نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صرف احساس اور شبہ دلیل شرعی نہیں بلکہ کسی چیز کا یقین دلیل شرعی ہے جب ہوا نکلنے کا بالکل یقین ہوجائے اور اسی طرح قطرہ کے نکلنے کا یقین ہوجائے تب شرعاً وضو ختم ہوگا صرف شبہ سے وضو ختم نہیں ہوتا وہم پر عمل نہ کریں ورنہ تو بہت پریشان ہوجائیں گے اور نہ وضوبنا سکیں گے اور نہ نماز پڑھ سکیں گے۔ شریعت کا اصول ہے۔ ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘(۱)
(۱)  من تیقن الطہارۃ وشک في الحدث، فہو متطہر، ومن تیقن الحدث، وشک في الطہارۃ، فہو محدث کما في السراجیۃ وغیرہا۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ص: ۱۸۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص90

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص امام بنے اس کو چاہئے کہ ہلکی نماز پڑھائے کیوں کہ مقتدیوں میں مریض، بوڑھے، کمزور اورضرورت مند ہوتے ہیں فجر اور ظہر دونوں رکعتوں میں ملاکر چالیس آیات پڑھ لینا کافی ہے مگر یہ بھی اس وقت ہے کہ مقتدی حضرات برداشت کرلیں ورنہ امام کے لیے قرآت میں تخفیف کرنا ہی مسنون ہے تاکہ کسی پر بار نہ ہو ، اگر مقتدیوں کی رغبت نہ ہو تو فرض نمازوں میں قرآن پاک بالترتیب امام کے لیے پڑھ کر ختم کرنا یہ سنت کے خلاف ہے امام صاحب کو نماز میں یعنی اپنی تنہا نماز میں قرآن شریف بالترتیب پڑھ کر ختم کرنا چاہئے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا، ایک حدیث میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ عشاء کی نماز میں قرأت طویل کرتے تھے اور ان کے مقتدی کسان لوگ تھے دن بھر کام کرکے تھکے ماندے ہوتے تھے ان پر حضرت معاذ ؓکی طویل قرأت گراں گذرتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ پر اس قدر ناراض ہوئے کہ اس قدر ناراض کبھی نہیں ہوئے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ڈانٹا اور فرمایا کہ اے معاذ تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرتے ہو اور فرمایا کہ {والشمس وضحاہا} وغیرہ پڑھا کرو بہر حال اگر ایک مقتدی بھی کمزور ہو تو اس کی رعایت کرکے امام کو مختصر قرأت کرنی ہوگی۔(۱)
امام صاحب کا اپنے قرآن ختم پر کچھ مالداروں سے کہہ کر اپنے مقتدیوں کی دعوت کرانا مٹھائی تقسیم کرانا یہ بلاوجہ ایک غیر اسلامی رسم کو رواج دینے کے مترادف ہے۔ اس سے بدعات کا دروازہ کھلتا ہے(۲) البتہ اگر کوئی اپنی خوشی سے ایسا کرے تو ناجائز بھی نہیں ہے۔ امام صاحب احکام سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں ان کو محبت کے ساتھ مسائل واحکام سمجھائے جائیں تاکہ وہ اس طرح کی باتوں سے احتیاط کریں۔

(۱) إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف؛… فإن منہم الضعیف والسقیم والکبیر وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطول ما شاء۔ (أخرجہ البخاري، فيصحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب إذا صلی لنفسہ فلیطول ما شاء‘‘: ج ۱، ص: ۹۷،رقم ۷۰۳، قدیمی کتب خانہ کراچی)
(۲) أشرف علي التھانوي، ’’القول الأحکم في تحقیق التزام ما لا یلزم في إمداد الفتاویٰ‘‘: ج ۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص210

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا اور مصیبت کے وقت دعاء قنوت کا پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس ایک وباء اور مصیبت ہے؛ اس لئے اس گھڑی میں دعا ء قنوت کا اہتمام ہونا چاہیے، احناف کے یہاں صرف فجر کی نماز میں دعا ء قنوت ہے اس لیے فجر کی نماز میں دعاء قنوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
’’النازلۃ: الشدیدۃ من شدائد الدہر، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل … إلی أن قال … قال الحافظ أبو جعفر الطحاوي: إنما لا یقنت عندنا في صلاۃ الفجر من غیر بلیۃ فإن وقعت فتنۃ أو بلیۃ فلا بأس بہ، فعلہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۱)
’’لیس مشروعاً عندنا في الفجر، إلا إذا نزلت نازلۃ کالطاعون وغیرہ۔ فإن الإمام حینئذ یقنت في الفجر کما ذکرہ الشمني‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸۔)
(۲)المرغیناني، حاشیۃ ہدایۃ، ’’باب صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۵، حاشیہ: ۷۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص318

فقہ

 

Ref. No. 1008 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جب صورت و  غذا کے اعتبار سے وہ گائے ہے تو اس کے دودھ اور گوشت کا حکم دیسی گائے کے مثل ہے۔

 لان المعتبر فی الحل والحرمۃ الام فیما تولد من ماکول وغیرماکول۔ (کذا فی الشامی)۔خنزیر کے نسل سے ہونا کہاں لکھا ہے، اس کی وضاحت کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 1263

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  اس سلسلہ میں دارالافتاء مظاہر علوم سے ہی رابطہ مناسب ہوگا۔واللہ تعالی اعلم

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 37/1147

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: تراویح کے لئے پیسے جمع کرنا درست نہیں ہے، ہر آدمی اپنی حیثیت کے بقدر امام صاحب کو دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Eating & Drinking

Ref. No. 1213/42-516

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Being Halal or Haram according to shariah is a matter of concern for Muslims as they themselves are obliged to obey shariah rules and regulations. And the Hindus and non-believers are not bound by subsidiaries of Shariah. So, for non-Muslims, all their earnings will be considered as halal. Therefore, if they gift something to a Muslim, there is nothing wrong taking it. However, extra precaution should be taken in food as it should not be mixed with anything impure (Najas) and should not be offered to any deity.

ولو اھدی لمسلم ولم یرد تعظیم الیوم  بل جری علی عادۃ الناس لایکفر وینبغی ان یفعلہ قبلہ اور بعدہ نفیا للشبھۃ۔ 6/754)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1335/42-722

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی شرط بھی مقتضائے عقد کے خلاف ہے۔ اگر کسی وقت بالکل فائدہ نہ ہوا تو کام کرنے والا پندرہ فیصد فائدہ آپ کو کہاں سے دے گا۔ کوئی بھی متعین فائدہ خاص کرلینا مضاربت میں درست نہیں ہے۔

(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد. ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة۔ (شامی، کتاب المضاربۃ 5/648)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1565/43-1086

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔یہ مسئلہ دونوں صورتوں میں ہے کہ نماز ہوجاتی ہے، تاہم اگر نماز سے پہلے معلوم ہوجائے تومعفو عنہ مقدار  نجاست کے ساتھ پڑھنا مکروہ ہے۔ اور اگر کسی کو خبر ہی نہیں ہوئی اور نماز کے بعد معلوم ہوا کہ  اس قدر نجاست لگی تھی تو کراہت نہیں آئے گی۔ بہر حال نماز سے قبل شرائط نماز پر ایک بار توجہ کرلینی چاہئے تاکہ ایسی غلطی نہ ہو۔

"قلت: فَإِن أصَاب يَده بَوْل أَو دم أَو عذرة أَو خمر هَل ينْقض ذَلِك وضوءه؟ قَالَ: لَا وَلَكِن يغسل ذَلِك الْمَكَان الَّذِي أَصَابَهُ. قلت: فَإِن صلى بِهِ وَلم يغسلهُ؟ قَالَ: إِن كَانَ أَكثر من قدر الدِّرْهَم غسله وَأعَاد الصَّلَاة وَإِن كَانَ قدر الدِّرْهَم أَو أقل من قدر الدِّرْهَم لم يعد الصَّلَاة". (المبسوط للسرخسی 1/60)

(وعفا) الشارع (عن قدر درہم) وإن کرہ تحریما، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیہا فیسن، وفوقہ مبطلُ فیفرض والصلاة مکروہة مع ما لا یمنع، حتی قیل لو علم قلیل النجاسة علیہ فی الصلاة یرفضہا ما لم یخف فوت الوقت أو الجماعة(شامی، زکریا 1/520)

   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1645/43-1318

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تمباکو وغیرہ کی تجارت  کو علماء نے جائز قرار دیاہے، اس لئے  اس کی تجارت  جائز ہے اور  اس کی آمدنی اور نفع   حلال ہے، تاہم یہ کوئی  اچھا کاروبار نہیں ہے، کوئی مناسب اور غیرمشکوک کاروبار تلاش کرنا چاہئے۔

(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون. (شامی، کتاب الاشربۃ 6/454)

قلت التوفيق بينهما ممكن بما نقله شيخنا عن القهستاني آخر كتاب الأشربة ونصه أن البنج أحد نوعي القت حرام؛ لأنه يزيل العقل وعليه الفتوى بخلاف نوع آخر منه، فإنه مباح كالأفريت؛ لأنه وإن اختل العقل لكنه لا يزيل وعليه يحمل ما في الهداية وغيرها من إباحة البنج كما في شرح اللباب (البحرالرائق، انکرالزانی الاحصان 5/30)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند