نکاح و شادی

Ref. No. 2026/44-1993

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ڈاکٹر سے رابطہ کریں،  اپنا اور اہلیہ کا چیک اپ کرائیں اور علاج کرائیں۔ بعض مرتبہ بہت معمولی کمی ہوتی ہے ڈاکٹر  سے ہی اس مسئلہ کو حل کیاجاسکتاہے۔  ڈاکٹر جو مشورہ دے، اس کو دوبارہ لکھ کر  دارالافتاء سے پوچھ لیجئے کہ ایسی صورت اختیار کرنا شرعا جائز  ہے یا نہیں، اور اس سلسلہ میں شرعی ہدایات کیا ہیں وغیرہ۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ قرآن خوانی خود بدعت ہے(۱)، البتہ اگر بلاالتزام واہتمام کچھ حضرات بغیر لالچ طعام وغیرہ کے محض اخلاصِ قلب کے ساتھ قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردیں تو مضائقہ نہیں(۲)، جمعہ کے لئے بلانے کا التزام بھی نہ کرنا چاہئے کہ اذانِ جمعہ اس کے لئے کافی ہے۔(۳)

(۱) (یکرہ) اتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقرآن للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
(۲) للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أو صوماً أو صدقۃ أو غیرہا۔ (أیضاً: مطلب: في القراء ۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
(۳) لا ینبغي لأحد أن یقول لمن فوقہ في العلم والجاہ حان وقت الصلاۃ سوی المؤذن، لأنہ استفضال لنفسہ، قلت: وہذا خاص بالتثویب للأمیر ونحوہ علی قول أبي یوسف رحمہ اللہّٰ فأفہم۔ (أیضاً: ’’باب الأذان، مطلب: في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص310

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2391/44-3625

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سودی قرض لینا جائز نہیں ہے، سودی لین دین پر بڑی سخت وعید آئی ہے، البتہ اس سے  حلال کاروبار کرکے کمایا ہوا نفع حرام نہیں ہے، بلکہ حلال ہے،  تاہم سودی قرض لینے کی وجہ سے جو  گناہ ہوا اس سے توبہ استغفار کرنا ضروری ہے ۔ 

"(قوله: اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها." (فتاوی شامی، كتاب البيوع، باب المتفرقات من ابوابها، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه، ٥ / ٢٣٥، ط: دار الفكر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Miscellaneous

Ref. No. 2524/45-3853

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

You are a Muslim and bound by Shariah, it is not permissible for you and all Muslim participants to take fixed profit, similarly it is not permissible to give fixed profit to a person be it a Muslim or non-Muslim; since, both taking and giving interest are forbidden for a Muslim, therefore a Muslim cannot give a fixed interest to even a non-Muslim.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مندرجہ ذیل حدیث میں ادنی درجہ کے جنتی کو دس گنا بڑی جنت ملنے کی صراحت موجود ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’إني لأعلم آخر أہل النار خروجاً منہا، وآخر أہل الجنۃ دخولاً الجنۃ، رجل یخرج من النار حبواً، فیقال لہ: إذہب فأدخل الجنۃ فیأتیہا فیخیل إلیہ أنہا ملأی، فیرجع فیقول: یا رب، وجدتہا ملأی، فیقول اللّٰہ عز وجل: إذہب فأدخل الجنۃ، فإن لک مثل الدنیا، وعشرۃ أمثالہا أو إن لک مثل عشرۃ أمثال الدنیا، فیقول: أتسخر بي أو أتضحک بي وأنت الملک؟ قال: فلقد رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضحک حتی بدت نواجذہ، فکان یقال: ذلک أدنی أہل الجنۃ منزلۃ‘‘(۱)۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ یہ ایک ایسا شخص ہو گا، جو اوندھے منہ دوزخ سے نکلے گا، پھر اللہ اس سے فرمائے گا کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا؛ پس وہ جنت کے پاس آئے گا، تو اس کا یہ خیال ہو گا کہ یہ تو بھری ہوئی ہے؛ چنانچہ وہ واپس لوٹ جائے گا اور عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا، اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جا کر جنت میں داخل ہو جا، پھر وہ اس کی طرف آئے گا، تو اسے یہی خیال گزرے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے؛ پس وہ جا کر پھر عرض کرے گا، کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا، اس پر اللہ تعالیٰ (تیسری بار) فرمائے گا، کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا، تیرے لیے تو وہاں دنیا کے برابر جگہ ہے اور اس سے دس گنا زیادہ ہے۔ (اسے یقین نہ آئے گا اور سمجھے گا کہ شاید اس سے مذاق کیا جا رہا ہے)؛ چنانچہ وہ عرض کرے گا کہ اے خدا تو بادشاہ ہو کر مجھ سے مذاق کر رہا ہے (اس حدیث کے راوی بتاتے ہیں کہ) پھر میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے، (راوی یہ بھی بتاتے ہیں کہ) کہا جاتا تھا کہ یہ شخص اہل جنت میں سب سے کم رتبے والا ہو گا۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الرقاق: باب صفۃ الجنۃ والنار‘‘: ج ۲، ص: ۹۶۹، رقم: ۶۵۷۱؛ وأخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب آخر أہل النار خروجا‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۳، رقم: ۱۸۶ - ۳۰۸۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص139

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں سعید کو چاہئے کہ اپنے گھر میں بھی تبلیغ دین کرے؛ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا کہ {وأنذر عشیرتک الأقربین} (۲)  کہ اپنوں کو خدا سے ڈراؤ؛ پس سعید کو چاہئے کہ اپنوں کو نظر انداز نہ کرے کہ وہ احق ہیں۔ (۱)

(۲) سورۃ الشعراء: ۲۱۴۔
(۱) ومعنی الآیۃ أن الإنسان إذا بدأ بنفسہ أولا وبالأقرب فالأقرب من أہلہ ثانیا لم یکن لأحد علیہ طعن البتۃ۔ (تفیسر خازن، سورۃ الشعراء: ج ۳، ص: ۳۳۳)
{قُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا} (سورۃ التحریم: ۶)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص348

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:قالین وغیرہ پر اگر ناپاکی لگ جائے اوراس کو باہر نکال کر دھونا ممکن ہو، یا اس کو گھر سے نکالنا ممکن ہو، تو اس پر پانی ڈال کر دیوار وغیرہ پر ڈال دیا جائے اور جب پانی کا قطرہ گرنا بند ہوجائے، تو اس پر دوبارہ پانی ڈالا جائے اس طرح تین مرتبہ کرنے سے قالین پاک ہوجائے گی، اور اگر اس کو گھر سے نکالنا ممکن نہ ہو؛ لیکن اس کو زمین سے اوپر کرنا ممکن ہو اس طور پر کہ نجاست کی جگہ کے نیچے کوئی چیز ڈال دی جائے تاکہ پانی اس کے نیچے گر جائے اس طرح تین مرتبہ کرنے سے قالین پاک ہوجائے گی، اور اگر اس کو زمین سے اوپر کرنا بھی ممکن نہ ہو، تو نجاست کی جگہ پانی ڈال دیا جائے اور کسی جذب کرنے والی چیز کے ذریعہ اس کو جذب کرلیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کرنے سے پاک ہوجائے گا(۱) ’’وما لا ینعصر یطہر بالغسل ثلاث مرات، والتجفیف في کل مرۃ؛ لأن للتجفیف أثرا في استخراج النجاسۃ، وحد التجفیف أن یخلیہ حتی ینقطع التقاطر ولا یشترط فیہ الیبس‘‘۔(۲)

 (۱) وفي النجاسۃ الحقیقیۃ المرئیۃ إزالۃ عینھا، و في غیر المرئیۃ غسل محلھا ثلاثاً، والعصر في کل مرۃ إن کان مما ینعصر، والتجفیف في کل مالا ینعصر۔ (زین الدین ابن نجم، البحر الرائق،ج۱، ص:۱۰)؛ و عند أبي یوسف: ینقع في الماء ثلاث مرات و یجفف في کل مرۃ إلا أن معظم النجاسۃ۔، قد زال فجعل القلیل عفوا الخ۔(علاؤ الدین الکاساني، بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، فصل: و أما بیان ما یقع بہ التطہیر،ج۱، ص:۲۴۲)
(۲)جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا،ج۱، ص:۹۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص443

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نظر نہ آنے والی نجاست اگر کپڑے میں لگ جائے، تو اس کو تین مرتبہ اس طرح دھونا چاہئے کہ نجاست زائل ہو جائے، نجاست کے زائل ہونے کا غالب گمان بھی کافی ہے، صورت مسئولہ میں جب کہ کپڑا پھٹنے کا اندیشہ ہے، تو کپڑے کو آہستہ آہستہ تین مرتبہ نچوڑیں طاقت سے نہ نچوڑیں، ایسی صورت میں بھی کپڑا پاک ہو جائے گا۔
’’ویشترط العصر في کل مرۃ فیما ینعصر ویبالغ فی المرۃ الثالثۃ حتی لو عصر بعدہ لا یسیل منہ الماء‘‘ (۱)
’’وطہارۃ المرئي بزوال عینہ ویعفی أثر شق زوالہ وغیر المرئي بالغسل ثلاثاً والعصر کل مرۃ إذا أمکن‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الأول: في تطہیر الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۔
(۲) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۱۔(شاملۃ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص36

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس مٹی کے گو لے پر بار بار تیمم کرنا جائز ہے، اس پر نجاست کا کوئی اثر نہیں ہوتا، جو شخص اس کو نا جائز کہتا ہے وہ غلط کہتا ہے، در مختار میں اس کی تصریح موجود ہے کہ ایک جگہ ایک ہی مٹی پر بار بار تیمم کرنا جائز ہے۔(۱)

(۱)السادس من الشروط أن یکون التیمم بضربتین بباطن الکفین لما روینا فإن نوی التیمم و أمر بہ غیرہ فیممہ صح۔ ولو کان الضربتان في مکان واحد علی الأصح لعدم صیرورتہ مستعملا لأن التیمم بما في الید۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’باب التیمم‘‘ ج۱،ص:۱۲۰) ؛ والسادس أن یکون بضربتین بباطن الکفین ولو في مکان واحد۔( الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱،ص:۴۲) ؛ و أما إذا تیمم جماعۃ من محل واحد فیجوز کما سیأتي في الفروع: لأنہ لم یصر مستعملاً إذ التیمم إنما یتأدی بما التزق بیدہ لا بما فضل۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۴۰۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص354

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صاحب ترتیب کی نماز غیر صاحب ترتیب کے پیچھے بلا شبہ ادا ہو سکتی ہے۔ غیر صاحب ترتیب کی نماز درست ہے تو اس کی اقتداء بھی درست ہے۔(۱)

(۱) لا یلزم الترتیب بین الفائتۃ والوقتیۃ ولا بین الفوائت إذا کانت الفوائت ستا کذا في النہر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، مطلب في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص465