Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کتب تفاسیر اور احادیث کی صحیح روایات سے ثابت ہے کہ ہر خطہ زمین کے بسنے والوں کی ہدایت اور عقائد کی درستگی اور اصلاح حال کے لئے انبیاء کرام مبعوث ہوئے ہیں تو ہندوستان کیوں محروم رکھا جاتا ہے اولیاء عارفین و اصحاب کشف نے بعض مقامات پر نور کی روشنی محسوس کرکے بتلایا بھی ہے کہ یہاں نبی کی قبر معلوم ہوتی ہے یا یہ کہ یہاں نبی کا آنا محسوس ہوتا ہے۔ بعض مفسرین کتب نے یہ بھی لکھا کہ ذوالکفل جن کا تذکرہ قرآن پاک میں ہے نبی تھے جنہوں نے بخارا کابل سے لے کر مغربی ہندوستان اور چین کے علاقہ تک تبلیغ کی۔ رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں یہود ونصاریٰ توریت وانجیل کی روشنی میں جن انبیاء اور رسل کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرتے تھے۔ انہی کے نام قرآن پاک میں موجود ہیں ورنہ انبیاء علیہم السلام کی تعداد مفسرین نے ایک لاکھ سے زائد لکھی ہے۔(۱)فقط: واللہ اعلم بالصواب
(۱) {إِنَّآ أَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ط وَإِنْ مِّنْ أُمَّۃٍ إِلَّا خَلاَ فِیْھَا نَذِیْرٌہ۲۴} (سورۃ الفاطر: ۲۴)
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُوْلًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَج} (سورۃ النحل: ۳۶)
{وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًاہ۱۵} (سورۃ الإسراء: ۱۵)
{ذٰلِکَ أَنْ لَّمْ یَکُنْ رَّبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّأَھْلُھَا غٰفِلُوْنَ ہ۱۳۱} (سورۃ الانعام: ۱۳۱)
{وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰھُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْھُمْ عَلَیْکَط} (سورۃ النساء: ۱۶۴)
وعن الإمام أحمد عن أبي أمامۃ قال أبو ذرِّ: قلت یا رسول اللّٰہ کم وفاء عدۃ الأنبیاء-علیہم السلام-؟ قال: مائۃ ألف وأربعۃ وعشرون ألفا الرسل من ذلک ثلاث مائۃ وخمسۃ عشر جما غفیراً۔ (ملا علي قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب أحوال القیامۃ، باب بدؤ الخلق وذکر الأنبیاء -علیہم السلام-، الفصل الثالث‘‘: ج ۱۰، ص: ۴۱۷، رقم:۵۷۳۷)
إن عدد دہم لیس بمعلوم قطعاً، فینبغي أن یقال: آمنت بجمیع الأنبیاء أولہم آدم وآخرہم محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- معراج، فلا یجب اعتقاد أنہم مأۃ ألف وأربعۃ وعشرون ألفا، وأن الرسل منہم ثلاث مأۃ وثلاثۃ وعشرون لأنہ خبر آحاد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في عدد الأنبیاء والرسل -علیہم السلام-‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص215
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنا قرآن وحدیث یا آثار صحابہؓ اور تعامل تابعین وغیرہم سے ثابت نہیں، ایسا کرنے کو ضروری یا باعث ثواب سمجھنا بدعت میں شمار ہوگا، اور اس متعلق جو روایات ہیں وہ موضوع ہیں۔
’’قال الإمام الجلیل السیوطی: ’’الأحادیث التی رویت في تقبیل الأنامل وجعلہا علی العینین عند سماع اسمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن المؤذن في کلمۃ الإشہاد کلہا موضوعات‘‘۔
علامہ جراحی کہتے ہیں ’’ولم یصح في المرفوع من کل شیئ‘‘ علامہ سخاوی نے ’’المقاصد الحسنہ‘‘ میں لکھا ہے: ’’بل کلہ مختلف موضوع‘‘۔(۱)
(۱) مسح العینین بباطن أنملتي السبابتین بعد تقبیلہما عند سماع أشہد أن محمد رسول اللّٰہ من المؤذن لا یصح۔ (أحمد طاہر، تذکرۃ الموضوعات: ج ۱، ص: ۳۴)
مسح العینین بباطن أنملتي السبابتین بعد تقبیلہما عند سماع قول المؤذن أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، مع قولہ: أشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ، رضیت باللّٰہ ربا، وبالإسلام دینا، وبمحمد نبیا، وذکر الدیملي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق أنہ لما سمع قول المؤذن أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ قال: ہذا، وقبل باطن الأنملتین السبابتین ومسح عینیہ، فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من فعل مثل ما فعل خلیلي فقد حلت علیہ شفاعتي، ولا یصح۔ (شمس الدین، المقاصد الحسنۃ: ج ۱، ص: ۶۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص536
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2567/45-3909
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فاریکس ٹریڈنگ یا اس طرح کے کسی بھی فکسڈ دپازٹ اسکیم یا سودی کاروبار میں پیسہ لگاکر نفع کمانا حرام ہے، اور اگر کسی نے نادانی میں کسی ایسی کمپنی میں پیسے لگادئے تو نفع کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے بلکہ غریبوں پر بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے، ۔ اچھے ارادہ اور نیک نیتی کی بناء پر کوئی ناجائز کام جائز نہیں ہوجائے گا۔ اچھے مقاصد سامنے رکھ کر بھی سودی کاروبار میں ملوث ہونا جائز نہیں ہے، گوکہ بظاہر اس کے ہزاروں فائدے ہوں۔ اس لئے حلال ذرائع پر ہی اکتفاء کیاجائے کہ اسی میں برکت ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo ) القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 278- 279(
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء. ) صحیح مسلم: (227/2(
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه ) الدر المختار مع رد المحتار: (99/5، ط: دار الفکر(
یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل ملک الأموال علی الفقراء۔ ) بذل المجہود: (359/1، ط: مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي(
"إن آيات الربا التي في آخر سورة البقرة مبينة لأحكامه وذامة لآكليه، فإن قلت: ليس في الحديث شيء يدل على كاتب الربا وشاهده؟ قلت: لما كانا معاونين على الأكل صارا كأنهما قائلان أيضا: إنما البيع مثل الربا، أو كانا راضيين بفعله، والرضى بالحرام حرام" ) عمدة القاري شرح صحيح البخاري (11 / 200(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجد میں قرآن پاک کی تلاوت اور دیگر اوراد وظائف اس قدر بلند آواز سے پڑھنا کہ دوسروں کی نماز میں خلل واقع ہو جائے اور ان کو ناگوار معلوم ہو جس کی وجہ سے ان کی نماز یں صحیح ادا نہ ہوسکیں جائز نہیں ہے؛ بلکہ یہ سب مذکورہ اوراد ووظائف بالکل آہستہ پڑھیں البتہ اگر مسجد میں نمازی نہ ہوں، تو ذکر جہری کی بھی گنجائش ہے۔ (۲)
(۲) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ: أن رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ کنت أعلم إذا انصرفوا بذلک إذا سمعتہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، رقم: ۸۴۱)
الباب الأول في حکم الجہر بالذکر إعلم أنہم اختلفوا في ذلک فجوزہ بعضہم وکرہہ بعضہم الخ۔ (سیاحۃ الفکر في الجہر بالذکر: ص: ۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص363
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجد کی اشیا سے تیمم کرسکتا ہے؛ لیکن پرہیز اولیٰ ہے کیونکہ بعض صورتوں میں کراہت ہے جس سے ہر کس وناکس واقف نہیں ہوتا۔
’’ومنہا أخذ شيء من أجزائہ قالوا في ترابہ إن کان مجتمعا جاز الأخذ منہ ومسح الرجل منہ وإلا لا‘‘(۱)
’’ویکرہ مسح الرجل من طین والردغۃ بأسطوانۃ المسجد أو بحائطہ‘‘ (۲)
’’وإن مسح بتراب في المسجد فإن کان التراب مجموعاً لا بأس بہ وإن
کان منبسطا یکرہ وہو المختار‘‘(۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص364
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا شخص گنہگار ہے، امامت کے لائق نہیں اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، دوسرے شخص کو امام بنانا چاہیے جو دین دار پرہیز گار اور باشرع ہو وہی امامت کے لائق ہے۔(۱)
(۱) ولذا کرہ إمامہ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ لإمامۃ، وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ۔ (أحمد بن محمد،حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
ولوصلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لا ینال مثل ما ینال خلف تقي، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص152
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں زید کی دو حالتیں ہیں۔
(۱) وہ صاحب ترتیب ہو یعنی پوری زندگی میں ایک ساتھ اس کی پانچ نمازوں سے زیادہ فوت نہ ہوئی ہوں اس صورت کا حکم یہ ہے کہ وہ عصر کی جماعت میں شریک نہ ہو پہلے ظہر ادا کرے اس کے بعد عصر پڑھے اور اگر عصر پہلے پڑھ لی، تو پھر بھی ظہر پڑھے اس کے بعد عصر ادا کرے۔(۱)
(۲) وہ صاحب ترتیب نہ ہو یعنی پوری زندگی میں اس کی پانچ سے زائد نمازیں فوت ہوگئی ہوں اس صورت کا حکم یہ ہے کہ عصر کی جماعت میں شامل ہوجائے اور عصر کے بعد ظہر کی قضا کرے اور عصر کے بعد قضاء نماز پڑھنا قبل از اصفرار و غروب درست ہے ہاں نوافل پڑھنا صحیح نہیں ہے۔(۲)
(۱) فإذا کان الترتیب فرضا یلزم أن یکون الفائت شرطا لحصۃ الوقتیۃ فلا یجوز لأن شرط الشییٔ تبع لذلک الشيء۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، کیفیۃ قضاء الفوائت‘‘: ج۲، ص: ۵۸۳)
(۲) لأن الترتیب یسقط بضیق الوقت وکذا النسیان وکثرۃ الفوائت کي لا یؤدي إلی تفویت الوقتیۃ، بخلاف ما إذا کان في الوقت سعۃ حیث لایجوز لأنہ أداہا قبل وقتہا الثابت بالحدیث۔ (المرغیناني، الھدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت‘‘: ج۱، ص: ۱۵۴، دارالکتاب)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص360
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز باجماعت کے لیے صفیں متصل ومسلسل ہونی چاہئیں بڑی مسجد میں اگر درمیان میں دو یا دو سے زائد صفوں کے بقدر فاصلہ اس طرح ہو جائے کہ درمیان کی صفوں میں بالکل نمازی موجود نہ ہوں، تو جو لوگ اس فاصلہ کی جگہ کے بعد جماعت میں شامل ہوکر نماز پڑھیں گے، ان کی اقتدا ونماز درست نہ ہوگی۔
’’إنہ لم یجعل الفاصل فیہ أي في المسجد الصغیر بقدر صفیں مانعاً من الاقتداء تنزیلاً لہ منزلۃ مکان واحد بخلاف المسجد الکبیر فإنہ جعل فیہ مانعاً‘‘(۱)
اور عالمگیری میں ہے ’’إن کان بینہ وبین الإمام نہر کبیر یجری فیہ السفن والزوارق یمنع الاقتداء وإن کان صغیراً لا تجري فیہ لا یمنع الاقتداء ہو المختار ہکذا في الخلاصۃ وکذا لوکان في المسجد الجامع ہکذا في فتاویٰ قاضی خان‘‘(۲)
نیز اگر مسجد شرعی سے متصل کوئی جگہ مسجد کی حدود سے خارج ہو اور وہاں تک صفیں برابر نہ لگی ہوں، بلکہ درمیان میں دو یا دو سے زائد صفوں کا فاصلہ ہو اور وہاں پر کوئی شخص اقتداء کرے، تو خواہ مسجد چھوٹی ہو یا بڑی، اس کی نماز درست نہ ہوگی۔
’’المانع من الاقتداء في الفلوات قدر مایسع فیہ صفین وفي مصلی العید الفاصل لا یمنع الاقتداء وإن کان یسع فیہ الصفین أو أکثر وفي المتخذ لصلاۃ الجنازۃ اختلاف المشائخ وفي النوازال جعلہ کالمسجد کذا في الخلاصۃ‘‘(۱)
مندرجہ وضاحت کے بعد مذکورہ فی السوال طریقہ اقتداء کرنے والے حضرات کی اقتدا درست نہیں اور نماز ادا نہیں ہوگی۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الرابع في بیان ما یمنع صحۃ الاقتداء وما لا یمنع‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۵، زکریا، دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص478
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام ومؤذن میں امام کا درجہ بڑا ہوتاہے۔ روایت میں ہے کہ مالک بن حویرث اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تعلیم کے لیے آئے تھے اور جب وہ دونوں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم دونوں اذان واقامت کہنا اور امامت کے سلسلے میں فرمایا کہ: جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرے۔ معلوم ہوا کہ امام کا درجہ بڑا ہوتا ہے۔ نیز امامت کی ذمہ داری زیادہ بڑی ہوتی ہے؛ کیوں کہ امام تمام مقتدیوں کی نمازکا ضامن ہوتا ہے؛ اس لیے امام کے لیے مسائل امامت سے واقفیت بھی ضروری ہوتی ہے جب کہ مؤذن کے لیے اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے۔
’’عن مالک بن الحویرث، قال: قدمت علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنا وابن عم لي، فقال لنا: إذا سافرتما فأذنا وأقیما، ولیؤمکما أکبرکما ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ الترمـذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في الأذان في السفر‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۲۰۵۔
عن مالک بن حویرث قال أتیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في نفر من قومي فأقمنا عندہ عشرین لیلۃ، وکان رحیمًا رفیقًا فلمّا رأی شوقنا إلی أہلینا قال: ارجعوا، فکونوا فیہم وعلموہم وصلوا فإذا حضرت الصلاۃ فلیؤذن لکم أحدکم ولیؤمکم أکبرکم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ ’’کتاب الأذان، باب من قال لیؤذن في السفر مؤذن واحد‘‘: ج۱، ص: ۸۷، رقم: ۶۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص123