Frequently Asked Questions
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1101/42-321
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سود کی حرمت مطلق ہے، ہندوستان میں بھی حتی الامکان سود سے بچنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ جہاں نہیں بچ سکتے ہیں جیسے بینک میں تو وہاں سود کی رقم بینک سے نکال کر بلا نیت ثواب صدقہ کردینا چاہئے۔
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1210/42-511
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) ایسے تہواروں کے موقع پر مارکیٹ میں جو چھوٹ ملتی ہے، خواہ مسلم کی طرف سے ہو یا غیرمسلم کی طرف سے، ان سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (2) اگر مٹھائی کسی دیوی دیوتا پر چڑھاوے کہ نہ ہو اور اس میں کسی ناپاک چیز کی آمیزش کا اندیشہ بھی نہ ہو تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عام طور پر دوکاندار جو مٹھائی اپنے گراہکوں کو کھلاتے رہتے ہیں اس میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی ، اس لئے اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1329/42-704
There is nothing wrong seeking help from one another in worldly things, as the world system cannot function without it. However, the things which are specific to Allah Almighty are not in the power of anyone other than Him. So, seeking help in such matters from a man be it alive or dead considering him all-powerful and absolute granter is polytheism and haram (prohibited).
Elaborating on the explanation of the above-mentioned verse in Tafsir Ma'arif-ul-Quran (Kandhalvi) the commentator wrote: the rule about such a matter is that if a person seeks help from a human considering him all-powerful and all-granter, it is undoubtedly polytheism. If he does not consider a thing all-powerful but treats him as all-powerful, then too it is unlawful and haraam. And in some cases there is a fear of polytheism. So, if he does not treat him as all-powerful but does something that possibly leads people to thinking its absoluteness, it is unlawful, too.
The author further writes that the consumable things which fall under the power of humanity and connected with worldly life and nobody thinks them all-powerful such as – in order to remove hunger, seeking help from bread and to remove thirst, seeking help from water –, this help-seeking from other than Allah is permissible provided that the faith should be in Allah alone and the other should be considered merely a means and medium and manifestation of Divine help. As a tap is just a way for water to come out, the means are the ways of Divine favours, the actual giver is only He and a polytheist thinks that this tap itself is giving me water. Hence, he asks tap itself for water and flatters tap itself. To take an example, if a person considers medicine just a means and a doctor just a treatment provider, there is no problem, but if he considers medicine a real performer and a doctor a real healer, it is shirk (polytheism).
It should be noted that the Shari'ah things are the same as the consumable things. The only difference is that the consumable things being means were learned from consumption and the Shariah things being means were learned from Shari'ah. Therefore, as seeking help from consumable things is allowed, seeking help from Shari'ah things such as supplication and dua, patience and prayer is also allowed. For further detail, refer to Tafseer e Maariful Quran.
(Tafseer Maariful Quran (Kandhlavi): 1/5)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 1735/43-1426
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو چیز ہم خود استعمال نہیں کرسکتے اس کو دوسروں کو ہدیہ دینا بھی درست نہیں ہے خواہ وہ غیرمسلم ہو۔ حلال اور پاک کھانا کھاناچاہئے اور کھلانا چاہئے۔ ایسی چیز پھینک دینی چاہئے۔
أہدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام- - - اھ ( عالمگیری 5/342مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند(
وتعاونوا على البر والتقوى ۖ ولا تعاونوا على الإثم والعدوان ۚ واتقوا الله ۖ إن الله شديد العقاب (سورۃ المائدۃ 2)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1938/44-1863
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مدرسہ کے احاطہ میں موجود مسجد اگر مسجد شرعی ہے تو اس کے بھی وہی احکام ہیں جو دیگر مساجد کے ہیں، اورمساجد کی تعمیر کے مقاصد میں دینی تعلیم بھی شامل ہوتی ہے۔ اس لئے انتظامیہ کی اجازت سے مسجد میں قرآن کریم کی تعلیم کا نظم کرنا اور مسجد کی بجلی کا استعمال کرنا جائز ہے۔تاہم اگر مدرسہ میں گنجائش ہے اور مسجد میں حفظ کی کلاس سے نمازیوں کو دشواری ہوتی ہے تو مدرسہ میں ہی نظم کرلینا بہتر ہے۔
"وتعلیم الصبیان فیه بلاأجر و بالأجر یجوز". ( البزازیة،کتاب الکراهیة، الفصل الأول، نوع في المسجد، زکریا جدید۳/۲۰۱، وعلی هامش الهندیة، ۶/۳۵۷) "معلم الصبیان بأجر لو جلس فیه لضرورة الحر لا بأس به، وکذا التعلیم إن بأجر کره إلا للضرورة، وإن حسبة لا". ( البزازیة،زکریاجدید، ۱/۵۵، وعلی هامش الهندیة، ۴/۸۲) "أما الکاتب ومعلم الصبیان فإن کان بأجر یکره وإن کان حسبةً فقیل: لایکره، والوجه ماقاله إبن الهمام: أنه یکره التعلیم إن لم یکن ضرورةً؛ لأن نفس التعلیم ومراجعة الأطفال لایخلو عما یکره في المسجد". (حلبي کبیر، أشرفیه /۶۱۱، ۶۱۲)
"ویکره أن یخیط في المسجد؛ لأنه أعد للعبادة دون الاکتساب، کذا الوراق والفقیه إذا کتب بأجرة، وأما المعلم إذا علم الصبیان بأجرة، وإن فعلوا بغیر أجرة فلا بأس به". (الخانیة، کتاب الطهارة، فصل في المسجد، زکریا جدید۱/۴۳، وعلی هامش الهندیة ۱/۶۵، ۶۶) "معلم جلس في المسجد أو ورّاق کتب في المسجد، فإن کان المعلم یعلم بالأجروالورّاق یکتب لغیره، یکره لهما إلا أن یقع لهما الضرورة". (التاتار خانیة، زکریا ۱۸/۶۶، رقم: ۲۸۴۷) "أما المعلم الذي یعلم الصبیان بأجر إذا جلس في المسجد یعلم الصبیان لضرورة الحر أو غیره لایکره. وفي نسخة الإمام: جعل مسألة المعلم کمسألة الکاتب". (الهندیة، الصلاة، فصل کره غلق باب المسجد، زکریا قدیم ۱/۱۱۰، جدید۱/۱۶۹)
"ومعلم الصبیان القرآن کالکاتب إن کان لأجر لا وحسبة لا بأس به". (اعلاء السنن ۵/۱۳۳، دارالکتب العلمیۃ بیروت۵/۱۷۹، الموسوعۃ الفقہیۃ ۳/۲۰۶، فتح القدیر کوئٹہ ۱/۳۶۹، زکریا ۱/۴۳۵، دارالفکر۱/۴۲۲، خلاصۃ الفتاویٰ اشرفیہ ۱/۲۲۹، حلبی کبیر، سہیل اکیڈمی لاہور/۶۱۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2180/44-2290
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Many traditions have been reported regarding the one who led the funeral prayer of Hazrat Fatima. The preferred tradition is that Hazrat Abu Bakr Siddiq (R.A.) led the funeral prayer of Hazrat Fatima in the presence of Sahaba.
۔( کشف الباری، کتاب المغازی،ج:۸ ؍ ۴۶۳ ،ط:مکتبہ فاروقیہ) (سنن کبری 4/46 دارالکتب العلمیۃ بیروت) (طبقات ابن سعد 8/24 بیروت) (مدارج نبوت 2/686 لاہور) ما کنت لأتقدم وأنت خلیفة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتقدم أبوبکر وصلّی علیہا) (کنز العمال 12/515 بیروت)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ مطلع کردیا تھا کہ ایسے مقامات پر شفاعت کا حق آپ کو ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان فرما دیا {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیہط ۳ إِنْ ھُوَ إِلَّا وَحْيٌ یُّوْحٰیہلا ۴ }(۱)
(۱) سورۃ النجم: ۳-۴۔
عن أبي موسیٰ الأشعري، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: خیّرت بین الشفاعۃ، وبین أن یدخل نصف أمتي الجنۃ، فأخرت الشفاعۃ، لأنہا أعم وأکفی، أترونہا للمتقین؟ لا، ولکنہا للمذنبین، الخطاّئین المتلوّثین۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سنہ، ’’أبواب الدعوات، باب ذکر الشفاعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۹، رقم: ۴۳۱۱)
عبد الرحمن بن عمرو الأوزاعي قال: مررت بجدک عبد الواحد بن عبد اللّٰہ بن بسر، وأنا غازٍ وہو أمیر علی حمص، فقال لي: یا أبا عمروٍ، ألا أحدثک بحدیثٍ یسرک، فو اللّٰہ لربما کتمتہ الولاۃ؟ قلت: بلی۔ قال: حدثني أبي عبد اللّٰہ بن بسرٍ قال: بینما نحن بفناء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوما جلوساً إذ خرج علینا مشرق الوجہ یتہلل، فقمنا في وجہہ، فقلنا: سرک اللّٰہ یا رسول اللّٰہ، إنہ لیسرنا ما نری من إشراق وجہک، فقال رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن جبریل أتاني آنفاً، فبشرني أن اللّٰہ أعطاني الشفاعۃ، وہي في أمتي للمذنبین المثقلین۔ (سلیمان بن أحمد، المعجم الأوسط: ج ۵، ص: ۳۰۳-۳۰۴، رقم: ۵۳۸۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص218
متفرقات
Ref. No. 2532/45-3961
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فوٹوگرافی ناجائز ہے، اس میں کوئی کلام نہیں ہے، ہاں ڈیجیٹل تصاویر یعنی جب تک وہ موبائل کے ریل کے اندر ہے وہ عکس یا تصویر ہے اس میں اختلاف ہے، اس لئے احتراز اولیٰ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اگر نماز جنازہ شروع ہونے جا رہی ہو اور لوگ مزید انتظار نہ کرسکیں، اب ایسے افراد کے وضو میں مشغول ہونے کی صورت میں نماز جنازہ فوت ہو جانے کا اندیشہ ہے، تو ایسی حالت میں تیمم کر کے نماز اداء کر سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ ایسا شخص غیر ولی ہو کیونکہ وضو کرنے تک ولی کا تو انتظار کیا جاتا ہے؛ اس لیے ولی کے لئے تیمم کر کے نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں ہے۔
’’قولہ: وجاز لخوف فوت صلاۃ الجنازۃ أي ولو کان الماء قریباً: ثم اعلم أنہ اختلف فیمن لہ حق التقدم فیہا فروی الحسن، عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أنہ لا یجوز للولي لأنہ ینتظر ولو صلوا لہ حق الإعادۃ وصححہ في الہدایۃ والخانیۃ‘‘(۱)
’’ویجوز التیمم إذا حضرتہ جنازۃ والولي غیرہ فخاف إن اشتغل بالطہارۃ
أن تفوتہ الصلاۃ ولا یجوز للولي وہو الصحیح ولا لمن أمرہ الولي‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۸۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الرابع، باب التیمم: الفصل الثالث في المتفرقات‘‘: ج ۱، ص: ۸۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص367