Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا شخص فاسق اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے؛ اس لیے اس کی امامت درست نہیں ہے،(۲) کیوں کہ قادیانی متفقہ طور پر کافر ہیں؛ اس لیے مسلمان لڑکی کا نکاح اس سے جائز نہیں ہے،(۳) اس شخص پر واجب ہے کہ یا تو اپنے داماد کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرے اور اس کے مسلمان ہونے کے بعد تجدید نکاح کرے یا اپنی بیٹی کو اس سے علیحدہ کرلے اور اپنے اس عمل سے توبہ واستغفار کرے۔(۱)
(۲) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ ((ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
(۳) {وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْاط وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ أَعْجَبَکُمْط} (سورۃ البقرۃ: ۲۲۱)
(۱) أن ما یکون کفرا اتفاقا یبطل العمل والنکاح وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد‘‘: ج۹، ص:۴۴۲)
ینص الفقہاء علی أن من أدی أنہ شریک لمحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الرسالۃ، أو قال: بجواز اکتسابہا بتصفیۃ القلب وتہذیب النص فہو کافر۔ قال قاضي العیاض: لا خلاف في تکفیر مدعی الرسالۃ۔ (وزارۃ الأوقاف، الموسوعۃ الفقھیۃ: ج ۴، ص: ۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص154
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان شعائر دین میں سے ہے۔ اذان کا احترام اور محبت ہر مومن کا ایمانی تقاضا ہے۔ اذان دینے والے کی فضیلت بھی احادیثِ مبارکہ میں متعدد جگہ آئی ہے مسلم شریف کی حدیث ہے: جب قیامت کے دن مؤذن اٹھیں گے تو ان کی گردنیں سب سے بلند ہوں گی۔ ’’المؤذنون أطول الناس أعناقا یوم القیامۃ‘‘(۱)
مذکورہ حدیث کی تشریح میں علامہ نوویؒ نے لکھا ہے: لمبی گردن کا مطلب ہے کہ مؤذن میدان حشر میں سب سے ممتاز اور منفرد نظر آئیں گے، ایک روایت ہے: مؤذن کی آواز جہاں تک پہونچتی ہے سب چیزیں اس آواز کو سنتی ہیں اور مؤذن کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
’’عن أبي ہریرۃ سمعہ من فم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، یقول: المؤذن یغفرلہ مد صوتہ ویشہد لہ کل رطب ویابس‘‘(۱)
نیز آپ نے جو باتیں عالم دین سے سن رکھی ہیں وہ حدیث کا مضمون ہے، امام ترمذیؒ کی ایک روایت ہے:
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أذن محتسبا سبع سنین کتب لہ براء ۃ من النار‘‘(۲)
ایسے ہی امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مسند احمد میں ایک روایت نقل کی ہے کہ تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہونگے جسے دیکھ کر تمام اولین وآخرین رشک کریں گے۔
اول: ایسا غلام جو اللہ اور اپنے آقاء کے حقوق ادا کرتا ہو، دوم: وہ امام جس سے ان کے مقتدی راضی ہوں، سوم: وہ مؤذن جو پانچوں وقت کی اذان دیتا ہو۔
ایک روایت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کے لیے خاص طور پر مغفرت کی دعاء فرمائی ہے۔
ان احادیثِ مبارکہ کے علاوہ اور بھی کئی روایتیں کتبِ احادیث میں موجود ہیں جو مؤذن کی فضیلت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ثلاثۃ علی کثبان المسک یوم القیامۃ: رجل أم قوما وہم بہ راضون، ورجل یؤذن في کل یوم ولیلۃ خمس صلوات الخ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان ، وہرب الشیطان عند سماعہ، ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم: ۳۸۷۔
(۱) أخرجہ النسائی، في سننہ، ’’کتاب الأذان، باب رفع الصوت بالأذان‘‘ ج۱، ص: ۷۵، رقم: ۶۴۵۔
(۲) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، أبواب الأذان والسنۃ فیہا‘‘: ص: ۵۳، رقم: ۷۲۷۔
(۱) أخرجہ أحمد في مسند عبداللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، ج ۸،ص: ۴۱۷، رقم: ۴۷۹۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص126
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کھجور، انگور اور منقی سے بنی الکحل نجس اورحرام ہے۔ پھل یا دیگر مائعات سے کشید کردہ الکحل نجس اور حرام نہیں ہے؛ اس لیے دواؤں میں اس کا استعمال جائز ہے، ماہرین کی تحقیق یہی ہے کہ دواؤں میں جو الکحل استعال ہوتا ہے وہ پھل وغیرہ کا ہوتا ہے اس لیے سینیٹائزر کا استعمال کرنا جائز ہے، اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے اور اس کو استعمال کرنے کے فوراً بعد نماز پڑھنا درست ہے۔ ہاں! اگر کسی سینیٹائزر کے بارے میں یقین سے معلوم ہوجائے کہ اس میں مذکورہ تین چیزوں میں سے کسی کی آمیزش ہے، تو اس کا استعمال کرنا ناجائز ہوگا۔ ’’فقہ البیوع‘‘ میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’وقد ثبت من مذہب الحنفیۃ المختار أن غیر الأشربۃ (المصنوعۃ من التمر أو من العنب) لیست نجسۃ‘‘(۱)
’’تکملۃ فتح الملہم‘‘ میں ہے: ’’إن معظم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویۃ و العطور و غیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ کما ذکر نا في باب بیوع الخمر‘‘(۲)
(۱) مفتي محمد تقي العثماني، فقہ البیوع: ج ۱، ص: ۲۹۳۔
(۲) مفتي محمد تقي العثماني، تکملہ فتح الملہم: ج ۳، ص: ۴۸۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص258
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ تکرارِ آیت کے سلسلے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر قاری نوافل میں تکرارِ آیت کرتا ہے تو نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی ہے؛ لیکن اگر قاری فرائض میں آیت کا تکرار کرتا ہے تو یہ مکروہ ہے۔
’’ولا یکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ أو في رکعتین من النفل؛ لأن باب التطوع أوسع وقد ورد أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ إلی الصباح بآیۃ واحد یکررہا في تہجدہ‘‘(۲)
’’فدل علی جواز التکرار في التطوع کذا في شرح المنیۃ وقد ثبت عن جماعۃ من السلف أنہم کانوا یحیون لیلتہم بآیۃ العذاب، أو آیۃ الرحمۃ أو آیۃ الرجاء، أو آیۃ الخوف، وإن کان ذلک في الفرائض فہو مکروہ إذ لم ینقل عن أحد من السلف أنہ فعل مثل ذلک کذا في التجنیس والمزید‘‘(۱)
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’في کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب ما جاء في القراء ۃ في صلاۃ اللیل من حدیث سیدنا أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ قرأ: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأیۃ … حتی أصبح یرددہا، والآیۃ: {إن تعذبہم فإنہم عبادک وإن تغفرلہم فإنک أنت العزیز الحکیم}ص :۹۶، رقم:۱۳۵۰ ۔
(۱) امداد الفتاح مع الحاشیۃ، ’’فصل فیما یکرہ في الصلاۃ‘‘: ص: ۳۸۱؛ وکذا في مراقي الفلاح، ’’فصل في المکروہات مکۃ المکرمہ‘‘: ص: ۱۲۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص203
Family Matters
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 39 / 0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:اپنے علاقہ میں پونے دو کلو گیہوں کی قیمت معلوم کرلیں، پونے دو کلو گیہوں ایک نماز کا فدیہ ہے۔ اس طرح ہر روز کی پانچ نمازوں کے ساتھ وتر کا بھی فدیہ اداکریں۔ فدیہ کی رقم کسی بھی غریب ومستحق کو دی جاسکتی ہے۔ قومی مدرسہ میں بھی اگرمستحق طلبہ کو اس رقم کا مالک بنادیا جائے تو فدیہ ادا ہوجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1001/41-163
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تین طلاق کے بعد نکاح بالکل ختم ہوجاتا ہے اور مرد و عورت دونوں اجنبی ہوجاتے ہیں۔ تین طلاق کے بعداب ایک ساتھ رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ لہذا عورت کو چاہئے کہ وہ پہلے شوہر سے جدا ہوجائے اور کسی دوسرے مرد سے نکاح کرکے اپنی زندگی گزارے۔ قرآن کریم نے سورہ بقرہ میں اس کو بیان کیا ہے: فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔ الآیۃ (سورہ بقرہ)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1328/42-707
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صفوں کی درستگی سنت مؤکدہ ہے، اور صفوں کی درستگی کا اہتمام نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ اس لئے یہ مقتدیوں کی ذمہ داری ہے کہ صف سیدھی کریں اور صفوں کے بیچ میں خالی جگہیں پُر کریں۔ اور امام کو بیچ میں رکھیں، اگر کسی صف میں دائیں جانب کم لوگ ہوں تو آنے والا دائیں جانب صف میں کھڑا ہو تاکہ امام درمیان میں ہو اور دونوں جانب صف برابر ہوجائے۔ امام کو چاہئے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے مقتدیوں کی صف کا معائنہ کرکے ان کو درست کرائے لیکن یہ امام کے ذمہ لازم نہیں ہے، اگر اس کا اہتمام کرے تو بہتر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام مقتدیوں کی صفوں کو درست کرانے کا اہتمام کرتے تھے۔
قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - «لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ». وكان في زمن عمر رضي الله تعالى عنه رجلٌ مُوَكَّلٌ على التسوية، كان يمشي بين الصفوف ويسوِّيهم، وهو واجبٌ عندنا تُكْرَه الصلاة بتركه تحريمًا، وسنةٌ عند الشافعية لانتفاء مرتبة الواجب عندهم، وذهب ابن حَزْم إلى أنه فرضٌ. (فیض الباری علی صحیح البخاری ، باب تسویۃ الصفوف 2/299) عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ «سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلاَةِ». (فیض الباری 2/301)
قَالَ عليه السلام: (لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ) . / 95 - وفيه: أَنَسِ، قَالَ الرسول: (أَقِيمُوا الصُّفُوفَ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ من وراء ظَهْرِي) . تسوية الصفوف من سنة الصلاة عند العلماء، وإنه ينبغى للإمام تعاهد ذلك من الناس، وينبغى للناس تعاهد ذلك من أنفسهم، وقد كان لعمر وعثمان رجال يوكلونهم بتسوية الصفوف، فإذا استوت كبرا إلا أنه إن لم يقيموا صفوفهم لم تبطل بذلك صلاتهم. وفيه: الوعيد على ترك التسوية، (شرح البخاری لابن بطال، باب تسویۃ الصفوف 2/344)
قلت: قوله - صلى الله عليه وسلم -: تراصوا، وقوله: رصوا صفوفكم، وقوله: سدوا الخلل، ولا تذروا فرجات للشيطان، وقول النعمان بن بشير: فرأيت الرجل يلزق كعبه بكعب صاحبه الخ، وقول أنس: وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه الخ، كل ذلك يدل دلالة واضحة على أن المراد باقامة الصف وتسويته أنما هو اعتدال القائمين على سمت واحد وسد الخلل والفرج في الصف بإلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم، وعلى أن الصحابة في زمنه - صلى الله عليه وسلم - كانوا يفعلون ذلك، وأن العمل برص الصف والزاق القدم بالقدم وسد الخلل كان في الصدر الأول من الصحابة وتبعهم، ثم تهاون الناس به.(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، الفصل الاول 4/5)
أي يصفهم الإمام بأن يأمرهم بذلك. قال الشمني: وينبغي أن يأمرهم بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا مناكبهم ويقف وسطا (شامی، باب الامامۃ 1/568)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1643/43-1218
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں شوہر نے پیسے دینے پر "طلاق دے دوں گا" کہہ کر طلاق دینے کا وعدہ کیا تھا، طلاق نہیں دی تھی، اس لئے اگر اس نے اب تک طلاق نہیں دی ہے تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ پیسے لینے کے بعد وعدہ سے مکر گیا ، تو ایسی صورت میں شرعی عدالت سے رابطہ کریں، تاکہ آپ کو انصاف مل سکے۔
فقال الزوج أطلق (طلاق می کنم) فکررہ ثلاثاً طلقت ثلاثاً بخلاف قولہ: سأطلق (طلاق می کنم) لأنہ استقبالٌ فلم یکن تحقیقا بالشک۔
فِي الْمُحِيطِ: لَوْقَال بِالْعَرَبِيَّةِ: أُطَلِّقُ، لَايَكُون طَلَاقًا إلَّا إذَا غَلَبَ اسْتِعْمَالُهُ لِلْحَال؛ فَيَكُون طَلَاقًا (الھندیۃ، الفصل السابع فی الطلاق بالالفاظ الفارسیہ، 1/384)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1736/43-1427
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب ایک بار آپ کا عذر ثابت ہوگیا تو روئی کے رکھنے سے عذر ختم نہیں ہوگا، آپ معذور ہی رہیں گے اور ہر نماز کے وقت وضو کرکے نماز ادا کریں گے۔
والمستحاضة هي التي لا يمضي عليها وقت صلاة إلا والحدث الذي ابتليت به يوجد فيه وكذا كل من هو في معناها وهو من ذكرناه ومن به استطلاق بطن وانفلات ريح لأن الضرورة بهذا تتحقق وهي تعمم الكل. (الھدایۃ 1/35)
(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل - - - (قوله: إحليله) بكسر الهمزة مجرى البول من الذكر بحر (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عاليا عن رأس الإحليل أو مساويا له: أي ما كان خارجا من رأسه زائدا عليه أو محاذيا لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلا عن رأس الإحليل أي غائبا فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر (شامی، سنن الوضوء 1/148)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند