Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1241/42-735
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سنتوں میں اصل یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے قطع نظر اس سے کہ وہ سنت مؤکدہ ہے یا غیرمؤکدہ۔تاہم کتابوں میں سنن سے عام طور پر سنن مؤکدہ مراد ہوتی ہیں، اور جو غیرمؤکدہ ہیں ان کو مستحبات ، آداب وغیرہ الفاظ سے تعبیر کیاجاتاہے۔ ھذا ماظہر لی
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1361/42-759
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
‘Rajaba’ (with the Fat;ha of Baa) is correct. You should recite: Allahumma baarik lana fi Rajaba wa Sha’bana wa balligh-na Ramadan.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1487/42-944
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نمازی کو چھینکنے پر الحمد للہ یا کسی کو یرحمک اللہ نہیں کہنا چاہئے بلکہ خاموش رہنا چاہئے۔تاہم اگر چھینکے والے نے الحمدللہ کہہ دیایا اپنے لئے یرحمک اللہ کہہ دیا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ لیکن اگر کسی نے جواب میں یرحمک اللہ کہا تو جواب دینے والے کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ اسی طرح کسی نے یرحمک اللہ کہنے پر آمین کہہ دیا تو اس کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔
رجل عطس فقال المصلي: يرحمك الله تفسد صلاته. كذا في المحيطين ولو قال العاطس يرحمك الله وخاطب نفسه لا يضره. كذا في الخلاصة۔ ولو عطس في الصلاة فقال: آخر يرحمك الله فقال المصلي: آمين تفسد. كذا في منية المصلي وهكذا في المحيط. ولو عطس فقال له المصلي الحمد لله لا تفسد؛ لأنه ليس بجواب وإن أراد به جوابه أو استفهامه فالصحيح أنها تفسد هكذا في التمرتاشي ولو قال العاطس لا تفسد صلاته وينبغي أن يقول في نفسه والأحسن هو السكوت. كذا في الخلاصة فإن لم يحمد فهل يحمد إذا فرغ؟ فالصحيح أنه يحمد فإن كان مقتديا لا يحمد سرا ولا علنا في قولهم. كذا في التمرتاشي. رجلان يصليان فعطس أحدهما فقال رجل خارج الصلاة: يرحمك الله فقالا جميعا: آمين تفسد صلاة العاطس ولا تفسد صلاة الآخر لأنه لم يدع له. (الھندیۃ، الفصل الاول فیما یفسدھا 1/98) ج1 ص157 زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1665/43-1385
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمہور کا مسلک یہ کہ ہے اگر کسی نے محرم سے نکاح کیا اور صحبت کی جبکہ اس کو اس کے حرام ہونے کا علم تھا تو اس پر حد زنا جاری ہوگی، اور بچہ اسی کی جانب منسوب ہوگا۔ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس کے لئے تعزیر ہےجو حاکم کی صوابدید پر ہے اور یہ تعزیری سزا شرعی حد سے بھی سخت ہوسکتی ہے۔ لیکن حدود وتعزیر وغیرہ احکام وہاں جاری ہوتے ہیں جہاں اسلامی حکومت ہو۔
من استحل ما حرمہ اللہ علی وجہ الظن لایکفر وانما یکفر اذا اعتقد الحرام حلالا، لا اذا ظنہ حلالا، الاتری انھم قالوا فی نکاح المحرم لوظن الحل فان لا یحد بالاجماع و یعزر کمافی الظھیرۃ (البحرالرائق، زین الدین ابن نجیم الحنفی 5/17)۔ کتاب الفقہ اردو، محارم سے نکاح کا بیان 5/114 ادارہ تعلیمات اسلام دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2073/44-2069
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مالی پریشانی ہے تو خارج اوقات میں آمدنی کے لئے کوئی کام کرسکتے ہیں ۔ عصر سے مغرب کے درمیان کا وقت عام طور پر فارغ رہتاہے، کوئی معمولی سی تجارت بھی کرسکتے ہیں۔ البتہ اس کا نظام بنالینا ضروری ہے تاکہ ہرکام اپنے مقررہ وقت میں انجام پائے اور اصل مقصد میں خلل پیدا نہ ہو۔ اور دیگر مشکلات کے حل کے لئے اللہ تعالی سے دعا کریں اور 'رب زدنی علما' کا کثرت سے ورد رکھیں۔ صبح و شام تسبیحات کا معمول بنائیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’قال في رد المحتار: قال في الحلیۃ: ویکرہ أن یوضع تحت المیت في القبر مضربۃ أو مخدۃ أو حصیر أونحو ذلک۔ ولذا عبر بلا یجوز‘‘(۱) مذکورہ بالا عبارت سے یہ مسئلہ واضح ہوگیا کہ قبر میں میت کے ساتھ کسی چیز کا رکھنا ناجائز اور مکروہ تحریمی ہے۔ ان رسومات سے بچنا ہر مسلمان کے لئے لازم اور ضروری ہے۔(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۹۱۔
(۲) وکرہ أن یکون تحت رأس المیت في القبر مخدۃ ونحوہا، ہکذا ذکرہ ’’المرغیناني‘‘ وکرہ ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن یلقی تحت المیت شیء في قبرہ۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الجنائز: کیفیۃ الدفن‘‘: ج ۳، ص: ۲۹۵)
قال الترمذي: وقد روي ابن عباس أنہ کرہ أن یلقی تحت المیت في القبر شیء وإلی ہذا ذہب بعض أہل علم، قال الباني: صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: الثوب الواحد یلقی تحت المیت في القبر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳، رقم: ۱۰۴۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص364
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2379/44-3604
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں اصل مسجد ہے، اور اسی کے زیر انتظام مکتب ہے، مکتب ذیلی ہے، مسجد اور ذیلی مکتب میں زکوٰۃ کی رقم تملیک کے بعد بھی لگانی درست نہیں ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ: (کتاب الزکاۃ، 188/1، ط: رشیدیہ)
لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".
(الدر المختار: (291/3، ط: زکریا)
ویُشْتَرَطُ أنْ یَکُوْنَ الصَّرْفُ تَمْلِیْکاً لَا ابَاحَةً ... فَلَا یَکْفِيْ فِیْہا الْاطْعَامُ الاّ بِطَرِیْقِ التَّمْلِیْکِ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) احادیث مبارکہ میں ستر کا عدد میری نگاہ سے نہیں گزرا، ہاں حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کل رحمت کا ایک حصہ مخلوق میں تقسیم کیا اور ننانوے حصے اپنے پاس رکھے، مخلوق جو ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے، وہ اسی ایک حصے کی وجہ سے ہے، یہاں تک کہ گھوڑا جو اپنے بچے کو تکلیف پہنچنے کے ڈر سے اس کے اوپر سے اپنا کھر اٹھائے وہ بھی اسی ایک حصے سے ہے۔
’’جعل اللّٰہ الرّحمۃ مائۃ جزء، فأمسک عندہ تسعۃ وتسعین جزأً، وأنزل في الأرض جزئا واحدا، فمن ذلک الجزء یتراحم الخلق، حتی ترفع الفرس حافرہا عن ولدہا، خشیۃ أن تصیبہ‘‘(۱)
اسی طرح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جتنا ایک عورت اپنے بچے پر مہربان ہوتی ہے اس سے زیادہ اللہ اپنے بندے پرمہربان ہوتاہے؛ چنانچہ روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے، قیدیوں میں ایک عورت بھی تھی، جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھا اور وہ دوڑ رہی تھی، اتنے میں ایک بچہ ا سکو قیدیوں میں ملا، اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگایا اور اس کو دودھ پلانے لگی، ہم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ کیا تم خیال کرسکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میںڈال سکتی ہے؟ ہم نے عرض کیا: کہ نہیں، جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے، جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے۔
’’عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: قدم علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سبي، فإذا امرأۃ من السبي قد تحلب ثدیہا تسقي، إذا وجدت صبیا في السبي أخذتہ، فألصقتہ ببطنہا وأرضعتہ، فقال لنا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أترون ہذہ طارحۃ ولدہا في النار قلنا: لا، وہي تقدر علی أن لا تطرحہ، فقال: اللّٰہ أرحم بعبادہ من ہذہ بولدہا‘‘(۱)
(۲) ناخن کاٹنے کا کوئی طریقہ احادیث سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے بعض حضرات کی رائے ہے کہ جس طرح مناسب سمجھے ناخن کاٹ سکتا ہے؛ البتہ امام غزالی نے اسی طرح فتاوی عالمگیری میں اور ملا علی قاری نے مرقات شرح مشکوٰۃ میں ایک مستحب طریقہ لکھا ہے، وہ یہ کہ پہلے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کرے، پھر وسطی پھر بنصر اور خنصر کو کاٹے، اس کے بعد بائیں ہاتھ میں چھوٹی انگلی سے کاٹتا ہوا آئے اور موٹی انگلی پر ختم کرے، اس کے بعد داہنے ہاتھ کی موٹی انگلی کے ناخن کو کاٹے، اس طرح ابتداء اور انتہاء دونوں داہنے سے ہوجائے گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے پہلے داہنے ہاتھ کے مکمل ناخون مکمل کاٹ لے، پھر بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے کاٹے، پاؤں میں بھی اسی دوسری ترتیب کو ملحوظ رکھے۔
’’وفي شرح الغزاویۃ روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدأ بمسبحتہ الیمنی إلی الخنصر ثم بخنصر الیسری إلی الإبہام وختم بإبہام الیمنیٰ وذکر لہ الغزالي في الإحیاء وجہا وجیہا ولم یثبت في أصابع الرجل نقل، والأولی تقلیمہا کتخلیلہا۔ قلت: وفي المواہب اللدنیۃ قال الحافظ ابن حجر: إنہ یستحب کیفما احتاج إلیہ ولم یثبت في کیفیتہ شیء۔ وفي الشامي۔ وفي شرح الغزاویۃ روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدأ بمسبحتہ الیمنی إلی الخنصر ثم بخنصر الیسری إلی الإبہام وختم بإبہام الیمنی وذکر لہ الغزالي في الإحیاء وجہا وجیہا ولم یثبت في أصابع الرجل نقل، والأولی تقلیمہا کتخلیلہا۔ قلت: وفي المواہب اللدنیۃ قال الحافظ ابن حجر: إنہ یستحب کیفما احتاج إلیہ ولم یثبت في کیفیتہ شيء‘‘ (۱)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب جعل اللّٰہ الرحمۃ مأۃ جزء‘‘: ج ۲، ص: ۸۸۹، رقم: ۶۰۰۰۔
(۱) ’’أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الأدب، ج ۲، ص:۸۸۹، رقم: ۵۹۹۹۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۳۰۶۔
(۲) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص93
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہماری معلومات کے مطابق غالی شیعہ اثنا عشریہ کی معتبر کتابوں میں جو ان کے عقائد مذکور ہیں ان کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں، ان کی لڑکیوں سے نکاح وغیرہ سے گریز لازم ہے۔(۱)
(۱) یجب إکفار الروافض في قولہم برجعۃ الأموات إلی الدنیا وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإلٰہ إلی الأئمۃ وبقولہم في خروج إمام باطن وہؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الإسلام۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص283
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاء حاجت کی جگہ شیطان کا بسیرا ہوتا ہے اور دعا پڑھ کر بیت الخلاء جانے سے آدمی شیطان کے وساوس سے محفوظ رہتا ہے؛ اس لیے اگر گھر میں اٹیچ بیت الخلاء ہو، تو بیت الخلاء میں شیطان کا بسیرا ہوسکتا ہے، لیکن اس کا اثر گھر پر نہیں پڑتا ہے اور جولوگ بیت الخلاء دعا پڑھ کر جاتے ہیں، وہ بھی شیطانی وساوس سے محفوظ رہتے ہیں۔
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن ہذہ الحشوش محتضرۃ، فإذا دخلہا أحدکم فلیقل: أللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث)۔ فأخبر في ہذا الحدیث أن الحشوش مواطن للشیاطین، فلذلک أمر بالاستعاذۃ عند دخولہا، (۱) ومن ہذا قول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن ہذہ الحشوش محتضرۃ أي: یصاب الناس فیہا وقد قیل إن ہذا أیضا قول اللّٰہ عز وجل {کُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ ہ۲۸}(۲) أي: یصیب منہ صاحبہ۔
مالک عن یحیي بن سعید أنہ قال أسری برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرأی عفریتا من الجن یطلبہ بشعلۃ من نار کلما التفت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رآہ فقال لہ جبریل أفلا أعلمک کلمات تقولہن إذا قلتہن طفئت شعلتہ وخر لفیہ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلی فقال جبریل: فقل أعوذ بوجہ اللّٰہ الکریم وبکلمات اللّٰہ التامات اللاتي لا یجاوزہن بر ولا فاجر من شر ما ینزل من السماء وشر ما یعرج فیہا وشر ما ذرأ في الأرض وشر ما یخرج منہا ومن فتن اللیل والنہار ومن طوارق اللیل والنہار إلا طارقا یطرق بخیر یا رحمن۔ (۳)
(۲) روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان گھر میںداخل ہوتے وقت دعا پڑھ لیتا ہے، تو اللہ تعالی کے ضمان میں آجاتا ہے اور شیطان کہتا ہے کہ اب میں تمہارے ساتھ رات نہیں گزار سکتا لیکن جب آدمی بغیر دعا کے گھر میں داخل ہوتا ہے، تو شیطان کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ رات گزاروں گا؛ اس لیے گھر میں داخل ہوتے وقت دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
’’عن أبي أمامۃ الباہلي، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلاثۃ کلہم ضامن علی اللّٰہ عز وجل: رجل خرج غازیا في سبیل اللّٰہ عز وجل فہو ضامن علی اللّٰہ عز وجل حتی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل راح إلی المسجد فہو ضامن علی اللّٰہ تعالی حتَّی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل دخل بیتہ بسلام فہو ضامن علی
اللّٰہ سبحانہ وتعالی حدیث حسن،(۱) ورواہ آخرون۔ ومعنی ضامن علی اللّٰہ تعالی: أي صاحب ضمان، والضمان: الرعایۃ للشیئ، کما یقال: تَامِرٌ، ولاَبنٌ: أي صاحب تمر ولبن۔ فمعناہ: أنہ في رعایۃ اللّٰہ تعالی، وما أجزل ہذہ العطیۃ، اللہمَّ ارزقناہا۔
وروینا عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہما قال: سمعت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا دخل الرجل بیتہ فذکر اللّٰہ تعالی عند دخولہ وعند طعامہ قال الشّیطان: لا مبیت لکم ولا عشاء، وإذا دخل فلم یذکر اللّٰہ تعالی عند دخولہ، قال الشیطان: أدرکتم المبیت، وإذا لم یذکر اللّٰہ تعالی عند طعامہ قال: أدرکتم المبیت والعشاء۔ (۲)
(۳) بیت الخلاء کے لٹکے کپڑے یا وہاں گرے خواتین کے با لوں پرشیطان کا جادو کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جو لوگ اس طرح کا عمل کراتے ہیں وہ اس طرح کی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں اس لیے بہتر ہے کہ بال وغیرہ کو محفوظ مقام پر دفن کردیا جائے لیکن شیطان کا ان بالوں پر تصرف کرنا کوئی ضروری نہیں ہے اس لیے کہ شیطان، جنات اس کے بغیر بھی تصرف پر قادر ہوتے ہیں۔
(۴) میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی اگر رہتی ہے تو ضروری نہیں کہ یہ جادو ہی کا اثر ہو۔ گھر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی منزل اسی طرح معوذتین اور سورہ بقرہ کا اہتمام کریں اگر جادو وغیرہ کا کوئی اثر ہوگا تو زائل ہوجائے گااور اگر اس کے بعد بھی نااتفاقی ختم نہ تو بہتر ہوگا کہ دونوں خاندانوں کے بزرگوں کے سامنے مسئلہ کو پیش کیا جائے وہ حضرات طرفین کی بات کو سن کر جو فیصلہ کریں اس پر دونوں حضرات عمل کریں انشاء اللہ نااتفاقی ختم ہوجائے گی۔
(۱) ابن بطال شرح صحیح البخاري لابن بطال: ج ۱۰، ص: ۹۰۔
(۲) سورۃ القمر: ۲۸۔ (۳) ابن عبد البر، الاستذکار: ج ۸، ص: ۴۴۳۔
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجہاد: باب فضل الغزو‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۷، رقم: ۱۱۳۲۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ۔ ’’کتاب الأذکار للنووي‘‘: ج ، ص: ۲۴، رقم: ۱۳۱۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص381