Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں چوں کہ سجدہ سہو نہیں کیا گیا جب کہ سجدہ سہو لازم تھا؛ اس لیے نماز اس کی واجب الاعادہ ہے امام پر لازم ہے کہ اس وقت کے شرکاء مقتدیوں میں اعلان کر دے کہ اپنی اپنی نماز کا اعادہ کر لیں۔(۱)
(۱) (وإعادتہا بترکہ عمدا) أي ما دام الوقت باقیا، وکذا في السہو إن لم یسجد لہ، وإن لم یعدہا حتی خرج الوقت تسقط مع النقصان، وکراہۃ التحریم، ویکون فاسقا آثما، وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم، والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولی لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ، ویندب إعادتہا لترک السنۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا، فصل: في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۸)قولہ: (وتعاد وجوبا) أي بترک ہذہ الواجبات أو واحد منہا: وما في الزیلعي والدرر والمجتبی من أنہ لو ترک الفاتحۃ یؤمر بالإعادۃ لا لو ترک السورۃ، ردہ في البحر بأن الفاتحۃ… وإن کانت آکد في الوجوب للاختلاف في رکنیتہا دون السورۃ، لکن وجوب الإعادۃ حکم ترک الواجب مطلقا لا الواجب المؤکد، وإنما تظہر الآکدیۃ في الإثم لأنہ مقول بالتشکیک۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۶، ۱۴۷)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 207
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں اس کو چھٹی رکعت ملالینی چاہیے تھی کہ چار رکعت فرض ہو جاتی اور دو رکعت نفل ہو جاتی اب اس صورت میںاس کی پانچویں رکعت باطل ہو گئی اور سجدہ سہو کر لینے کی وجہ سے چار کعت فرض اداء ہو گئیں۔(۱)
(۱) رجل صلی الظہر خمسا وقعد في الرابعۃ قدر التشہد، إن تذکر قبل أن یقید الخامسۃ بالسجدۃ أنہا الخامسۃ عاد إلی القعدۃ وسلم، کذا في المحیط ویسجد للسہو، …کذا في السراج الوہاج، وإن تذکر بعدما قید الخامسۃ بالسجدۃ أنہا الخامسۃ لا یعود إلی القعدۃ ولا یسلم بل یضیف إلیہا رکعۃ أخری حتی یصیر شفعا ویتشہد ویسلم، ہکذا في المحیط۔
ویسجد للسہو استحسانا، کذا في الہدایۃ، وہو المختار، کذا في الکفایۃ ثم یتشہد ویسلم، کذا في المحیط، والرکعتان نافلۃ ولا تنوبان عن سنۃ الظہر علی الصحیح، کذا في الجوہرۃ النیرۃ قالوا في العصر لا یضم إلیہا سادسۃ وقیل: یضم وہو الأصح، کذا في التبیین، وعلیہ الاعتماد؛ لأن التطوع إنما یکرہ بعد العصر إذا کان عن اختیار وأما إذا لم یکن عن اختیار فلا یکرہ، کذا في فتاوی قاضي خان … ویضم إلیہا رکعۃ سادسۃ ولو لم یضم فلا شيء علیہ، کذا في الہدایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو، فصل: سہو الإمام یوجب علیہ وعلی من خلفہ السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸، ۱۸۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 206
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اس شخص پر سجدہ سہو لازم ہے، سجدہ سہو کرنے سے نمازصحیح ہو جائے گی اور اگر سجدہ سہو نہ کیا، تو نماز واجب الاعادہ ہوگی۔(۲)
(۲) وسجد للسہو … (وإن قعد في الرابعۃ) مثلا قدر التشہد (ثم قام عاد وسلم)۔ قولہ: (عاد وسلم)۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۳)(وإن کثر) شکہ (عمل بغالب ظنہ إن کان) لہ ظن للحرج (وإلا أخذ بالأقل) لتیقنہ (وقعد في کل موضع توہمہ موضع قعودہ) ولو واجبا لئلا یصیر تارکا فرض القعود أو واجبہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۱)(وإن قعد) في الرکعۃ (الرابعۃ) مثلاً قدر التشہد، (ثم قام عاد وسلم)، ولو سلم قائماً صح، ولا یتبعہ القوم في الأصح، بل ینتظرونہ فإن عاد یتبعوہ، وإن سجد سلموا، (مالم یسجد) للخامسۃ الخ۔ (عبد الرحمن، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۴، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 205
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں سجدہ سہو واجب ہے اور سجدہ سہو کر لیا تو نماز ہو گئی اور اگر نہیں کیا تو نماز کا لوٹانا واجب ہوگا۔(۱)
(۱) لو قرأ آیۃ في الرکوع أو السجود أو القومۃ فعلیہ السہو، ولو قرأ…في القعود إن قرأ قبل التشہد في القعدتین فعلیہ السہو لترک واجب الابتداء بالتشہد أول الجلوس۔ (أحمد بن اسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۱، دار الکتاب، دیوبند)وإذا قرأ الفاتحۃ مکان التشہد فعلیہ السہو، وکذلک إذا قرأ الفاتحۃ ثم التشہد کان علیہ السہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۷)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 205
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال ان تمام لوگوں کی نماز درست ہو گئی کہ جنہوں نے رکوع وسجدے وغیرہ ارکان میں امام کی موافقت وپیروی کی ہے۔(۱)
(۱) (والسہو في صلاۃ العید والجمعۃ والمکتوبۃ والتطوع سواء) والمختار عند المتأخرین عدمہ في الأولیین لدفع الفتنۃ کما في جمعۃ البحر، وأقرہ المصنف، وبہ جزم في الدرر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۰)قولہ: (عدمہ في الأولیین) الظاہر أن الجمع الکثیر فیما سواہما کذلک کما بحثہ بعضہم ط وکذا بحثہ الرحمتی، وقال خصوصا في زماننا۔ وفي جمعۃ حاشیۃ أبي السعود عن العزمیۃ أنہ لیس المراد عدم جوازہ، بل الأولیٰ ترکہ لئلا یقع الناس في فتنۃ۔ اہـ قولہ: (وبہ جزم في الدرر) لکنہ قیدہ محشیہا الواني بما إذا حضر جمع کثیر، وإلا فلا داعی إلی الترک۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۰)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 204
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں سجدہ سہو لازم اور واجب نہیں ہے، کیوں کہ اس صورت میں ترک واجب نہیں ہوا کہ سجدہ سہو لازم آئے، بلکہ بغیر سجدہ سہو کے نماز درست اور صحیح ہے۔
’’وفي أظہر الروایات لا یجب سجود السہو لأن القرأۃ فیہا مشروعۃ من غیر تقدیر والاقتصار علی الفاتحۃ مسنون لا واجب‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۰، مکتبہ زکریا، دیوبند)ولو قرأ في الأخریین الفاتحۃ والسورۃ لا یلزمہ السہو، وہو الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۶، مکتبہ فیصل، دیوبند)واکتفی) المفترض (فیما بعد الأولیین بالفاتحۃ) فإنہا سنۃ علی الظاہر ولو زاد لا بأس بہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: مہم في عقد الأصابع عند التشہد‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۱)قولہ: (ولو زاد لا بأس)، أي لو ضم إلیہا سورۃ لا بأس بہ لأن القراء ۃ في الأخریین مشروعۃ من غیر تقدیر۔ (أیضاً:)ولا یجب السجود إلا بترک واجب أو تأخیرہ أو تأخیر رکن أو تقدیمہ أو تکرارہ أو تغییر واجب بأن یجہر فیما یخافت وفي الحقیقۃ وجوبہ بشيء واحد وہو ترک الواجب کذا في الکافي۔ (وأیضاً)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 203
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت سے معلوم ہوتا ہے کہ زید کی زندگی کے آخری تین سال جنون کی کیفیت میں گذرے؛ اس لیے بشرط صحت سوال ان نمازوں کا کوئی کفارہ لازم نہیں جو اس حالت میں فوت ہوگئیں۔
’’رفع القلم عن ثلاثۃ عن المجنون حتی یفیق وعن النائم حتی یستیقظ وعن الصبي حتی یحتلم‘‘(۱)
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الحدود: باب في المجنون یسرق ویصیب حداً‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۴، رقم: ۴۴۰۱۔فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 199
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: چھوٹی ہوئی نماز کے فدیہ کے سلسلے میں اگر مرحوم نے وصیت کی ہے تو ان کے ترکہ کے ایک تہائی مال سے فدیہ ادا کیا جائے گا اور اگر وصیت نہیں کی ہے تو ترکہ سے یاورثا کا اپنی طرف سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہے ہاں اگر ورثہ اپنے طور پر ادا کرنا چاہیں تو ادا کرسکتے ہیں ’’إن شاء اللہ‘‘ اللہ تعالیٰ قبول فرمالیں گے، ایک نماز یا ایک روزہ کا فدیہ (kg1.633) ایک کلو چھ سو تینتیس گرام گیہوں یا اس کی قیمت ہے۔ جتنی نماز یں یا روزے ہیں اسی اعتبار سے اس کا حساب لگالیا جائے، پھر یکبارگی یا تھوڑا تھوڑا حسب سہولت نکالیں۔ جن کو زکاۃ دینا جائز ہے ان کو یہ رقم یا گیہوں دے سکتے ہیں۔
’’لومات وعلیہ صلوات فائتۃ و أوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر (قولہ یعطی) بالبناء للمجہول: أي یعطي عنہ ولیہ: أي من لہ ولایۃ التصرف في مالہ بوصایۃ أو وراثۃ فیلزمہ ذلک من الثلث إن أوصی، وإلا فلا یلزم الولي ذلک لأنہا عبادۃ فلا بد فیہا من الاختیار، فإذا لم یوص فات الشرط فیسقط في حق أحکام الدنیا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فیہ وصولہ إلی مستحقہ لا غیر، ولہذا لو ظفر بہ الغریم یأخذہ بلا قضاء ولا رضا، ویبرأ من علیہ الحق بذلک إمداد۔ ثم اعلم أنہ إذا أوصی بفدیۃ الصوم یحکم بالجواز قطعا لأنہ منصوص علیہ۔ وأما إذا لم یوص فتطوع بہا الوارث فقد قال محمد في الزیادات إنہ یجزیہ إن شاء اللّٰہ تعالٰی‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: إسقاط الصلاۃ عن المیت‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۲۔إذا مات الرجل وعلیہ صلوٰۃ فائتۃ فأوصی بأن تعطی کفارۃ صلواتہ یعطی… لکل صلاۃ نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع … وإن لم یوصی لورثۃ وتبرع بعض الورثۃ یجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر: في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 198
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: موجودہ اوزان کے اعتبار سے صدقہ کی مقدار ڈیڑھ کلو چوہتر گرام چھ سو چالیس ملی گرام ہے؛ لیکن احتیاط اس میں ہے کہ ایک کلو چھ سو تینتیس گرام کے اعتبار سے نکالے تو اس طرح نمازوں کے فدیہ میں بشمول وتر ایک دن کی چھ نمازوں کا فدیہ ۷۹۸- ۹ کلو ہوتا ہے، تو ایک سال کی نمازوں کا فدیہ ۲۹۰- ۷۸-۳۴؍ کونٹل گندم یا اس کی قیمت ہے ایک روزہ کا فدیہ بھی صدقۃ الفطر کے برابر ہے۔(۲)
(۲) لو مات وعلیہ صلوات فائتۃ وأوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلاۃ نصب صاع من بر کالفطرۃ، وکذا حکم الوتر والصوم۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب إسقاط الصلاۃ عن المیت‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۲)
والصحیح أن لکل صلاۃ فدیۃ ہي نصف صاع من بر أو دقیقہ أو سویقہ أو صاع تمر أو زبیب أو شعیر أو قیمتہ وہي أفضل لتنوع حاجات الفقیر وإن لم یوص وتبرع عنہ ولیہ أو أجنبي جاز إن شاء اللّٰہ تعالٰی۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في إسقاط الصلاۃ والصوم‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 197
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: خود اس کو اپنی نمازوں کا فدیہ دینا درست نہیں ہے اور اس فدیہ سے نماز ذمہ سے ساقط نہ ہوگی، کیوں کہ نماز میں یہ وسعت ہے کہ اگر کھڑے ہوکر نہ پڑھ سکے، تو بیٹھ کر پڑھے اور اگر بیٹھ کر نہ پڑھ سکے، تو لیٹ کر پڑھے، اگر رکوع، سجود نہ کر سکے، تو اشارے سے نماز پڑھے اس کے باوجود اگر نہ پڑھ سکے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ وصیت کردے کہ میرے مرنے کے بعد میرے مال سے میری نماز کا فدیہ ادا کردینا اور مرنے کے بعد کچھ مال چھوڑا تو کل مال کے ایک ثلث میں سے نمازوں کا فدیہ ادا کیا جائے اور اگر ایک ثلث مال سے فدیہ بڑھ جائے، تو پھر وارثوں کو اختیار ہے کہ زائد مقدار ادا کریں یا نہ کریں۔(۱)
(۱) تتمۃ: في البحر من القنیۃ: ولا فدیۃ في الصلوات حالۃ الحیاۃ بخلاف الصوم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۰، زکریا دیوبند)من تعذر علیہ القیام أي کلہ لمرض حقیقي وحدہ أن یلحقہ بالقیام ضرر بہ یفتی (قبلہا أو فیہا) أي الفریضۃ أو حکمي بأن خاف زیادتہ أو بطئ برئہ بقیامہ أو دوران راسہ أو وجد لقیامہ…ألماً شدیداً أو کان لو صلی قائما سلس بول أو تعذر علیہ الصوم کما مر صلی قاعداً إلی قولہ وإن تعذر القعود ولو حکماً أو مأ مستلقیا علی ظہرہ۔ (أیضاً: ج ۲، ص: ۶۴ ۵ تا ۵۶۹)لو مات وعلیہ صلوات فائتۃ وأوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: إسقاط الصلاۃ عن المیت‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۲)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 196