Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دولہا یا دولہن کو غیر محرم اگر ابٹن لگائیں تو جائز نہیں ہے؛ تاہم اگر دولہن کو اس کی محرم عورتیں، ماں، خالہ، پھوپھی، بہنیں ابٹن لگائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)
(۱) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شيء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
والإسلام قد حرم علی المرأۃ أن تکشف شیئاً من عورتہا أمام الأجانب خشیۃ الفتنۃ۔ (محمد علي الصابوني، روائع البیان: ج ۲، ص: ۱۷۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص429
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2468/45-3762
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as followed
In some hadiths, it is proven that the prophet of Allah (saws) sometimes used henna on his head and beard for the purpose of receiving treatment or cold from the same. The prophet of Allah (saws) has also urged men to apply henna on their beards and women on their hands. A hadith says: The best thing you change gray hair with is henna and katam (Fath-al-Bari 13/418 – 5899)
And Allah knows the best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوے میں مسئلہ شرعی کی وضاحت ہوتی ہے، اگر اس انکار کرنے والے کی منشاء اور غرض یہ ہے کہ فتویٰ کچھ بھی ہو یعنی شرعی مسئلہ کچھ ہو وہ اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں، تو فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ایسی صورت میں منکر پر کفر عائد ہو جاتا ہے۔(۱) اور اگر منشاء یہ ہوکہ سوال واقعہ کے خلاف لکھ کر فتوی حاصل کیا گیا ہے یا مسئلہ غلط لکھا گیا ہے تو خلاف بولنے والے پر ضروری ہوتا ہے کہ واقعہ کی صحت کو واضح کرے یا فتوے کی غلطی کو کتاب وسنت سے ثابت کرے، بغیر ثبوت کے اگر کوئی انکار کرتا ہے، تو اس کی بات قابل توجہ نہیں، بلکہ وہ خاطی اور گنہگار ہے۔
(۱) إذا جاء أحد الخصمین إلی صاحبہ بفتوی الأئمۃ فقال صاحبہ لیس کما أفتوا أو قال لا نعمل بہذا کان علیہ التعزیر ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)
إن قائلہ یؤمر بتجدید النکاح وبالتوبۃ والرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط۔ (أیضاً: ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر: ج ۲، ص: ۲۹۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص156
متفرقات
Ref. No. 2677/45-4138
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مالک نے دو سو میں بیچنے کو کہا ہے تو آپ اس سے زائد میں اس کو نہیں بیچ سکتے، اگر بیچا تو وہ زائد رقم مالک کی ہوگی، آپ کا یہ عمل چوری میں شمارہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عید کی نماز میں حنفی شخص، شافعی امام کی اقتداء کرے، تو زائد تکبیروں میں بھی امام کی متابعت کرے۔ ’’ولو زاد تابعہ إلی ستۃ عشر، لأنہ مأثور‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج۳، ص:۵۴۔
لأن الخلاف في الأولویۃ لا الجواز وعدمہ ولذا لو کبر الإمام زائدا عما قلناہ یتابعہ المقتدي إلی ست عشرۃ تکبیرۃ فإن زاد لا یلزمہ متابعتہ لأنہ بعدہا محظور بیقین لمجاوزتہ ما ورد بہ الآثار۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام العیدین‘‘: ص: ۵۳۳، شیخ الہند دیوبند)
قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ في الجامع: إذا دخل الرجل مع الإمام في صلاۃ العید وہذا الرجل یری تکبیرات ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ فکبر الإمام غیر ذلک اتبع الإمام إلا إذا کبر الإمام تکبیرا لم یکبرہ أحد من الفقہاء فحینئذ لا یتابعہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص246
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس مسجد میں امام ومؤذن متعین ہوں اس میں ایک جماعت ہوجانے کے بعد دوسری جماعت کرنامکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے کہ اس سے جماعت کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، اور جماعت کا جو مقصد ہے اجتماعیت اور اتحادکا اظہار کرنا وہ مفقود ہوجاتا ہے اس لیے اگر دوسری جماعت کی اجازت دی جائے گی، تو جو لوگ امام سے ناراض ہوں گے وہ ایک جماعت کے بعد دوسری جماعت کر لیں گے اس طرح آپسی اتحاد بھی پارہ پارہ ہوجائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جماعت ثانیہ ثابت نہیں ہے؛ بلکہ طبرانی کی روایت ہے کہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت فوت ہوگئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔ مسجد میں آپ نے جماعت نہیں کی۔ حضرات صحابہؓ کا بھی معمول یہی تھا کہ اگر ان کی جماعت فوت ہوجاتی، تو تنہا تنہا نماز پڑھتے تھے؛ اس لیے ایک مسجد میں بار بار جماعت کرنے سے گریز کیا جائے، ایک جماعت ہوجانے کے بعد دوسری جماعت کے لیے مسجد کے علاوہ جگہ متعین کرلی جائے، مثلاً جمعہ میں مسجد کے چھوٹی ہونے کی وجہ سے تمام لوگ مسجد کی نماز میں شریک نہیں ہوسکتے ہیں، تو دوسری جگہ مثلاً مدرسہ، شادی ہال وغیرہ کا انتخاب کرلیا جائے اور وہاں پر دوسری جماعت کی جائے اصل حکم یہی ہے، لیکن اگر کوئی متبادل جگہ کا نظم نہ ہو سکے جیسا کہ بڑے شہروں میں دیکھا گیا ہے، تو لوگوں کو چاہیے کہ کسی متبادل جگہ کی کوشش کریں او رجب تک کے لیے ایک ہی مسجد میں دوسری جماعت کر سکتے ہیں۔
اسی طرح موجودہ حالات میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک ساتھ تمام لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح سوشل ڈسٹینس کی وجہ سے تمام افراد ایک ساتھ نہیں آسکتے ہیں، تو ایسی صورت میں حضرت امام ابویوسف ؒ کے قول پر عمل کرتے ہوئے جماعت ثانیہ کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، حضرت امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک اگر جماعت ثانیہ ہیئت اولی پر نہ ہو تو جائز ہے یعنی جس جگہ پہلا امام کھڑا ہوا ہو، اس جگہ دوسری جماعت کا امام کھڑا نہ ہو؛ بلکہ اس سے ایک صف چھوڑ کر کھڑا ہو۔
غور کیا جائے تو شریعت کا منشاء جمعہ وجماعت سے اجتماعت اور اتحاد کا مظاہرہ ہے، اسی لیے حکم ہے کہ شہر کی ایک جامع مسجد میں تمام حضرات جمعہ کی نماز پڑھیں؛ لیکن اگر وہ جامع مسجد لوگوں کے لیے ناکافی ہو جائے، تو دوسری مسجدوں میں بھی فقہاء نے جمعہ پڑھنے کی اجازت دی ہے، اسی طرح عذر کی بناء پر گھر میں جماعت کی اجازت ہے، مثلاً اگر بارش تیز ہو اور جماعت میں شامل ہونا ممکن نہ ہو، تو گھر میں بھی جماعت کی جاسکتی ہے۔ اس سے اجتماعیت متاثر نہیں ہوتی ہے اسی طرح اگر موجودہ حالات میں ملکی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے دوسری جماعت کرلی جائے، تو اس کی بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے اور جماعت ثانیہ کی کراہت کی جو علت ہے وہ بھی نہیں پائی جارہی ہے؛ بلکہ یہاں پر جماعت ثانیہ کرنا اہتمام جماعت کے لیے ہے۔ تاہم عذر کے ختم ہونے کے بعد دوسری جماعت قائم کرنا بند کردیا جائے۔
’’إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی في المسجد بجماعۃ، فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعۃ، ولو لم یکرہ تکرار الجماعۃ في المسجد لما ترکہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع علمہ بفضل الجماعۃ في المسجد۔ وروي عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، أن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا إذا فاتتہم الجماعۃ في المسجد صلوا في المسجد فرادیٰ ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ۔ اہـ۔(۱) وحینئذ فلو دخل جماعۃ المسجد بعد ما صلی أہلہ فیہ فإنہم یصلون وحدانا، وہو ظاہر الروایۃ ظہیریۃ۔ وفي آخر شرح المنیۃ: وعن أبي حنیفۃؒ لو کانت الجماعۃ أکثر من ثلاثۃ یکرہ التکرار وإلا فلا۔ وعن أبي یوسف إذا لم تکن علی الہیئۃ الأولی لا تکرہ وإلا تکرہ وہو الصحیح، وبالعدول عن المحراب تختلف الہیئۃ کذا في البزازیۃ۔ (۱)
(۱) (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان والإقامۃ، فصل بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۰۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإیمان، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص:۲۸۹)
وتسقط الجماعۃ بالأعذار حتی لا تجب علی المریض الخ … أو کان إذا خرج یخاف أن یحبسہ غریمہ في الدین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الأول في الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 483
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سمجھدار نابالغ کی اذان درست ہے اوروہ نابالغ بچے جو سمجھدار نہ ہوں ان کا اذان پڑھنا درست نہیں، بالغ آدمی بے وضو اذان پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وضو اذان کے لیے شرط نہیں ہے، مگر اس کی عادت بنا لینا اچھا نہیں۔(۱)
(۱) (ویجوز) بلا کراہۃ أذان صبي مراہق وعبد …… وکذا یعاد (أذان إمرأۃ ومجنون ومعتوہ وسکران وصبي لا یعقل) لا إقامتہم لما مر۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ، ج ۲، ص: ۵۹- ۶۱، زکریا، دیوبند)
أذان الصبي العاقل صحیح من غیر کراہۃ في ظاہر الروایۃ ولکن أذان البالغ أفضل وأذان الصبي الذي لا یعقل لا یجوز ویعاد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص131
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نجاست کا جِرم اگر مکمل طور پر زائل ہوگیا ہے، تو صرف دھبہ کے باقی رہنے اور اس پر ہاتھ یا پیر کے مَس ہونے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا، اگر پیر پر چھونے سے کوئی نجاست نہ لگے یا ایک رکن کی ادائیگی کے بقدر اس پر ٹھہرا نہ رہے۔(۱)
(۱) إذا قام المصلي علی مکان طاہر ثم تحول إلی مکان نجس ثم عاد إلی الأول إن لم یمکث علی النجاسۃ مقدار ما یمکنہ فیہ أداء أدنی رکن جازت صلاتہ وإلا فلا …… إذا أراد أن یصلي علی أرض علیہا نجاسۃ فکبسہا بالتراب ینظر: إن کان التراب قلیلاً بحیث لو شمہ یجد رائحۃ النجاسۃ لا یجوز وإن کان کثیراً لا یجد الرائحۃ یجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني: في طہارۃ مایستر بہ العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وفي القنیۃ: لو صلی علی زجاج یصف ما تحتہ قالوا جمیعاً یجوز۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص262
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صرف احساس اور شبہ دلیل شرعی نہیں بلکہ کسی چیز کا یقین دلیل شرعی ہے جب ہوا نکلنے کا بالکل یقین ہوجائے اور اسی طرح قطرہ کے نکلنے کا یقین ہوجائے تب شرعاً وضو ختم ہوگا صرف شبہ سے وضو ختم نہیں ہوتا وہم پر عمل نہ کریں ورنہ تو بہت پریشان ہوجائیں گے اور نہ وضوبنا سکیں گے اور نہ نماز پڑھ سکیں گے۔ شریعت کا اصول ہے۔ ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘(۱)
(۱) من تیقن الطہارۃ وشک في الحدث، فہو متطہر، ومن تیقن الحدث، وشک في الطہارۃ، فہو محدث کما في السراجیۃ وغیرہا۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ص: ۱۸۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص90
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص امام بنے اس کو چاہئے کہ ہلکی نماز پڑھائے کیوں کہ مقتدیوں میں مریض، بوڑھے، کمزور اورضرورت مند ہوتے ہیں فجر اور ظہر دونوں رکعتوں میں ملاکر چالیس آیات پڑھ لینا کافی ہے مگر یہ بھی اس وقت ہے کہ مقتدی حضرات برداشت کرلیں ورنہ امام کے لیے قرآت میں تخفیف کرنا ہی مسنون ہے تاکہ کسی پر بار نہ ہو ، اگر مقتدیوں کی رغبت نہ ہو تو فرض نمازوں میں قرآن پاک بالترتیب امام کے لیے پڑھ کر ختم کرنا یہ سنت کے خلاف ہے امام صاحب کو نماز میں یعنی اپنی تنہا نماز میں قرآن شریف بالترتیب پڑھ کر ختم کرنا چاہئے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا، ایک حدیث میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ عشاء کی نماز میں قرأت طویل کرتے تھے اور ان کے مقتدی کسان لوگ تھے دن بھر کام کرکے تھکے ماندے ہوتے تھے ان پر حضرت معاذ ؓکی طویل قرأت گراں گذرتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ پر اس قدر ناراض ہوئے کہ اس قدر ناراض کبھی نہیں ہوئے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ڈانٹا اور فرمایا کہ اے معاذ تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرتے ہو اور فرمایا کہ {والشمس وضحاہا} وغیرہ پڑھا کرو بہر حال اگر ایک مقتدی بھی کمزور ہو تو اس کی رعایت کرکے امام کو مختصر قرأت کرنی ہوگی۔(۱)
امام صاحب کا اپنے قرآن ختم پر کچھ مالداروں سے کہہ کر اپنے مقتدیوں کی دعوت کرانا مٹھائی تقسیم کرانا یہ بلاوجہ ایک غیر اسلامی رسم کو رواج دینے کے مترادف ہے۔ اس سے بدعات کا دروازہ کھلتا ہے(۲) البتہ اگر کوئی اپنی خوشی سے ایسا کرے تو ناجائز بھی نہیں ہے۔ امام صاحب احکام سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں ان کو محبت کے ساتھ مسائل واحکام سمجھائے جائیں تاکہ وہ اس طرح کی باتوں سے احتیاط کریں۔
(۱) إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف؛… فإن منہم الضعیف والسقیم والکبیر وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطول ما شاء۔ (أخرجہ البخاري، فيصحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب إذا صلی لنفسہ فلیطول ما شاء‘‘: ج ۱، ص: ۹۷،رقم ۷۰۳، قدیمی کتب خانہ کراچی)
(۲) أشرف علي التھانوي، ’’القول الأحکم في تحقیق التزام ما لا یلزم في إمداد الفتاویٰ‘‘: ج ۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص210