Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: شروع میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام نمازوں میں جہراً قرأت کرتے تھے، تو مشرکین ایذاء پہونچاتے تھے اس وقت آیت کریمہ نازل ہوئی {وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَا تِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا ہ۱۱۰}(۱) چناں چہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظہر وعصر میں تو پست آواز سے پڑھتے تھے؛ اس لیے کہ اس وقت کفار مکہ تکلیف پہونچانے کے در پے رہتے تھے اور مغرب میں بآواز بلند پڑھتے تھے؛ اس لیے کہ اس وقت یہ لوگ کھانے میں مصروف رہتے تھے اور عشاء وفجر میں اس لیے زور سے پڑھتے تھے کہ یہ کفار کے سونے کا وقت تھا، جمعہ وعیدین بآواز بلند پڑھنا اس وجہ سے تھا کہ ان کا قیام مدینہ جانے کے بعد ہوا اور وہاں کفار مکہ کے ایذاء پہونچانے کا اندیشہ نہ تھا مدینہ جانے کے بعد ظہر وعصر میں سراً قرأت کرنے کی حکمت ومصلحت اگرچہ باقی نہ رہی تاہم یہ سنت اس لیے جاری رہی کہ حکم کے باقی رہنے کے لیے سبب کا باقی رہنا ضروری نہیں۔(۲) مذکورہ سوال کے جواب کے لیے اور دوسری چیزوں کے لیے آپ ’’المصالح العقلیۃ في المسائل الشرعیۃ‘‘ مصنفہ حضرت تھانویؒ کا مطالعہ کریں۔
(۱) سورۃ الإسراء: ۱۱۰۔
(۲)عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في قولہ تعالی: {وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَا تِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِھَا} قال: نزلت ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مختف بمکۃ، کان إذا صلی بأصحابہ رفع صوتہ بالقرآن فإذا سمع المشرکون سبوا القرآن، ومن أنزلہ، ومن جاء بہ فقال اللّٰہ لنبیہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-: {وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ} أي: بقرائتک، فیسمع المشرکون فیسبوا القرآن، {وَلَا تُخَافِتْ بِہَا} عن أصحابک فلا تسمعہم {وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا}۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر، سورۃ بني إسرائیل، باب ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بہا‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۴۷۲۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص196
حدیث و سنت
Ref. No. 1019
الجواب وباللہ التوفیق:
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پندرہویں شعبان کی رات میں انفرادی طور پر دعاء، تلاوت، نماز وغیرہ عبادات میں مشغول ہونے اور دن میں روزہ رکھنے کی فضیلت روایات سے ثابت ہے۔ عن علي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا کانت لیلة النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارھا فإن اللہ تعالی ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا الخ ۔ ابن ماجہ شریف۔ اسوجہ سے دیگر نوافل کے مقابلہ میں اس رات کی نوافل کا ثواب زیادہ ہے۔اس کے علاوہ دیگر خرافات اور بدعات جو آج شروع ہوگئی ہیں مثلا حلوہ پکانا ، چراغاں کرنا، رات بھر جاگ کرمسجد اور قبرستان میں شور شرابہ کرنا یہ سب خلاف شریعت امور ہیں۔ قبرستان جانا بھی حدیث سےثابت ہے اسلئے اگر کبھی چلاجائے تو حرج نہیں تاہم اس کو رسم نہ بنایا جائے اور قبرستان کے تقدس کی پامالی اور شور وغل سے اجتنا ب کیا جائے، قبرستان جانے کا مقصد تذکیر آخرت اور اہل قبور کے احوال سے عبرت حاصل کرنا ہی ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 38 / 1200
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمین کا کرایہ متعین کرکے کرایہ لینا درست ہے، لیکن فی لیٹر پر اتنا لیں گے یہ درست نہیں ہے۔ کرایہ داری کو پٹرول کے کاروبار کے ساتھ جوڑنا درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1001
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
A woman in period is not allowed to enter the Masjidul Haram. Hence she should do all rituals and abstain from doing tawaf being in period. When she gets pure, she will have to do tawaf even after 12 Dil-Hajj. And there shall be no penalty on her for this delay.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1205/42-504
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful]
The answer to your question is as follows:
There maybe two ways to seek help from anyone other than Allah. (1) Believing that he has the absolute power to do whatever he wants. This is polytheism and disbelief. In the same way, in the case of non-God, if it is believed that God has given him all the authority and he can do whatever he wants then this is also shirk which is unlawful and haram. Only Allah Almighty has the power to fulfill all needs of a person. He is the one and only who can ease the difficulty and grant the desires of all creatures.
(2) Seeking help from the people in the affairs that can normally be fulfilled by human beings. There is nothing wrong in the same.
Nevertheless saying ‘Ya Ghaus-al-Madad or Ya Ali-al-Madad’ is shirk. It must be avoided.
Miscellaneous
Ref. No. 1346/42-734
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If the case is so then investing in any of the aforementioned firms is allowed. However, the amount of interest received must be given in charity to the poor without an intention of reward. So, the amount you receive more than you deposited, you have to give it in charity and do not keep a penny of the same with you.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1462/42-898
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ بینکوں کا طریقہ کار کیا ہے، ہمیں نہیں معلوم۔ جن علماء کو جو تفصیلات بتائی گئیں ان کے مطابق انھوں نے جواز اور عدم جواز کافتوی دیا ہوگا۔ اس سلسلہ میں دونوں فریق اگر مل بیٹھ کر تفصیلات پر گفتگو کریں تو فیصلہ آسان ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1561/43-1080
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔زنا ایک گناہ کبیرہ ہے، اس پر سچی توبہ اور استغفار لازم ہے۔ اگر لڑکا و لڑکی سے ایسی غلطی ہوگئی اور جب حمل ظاہر ہوا تو دونوں کا نکاح کردیا گیاتو یہ اچھا کام ہوا۔چونکہ یہ حمل اسی کا ہے، اس سے غلطی پر پردہ بھی پڑ جائے گا اور بچہ کو اس کا باپ بھی مل جائے گا۔ اس لئے اگر نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہوگا تو اس کانسب اس لڑکے سے ثابت ہوجائے گا، اور وہ اسی کا لڑکا قرار پائے گا۔ اور اگر چھ ماہ سے کم میں بچہ پیدا ہوگیا اور شوہر اس کے اپنے نسب سے ہونے کا اقرار کرتاہے تو بھی اس کا نسب اس سے ثابت مانا جائے گا، اور اگر انکار کرتاہے تو وہ لڑکا ولد الزنا ٹھہرے گا۔ نکاح ہوجانے کے بعد لڑکا لڑکی آپس میں مل سکتے ہیں، وضع حمل تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اگر اس لڑکی کا نکاح کسی دوسرے لڑکے سے ہو تو نکاح تو درست ہوجائے گا لیکن اس کے لئے وضع حمل تک صحبت کرنا حلال نہیں ہوگا۔
"لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة (قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 49) "لاتجب العدة علی الزانیة". (الفتاوی الهندية، 526) "وإن حرم وطؤها و دواعیه حتی تضع ... لو نکح الزاني حل له وطؤها اتفاقاً" (شامی 4/141)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1637/43-1215
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذاق مذاق میں نکاح کرنا الگ چیز ہے، اور نکاح کی حکایت اور نقل ایک الگ امر ہے۔ اگر مذاق میں نکاح کیا اور شرائط نکاح موجود ہوں تو اس سے نکاح منعقد ہوجاتاہے، البتہ اگر کسی نکاح کی حکایت بیانی کی جائے جیسا کہ ڈراموں میں ہوتاہے تو اس سے نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ ڈراموں میں پہلے کہانی لکھی جاتی ہے اور اداکارواداکارہ اسی کہانی کو عملی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد مذاق میں نکاح کرنا یا حقیقت میں نکاح کرنا نہیں ہوتاہے بلکہ محض حکایت مقصود ہوتی ہے، اور زبان سے ان الفاظ کو لکھی ہوئی ایک تحریر کے طور پر پڑھاجاتاہے۔ جیسے ہم اگر کہیں پڑھیں"میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیا" تو اس سے ایک مخصوص تحریر کو پڑھنا مقصود ہے نہ کہ طلاق دینا۔الغرض ڈرامہ میں جو بطور تمثیل نکاح و طلاق ہوتاہے اس کا حقیقت نکاح و طلاق سے کوئی تعلق نہیں ۔ تاہم احتیاط بہرصورت لازم ہے۔
"وفي الذخيرة: قال واحد من أهل المجلس للمطربة: "اين بيت بگو كه من بتودادم كه تو جان مني"، فقالت المطربة: ذلك، فقال الرجل: "من پزيرفتم"، إذا قالت على وجه الحكاية فقيل: لاينعقد النكاح، لأنها إذا قالت على وجه الحكاية لاتكون قاصدةً للإيجاب". (فتاوی تاتارخانیہ، کتاب النکاح (4/7،ط: مکتبہ فاروقیہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1731/43-1430
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس معاملہ کو کسی قریبی دارالقضاء میں لیجائیں ، وہ اپنے طریقہ پر اعلانات وغیرہ کے ذریعہ اس کا حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔ آپ کو وہاں سے لڑکی کے دوسرا نکاح کرنے کے تعلق سے بہتر رہنمائی ملے گی ان شاء اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند