حدیث و سنت
السلام علیکم۔ حضرت ترمذی میں کوئی ایسی حدیث ہے جسمیں یہ ذکر ہو کی امیر جو ہونا چاہیے وہ قریش میں سے ہو۔ اس امیر سے کیسا امیر مراد ہے اور اسکے لیے کیا شرائط ہے اس وقت ہمارا امیر کون ہے ۔۔ ایک بندہ بولتا ہے کی حضرت مولانا سعد صاحب قریش خاندان میں سے ہے وہ پوری دنیا کے امیر ہے اس کی کیا حقیقت ہے تسلّی فرمائیں۔ انس آگرہ

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1640/43-1285

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گاڑی والے سے فون پر معاملہ طے کرلینے کے بعد آڈتی کی کوشش اور محنت سے گاڑی مل گئی تو اس آڈتی کا اپنا معاوضہ لینا جائز ہے، اور یہ دلالی کے زمرے میں آئے گا۔  آڈتی شخص اگر خود اپنے طور پروہ کام  کرا دیتا ہے اور کچھ بھی طے نہیں کرتا ہے تو اس کا یہ کام اس کی  جانب سے تبرع شمار ہوگا اس پر معاوضہ طلب کرنے کاحق  نہیں۔ تاہم اگر پولس کے ساتھ مل کر آڈتی نے کوئی پلاننگ کی ہو تو یہ درست نہیں ہے۔ 

عن الحکم وحماد عن إبراہیم وابن سیرین قالوا: لا بأس بأجر السمسار إذا اشتری یدا بید۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، في أجر السمسار، موسسۃ علوم القرآن ۱۱/ ۳۳۹، رقم: ۲۲۵۰۰)وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل۔ وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ، … لکثرۃ التعامل۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في أجرۃ الدلال، کراچی ۶/ ۶۳، زکریا ۹/ ۸۷، تاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۱۳۷، رقم: ۲۲۴۶۲)

قال في الشامیۃ عن البزازیۃ: إجارۃ السمسار والمنادی والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ، ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل۔ (شامي، کاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۹/ ۶۴، کراچی ۶/ ۴۷، بزازیۃ، زکریا جدید ۲/ ۲۳، وعلی ہامش الہندیۃ ۵/ ۴۰) وأما الدلال: فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا (تحتہ في الشامیۃ) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو علیہما بحسب العرف۔ (شامي، کتاب البیوع، قبیل مطلب في حبس المبیع لقبض الثمن … زکریا ۷/ ۹۳، کراچی ۴/ ۵۶۰، تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ۱/ ۲۴۷)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1730/43-1428

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید کا مذکورہ معمول درست نہیں ہے۔ مسجد کی پہلی جماعت کے ساتھ ہی سب کو باجماعت نماز اداکرنی چاہئے،  درس حدیث بعد نمازبھی  جاری  رکھ سکتے ہیں۔  مسجد میں ایک مرتبہ جماعت ہوجانے کے بعد اس میں دوبارہ جماعت  کرنا مکروہ ہے۔ اور اس کا معمول بنالینا اور بھی زیادہ بُرا ہے۔

عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله ﷺ ، إذا دخلوا المسجد، وقد صلي فیه، صلوافرادي‘‘. (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، ولا یجمعون. مؤسسة علوم القرآن جدید ۵/۵۵، رقم:۷۱۸۸)

لأن التکرار یؤدی إلی تقلیل الجماعة لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فیستعجلون فتکثرالجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم یتأخرون فتقل الجماعة وتقلیل الجماعة مکروه‘‘. (بدائع،کتاب الصلاة، فصل في بیان محل وجوب الأذان ۱/۱۵۳

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2175/44-2295

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 'تجھ سے میرا رشتہ ختم' یہ کنائی الفاظ میں سے ہے، اور کنائی الفاظ سے طلاق واقع ہونے کے لئے نیت شرط ہے، اس لئے اگر شوہر نے یہ جملہ کہتے ہوئے طلاق کی نیت کی تھی تو ایک طلاق بائن  واقع ہوگئی۔ میاں بیوی دوبارہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ شوہر کو خیال رہے کہ آئندہ صرف دو طلاق کا اختیار رہے گا۔ 

"ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى." (فتاوى ہندیہ كتاب الطلاق، الباب الثاني في ايقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:375، ط:رشيديه)

"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.

(قوله: وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق." (فتاوی شامی كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:297،296، ط:سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس تقریب میں اگر رسم ورواج کا دخل نہ ہو اور ایصال ثواب کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع نہ کیا گیا ہو، بس لوگ جمع ہیں، مٹھائی شربت وغیرہ شادی کی وجہ سے ہے توایصال ثواب کے لیے تلاوت میں کوئی حرج نہیں ہے؛ البتہ اگر بطور رسم دعوت دے کر قرآن خوانی کے لیے جمع کیا گیا تو درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ للقوم أن یقرؤوا القرآن جملۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلوٰۃ والتسبیح وقراء ۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص425
 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اجماع حجت شرعیہ فرعیہ ہے، اسے ماننا یقینا ضروری ہے لیکن منکر خارج از ایمان نہیں ہے(۲) اور اہل حدیث کو بھی خارج از ایمان کہنا غلط ہے، لیکن قادیانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے منکر ہیں؛ اس لیے کافر ہیں۔(۳)

(۲) إجماع الأمۃ موجب للعلم قطعاً کرامۃ علی الدین لانقطاع توہم إجتماعہم علی الضلالۃ الخ۔ (المدخل إلی الفتاوی علی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۳۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص146

عائلی مسائل

Ref. No. 2594/45-4093

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    نکاح کے ایجاب و قبول کے نتیجہ میں شوہر پر بیوی کے حقوق اور بیوی پر شوہر کے حقوق واجب ہوجاتے ہیں، ان میں سے جو بھی دوسرے کی حق تلفی کرے گا، حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا، گہنگار ہوگا، اس لئے اگر شوہر بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ گنہگار، اور ملامت کا مستحق  ہوگا۔ بیوی اگر پریشان ہواور علیحدگی چاہتی ہو تو کسی شرعی دارالقضاء میں فسخ نکاح کا دعوی کرسکتی ہے۔

فقال سبحانه وتعالى : ( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ"أي : ولهن على الرجال من الحق مثل ما للرجال عليهن ، فليؤد كل واحد منهما إلى الآخر ما يجب عليه بالمعروف۔ (ابن كثير رحمه الله "تفسير القرآن العظيم" (1/363)

عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في خطبته في حجة الوداع :  (فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ ، فَإِنَّكُم أَخَذتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ ، وَاستَحلَلتُم فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ ، وَلَكم عَلَيهِنَّ أَنْ لا يُوطِئْنَ فُرُشَكُم أَحَدًا تَكرَهُونَهُ ، فَإِن فَعَلنَ ذَلِكَ فَاضرِبُوهُنَّ ضَربًا غَيرَ مُبَرِّحٍ ، وَلَهُنَّ رِزقُهُنَّ وَكِسوَتُهُنَّ بِالمَعرُوفِ)  (صحيح مسلم [1218])

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2637/45-4041

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسبوق ہو يا مدرک ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال کے وقت تکبیر کہے گا۔

’’عن عبد اللہ بن مسعود قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکبر فی کل خقض ورفع وقیام وقعود وابوبکر وعمر‘‘ (ترمذی، ’’باب ما جاء فی التکبیر عند الرکوع والسجود‘‘: ص: ٩٥)

’’ثم رفع رأسہ مکبرا النہوض بلا اعتماد علی الارض بیریہ وبلا تعود‘‘ (نور الایضاح: ص: ٦٧)

فاذا اطمأن ساجدا کبر واستون قائما علی صدر قدمیہ‘‘ (ہدایۃ: ج ١، ص: ١١٠)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مینگنی اگر چاول میں صحیح سالم ہے، تو اس کے آس پاس کے کچھ دانوں کے علاوہ پورے چاولوں کا کھانا درست ہے اور اگر مینگنی چاولوں میں گھل گئی ہے، تو پھر پورے چاولوں کا کھانا درست نہیں ہے، کیونکہ چوہے کی مینگنی ناپاک ہے۔
کبیری میں ہے:
’’وبول الحمار، وخرء الدجاج، والبط، وکذا خرء الأوز والجباریٰ وما أشبہ ذلک مما یستحیل إلی نتن وفساد نجس بنجاسۃ غلیظۃ إجماعا‘‘(۱)
’’قال العلامۃ الحلبي، لو وقع بعر الفأرۃ في الحنطۃ فطحنت حیث لا ینجس ما لم یظہر أثرہ في الدقیق إذا الضرورۃ ہناک أشد حتی أن کثیراً ما یفرخ فیہا والاحتراز عنہ متعذر … والاحتراز عنہ ممکن في الماء غیر ممکن في الطعام والثیاب فیعفی عنہ فیہما الخ‘‘(۲)
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’الحاصل أن ظاہر الروایۃ نجاسۃ الکل لکن الضرورۃ متحققۃ في بول الہرّۃ في غیر المائعات کالثیاب وکذا في خرء الفأرۃ في نحو الحنطۃ دون الثیاب والمائعات … لکن عبارۃ التاترخانیۃ بول الفأرۃ وخرؤہا نجس‘‘(۳)

(۱) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الأنجاس‘‘: ج۱،ص: ۱۲۹، ۱۳۰۔(دارالکتاب دیوبند)
(۲) أیضاً: ص: ۱۳۱۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مبحث في بول الفأرۃ وبعرہا وبول الہرۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص63

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :حدیث میں ہے: عن المغیرۃ بن شعبۃ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسح علی الخفین فقلت یا رسول اللہ أنسیت؟ قال بل أنت نسیت بہذا أمرني ربي عز و جل۔(۲) عن المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللہ عنہ قال رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یمسح علی الخفین وقال غیر محمد علی ظہر الخفین،(۳) عن ابن عباس رضي اللہ عنہ قال: أشہد لقد علمت أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم مسح علی الخفین(۴) (مذکورہ تینوں) احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خفین پر مسح کرنا ثابت ہے اور خفین کا اطلاق محدثین اور فقہاء کے یہاں چمڑے کے موزوں پر ہوتا ہے۔ کما لا یخفي علی من ینظر کلام الفقہاء و المحدثین؛ لہٰذا اگر چمڑے کے موزے ہوں، تو ان پر بلا کسی اختلاف کے مسح جائز ہے اور اگر چمڑے کے موزے نہ ہوں؛ بلکہ سوت یا اون  کے موزے ہوں، تو فقہاء نے ایسے موزوں پر جواز مسح کے لیے درج ذیل شرطیں تحریر فرمائی ہیں ۔
یجوز المسح علیہ لو کان ثخیناً بحیث یمکن أن یمشي معہ فرسخا من غیر تجلید و تنعیل، و إن کان رقیقاً فمع التجلید أو التنعیل۔ (۱)
ایک وہ موزہ جو ایسے دبیز، موٹے اور مضبوط ہوں کہ ان کو پہن کر تین میل پیدل چلا جا سکے دوسرے یہ کہ پنڈلی پر بغیر باندھے (کپڑے کے موٹا ہونے کی وجہ سے) پیر پر ٹھہر سکتے ہوں تیسرے یہ کہ ان میں پانی نہ چھنے اور جذب ہوکر پاؤں تک نہ پہونچے اگر سوت یا اون کے ایسے ہی موزے ہوں، تو ان پر مسح کرنا جائز ہے؛ اس لیے کہ ایسے موزے چمڑے کے موزے کے حکم میں آجاتے ہیں، نائلون کے موزے اول تو دبیز نہیں ہوتے؛ بلکہ بالکل رقیق ہوتے ہیں، ان کو پہن کر تین میل چلنا مشکل ہے، پھٹ جانے کا اندیشہ ہے اور اگر نہ بھی پھٹیں، تب بھی ان میں یہ کمی ہے کہ اگر ان پر پانی ڈالا جائے، تو جذب ہوکر پیر تک چلا جاتا ہے اس لیے ایسے نائلون کے موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ مجمع الأنہر میں ہے:  و اجمعوا علی أنہ لو کان منعلاً أو مبطنا یجوز   و لو کان من الکرباس لا یجوز المسح علیہ، و إن کان من الشعر فالصحیح أنہ إن کان صلباً مستمسکاً یمشي معہ فرسخاً أو فراسخ۔(۲)

(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین‘‘ ج۱، ص:۲۱، رقم : ۱۵۶
(۳) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب کیف المسح‘‘ ج۱، ص: ۲۲، رقم :۱۶۱(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۴)أخرجہ البزاز ، في مسندہ، ج۳، ص:۱۱۳، رقم:۷۴۳۰(مؤسسۃ الرسالۃ ، القاھرۃ)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۴۳۸
(۲) الحصفکي، مجمع الأنہر في شرح ملقتی الٔابہر، ’’کتاب الطہارۃ، المسح علی الجبیرۃ،‘‘ ج۱، ص:۷۵(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص274