نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ عنہا میں جب زید خارج صلوٰۃ ہے اور عمر داخل صلوٰۃ ہے تو وہ غلطی کرتا ہے اور زید خارج صلوٰۃ ہونے کے باوجود اس کو لقمہ دیتا ہے اور عمر لقمہ لیتا ہے تو اس صورت میں عمر کی نفل نماز ادا نہیں ہوگی بلکہ فاسد ہوجائے گی۔(۱) اور قضاء اس کی لازم ہوگی۔ دونوں صورتوں میں زید وعمر پر قضاء لازم ہے۔(۲)
(۱) وفتحہ علی غیر إمامہ إلا اذا أراد التلاوۃ وکذا الأخذ إلا إذا تذکر، قال في ردالمحتار: أو أخذ الإمام بفتح من لیس في صلاتہ۔ (الحصکفي ، رد المحتار مع الدر المختار، ج۲، ص: ۳۸۱)
(۲) ولزم نفل الخ أي لزم المضی فیہ حتی إذا أفسدہ لزم قضاء ہ : أي قضاء رکعتین، وإن نوی أکثر علی مایأتی۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار،’’باب الوتر والنوافل‘‘ج ۲، ص: ۴۷۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص91

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں (کسی آنے والے کی) رعایت سے قرأت کو طویل کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ اگر اس کو امام جانتا ہے، ورنہ تو نامناسب امر ہے۔(۱)

(۱) کرہ تحریماً إطالۃ رکوع أو قرائۃ لإدراک الجائي: أي إن عرفہ وإلا فلا بأس بہ، قال ابن عابدین: لکن یطول مقدار مالایثقل علی القوم بأن یزید تسبیحۃ أو تسبیحتین علی المعتاد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، زکریا)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص211

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دعاء قنوت اور قنوتِ نازلہ وغیرہ یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب تک صحیح یاد نہ ہو ’’ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ وفي الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ اس کی جگہ پڑھ لی جائے اور اگر یہ بھی یاد نہ ہو تو سورۂ اخلاص وغیرہ {قل ہواللہ أحد اللّٰہ  الصمد} پوری سورت پڑھ سکتے ہیں۔(۲)

(۲) من لم یحسن القنوت یقول: ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ وفي الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ کذا في المحیط أو یقول: اللّٰہم اغفرلنا ویکرر ذلک ثلاثاً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثامن في صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص:۱۷۰، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص320

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس روز سورج گہن ہوجائے تو دو رکعت نماز شریعت نے مقرر کی ہے اس کو نماز کسوف کہتے ہیں نماز کسوف جماعت سے ادا ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورج گہن کے وقت یہ ہی عمل فرماتے تھے۔ سورج گہن اللہ کی ایک نشانی ہے تاکہ انسان اس پر غور کرے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اس سورج کو بے نور کر سکتا ہے ۔ اسی طرح جب چاہے تو اس پورے نظام شمس کو؛ بلکہ کل کائنات کے تمام نظام کو فناء کردے اور قیامت آجائے بس اس طرح مومن کے دل میں خوف طاری ہوتا ہے اور وہ فوراً توبہ کرتا ہے۔ اور اپنی زندگی کی اصلاح کی فکر کرتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہؓ  کو ہر ایسے موقع پر خوف طاری ہوتا تھا اور فوراً مسجد کی طرف چل دیتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج گرہن ہوا آپؐ اس خوف سے گھبرا کے باہر تشریف لائے کہ کہیں قیامت نہ آجائے۔ اور فوراً مسجد تشریف لے گئے اور حضرات صحابہؓ کو بلاکر دو رکعت نماز لمبے رکوع لمبی قرأت اور لمبے سجدے کے ساتھ ادا فرمائی۔ اس لیے تمام مسلمانوں کو شرعاً حکم ہے کہ وہ مسجد میں جمع ہوکر دو رکعت نماز باجماعت پڑھیں اس میں طویل سے طویل رکوع وسجدے کریں۔
پھر طویل دعا کریں اور سورج گہن ہونے تک دعاء میں مشغول رہیں؛ البتہ اس نماز میں سری قرأت لازم ہے اس میں نہ اذان اور نہ اقامت کہنا صحیح ہے اگر اعلان کرکے جمع کرلیا جائے تو اس کی گنجائش ہے اگر اس دوران نماز کا وقت آجائے تو نماز فرض ادا کرنا بھی ضروری ہے اور عورتوں کو حکم کیا جائے اپنے اپنے گھروں میں تلاوت، دعا، ذکر میں مشغول رہیں۔
’’یصلي بالناس من یملک إقامۃ الجمعۃ للکسوف……عند الکسوف رکعتین بیان لأقلہا، وإن شاء أربعاً أو أکثر … کالنفل بلا أذان ولا إقامۃ ولا جہر ولا خطبۃ… ویطیل فیہا الرکوع والسجود والقراء ۃ والأدعیۃ والأذکار الذي ہو من خصائص النافلۃ … حتی تنجلی الشمس کلہا‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الکسوف‘‘: ۶۷، ۶۸، زکریا دیوبند۔)
حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا أبو أسامۃ، عن برید بن عبد اللہ، عن أبي بردۃ، عن أبي موسی، قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلی اللہ علیہ وسلم فزعا، یخشی أن تکون الساعۃ، فأتی المسجد، فصلی بأطول قیام ورکوع وسجود مارأیتہ قط یفعلہ، وقال: ہذہ الآیات التي یرسل اللّٰہ، لا تکون لموت أحد ولا لحیاتہ، ولکن یخوف اللّٰہ بہ عبادہ، فإذا رأیتم شیئا من ذلک، فافزعوا إلی ذکرہ ودعائہ واستغفارہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الکسوف، باب الذکر في الکسوف‘‘: ج ۱، ص:۱۴۵)
یصلي بالناس من یملک إقامۃ الجمعۃ)، بیان للمستحب، وما في السراج لا بد من شرائط الجمعۃ إلا الخطبۃ، ردہ فی البحر عند الکسوف (رکعتین)، بیان لأقلہا وإن شاء أربعا أو أکثر، کل رکعتین بتسلیمۃ أو کل أربع، محتبی، وصفتہا: (کالنفل) أي برکوع واحد فی غیر وقت مکروہ، (بلا أذان و) لا (إقامۃ و) لا (جھر و) لا (خطبۃ)، وینادي: الصلاۃ جامعۃ لیجتمعوا، (ویطیل فیہا الرکوع) والسجود (والقراء ۃ) والأدعیۃ والأذکار الذي ہو من خصائص النافلۃ ثم یدعو بعدہا جالسا مستقبل القبلۃ أو قائما مستقبل الناس والقوم یؤمنون، (حتی تنجلي الشمس کلہا وإن لم یحضر الإمام) للجمعۃ (صلی الناس فرادی) في منازلہم تحرزا عن الفتنۃ، (کالخسوف) للقمر۔
(قولہ: ردہ في البحر) أي بتصریح الإسبیجابي بأنہ یستحب فیہا ثلاثۃ أشیاء: الإمام، والوقت: أي الذي یباح فیہ التطوع، والموضع: أي مصلی العید أو المسجد الجامع۔ اہـ۔ وقولہ: الإمام أي الاقتداء بہ۔ وحاصلہ: أنہا تصح بالجماعۃ وبدونہا، والمستحب الأول، لکن إذا صلیت بجماعۃ لا یقیمہا إلا السلطان۔ و ما دونہ کما مر أنہ ظاہر الروایۃ، وکون الجماعۃ مستحبۃ، فیہ رد علی ما في السراج من جعلہا شرطا کصلاۃ الجمعۃ۔ (قولہ: عند الکسوف)، فلو انجلت لم تصل بعدہ، وإذا انجلی بعضہا جاز ابتداء الصلاۃ، وإن سترہا سحاب أو حائل صلی؛ لأن الأصل بقاؤہ، وإن غربت کاسفۃ،…أمسک عن الدعاء وصلی المغرب، جوہرۃ (قولہ: وإن شاء أربعا أو أکثر إلخ) ہذا غیر ظاہر الروایۃ، وظاہر الروایۃ ہو الرکعتان ثم الدعاء إلی أن تنجلی۔ شرح المنیۃ۔ قلت: نعم فی المعراج وغیرہ: لولم یقمہا الإمام صلی الناس فرادی رکعتین أو أربعاً، وذلک أفضل۔ (قولہ: أي برکوع واحد) وقال الأئمۃ الثلاثۃ: في کل رکعۃ رکوعان، والأدلۃ في الفتح وغیرہ، (قولہ: في غیر وقت مکروہ)؛ لأن النوافل لا تصلی في الأوقات المنہی عن الصلاۃ فیہا، وہذہ نافلۃ، جوہرۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الکسوف‘‘: ج۳، ص:۶۷- ۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص428

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1253

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  دے سکتے ہیں۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1020

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is follows:

Insurance is based on interest and gambling which are not allowed in Islam, but complying with the laws of the country, it makes a room to insure. 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

مساجد و مدارس

Ref. No. 902/41-12B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصل تو یہ ہے کہ چندہ دینے والوں نے جس مقصد کے لئے چندہ دیا ہے، ان کی رقم  اسی مقصد میں لگائی جائے،  صورت مسئولہ میں جبکہ وہ مدرسہ ہی باقی نہیں رہا تو مدرسہ کے نام پر جو چندہ کیا گیا ہے اس کو کسی دوسرے مدرسہ میں لگانا درست ہوگا تاکہ اس رقم کو ضائع ہونے سے بچالیا جائے۔  ہمارے عرف میں عام طور پر ایک مدرسہ کی رقم دوسرے مدرسہ میں لگانا  چندہ دینے والوں  کے منشا کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

قولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ". (الدر المختار 4 / 366) عملاً بما هو معتبر في متفاهم الناس وعرفهم، فوجب اعتبار المفهوم في كلام الواقف؛ لأنه يتكلم على عرفه (الفقہ الاسلامی وادلتہ للزحیلی 10/7628)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 997/41-162

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر وہ اس قدر معذور ہیں کہ وضو اور نماز کے بقدر بھی  عذر سے خالی وقت نہیں ملتا ہے تو پھر ہر نماز کے لئے وضو کرلیں اور پیمپر بدل لیں، اور اگر پیمپر بدلنے میں کافی دشواری ہو تو بدلنا ضروری نہیں ہے، اسی نجس پیمپر میں نماز صحیح ہوجائے گی۔

لیکن اگر اتنا وقت بغیرعذر کے مل جاتا ہے جس میں وضو کرکے فرض نماز ادا کرسکیں تو پھر وہ معذور کے حکم میں نہیں ہوں گے اور ہر نماز کے لئے وضو کرنے کے ساتھ پیمپر بدلنا لازم ہوگا ورنہ نماز نہیں ہوگی۔

مريض تحته ثياب نجسة، وكلما بسط شيئا تنجس من ساعته صلى على حاله وكذا لو لم يتنجس إلا أنه يلحقه مشقة بتحريكه. (الدرالمختار باب سجود التلاوۃ 2/103)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 00000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) مسجد کی وقف شدہ زمین پر بلاکسی معاوضہ کے مدرسہ چلانا درست نہیں ہے۔ (2) زید کا مسجد میں امامت کرنا اور سرکاری مدرسہ میں سروس کرنا دونوں عمل درست ہیں۔ اور مسجد سے تنخواہ لینا بھی جائز ہے۔ (3) مسجد کی خالی  پڑی زمین پر بلامعاوضہ کے مدرسہ کی عمارت  تعمیر کرنا وقف کا غلط استعمال کرنا ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1336/42-715

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زکوۃ کا مکمل حساب کرنے کے بعد اگر اس طرح احتیاطا  کچھ اضافی رقم دے تاکہ اگر کہیں کوئی بھول چوک ہوئی ہو تو اس کی تلافی ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور سلسلہ وار اس طرح نام لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند