Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 1738/43-1432
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کی محبت، نیک تمنا اور کسی دعا کا اثر ہے، کہ خواب دیکھنے والی کو کوئی خوشی میسر آئے گی، کوئی رکا ہوا کام پورا ہوگا یا کوئی پریشانی دور ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1848/43-1665
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچہ حاصل کرنے کے لئے مذکورہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ علماء نے اس طریقہ تولید کو ناجائز کہا ہے۔ اس لئے اس سے اجتناب کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1939/43-1844
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرقرض کی ادائیگی میں وہی کرنسی دی جائے جو قرض میں لی گئی تھی، تو اس میں کمی زیادتی جائز نہیں ہے، لہذاجب 75 ریال قرض میں دئے گئے تھے تو ادائیگی میں بھی 75 ریال ہی دئے جائیں گے، اور اس میں اس کی ویلیو نہیں دیکھی جائے گی، اور اس سے زیادہ یا کم لینا جائز نہیں ہوگا، اور اگر دوسری کرنسی میں اس کی ادائیگی کرنی ہے تو آج کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔ لہذا 75 ریال کی ادائیگی اگر آج کررہاہے تو آج پاکستانی کرنسی میں 75 ریال کی جو قیمت ہوگی وہ ادا کرنی پڑے گی۔
"لما تقرر أن الديون تقضى بأمثالها لا أنفسها لأن الدين وصف في الذمة لا يمكن أداؤه، لكن إذا أدى المديون وجب له على الدائن مثله.")الدر مع الرد 6/525، کتاب الرھن، فصل في مسائل متفرقة، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 2245/44-2381
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Even if the payment is made without informing the owner, the payment will be valid. And hopefully the sin will be removed. However, you should say to the shopkeeper, “If I have done anything wrong with you accidentally, please forgive me”. So in this way you will get his pardon.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا رسم ورواج کے خاموشی کے ساتھ اگر کسی موقع پر اس قسم کا ہدیہ بوقت شادی لڑکے یا لڑکی کو دیا جائے تو مضائقہ نہیں ہے، جب کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ’’تہادوا تحابوا‘‘(۲) کہ ہدیہ دے کر محبت اور تعلقات بڑھاؤ؛ لیکن اگر ہدیہ کے طور پر نہیں؛ بلکہ بدلہ کے طور پر دیا، جیسا کہ آج کل شادی میں رواج بن چکا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔(۳)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’ في الأدب المفرد‘‘: ص: ۵۹۴۔
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۳) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص428
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کرام بہت سی احادیث کو بالمعنی روایت کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر تنقیح واستخراج مسائل ہیں، ان کا یہ وظیفہ یعنی بیان مسئلہ اول درجہ میں اور بیان احادیث دوسرے درجہ میں ہے، جب کہ محدثین کا مطمع نظر اول درجہ میں بیان حدیث من وعن اور بیان مسئلہ ثانوی درجہ میں ہوتا ہے؟ اسی تناظر میں بعض احادیث کو محدثین ’’لم أجدہ‘‘ وغیرہ فرماتے ہیں حالانکہ وہ معنوی اعتبار سے ثابت ہوتی ہیں، دیگر توجیہات بھی شراح ہدایہ نے لکھی ہیں رجوع کرلیا جائے۔(۱)
(۱) أئمتنا الحنفیۃ رضي اللّٰہ عنہم لما رأوا أحادیث النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مختلفۃ وآثار الصحابۃ رضوان اللّٰہ عنہم متعارضۃ تتبعوا مأخذ الشریعۃ من الکتاب والسنۃ، فوجدوا الشریعۃ علی صنفین: صنف ہي القواعد الکلیۃ المطردۃ والمنعکسۃ کقولہ تعالیٰ: {لا تزر وازرۃ وزر أخری} وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الخراج بالضمان: وصنف وردت في حوادث جزئیۃ وأسباب مختصۃ کأنہا بمنزلۃ الاستثناء من الکلیات۔ (عمیم الإحسان، قواعد الفقہ: ص: ۵)…فصل: تنبیہ: وہذا المبحث ینجر إلی روایۃ الحدیث ونقلہ بالمعنی، وفیہ اختلاف فالأکثرون علی أنہ جائز بمن ہو عالم بالعربیۃ و ما ہو في أسالیب الکلام وعارف بخواض التراکیب ومفہومات الخطاب لئلا یخطی بزیادۃ ونقصان وقیل جائز في مفردات الألفاظ دون المرکبات، وقیل: جائز لمن استحضر الفاظہ حتی یتمکن من التصرف فیہ، وقیل: جائز لمن یحفظ معاني الحدیث ونسي الفاظہا للضرورۃ في تحصیل الأحکام۔ (الشیخ عبد الحق الدہلوي، مقدمۃ علی مشکوٰۃ المصابیح: ص: ۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص154
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اہل السنۃ والجماعۃ اس جماعت کے لوگوں کو کہتے ہیں، جو پیغمبر اسلام، خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، خصوصاً خلفاء راشدین کے طریقے اور سنت کے مطیع اور فرماں بردار ہوں، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: ’’وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعین ملۃ کلہم في النار إلا ملۃ واحدۃ قالوا: من ہي یارسول اللّٰہ؟ قال: ما أنا علیہ وأصحابي‘‘ (۱) یعنی کتاب وسنت کی اتباع کرنے والا فرقہ نجات پانے والا ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ میں داخل ہے اور ’’کلہم في النار‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ بد اعتقادی کی بنا پر جہنم میں جائیں گے، پھر جن کا عقیدہ حد کفر تک نہ پہونچا ہو وہ اپنی سزا بھگت کر دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کردئیے جائیں گے، امت سے مراد مطلق اہل السنۃ والجماعۃ ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کا طریقہ وہ ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے، اہل بدعت وضلالت مراد نہیں ہیں، اور آج کے دور میں علماء دیوبند خود بھی پورے طور پر متبع سنت ہیں اور اس سنت رسول میں جو بدعت کی آمیزش لوگوں نے کردی ہے، اس کو الگ کرکے ختم کرنے والے عموماً علماء دیوبند ہیں؛ اس لئے کہا جاتا ہے کہ دیوبندی علماء اہل السنۃ والجماعت ہیں۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في افتراقِ ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص249
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2638/45-4014
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انسان اپنی زندگی میں اپنی جائداد پر مکمل اختیار رکھتاہے، وہ جس کو چاہے جتنا چاہے دے سکتاہے، البتہ اگر اپنے مرنے کے بعد دینے کی وصیت کرتاہے تو صرف تہائی مال میں وصیت نافذ ہوگی ۔ صورت مسئولہ میں آپ اپنی زندگی میں اپنے بھتیجے و بھتیجی کو جو دینا چاہیں دے سکتے ہیں یا ایک تہائی مال یا اس سے کم کی وصیت بھی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں دیدیں تو زیادہ بہتر ہے اور اگر وصیت کرنا چاہیں تو ایک وصیت نامہ تحریر کردیں جس میں متعینہ رقم دینے کی صراحت کے ساتھ وصیت درج ہو۔ اسی طرح کسی مدرسہ یا مسجد یا کسی دینی کام کے لئے وصیت کرنا ہو تو اس کی بھی وصیت مع متعینہ رقم کے وصیت نامہ میں درج کردیں۔
آپ کے انتقال اور تجہیزوتکفین و دین کی ادائیگی کے بعد سب سے پہلے آپ کے تہائی مال سے وصیت کردہ رقم اداکی جائے گی، پھر جو کچھ بچے گا وہ آپ کی بیوی وبچوں میں اگر ان کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں ہے تو اس طرح تقسیم ہوگا کہ بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ لڑکے کو دوہرے اور لڑکیوں کو اکہرے کے حساب سے تقسیم کیاجائے گا؛ یعنی وصیت کی رقم اداکرنے کے بعد باقی مال کو 32 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے چار حصے بیوی کو، چودہ حصے بیٹے کو اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ہاتھ کہنی سے نیچے کٹا ہے، تو کہنی تک تیمم کرنا ضروری ہے، اگر کہنی سے کٹا ہے، تو اس جگہ بھی تیمم ضروری ہے ورنہ نماز درست نہیں ہوگی، ہاں اگر کندھے کے پاس سے ہی ہاتھ کٹا ہوا ہو، تو پھر اس جگہ تیمم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’قلت: أرأیت رجلا مقطوع الیدین من المرفقین فأراد أن یتیمم ہل یمسح علی وجہہ ویمسح علی موضع القطع؟ قال: نعم، قلت: فإن مسح وجہہ وترک موضع القطع؟ قال: لا یجزیہ قلت: فإن صلی ہکذا أیاماً؟ قال: علیہ أن یمسح موضع القطع ویستقبل الصلاۃ، قلت: فإن کان القطع في الیدین من المنکب؟ قال: علیہ أن یمسح وجہہ ولیس علیہ أن یمسح موضع القطع الخ‘‘(۱)
(۱) الإمام محمد بن الحسن الشیباني، الأصل، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم بالصعید‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔ (بیروت: دارابن حزم، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص370
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس مسجد میں نماز باجماعت ہوتی ہے امام ،مؤذن وغیرہ مقرر ہیں اور جماعت وقت پر ہوتی ہے اس مسجد میں جماعت ہو جانے کے بعد مسجد یا چھت پر دوسری جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) کرہ تحریما (الوطء فوقہ، والبول والتغوط) لأنہ مسجد إلی عنان السماء۔ (قولہ الوطء فوقہ) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقہ بالقدم فغیر مکروہ إلا في الکعبۃ لغیر عذر، لقولہم بکراہۃ الصلاۃ فوقہا۔ ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید، کراہۃ الصعود علی سطح المسجد اہـ۔ ویلزمہ کراہۃ الصلاۃ أیضا فوقہ فلیتأمل (قولہ لأنہ مسجد) علۃ لکراہۃ ما ذکر فوقہ. قال الزیلعی: ولہذا یصح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ إذا لم یتقدم علی الإمام۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج۲، ص: ۴۲۸)
الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ، ولہذا إذا اشتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ، کذا فی الغرائب۔ (أیضاً)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 482