فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں پیش آنے والے مسئلے کے حکم شرعی پر اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا متفق ہونا اجماع کہلاتا ہے، تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی اجماع ہو سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہو سکتی ہے گویا امت اپنی اجتماعی حیثیت میں معصوم ہے۔
’’الإجماع في اللغۃ العزم وفي الاصطلاح اتفاق المجتہدین من أمۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم في عصر علی أمر دینی وأیضاً: العزم التام علی أمر من جماعۃ أہل الحل والعقد‘‘(۱)
اجماع کے سلسلے میں ضروری ہے کہ اس عہد کے تمام مجتہدین کسی مسئلے پر متفق ہوں یا اکثر متفق ہوں پھر چند لوگوں کا اختلاف مضر نہیں ہوگا؛ لیکن اگر دونوں طرف مجتہدین کی جماعت ہو تو اس کو اجماع سے تعبیر نہیں کیا جائے گا، مثلاً: موجودہ دور میں جو سیمینار ہوتے ہیں ان میں اگر کسی مسئلے پر تمام حضرات کی ایک رائے ہوتی ہے اور دو تین لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں تو اس کو اجماعی مسئلہ ہی کہا جاتا ہے؛ لیکن اگر دونوں طرف اہل علم کی رائے ہو تو پھر اس کو متفقہ فیصلہ نہیں کہا جاتا؛ بلکہ یہ لکھا جاتا ہے کہ اس مسئلہ میں اہل علم کی دو رائے ہیں۔

(۱) قواعد الفقہ: ص: ۱۶؛ المدخل إلی الفتاوی علی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۳۴، فقہ إسلامي تدوین وتعارف: ص: ۴۸)
وفي أصول السرخسي إجماع الأمۃ موجب للعلم قطعاً کرامۃ لہم علی الدین لإنقطاع توہم إجتماعہم علی الضلال، وہذا مذہب الفقہاء وأکثر المتکلمین وہذا الإجماع حجۃ موجبۃ شرعاً۔ (المدخل إلی الفتاویٰ علی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۳۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص149

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود ناریہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے؛بلکہ اکابر کا مستند ومجرب وظیفہ رہا ہے اور مصائب وپریشانیوں سے نجات کے لیے اس کا ورد مجرب ہے۔(۱)
(۱) عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: لقیني کعب بن عجرۃ فقال ألا! أُہدي لک ہدیَّۃ سمعتہا من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقلت: بلی فأہدہا لي، فقال: سألنا رسول اللّٰہ علیہ وسلم، فقلنا: یا رسول اللّٰہ! کیف الصلاۃ علیکم أہل البیت فإن اللّٰہ قد علمنا کیف نسلم علیکم، قال: قولوا! اللہم صل علی محمد، وعلی آل محمد کما صلیت علی إبراہیم، وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔ اللّٰہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراہیم، وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب یزفون النسلان في المشي‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷، رقم: ۳۳۷۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص362

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :جیل کریم جس سے بال اپنی جگہ ٹکے رہتے ہیں، وہ تیل کے ہی حکم میںہے اور وہ بالوں تک پانی کے پہنچنے سے مانع نہیں ہوتا؛ اس لیے جیل کریم کے لگے ہوئے ہونے کی حالت میں مسح کرنا جائز ہے۔(۲)

(۲) ولا یمنع (ما علی ظفر صباغ) ولا (طعام بین أسنانہ) أوفي سنہ المجوف بہ یفتی و قیل إن صلبا منع وھو الأصح۔ ( ابن عابدین ، رد المحتار مع الدر المختار، ’’مطلب في أبحاث الغسل تنبیہ، لا یمنع الطھارۃ کالطعام بین الأسنان وضوء ا کان أو غسلا لأنھا لا تمنع نفوذ الماء (علی حیدر، درر الحکام شرح غرر الأحکام، ’’فرائض الوضوء‘‘،ج۱، ص:۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص277

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ٹرین کے ڈبے میں پانی ختم ہوجائے، دوسرے ڈبے میں بھی پانی نہ ہو، نہ قریب میں پانی ملنے کا امکان ہو، پانی کو خریدنا بھی اس کے لیے ممکن نہ ہو یا مناسب قیمت پر پانی دستیاب نہ ہو اور پانی ملنے تک نماز کے قضا ہونے کا اندیشہ ہو، تو اخیر وقت تک انتظار کرے اور جب وقت کے ختم ہونے کا خدشہ ہو، تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور ٹرین کے باہری حصہ پر جو غبار ہوتا ہے اس پر تیمم کیا جاسکتا ہے۔ ھو لمحدث و جنب و حائض و نفساء لم یقدروا علی الماء أي علی ماء یکفی لطھارتہ (۱) و منہ خوف عدو آدمي أو غیرہ سواء خافہ علی نفسہ أو مالہ أو أمانتہ أو خافت فاسقا عند الماء أو خاف المدیون المفلس الحبس و منہ و عطش سواء خافہ حالا أو مآلا علی نفسہ أو رفیقہ في القافلۃ أو دابتہ (۲) و کذا یجوز بالغبار مع القدرۃ علی الصعید عند أبی حنیفۃ و محمد لأنہ رقیق ۔(۳)

(۱) عبیداللّٰہ بن سعود، شرح وقایہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج ۱،ص:۸۸
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۴۸
(۳) المرغیناني، الہدایۃ،’’کتاب الطہارات، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۵۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص362

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خالد کے جو حالات مذکورہ سوال میں ذکر کیے گئے ہیں ان کی رو سے خالد کے فاسق ہونے میں شک کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ وہ درس وتدریس کی خدمت انجام دینے کا بھی اہل نہیں ہے؛ بلکہ مدرسہ کی ملازمت اور امامت تو بڑی چیز ہے وہ اس کا بھی اہل نہیں ہے کہ اس سے تعلقات رکھے جائیں۔ قرآن میں ہے کہ {وَلَا تَرْکَنُوْٓا إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُلا}(۱) اس کو پنج وقتہ نماز کے لیے ہو یا عیدین کی نماز ہو، امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔

در مختار میں ہے: ’’وتکرہ إمامۃ عبد وفاسق وقال في رد المحتار وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایتہم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ‘‘(۱)
معلوم ہوا کہ وہ اس قابل ہر گز نہیں ہے کہ مدرسی یا امامت جو کہ باعزت عہدہ ہے اس کو دیئے جائیں؛ بلکہ وہ واجب الاہانت ہے، اپنے مذکورہ کردار اور افعال کی وجہ سے ہے؛ نیز شامی میں ہے ’’بل في شرح المنیہ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۲) پس ضروری ہے کہ کسی بھی نماز کے لیے اس کو امام نہ بنائیں، اس کو امام بنانے والے گنہگار ہوں گے اور اس کو مدرسی سے بھی فوراً الگ کر دیا جائے۔

(۱) سورۃ الہود: ۱۱۳۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔
(۲) أیضًا:۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص149

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مخنث کا مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنا درست ہے؛ لیکن اگر مردوں، بچوں اور مخنثوں کا مجمع ہو تو ان کی صف بندی میں درج ذیل ترتیب کی رعایت رکھیں آگے مرد کھڑے ہوں، پھر بچے اور ان کے پیچھے مخنث۔
’’وإذا وقف خلف الإمام قام بین صف الرجال والنساء لاحتمال أنہ إمرأۃ فلا یتخلل الرجال کیلا تفسد صلاتہم‘‘(۱)
’’مفہوم أن محاذاۃالخنثیٰ المشکل لا تفسد وبہ صرح في التاتار خانیۃ‘‘(۲)
اس پر اعتراض درست نہیں، مخنث کا مسجد میں چندہ دینا بھی درست ہے شرط یہ ہے کہ اس کی آمدنی حلال وپاک ہو، اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی جائے گی، مخنث کا قربانی میں حصہ لینا بھی درست ہے شرط وہی ہے کہ اس کا مال حلال ہو۔

(۱) المرغیناني، الھدایۃ، ’’کتاب الخنثٰی، فصل في أحکامہ‘‘: ج۴، ص: ۵۴۶، فیصل دیوبند۔
(۲) أحمد بن محمد القدوري، المختصرالقدوري، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ‘‘: ص: ۳۵، مکتبہ النور دیوبند۔
 ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۲۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص357

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: جو شخص امام سے پہلے رکوع یا سجدہ میں چلا گیا اگر امام نے اس کو رکوع اور سجدہ میں پا لیا تو اس شخص کی نماز درست ہوگئی ورنہ تو نماز درست نہیں ہوگی۔ حدیث میں ایسے شخص کے لیے جو رکوع، سجدہ امام سے پہلے ہی شروع کردے سخت وعید نازل ہوئی ہے ۔
’’إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فإذا رکع فارکعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع اللّٰہ لمن حمدہ فقولوا ربنا لک الحمد‘‘(۲)
’’عن أنس قال صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم فلما قضی الصلوٰۃ أقبل علینا بوجہہ، فقال أیہا الناس إني إمامکم فلا تسبقونی بالرکوع ولا بالسجود ولا بالقیام ولا بالإنصراف‘‘(۱)
’’أما یخشی أحدکم أو لا یخشی أحدکم إذا رفع رأسہ قبل الإمام أن یجعل اللّٰہ رأسہ رأس حمار أو یجعل اللّٰہ صورتہ صورۃ حمار‘‘(۲)
’’ویفسدہا مسابقۃ المقتدی برکن لم یشارکہ فیہ إمامہ کما لو رکع ورفع رأسہ قبل الإمام ولم یعدہ معہ أو بعدہ وسلم‘‘(۳)
’’اعلم أنہ اتفق کلہم علی أن المبادرۃ من الإمام مکروہ تحریماً‘‘(۴)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب تحریم سبق الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰، رقم: ۴۲۶۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب إثم من رفع رأسہ قبل الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۹۶، رقم: ۶۹۱؛ أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب تحریم سبق الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰، رقم: ۴۲۷۔
(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الإمامۃ‘‘: ص: ۱۸۵۔
(۴) الکشمیري، فیض الباري في شرح البخاري، ’’کتاب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۶، ڈابھیل۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص473

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک صحابیؓ کی روایت ہے: کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھااور بارش شدید تھی، جب نماز کا وقت ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر ہی اذان دی اور اقامت کہی اور نماز پڑھائی۔(۱)
اذان کو اقامت کے ساتھ ملا دینا مکروہ ہے، مطلب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان میں اگر فاصلہ نہ ہو تو مکروہ ہے، مغرب کی اذان واقامت اس سے مستثنی ہے، اس میں صرف ایک سکتہ کا وقفہ ہے۔(۱)

(۱) عن عمرو بن عثمان بن یعلی بن مرۃ عن أبیہ عن جدہ أنہم کانوا مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في سفر فانتہوا إلی مضیق فحضرت الصلوٰۃ فمطروا، السماء من فوقہم والبلۃ من أسفل منہم فأذن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو علی راحلتہ وأقام فتقدم علی راحلتہ فصلی بہم یؤمي إیمائً یجعل  السجود أخفض من الرکوع۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ،  باب ما جاء في الصلاۃ علی الدابۃ في الطین والمطر‘‘: ج ۱، ص: ۹۴، رقم: ۴۱۱، کتب خانہ: نعیمیہ، دیوبند)
عن عبید اللّٰہ بن أبي رافع عن ابیہ قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أذن في أذن الحسن بن علي حین ولدتہ فاطمۃ بالصلوٰۃ، ہذا حدیث صحیح والعمل علیہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الأضاحي، باب الأذان في أذن المولود‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸، رقم: ۱۵۱۴،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
(۱) (ویفصل بین الأذان والإقامۃ) لکراہۃ وصلہما۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۸، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص121

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز درست ہوگئی، کیوں کہ دودھ پلانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، دودھ کا نکلنا نواقض وضو میں سے نہیں ہے۔(۱)

(۱) وینقضہ خروج کل خارج نجس منہ أي من المتوضي الحي معتاداً أو لا أي ما یطہر أي یلحقہ حکم التطہیر المعاني الناقضۃ للوضوء کل ما خرج من السبیلین۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، سنن الوضوء، ج۱، ص: ۱۳۴۔(إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، ’’فصل: في نواقض الوضوء‘‘: ص: ۱۰۸، مکتبہ: دار الکتاب، دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص253

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: سنت یہ ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھے جائیں۔(۲)
’’عن أبي جحیفۃ أن علیا رضي اللّٰہ عنہ قال السنۃ وضع الکف علی الکف في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۱)
’’عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن أبیہ قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضع یمینہ علیٰ شمالہ في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۲)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال ثلاث من أخلاق النبوۃ تعجیل الإفطار وتاخیر السحور ووضع الید الیمنیٰ علی الیسری في الصلوۃ تحت السرۃ‘‘(۳)
’’قال ویعتمد الیمنیٰ علی الیسری تحت السرۃ لقولہ علیہ السلام إن من السنۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ … وقال لأن الوضع تحت السرۃ أقرب إلی التعظیم‘‘(۴)

(۲) ووضع یمینہ علی یسارہ وکونہ تحت السرۃ للرجال لقولہ علی رضي اللّٰہ عنہ من السنۃ وضعہما تحت السرۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۲، ۱۷۳)
(۱) أخرجہ أبي داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب تفریع الستفتاح الصلاۃ، باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲، رقم: ۷۵۶۔
(۲) أخرجہ ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۱، ص: ۱۳۹
(۳) فخر الدین العثمان الماردینی، الجوہرۃ النقی: ج ۲، ص: ۱۳۲۔
(۴) العیني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۲، دار الکتاب۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص400