Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1646/43-1231
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ کے گھر میں صرف محرم ہیں ، کوئی غیرمحرم مرد نہیں ہے تو بَرا پہننا ضروری نہیں ہے، اسی طرح دوپٹہ رکھنا بھی ضروری نہیں ہے، البتہ کپڑا ڈھیلا ڈھالا ہونا چاہئے کہ سینہ کا ابھار واضح نہ ہو، اگر کپڑے تنگ ہیں تو کپڑا پہننے کے باوجود دوپٹہ لازمی طور پر رکھناچاہئے ۔ کیونکہ عورت کا سینہ موضع شہوت ہے، اس لئے سینہ کھلاہو، یا سینہ کی ہیئت معلوم ہو تو یہ شہوانی ہیجان کا باعث ہوسکتی ہے۔
یٰبَنِیْ آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْآتِکُمْ وَرِیْشًا (سورة الاعراف آیت۳۱۔ ) وبدن الحرة عورة إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا۔ (البحر الرائق: ۴۶۸/۱زکریا دیوبند) ینظر الرجل من محرمہ (ہی من لایحل لہ نکاحہا ابداً بنسب أو سبب) إلی الرأس والوجہ والصدر والساق والعضد إن امن شہوتہ وشہوتہا أیضاً وإلا لا، لاإلی الظہر والبطن والفخذ (الدر مع الرد: ۹/ ۵۲۶تا ۵۲۸، زکریا دیوبند) وأما في زماننا فمنع من الشابة قہستاني وغیرہ (۵۳۲، الدر مع الرد، زکریا) قال مشائخنا: تمنع المرأة الشابة من کشف وجہہا بین الرجال في زماننا للفتنة (بحر ۴۷۰/۱زکریا)۔
"إذا کان الثوب رقیقًا بحث یصف ماتحته أي لون البشرة لایحصل به سترة العورۃ (حلبی 214) "أَنه صَلَّی اللَّه علیه وَسَلَّم حذر أهله وَجَمِیع الْمُؤْمِنَات من لِبَاس رَقیق الثِّیاب الواصفة لأجسامهن بقوله: کم من کاسیة في الدنیا عاریة یوم القیامة، وفهم منه أن عقوبة لابسة ذلك أن تعری یوم القیامة".(عمدۃ القاری، باب ماکان النبي صلی الله علیه وسلم یتجوز من اللباس ، ج: ۲۲، ص: ۲۰، ط: دار إحیاء التراث العربي) "فکل لباس ینکشف معه جزء من عورة الرجل والمرأة لاتقره الشریعة الإسلامیة ..... وکذلك اللباس الرقیق أو اللا صق بالجسم الذي یحکي للناظر شکل حصة من الجسم الذي یجب ستره، فهو في حکم ماسبق في الحرمة وعدم الجواز" (تکملۃ فتح الملھم، کتاب اللباس والزینة 4/88)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1739/43-1433
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خواب میں قبر کس حالت میں دیکھی، اس کی وضاحت نہیں ہے۔ اپنے والد مرحوم کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کریں، اور ان کے متعلقین کے حقوق کی دائیگی کا خیال رکھیں، اور اگر پہلے سے ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں تو اس کو برابر جاری رکھیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1940/43-1845
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Your question is not clear enough to write an answer. Kindly explain how to use rings for protection from pregnancy etc. in detail!
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے مروجہ نذر ونیاز کرنا بدعت ہے اور یہ ناجائز امور میں سے ہے اس طرح کے کام سے بچنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
وہو أیضاً: بدعۃ لم یرد فیہ شیء بہ علی أن الناس إنما یفعلون ذلک تعظیماً لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فالعوام معذورون لذلک بخلاف الخواص۔ (أحمد بن محمد، الفتاوی الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۵۸)
وأعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الد المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
وأما النذر الذي ینذرہ أکثر العوام علی ما ہو مشاہد کأن یکون … لإنسان غائب أو مریض، أو لہ حاحۃ ضروریۃ فیأتي بعض الصلحاء فیجعل سترہ علی رأسہ … إلی… فہذا النذر باطل بالإجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: قبیل باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص334
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سہرے اور گجرے اور مالا یہ سبھی ہندوانہ اور کافرانہ رسمیں ہیں، جو بدعت اور باعث گناہ ہیں، ان سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا لازم ہے اور اس موقع پر جو ہدیہ دولہا کو دیا جاتا ہے وہ ان رسموں میں شامل ہے، شریعت کی نظر میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم والخیر؛ و قال الطیبي: ہذا عام في الخلق والخلق والشعار۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب اللباس‘‘: ج ۱۳، ص: ۹۶، رقم: ۴۳۴۷)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق والفجار فہو منہم أي في الإثم۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود: ج ۵، ص: ۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص429
اسلامی عقائد
Ref. No. 2467/45-3741
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فرضی کہانیاں یا اس طرح کے ناول جن کا مقصد اردو ادب کو عام کرنا ہے، اور جن کے اندر صرف فرضی باتیں ہوں، ان میں فحاشی،اسلامیات کا استہزاء، مخرب اخلاق اور عشقیہ مضامین شامل نہ ہوں تو ایسی کتابوں اور ناولوں کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ان کتابوں کے پڑھنے سے ادبی فائدہ حاصل ہوتاہے۔ لیکن عام طور پر ناولوں کے اندرجھوٹ، عشق اور بے حیائی کی باتیں ہوتی ہیں ، لوگ ان ناولوں میں لگ کر فرائض سے اور نماز ،روزہ وغیرہ سے غافل ہوکر اپنے قیمتی اوقات ضائع کردیتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی کتابوں کا پڑھنا ذہن اوراخلاق میں فساد کا سبب بنے گا، معاشرہ میں برائی پھیلے گی ، اس وجہ سے اس طرح کی کتابوں سے احتراز کرناچاہئے۔ اولیاء واکابر کے واقعات اور قصے کہانیوں پر مشتمل بہت ساری کتابیں بازار میں موجود ہیں ان کو پڑھنا چاہئے اور ان کو پھیلانا چاہئے تاکہ معاشرہ کی اصلاح میں ایک طرح کی معاونت ہوسکے۔
قال اللہ تعالی:إن الذین یحبون أن تشیع الفاحشة فی الذین آمنوا لھم عذاب ألیم فی الدنیا والآخرة،واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون (سورہ نور، آیت:۱۹)، وقال أیضاً في مقام آخر:ومن الناس من یشتري لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم الآیة(سورہ لقمان، آیت:۶)، وقال التھانوي في أحکام القرآن (۳: ۲۰۰، ۲۰۱):وفذلکة الکلام أن اللھو علی أنواع؛ لھو مجرد، ولھو فیہ نفع وفائدة ولکن ورد الشرع بالنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد فی الشرع نھي صریح عنہ ولکنہ ثبت بالتجربة أنہ یکون ضررہ أعظم من نفعہ ملتحق بالمنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولم یغلب علی نفعہ ضررہ ولکن یشتغل فیہ بقصد التلھي،ولھو فیہ فائدة مقصودة ولم یرد الشرع بتحریمہ ولیس فیہ مفسدة دینیة واشتغل بہ علی غرض صحیح لتحصیل الفائدة المطوبة لا بقصد التلھي، فھذہ خمسة أنواع، لا جائز فیھا إلا الأخیر الخامس فھو أیضاً لیس من إباحة اللھو في شییٴ؛بل إباحة ما کان لھواً صورة ثم خرج عن اللھویة بقصد صالح وغرض صحیح فلم یبق لھوا اھ
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حنفی کے لئے ضروری یہ ہے کہ اپنے مسلک ہی کے مطابق فتویٰ دے، ایسے ہی شافعی اور مالکی حنبلی مفتیوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اپنے مسلک ہی کے مطابق فتویٰ دیں، ہر مسلک والے کو اپنے مسلک والے مفتی کے فتوے پر عمل کرنا چاہئے، دوسرے کے نہیں۔(۱)
(۱) أن الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل وخرق للإجماع وأن الحکم الملفق باطل بالإجماع۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۷۴)
وکذا في الموسوعۃ الفقیۃ الکویتیہ: ج ۱۳، ص: ۲۹۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص155
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تیمم میں اعضائے تیمم پر غبار آلود ہاتھ پھیرنا فرض ہے اعضائے تیمم پر غبار کا نظر آنا نہ ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب؛ کیونکہ مٹی کو ضرورتاً پانی کا بدل قرار دیا ہے؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ مٹی پر ہاتھ مارنے کے بعد پھونک مارتے تھے تاکہ اعضاء پر غبار نظر نہ آئے اور اگر عضو کا کوئی حصہ چھوٹ جائے، تو اس حصہ پر ہاتھ پھیر دے تیسری ضرب کی الگ سے کوئی ضرورت نہیں ہے۔
’’عن عمار بن یاسر قال قام المسلمون فضربوا باکفہم التراب ولم یقبضوا من التراب شیئاً‘‘(۲)
’’وضرب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیدہ إلی الأرض ثم نفخ فیہا ومسح بہا وجہہ وکفیہ الخ‘‘ (۱)
’’ثم عندہما أي عند أبي حنیفۃ ومحمد الشرط في صحۃ التیمم مجرد المس … ولا یشترطان علوق شيء منہما‘‘(۲)
’’وأما رکنہ ضربتان ضربۃ للوجہ وضربۃ للذراعین‘‘ (۳)
’’أما رکنہ قال اصحابنا ہو ضربتان‘‘ (۴)
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۴۵، رقم: ۳۱۹(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۴۶، رقم: ۳۲۴۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في التیمم‘‘: ج۱،ص: ۶۷۔
(۳) إبراھیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في التیمم‘‘ ج۱، ص۶۷۰
(۴) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في التیمم، أرکان التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص371
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کی مقررہ جماعت چھوٹ جانے کے بعد مسجد کے برابر والی خارج از مسجد سہ دری میں اتفاقاً دوسری جماعت کرنابلاشبہ جائز ہے؛ البتہ دوسری جماعت کا ثواب پہلی جماعت سے کم ہوگا؛ لیکن جماعت کا ثواب ضرور ملے گا۔(۱)
(۱) لو دخل جماعۃ المسجد بعد ما صلی فیہ أہلہ یصلون وحداناً وہو ظاہر الروایۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار،’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۸۹)
قال قاضی خان في شرح الجامع الصغیر: رجل دخل مسجدا قد صلی فیہ أہلہ فإنہ یصلي بغیر أذان وإقامۃ وہکذا روي عن أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إنہم إذا فاتتہم الجماعۃ صلوا وحداناً وعن أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالیٰ إنما یکرہ تکرار الجماعۃ إذا أکثر القوم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج ۵،ص: ۳۱۹)
ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ، وإذا علموا أنہا لا تفوتہم یتأخرون فتقل الجماعۃ وتقلیل الجماعۃ مکروہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ‘‘ : ج ۱، ص: ۳۸۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 483
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: افضل اور بہتر تو یہی ہے کہ بلا ضرورت آلۂ مکبر الصوت استعمال نہ کریں؛ لیکن اگر واقعی ضرورت ہو، مسجد بھی بڑی ہو اور محلہ بھی بڑا ہو نمازی بھی زیادہ ہوں اور مکبروں کے تکبیر کہنے میں تکلیف ہوتی ہو یا اس کا انتظام نہ ہو سکتا ہو تو اس صورت میں اس کے استعمال سے نماز میں کوئی نقص نہیں آئے گا۔(۱)
(۱) وینبغي أن یؤذن علی المئذنۃ أو خارج المسجد، ولا یؤذن في المسجد … والسنۃ أن یؤذن في موضع عالٍ یکون أسمع بجیرانہ ویرفع صوتہ ولا یجہد نفسہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الثاني: في کلمات الأذان … والإقامۃ وکیفیتہما،ج ۱، ص: ۱۱۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ولأن الأوقات إعلام في حق الخواص والأذان إعلام في حق العوام۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:الباب الثاني: في الأذان‘‘: ص: ۱۹۱، ۱۹۲، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
أنہ یجب یعني یلزم الجہر بالأذان لإعلام الناس۔ فلو أذن لنفسہ خافت لأنہ الأصل في الشرع کما في کشف المنار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الجوق‘‘: ج۱، ص: ۳۹۰)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص131