر نہیں ہے؛ اس لیے کہ وہ لوگ جو مسجد نہیں جاتے ہیں انہیں ترغیب دی جائے اور مسجد کی نماز کی فضیلت کو بیان کیا جائے او رایک ایک نماز میں آہستہ آہستہ ان کو مسجد لانے کا پابند بنایا جائے، مسجد میں صرف جماعت کا ہی نہیں بلکہ تکثیر جماعت کا اہتمام ہونا چاہئے۔ (۲)

(۱) إن ابن أم مکتوم أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکان ضریر البصر فشکا إلیہ وسألہ أن یرخص لہ في صلاۃ العشاء والفجر، وقال: إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبینک أشیاء، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہل تسمع الأذان، قال: نعم! مرۃ أو مرتین فلم یرخص لہ في ذلک۔ (المعجم الأوسط، ’’باب من اسمہ: محمود‘‘: ج ۸، ص: ۳۰،الشاملۃ)
(۲) أن صلاۃ الرجل مع الرجل أزکی من صلاتہ وحدہ وصلاتہ مع الرجلین أزکی من صلاتہ مع الرجل وما کثر فہو أحب إلی اللّٰہ تعالیٰ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۶؛ ’’أزکی‘‘ أي أکثر ثواباً۔ (عون المعبود، ’’کتاب الصلاۃ، باب في فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۲)
(۱) ویسقط حضور الجماعۃ بواحد من ثمانیۃ عشر شیئاً مطر وبرد وخوف۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب فصل یسقط حضور الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
(۲) لأن قضاء حق المسجد علی وجہ یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ مکروہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۰)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص353

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف رفع سبابہ عند التشہد کی سنیت کے قائل ہیں۔ اور یہ ثابت من الشریعہ ہے۔
’’الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا یرفعہا عند النفي ویضعہا عند الإثبات۔۔۔۔ الثاني  بسط الأصابع إلی حین الشہادۃ، فیعقد عندہا ویرفع السبابۃ عند النفي ویضعہا عنــد الإثبــات، وہذا ما اعتمد المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحۃ ولصحۃ نقلہ عن أئمتنا الثلاثۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب مہم في عقدالأصابع عند التشہد‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸، زکریا۔
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قعد یدعو وضع یدہ الیمنی علی فخذہ الیمنی ویدہ الیسری علی فخذہ الیسری وأشار بإصبعہ السبابۃ ووضع إبہامہ علی إصبعہ الوسطی ویضم کفہ الیسری رکبتہ‘‘ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ’’باب صفۃ الجلوس في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۲۱۶، رقم:۵۷۹)
عن مالک بن نمیر النخراعي عن أبیہ قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم واضعاً ذراعہ الیمنی علی فخذہ الیمنی رافعاً أصبعہ السبابۃ قدحناہا شیئاً۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الرکوع والسجود، باب الإشارۃ في التشہد‘‘: ج۱، ص:۱۴۲،رقم: ۹۹۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص396

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: فجر کی نماز میں امام کو اتنی مختصر قرأت کی عادت ڈال لینا خلاف سنت ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے کوئی خاص عذر نہ ہو، تو نماز فجر میں سورۃ حجرات سے لے کر، سورہ بروج تک کی سورتوں میں کسی سورت کا پڑھنا مسنون اور مستحب ہے یا کسی اور جگہ سے کم از کم چالیس آیات کا پڑھنا مسنون ومستحب ہے؛(۱) البتہ اگر وقت کی تنگی ہو یا کسی اور ضرورت یا عذر کی بناء پر قرأت مختصر کرے، تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

(و) یسن (في الحضر) لإمام ومنفرد، ذکرہ الحلبي، والناس عنہ غافلون (طوال المفصل) من الحجرات إلی آخر البروج (في الفجر والظہر، و) منہا إلی آخر لم یکن (أوساطہ في العصر والعشاء، و) باقیہ (قصارہ في المغرب) أي في کل رکعۃ سورۃ مما ذکر، ذکرہ الحلبی، واختار في البدائع عدم التقدیر، وأنہ یختلف بالوقت والقوم والإمام۔
وفي حاشیۃ ابن عابدین: (قولہ واختار في البدائع عدم التقدیر إلخ) وعمل الناس الیوم علی ما اختارہ في البدائع، رملی۔ والظاہر أن المراد عدم التقدیر بمقدار معین لکل أحد وفي کل وقت، کما یفیدہ تمام العبارۃ، بل تارۃ یقتصر علی أدنی ما ورد کأقصر سورۃ من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورۃ من قصارہ عند ضیق وقت أو نحوہ من الأعذار، لأنہ علیہ الصلاۃ والسلام قرأ في الفجر بالمعوذتین لما سمع بکاء صبي خشیۃ أن یشق علی أمہ، وتارۃ یقرأ أکثر ما ورد إذا لم یمل القوم، فلیس المراد إلغاء الوارد ولو بلا عذر، ولذا قال في البحر عن البدائع: والجملۃ فیہ أنہ ینبغي للإمام أن یقرأ مقدار ما یخف علی القوم ولا یثقل علیہم بعد أن یکون علی التمام، وہکذا في الخلاصۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘:ج ۲، ص: ۲۵۹، ۲۶۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص194

 

ربوٰ وسود/انشورنس

 

سوال مذکور کا جواب دیا جاچکا ہے، فتوی نمبر 886 دیکھئے۔

Ref. No. 886 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کمیٹی میں کسی کو کم یا زیادہ رقم نہ ملے بلکہ صرف یہ مقصود ہو کہ ہر ایک کو اکٹھی رقم مل جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Death / Inheritance & Will

 

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Your uncle's opinion is not correct. Passing the reward of Quranic recital, tasbeeh and nawafil to the deceased is also approved. And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 37 / 1095

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مولانا وحیدالدین خان صاحب کےبہت سے عقائد ونظریات اہل سنت والجماعت دیوبند کے عقائد ونظریات سے متصادم ہیں، تاہم کسی وحیدی فرقہ کا ہمیں علم نہیں ہے۔ ان کی کتابوں میں جو نظریات ملتے ہیں بہت سے علماء نے ان پر قلم اٹھایا ہے اور ان نظریات کے بطلان کو واضح کیا ہے۔اس سلسلہ میں عرض ہے کہ  جو لوگ رطب ویابس کی تمیز رکھتے ہیں وہی ان کتابوں کو دیکھیں ۔ البتہ عوام کو ان کی کتابیں پڑھنے سے گریز کرنا چاہئے تاکہ ان کےاپنے نظریات متاثر نہ ہوں اورجمہور علماء کے عقائدپر ہی قائم رہیں۔    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 38 / 1199

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مشین سے ذبح کرنے کی واقعی  صورت کا ہمیں علم نہیں ہے ۔  البتہ ذبح میں اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جن رگوں کا کٹنا ضروری ہے وہ تمام رگیں کٹ جائیں اورجانور کے اندر کا  پورا خون  نکل جائے ، نیز ہر جانور کو ذبح کرتے وقت الگ الگ اس پر بسم اللہ پڑھا گیا ہو۔ ایک مرتبہ بسم اللہ پڑھ کر کئی جانور کا ذبح کرنا درست نہیں ہوگا۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 40/873

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حالت احرام میں مردوں کے ٹخنے کھلے رہنے ضروری ہیں اس لئے وہ چپل پہنتے ہیں، لیکن عورتوں کے لئے یہ حکم نہیں ہے؛ عورتیں چپل جوتے جو بھی پہننا چاہیں پہن سکتی ہیں  تاہم ہوائی چپل لیجانے میں  اور اسکی حفاظت میں سہولت ہوتی ہے اس لئے عورتیں بھی اسی کو استعمال کرتی ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/1152

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لغت میں ایمان کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے اور اسلام اطاعت و فرمانبرداری کا، ایمان کا محل قلب ہے اور اسلام کا بھی قلب اور سب عضاء و جوارح ، لیکن شرعا ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعا اس وقت تک معتبر نہیں جب تک زبان سے اس تصدیق کا اظہار اور اطاعت و فرماں برداری کا اقرار نہ کرے اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرماں برداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو۔خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ایمان اور اسلام الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث میں اسی لغوی مفہوم کی بناء پر ایمان اور اسلام میں فرق کا ذکر بھی ہے مگر شرعا ایمان بدون اسلام کے اور اسلام بدون ایمان کے معتبر نہیں (خلاصہ معارف القرآن)۔ عرب کے محقق عالم دین شیخ عثیمن لکھتے ہیں کہ جب لفظ ایمان اور اسلام اکٹھے ہوں تو پھر اسلام سے ظاہر ی اعمال مراد لیے جاتے ہیں جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات اور اعضاء سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والامومن یا کمزور ایمان والامومن بھی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: قالت الاعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما لم یدخل الایمان فی قلوبکم اسی طرح منافق شخص ہے کہ اسے ظاہر ی طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے اور ایمان سے مراد باطنی یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اوریہ کام صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو حقیقی مومن ہے جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم و اذا تلیت علیہم آیاتہ زادتہم ایمانا و علی ربہم یتوکلون، الذین یقیمون الصلاۃ و مما رزقنہم ینفقون اولئک ہم المؤمنون حقا (انفال ۴۲)اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہوگا لہذا ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے (مجموع فتاوی و رسائل عثیمن ۴/۲۹) بہر حال اس طرح کی مختلف تعبیریں حضرات علماء سے منقول ہیں، لیکن اتنی بات طے ہے کہ ایمان کے لیے اسلام ضروری ہے اور اسلام کے لیے ایمان ضروری ہے، انسان کو اپنے ظاہر ی اعمال کے ساتھ باطنی اعمال اور قلبی یقین کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند