نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2173/44-2289

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسافر پر جمعہ واجب نہیں ہے، آپ اپنی سہولت کے اعتبار سے ٹکٹ بنواسکتے ہیں۔ آپ کا مقصد سفر کی ضرورت کو پورا کرنا ہے، آپ کا ارادہ ہرگز نمار جمعہ کی توہین نہیں ہے، اس لئے اگر نماز جمعہ کے وقت آپ مسافر ہیں تو ظہر کی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اور آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔  البتہ اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ زوال کے بعد سفر شروع کرنے سے احتراز کیا جائے الا یہ کہ شدید مجبوری ہو کہ ٹرین کا ٹائم وہی ہو، تو زوال کے بعد بھی سفر شروع کیا جاسکتاہے۔

سنن ابی داؤد: (باب متی یتم المسافر، رقم الحدیث: 1229)
"
عن عمران بن حصین -رضي اﷲ عنہ- قال: غزوت مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، وشہدت معہ الفتح، فأقام بمکۃ ثماني عشرۃ لیلۃ لا یصلي إلا رکعتین یقول: یا أہل البلد! صلوا أربعا، فإنا قوم سفر". مسند أحمد بن حنبل: (رقم الحدیث: 20105- 20119)
بدائع الصنائع: (فصل في بیان شرائط الجمعۃ، 262/1، ط: سعید)
"
ولنا ما روي عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ صلی الجمعۃ بالناس عام فتح مکۃ وکان مسافرا".
رد المحتار: (کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، 155/2)
"
الظهر لهم رخصة فدل علی ان الجمعة عزيمة وهي افضل
..."

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں میلاد کی منت درست نہیں؛ اس لئے اس منت کا پورا کرنا زید پر ضروری نہیں بلکہ اگر زید نے مروجہ طریقہ پر میلاد کرایا تو مرتکب بدعت ہوگا۔ اس سے پرہیز اولیٰ ہے؛ البتہ علماء وصلحاء سے وعظ کہلوانا اور نعت پڑھوانا اس میں اجر و ثواب ہے اس میں بھی مٹھائی وغیرہ کا رواجی انتظام نہ کیا جائے تاکہ جو حضرات اس میں شریک ہوں وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے شریک ہوں مٹھائی یا کسی قسم کے کھانے کا لالچ نہ ہو اس سے ثواب ختم ہوجائے گا۔ (۱)

(۱) لا یلزم النذر إلا إذا کان طاعۃ ولیس بواجب وکان من جنسہ واجب … علی التعیین فلا یصح النذر بالمعاصي ولا بالواجبات إلخ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ’’کتاب الصوم: الفن الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۷۱)
واعلم أنہم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثۃ کون المنذور لیس بمعصیۃ وکونہ من جنسہ واجب إلخ۔ (ابن نجیم البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل ومن نذر صوم یوم النحر‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص336

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2416/45-3669

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  احرام باندھتے وقت حج یا عمرہ کی نیت کرنے کے بعد تلبیہ یا اس کے قائم مقام کوئی ذکر پڑھنا  فرض ہے، اس کے بغیر آدمی محرم نہیں ہوگا البتہ اگر احرام باندھتے وقت تلبیہ پڑھنا بھول گیا لیکن میقات میں داخل ہونے سے پہلے تلبیہ یا اس کے قائم مقام کلمہ پڑھ لیا تو اس کا احرام درست ہوگیا۔ صورت مذکورہ میں عمرہ کا احرام باندھنے کے وقت آپ نے تلبیہ پڑھا ہے اور میقات سے گزرتے وقت آپ کا احرام صحیح تھا، اس لئے آپ کا عمرہ صحیح ہوگیا، پھر آٹھ ذی الحجہ کو آپ نے  مکہ میں حج کا احرام باندھا اور تلبیہ کے مخصوص کلمات نہیں پڑھے، لیکن ظاہر ہے آپ نے احرام کے بعد کوئی نہ کوئی ذکر سبحان اللہ ،الحمد للہ، لاالہ الا اللہ وغیرہ عربی یا اردو میں کیا ہوگا، اگرچہ احرام باندھنے کے متصلا بعد نہ کیاہو، تو صورت مذکورہ میں آپ کا احرام درست ہوگیا، اور اس طرح حج بھی درست ہوگیا، ہاں اگر تلبیہ کے قائم مقام ذکر تاخیر سے پڑھا ہو، احرام سے متصلا بعد نہ پڑھا ہو تو یہ مکروہ ہے مگر موجب دم نہیں ہے۔  (2)  گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ میں رمی جمرات کا وقت زوال سے شروع ہوتاہے، زوال سے پہلے رمی صحیح نہیں ہوتی ہے، لہذا بارہویں ذہ الحجہ کی رمی زوال سے پہلے کرلینے کی صورت میں صبح صادق سے پہلے  اس رمی کا اعادہ کرنا ضروری ہے اور اعادہ نہ کرنے کی صورت میں  دم واجب ہے۔ (انوار مناسک ص487)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درست بات یہ ہے کہ آندھی، طوفان، زلزلہ یا دیگر آفات سماویہ پر اذان دینا سنت سے ثابت نہیں ہے؛ لہٰذا اگر یہ عمل سنت یا حکم شرعی سمجھ کر کرتے ہیں، تو غلط ہے؛ لیکن اگر لوگ محض غموں کو دور کرنے کے لیے اذان دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو جمع خاطر نصیب ہو، تو یہ ایک مستحب عمل ہے علامہ شامی نے مواقع اذان میں کتب شافعیہ کے حوالے سے اسے سنت کہا ہے:
’’قالوا یسن للمہموم أن یأمر غیرہ أن یؤذن في أذنہ فإنہ یزیل الہم‘‘(۱) اسی طرح اذان کے علاوہ بعض دعاء حدیث سے ثابت ہے ’’اللہم إني أسئلک خیرہا وخیرما فیہا وخیر ما أرسلت بہ وأعوذ بک من شرہا وشرما فیہا وشرما أرسلت بہ، اللہم اجعلہا ریاحاً ولا تجعلہا ریحا اللہم اجعلہا رحمۃ ولا تجعلہا عذاباً ارحمني یا ارحم الراحیم‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب: في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۔
(۱)علامہ محمد بن محمد جزري شافعيؒ، حصن حصین: ص: ۱۵۹۔…

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص364

طلاق و تفریق

Ref. No. 2678/45-4139

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں کسی  معتبر شرعی دارالقضاء سے رجوع کیاجائے،  اورپوری صورت حال بیان  کرنے کے بعد قاضی شرعی  جو فیصلہ کرے اس کے مطابق عمل کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 2691/45-4200

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اہل علم کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا درست ہے ،  احادیث سے اہل علم کی تعظیم میں کھڑا ہونا ثابت ہے؛  فقہاء احناف اور علماء دیوبند کی بھی یہی رائے ہے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے امداد الفتاوی میں اس کے جواز پر تفصیلی کلام کیا ہے، لیکن قیام کا مروجہ طریقہ کہ مہمان کی آمد سے کئی گھنٹے پہلے بچوں کو لائن میں کھڑا کر دیا جائے جن میں بچوں کی تعلیم کا بھی نقصان ہو، پسندیدہ عمل نہیں معلوم ہوتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دونوں صورتوں میں نماز ادا ہو جاتی ہے بشرطیکہ غیر مقلد امام مسائل طہارت ونماز میں مسلک احناف کی بھی رعایت رکھے۔(۱)

(۱) وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز ما لم یعلم منہ ما یفسد الصلاۃ علی اعتقاد المقتدي علیہ الإجماع، إنما اختلف في الکراہۃ اھـ فقید بالمفسد دون غیرہ کما تری: وفي رسالۃ الاہتداء في الاقتداء: (لملا علي القاري) ذہب عامۃ مشایخنا إلی الجواز إذا کان یحتاط في موضع الخلاف وإلا فلا۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب في الاقتداء بشافعي ونحوہ ہل یکرہ أم لا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۲)
وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بر وفاجر ما لم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا وما لم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاويعلی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص247

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت کی اہمیت کی وجہ سے جمہور کے نزدیک ایک مسجد میں ایک ہی جماعت افضل ہے، جماعت ثانیہ مکروہ ہے، جب کہ امام احمدؒ کے نزدیک متعدد جماعتیں ہوسکتی ہیں۔(۱)
(۱) وروي عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، أن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا إذا فاتتہم الجماعۃ في المسجد صلوا في المسجد فرادیٰ ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان والإقامۃ، فصل بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۰)
یکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)
ہکذا في الہندیۃ، جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الخامس في الإمامۃ، الفصل الأول في الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 486

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کلمات اذان کی ادئیگی صحیح کرنی چاہیے، اس طرح پڑھنا اچھا نہیں؛ تاہم اذان درست ہوگئی اور نماز پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔(۲)

(۲) وبفتح راء أکبر والعوام یضمونہا، روضۃ، لکن في الطلبۃ معنی قولہ علیہ الصلاۃ والسلام ’’الأذان جزم‘‘ أي مقطوع المد۔ فلا تقول:  آللّٰہ أکبر، لأنہ استفہام وإنہ لحن شرعي، أو مقطوع حرکۃ الآخر للوقف فلا یقف بالرفع لأنہ لحن لغوي۔ (الحصکفي، الدر المختا مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۱-۵۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
والمد في أول التکبیر کفر، وفي آخرہ خطأ فاحش، کذا في الزاہدي ویرتب بین کلمات الأذان والإقامۃ کما شرع، کذا في محیط السرخسي … فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ وإن مضیٰ علی ذلک جازت صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند،  الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص132

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر قبرستان میں جگہ صاف ستھری ہو اور اس میں نجاست یا آگے کی طرف ابھری ہوئی قبر نہ ہو تو نماز بلا کراہت جائز ہے۔ اور اگر قبر سامنے ہے یا نمازی کے کھڑے ہونے کی جگہ قبر ہو تو نماز مکروہ تحریمی ہے، بہتر یہ ہے کہ قبرستان سے ہٹ کر نماز پڑھی جائے۔(۱)

(۱) لاتکرہ الصلاۃ في جہۃ قبر إلا إذا کان بین یدیہ بحیث لو صلی صلاۃ الخاشعین وقع بصرہ علیہ کما في جنائز المضمرات۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا‘‘: مطلب في بیان السنۃ والمستحب والمندوب والمکروہ وخلاف الأولٰی، ج۲، ص: ۴۲۵)
وفي الحاری وإن کانت القبور ماوراء المصلي لایکرہ فإنہ إن کان بینہ وبین القبر مقدار مالوکان في الصلاۃ ویمر إنسان لایکرہ، فہہنا أیضاً لایکرہ کذا في التاتارخانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ ومالایکرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص262