کھیل کود اور تفریح

Ref. No. 1252 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  کیمرے والے موبائل  سے بغیر شرعی وشدید ضرورت کے جاندار کی تصویرلینی جائز نہیں ہے۔ کیمرے والا موبائل رکھنا درست ہے؛ اسے حرام کہنا قطعا درست نہیں ہے۔البتہ استعمال کرنے میں اگر غلط اور گناہ کے کام میں استعمال کرے گا تو اس کا گناہ ہوگا، اور اگر ثواب کے کاموں میں   استعمال کیا جائے گا تو ثواب ملے گا۔ اس لئے نہ اس کو مطلقا حرام یا حلال کہاجاسکتاہے بلکہ اس کے استعمال کے مطابق حکم لگے گا۔

 واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 37 / 1116

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: درست ہے ، اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1461/42-896

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مسجد و مدرسہ کے علاوہ وقف کی زمین  میں سیاسی جلسہ کرنے میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ سیاسی جلسوں میں ناجائز امور  مثلا گالی گلوچ، دوسروں کی برائی وغیرہ بہرحال ناجائز ہیں ان سے بچنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1635/43-1212

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   میت کو غسل دینے   کے بعد اگر کوئی نجاست نکلے تو اس کو صاف کردینا چاہئے، دوبارہ غسل کی ضرورت نہیں ہے۔ اور کفن دینے کے بعد نکلنے والی نجاست کا اعتبار نہیں ہے۔ دوبارہ غسل دینے اور کفن بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تجہیز و تکفین میں  آسانی رکھی گئی ہے، اگر دوبارہ غسل و تکفین کا مکلف بنایاگیا تو حرج  لازم آئے گا۔ اس لئے میت کو اسی کفن میں دفن کردیا جائے۔ 

اذا تنجس الکفن بنجاسۃ المیت لایضر دفعا للحرج بخلاف الکفن المتنجس ابتداء ۱ھ وکذا لو تنجس بدنہ بما خرج منہ ان کان قبل ان یکفن غسل و بعد ہ لا ۔ (شامی، کتاب الصلوۃ، باب صلوٰۃ الجنازۃ 2/208) ويشترط طهارة الكفن إلا إذا شق ذلك لما في الخزانة أنه أن تنجس الكفن بنجاسة الميت لا يضر دفعا للحرج بخلاف الكفن المتنجس ابتداء اهـ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل الصلوۃ علیہ 11/582)

وفي المضمرات عن الخزانة إذا كفن في كفن نجس لا تجوز الصلاة عليه بخلاف ما لو نجس بنجاسة الميت لأن فيه ضرورة وبلوى ولا كذلك الكفن النجس ابتداء اه (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، باب احکام الجنائز 1/569)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 803/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں قیام، رکوع، سجدہ فرض ہے۔ بلاکسی شدید عذر کے ان کا ترک ناجائز ہے اور نماز ادا نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اگر قیام متعذر ہو اور بیٹھ کر رکوع ، سجدہ سے نماز پڑھ سکتا ہو تو زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے، کرسی پر نماز ادا نہیں ہوگی۔ لیکن اگر رکوع ، سجدہ پر بھی قدرت نہ ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔ پوری نماز میں کرسی کے پچھلے پائے دیگر نمازیوں کی ایڑی کے برابر رکھے جائیں گے۔

  المشقۃ تجلب  التیسیر (الاشباہ والنظائر 1/75) ۔

علامہ شامی لکھتے ہیں : اراد بالتعذر التعذر الحقیقی بحیث لوقام سقط او الحکمی بان خاف زیادتہ او بطء برئہ بقیامہ او دوران راسہ او وجد لقیامہ الما شدیدا صلی قاعدا۔ (درمختار وردالمحتار 2/9)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2038/44-2013

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو مچھلیاں خارجی سبب سے مرتی ہیں، جیسے پانی سے باہر نکالنے کی وجہ سے مرجائیں تو وہ حلال ہیں۔ اور جو مچھلیاں پانی میں خود طبعی موت مرجائیں وہ احناف کے نزدیک حلال نہیں ہیں۔ مچھلی میں رگوں کا خون نہیں ہوتاہے جو ناپاک ہے، اس لئے ذبح کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔

ماالقی البحر او جزر عنہ فکلوہ ومامات فیہ و طفا فلاتاکلوہ (سنن ابی داؤد الرقم 3815 باب فی اکل الطافی من السمک)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2237/44-2372

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خیال رہے کہ وسوسے عمومًا شیطانی اثرات سے پیش آتے ہیں، شیطان مومن کو مختلف شکوک وشبہات میں مبتلا کرتاہے، آپ ان وساوس سے جو کہ غیراختیاری ہیں پریشان نہ ہوں، بلکہ جب کوئی وسوسہ آئے تو اس کو جگہ نہ دیں بلکہ فورا اس کو ہٹاکر ذکر اللہ میں مشغول ہوجائیں۔جہاں پر ایمان کی دولت ہو، شیطان کا حملہ بھی وہیں ہوتاہے، اس لئے اس طرح وساوس کے آنے کو حدیث میں ایمان کی علامت قرار دیاگیاہے۔ لہذا وسوسہ آنے پر اس کی طرف بالکل دھیان نہ دیں، اور نہ اس کے مقتضی پر عمل کریں، اور نہ ہی لوگوں کے سامنے اس کا اظہار کریں۔ نمازوں کی ان کےتمام آداب کے ساتھ وقت پر باجماعت ادائیگی، ذکراللہ  اور درود شریف کی کثرت، ہر عمل میں سنت کی پیروی، اور قرآن کی صبح و شام تلاوت، اور مراقبہ اور محاسبہ جیسے امور محبت الہی اور اتباع رسول ﷺ کی کلیدی  اساس ہیں۔

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: «أو قد وجدتموه» قالوا: نعم. قال: «ذاك صريح الإيمان» . رواه مسلم

(کتاب الایمان، باب الوسوسة، رقم الحدیث:64، ج:1، ص:26، ط: المکتب الاسلامی)

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يأتي الشيطان أحدكم فيقول: من خلق كذا؟ من خلق كذا؟ حتى يقول: من خلق ربك؟ فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته "

(کتاب الایمان، باب الوسوسۃ، رقم الحدیث:65، ج:1، ص:26، ط:المکتب الاسلامی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:لفظ ’’یا‘‘ اس کے لئے استعمال ہوتا ہے جو سامنے موجود ہو اسی لئے روضۂ اطہر پر اس کا استعمال درست ہے کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور جہاں موجود نہیں وہاں لفظ ’’یا‘‘ کا استعمال درست نہیں ہے جو لوگ ہر جگہ لفظ ’’یا‘‘ سے پکارتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرجگہ موجود مانتے ہیں جب کہ یہ درست نہیں ہے ہر جگہ موجود ہونا صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔(۱)

۱) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی علی عند قبري سمعتہ ومن صلی عليّ نائیا أ بلغتہ۔ (رواہ  البیہقي في شعب الإیمان، (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الفصل الثالث‘‘: ج ۳، ص: ۱۷، رقم: ۹۳۴)
وعن ابن مسعود قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (إن للّٰہ ملائکۃً سیاحین في الأرض یبلغوني من أمتي السلام)۔ رواہ النسائي والدارمي، (أیضاً: الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص: ۹، رقم: ۹۲۴)
حیاۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبرہ ہو وسائر الأنبیاء معلومۃ عندنا علما قطعیاً لما قام عندنا من الأدلّۃ في ذلکوتواترت ]بہ[ الأخبار، وقد ألف البیہقی جزء اً في حیاۃ الأنبیاء في قبورہم، فمن الأخبار الدّالۃ وعلی ذلک ما أخرجہ مسلم عن أنس: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیلۃ أسري بہ مر بموسیٰ علیہ السلام وہو یصلي في قبرہ۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، الحاوي للفتاوی: ج۲، ص: ۱۷۸)
عن عمرو بن شرجیل رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال عبد اللّٰہ: قال رجل: یا رسول اللّٰہ أي الذنب أکبر عند اللّٰہ؟ قال: أن تدعوا للّٰہ ندا وہو خلقک۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان، باب بیان کون الشرک أقبح الذنوب‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۸۳)
ویکفر بقولہ: أرواح المشائخ حاضرۃ تعلم۔ (إبراہیم بن محمد، مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۵)
وعلی ما ذکرنا یکون الواقف مستقبلاً وجہہ -علیہ الصلاۃ والسلام- وبصرہ فیکون أولیٰ، ثم یقول في موقفہ: السلام علیک یا رسول اللّٰہ إلخ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج: مسائل منثورۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص217

فقہ

Ref. No. 2675/45-4134

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موقوفہ زمین کو بیچنا یا اس کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہوتاہے، اس لئے اس کو حتی الامکان بچانے کی کوشش ہونی چاہئے، قانونی کارروائی کے ساتھ اس کا تحفظ ہوسکے تو ایسا کرلیا جائے اور اس میں تالا لگاکر اس کو بند کردیاجائے۔  اور اگر وقف کی زمین کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے اور اس کا تحفظ کسی طرح ممکن نہیں ہے  تو ایسی صورت میں اس کو بیچ کر کسی دوسری جگہ منتقل کیاجاسکتاہے۔

" إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته " ۔ (الفقه الاسلامی وادلته ۱۰/۷۶۱۷ ، الباب الخامس الوقف ، الفصل الثالث حکم الوقف)

"سئل شمس الأئمة الحلواني عن مسجد أو حوض خرب لايحتاج إليه لتفرق الناس هل للقاضي أن يصرف أوقافه إلى مسجد آخر أو حوض آخر؟ قال: نعم (الھندیۃ،الباب الثالث، 2/478 ط: بيروت)

"ولا سيما في زماننا فإن المسجد أو غيره من رباط أو حوض إذا لم ينقل يأخذ أنقاضه اللصوص والمتغلبون كما هو مشاهد وكذلك أوقافه يأكلها النظار أو غيرهم، ويلزم من عدم النقل خراب المسجد الآخر المحتاج إلى النقل إليه (رد المحتار، 4/360، ط: سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کئی بار تجربہ اس بات کا ہو چکا ہے کہ گرم پانی سے مرض بڑھ جاتا ہے،تو ایسی حالت میں غسل یا وضو کے لیے تیمم کیا جا سکتا ہے۔
یہ جب ہے کہ جب کہ ٹھنڈے پانی سے بھی مرض بڑھ جاتا ہو اگر ایسا نہیں ہے، تو ٹھنڈے پانی سے غسل ووضو کرے۔
در مختار میں ہے:
’’من عجز عن استعمال الماء لبعدہ میلاً أو لمرض یشتد بغبلۃالظن أو قول حاذق مسلم … تیمم لہذہ الأعذار کلہا۔‘‘(۱)
بدائع الصنائع میں ہے:
’’ولنا قولہ تعالیٰ: {وإن کنتم مرضیٰ أو علیٰ سفر … إلی قولہ … فتیمموا صعیداً طیباً} أباح التیمم للمریض مطلقاً من غیر فصل بین مرض ومرض إلا أن المرض الذي لا یضر معہ استعمال الماء لیس بمراد فبقی المرض الذي یضر معہ
استعمال الماء مراداً بالنص‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۳۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: باب شرائط التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص366