نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ شخص نے اگر راضی ہوکر نسبندی کرائی ہے، تو وہ گناہگار ہے(۱) مگر جماعت میں شامل ہوکر نماز اس کی درست ہے، دوسروں کو اعتراض کرنے کا حق شرعاً نہیں ہے۔(۲)

(۱) {وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ ط} (سورۃ النساء: ۱۱۹)
روي عن أنس وعکرمۃ أن معنی تغییر خلق اللّٰہ ہو الإخصاء وقطع الآذان۔ (فخر الدین الرازي، تفسیر کبیر: ج ۱۱، ص: ۳۹)
أما خصاء الآدمي فحرام۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۷)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع المنادي فلم یمنعہ من اتباعہ عذر، قالوا وما العذر، قال: خوف أو مرض لم تقبل منہ الصلاۃ التي صلی۔ (سلیمان بن الأشعث،  سنن أبي داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في التشدید في ترک الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۱، رقم: ۵۵۱)
الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب شروط الإمامۃ الکبریٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص379

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اذان سنت ہے جماعت کے لیے شرط نہیں ہے اور بغیر اذان جماعت درست ہوجاتی ہے لیکن بغیر اذان جماعت نہیں کرنی چاہئے اذان کی سنت کو چھوڑ دینا اور سنت سے محرومی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان ولا یکرہ ترکہما لمن یصلی في المصر إذا وجد في المحلۃ ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما  ولوترک الأذان وحدہ لا یکرہ کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ، کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: : ج۱، ص: ۱۱۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص162

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تینوں صورتیں (دائیں بائیں اور پشت قبلہ رخ کر کے بیٹھنا) جائز ہیں، البتہ دائیں بائیں رخ کرنا اولیٰ ہے۔(۲)

(۲) عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا،   وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب یستقبل الإمام الناس إذ اسلم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۷)
یستحب للإمام التحول لیمین القبلۃ یعني یسار المصلي لتنفل أو ورد۔ وخیرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمیناً وشمالاً وأمامًا وخلفاً وذہابہ لبیتہ، واستقبالہ الناس بوجہہ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فیما زاد علی العدد في التسبیح عقب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۴۸)
و یستحب ’’أن یستقبل بعدہ‘‘ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل ’’الناس‘‘ إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولیٰ لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح  نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ج ۱، ص:۱۱۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص430

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سورہ کافرون و سورہ اخلاص مذکورہ سنتوں میں نہیں پڑھی ہیں؛ بلکہ کبھی کبھی کافرون و اخلاص اور کبھی قولو آمنا باللہ اور قل یا اہل الکتاب تعالو الآیۃ پڑھی ہیں، البتہ اگر کوئی شخص مذکورہ سنتوں میں یہ دونوں صورتیں مستحب سمجھ کر پڑھتا ہے تو کراہت نہیں ہے اگر لازم سمجھ کر پڑھتا ہے تو مکروہ وبدعت ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ کبھی کبھی بدل کر دوسری سورتیں و آیات بھی پڑھے تاکہ التزام باقی نہ رہے۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ في رکعتي الفجر {قل یا أیہا الکافرون} و {قل ہو اللّٰہ أحد}۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب رکعتي سنۃ الفجر‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۱، رقم: ۷۲۶)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: رمقت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عشرین مرۃ یقرأ في الرکعتین بعد المغرب، وفي الرکعتین قبل الفجر {قل یا أیہا الکافرون} و{قل ہو اللّٰہ أحد} (أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الافتتاح: القراء ۃ في الرکعتین بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴، رقم: ۹۹۲)
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بـ سبح اسم ربک الأعلی، وقل یا أیہا الکافرون وقل ہو اللہ أحد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب ما جاء فیما یقرأ في الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۱۱۷۱)
کان یقرأ في الرکعتین قل ہو اللّٰہ أحد، وقل یا أیہا الکافرون۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الحج، باب حجۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص:۳۹۵، رقم: ۱۲۱۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص228

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں فرض کے بعد بلا تاخیر سنتیں پڑھ لینی چاہئیں، اگر کسی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو وقت کے اندر اندر سنتیں پڑھ لینی چاہئیں، وقت کے بعد سنتوں کی قضاء نہیں ہے۔(۱)

(۱) (قولہ إلا بقدر اللہم الخ) لما رواہ مسلم والترمذي عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یقعد إلا بمقدار ما یقول ’’اللہم أنت السلام ومنک السلام، تبارکت یا ذا الجلال والإکرام‘‘ وأما ما ورد من الأحادیث في الأذکار عقیب الصلاۃ فلا دلالۃ فیہ علی الإتیان بہا قبل السنۃ بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ھل یفارقہ الملکان؟‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶، زکریا دیوبند)
ویکرہ تاخیر السنۃ إلا بقدر ’’اللہم أنت السلام الخ‘ وقال الحلواني لا بأس بالفصل بالأوراد واختارہ الکمال۔ قال الحلبي: إن أرید بالکراہۃ التنزیہیۃ ارتفع الخلاف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص:۲۴۶، ۲۴۷ زکریا ،دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص355

 

فقہ

Ref. No. 1101 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  سفیر جو چندہ کرے ، پہلے مکمل ذمہ دار کے پاس جمع کردے، وہ اس سفیر کو بطور انعام کچھ دے اور سفیر لے تو گنجائش ہے، مگرصدقات واجبہ کی رقوم میں قبل از حیلہ تملیک تصرف درست نہیں ہے۔ کذا فی کتب الفتاوی۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38/870

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:اگر امام نے قرات شروع کردی تو مقتدی ثناء نہ پڑھے،چاہے مدرک ہو یا مسبوق۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 39 / 859

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شاپنگ مال بنوانے میں کیا قباحت ہے، اور کس طرح کی بے حیائی تیزی سے پھیلتی ہے  اس کی وضاحت کریں۔ ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ شاید آپ گراہکوں کی بات کررہے ہیں کہ وہاں  نیم عریاں خواتین  آتی ہیں،  تو یہ بات شاپنگ مال کے ساتھ کیا خاص ہے یہ تو آپ کی دوکان پر بھی کوئی نیم عریاں خاتون آ سکتی ہے، اس میں آپ کو احیتاط کی ضرورت ہے، ان کو کیسے منع کرسکتے ہیں؟ایسی صورت میں  آپ کی  تجارت پر ظاہر ہے کوئی فرق  نہیں آئے گا۔ واللہ اعلم بالصواب 

۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/944

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ حکومت کہاں کی ہے اور اس میں موجود جج کون ہے اور طریقہء کار کیا ہے؟  اس لئے مطلقا کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا ہے۔ کیا واقعہ پیش آیا  اور کہاں پیش آیا تفصیل لکھیں یا کسی مفتی سے بالمشافہ معلوم کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1030/41-201

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ کے سوال سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ وخیرات کے لئے قرض لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہی مقصد ہے تو قرض لینا جائز ہے لیکن قرض لینے سے حتی الامکان احتراز کریں۔ نفلی صدقہ وخیرات واجب نہیں ہیں،   نہ دیں تو کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، لیکن اگر قرض ادا نہ کرسکے تو عنداللہ مواخذہ ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند