تجارت و ملازمت

Ref. No. 1928/44-1984

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور صورت میں جس پراڈکٹ کا لنک ویب سائٹ مالک نے لگایا ہے، اگر وہ پراڈکٹ جائز ہے اور کمیشن متعین رقم یا پراڈکٹ کی قیمت کے متعین فیصد کے بقدر طے شدہ ہے تو یہ کام کرنا اور اس کی  اجرت لینا جائز ہے۔چونکہ اس میں لنک تشکیل دینے والے کی حیثیت اجیر کی ہے اور اجیر کا کام اس میں یہ ہے کہ وہ ویب سائٹس پر بیچے جانے والی چیزوں کا لنک تشکیل دیتا ہے اور لوگوں کو اس چیز کی خریداری کی طرف رغبت دلاکر مخصوص ویب سائٹس تک لے کر جاتا ہے، لہٰذا اس صورت میں لنک تشکیل دینے والے کو جو کمیشن ملے گا وہ سامان کی لنک سوشل میڈیا پر شیئر کرنے اور اس کے بکوانے کے سلسلے میں جو اس نے کوشش اور محنت کی ہے اس کا حق المحنت ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جتنا کمیشن ملنا ہو، وہ پہلے سے طے ہو۔ اس میں کسی قسم کی جہالت نہ ہو۔

’’إجارۃ السمسار والمنادی والحمامی والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۶، ص: ۴۷، ط: دار الفکر)

’’وأما الدلال فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا فأجرتہ علی البائع وإن سعی بینہما وباع المالک بنفسہ یعتبر العرف وتمامہ في شرح الوہبانیۃ۔

(قولہ: فأجرتہ علی البائع) ولیس لہ أخذ شيء من المشتری؛ لأنہ ہو العاقد حقیقۃ شرح الوہبانیۃ وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا؛ لأنہ لا وجہ لہ۔ (قولہ: یعتبر العرف) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتری أو علیہما بحسب العرف جامع الفصولین‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار: ج ۴، ص: ۵۶۰)

’’إذا باع الدلال مالا بإذن صاحبہ تؤخذ أجرۃ الدلالۃ من البائع ولا یعود البائع بشیء من ذلک علی المشتری لأنہ العاقد حقیقۃ وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا لأنہ لا وجہ لہ أما إذا کان الدلال مشی بین البائع والمشتری ووفق بینہما ثم باع صاحب المال مالہ ینظر فإن کان مجری العرف والعادۃ أن تؤخذ أجرۃ الدلال جمیعہا من البائع أخذت منہ أو من المشتری أخذت منہ أو من الاثنین أخذت منہما  أما إذ باع الدلال المال فضولا لا بأمر صاحبہ فالبیع المذکور موقوف ویصبح نافذا إذ أجاز صاحب المال ولیس للدلال أجرۃ فی ذلک لأنہ عمل من غیر أمر فیکون متبرعا‘‘ (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام: ج ۱، ص: ۲۳۱) فقط

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2174/44-2291

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان کی زمین میت کی تدفین کے لئے وقف ہے، اس زمین کو اس مقصد کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس لئے سوال میں مذکور امور کے لئے کسی دوسری جگہ کا انتظام کیا جائے۔

مراعاة غرض الواقفين واجبة. (رد المحتار على الدر المختار، كتاب الوقف، مطلب مراعاة غرض الواقفين واجبة، ج:6، ص:665). 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اذان اصل میں نماز وجماعت کا وقت ہوجانے کی اطلاع کے لیے ہے، فقہاء نے آگ لگ جانے یا غموں اور پریشانیوں کے دور کرنے کے لیے، اس کی اگرچہ اجازت دی ہے(۱)؛ لیکن رخصتی کے وقت کی کوئی نظیر نہیں، قطعاً غیر مشروع اور ناجائز ہے۔ (۲)

(۱) رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ، کما في أذان المولود، والمہموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الآذان‘‘: ج ۲، ص: ۸۲)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص426

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن وسنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں جنہیں معمولی پڑھا لکھا شخص سمجھ سکتا ہے اس کے برعکس قرآن وسنت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں کوئی ابہام یا اجمال یا قرآن کریم کی ایک آیت کا دوسری آیت اور حدیث سے بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے ان جیسے مسائل میں اجتہاد کیا جاتا ہے اور اجتہاد اتنی اہم اور نازک ذمہ داری ہے کہ ہر کس وناکس کو یہ ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی ہے اس کے لئے اخلاص وللہیت، تقویٰ، خدا ترسی شرط ہے اس کے ساتھ ساتھ عمیق علم، ذکاوت وفراست وسیع نظر اور زمانہ سے بھر پور آگہی کی بھی ضرورت ہے اسی مفہوم کو علامہ جلال الدین محلی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مجمع الجوامع میں لکھا ہے: وہ عامی جو کتاب وسنت کو نہیں جانتا اور نہ اس میں نصوص کے تتبع تلاش، سمجھنے اور ان سے حکم شرعی مستنبط کرنے کی صلاحیت ہے تو وہ کسی ایسے مجتہد کے اجتہاد پرعمل کرے جس کے استنباط مع دلائل مدون ہیں ان پر عمل کرنے والا شریعت پر عمل کرنے والا قرار دیا جائے گا۔
’’ویجب علی العامي وغیرہ فمن لم یبلغ مرتبۃ الاجتہاد والتزام مذہب معین من مذاہب المجتہدین‘‘(۱)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے عقد الجید میں امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے:
’’ویجب علی من لم یجمع ہذہ الشرائط تقلیدہ فیما یعن لہ من الحوادث‘‘(۲)
یعنی اس شخص پر جو ان شرائط کا جامع نہ ہو اس پر کسی مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے ان مسائل میں جو ان کو پیش آئیں۔
’’وبالجملۃ فالتمذہب للمجتہدین سر الہمہ اللّٰہ تعالیٰ العلماء وتبعہم علیہ من حیث یشعرون أولا یشعرون‘‘(۱)
مجتہدین کے مذاہب میں کسی مذہب کی پابندی ایک راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علماء کے دلوں میں الہام کیا اور اس پر ان کو متفق کیا ہے وہ اس کی مصلحت اور راز کو جانیں یا نہ جانیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اصولیین کے نزدیک تقلید نام ہے کہ جس امام اور مجتہد کی ہم تقلید کر رہے ہیں ان سے دلیل کا مطالبہ کئے بغیر ان کی بات کو مان لینا اور ان پر پورا اعتماد کرنا ہے(۲) اس میں مجتہد کی حیثیت شارع کی نہیں؛ بلکہ محض شارح کی ہوتی ہے اور ہر شخص کے اندر چونکہ اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ قرآن وحدیث سے مسائل کو خود اخذ کر سکے؛ اس لیے ائمہ مجتہدین پر آپ کو اعتماد کرنا چاہئے اور وہ جو سمجھے ہیں اور امت کو سمجھاتے ہیں اس کو منشاء الٰہی اور مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر واجب الاتباع سمجھنا چاہئے۔(۳)

(۱) نور الہدایہ ترجمہ شرح الوقایۃ: ص: ۱۰۔
(۲) الشاہ ولی اللّٰہ محدث الدہلوي، عقد الجید في أحکام الاجتہاد والتقلید، ’’المقدمۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۔
(۱) الشاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوي، الاتصاف في بیان أسباب الاختلاف، ’’باب حکایۃ حال الناس‘‘: ج ۱، ص: ۷۳۔
(۲) مفتي محمد تقي عثماني، درس ترمذي: ج ۱، ص: ۱۳۔
(۳) الشاہ ولي اللّٰہ محدث الدہلوي، عقد الجید، ورسائل إمام ولي اللّٰہ الدہلوي: ج ۲، ص: ۱۳۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص151

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر مقلدین ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے، بلکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قرآن وحدیث سے خود مسائل کو سمجھتے ہیں، ظاہر ہے کہ ائمہ اربعہ نے قرآن کریم اور احادیث مقدسہ میں مہارت کے بعد انہیں سے مسائل کی تخریج فرمائی ہے، اور انہیں آج کے لوگوں کے مقابلہ زیادہ ہی علم تھا، تقلید کا انکار کرنے والے گویا خود ہی مجتہد ہیں، اور متعدد مسائل میں اختلاف کرتے ہیں، ان باتوں پر اعتماد درست نہیں، تفصیل وتحقیق کے لئے مطالعہ غیر مقلدیت مؤلفہ مولانا صفدر خاں صاحب کا مطالعہ مفید ہوگا۔(۱)

(۱) أہل الحق منہم أہل السنۃ والجماعۃ المنحصرون بإجماع من یعتد بہم في الحنفیۃ والشافعیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ، وأہل الہواء منہم غیر المقلدین یدعون اتباع الحدیث وأني لہم ذلک۔ (أشرف علي التھانوي، مأۃ دروس: ص: ۲۸)
فإن أہل السنۃ قد افترق بعد القرون الثلاثۃ أو الأربعۃ علی أربعۃ مذاہب ولم یبق مذہب في فروع المسائل سوی ہذہ الأربعۃ فقد انعقد الاجماع المرکب علی بطلان قول مخالف کلہم وقدقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یجتمع أمتي علی الضلالۃ، وقال اللّٰہ تعالیٰ: {وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَسَآئَ تْ مَصِیْرًاہع ۱۱۵} (محمد ثناء اللّٰہ پانی پتیؒ، تفسیر المظہري؛ ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘ ج ۱، ص: ۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص247

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2705/45-4183

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس نے قرآن کریم حفظ کیا اور اس کو یاد رکھنے میں  حتی المقدور کوشش کی تو وہ بھی حافظ قرآن کے زمرے میں ہی ہوگا۔ حافظ قرآن ہونا بڑی سعادت کی بات ہے اور جس قدر قرآن پختہ ہو اسی قدر سعادت کا درجہ بھی ہے تاہم بار بار یاد کرنے پر بھی کچھ حصہ کا پختہ نہ ہونا قیامت میں سرخروئی کے لئے مانع نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ ۔ بہرحال ، مسواک کا اہتمام،تقوی و پر ہیزگاری کو لازم پکڑنا، بدنگاہی اور بدزبانی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا، اور  اہل حق مشائخ سے رابطہ قوی رکھنا حفظ قرآن میں سہولت کا باعث  ہوگا،ان شاء اللہ تعالیٰ۔

:-’’اَلْمَاہِرُ بِالْقُرْأٰنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ ،وَالَّذِیْ یَقْرَئُ الْقُرْأٰنَ وَ یَتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَہُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَہٗ أَجْرَانِ۔‘‘ (رواہ البخاری ، ج:۱، ص:۲۶۹)

:-’’مَنْ قَرَأَ الْقُرْأٰنَ اسْتَدْرَجَ النُّبُوَّۃَ بَیْنَ کَتِفَیْہِ إِلَّا أَنَّہٗ لَا یُوْحٰی إِلَیْہِ لَا یَنْبَغِیْ لِصَاحِبِ الْقُرْأٰنِ أَنْ یَّحِدَّ مَعَ مَنْ یَّحِدُّ وَلَا یَجْہَلَ مَعَ مَنْ یَجْہَلُ وَفِيْ جَوْفِہٖ کَلَامُ اللّٰہِ۔‘‘ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان والحاکم فی المستدرک ، قلت: قال الحاکم فی المستدرک علی شرط الشیخین، ج:۱،ص:۵۵۲ )

اَلْقُرْآنُ أَفْضَلُ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ فَمَنْ وَقَّرَ الْقُرْأٰنَ فَقَدْ وَقَّرَ اللّٰہَ وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالْقُرْآنِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی، حَمَلَۃُ الْقُرْآنِ ہُمُ الْمَحْفُوْفُوْنَ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ الْمُعَظِّمُوْنَ کَلَامَ اللّٰہِ الْمُلْبَسُوْنَ نُوْرَ اللّٰہِ فَمَنْ وَالَاہُمْ فَقَدْ وَالَی اللّٰہَ وَمَنْ عَادَاہُمْ فَقَدِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی۔(الجامع لاحکام القرآن للقرطبیؒ، ج:۱،ص:۲۶)

:-’’إِنَّ عَدَدَ دَرَجِ الْجَنَّۃِ بِعَدَدِ آیِ الْقُرْآنِ، فَمَنْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ مِمَّنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلَیْسَ فَوْقَہٗ أَحَدٌ۔‘‘ (البیہقی فی شعب الایمان بسند حسن ، الجامع الصغیر،ج:۲،ص:۴۵۸)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر مسجد میں سونے کے دوران احتلام ہو جائے، تو تیمم کر لینا مستحب ہے ضروری نہیں ہے۔
درمختار میں ہے:
’’لو احتلم فیہ (المسجد) إن خرج مسرعاً تیمم ندباً وإن مکث لخوف فوجوبا ولا یصلی ولا یقرأ‘‘ وقال الشامي ولو أصابتہ جنابۃ في المسجد قیل لا یباح لہ الخروج من غیر تیمم اعتباراً بالدخول‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲؛
وکذا في التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص368

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: داڑھی منڈانے والا اور سنیما دیکھنے والا منکرات شرعیہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہے، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، اس کے علاوہ دوسرے شخص کو امام بنایا جائے۔(۲)

(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وأکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔… (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وأکل الربا ونمام، ومراء ومتصنع … قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہا أولی من الإنفراد، لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي، قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، (أیضًا: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص155

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر وہ زمین سرکاری ذمہ داروں نے بخوشی مسجد کے لیے دی تھی جیسا کہ تحریری سوال سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو مسجد ہی کہہ کر پکارا جاتا ہے اور ایک عرصہ سے پانچوں وقت نماز با جماعت بھی ہو رہی ہے تو اس صورت میں وہ شرعی مسجد بن گئی ہے اور چوں کہ اوقات نماز اور امام وغیرہ مقرر ہیں تو اس جگہ پر دوسری جماعت مکروہ ہوگی اور اگر زبردستی اس زمین پر قبضہ کر کے نماز کی جگہ بنائی ہے کہ سرکاری ذمہ دار اب بھی اس جگہ کے مسجد بنانے پر راضی نہیں ہیں تو وہ شرعی مسجد نہیں بنی اور نہ ہی اس میں نماز فی المسجد کا ثواب ملے گا البتہ جماعت کا ثواب ملتا رہے گا اور وہ مسجد چوں کہ شرعی مسجد قرار نہیں دی جا سکتی بناء بریں وہاں جماعت ثانیہ درست ہوگی۔(۱)
(۱) یکرہ تکرار الجماعۃ في مسجد محلۃ بأذان وإقامۃ  لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن
(قولہ ویکرہ) أي تحریما لقول الکافي: لا یجوز، والمجمع لا یباح، وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي (قولہ بأذان وإقامۃ إلخ) والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعا۔ (ابن عابدین،  رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 480

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں بنیان پہن کر اذان دینا جائز ہے، اس صورت میں اذان ہو جائے گی، قابل اعادہ نہیں ہوگی۔البتہ بلا عذر ایسا نہیں کرنا چاہئے متقیوں والا مہذب لباس پہن کر اذان دینی چاہیے(۲)

(۲) (ویستحب أن یکون المؤذن صالحاً) أي متقیاً لأنہ أمین في الدین (عالماً بالسنۃ)( في الأذان وعالماً بدخول (أوقات الصلاۃ) لتصحیح العبادۃ (و) أن یکون (علی وضوء) لقولہ علیہ السلام لا یؤذن إلا متوضئ (مستقبل القبلۃ) کما فعلہ الملک النازل (إلا أن یکون راکباً) لضرورۃ سفرو وحل ویکرہ في الحضر راکباً في ظاہر الروایۃ۔ (أحمد بن محمد ، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
من سنن المؤذن کونہ رجلاً عاقلاً صالحاً عالماً بالسنن والأوقات مواظباً علیہ محتسباً ثقۃ متطہراً الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص128