Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ فاتحہ کا التزام بدعت ہے(۱)؛ البتہ سورۂ فاتحہ یا کسی اور سورۃ کو پڑھ کر ایصال ثواب کردیا جائے،(۲) اس میں مردے کا نام کافی ہے، ماں باپ کا نام لینا ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سب کا علم ہے۔ تاہم نام لے بھی لیا تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۳)
(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
(یکرہ) اتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقرآن للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
(۲) للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أو صوماً أو صدقۃ أو غیرہا۔ (أیضاً: مطلب: في القراء ۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
(۳) {إِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِہ۳۸ } (سورۃ الفاطر: ۳۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص309
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2525/45-3925
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کےانتقال کے وقت جو کچھ شوہر کی ملکیت میں تھا اس میں دونوں بیواؤں اور بیٹے کا حصہ ہوگا اور شوہر نے اپنی زندگی میں جو کچھ زیورات یا کوءی بھی چیز کسی کو دے کر مالک بنا دیا تو وہ چیز اس کے ترکہ میں شمار نہ ہوگی، اگر شوہر کے دیگر ورثہ نہیں ہیں تو شوہر کا کل ترکہ اس طرح تقسیم ہوگا کہ دونوں بیوہ عورتوں کو مشترکہ طور پر آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی سات حصے لڑکے کو دیدیے جائیں گے، پھر انیسہ بیگم کے حصہ میں جو کچھ آئے گا یا جو کچھ اس کے مرنے کے وقت اس کی ملکیت میں تھا اس کو اس کے بھائی اور بہن کے درمیان اس طرح تقسیم کریں گے کہ بھائی کو دوہرا اور بہن کو اکہرا حصہ ملے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2632/45-3997
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔گھرکا ایک حصہ جو مرحوم بھائی کا تھا اسی طرح اس گھر کے علاوہ جو کچھ بھی مرحوم کی ملکیت میں تھا اس کو 24 حصوں میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ چار چار حصے والدین میں سے ہر ایک کو اور تین حصے مرحوم کی بیوی کو اور 13 حصےاس کے بیٹے کو ملیں گے۔ اگر بیٹا پورا مکان رکھنا چاہے تو مرحوم کے حصہ کا جو مکان ہے اس حصہ کی قیمت کا اندازہ کرکے دیگر ورثاء کو ان کے حصہ کی قیمت دیدے تو کل حصہ کا مالک ہوجائے گا۔ اور اگر دیگر ورثاء اپنا حصہ معاف کردیں اور بیٹے کو دیدیں تو اس کی بھی گنجائش ہے، اور اس سلسلہ میں کسی کو کوئی زبردستی کا حق نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:دونوں صورتوں میں مٹی کا برتن ناپاک ہو جاتا ہے، برتن کو خوب ملکر تین مرتبہ دھونے سے پاک ہو جاتا ہے۔ (۱)
(۱) و یطھر محل غیرھا أي غیر مرئیۃ بغلبۃ ظن غاسل لو مکلفا و إلا فمستعمل طھارۃ محلھا بلا عذر بہ یفتی۔ و قدر ذلک لموسوس بغسل و عصر ثلاثا أو سبعا فیما ینعصر مبالغا بحیث لا یقطر۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،ج۱، ص:۳۱۳)؛ و إزالتھا إن کانت مرئیۃ بإزلۃ عینھا۔۔۔ و إن کانت غیر مرئیۃ یغسلھا ثلاث مرات، کذا في المحیط، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع؛ في النجاسۃ و أحکامھا و منھا: الغسل،ج۱، ص:۹۶)؛ و یطھر متنجس بنجاسۃ مرئیۃ بزوال عینھا ولو بمرۃ علی الصحیح ولا یضر بقاء أثر شق زوالہ و غیر المرئیۃ بغسلھا ثلاثاً والعصر کل مرۃ فیما ینعصر۔( الشرنبلالي، مراقی الفلاح،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا، ص:۶۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص442
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بچہ کے پیشاب کردہ پاجامہ میں اس قدر تری ہو کہ اگر اس کو نچوڑا جائے، تو نچوڑنے پر پیشاب کا قطرہ ٹپکے، تو اس کے کپڑے سے مس ہونے سے کپڑا ناپاک ہو جائے گا۔ اور اگر پاجامہ گیلا تھا مگر نچوڑنے کے قابل نہیں تھا اور پاک کپڑے پر پیشاب لگ جانا معلوم نہیں ہو رہا ہو، تو اس کے مس ہونے سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔
’’کما لا ینجس ثوب جاف طاہر لف في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب لو عصر لعدم انفصال جرم النجاسۃ إلیہ اختلف المشائخ فیما لو کان الثوب الجاف الطاہر بحیث لو عصر لا یقطر فذکر الحلواني أنہ لا ینجس في الأصح وفیہ نظر لأن کثیراً من النجاسۃ یتشربہ الجاف ولا یقطر بالعصر کما ہو مشاہد عند ابتداء غسلہ فلا یکون المنفصل إلیہ مجرد نداوۃ إلا إذا کان النجس لا یقطر بالعصر فیتعین أن یفتی بخلاف ما صحح الحلواني ولا ینجس ثوب رطب بنشرہ علی أرض نجسۃ ببول أو سرقین لکونہا یابسۃ فتندت الأرض منہ أي من الثوب الرطب ولم یظہر أثرہا فیہ‘‘ (۱)
(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹؛ ونور الإیضاح، ’’في الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص35
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنا درست ہے۔(۲)
(۲)جاز تیمم جماعۃ من محل واحد، (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم، مطلب فاقد الطہورین‘‘ج ۱، ص:۴۲۴)؛ و لو تیمم إثنان من موضع واحد، جاز کذا في محیط السرخسی، و إذا تیمم مراراً من موضع واحد جاز (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الرابع: في التیمم، الفصل الثالث: في المتفرقات‘‘ ج۱،ص:۸۵) ولو تیمم جنب أو محدث من مکان، ثم تیمم غیرہ من ذلک المکان، أجزأہ، لأن التراب المستعمل ما التزق بید المتیمم الأول لا ما باقی علی الأرض۔ (الکاساني،بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،’’کتاب الطہارۃ، فصل في بیان یتیمم بہ‘‘ ج۱، ص:۱۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص353
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اقتداء درست ہے؛ البتہ پردہ کا معقول نظم اور پورا اہتمام ضروری ہے ورنہ بے پردگی کا سخت گناہ ہوگا۔ تاہم اگر مقتدی سب عورتیں ہوں اور عورتوں میں کوئی عورت امام کی محرم نہ ہو تو ایسی صورت میں عورتوں کی امامت کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
’’تکرہ إمامۃ الرجل لہن في بیت لیس معہن رجل غیرہ ولا محرم منہ کأختہ أو زوجتہ أو أمتہ أما إذا کان معہن واحد عن ذکر أو أمہن في المسجد لا یکرہ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل‘‘: ج۲، ص: ۳۰۷۔
ولو أمہن رجل فلا کراہۃ إلا أن یکون في بیت لیس معہن فیہ رجل أو محرم من الإمام أو زوجتہ فإن کان واحد ممن ذکر معہن فلا کراہۃ کما لو کان في المسجد مطلقاً۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص464
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور حدیث میں ہے کہ ’’إن الشمس تطلع بین قرنی الشیطان‘‘(۲) کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اس وقت نماز پڑھنے سے شیطان کی عبادت کا شائبہ پیدا ہوتا ہے نیز ان اوقات میں مشرکین شیطان کی پرستش کرتے ہیں؛ لہٰذا اس تشبہ سے بچنے کا حکم فرماکر ان اوقات میں نماز پڑھنے کو منع قرار دیا۔
’’لا تجوز الصلوٰۃ عند طلوع الشمس ولا عند قیامہا في الظہیرۃ ولا عند غروبہا لحدیث عقبۃ بن عامر قال ثلثۃ أوقات نہانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن نصلی وأن نقبر فیہا موتانا عند طلوع الشمس حتی ترتفع وعند زوالہا حتی تزول وحین تضیف للغروب حتی تغرب‘‘(۱)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب: ما جاء في الساعات التي تکرہ فیہا الصلاۃ‘‘: ص: ۸۸، رقم: ۱۲۵۳۔
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأوقات التي تکرہ فیہا الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، ۸۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص109
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی۔(۱)
(۱) والتنحنح بحرفین بلا عذر إما بہ بأن نشأ من طبعہ فلا أو بلا غرض صحیح فلو لتحسین صوتہ أو لیہتدی إمامہ أو للإعلام أنہ في الصلاۃ فلا فساد علی الصحیح۔۔۔۔۔ والتأوہ ہو قولہ آہ بالمد التأفیف أف أو تف والبکاء بصوت یحصل بہ حروف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۶-۳۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص81
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز وتر کا اصل وقت فرائض عشاء کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے اس لیے جو وتر کی نماز فرائض عشاء کی ادائیگی سے پہلے پڑھی ہے وہ ادا نہیں ہوئی البتہ وتر کے بعد جو نماز عشاء ادا کی وہ درست ہوگئی اور وتر بعد میں پھر ادا کرے۔(۱)
(۱) ووقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلی الصبح۔ کذا في الکافي۔ ولا یقدم الوتر علی العشاء لوجوب الترتیب، لا لأن وقت الوتر لم یدخل، حتی لو صلی الوتر قبل العشاء ناسیاً، أو صلاہما فظہر فساد العشاء دون الوتر، فإنہ یصح الوتر، ویعید العشا، وحدہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ؛ لأن الترتیب یسقط بمثل ہذا العذر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت‘‘: ج ۱، ص:۱۰۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص302