نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے جو اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں وہ بھی کراہت تحریمی کا ارتکاب کرتے ہیں اس کو ہر گز امام نہ بنایا جائے اس کو امام بنانے والے کراہت تحریمی کے مرتکب ہوں گے۔(۲)
(۲)یکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن (قولہ ویکرہ) أي تحریما لقول الکافي: لا یجوز، والمجمع لا یباح، وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي (قولہ بأذان وإقامۃ إلخ) ۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعا۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸)
ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ، وإذا علموا أنہا لا تفوتہم یتأخرون فتقل الجماعۃ وتقلیل الجماعۃ مکروہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والإقامۃ للفائتۃ، ج۱، ص:۳۸۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 481

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جمعہ کے دن اذان ثانی کا جواب زبان سے نہیں دینا چاہئے؛ البتہ دل میں جواب دے دے تو درست ہے، ’’وینبغي أن لا یجیب بلسانہ اتفاقا في الأذان بین یدی الخطیب‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، ج۲، ص: ۷۰۔
وینبغي أن یقال لا تجب یعني بالقول بالإجماع للأذان بین یدي الخطیب وتجب بالقدم بالاتفاق للأذان الأول یوم الجمعۃ لوجوب السعي بالنص۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۲۰۲، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص129

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جو قے منہ بھر ہو وہ نجاست غلیظہ ہے۔ مراقی الفلاح میں ہے۔ درہم سے کم ہوتو معاف ہے صورت مسئولہ میں ناپاک قے امام صاحب کے کپڑے کو لگ گئی اورامام صاحب کا کپڑا ناپاک ہو گیا اس لیے نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔(۱)

(۱) وما ینقض الوضوء بخروجہ من بدن الإنسان۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ص: ۵۴)
وعفي قدر الدرہم من مغلظۃ۔ (ایضًا:)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص259

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز فجر کے دوران طلوع آفتاب کی وجہ سے نماز باطل ہو گئی بعد میںاس کی قضاء لازم ہے۔
’’عن عقبۃ بن عامر الجہني یقول: ثلاث ساعات کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہانا أن نصلی فیہن أوأن نقبر فیہنّ موتانا: حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع الخ۔‘‘(۲)
’’قولہ بخلاف الفجر أي فإنہ لا یؤدي فجر یومہ وقت الطلوع، لأن وقت الفجر کلّہ کامل فوجبت کاملۃ فتبطل بطروِّالطلوع الذي ہو وقت فساد‘‘(۱)
’’لا یتصور أداء الفجر مع طلوع الشمس عندنا حتی لو طلعت الشمس وہو في خلال الصلاۃ تفسد صلاتہ عندنا‘‘(۲)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب: الأوقات التي نہی عن الصلاۃ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۶، رقم: ۸۳۱، نعیمیہ دیوبند۔)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳، زکریا۔)
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان الوقت المکروہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۹، زکریا۔
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص87

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جہری نمازوں میں جہر اور سری نمازوں میں سر کی تعیین حکمت الٰہی پر مبنی ہے؛ اس لیے کہ مغرب، عشاء اور فجر میں شواغل سے سکون و آرام ہوتا ہے۔
اصوات و حرکات میں خاموشی ہوتی ہے۔ ان اوقات میں افکار بھی کم ہوتے ہیں لہٰذا ایسے اوقات کی قرأت قلوب میں زیادہ مؤثر ہوتی ہے؛ کیوں کہ قلوب افکار و ہجوم سے خالی اور صاف ہوتے ہیں اور کان شواغل، حرکات واصوات کے نہ ہونے سے سننے اور سمجھنے پر زیادہ آمادہ ہوتے ہیں اس سے رات کی کہی ہوئی بات کانوں سے گزر کر سیدھی دل پر اثر انداز ہوتی ہے اور قرآن کریم نے اس امر کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ {إِنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْلِ ہِیَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِیلًا}(۲) یعنی رات کے اُٹھنے سے نفس خوب پامال ہوتا اور کچلا جاتا ہے اور کہی ہوئی بات دل پر مؤثر ہوتی ہے اور قلب میں بیٹھ جاتی ہے اور مشاہدہ بھی اس پر دال ہے کہ خوش الحان آدمیوں ، پرندوں اور باجوں وغیرہ کی آوازیں بنسبت دن کے رات کو زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہیں؛ لہٰذا ان اوقات میں جہری قرأت مقرر کی گئی جن میں وہ زیادہ مؤثر ہو۔ اسی طرح ظہر وعصر کی نمازوں میں قرآن سراً پڑھنے میں یہ حکمت ہے کہ دن میں بازاروں اور گھروں میں شور و شغب ہوتا ہے اور کثرت شواغل۔ اصوات و حرکات اور متفرق امور سے دلوں کو فراغت کم ہوتی ہے اور بات پر پوری توجہ نہیں ہو پاتی اس طرف قرآن کریم نے یوں اشارہ فرمایا ہے۔ {إِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیلاً}(۱) یعنی دن میں تجھ کو دور دراز کا شغل رہتا ہے اس لیے ان اوقات  یعنی ظہر و عصر میں سِری قراء ت کا حکم ہے۔ مغرب کے وقت کچھ سکون ہوتا ہے اس لیے مختصر قراء ت ہوتی ہے وہی سنت ہے۔ عشاء میں سکون کچھ زیادہ ہوتا ہے تو مغرب سے کچھ زائد قراء ت مسنون ہوئی اور فجر میں قلوب بالکل خالی اور آوازوں کا بازار بالکل معطل ہوتا ہے اس لیے تمام نمازوں سے زیادہ قراء ت مسنون ہے اور سب سے پہلی آواز قرآنی آواز کانوں میں پڑتی ہے ان حکمتوں کی طرف خود قرآن کریم اشارہ کرتا ہے نیز یہ تعیین قرأ ت من جانب الشارع لازم ہے اس میں تغیر و تبدل کسی شخصی بنیاد پر ممکن بھی نہیں ہے۔(۲)

(۲) سورۃ المزمل: ۶۔
(۱) سورۃ المزمل: ۷۔
(۲) السرّ في مخالفتہ الظہر والعصر أن النہار مظنۃ الصخب واللغط في الأسواق والدور وأما غیرہما فوقت ہدوء الأصوات والجہر أقرب الی تذکر القوم واتعاظہم۔ (الشاہ ولي اللّٰہ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ج ۲، ص: ۱۵، دارالجیل القاہرۃ، ۲۰۰۵ء؁){وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا}  (سورۃ الإسراء: ۱۱۰)
والأصل أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یجہر بالقرائۃ في الصلاۃ کلہا في الابتداء وکان المشرکون یؤذونہ فانزل اللّٰہ تعالیٰ {وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا) أي لا تجھر بصلاتک و لا تخافت بھا کلھا( وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا} بأن تجہر بصلاۃ اللیل، وتخافت بصلاۃ النہار فکان یخافت بعد ذلک في صلاۃ الظہر والعصر، لأنہم کانوا مستعدین الإیذاء في ہذین الوقتین، ویجہر في المغرب لأنہم کانوا مشغولین بالأکل وفي العشاء والفجر، لأنہم کانوا رقوداً (نائمین)، وجہر بالجمعۃ والعیدین لأنہ أقامہا بالمدینۃ وما کان للکفار بہا قوۃ الإیذاء، وہذا العذر وإن زال بکثرۃ المسلمین، فبقیت ہذہ السنۃ، لأن بقاء الحکم یستغنی عن بقاء السبب، اھـ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’أبواب القراء ۃ باب وجود الجہر في الجہریۃ والسرّ في السرّیۃ‘‘: ج۴، ص: ۵، مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص206

 

کھیل کود اور تفریح

Ref. No. 1267

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  موبائل میں  آوازریکارڈ کرنا اور اس کا سننا درست ہے۔ لیکن ویڈیوگرافی اور تصویرکشی درست نہیں ہے، اس لئے مبارک مجلسوں میں خاص طور سے اس سے اجتناب لازم ہے۔ جہاں غیرشرعی امور ہوتے ہیں وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، اس لئے فوٹوگرافی سے اجتناب کرنے کی بات اور اس پر ڈانٹنا درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 37 / 1113

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: جائز ہے، مگر عادت بنالینا  مناسب   نہیں ہے۔    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 39 / 0000

In the name of Allah the Most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The watery discharge from the vagina after urination or other times nullifies the wudhu and not Ghusl. So you have to just do wudhu and perform namaz.

And Allah Knows Best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/1147

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ مسئلہ میں تین طلاق سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ مرد اپنی زوجہ کو ایک طلاق دے کر اس سے الگ رہے، رجعت نہ کرے، عدت پوری گزرجانے دے،  عدت گذرجانے کے بعدوہ عورت اس سے فون پر بات کرلے تو اس طرح تعلیق ختم ہوجائے گی۔ پھر عورت سے نکاح جدید کرلے۔ فحیلۃ من علق الثلاث بدخول الدار ان یطلقھا واحدۃ ثم بعد المدۃ تدخلھا فتنحل الیمین  فینکحھا۔ (شامی ج4ص609)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1045

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

It is allowable, but woman can only join in chatting not through audio or video calling.

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband