Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جو قے منہ بھر ہو وہ نجاست غلیظہ ہے۔ مراقی الفلاح میں ہے۔ درہم سے کم ہوتو معاف ہے صورت مسئولہ میں ناپاک قے امام صاحب کے کپڑے کو لگ گئی اورامام صاحب کا کپڑا ناپاک ہو گیا اس لیے نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔(۱)
(۱) وما ینقض الوضوء بخروجہ من بدن الإنسان۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ص: ۵۴)
وعفي قدر الدرہم من مغلظۃ۔ (ایضًا:)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص259
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز فجر کے دوران طلوع آفتاب کی وجہ سے نماز باطل ہو گئی بعد میںاس کی قضاء لازم ہے۔
’’عن عقبۃ بن عامر الجہني یقول: ثلاث ساعات کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہانا أن نصلی فیہن أوأن نقبر فیہنّ موتانا: حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع الخ۔‘‘(۲)
’’قولہ بخلاف الفجر أي فإنہ لا یؤدي فجر یومہ وقت الطلوع، لأن وقت الفجر کلّہ کامل فوجبت کاملۃ فتبطل بطروِّالطلوع الذي ہو وقت فساد‘‘(۱)
’’لا یتصور أداء الفجر مع طلوع الشمس عندنا حتی لو طلعت الشمس وہو في خلال الصلاۃ تفسد صلاتہ عندنا‘‘(۲)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب: الأوقات التي نہی عن الصلاۃ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۶، رقم: ۸۳۱، نعیمیہ دیوبند۔)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳، زکریا۔)
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان الوقت المکروہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۹، زکریا۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص87
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جہری نمازوں میں جہر اور سری نمازوں میں سر کی تعیین حکمت الٰہی پر مبنی ہے؛ اس لیے کہ مغرب، عشاء اور فجر میں شواغل سے سکون و آرام ہوتا ہے۔
اصوات و حرکات میں خاموشی ہوتی ہے۔ ان اوقات میں افکار بھی کم ہوتے ہیں لہٰذا ایسے اوقات کی قرأت قلوب میں زیادہ مؤثر ہوتی ہے؛ کیوں کہ قلوب افکار و ہجوم سے خالی اور صاف ہوتے ہیں اور کان شواغل، حرکات واصوات کے نہ ہونے سے سننے اور سمجھنے پر زیادہ آمادہ ہوتے ہیں اس سے رات کی کہی ہوئی بات کانوں سے گزر کر سیدھی دل پر اثر انداز ہوتی ہے اور قرآن کریم نے اس امر کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ {إِنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْلِ ہِیَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِیلًا}(۲) یعنی رات کے اُٹھنے سے نفس خوب پامال ہوتا اور کچلا جاتا ہے اور کہی ہوئی بات دل پر مؤثر ہوتی ہے اور قلب میں بیٹھ جاتی ہے اور مشاہدہ بھی اس پر دال ہے کہ خوش الحان آدمیوں ، پرندوں اور باجوں وغیرہ کی آوازیں بنسبت دن کے رات کو زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہیں؛ لہٰذا ان اوقات میں جہری قرأت مقرر کی گئی جن میں وہ زیادہ مؤثر ہو۔ اسی طرح ظہر وعصر کی نمازوں میں قرآن سراً پڑھنے میں یہ حکمت ہے کہ دن میں بازاروں اور گھروں میں شور و شغب ہوتا ہے اور کثرت شواغل۔ اصوات و حرکات اور متفرق امور سے دلوں کو فراغت کم ہوتی ہے اور بات پر پوری توجہ نہیں ہو پاتی اس طرف قرآن کریم نے یوں اشارہ فرمایا ہے۔ {إِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیلاً}(۱) یعنی دن میں تجھ کو دور دراز کا شغل رہتا ہے اس لیے ان اوقات یعنی ظہر و عصر میں سِری قراء ت کا حکم ہے۔ مغرب کے وقت کچھ سکون ہوتا ہے اس لیے مختصر قراء ت ہوتی ہے وہی سنت ہے۔ عشاء میں سکون کچھ زیادہ ہوتا ہے تو مغرب سے کچھ زائد قراء ت مسنون ہوئی اور فجر میں قلوب بالکل خالی اور آوازوں کا بازار بالکل معطل ہوتا ہے اس لیے تمام نمازوں سے زیادہ قراء ت مسنون ہے اور سب سے پہلی آواز قرآنی آواز کانوں میں پڑتی ہے ان حکمتوں کی طرف خود قرآن کریم اشارہ کرتا ہے نیز یہ تعیین قرأ ت من جانب الشارع لازم ہے اس میں تغیر و تبدل کسی شخصی بنیاد پر ممکن بھی نہیں ہے۔(۲)
(۲) سورۃ المزمل: ۶۔
(۱) سورۃ المزمل: ۷۔
(۲) السرّ في مخالفتہ الظہر والعصر أن النہار مظنۃ الصخب واللغط في الأسواق والدور وأما غیرہما فوقت ہدوء الأصوات والجہر أقرب الی تذکر القوم واتعاظہم۔ (الشاہ ولي اللّٰہ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ج ۲، ص: ۱۵، دارالجیل القاہرۃ، ۲۰۰۵ء){وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا} (سورۃ الإسراء: ۱۱۰)
والأصل أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یجہر بالقرائۃ في الصلاۃ کلہا في الابتداء وکان المشرکون یؤذونہ فانزل اللّٰہ تعالیٰ {وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا) أي لا تجھر بصلاتک و لا تخافت بھا کلھا( وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا} بأن تجہر بصلاۃ اللیل، وتخافت بصلاۃ النہار فکان یخافت بعد ذلک في صلاۃ الظہر والعصر، لأنہم کانوا مستعدین الإیذاء في ہذین الوقتین، ویجہر في المغرب لأنہم کانوا مشغولین بالأکل وفي العشاء والفجر، لأنہم کانوا رقوداً (نائمین)، وجہر بالجمعۃ والعیدین لأنہ أقامہا بالمدینۃ وما کان للکفار بہا قوۃ الإیذاء، وہذا العذر وإن زال بکثرۃ المسلمین، فبقیت ہذہ السنۃ، لأن بقاء الحکم یستغنی عن بقاء السبب، اھـ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’أبواب القراء ۃ باب وجود الجہر في الجہریۃ والسرّ في السرّیۃ‘‘: ج۴، ص: ۵، مکتبہ اشرفیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص206
کھیل کود اور تفریح
Ref. No. 1267
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: موبائل میں آوازریکارڈ کرنا اور اس کا سننا درست ہے۔ لیکن ویڈیوگرافی اور تصویرکشی درست نہیں ہے، اس لئے مبارک مجلسوں میں خاص طور سے اس سے اجتناب لازم ہے۔ جہاں غیرشرعی امور ہوتے ہیں وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، اس لئے فوٹوگرافی سے اجتناب کرنے کی بات اور اس پر ڈانٹنا درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 37 / 1113
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: جائز ہے، مگر عادت بنالینا مناسب نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 39 / 0000
In the name of Allah the Most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The watery discharge from the vagina after urination or other times nullifies the wudhu and not Ghusl. So you have to just do wudhu and perform namaz.
And Allah Knows Best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 40/1147
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ مسئلہ میں تین طلاق سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ مرد اپنی زوجہ کو ایک طلاق دے کر اس سے الگ رہے، رجعت نہ کرے، عدت پوری گزرجانے دے، عدت گذرجانے کے بعدوہ عورت اس سے فون پر بات کرلے تو اس طرح تعلیق ختم ہوجائے گی۔ پھر عورت سے نکاح جدید کرلے۔ فحیلۃ من علق الثلاث بدخول الدار ان یطلقھا واحدۃ ثم بعد المدۃ تدخلھا فتنحل الیمین فینکحھا۔ (شامی ج4ص609)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1045
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
It is allowable, but woman can only join in chatting not through audio or video calling.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1330/42-736
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Here are some basic rights of the Holy Quran. They are as follows:
Believing in the Holy Qur'an. Reciting the Holy Qur'an on a regular basis. Attentive listening to the holy Quran when it is recited. Understanding the Holy Quran. Practicing the Holy Qur'an. Preaching the Holy Quran.
عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن هذه القلوب تصدأ، كما يصدأ الحديد إذا أصابه الماء " قيل: يا رسول الله، وما جلاؤها؟ قال: " كثرة ذكر الموت وتلاوة القرآن " " (شعب الایمان۔ فصل فی ادمان تلاوۃ القرآن 3/392) وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا. قال الحسن: اقرأه قراءة، بيّنه تبيانا، وقيل: فصّله تفصيلا ولا تعجل في قراءته (تفسیرالثعلبی 10/60) ’وَلَقَدْ یَسَّرْنَاالْقُرْأٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ‘‘۔(القمر17) وعن عبيدة المليكي وكانت له صحبة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ( «يا أهل القرآن لا تتوسدوا القرآن واتلوه حق تلاوته من آناء الليل والنهار، وأفشوه وتغنوه وتدبروا ما فيه لعلكم تفلحون، ولا تعجلوا ثوابه فإن له ثوابا» ) رواه البيهقي في شعب الإيمان. (مرقاۃ المفاتیح، کتاب فضائل القرآن 4/1506، رقم 2210) عن عبد الله بن عمرو، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: بلغوا عني ولو آية۔ (صحیح البخاری، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل 4/170)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1641/43-1217
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ بہت اچھی بات ہے، نماز ہلکی ہی پڑھانی چاہئے البتہ مقتدیوں کی اتنی رعایت بھی ہونی چاہئے کہ وہ اپنی تسبیح اور التحیات وغیرہ پوری کرسکیں، اس لئے مناسب ہے کہ آپ رکوع و سجدہ کی تسبیح پانچ بار پڑھیں تاکہ مقتدیوں کی کم از کم تین تسبیحات پوری ہوسکیں۔ اسی طرح ہلکی نماز میں مسنون قراءت کا اہتمام فوت نہ ہونا چاہئے۔
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله - صلي الله عليه وسلم -: "إذا صلى أحدكم بالناس فليخفف، فإن فيهم الضعيف، والشيخ الكبير، وذا الحاجة". (مسند احمد، ابتداء مسند ابی ھریرۃ 7/391) (صحیح البخاری، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم 1/30) (صحیح مسلم، باب امر الائمۃ بتخفیف الصلوۃ فی اتمام 1/341) (سنن الترمذی، باب ماجاء اذا ام احدکم الناس فلیخفف 1/461)
(ويستحب أن يزيد على الثلاث) ش: أي ثلاث تسبيحات بأن يقول خمسا أو سبعا أو تسعا، وهي سنة عند أكثر العلماء الی قولہ: (وإن كان المصلي إماما لا يزيد على وجه يمل القوم حتى لا يؤدي إلى التنفير) ش: أي حتى لا يؤدي مجاوزته عن الثلاث إلى تنفير الجماعة، وعن سفيان: يقول الإمام خمسا حتى يمكن القوم من الثلاث. (البنایۃ شرح الھدایۃ، قول سبحان ربی الاعلی فی السجود 2/249)
وفي المنية: ويكره للإمام أن يعجلهم عن إكمال السنة. ونقل في الحلية عن عبد الله بن المبارك وإسحاق وإبراهيم والثوري أنه يستحب للإمام أن يسبح خمس تسبيحات ليدرك من خلفه الثلاث. اهـ. فعلى هذا إذا قصد إعانة الجائي فهو أفضل بعد أن لا يخطر بباله التودد إليه ولا الحياء منه ونحوه، ولهذا نقل في المعراج عن الجامع الأصغر أنه مأجور، - {وتعاونوا على البر والتقوى} [المائدة: 2] (شامی، فروع قرا بالفارسیۃ 1/495)
يكره تحريما (تطويل الصلاة) على القوم زائدا على قدر السنة في قراءة وأذكار رضي القوم أو لا لإطلاق الأمر بالتخفيف نهر وفي الشرنبلالية ظاهر حديث معاذ أنه لا يزيد على صلاة أضعفهم مطلقا. ولذا قال الكمال إلا لضرورة، وصح «أنه - عليه الصلاة والسلام - قرأ بالمعوذتين في الفجر حين سمع بكاء صبي» - - - - - - (قوله تحريما) أخذه في البحر من الأمر بالتخفيف في الحديث الآتي قال: وهو للوجوب إلا لصارف ولإدخال الضرر على الغير اهـ وجزم به في النهر (قوله زائدا على قدر السنة) عزاه في البحر إلى السراج والمضمرات. قال: وذكره في الفتح بحثا لا كما يتوهمه بعض الأئمة فيقرأ يسيرا في الفجر كغيرها اهـ (قوله لإطلاق الأمر بالتخفيف) وهو ما في الصحيحين «إذا صلى أحدكم للناس فليخفف، فإن فيهم الضعيف والسقيم والكبير، وإذا صلى لنفسه فليطول ما شاء» ، وقد تبع الشارح في ذلك صاحب البحر. واعترضه الشيخ إسماعيل بأن تعليل الأمر بما ذكر يفيد عدم الكراهة إذا رضي القوم: أي إذا كانوا محصورين. ويمكن حمل كلام البحر على غير المحصورين تأمل (قوله وفي الشرنبلالية إلخ) مقابل لقوله زائدا على قدر السنة. وحاصله أنه يقرأ بقدر حال القوم مطلقا: أي ولو دون القدر المسنون، وفيه نظر؛ أما أولا فلأنه مخالف للمنقول عن السراج والمضمرات كما مر؛ وأما ثانيا فلأن القدر المسنون لا يزيد على صلاة أضعفهم لأنه كان يفعله - صلى الله عليه وسلم - مع علمه بأنه يقتدي به الضعيف والسقيم ولا يتركه إلا وقت الضرورة؛ وأما ثالثا فلأن قراءة «معاذ لما شكاه قومه إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - وقال أفتان أنت يا معاذ» إنما كانت زائدة على القدر المسنون. قال الكمال في الفتح: وقد بحثنا أن التطويل: هو الزيادة على القراءة المسنونة، فإنه - صلى الله عليه وسلم - نهى عنه وقراءته هي المسنونة فلا بد من كون ما نهى عنه غير ما كان دأبه إلا لضرورة، وقراءة معاذ لما قال له - صلى الله عليه وسلم - ما قال كانت بالبقرة على ما في مسلم «أن معاذا افتتح بالبقرة فانحرف رجل فسلم ثم صلى وحده وانصرف» وقوله - صلى الله عليه وسلم - «إذا أممت بالناس فاقرأ بالشمس وضحاها - وسبح اسم ربك الأعلى - واقرأ باسم ربك - والليل إذا يغشى» - " لأنها كانت العشاء، وإن قوم معاذ كان العذر متحققا فيهم لا كسلا منهم فأمر فيهم بذلك لذلك، كما ذكر «أنه - صلى الله عليه وسلم - قرأ بالمعوذتين في الفجر، فلما فرغ قالوا له أوجزت، قال: سمعت بكاء صبي فخشيت أن تفتن أمه» اهـ ملخصا. فقد ظهر من كلامه أنه لا ينقص عن المسنون إلا لضرورة كقراءته بالمعوذتين لبكاء الصبي، وظهر من حديث معاذ أنه لا ينقص عن المسنون لضعف الجماعة لأنه لم يعين له دون المسنون في صلاة العشاء بل نهاه عن الزيادة عليه مع تحقق العذر في قومه، (الدر المختار مع رد المحتار، باب الامامۃ 1/564)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند