Frequently Asked Questions
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسئلہ عام ہے سائل کے سوال کے جواب کو بھی مسئلہ کہاجاتاہے، اسی طرح عوام الناس کے سامنے حکم شرعی کی وضاحت کو بھی مسئلہ کہاجاتاہے، جبکہ فتوی حکم شرعی کے طلب پر شریعت کا جو موقف واضح کیاجائے اس کا نام فتوی ہے، گویا فتوی خاص ہے اور مسئلہ عام ہے۔(۱)
(۱) فالحکم الشرعي ہو خطاب اللّٰہ تعالیٰ المتعلق بأفعال المکلفین طلبا أو اقتضاء أو تخییرا أما الفتویٰ فہي انزال الحکم الشرعي علی واقع المستفتی۔ (محمد أبوزہرہ، أصول الفقہ: ص: ۲۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص147
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دعاء کا مسنون طریقہ ہی افضل ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے، سجدہ میں مناجات اکثر فقہاء کے نزدیک مکروہ ہے۔(۱) اشعۃ اللمعات میں ہے سوم سجدہ مناجات (دعائیہ سجدہ) و ظاہر کلام اکثر فقہاء آنست کہ مکروہ است یعنی تیسرا سجدہ مناجات ہے اکثر علماء کے نزدیک مکروہ ہے۔
(۱) وأشار المصنف إلی أنہ لا یأتي في رکوعہ وسجودہ بغیر التسبیحات وما ورد في السنۃ من غیرہا فمحمول علی النوافل تہجداً أو غیرہ۔ (ابن نجیم، البحرا الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل ہو في اللغۃ فرق ما بین الشیئین‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۲)
وکذا) لیس بعد رفعہ من الرکوع دعاء، وکذا لا یأتي في رکوعہ وسجودہ بغیر التسبیح (علی المذہب) وما ورد محمول علی النفل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۲، ۲۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص360
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سفید مادہ عصر سے قبل سونے میں نکلا ہوگا اس لیے غسل کرکے، عصر ومغرب کی نماز بھی لوٹانی ہوگی،(۱) صرف خیالات کی وجہ سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔ خیالات کی وجہ سے اگر مادہ منویہ کا خروج ہوا، تو غسل واجب ہے ورنہ نہیں،(۲) چلتے پھرتے شہوت سے جو ایک چپچپا مادہ نکلتا ہے، اس کو مذی کہتے ہیں، اس میں وضو کافی ہے، مذی میں غسل واجب نہیں ہے۔(۳)
(۱) روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الرجل یجد البلل ولم یجد احتلاما قال یغتسل ولأن النوم راحۃ تہیج الشہوۃ وقد یرق المني لعارض والاحتیاط لازم في باب العبادات وہذا إذا لم یکن ذکرہ منتشراً قبل النوم۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل ما یوجب الاغتسال‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)
(۲) الماء من الماء۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث أبي أیوب الأنصاري‘‘: ج ۳۸، ص: ۵۱۱)(المؤسسۃ الرسالۃ، القاھرۃ)
(۳) لا یفترض الغسل عند خروج مذي … أو ودي بل الوضوء منہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’سنن الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص65
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :عمامہ اور ٹوپی پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے ٹوپی اور عمامہ پر مسح کیا، تو اس کا وضو درست نہیں ہوگا۔ ولایجوز المسح علی العمامۃ والقلنسوۃ لأنہما یمنعان إصابۃ الماء الشعر۔(۱)
ولا یجوز المسح علی العمامۃ والقلنسوۃ والبرقع والقفازین لأنہ لا حرج في نزع ہذہ الأشیاء الخ۔ (۲)
(۱)الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء، المسح علی العمامۃ والقلنسوۃ،‘‘ ج۱، ص:۷۱
(۲) المرغیناني، الہدایۃ ’’کتاب الطہارات، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۶۱)؛ و أبوبکر بن علی، الجوہرۃ النیرۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین‘‘ ج۱، ص:۳۳؛ وشمس الدین أبوبکر السرخیي، المسبوط للسرخسي، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۲۳۵(القاھرۃ، مؤسسۃ الرسالۃ، مصر)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص276
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب کا یہ طریقہ غلط ہے، ان کو تنبیہ کی جا سکتی ہے کیوں کہ داڑھی چھوٹی رکھنے والے کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمیٰ، ونحو الأعشیٰ … وکذا تکرہ خلف أمرد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸،۳۰۲)
ولأن الإمامۃ أمانۃ عظیمۃ فلا یتحملہا الفاسق؛ لأنہ لا یؤدي الأمانۃ علی وجہہا۔…(الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب بیان من یصلح للإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص148
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: شرعی معذور شخص عذر کی حالت میں غیر معذور لوگوں کی کسی بھی نماز میں امامت نہیں کر سکتا ہے؛ کیوں کہ امامت کے شرائط میں سے ہے کہ امام کی حالت مقتدیوں کی حالت سے اقوی ہو، جب کہ معذور کی امامت کے مسئلہ میں مقتدیوں کی حالت اقوی ہوجاتی ہے۔ اس لیے غیرمعذور لوگوں کی نماز معذور امام کے پیچھے جائز نہیں ہے۔ اگر نماز پڑھی تو اعادہ ضروری ہے، اور امام پر لازم ہے کہ ان کو خبر کردے اور اعلان کردے کہ میں معذور ہوں، جن لوگوں نے میرے پیچھے نماز پڑھی وہ اپنی نمازیں اتنے دنوں کی لوٹالیں؛ البتہ اگر شرعاًمعذورامام نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ وضو کرنے کے بعد سے نماز پڑھاکر فارغ ہونے تک عذر پیش نہیں آیا تھا تو اس کی امامت درست ہوگئی اور غیر معذور مقتدیوں کی نماز بھی درست ہوگئی، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اس لیے آپ کو اعلان کرنے کی بھی ضرورت نہیں؛ لیکن اگر نماز کے دوران پیشاب کا قطرہ نکل گیا اور عذر پیش آگیا تو امام کی نماز تو شرعی معذور ہونے کی وجہ سے ہوجائے گی؛ البتہ غیر معذور لوگوں کی نماز نہیں ہوگی۔ اس لیے اگر آپ نے نماز سے پہلے پیشاب واستنجا سے فارغ ہوکر وضو کرکے نماز پڑھادی اور اس دوران کوئی پیشاب کا عذر پیش نہیں آیاتھا تو سب کی نماز درست ہوگئی۔ اعادہ کی ضرورت نہیں؛ البتہ اگر عذر پیش آگیاتھا تو مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی،جہاں جہاں آپ نے نماز پڑھائی حتی المقدور اس جگہ اعلان کرنے کی کوشش کریں اور توبہ واستغفار بھی کریں۔
’’قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلس بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیا عن الحدث قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتی: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھـ أقول الظاہر الثاني‘‘(۱)
’’وقال الحصکفی: ولا طاہر بمعذور‘‘(۲)
’’(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معہ (بمتیمم) … (وقائم بقاعد) یرکع ویسجد؛ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی آخر صلاتہ قاعدا وہم قیام وأبو بکر یبلغہم تکبیرہ (قولہ وقائم بقاعد) أي قائم راکع ساجد أو موم، وہذا عندہما خلافا لمحمد۔ وقید القاعد بکونہ یرکع ویسجد لأنہ لو کان مومیا لم یجز اتفاقاً‘‘(۳)
’’وکذا لایصح الاقتداء بمجنون مطبق أو متقطع في غیر حالۃ إفاقتہ وسکران) أو معتوہ ذکرہ الحلبي (ولا طاہر بمعذور) ہذا (إن قارن الوضوء
الحدث أو طرأ علیہ) بعدہ (وصح لو توضأ علی الانقطاع وصلی کذلک) کاقتداء بمفتصد أمن خروج الدم؛ وکاقتداء امرأۃ بمثلہا، وصبی بمثلہ، ومعذور بمثلہ وذي عذرین بذي عذر، لا عکسہ کذي انفلات ریح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسۃ۔ (قولہ: ومعذور بمثلہ إلخ) أي إن اتحد عذرہما، وإن اختلف لم یجز کما في الزیلعي والفتح وغیرہما۔ وفي السراج ما نصہ: ویصلي من بہ سلس البول خلف مثلہ۔ وأما إذا صلی خلف من بہ السلس وانفلات ریح لا یجوز لأن الإمام صاحب عذرین والمؤتم صاحب عذر واحد۔ اھـ۔ ومثلہ في الجوہرۃ۔
وظاہر التعلیل المذکور أن المراد من اتحاد العذر اتحاد الأثر لا اتحاد العین، وإلا لکان یکفیہ في التمثیل أن یقول: وأما إذا صلی خلف من بہ انفلات ریح، ولکان علیہ أن یقول في التعلیل لاختلاف عذرہما، ولہذا قال في البحر: وظاہرہ أن سلس البول والجرح من قبیل المتحد، وکذا سلس البول واستطلاق البطن‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۴۔
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار : ج۲، ص:۳۲۳
(۳) أیضًا: ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ الخ‘‘:ج ۲، ص: ۳۳۶۔
(۱) أیضًا: ’’مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ص: ۳۲۲،۳۲۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص242
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حرم مکہ یا حرم مدینہ میں جو ایک لاکھ یا پچاس ہزار کے ثواب کا تذکرہ ہے وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے سلسلہ میں ہے۔ حرم کی نماز کو 25 یا 27 گنا نہیں کیا جائے گا۔ اور تنہا حرم میں نماز پڑھنے کا وہ ثواب نہیں ہے جو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ہے؛ اس لیے کہ نوافل بھی حرم کے بجائے اپنے گھر پر پڑھنا ہی افضل ہے۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ في مسجدي ہذا أفضل من ألف صلاۃ فیما سواہ إلا المسجد الحرام۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلاۃ، والسنۃ فیہا، باب ما جاء في فضل الصلاۃ في المسجد الحرام ومسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱، رقم:۱۴۰۴)
عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: صلاۃ الرجل في بیتہ بصلاۃ، وصلاتہ في مسجد القبائل بخمس وعشرین صلاۃ، وصلاتہ في المسجد الذي یجمع فیہ بخمس مائۃ صلاۃ، وصلاتہ في المسجد الأقصی بخمسین ألف صلاۃ، وصلاتہ في مسجدي بخمسین ألف صلاۃ، وصلاۃ في المسجد الحرام بمائۃ ألف صلاۃ۔ (أیضاً، ص: ۱۰۲، رقم: ۱۴۱۳)
عن جابر -رضي اللّٰہ عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ في مسجدي أفضل من ألف صلاۃ فیما سواہ إلا المسجد الحرام وصلاۃ في المسجد الحرام أفضل من مائۃ ألف صلاۃ فیما سواہ۔ (أیضاً، ج ۱، ص: ۱۰۱، رقم: ۱۴۰۶)
فصلوا أیہا الناس في بیوتکم، فإن أفضل صلاۃ المرء في بیتہ إلا الصلاۃ المکتوبۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب ما یکرہ من کثرۃ السؤال وتکلف ما لا یعنیہ‘‘: ج۲، ص:۱۰۸۲، رقم: ۷۲۹۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص356
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2770/45-4313
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر امام نے جہری نماز میں بھول کر سرا (آہستہ) پڑھنا شروع کر دیا، اور صرف دو آیتیں پڑھنے کے بعد اسے جہرا قرأت کرنا یاد آیا، تو امام کو سورہ فاتحہ شروع سے جہرا (باآواز بلند پڑھنا) ضروری ہے، اور اگر تین آیتیں پڑھنے کے بعد اس کو جہرا قراءت کرنا یاد آیا تو اب سورہ فاتحہ شروع سے پڑھنے کے ساتھ آخر میں سجدہ سہو کرنا بھی لازم ہے۔
ومنھا الجھر و الإخفاء) حتی لو جھر فیما یخافت أو خافت فیما یجھر وجب علیہ سجود السھو واختلفوا فی مقدار ما یجب بہ السھو منھما قیل یعتبر فی الفصلین بقدر ما تجوز بہ الصلاۃ وھو الأصح ولا فرق بین الفاتحۃ وغیرھا۔ )الھندیة: (128/1(
الأصح في المقدار الجہر الذي یجب بہ السہو القراء ۃ قدر ما تصح بہ الصلاۃ وہو ثلاث اٰیات أو اٰیۃ طویلۃ بالاتفاق، أو اٰیۃ قصیرۃ علی مذہب أبي حنیفۃ، واحترز بقولہ: والأصح عما ذکرہ شمس الأئمۃ السرخسي أنہ یجب سجدتا السہو وإن کان ذٰلک کلمۃ۔ )البنایة شرح الہدایة: (614/2، ط: نعیمیة(
"قوله: "وجب عليه سجود السهو" إذا شغله التفكر عن أداء واجب بقدر ركن أو شغله عن الوضوء بعد سبق الحدث لشكه أنه صلى ثلاثاً أو أربعاً يجب السهو وإلا فلا، كذا في الشرح ولم يبينوا قدر الركن وعلى قياس ما تقدم أن يعتبر الركن مع سنته وهو مقدر بثلاث تسبيحات ثم أن محل وجوب سجود السهو إذا لم يشتغل حالة الشك بقراءة ولا تسبيح أما إذا اشتغل بهما فلا سهو عليه وظاهر إطلاقهم عدم الوجوب عند الإشتغال بما ذكر ولو كان غير محل لهما. )حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح: (باب سجود السهو، ص: 474(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں شراب پینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے لیکن نشہ سے پہلے ناقض وضو نہیں ہے؛ اس لیے زید کا قول صحیح ہے جب تک کوئی ناقض وضو پیش نہ آئے وضو باقی رہے گا اور نماز پڑھنا درست ہے۔(۱)
(۱) وینقضہ إغماء ومنہ الغشي وجنون وسکر بأن یدخل في مشیۃ تمایل ولو بأکل الحشیشۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، نواقض الوضوء‘‘: مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض، ج ۱، ص: ۲۷۴)
کل ما خرج من السبیلین والدم والقیح والصدید إذا خرج من البدن فتجاوز إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر والقيء إذا کان ملأ الفم والنوم مضطجعاً أو متکئاً أو مستنداً إلی شيء لو أزیل لسقط عنہ، والغلبۃ علی العقل بالإغماء والجنون والقہقہۃ في کل صلاۃ ذات رکوع وسجود۔ (أبو الحسن محمد بن جعفر القدوري، مختصر القدوري، ’’کتاب الطہارۃ، المعاني الناقضۃ،: ص: ۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص252
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ہاتھوں کو سجدہ میں اس طرح رکھنا کہ دونوں انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر رہیں سنت ہے، امام کو چاہئے کہ اس پر عمل کرے اس کے خلاف کرنا شرعاً خلاف سنت ہے؛ البتہ نماز درست ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) قالوا إذا أراد السجود یضع أولا ما کان أقرب إلی الأرض فیضع رکبتیہ أولا ثم یدیہ ثم أنفہ ثم جبہتہ۔ وإذا أراد الرفع یرفع أولا جبہتہ ثم أنفہ ثم یدیہ ثم رکبتیہ قالوا ہذا إذا کان حافیا أما إذا کان متخففا فلا یمکنہ وضع الرکبتین أولا فیضع الیدین قبل الرکبتین ویقدم الیمنی علی الیسری کذا في التبیین ویضع یدیہ في السجود حذاء أذنیہ ویوجہ أصابعہ نحو القبلۃ وکذا أصابع رجلیہ ویعتمد علی راحتیہ ویبدي ضبعیہ عن جنبیہ ولا یفترش ذراعیہ، کذا فی الخلاصۃ ویجافي بطنہ عن فخذیہ کذا في الہدایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وأدابہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص399