طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ہاتھ کہنی سے نیچے کٹا ہے، تو کہنی تک تیمم کرنا ضروری ہے، اگر کہنی سے کٹا ہے، تو اس جگہ بھی تیمم ضروری ہے ورنہ نماز درست نہیں ہوگی، ہاں اگر کندھے کے پاس سے ہی ہاتھ کٹا ہوا ہو، تو پھر اس جگہ تیمم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’قلت: أرأیت رجلا مقطوع الیدین من المرفقین فأراد أن یتیمم ہل یمسح علی وجہہ ویمسح علی موضع القطع؟ قال: نعم، قلت: فإن مسح وجہہ وترک موضع القطع؟ قال: لا یجزیہ قلت: فإن صلی ہکذا أیاماً؟ قال: علیہ أن یمسح موضع القطع ویستقبل الصلاۃ، قلت: فإن کان القطع في الیدین من المنکب؟ قال: علیہ أن یمسح وجہہ ولیس علیہ أن یمسح موضع القطع الخ‘‘(۱)
(۱) الإمام محمد بن الحسن الشیباني، الأصل، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم بالصعید‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔ (بیروت: دارابن حزم، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص370

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس مسجد میں نماز باجماعت ہوتی ہے امام ،مؤذن وغیرہ مقرر ہیں اور جماعت وقت پر ہوتی ہے اس مسجد میں جماعت ہو جانے کے بعد مسجد یا چھت پر دوسری جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) کرہ تحریما (الوطء فوقہ، والبول والتغوط) لأنہ مسجد إلی عنان السماء۔ (قولہ الوطء فوقہ) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقہ بالقدم فغیر مکروہ إلا في الکعبۃ لغیر عذر، لقولہم بکراہۃ الصلاۃ فوقہا۔ ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید، کراہۃ الصعود علی سطح المسجد اہـ۔ ویلزمہ کراہۃ الصلاۃ أیضا فوقہ فلیتأمل (قولہ لأنہ مسجد) علۃ لکراہۃ ما ذکر فوقہ. قال الزیلعی: ولہذا یصح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ إذا لم یتقدم علی الإمام۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج۲، ص: ۴۲۸)
الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ، ولہذا إذا اشتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ، کذا فی الغرائب۔ (أیضاً)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 482

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان کا جواب دینا مستحب ہے اور اذان کے وقت قرآن کی تلاوت موقوف کر کے اذان کا جواب دینا کتب فقہ میں افضل لکھا ہے؛ کیوںکہ اذان کے بعدتلاوت قرآن پاک دوبارہ ہوسکتی ہے؛ لیکن اذان ہوجانے کی صورت میں جواب دینے کا موقع پھر دوبارہ نہیں ملے گا۔ صاحب مراقی الفلاح نے لکھا ہے کہ تلاوت موقوف کرکے اذان کا جواب دینا ہی بہتر او ر  افضل طریقہ ہے۔
’’أمسک حتی عن التلاوۃ لیجیب المؤذن ولو في المسجد وہو أفضل‘‘(۱)
فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے:
’’ولو کان في القراء ۃ ینبغي أن یقطع ویشتغل بالاستماع والإجابۃ کذا فی البدائع‘‘(۲)
در مختار میں ہے:
’’من سمع الأذان بأن یقول بلسانہ کمقالتہ … فیقطع قراء ۃ القرآن لو کان یقرأ بمنزلہ ویجیب لو أذان مسجدہ … قال في الفتح أي مؤذن یجیب باللسان استحبابا أووجوبا والذي ینبغي إجابۃ الأول سواء کان مؤذن مسجدہ أو غیرہ‘‘(۳)
خلاصہ: مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اذان کے وقت تلاوت قرآن کریم کو موقوف کر کے اذان کا جواب دینا افضل ہے، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری اور درمختار وغیرہ میں تفصیل سے مذکور ہے۔

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۷۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘، الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ و کیفیتھما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴۔
(۳) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب: في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۶۵-۶۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص130

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر غالب گمان مذی یا ودی ہونے کا تھا تو اس کو مذی یا ودی کا حکم دیا جائے اور نماز واجب الاعادہ نہ ہوگی لیکن یہ یاد رہے کہ مذی و احتلام کے لیے خواب آنا ضروری نہیں ہے۔(۲)

(۲) ولا عند مذي أو ودي بل الوضوء منہ ومن البول جمیعاً علی الظاہر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في رطوبۃ الفرج‘‘: ج۱، ص: ۳۰۴، مکتبہ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص260

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں جب کہ متنفل مفترض کہ پیچھے نماز میں شامل ہوگیا، تو وہ بھی مثل دوسرے مقتدیوں کے ہوگیا اور اس کی شمولیت متحقق ہونے کی وجہ سے مثل دوسرے مقتدیوں کے اس کو لقمہ دینا جائز ہوگیا اس طرح لقمہ دینے سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی۔(۳)
(۳) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ قالوا: ہذا إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح أنہا لاتفسد صلاۃ الفاتح بکل حال۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ، و ما یکرہ فیھا‘‘ ج۱، ص:۱۵۷)
بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لایفسد مطلقاً لفاتح وآخذ بکل حال۔ قولہ: بکل حال أي سواء قرأ الإمام قدر ماتجوز بہ الصلاۃ أم لا، انتقل إلی آیۃ أخری أم لا، تکرر الفتح أم لا، ہو الأصح۔ (الحصکفي ، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۲
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص88

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) اس میں کوئی حرج و مضائقہ نہیں ہے۔
(۲) اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں بلا کراہت درست ہے۔(۱)

(۱) وإطالۃ القرائۃ في الرکعۃ الأولیٰ علی الثانیۃ من الفجر مسنونۃ بالإجماع، وقال محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: أحبُّ إليَّ أن یطول الرکعۃ الأولی علی الثانیۃ في الصلوات کلہا وعلیہ الفتویٰ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵)
وتطال أولی الفجر علی ثانیتہا بقدر الثلث، وقیل النصف ندباً؛ فلو فحش لابأس بہ (فقط) وقال محمد: ولی الکل حتی التراویح، قیل وعلیہ الفتویٰ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۲، ۲۶۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص208

نکاح و شادی

Ref. No. 2812/45-4403

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The wife can ask her husband for divorce in return for payment. If he is somehow not ready to accept Khula or utter divorce, one should approach a nearby Shariah Darul-Qaza.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1009

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔وہ پروگرام جن کے حقوق محفوظ ہیں یعنی کاپی رائٹ والے سوفٹ وئر،  ان کوبلااجازت استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ آپ اگر خود کو سافٹ ویر مالکان کی جگہ سمجھ کر سنجیدگی سے غور کریں تو بآسانی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لوگ 20 اور 25 ہزار کے کمپیوٹر خریدلیتے ہیں تو کیا 2، 3 ہزار کے سافٹ وئر نہیں خرید سکتے۔ سافٹ وئر بنانے والوں نے بڑی محنت ، وقت اور کافی پیسے خرچ کئے ہیں ان کی محنتوں کو ضائع نہ کیجئے۔ اگر لوگ لائسنس والے سافٹ وئر ہی کمپیوٹروں میں ڈالا کرتے  تو مہنگائی کا شکوہ بھی نہ ہوتا۔ الغرض شرعی اعتبار سے ایسا کرنا اور کاپی رائٹ والے سافٹ ویر بلااجازت استعمال کرنا درست نہیں ، اس سے احتراز کرنا لازم ہے۔ تاہم آپ کی روزی حلال ہے کیونکہ آپ اپنی محنت کی فیس لیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

کھیل کود اور تفریح

Ref. No. 1289 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  اس میں وقت کا ضیاع ہے؛ ایسے لایعنی امور سے اجتناب ہی بہتر ہے؛ کسی دوسرے مفید کام میں مشغول ہونا چاہئے اور بچوں کو بھی ایسے کاموں میں مشغول رکھاجائے جس میں لگ کر فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو، عموما کھیل میں انہماک کیوجہ سے بہت سارے ضروری امور چھوٹ جاتے ہیں ، اس لئے گیم وغیرہ سے احتراز ہی کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 37 / 1118

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Cigarette smoking will not nullify the wuzu. But cigarette smoking is makrooh, hence it is better to repeat the wuzu.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband