Islamic Creed (Aqaaid)
Oferta Ideal is a Brazilian startup, founded in June 2019, which provides hundreds of discount coupons on its platform to be used in the largest ecommerce stores in the country With an increase in internet sales in Brazil Lean more information here https://cupons.ofertaideal.com.br/

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1718/43-1388

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔عام حالات میں مسجد میں جماعت سے نماز ادا کرنا مردوں کے لئے حکماً واجب ہے۔ بلاعذر جماعت ترک کرنے پر احادیث میں سخت وعید وارد ہے۔ بلاعذر جماعت ترک کرنےپر اصرارکرنےوالا  گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق ہے۔

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب فيحطب، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها، ثم آمر رجلاً فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال. وفي رواية: لايشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقًا سمينًا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء". رواه البخاري ولمسلم نحوه) "وَعنِ ِابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْه وَسَلَّمَ: مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِیَ فَلَمْ یَمْنَعْه مِن اتِّبَاعِه عُذْرٌ، قَالُوْا: وَمَا الْعُذْرُ؟ قَالَ: خَوْفٌ أَوْ مَرَضَ لَمْ تُقْبَلْ مِنْه الصَّلاة الَّتِي صَلَّی(أبوداؤد والدارقطني)

"قلت دلالته علی الجزء الأول ظاهرة حیث بولغ في تهدید من تخلّف عنها وحکم علیه بالنفاق، ومثل هذا التهدید لایکون إلا في ترك الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعة لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما هم رسول اﷲ ﷺ بإضرام البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنهم صلوها بالجماعة في بیوتهم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعة، فمن صلاها بجماعة في بیته أتی بواجب وترك واجبًا آخر ... و أما مایدل علی وجوبها في المسجد فإنهم اتفقوا علی أن إجابة الأذان واجبة لما في عدم إجابتها من الوعید ...".( اعلاء السنن،4/186 باب وجوب إتیان الجماعة في المسجد عند عدم العلة) ۔ ۔ ۔ "قلت: وهذا صریح في أن وجوب الجماعة إنما یتأدی بجماعة المسجد لا بجماعة البیوت ونحوها، فما ذکره صاحب القنیة اختلف العلماء في إقامتها في البیت، والأصح أنها کإقامتها في المسجد إلا في الفضیلة، وهو ظاهر مذهب الشافعي اهـ. کذا في حاشیة البحر لابن عابدین لایصح مالم ینقل نقلًا صریحًا عن أصحاب المذهب ویرده ماذکرنا من الأحادیث في المتن، فالصحیح أن الجماعة واجبة مع وجوب إتیانها في المسجد، ومن أقامها في البیت وهو یسمع النداء فقد أساء وأثم" (اعلاء السنن، 4/188)

قوله: وذكر هو وغيره إلخ ) قال في النهر: وفي المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة، وهذا معنى قول بعضهم: تسميتها واجبة، وسنة مؤكدة سواء، إلا أن هذا يقتضي الاتفاق على أن تركها بلا عذر يوجب إثمًا مع أنه قول العراقيين، والخراسانيون على أنه يأثم إذا اعتاد الترك، كما في القنية ا هـ . وفي شرح المنية للحلبي: والأحكام تدل على الوجوب من أن تاركها من غير عذر يعزر وترد شهادته ويأثم الجيران بالسكوت عنه، وهذه كلها أحكام الواجب، وقد يوفق بأن ترتيب الوعيد في الحديث، وهذه الأحكام مما يستدل به على الوجوب مقيد بالمداومة على الترك، كما هو ظاهر قوله عليه السلام: {لايشهدون الصلاة} وفي الحديث الآخر: {يصلون في بيوتهم} كما يعطيه ظاهر إسناد المضارع، نحو بنو فلان يأكلون البر أي عادتهم فيكون الواجب الحضور أحيانًا، والسنة المؤكدة التي تقرب منه المواظبة عليها وحينئذ فلا منافاة بين ما تقدم وبين قوله عليه السلام: {صلاة الرجل في الجماعة تفضل على صلاته في بيته أو سوقه سبعًا وعشرين ضعفًا} ا هـ . (قوله: إذا تركها استخفافًا) أي تهاونًا وتكاسلًا، وليس المراد حقيقة الاستخفاف الذي هو الاحتقار فإنه كفر (قوله: حتى لو صلى في بيته بزوجته إلخ ) سيأتي خلافه عن الحلواني من أنه لاينال الثواب ويكون بدعةً ومكروهًا" (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ (3 / 385)

والجماعة سنة موٴکدة للرجال … وأقلھا اثنان، …وقیل: واجبة و علیہ العامة أي: عامة مشایخنا وبہ جزم في التحفة وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرتہ تظھر في الإثم بترکھا علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاة بالجماعة من غیر حرج، (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲: ۲۸۷- ۲۹۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ قولہ:”من غیر حرج“ قید لکونھا سنة موٴکدة أو واجبة فبالحرج یرتفع الإثم ویرخص في ترکھا الخ ونقل عن الحلبي أن الوجوب عند عدم الحرج وفي تتبعھا فی الأماکن القاصیة حرج لا یخفی (رد المحتار)۔ قولہ: ”وسن موٴکداً“:أي: استنانا موٴکداً بمعنی أنہ طلب طلباً موٴکداً زیادة علی بقیة النوافل، ولھذا کانت السنة الموٴکدة قریبة من الواجب في لحوق الإثم کما فی البحر، ویستوجب تارکھا التضلیل واللوم کما فی التحریر، أي: علی سبیل الإصرار بلا عذر کما في شرحہ (المصدر السابق، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲:۴۵۱)۔

فی التلویح: ترک السنة الموٴکدة قریب من الحرام یستحق حرمان الشفاعة اھ ومقتضاہ أن ترک السنة الموٴکدة مکروہ تحریماً لجعلہ قریباً من الحرام، والمراد بھا سنن الھدی کالجماعة والأذان والإقامة؛ فإن تارکھا مضلل ملوم کما فی التحریر، والمراد الترک علی وجہ الإصرار بلا عذر (المصدر السابق، أول کتاب الحظر والإباحة، ۹: ۴۸۷)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1918/43-1805

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس  غلطی سے معنی میں کوئی ایسی خرابی پیدا نہیں ہوئی جو مفسد صلوۃ ہو، اس لئے نماز فاسد نہیں ہوئی ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند  


 

 

متفرقات

Ref. No. 2168/44-2274

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی سفید فرد کو دیکھنا روحانیت کی دلیل ہے، یعنی ذکر واذکار کا جو بھی آپ کا معمول ہے اس کی وجہ سے جنات یا فرشتہ رحمت کی شکل میں ایک روحانی شیئ آپ پر متوجہ وملتفت ہے۔ نیز دو کمروں کا نظر آنا اس طرف اشارہ ہے کہ کبھی کبھی آپ کا خیال سابقہ مذہب کی طرف چلاجاتاہے۔ اور چہرہ صاف نظر نہ آنا یا ارد گرد سانپ کا نظر آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذکر و اذکار یا اعمال میں کوئی نقص واقع ہورہاہے۔ اس لئے آپ اخلاص کے ساتھ کثرت سے استغفار کریں، ادعیہ واذکار نیز اعمال صالحہ پر مداومت اختیار کریں،۔ اللہ  تعالی ہم سب کے ایمان اور اعمال کی حفاظت فرمائے۔آمین

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2338/44-3519

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سودی رقم کا اپنے استعمال میں لانا حرام ہے، اس لئے جو لوگ سودی رقم بینک  سے وصول کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ سودی رقم غریبوں کو بلانیت ثواب دیدیں، اور اس مقصد کے لئے اگر مدرسہ والے لوگوں سے سودی رقم وصول کرکے مستحق لوگوں تک پہنچائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لہذا مدرسہ والے ان لوگوں سے سودی رقم لے کر غریب بچوں  کو دے سکتے ہیں یا  کھانے پینے کی چیزیں خریدکر غریب بچوں  میں  تقسیم کرسکتے ہیں ۔

قال ابن عابدین نقلاً عن النہایة: ویردونھا علی أربابھا إن عرفوھم، وإلا تصدقوا بھا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار: ۹/۴۷۰، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فيالبیع، ط، دار إحیاء التراث العربي، بیروت) وقال القرطبي: إن سبیل التوبة مما بیدہ من الأموال الحرام إن کانت من ربا فلیردہا علی من أربی علیہ، ویطلبہ إن لم یکن حاضرًا، فإن أیِسَ من وجودہ فلیتصدّق عنہ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی: ۳/۲۴۸، البقرة: ۲۷۶، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) وقال البنوري: قال شیخنا: ویُستفادُ من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہ: أن من ملک بملکٍ خبیثٍ، ولم یمکنہ الردُّ إلی المالک، فسبیلہ التصدق علی الفقراء - والظاہرُ أن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغَ ذمتہ ولا یرجو بہ المثوبة، نعم یرجوہا بالعمل بأمر الشارع، وکیف یرجو الثوابَ بمال حرام ویکفیہ أن یخلص منہ کفافًا رأسًا برأس (معارف السنن: ۱/۳۴، أبواب الطہارة، باب ما جاء لا تقبل صلاة بغیر طہور، ط: دار الکتاب، دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کا ثبوت نہیں کہ غسل کے بعد ہی احوال برزخ شروع ہوجاتے ہیں، بہر حال چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقبل عثمان بن مظعون وہو میت حتی رأیت الدموع تسیل۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الجنائز: باب في تقبیل المیت‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۱، رقم: ۳۱۶۳)
جابر بن عبد اللّٰہ، قال: لما قتل أبي جعلت أبکي، وأکشف الثوب عن وجہہ، فجعل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہوني والنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم ینہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب المغازي: باب من قتل من المسلمین یوم أحد‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۴، رقم: ۴۰۸۰)
عن الزہري، قال: أخبرني أبو سلمۃ أن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخبرتہ، قالت: أقبل أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ علی فرسہ من مسکنہ بالسنح حتی نزل، فدخل المسجد، فلم یکلم الناس حتی دخل علی عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، فتیمم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو مسجي ببرد حبرۃ، فکشف عن وجہہ، ثم أکب علیہ، فقبلہ، ثم بکي۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: باب الدخول علی المیت بعد الموت‘‘: ج ۲، ص:۱ ۷۱، رقم: ۱۲۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص412

حج و عمرہ

Ref. No. 2407/44-3629

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ میں رمی جمرات کا وقت زوال سے شروع ہوتاہے، زوال سے پہلے رمی صحیح نہیں ہوتی ہے، لہذا اگر آپ نے بارہویں ذہ الحجہ کی رمی زوال سے پہلے کرلی، اور صبح صادق سے پہلے  اس رمی کا اعادہ نہیں کیا تو آپ پر ایک دم واجب ہے،۔ (انوار مناسک ص487)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2518/45-3850

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں  جب شوہر نے تین بار طلاق کا لفظ بول دیا توشرعا  تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور عورت اپنے شوہر کے لئے حرام ہوگئی۔ عدت گزرنے کے بعد عورت کو مکمل اختیار ہے کہ  اگر وہ چاہے تو کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی آیت ہے {وأزواجہ أمہاتہم}(۴) اس آیت میں صراحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات مؤمنوں کی مائیں ہیں اور حضرت خدیجہ ودیگر ازواج کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ہونا مشہور احادیث سے ثابت ہے
 اس لئے صورت مسئولہ میں قرآن کی صراحت کی بنا پر مذکورہ شخص ایمان کے دائرہ سے خارج ہوگیا ان پر تجدید ایمان وتجدید نکاح ضروری ہے۔(۱)

(۴) سورۃ الأحزاب: ۸۔
(۱)وقولہ: {وأزواجہ أمہاتہم} قال الطبري: وحرمۃ أزواجہ حرمۃ أمہاتہم علیہم في أنہن یحرم علیہن نکاحہن من بعد وفاتہ، کما یحرم علیہم نکاح أمہاتہم۔ (محمد طبري، جامع البیان في بیان تأویل القرآن، ’’سورۃ الأحزاب‘‘: ج ۲۰، ص: ۲۰۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص231

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:صوفہ پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ اس کو پانی سے دھویاجائے اور ہر مرتبہ کے بعد اتنی دیر چھوڑدیاجائے کہ پانی ٹپکنا بندہوجائے اور اگر تر کپڑا نجاست لگی جگہ پر پھیردیاجائے تو بھی صوفہ پاک ہوجاتا ہے۔ (۲)

(۲)و عند أبي یوسف ینقع في الماء ثلاث مرات و یجفف في کل مرۃ إلا أن معظم  … النجاسۃ قد زال فجعل القلیل عفوا في حق جواز الصلوۃ للضرورۃ الخ۔ (علاء الدین الکاساني،بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الطہارۃ، فصل :و أما بیان ما یقع بہ التطہیر،ج۱، ص:۲۴۲)؛ و النجاسۃ الحقیقیۃ المرئیۃ إزالۃ عینھا، و في غیر المرئیۃ غسل محلھا ثلاثاً، والعصر في کل مرۃ: إن کان مما ینعصر، والتجفیف في کل مالا ینعصر الخ۔  قدر (بتثلیث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غیرہ) أي: غیر منعصر مما یتشرب النجاسۃ وإلا فبقلعہا۔’’في حاشیۃ الواني علی الدرر. (قولہ: أي: غیر منعصر) أي: بأن تعذر عصرہ کالخزف أو تعسر کالبساط‘‘ (ابن نجیم، البحر الرائق، شرح کنز الدقائق، ج۱، ص:۱۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص439