Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام و مقتدیوںمیں سے کسی کی نماز نہیں ہوئی دوبارہ پڑھنا ضروری ہے، امام کو چاہئے کہ مقتدیوں کو خبر کردے اورنماز کے وقت اعلان کردے کہ فلاں دن فجر کی نماز میںجو حضرات شامل تھے وہ اپنی نمازکا اعادہ کرلیں۔
’’وإذا ظہر حدث إمامہ وکذا کل مفسد في رأی مقتد بطلت فیلزم إعادتہا لتضمنہا صلوٰۃ المؤتم صحۃ وفساداً کما یلزم الإمام إخبار القوم إذا أمہم وہو محدث أو جنب الخ‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الموضع التي تفسد صلاۃ الإمام دون المؤتم‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص255
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ثناء پڑھنا سنت ہے اگر بھول گیا تو نماز صحیح ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)
(۲) سنتہا رفع الیدین للتحریمۃ … والثناء والتعوذ والتسمیۃ والتأمین سراً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰)
وفي الولواجیۃ، الأصل في ہذا أن المتروک ثلاثۃ أنواع؛ فرض وسنۃ، وواجب وفي الثاني، لا تفسد لأن قیامہا بأرکانہا وقد وجدت ولا یجبر بسجدتي في السہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر في سجود السہو‘‘: ج۱، ص: ۱۸۵، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص402
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز درست ہے، سورت ملانے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئی اور نہ ہی سجدہ سہو کی ضرورت ہے۔(۳)
(۳) (وضم) أقصر (سورۃ) (في الأولیین من الفرض) وہل یکرہ في الأخریین؟ المختار لا (قولہ المختار لا)… قال في المنیۃ وشرحہا: فإن ضم السورۃ إلی الفاتحۃ ساہیا یجب علیہ سجدتا السہو في قول أبي یوسف لتأخیر الرکوع عن محلہ، وفي أظہر الروایات لا یجب لأن القراء ۃ فیہما مشروعۃ من غیر تقدیر، والاقتصار علی الفاتحۃ مسنون لا واجب۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹،۱۵۰)
حتی لو قرأہا في الأخریین ساہیا لم یلزمہ السجود وفي الذخیرۃ وہو المختار وفي المحیط وہو الأصح وإن کان الأولی الاکتفاء بہا لحدیث أبي قتادۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’فصل ہو في اللغۃ فرق بین الشیئین‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۵)
فلو ضم السورۃ مع الفاتحۃ في الأخریین لا یکون مکروہا کما نقلہ في غایۃ البیان عن فخر الإسلام۔ (أیضاً ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۶، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص199
فقہ
Ref. No. 1003 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مذی کےنکلنے سے وضو واجب ہوتا ہے، غسل نہیں۔البتہ منی نکلنے کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1261 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں ایک جگہ رہتی ہیں ، مشورہ وغیرہ سب مردوں سے متعلق ہوتا ہے ، کیا ہی اچھا ہو کہ یہ مرد حضرات جو باتیں سیکھتے ہیں اپنے اپنے گھروں میں عورتوں کو بتادیا اور گھروں میں تبلیغ کردیا کریں۔اور پھر یہ عورتیں اپنے پڑوس کی عورتوں کو بتادیاکریں۔ غور کریں کہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب کتنا زیادہ ہے، لیکن تمام شرائط کی رعایت کے باوجود بھی عورتوں کو مسجدوں میں جماعت سے نماز کی اجازت فقہ حنفی میں نہیں دی گئی ہے۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 37 / 1111
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
A woman, who is in such a condition, should regard first 10 days of each month as her MC and rest 20 days of Istihaza. Her husband cannot have sex with his wife during 10 days of MC. In other 20 days – in spite of bleeding – he can have sex with her. He is also allowed to marry another woman, but due to istihaza – which is natural and Sharee excuse – he ought not to divorce the first wife.
فالعشرۃ من أول ما رأت حیض والعشرون بعدذلک طھرھا۔ بدائع ج1ص161
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
فقہ
Ref. No. 39 / 0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: عورتوں کا تبلیغی جماعت میں نکل کر دور دراز کا سفر کرنا پسندیدہ نہیں ، عورتیں اپنے گھروں میں رہیں اسی میں عافیت ہے، اپنی اصلاح کے لئے دینی کتابوں کا مطالعہ وتعلیم زیادہ مفید ہے۔ گھر کا ماحول دینی بنائیں، گھر میں تعلیم کا اور نمازوں کے اہتمام کا نظام بنائیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1041
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
A Musafir Muqtadi behind a Muqeem Imam will complete his namaz just as a Muqeem Masbooq does. He is obliged to offer full namaz and must do Qirat (Fatiha cum Surah) in the first two rakats of the missed rakats. Qirat is not mandatory in more than two of missed rakats.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 991/41-145
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں مل مل کر کھڑا ہونا مسنون ہے۔ احادیث میں مل کر کھڑے ہونے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ حدیث میں ہے: رصوا صفوفکم وقاربوا بینھا (ابوداود)البتہ مجبوری کی وجہ سے بقدر ضرورت فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہے۔ حضرت ابوبکرہ ؓ نماز کے لئے مسجد تشریف لائے تو آپﷺ رکوع کی حالت میں تھے، انہوں نے جلدی میں صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی اقتداء کرکے رکوع کرلیا پھر اسی حالت میں صف میں شامل ہوگئے، آپ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا : اللہ آپ کے شوق کو مزید بڑھائے، آئندہ ایسا نہ کرنا۔
عن ابی بکرۃ ؓ انہ انتھی الی النبی ﷺ وھو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذلک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصا ولاتعد(البخاری کتاب صفۃ الصلوۃ باب اذا رکع دون الصف ۱/۲۷۰)۔
عمومی احوال میں نماز میں فاصلہ رکھ کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، البتہ موجودہ حالات میں حفظان صحت کی ہدایات کے تحت ، حکومتی احکامات اور ڈاکٹروں کے مشورہ کے مطابق کچھ فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ لی جائے، تو نماز ادا ہوجائے گی، کیونکہ سماجی دوری میں فی الحال اپنی اور دوسروں کی حفاظت ہے چنانچہ آپ ﷺ نے خود کو بھی اور دوسروں کو بھی ضرر سے بچانے کی تاکید فرمائی ہے۔ لاضرر ولا ضرار (موطا امام مالک، ابن ماجہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1332/42-736
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد اللہ کا گھر ہے، جس طرح ظاہری احترام اس کا ضروری ہے اسی طرح باطنی احترام بھی ضروری ہے۔ اللہ کے گھر میں حرام ومشتبہ مال کو لگانا جائز نہیں ہے۔ حلال اور پاکیزہ مال ہی مسجد میں لگانا چاہئے۔ مخنث کی کمائی مطلقا حرام و ناجائز نہیں ہے۔ اگر اس نے حرام طریقہ سے پیسے حاصل کئے ہوں مثلا ناچ گانے وغیرہ سے یا زبردستی تو وہ پیسے حرام ہیں، ان کو مسجد میں لگانا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ پیسے حلال طریقہ سے حاصل کئے ہوں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ مکان کا کرایہ ہے، تو اس کو مسجد کی تعمیر ودیگر امور میں خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (البقرۃ 267)
أن الله لا يقبل إلا ما كان من كسب طيب فمفهومه أن ما ليس بطيب لا يقبل والغلول فرد من أفراد غير الطيب فلا يقبل والله أعلم (فتح الباری لابن حجر، باب لاتقبل صدقۃ من غلول، 3/279)
أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله.(ردالمحتار، فروع افضل المساجد 1/658)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند