نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عیدالفطر اور اسی طرح عیدالاضحی کی نماز کا وقت زوال سے پہلے تک رہتا ہے اور زوال کے وقت ختم ہوجاتا ہے؛ لہٰذا بوقت زوال نماز اور خطبہ درست نہیں ہوں گے۔(۲)

(۲) وابتداء وقت صلاۃ العیدین من ارتفاع الشمس إلی قبیل زوالہا وتوخر صلاۃ عید الفطر بعذر کالمطر ونحوہ إلی الغد فقط وتؤخر صلاۃ عید الاضحی بعذر إلی ثلثۃ أیام۔ (أحمد بن محمد، طحطاوي علی المراقي، ’’أحکام العیدین‘‘: ص: ۵۳۲-۵۳۸)
وقد وقع في عبارات الفقہاء أن الوقت المکروہ ہو عند انتصاف النہار إلی أن تزول الشمس، ولا یخفی أن زوال الشمس إنما ہو عقیب انتصاف النہار بلا فصل، وفي ہذ القدر من الزمان لا یمکن أداء صلاۃ فیہ، فلعل المراد أنہ لا تجوز الصلاۃ بحیث یقع جزء منہا في ہذا الزمان الخ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۱، زکریا، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص110

آداب و اخلاق

Ref. No. 2779/45-4350

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عمل کا مدار نیت پر ہوتا ہے اگر غیروں سے مشابہت کی نیت نہ ہو اور گرمی یا سردی وغیرہ  کی ضرورت کی وجہ سے شامیانہ لگایا گیا ہو بیجا اسراف نہ ہو تو  شرعا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر شامیانہ اس طرح لگایا  جائے  کہ راستہ بند ہو جائے اور لوگوں کو تکلیف ہو تو اگر صاحب تقریب مالدار ہے، اتنی وسعت رکھتا ہے کہ ہال وغیرہ کا نظم کر سکتا ہے تو پھر راستہ بند کرنا جائز نہیں، کیونکہ شریعت میں راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینے کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا۔:

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم الايمان بضع وثلثون شعبة فأفضلها قول لا اله الا الله وأدناها اماطة الأذي عن الطريق‘‘ (مشكوة: 12) کسی مسلمان کے لئے لوگوں کو ایذا پہونچانا جائز نہیں۔

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده والمؤمن من أمنه الناس علی دمائهم وأموالهم‘‘ (سنن النسائي، كتاب الايمان وشرائعه، باب صفة المؤمن: ج 2، ص: 266)

لیکن اگر صاحب تقریب غریب آدمی ہے، گھر چھوٹا ہے، محلہ  کی گلی تنگ ہے اور وہ تقریب مباح ہو  تو اگر  بدرجہ مجبوری سڑک سے تھوڑا سا حصہ لیا جائے اور آمد ورفت کا مناسب راستہ چھوڑ دیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم اياكم والجلوس بالطرقات فقالوا يا رسول الله صلي الله عليه وسلم ما لنا من مجالسنا به نتحدث فيها: قال فاذا أبيتم الا المجلس فأعطوا الطريق حقه قالوا وما حق الطريق يا رسول الله قال غض البصر وكف الأذی ورد السلام والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، متفق عليه۔ (مشكوة: 398)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ ہے، مفسد نماز نہیں ہے۔(۲)

(۲)وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَہ۲۳۸ (سورۃ البقرۃ: ۲۳۸)
وکذلک القیام لقولہ تعالی وقوموا للّٰہ قانتین۔ (البقرۃ: ۲۳۹) أي مطیعین وقیل خاشعین، وقیل: ساکنین۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۷۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص81

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک وتر تین رکعات ایک سلام کے ساتھ ہیں اور اس سلسلہ میں طحاوی شریف ،مسلم شریف، ترمذی شریف اور بدائع الصنائع میں روایات اور وضاحت موجود ہے۔
عن عائشۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یوتر بثلاث۔ یقرأ فی أول رکعۃ بـ سبح اسم ربک الأعلی وفی الثانیۃ: قل یا أیہا الکافرون وفی الثالثۃ: قل ہو اللہ أحد والمعوذتین، فأخبرت عمرۃ، عن عائشۃ رضی اللہ عنہا فی ہذا الحدیث بکیفیۃ الوترکیف کانت ووافقت علی ذلک سعد بن ہشام وزاد علیہا سعد أنہ کان لا یسلم إلا في آخرہن (۱)
فقد ثبت بہذہ الآثار التي رویناہا، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن الوتر أکثر من رکعۃ، ولم یرو فی الرکعۃ شیء، وتأویلہ یحتمل ما قد شرحناہ وبیناہ في موضعہ من ہذا الباب۔ ثم أردنا أن نلتمس ذلک من طریق النظر فوجدنا الوتر لا یخلو من أحد وجہین، إما أن یکون فرضا أو سنۃ، فإن کان فرضا فإنا لم نر شیئا من الفرائض إلا علی ثلاثۃ أوجہ، فمنہ ما ہو رکعتان، ومنہ ما ہو أربع، ومنہ ما ہو ثلاث، وکل قد أجمع أن الوتر لا تکون اثنتین ولا أربعا۔  فثبت بذلک أنہ ثلاث‘‘(۲)
’’(فصل): وأما الکلام فی مقدارہ: فقد اختلف العلماء فیہ، قال أصحابنا: الوتر ثلاث رکعات بتسلیمۃ واحدۃ فی الأوقات کلہا۔ وقال الشافعي: ہو بالخیار إن شاء أوتر برکعۃ أو ثلاث أو خمس أو سبع أو تسع أو أحد عشر في الأوقات کلہا۔ وقال الزہري: في شہر رمضان ثلاث رکعات، وفي غیرہ رکعۃ۔ احتج الشافعي بما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من شاء أوتر رکعۃ ومن شاء أوتر بثلاث أو بخمس،  ولنا: ما روي عن ابن مسعود وابن عباس وعائشۃ رضي اللّٰہ عنہم أنہم قالوا: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث رکعات، وعن الحسن قال: أجمع المسلمون علی أن الوتر ثلاث لا سلام إلا في آخرہن، ومثلہ لا یکذب؛ ولأن الوتر نفل عندہ، والنوافل أتباع الفرائض فیجب أن یکون لہا نظیرا من الأصول والرکعۃ الواحدۃ غیر معہودۃ فرضا وحدیث التخییر محمول علی ما قبل استقرار أمر الوتر بدلیل ما روینا‘‘(۱)
’’عن عائشۃ، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ، یوتر من ذلک بخمس، لا یجلس في شيء إلا فی آخرہا‘‘(۲)
’’عن علي، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث، یقرأ فیہن بتسع سور من المفصل، یقرأ في کل رکعۃ بثلاث سور آخرہن قل ہو اللّٰہ أحد‘‘(۳)

(۱) أحمد بن محمد أبو جعفر الطحاوي، الطحاوي، شرح معاني الآثار، ’’باب الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵، رقم: ۱۶۹۵۔
(۲) قد سیق تخریجہ، ج۱، ص: ۲۹۲، رقم: ۱۷۳۹۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، فصل الکلام …فی مقدار صلاۃ الوتر، ج۱، ص: ۶۰۹۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب صلاۃ اللیل‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۴، رقم ۷۳۷۔)
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر، باب ماجاء في الوتر بثلاث‘‘:ج۱، ص: ۱۰۶، نعیمیہ دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص302

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر زید کو لکھنؤ جانا ہو اور ٹکٹ بنواکر ریزویشن کرا چکا ہے پھر یہ کہے کہ فلاں تاریخ کو لکھنؤ جاؤں گا، تو اس کا کہنا صحیح اور درست ہے، اس کو کوئی بھی غلط نہیں کہہ سکتا، حالاں کہ بالیقین اس کو اپنے جانے کا علم نہیں ہے کیا خبر کیا بات پیش آجائے کہ نہ جا سکے۔ بس اسی طرح سائنس کے حساب سے اگر کسی چیز کا علم واندازہ لگایا جائے، تو غلط نہیں ہے، ہاں اس پر یقین کامل اعتقاد کے درجے میں درست نہیں، سورج گہن کے وقت خداوند قدوس کی صفت قہار کا اظہار ہوتا ہے اس وقت اہم عبادت نماز میں مشغول ہونا باعث اجر عظیم ہے تو اگر صرف یہ اطلاع ہو کہ سورج گہن ہوگا تو فلاں مسجد میں نماز ہوگی تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اس لیے کہ یہ کبھی کبھی ہوتا ہے اس قسم کے مسائل اور ایسے وقت کی عبادات سے لوگ غافل رہتے ہیں۔(۱)

(۱) قولہ: وہو غلبۃ الظن، لأنہ العلم الموجب للعمل لا العلم بمعنی الیقین۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصوم‘‘: ج۳، ص: ۳۵۶، زکریا دیوبند)
قولہ: لایفید إلا الظن بمعنی أنہ لایحصل بخبر کل واحد اثر متجدد بحیث یخرج عن مرتبۃ الظن ویرتفع إلی مرتبۃ الیقین۔ (تفتازاني، شرح عقائد، ص: ۱۵، حاشیہ، ص: ۱۱، مکتبہ بلال دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص412

Divorce & Separation

Ref. No. 1279

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

One should admonish his disobedient wife first; if it fails then her family members should try to rectify the situation. If all goes in vain, one can divorce her. Nevertheless, if, after all, he puts up with and does not divorce her, Allah will reward him much. Quran says: “And if you fear a separation between the two of them, appoint an arbitrator from his family and an arbitrator from her family” (Quran: Surah Al-Nisaa ).

And Allah knows best.

Marriage (Nikah)

Ref. No. 38 / 1156

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Having sexual relation before marriage is Haram. Hence both must repent to Allah at earliest. However, if they married and later they repented to Allah then too Nikah is valid. But they must hurry to repent to Allah for their sins.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. No. 39 / 1023

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بیوہ عورت چار ماہ دس دن عدت میں بیٹھے گی۔ اس دوران گھر سے باہر نکلنا، بناؤ سنگار کرنا ممنوع ہے۔ دوا و علاج کے لئے یا کسی واقعی ضرورت کے لئے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ غیرمحرموں سے عدت کے دوران بھی پردہ لازم ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 41/983

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ آپ کس طرح کی تفصیل چاہتے ہیں، اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ معارف القرآن میں سورہ توبہ  کا مطالعہ کرلیں، وہاں تمام و اسباب و علل کے ساتھ بحث کی گئی ہے شاید وہاں آپ کے تمام شبہات کے جوابات  مل جائیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1551/43-1056

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جو جانور گھر کاپلاہوا ہو یا خریدتے وقت قربانی کی نیت نہ ہو بلکہ بعد میں قربانی کی نیت کی ہو  تو وہ جانور قربانی کے لیے متعین نہیں ہوگا، اس لیے اس  جانور کا دودھ پینا درست ہے۔ اس میں امیر و غریب سب برابر ہیں۔

جو جانور ایام قربانی سے پہلے خریدا گیا اس کی جگہ دوسرا جانور کم قیمت میں خریدنا جائزہے۔   اور جو رقم بچ گئی اس کو اپنے ذاتی استعمال میں لا سکتاہے، اور اس میں غنی و فقیر سب برابر ہیں۔  ایام قربانی میں اگر غریب نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اب اس کو بیچنا جائز نہیں، اگر بیچا تو باقی رقم صدقہ کرے۔

ولو کان فی ملک انسان شاۃ فنوی ان یضحی بھا او اشتری شاۃ ولم ینو الاضحیۃ وقت الشراء ثم نوی بعد ذالک ان یضحی بھا لا یجب علیہ سواء کان غنیا او فقیرا لان النیۃ لم تقارن الشراء فلا تعتبر (بدائع الصنائع کتاب الاضحیۃ 6/276)

ولو حلب اللبن من الأضحية قبل الذبح أو جز صوفها يتصدق به، ولا ينتفع به، كذا في الظهيرية. وإذا ذبحها في وقتها جاز له أن يحلب لبنها ويجز صوفها وينتفع به؛ لأن القربة أقيمت بالذبح، والانتفاع بعد إقامة القربة مطلق كالأكل، كذا في المحيط.

وإن كان في ضرعها لبن ويخاف ينضح ضرعها بالماء البارد، فإن تقلص وإلا حلب وتصدق، ويكره ركوبها واستعمالها كما في الهدي، فإن فعل فنقصها فعليه التصدق بما نقص، وإن آجرها تصدق بأجرها، ولو اشترى بقرة حلوبة وأوجبها أضحية فاكتسب مالا من لبنها يتصدق بمثل ما اكتسب ويتصدق بروثها، فإن كان يعلفها فما اكتسب من لبنها أو انتفع من روثها فهو له، ولا يتصدق بشيء، كذا في محيط السرخسي. (الھندیۃ، الباب السادس فی بیان ما یستحب فی الاضحیۃ 5/301) وإن حلب اللبن من الأضحية قبل الذبح أو جز صوفها يتصدق بهما ولا ينتفع بهما اهـ. وقال في البدائع وإن انتفع تصدق بمثله وإن تصدق بقيمته جاز (درر الحکام شرح غرر الاحکام، ما یصح للاضحیۃ 1/270)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند