نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک دن کی چھ نمازوں کا کفارہ ادا کیا جائے گا،ایک نماز کا فدیہ ایک کلو ۶۳۳؍ گرام گندم ہے اور چھ نمازوں کا تقریباً دس کلو گندم ہوتا ہے یہ ہی ادا کیا جائے۔(۱)

(۱) ولا یصح أن یصلي أحد عنہ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یصوم أحد من أحد ولا یصلي أحد من أحد ولک یطعم عنہ۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في إسقاط الصلاۃ والصوم‘‘: ص: ۴۳۹)

لو مات وعلیہ صلوات فائتۃ وأوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: إسقاط الصلاۃ عن المیت‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۲)

کے ایک ثلث میں سے نمازوں کا فدیہ ادا کیا جائے اور اگر ایک ثلث مال سے فدیہ بڑھ جائے، تو پھر وارثوں کو اختیار ہے کہ زائد مقدار ادا کریں یا نہ کریں۔(۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 195

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک نماز کا کفارہ صدقۃ الفطر کے بقدر ایک کلو ۶۳۳؍ گرام گندم ہے، ایک دن کی چھ نمازوں کا کفارہ ادا کیا جائے کیوں کہ وتر مستقل نماز شمار کی جائے گی، اس حساب سے گیارہ دن کی نمازوں کا کفارہ ادا کردیا جائے، اگر قیمت ادا کرنا ہو تو کل گندم کی قیمت ادا کی جائے گی بازاری بھاؤ کے اعتبار سے۔ یہ فدیہ فقراء وغرباء کو دیا جائے۔(۱)

(۱) لو مات وعلیہ صلوات فائتۃ وأوصی بالکفارۃ یعطی صلاۃ نصف صاع من بر کالفطر، وکذا حکم الوتر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: إسقاط الصلاۃ عن المیت‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۲)والصحیح أن لکل صلاۃ فدیۃ ہي نصف صاع من بر أو دقیقہ أو سویقہ أو صاع تمر أو زبیب أو شعیر أو قیمتہ وہي أفضل لتنوع حاجات الفقیر وإن لم یوص وتبرع عنہ ولیہ أو…أجنبي جاز إن شاء اللّٰہ تعالٰی۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في إسقاط الصلاۃ والصوم‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 195

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک نماز کا کفارہ انگریزی تول سے پونے دو سیر گندم ہے۔ دن رات کی نمازوں کا کفارہ ایک دن کا تقریباً دس کلوگندم ہوگا (چھ نمازیں ہیں وتر کے ساتھ)

’’ولو مات وعلیہ صلاۃ فائتۃ وأوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر کالفطرۃ وکذا حکم الوتر والصوم‘‘(۱)

پس ایک دن کی نماز کا کفارہ دس سیر گندم ہوئے، دینے والے کو اختیار ہے کہ اس کی قیمت دے یا گندم دے لیکن نقد روپیہ دینا بہتر ہے کیوں کہ اس میں غریبوں کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔

ایک ماہ کا کفارہ تین کونٹل اور تین ماہ کی نمازوں کا کفارہ نو کونٹل ہوئے، گندم دے یا اس کی قیمت ادا کردے تب بھی کفارہ ادا ہوجائے گا۔ حاصل یہ ہے کہ ایک نماز یا ایک روزے کے بدلہ ایک صدقۃ الفطر کی مقدار دیا ہے۔

(۱) الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: إسقاط الصلاۃ عن المیت‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۲۔والصحیح أن لکل صلاۃ فدیۃ ہي نصف صاع من بر أو دقیقہ أو سویقہ أو صاع تمر أو زبیب أو شعیر أو قیمتہ وہي أفضل لتنوع حاجات الفقیر وإن لم یوص وتبرع عنہ ولیہ أو أجنبي جاز إن شاء اللّٰہ تعالٰی۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في إسقاط الصلاۃ والصوم‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸)والصحیح أن لکل صلاۃ فدیۃ ہي نصف صاع من بر أو دقیقہ أو سویقہ أو صاع تمر أو زبیب أو شعیر أو قیمتہ وہي أفضل لتنوع حاجات الفقیر وإن لم یوص وتبرع عنہ ولیہ أو أجنبي جاز إن شاء اللّٰہ تعالٰی۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في إسقاط الصلاۃ والصوم‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 193

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مرحومہ نے چوں کہ اپنی نمازوں اور روزوں کے لیے کفارہ کی وصیت نہیں کی اس لیے اس کے وارثین پر مرحومہ کے ترکہ سے نماز، روزوں کا فدیہ ادا کرنا واجب نہیں، تاہم اگر بالغ وارثین اپنے حصہ کے پیسہ سے کفارہ ادا کرنا چاہیں تو ادا کر سکتے ہیں۔(۱)

(۱) وأشار بالتبرع إلی أن ذلک لیس بواجب علی الولي۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: إسقاط الصلاۃ عن المیت‘‘: ج ۵۳۲، ۵۳۴)

وفي فتاوی الحجۃ: وإن لم یوص لورثتہ وتبرع بعض الورثۃ یجوز ویدفع عن کل صلاۃ نصف صاع حنطۃ منوین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر: في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۴)

والصحیح أن لکل صلاۃ فدیۃ ہي نصف صاع من بر أو دقیقہ أو سویقہ أو صاع تمر أو زبیب أو شعیر أو قیمتہ وہي أفضل لتنوع حاجات الفقیر وإن لم یوص وتبرع عنہ ولیہ أو أجنبي جاز إن شاء اللّٰہ تعالٰی۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في إسقاط الصلاۃ والصوم‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 193

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز وروزوں کے فدیہ کی اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو اور مال نہ چھوڑا ہو پھر بھی ورثہ ادا کردیں تو یہ تبرع اور احسان عظیم ہے اور امید ہے کہ فدیہ ادا ہو جائے گا۔

’’ولو مات وعلیہ صلاۃ فائتۃ وأوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من برکالفطرۃ وکذا حکم الوتر والصوم وإنما یعطی من ثلث مالہ قولہ ولم لم یترک مالاً، زاد في الإمداد أولم یوص بشی وأراد الولی التبرع الخ وأشار بالتبرع إلی أن ذلک لیس بواجب علی الولی‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في إسقاط الصلوٰۃ عن المیت‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۲۔إذا مات الرجل وعلیہ صلوات فائتۃ فأوصی بأن تعطی کفارۃ صلواتہ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر: في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۴)والصحیح أن لکل صلاۃ فدیۃ ہي نصف صاع من بر أو دقیقہ أو سویقہ أو صاع تمر أو زبیب أو شعیر أو قیمتہ وہي أفضل لتنوع حاجات الفقیر وإن لم یوص وتبرع عنہ ولیہ أو أجنبي جاز إن شاء اللّٰہ تعالٰی۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في إسقاط الصلاۃ والصوم‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 192

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے متعلق فقہاء نے وضاحت کی ہے کہ اگر اشارے سے بھی نماز پڑھ سکتا ہے تو فدیہ دینا درست و کافی نہیں ہے۔ بوقت موت جب بالکل ناامید ہوجائے تو وصیت کرے اگر میت نے مال چھوڑا ہو تو اس کے ثلث سے اس کی وصیت کو پورا کرنا ورثاء پر لازم ہے صورت مسئولہ میں سابق نمازوں کا حساب کرکے فدیہ دینے کی گنجائش ہے؛ لیکن فدیہ دیدینا ہی کافی نہیں ہے حتی الامکان نمازیں ادا کرے اور قدرت ہوجائے تو سب ادا کرے جو نمازیں مرنے تک ادا نہ ہوں ان کی طرف سے دیا ہوا فدیہ فدیہ سمجھا جائے گا اور امید ہے کہ مواخذہ سے بری ہوجائے گا۔(۱)

(۱) لو مات وعلیہ صلوات فائتۃ وأوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في إسقاط الصلاۃ عن المیت‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۲)

إذا مات الرجل وعلیہ صلوات فائتۃ فأوصی بأن تعطی کفارۃ صلواتہ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر: في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۴)

والصحیح أن لکل صلاۃ فدیۃ ہي نصف صاع من بر أو دقیقہ أو سویقہ أو صاع تمر أو زبیب أو شعیر أو قیمتہ وہي أفضل لتنوع حاجات الفقیر وإن لم یوص وتبرع عنہ ولیہ أو أجنبي جاز إن شاء اللّٰہ تعالٰی۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في إسقاط الصلاۃ والصوم‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 191

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اختیار ہے کہ مقدار کے مطابق گندم دیدے یا اس کی قیمت ادا کردے یا اس کی قیمت کے برابر دوسرا غلہ دیدے۔(۱)

(۱) لو مات وعلیہ صلوات فائتۃ وأوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في إسقاط الصلاۃ عن المیت‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۲)

إذا مات الرجل وعلیہ صلوات فائتۃ فأوصی بأن تعطی کفارۃ صلواتہ یعطی لکل صلاۃ نصف صاع من بر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر: في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۴)

والصحیح أن لکل صلاۃ فدیۃ ہي نصف صاع من بر أو دقیقہ أو سویقہ أو صاع تمر أو زبیب أو شعیر أو قیمتہ وہي أفضل لتنوع حاجات الفقیر وإن لم یوص وتبرع عنہ ولیہ أو أجنبي جاز إن شاء اللّٰہ تعالٰی۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في إسقاط الصلاۃ والصوم‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 190

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سفر میںبھی کوشش کی جائے کی نماز قضا نہ ہو ٹرین وغیرہ میں بھی حتی الامکان نماز پڑھنے کی کوشش کرے، لیکن اگر کسی وجہ سے نمازیں قضا ہوجائیں تو جس طرح اس نماز کی ادا واجب ہوئی تھی اسی طرح اس کی قضا کی جائے گی یعنی سفر میں ہونے کی وجہ سے وہ نماز قصر کے ساتھ واجب ہوئی تھی اس لیے قضا بھی قصر کے ساتھ ہی کی جائے گی۔

’’(والمعتبر في تغییر الفرض آخر الوقت) وہو قدر ما یسع التحریمۃ (فإن کان) المکلف (في آخرہ مسافراً وجب رکعتان وإلا فأربع)؛ لأنہ المعتبر في السببیۃ عند عدم الأداء قبلہ۔ قولہ: (والمعتبر في تغییر الفرض) أي من قصر إلی إتمام وبالعکس (قولہ: وہو) أي آخر الوقت قدر ما یسع التحریمۃ، کذا في الشرنبلالیۃ والبحر والنہر، والذي في شرح المنیۃ تفسیرہ بما لایبقی منہ قدر ما یسع التحریمۃ وعند زفر بما لایسع فیہ أداء الصلاۃ (قولہ: وجب رکعتان) أي وإن کان في أولہ مقیماً وقولہ: وإلا فأربع أي وإن لم یکن في آخرہ مسافراً بأن کان مقیماً في آخرہ فالواجب أربع۔ قال في النہر: وعلی ہذا قالوا: لو صلی الظہر أربعاً ثم سافر أي في الوقت فصلی العصر رکعتین ثم رجع إلی منزلہ لحاجۃ فتبین أنہ صلاہما بلا وضوء صلی الظہر رکعتین والعصر أربعاً؛ لأنہ کان مسافراً في آخر وقت الظہر ومقیماً في العصر (قولہ: لأنہ) أي آخر الوقت۔ (قولہ: عند عدم الأداء قبلہ) أي قبل الآخر۔ والحاصل: أن السبب ہو الجزء الذي یتصل بہ الأداء أو الجزء الأخیر إن لم یؤد قبلہ، وإن لم یؤد حتی خرج الوقت فالسبب ہو کل الوقت۔ قال في البحر: وفائدۃ إضافتہ إلی الجزء الأخیر اعتبار حال المکلف فیہ، فلو بلغ صبي أو أسلم کافر أو أفاق مجنون، أو طہرت الحائض أو النفساء في آخرہ لزمتہم الصلاۃ، ولو کان الصبي قد صلاہا، في أولہ، وبعکسہ لو جن أو حاضت أو نفست فیہ لفقد الأہلیۃ عند وجود السبب، وفائدۃ إضافتہ إلی الکل عند خلوہ عن الأداء أنہ لایجوز قضاء عصر الأمس في وقت التغیر وتمام تحقیقہ في کتب الأصول‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۳۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 187

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر صرف عشا کی نماز پڑھی ہے اور وتر کی نماز نہیںپڑھی تو اس کے لیے ایسا کرنا غلط تھا وتر کی نماز واجب یعنی عملا فرض ہے اس لیے جتنے سالوںکی وتر کی نماز فوت ہوئی ہیںاس کی قضا کرے گا اس کی قضا کا وہی طریقہ ہے جو ادا کا ہے، البتہ صرف اس میں نیت تعیین کے ساتھ قضا وتر کی جائے گی، یوں نیت کریں کہ میرے ذمے جتنے وتر ہیں ان میں سے پہلی کی قضا کرتا ہوں، یا یوں نیت کرے کہ میرے ذمے جتنے وتر ہیں ان میں سے آخری کی قضا کرتا ہوں اس طرح وتر کی قضا کرتارہے یہاں تک ظن غالب ہوجائے کہ وتر کی نماز مکمل ہوگئی ہیں۔

’’ویجب القضاء بترکہ ناسیًا أو عامدًا وإن طالت المدۃ ولایجوز بدون نیۃ الوتر‘‘(۱)

الوتر فرض عملاً وواجبٌ اعتقادًا … ویقضی قال ابن عابدین: إنہ یقضی وجوبًا اتفاقا أما عندہ فظاہر وأما عندہما وہو ظاہر الروایۃ عنہما فلقولہ علیہ السلام: من نام عن وتر أو نسیہ فلیصلہ إذا ذکرہ‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثامن: في صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۰۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: في منکر الوتر والسنن أو الإجماع‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۸، ۴۳۹، ۴۴۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 186

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز سکون اور اطمینان اور سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ ہی پڑھنی چاہیے، نمازیں اگر زیادہ ہیں تو ان کو ہر نماز کے وقت جتنی بسہولت پڑھی جاسکتی ہوں پڑھیں۔ نوافل پڑھنے کے بجائے قضاء نمازیں ہی پڑھیں تاکہ جلد پوری ہوسکیں۔ جتنے دنوں کی نمازیں قضاء ہوں ان کی ایک لسٹ بنالیں اور پڑھ کر نشان لگاتے رہیں، اس سے بسہولت حساب کرسکیں گے کہ کتنی نمازیں آپ کے ذمہ باقی ہیں اور کتنے دنوں میں پوری ہوں گی۔(۱)

(۱) وإذا کثرت الفوائت یحتاج لتعیین کل صلاۃ فإن أراد تسہیل الأمر علیہ نوی أول ظہر علیہ أو أٰخرہ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ص: ۴۴۶)وأما النفل فقال في المضمرات: الإشتغال بقضاء الفوائت أولیٰ وأہم من النوافل إلا سنن المفروضۃ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في بطلان الوصیۃ بالختمات والتہالیل‘‘: ج ۲، ص: ۵۳۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 186