Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت ظہر اگر شروع کردی اور جماعت شروع ہوگئی ہے، تو دو رکعت پر سلام پھیر دے(۲) لیکن اگر جماعت کے چھوٹنے کا خطرہ ہو، تو سنت ظہر چھوڑ کر جماعت میں شریک ہو جائے اور بعد میں سنت ظہر ادا کرلے۔(۳)
(۲) أو شرع في سنۃ فأقیمت الجماعۃ سلم بعد الجلوس علی رأس رکعتین کذا روي عن أبي یوسف والإمام وہو الأوجہ لجمعہ بین المصلحتین ثم قضیٰ السنۃ أربعاً لتمکنہ منہ بعد أداء الفرض مع ما بعدہ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘:ج ، ص: ۴۵۱؛ وفتح القدیر، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۹، زکریا دیوبند)
(۳) بخلاف سنۃ الظہر حیث یترکہا في الحالین، لأنہ یمکنہ أداؤہا في الوقت بعد الفرض ہو الصحیح۔ (مرغیناني، ھدایہ، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، دار الکتاب دیوبند؛ و ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص351
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 847 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: قاری صاحب اپنا وقت فارغ کرکے اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے جلسہ میں جاتے ہیں جسکی وجہ سے مدرسہ سے ان کی تنخواہ بھی وضع ہوتی ہے، اس لئے اہل جلسہ کو چاہئے کہ قاری صاحب کو حسب استطاعت ضرور دیں۔تاہم قاری صاحب کا قرآن پڑھنے کی اجرت طے کرنا درست نہیں ہے، اس پر اصرار نہ ہونا چاہئے۔ البتہ سفرخرچ وغیرہ یقینا اہل جلسہ پر ہی لازم ہے، اور اس کا مطالبہ اور تعیین بھی درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 935/41-68
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب تک زبان سے طلاق وغیرہ کے کچھ الفاظ نہیں بولے گا نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وسوسوں سے پرہیز کریں۔ صبح و شام معوذتین کا ورد کریں ۔اور دعاء کریں ان شاء اللہ فائدہ ہوگا.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Usury / Insurance
Ref. No. 1024/41-219
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The Muslim brother should sell the precious stone received as a guarantee and keep only as much money as the non-Muslim owed to him i.e. 10000 USD only. The rest amount of 90,000 USD must be returned to the non-Muslim brother. The non-Muslim brother is the owner of extra amount of 90,000. So it is forbidden and haram as per Shariah for a Muslim to take extra amount.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1484/42-949
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح غلطی سے زبان پرمطلقہ کا لفظ جاری ہونےسے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کے لئے بیوی کی جانب نسبت ضروری ہے جبکہ مذکورہ جملہ اور اس کا پس منظر بالکل مختلف ہے۔ آپ کی نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نہیں تھی۔ اس لئے صورت بالا میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
قال لها: إن خرجت يقع الطلاق فخرجت لم يقع الطلاق لتركه الإضافة لها كذا في القنية في باب فيما يكون تعليقا أو تنجيزا. (الھندیۃ الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/439) "لا يقع من غير إضافة إليها". ( شامی، كتاب الطلاق، باب الصريح، 3/273)
(قَوْلُهُ: لِتَرْكِهِ الْإِضَافَةَ) أَيْ الْمَعْنَوِيَّةَ، فَإِنَّهَا الشَّرْطُ، وَالْخِطَابُ مِنْ الْإِضَافَةِ الْمَعْنَوِيَّةِ، وَكَذَا الْإِشَارَةُ نَحْوُ هَذِهِ طَالِقٌ، وَكَذَا نَحْوُ امْرَأَتِي طَالِقٌ، وَزَيْنَبُ طَالِقٌ". (شامی، كتاب الطلاق، باب الصريح، 3/248)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلی آیت میں یہود و نصاریٰ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا بنا لیا ہے؛ یعنی جو منصب خدا کا تھا یعنی حلال اور حرام کی تشریع وہ یہود ونصاریٰ نے اپنے عالموں اور درویشوں کو دیدیا وہ اگر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہہ دیتے ہیں، تو یہ اس کو سند کہتے ہیں، کتب سماویہ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ دوسری آیت سورۃ عبس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن تو وہ ہے جس کی آیتیں آسمان کے اوپر نہایت معزز بلند مرتبہ صاف سنہرے ورقوں میں لکھی ہوئی ہیں اور زمین پر مخلص ایماندار بھی اس کے اوراق نہایت عزت و احترام اور تقدیس و تطہیر کے ساتھ اونچی جگہ رکھتے ہیں یعنی وہاں فرشتے اس کو لکھتے ہیں اس کے موافق وحی اترتی ہے اور یہاں بھی اوراق میں لکھنے اور جمع کرنے والے دنیا کے بزرگ ترین پاکباز نیکوکار اور فرشتہ خصلت بندے ہیں، جنہوں نے ہر قسم کی کمی بیشی اور تحریف وتبدیل سے اس کو پاک رکھا ہے۔ ترجمہ آیت پاک کا یہ ہے، یوں نہیں وہ تو نعمت ہے پھر جو کوئی چاہے اس کو پڑھے، لکھا ہے عزت کے ورقوں میں، اونچے رکھے ہوئے ہیں، نہایت بہترین ہاتھوں میں لکھنے والوں کے جو بڑے درجے کے نیکوکار ہیں، مارا جاوے انسان کیسا ناشکرا ہے۔ پس ان تینوں آیتوں پر تو ہر مسلمان کا عقیدہ ہے۔ مکان کی دیوار پر اس طرح ایسے حصے پر لکھنا کہ بارش وغیرہ کے پانی سے حروف دھل کر پانی نیچے نہ گرے مباح ہے۔ امام صاحب کا یہ کہنا کہ اس سے ہمارے عقیدے خراب ہوتے ہیں (العیاذ باللہ) بالکل ہی غلط بات ہے۔ امام صاحب کو یہ بتلانا ہوگا جو جملے وہ بولتے ہیں اس سے ان کا مقصد اور منشا کیا ہے اور ان کے جملوں کی کیا تاویل کی جائے۔ ورنہ آیات سے متعلق ان کے مذکورہ جملے سلب ایمان کا سبب بن سکتے ہیں، ایسی صورت میں ان کے پیچھے نماز بھی صحیح نہیں ہوگی، آپ جو عبارات لکھواتے ہیں ان میں بھی ابہام ہوجاتا ہے پہلی آیت کے ترجمے میں انہوں نے بجائے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء ومشائخ کو اپنا رب بنا لیا، ورنہ عوام اس کا غلط مطلب بھی نکال سکتے ہیں۔ اگر امام صاحب اسی بنا پر منع کرتے ہیں تو پھر وہ خاطی نہیں۔ بہر حال امام صاحب کے بارے میں کچھ اس وقت تک نہیں کہا جاسکتا جب تک ان کا منشا و مقصد معلوم نہ ہو امام صاحب کو اپنے ہمنواؤں سے مٹوا دینا بہت غلط بات ہے اگر کوئی خامی ہے، تواس کی اصلاح کرنی چاہئے تھی نہ یہ کہ فتنہ اور جھگڑے کی راہ کھولیں، ان کو پرہیز لازم ہے۔(۱)
(۱) عن مصعب بن سعد، عن عدي بن حاتم رضي اللّٰہ عنہ، قال: أتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفي عنقي صلیب من ذہب۔فقال: یا عدی اطرح عنک ہذا الوثن، وسمعتہ یقرأ فی سورۃ براءۃ: (إِتَّخَذُوْٓا أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ)، قال: أما إنہم لم یکونوا یعبدونہم، ولکنہم کانوا إذا أحلوا لہم شیئا استحلوہ، وإذا حرموا علیہم شیئا حرموہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ”أبواب التفسیر: ومن سورۃ التوبۃ“: ج ۲، ص: ۴۰۱، رقم: ۵۹۰۳)
ومن حجد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ أو آیۃ قلت، وکذا کلمہ أو قرأۃ متواترۃ أو زعم إنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبوحنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”فصل فیما یتعلق بالقرآن والصلاۃ“: ص: ۹۷۲)
وینقض أي الإیمان بارتکاب أعمالہ السیءۃ (وفیہ) …… ثم الطاعۃ والعبادۃ ثمرۃ الإیمان ونتیجۃ الإیقان وتنور القلب تنور العرفان بخلاف المعصیۃ فإنہا تسود القلب ومصحف محبۃ العرب ربما یجرہ مداومۃ العصیان إلی ظلمات الکفران۔ (أبوحنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”بحث في أن المؤمنین مستوون في الإیمان“: ص: ۶۴۱)
وعلم التفسیر یؤخذ من أفواہ الرجال کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ، ومن أقوال الأئمۃ وتأویلاتہم بالمقاییس العربیۃ کالحقیقۃ والمجاز والمجمل والمفصل والعام والخاص، ثم یتکلم علی حسب ما یقتضیہ أصول الدین، فیؤول القسم المحتاج إلی التأویل علی وجہ یشہد بصحتہ ظاہر التنزیل فمن لم یستجمع ہذہ الشرائط کان قولہ مہجورا وحسبہ من الزاجر أنہ مخطیء عند الإصابۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ”کتاب العلم: الفصل الثاني“: ج ۱، ص: ۷۴۴، رقم: ۵۳۲)
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1756/43-1466
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسبوق کو اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں یاد تھیں، لیکن اس کو مسئلہ معلوم نہیں تھا اس وجہ سے اس نے امام کے ساتھ سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد ہوگی اور ازسرنو نماز پڑھنی ہوگی۔ اور اگر اس کو رکعتوں کا چھوٹنا یاد نہیں تھا اور بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیرنے میں شریک ہوگیا تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھ لینے سے نماز درست ہوجائے گی۔
يفسدها السلام للصلاة عمدا وأما غيره فإن كان على ظن أن الصلاة تامة فغير مفسد وإن كان ناسيا للصلاة فمفسد ولو سلم على رجل تفسد مطلقا. كذا في شرح أبي المكارم.
المسبوق إذا سلم على ظن أن عليه أن يسلم مع الإمام فهو سلام عمد يمنع البناء. كذا في الخلاصة في مما يتصل بمسائل الاقتداء مسائل المسبوق وهكذا في فتاوى قاضي خان في فصل فيمن يصح الاقتداء به.
ولو سلم المسبوق مع الإمام ينظر إن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته وإن كان ساهيا لما عليه من القضاء لا تفسد صلاته؛ لأنه سلام الساهي فلا يخرجه عن حرمة الصلاة. كذا في شرح الطحاوي في باب سجود السهو. (الھندیۃ الفصل الاول فیما یفسدھا 1/98)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
The Holy Qur’an & Interpretation
Ref. No. 1963/44-1884
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
No matter how big a person's mistake is, Allah's power is bigger than that. True repentance before Allah makes a person as if he had not committed a sin. Therefore, the mistake you have committed and you are extremely ashamed of it and you determine never to repeat that sin in the future, then it will be your sincere repentance, and Allah will be pleased with you. It is mentioned in Ahadith that the one who repents after committing a sin, he is like a new-born baby. Allah is great, keep on worshiping Him, believe in His mercy, and never commit any sin in your lifespan, and keep asking Allah for a good and satisfying life.
’’قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘ [الزمر:53]
’’اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]
’’حدثنا أخشن السدوسي، قال: دخلت على أنس بن مالك قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " والذي نفسي بيده - أو والذي نفس محمد بيده - لو أخطأتم حتى تملأ خطاياكم ما بين السماء والأرض، ثم استغفرتم الله لغفر لكم، والذي نفس محمد بيده - أو والذي نفسي بيده - لو لم تخطئوا لجاء الله بقوم يخطئون، ثم يستغفرون الله، فيغفر لهم.‘‘ مسند الإمام أحمد بن حنبل (ج:21، ص:146، ط: مؤسسة الرسالة(
’’عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لله أفرح بتوبة عبده من رجل أضل راحلته بفلاة من الأرض، فالتمسها، حتى إذا أعيا تسجى بثوبه، فبينا هو كذلك إذ سمع وجبة الراحلة حيث فقدها، فكشف الثوب عن وجهه، فإذا هو براحلته.‘‘ ’’عن أبي عبيدة بن عبد الله عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "التائب من الذنب كمن لا ذنب له.‘‘ ’’عن أنس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كل بني آدم خطاء، وخير الخطائين التوابون.‘‘ سنن ابن ماجه (ج:5، ص:319-321، ط: دار الرسالة العالمية(
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبروں و مزاروں پر چڑھاوا ناجائز ہے(۱) غیر اللہ کے نام پر جو چڑھاوا چڑھایا گیا ہے وہ مال حرام ہے جس کے مالک چڑھاوا چڑھانے والے ہی ہوتے ہیں اور مال حرام کا حکم یہ ہے کہ جن کا مال ہو انہیں کو واپس کرنا ضروری ہے اگر واپسی دشوار ہو تو غرباء پر بلانیت کے تصدق کردیا جائے، مذکورہ صورت میں بھی رقم کا بلا نیت ثواب تصدق واجب ہے۔(۲)
(۱) {وَمَآ أُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِج} (سورۃ البقرۃ: ۱۷۳)
ولا بأس بزیارۃ القبور ولو للنساء وقیل تحرم علیہن والأصح أن الرخصۃ ثابتۃ لہن بحر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
(۲) وإلا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج۹، ص: ۵۵۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص361
فقہ
Ref. No. 2481/45-3764
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے اپنا گوڈاؤن براہ راست فلم والوں کو نہیں دیاہے، بلکہ آپ نے جس کو دیا ہے اس نے جہاں اوروں کا سامان کرایہ پر رکھاہے وہیں فلم والوں کا بھی رکھ لیا ہے، تو اس سے آپ کی کرایہ والی آمدنی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لئے اس شخص کو گوڈاؤں کرایہ پر دینا جائز ہے اورآپ کے لئے اس کا پورا کرایہ حلال ہے۔ تاہم اگرایساہوتا رہاتو آپ کو یہ کرایہ داری ختم کردینی چاہئے۔
وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤَاجِرَ الْمُسْلِمُ دَارًا مِنْ الذِّمِّيِّ لِيَسْكُنَهَا فَإِنْ شَرِبَ فِيهَا الْخَمْرَ، أَوْ عَبَدَ فِيهَا الصَّلِيبَ، أَوْ أَدْخَلَ فِيهَا الْخَنَازِيرَ لَمْ يَلْحَقْ الْمُسْلِمَ إثْمٌ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُؤَاجِرْهَا لِذَلِكَ وَالْمَعْصِيَةُ فِي فِعْلِ الْمُسْتَأْجِرِ وَفِعْلُهُ دُونَ قَصْدِ رَبِّ الدَّارِ فَلَا إثْمَ عَلَى رَبِّ الدَّارِ فِي ذَلِكَ. (سرخسى، المبسوط، 16: 39، بيروت: دارالمعرفة) (الشيخ نظام و جماعة من علماء الهنديه، الفتاویٰ الهنديه، 4: 450، بيروت: دارالفکر)
وَمَنْ أَجَّرَ بَيْتًا لِيُتَّخَذَ فِيهِ بَيْتُ نَارٍ أَوْ كَنِيسَةٌ أَوْ بِيعَةٌ أَوْ يُبَاعُ فِيهِ الْخَمْرُ بِالسَّوَادِ فَلَا بَأْسَ بِهِ.(مرغيناني، الهداية، 4: 94، المکتبة الاسلاميه)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند