اسلامی عقائد

Ref. No. 1214/42-517

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کے بالوں کو سیدھاکرانے کی گنجائش ہے۔ حدیث شریف میں  ہے : من کان لہ شعر فلیکرمہ  (سنن ابوداؤد باب فی اصلاح الشعر ، نعیمیہ دیوبندص 573)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1331/42-738

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرمحلہ والے بلاعذر ایسا کریں گے تو گنہگار ہوں گے، لیکن اگر محلہ والے کسی دوسری جگہ کام کرتے ہیں اور وہیں نماز پڑھ لیتے ہیں تو حرج نہیں، لیکن محلہ میں موجود لوگ جماعت نہیں کریں گے اور گھر پر نماز پڑھیں گے  جبکہ ان کو کوئی  شرعی عذر بھی نہیں ہے  تو گنہگار ہوں گے۔

فاذا ترکھا الکل  مرۃ بلاعذر اثموا (ردالمحتار،باب الامامۃ، زکریا دیوبند، 2/288)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1642/43-1219

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس غلطی سے معنی میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی، اس لئے اس معمولی  اشتباہ سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔لہذا صورت مسئولہ میں نماز درست ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔  

(ومنها) زيادة حرف إن زاد حرفا فإن كان لا يغير المعنى لا تفسد صلاته عند عامة المشايخ هكذا في المحيط وإن غير المعنى نحو أن يقرأ وزرابيب مبثوثة مكان وزرابي تفسد. هكذا في الخلاصة. (الھندیۃ الفصل الخامس فی زلۃ القاری 1/80)

و إن ذكر حرفًا مكان حرف و غير المعني، فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ: الطالحات مكان الصالحات، تفسد صلاته عند الكل، و إن كان لايمكن الفصل بين الحرفين الا بمشقة كالظاء مع الضاد و الصاد مع السين، و الطاء مع التاء، اختلف المشائخ فيه، قال أكثرهم لاتفسد صلاته ... و لو قرأ الدالين بالدال تفسد صلاته ( فتاوی قاضیخان،  كتاب الصلاة، فصل في القراءة في القرآن 1/129)

(ومنها) ذكر حرف مكان حرف إن ذكر حرفا مكان حرف ولم يغير المعنى بأن قرأ إن المسلمون إن الظالمون وما أشبه ذلك لم تفسد صلاته وإن غير المعنى فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مكان الصالحات تفسد صلاته عند الكل وإن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين والطاء مع التاء اختلف المشايخ قال أكثرهم لا تفسد صلاته. هكذا في فتاوى قاضي خان. وكثير من المشايخ أفتوا به قال القاضي الإمام أبو الحسن والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جرى على لسانه أو كان لا يعرف التميز لا تفسد وهو أعدل الأقاويل والمختار هكذا في الوجيز للكردري (الھندیۃ، الفصل الخامس فی زلۃ القاری 1/79)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1737/43-1425

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر قطرات ٹپکنے کی بیماری مسلسل ہے اور اتنا وقفہ نہیں ملتا کہ وقت کی نماز بغیر عذر کے پڑھ سکے تو ایسے معذور شخص کے لئے یہ طریقہ درست ہے، ہر نماز کے لئے اس کو تبدیل کرلیا کرے۔

والمستحاضة هي التي لا يمضي عليها وقت صلاة إلا والحدث الذي ابتليت به يوجد فيه وكذا كل من هو في معناها وهو من ذكرناه ومن به استطلاق بطن وانفلات ريح لأن الضرورة بهذا تتحقق وهي تعمم الكل. (الھدایۃ 1/35)

(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل  - - - (قوله: إحليله) بكسر الهمزة مجرى البول من الذكر بحر (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عاليا عن رأس الإحليل أو مساويا له: أي ما كان خارجا من رأسه زائدا عليه أو محاذيا لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلا عن رأس الإحليل أي غائبا فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر (شامی، سنن الوضوء 1/148)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Hadith & Sunnah

Ref. No. 2244/44-2379

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The art of Tajweed and Qiraat is meant only for the recitation of the Holy Quran. While reading the Holy Quran, the Quranic Phonetics should be observed. There is no need for Tajweed while reading Hadith. However, the hadith should be read clearly and in the Arabic accent, observing the rules of the Arabic language.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ رسمیں ہیں ان سے پرہیز کرنا لازم ہے، کہ بسا اوقات ایسی رسموں میں بے پردگی اور سخت گناہ ہوجاتا ہے۔(۳) البتہ اگر دلہن خود سے یا اس کی کوئی بڑی اس کو بٹنا لگادیں کہ رنگ نکھر جائے اور دولہا کو پسند آجائے، تو اس میں مضائقہ نہیں(۴) نہ اس کا م کے لیے عورتوں کو، محلہ والوں کو، رشتہ داروں کو، اکٹھا کیا جائے، نہ کوئی شیرینی وغیرہ تقسیم کی جائے کہ اس میں نام وری بھی ہے اور رسم ورواج بھی، جس کی وجہ سے ایسا کرنا گناہ ہے ۔(۱)

(۳) {وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّص} (سورۃ النور: ۳۱)
(۴) قیل یا رسول اللّٰہ أي النساء خیر قال: التي تسرہ إذا نظر وتطیعہ إذا أمر ولا تخالفہ فیما یکرہ في نفسہا وما لہ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ-: ج ۱۵، ص: ۳۶، رقم: ۹۵۸۷) (شاملہ:ج۳۱، ص: ۴۱۱، رقم: ۹۶۵۸)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المتباریان لا یجابان ولا یؤکل طعامہا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب النکاح: باب الولیمۃ‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۱۰، رقم: ۳۲۲۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص427

طلاق و تفریق

Ref. No. 2466/45-3769

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اشرف نے زمین کے معاملہ میں زاہد کو وکیل بنایا ہے، لہذا زاہد زمین ہی کے معاملہ میں وکیل شمار ہوگا، بلاکسی وجہ کے اس وکالت کو دوسری جانب موڑنا درست نہیں ہے۔ طلاق کی وکالت کا وسوسہ محض وسوسہ ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اس میں کوئی شبہہ نہ کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہمارے اصحاب کا اگر کوئی قول کسی آیت کے خلاف ہے، تو ظاہر ہے اس کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا ہے کہ ان ماہرین کی نظر یہاں تک نہیں پہونچی ہوگی، بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کو اس آیت کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوگیا تھا؛ اس لئے انھوں نے آیت پر عمل نہیں کیا اور ان کا قول آیت کے بظاہر خلاف ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے وہ آیت کے خلاف نہیں ہے۔ یا بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ دو آیتوں میں تعارض ہوگیا اوران کی تاریخ نزول کا ہمیں علم نہیں تو اب ان میں سے کس پر عمل کیا جائے، اس میں ہمارے اصحاب کا قول یقینا الگ ہوگا اور بظاہر آیت کے خلاف معلوم ہوگا،(۱) حالانکہ جب ان آیتوں پر عمل کرنا تاریخ نزول کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں رہا تو کسی اور قول کا قائل ہونا امر لابدی ہے تاکہ اس سلسلہ میں دیگر نصوص کو ترجیح حاصل ہو  جب اس طرح سے دوسری نصوص کو ترجیح دی جائے گی، تو اس کے نتیجے میں احناف کے قول اور آیت میں تعارض ختم ہوگا اور موافقت کی راہ خود بخود نکل آئے گی۔

(۱) أي بظاہر نفس تلک الآیۃ وإلا فلا یمکن مخالفۃ آیۃ، أو خبر لمسائل أئمتنا الحنفیۃ فإنہم قد استنبطوا مسائلہم من کتاب اللّٰہ عز وجل وسنۃ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وإجماع مجتہدي أمۃ سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، والقیاس الصحیح المأخوذ من الکتاب والسنۃ والإجماع، وما خالف مسائلہم فہو مؤول فتنبہ لذلک ولا تکن من المغترین۔ (قواعد الفقہ حاشیہ ؍ ۱: ج ۱، ص: ۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص153

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اہل سنت والجماعت وہ لوگ ہیں جو توحید ورسالت اور ملائکہ وقرآن وحدیث پر اعتقاد رکھتے ہوں، قیامت وخیر وشر کے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہونے کے قائل ہوں، جماعت صحابہؓ کو برحق سمجھتے ہوں، قرآن وحدیث کی روشنی میں اجماع وقیاس سے مستنبط مسائل کو درست مانتے ہوں، قرآن وحدیث کی تشریحات وصحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین وسلف صالحین کی تشریحات کی موافقت کرتے ہوں؛ اور تشریحات میں عقلیات وظاہر کو ترجیح نہ دیتے ہوں وغیرہ وغیرہ۔ مذکورہ فی السوال لوگ اگر ایسے ہوں، تو اہل سنت والجماعت میں ہیں ورنہ نہیں۔(۱)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیأتین علی أمتي ما أتی علی بني إسرائیل حذو النعل بالنعل حتی إن کان منہم من أتی أمہ علانیۃ، لکان في أمتي من یصنع ذلک، وإن بني إسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ، وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعین ملۃ، کلہم في النار إلا ملۃ واحدۃ، قالوا: ومن ہي یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ قال: ما أنا علیہ وأصحابي۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲،ص: ۹۲، رقم: ۲۶۴۱)  …قال صاحب المرقاۃ: المراد ہم المہتدون المتمسکون بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین من بعدي، فلا شک ولا ریب أنہم ہم أہل السنۃ والجماعۃ، وقیل: التقدیر أہلہا من کان علی ما أنا علیہ وأصحابي من الاعتقاد والقول والفعل، فإن ذلک یعرف بالإجماع، فما أجمع علیہ علماء الإسلام فہو حق وماعداہ باطل۔ (ملا علي القاري، مرقاۃ المفاتیح، کتاب الإیمان‘‘: ج ۲، ص: ۵۹، رقم: ۱۷۱)

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اتبعوا الأعظم: یعبر بہ عن الجماعۃ الکثیرۃ، والمراد ما علیہ أکثر المسلمین قیل: وہذا في أصول الاعتقاد کأرکان الإسلام، وأما الفروع کبطلان الوضوء بالمس مثلاً فلا حاجۃ فیہ إلی الإجماع، بل یجوز اتباع کل واحد من المجتہدین کالأئمۃ الأربعۃ، وما وقع من الخلاف بین الماتریدیۃ والأشعریۃ في مسائل فہي ترجع إلی الفروع في الحقیقیۃ فإنہا ظنیات۔ (ملا علي القاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’لزوم الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۱، رقم: ۱۷۴)

أقول الفرقۃ الناجیۃ ہم الآخذون في العقیدۃ والعمل جمیعاً بما ظہر من الکتاب والسنۃ، وجری علیہ جمہور الصحابۃ والتابعین وإن اختلفوا فیما بینہم فیما لم یشتہر فیہ نص، ولا ظہر من الصحابۃ اتفق علیہ استدلالا منہم ببعض ما ہنالک أو تفسیر المجملۃ۔ (الإمام أحمد المعروف بشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي؛ حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’أبواب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفرقۃ الناجیۃ وغیرہ الناجیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۶)

إن ہذہ المذاہب الأربعۃ المروجۃ المحررۃ قد أجمعت الأمۃ أو من یعقد بہ منہما علی جواز تقلید ہا إلی: یومنا ہذا۔ (’’أیضاً‘‘)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص248

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جب پانی کم ہو یا پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو، تو ابتداء وضو سے ہی کفایت کر کے وضو کا پانی استعمال کرنا چاہئے تاکہ وضو کے درمیان پانی ختم نہ ہو جائے، بہر حال اگر اعضائے وضو دھونے سے قبل پانی بالکل ختم ہو جائے اور اس جگہ یا اس کے قریب پانی موجود نہ ہو یا کسی شرعی عذر کی بنا پر پانی کے استعمال پر وہ قدرت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں تیمم کرنا درست ہے؛ لیکن مکمل تیمم کیا جائے گا مثلاً جس طرح تیمم میں چہرہ اور ہاتھ کا مسح کیا جاتا ہے اسی طرح دونوں اعضاء کا مسح کیا جائے گا اگر اس نے چہرہ دھو لیا تھا تو مسح میں صرف ہاتھ پر اکتفا کرنا جائز نہیں؛ اس لیے کہ اصل اور بدل کا اجتماع درست نہیں ہے، قرآن مجید میں ارشاد باری ہے:
{فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَأَیْدِیْکُمْ مِّنْہُط}(۲)
تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ اس زمین کی جنس پر سے مار کر پھیر لیا کرو۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ولو کان مع المحدث ما یکفی لغسل بعض أعضاء الوضوء فإنہ یتیمم من
غیر غسلہ ہکذا في شرح الوقایۃ‘‘(۱)

(۲) سورۃالمائدہ: ۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الرابع في التیمم الفصل الثالث: في المتفرقات‘‘: ج ۱، ص: ۸۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص369