Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 995/41-160
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا موضوع تفصیل طلب ہے۔ چندکتابوں کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے ان کا مطالعہ کریں ان شاء اللہ متعلقہ موضوع تک رسائی ہوجائے گی۔ (1) ممتاز علماء فرنگی، یٰس اختر مصباحی (2) تذکرہ علماء فرنگی محل، مولانا عنایت اللہ فرنگی محل (3) تاریخ فرنگی محل، رضیہ جبیں ریسرچ اسکالر (4) احوال علماء فرنگی محل، شیخ الطاف الرحمن (5) سید الاحرار، اشتیاق اظہر (6) حسرۃ الآفاق بوفاۃ مجمع الاخلاق ، مولانا عنایت اللہ۔
ان کتابوں میں علماء فرنگی محل کا ےذکرہ ہے ۔ ان کی خدمات کے ضمن میں ان کی تفسیری خدمات بھی مل سکتی ہیں۔ ویسے علماء فرنگی محل میں دو نام زیادہ مشہور ہیں۔ 1۔ مولانا عبدالحی فرنگین محل، 2۔ مولانا عبدالباری فرنگی محل ؛ ان دونوں حضرات کی خدمات فقہی میدان میں زیادہ ہیں۔
مذکورہ کتابیں انٹرنیٹ سے دستیاب ہوسکتی ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1326/42-706
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس جانور کو عقیقہ میں ذبح کرنا ہواس کو پورا خریدنا ضروری ہے۔ صرف گوشت خرید کر ذبح کرنے سے عقیقہ درست نہیں ہوگا۔ اس لئے مذکورہ طریقہ درست نہیں ہے۔
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ : يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه، ويحلق رأسه ،ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ،ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي،.وهي شاة تصلح للأضحية، تذبح للذكر والأنثى ،سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، )شامی 6/336)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 1463/42-897
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورتوں کے لئے کسی بھی دھات کی چوڑی پہننا جائز ہے۔
یباح للنساء من حلي الذہب والفضۃ والجواہر کل ما جرت عادتہن یلبسہ کالسوار، والخلخال، والقرط، والخاتم، وما یلبسہ علی وجوہہن وفي أعناقہن وأرجلہن وأذانہن وغیرہ۔ (اعلاء السنن 17/294) اتفق العلماء علی جواز تحلی المرأۃ بأنواع الجواہر النفیسیۃ کالیاقوت والعقیق واللؤلؤ۔(الموسوعۃ الفقھیۃ 18/112) ويباح للمرأة أن تتحلى من الذهب والفضة بما جرت به العادة، وهذا بإجماع العلماء، لكن لا يجوز لها أن تظهر حليها للرجال غير المحارم، بل تستره، خصوصا عند الخروج من البيت والتعرض لنظر الرجال إليها؛ لأن ذلك فتنة، وقد نهيت أن تسمع الرجال صوت حليها الذي في رجلها تحت الثياب فكيف بالحلي الظاهر؟ (تنبیھات علی ۔۔۔۔احکام تختص بالمؤمنات، 1/12)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1562/43-1114
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مالک نے تو اس قطعہ اراضی کو پارک کے لئے مختص کیا تھااس کو پارک کے لئے ہی استعمال ہونا چاہئے، اب اگر وہاں کے رہائش پذیر افراد آپسی مشورہ سے پارک کی زمین پر مندر بنالیں تو اس میں مالک زمین اور پلاٹنگ کرنے والے گناہ گار نہیں ہوں گے۔ لیکن ابتداء سے کالونی کاٹتے وقت اس طرح کی صراحت کرنا تاکہ متعلقہ افراد زمین زیادہ خریدیں یہ درست نہیں ہے۔ یہ ایک طرح کا دھوکہ ہے، اور حدیث میں ہے: من غشنا فلیس منا(جو دھوکہ دے وہ ہم مسلمانون میں سے نہیں)
"فقد صرح في السیر بأنه لو ظهر علی أرضهم وجعلهم ذمةً لایمنعون من إحداث کنیسةٍ؛ لأن المنع مختص بأمصار المسلمین التي تقام فیها الجمع والحدود، فلو صارت مصراً للمسلمین منعوا من الإحداث(شامی 4/203)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 1648/43-1227
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حدیث کی کتابوں میں تلاش کرنے پر ہمیں ایسی کوئی روایت نہیں ملی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 799/41-1000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جی یہ حدیث بخاری وغیرہ متعدد کتب حدیث میں ہے، "ان اللہ خلق آدم علی صورتہ " کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیداکیا ہے، یہاں "ہ" ضمیر بعض لوگوں کے نزدیک خود حضرت آدم علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے، یعنی آدم کو ان کی اپنی صورت پر بنایا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ "ہ" ضمیر اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے، اس لئے کہ بعض روایت میں "صورۃ الرحمن" بھی ہے۔ اور صورت سے مراد صفت ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم کو اپنی صفت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ (فیض الباری 6/187)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2037/44-2012
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کا محراب میں کھڑا ہونا اس لئے مکروہ قراردیاگیا کہ اس کی حالت مقتدیوں سے اوجھل یا علیحدہ نہ رہے۔ تنہا اگر کوئی فرض یا نفل نماز محراب میں پڑھے تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہے البتہ محراب میں کھڑے ہونے سے دیکھنے والوں کو شبہہ ہوسکتاہے کہ جماعت سے کوئی نماز ہورہی ہے، اس لئے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2242/44-2384
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح دیگر تجارتی انشورنس خریدنا بلاشدید مجبوری کے جائز نہیں ہے، اسی طرح موبائل کا انشورنس خریدنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں بھی جہالت اور دھوکہ ہے۔ یعنی ایسا ممکن ہے کہ آپ کا موبائل بالکل خراب نہ ہو تو آپ نے انشونس کے نام پر جو پیسے جمع کئے وہ ڈوب گئے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا موبائل خراب ہو جائے اور اس کی اصلاح میں آپ کی جمع شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ رقم انشورنس کمپنی کو برداشت کرنا پڑے، بس یہی سود ، دھوکہ اور جہالت کا مفہوم ہے، اس لئے موبائل کا انشونس شرعا جائز نہیں ہے۔
"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص". (شامی، کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع، ج:۶ ؍۴۰۳ ،ط:سعید)
"أنواع التأمين:التأمين من حيث الشكل نوعان: ۱ - تأمين تعاوني ...
۲ - تأمين تجاري أو التأمين ذو القسط الثابت، وهو المراد عادة عند إطلاق كلمة التأمين، وفيه يلتزم المستأمن بدفع قسط معين إلى شركة التأمين القائمة على المساهمة، على أن يتحمل المؤمن (الشركة) تعويض الضرر الذي يصيب المؤمن له أو المستأمن. فإن لم يقع الحادث فقد المستأمن حقه في الأقساط، وصارت حقا للمؤمن. وهذا النوع ينقسم من حيث موضوعه إلى:
۱ - تأمين الأضرار: وهو۔۔۔۔۔۔ ۲ - وتأمين الأشخاص: وهو يشمل:
التأمين على الحياة: وهو أن يلتزم المؤمن بدفع مبلغ لشخص المستأمن أو للورثة عند الوفاة، أو الشيخوخة، أو المرض أو العاهة، بحسب مقدار الإصابة.
والتأمين من الحوادث الجسمانية: وهو أن يلتزم المؤمن بدفع مبلغ معين إلى المؤمن له في حالة إصابته أثناء المدة المؤمن فيها بحادث جسماني، أو إلى مستفيد آخر إذا مات المستأمن ... أما التأمين التجاري أو التأمين ذو القسط الثابت: فهو غير جائز شرعا، وهو رأي أكثر فقهاء العصر ... وسبب عدم الجواز يكاد ينحصر في أمرين: هما الغرر والربا. أما الربا: فلا يستطيع أحد إنكاره؛ لأن عوض التأمين ناشئ من مصدر مشبوه قطعا؛ لأن كل شركات التأمين تستثمر أموالها في الربا، وقد تعطي المستأمن (المؤمن له) في التأمين على الحياة جزءا من الفائدة، والربا حرام قطعا في الإسلام ... والربا واضح بين العاقدين: المؤمن والمستأمن، لأنه لا تعادل ولا مساواة بين أقساط التأمين وعوض التأمين، فما تدفعه الشركة قد يكون أقل أو أكثر، أو مساويا للأقساط، وهذا نادر۔ والدفع متأخر في المستقبل. فإن كان التعويض أكثر من الأقساط، كان فيه ربا فضل وربا نسيئة، وإن كان مساويا ففيه ربا نسيئة، وكلاهما حرام ...
(الفقہ الاسلامی و ادلتہ،القسم الثالث:العقوداو التصرفات المدنیۃ،انواع التامین،ج:۵ ؍۳۴۲۱۔۔۳۴۲۵،ط:دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ تمام زبانوں کے خالق ہیں، اس لئے ہرطرح کی زبان کا پورا علم اللہ تعالیٰ رکھتے ہیں۔(۱) لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام زبانیں نہیں بولتے تھے۔(۲)
(۱) {وَمِنْ أٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَ أَلْوَانِکُمْ ط} (سورۃ الروم: ۲۲)
(۲) عن زید بن ثابت -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال لي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إني أکتب إلی قوم فأخاف أن یزیدوا عليّ أو ینقصوا فتعلم السریانیۃ فتعلمتہا في سبعۃ عشر یوماً۔ (ابن حجر عسقلاني، الإصابۃ في تمییز الصحابۃ، زید بن ثابت‘‘: ج ۲، ص: ۲۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص214
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بریلوی جو مصافحہ نماز کے بعد کرتے ہیں اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر کرتے ہیں اور مصافحہ نہ کرنے والوں کو لعن طعن کرتے ہیں جس سے التزام مترشح ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو بدعت ہی کہا جائے گا اور جماعت میں جاتے وقت جو مصافحہ کرتے ہیں، اس کو نہ تو ضروری سمجھا جاتا ہے اور نہ اس کا التزام ہوتا ہے؛ بلکہ رخصتی کے لئے کرتے ہیں یا باہر سے آنے والے واعظ سے مصافحہ کرتے ہیں، پھر اس میں سب لوگ نہیں کرتے؛ بلکہ بعض کرتے ہیں اور بعض چھوڑ دیتے ہیں اور چھوڑنے والوں کو لعن طعن نہیں کیا جاتا؛ اس لیے یہ بدعت نہیں ہے۔(۱)
۱) وقد صرح بعض علمائنا وغیرہم بکراہۃ المصافحۃ المعتادۃ عقب الصلوٰۃ مع أن المصافحۃ سنۃ وما ذلک إلا لکونہا یم تؤثر في خصوص ہذا الموضع فالمواظبۃ علیہا توہم العوام بأنہا سنۃ فیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)
ویکرہ أن یقبل الرجل فم الرجل أو یدہ أو شیئاً منہ في قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ۔
(وکذا) ما یفعلونہ من تقبیل (الأرض بین یدي العلماء) والعظماء فحرام والفاعل والراضي بہ أثمان: لأنہ عبادۃ الوثن وہل یکفر إن علی وجہ العبادۃ والتعظیم کفر وإن علی وجہ التحیۃ لا وصار آثماً مرتکباً للکبیرۃ والملتقط التواضع بغیر اللّٰہ حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص534