متفرقات

Ref. No. 1735/43-1426

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو چیز ہم خود استعمال نہیں کرسکتے  اس کو دوسروں کو ہدیہ دینا بھی درست نہیں ہے خواہ وہ غیرمسلم ہو۔ حلال اور پاک کھانا کھاناچاہئے اور کھلانا  چاہئے۔  ایسی چیز پھینک دینی چاہئے۔

أہدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام- - -  اھ ( عالمگیری 5/342مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند(

وتعاونوا على البر والتقوى ۖ ولا تعاونوا على الإثم والعدوان ۚ واتقوا الله ۖ إن الله شديد العقاب (سورۃ المائدۃ 2)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1938/44-1863

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مدرسہ کے احاطہ  میں موجود مسجد اگر مسجد شرعی ہے تو اس کے بھی وہی احکام ہیں جو دیگر مساجد کے ہیں، اورمساجد کی تعمیر کے مقاصد میں دینی تعلیم بھی شامل ہوتی ہے۔ اس لئے انتظامیہ کی اجازت سے مسجد میں قرآن کریم کی تعلیم کا نظم کرنا اور مسجد کی بجلی کا استعمال کرنا جائز ہے۔تاہم اگر مدرسہ میں گنجائش ہے اور مسجد میں حفظ کی کلاس سے  نمازیوں کو دشواری ہوتی ہے تو مدرسہ میں ہی نظم کرلینا بہتر ہے۔  

"وتعلیم الصبیان فیه بلاأجر و بالأجر یجوز". ( البزازیة،کتاب الکراهیة، الفصل الأول، نوع في المسجد، زکریا جدید۳/۲۰۱، وعلی هامش الهندیة، ۶/۳۵۷) "معلم الصبیان بأجر لو جلس فیه لضرورة الحر لا بأس به، وکذا التعلیم إن بأجر کره إلا للضرورة، وإن حسبة لا". ( البزازیة،زکریاجدید، ۱/۵۵، وعلی هامش الهندیة، ۴/۸۲) "أما الکاتب ومعلم الصبیان فإن کان بأجر یکره وإن کان حسبةً فقیل: لایکره، والوجه ماقاله إبن الهمام: أنه یکره التعلیم إن لم یکن ضرورةً؛ لأن نفس التعلیم ومراجعة الأطفال لایخلو عما یکره في المسجد". (حلبي کبیر، أشرفیه /۶۱۱، ۶۱۲)

"ویکره أن یخیط في المسجد؛ لأنه أعد للعبادة دون الاکتساب، کذا الوراق والفقیه إذا کتب بأجرة، وأما المعلم إذا علم الصبیان بأجرة، وإن فعلوا بغیر أجرة فلا بأس به". (الخانیة، کتاب الطهارة، فصل في المسجد، زکریا جدید۱/۴۳، وعلی هامش الهندیة ۱/۶۵، ۶۶) "معلم جلس في المسجد أو ورّاق کتب في المسجد، فإن کان المعلم یعلم بالأجروالورّاق یکتب لغیره، یکره لهما إلا أن یقع لهما الضرورة".  (التاتار خانیة، زکریا ۱۸/۶۶، رقم: ۲۸۴۷) "أما المعلم الذي یعلم الصبیان بأجر إذا جلس في المسجد یعلم الصبیان لضرورة الحر أو غیره لایکره. وفي نسخة الإمام: جعل مسألة المعلم کمسألة الکاتب". (الهندیة، الصلاة، فصل کره غلق باب المسجد، زکریا قدیم ۱/۱۱۰، جدید۱/۱۶۹)

"ومعلم الصبیان القرآن کالکاتب إن کان لأجر لا وحسبة لا بأس به". (اعلاء السنن ۵/۱۳۳، دارالکتب العلمیۃ بیروت۵/۱۷۹، الموسوعۃ الفقہیۃ ۳/۲۰۶، فتح القدیر کوئٹہ ۱/۳۶۹، زکریا ۱/۴۳۵، دارالفکر۱/۴۲۲، خلاصۃ الفتاویٰ اشرفیہ ۱/۲۲۹، حلبی کبیر،  سہیل اکیڈمی لاہور/۶۱۲)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2180/44-2290

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Many traditions have been reported regarding the one who led the funeral prayer of Hazrat Fatima. The preferred tradition is that Hazrat Abu Bakr Siddiq (R.A.) led the funeral prayer of Hazrat Fatima in the presence of Sahaba.

۔( کشف الباری، کتاب المغازی،ج:۸ ؍ ۴۶۳ ،ط:مکتبہ فاروقیہ) (سنن کبری 4/46 دارالکتب العلمیۃ بیروت) (طبقات ابن سعد 8/24 بیروت) (مدارج نبوت 2/686 لاہور) ما کنت لأتقدم وأنت خلیفة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتقدم أبوبکر وصلّی علیہا) (کنز العمال 12/515 بیروت)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ مطلع کردیا تھا کہ ایسے مقامات پر شفاعت کا حق آپ کو ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان فرما دیا {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیہط ۳   إِنْ ھُوَ إِلَّا وَحْيٌ یُّوْحٰیہلا ۴ }(۱)

(۱) سورۃ النجم: ۳-۴۔

عن أبي موسیٰ الأشعري، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: خیّرت بین الشفاعۃ، وبین أن یدخل نصف أمتي الجنۃ، فأخرت الشفاعۃ، لأنہا أعم وأکفی، أترونہا للمتقین؟ لا، ولکنہا للمذنبین، الخطاّئین المتلوّثین۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سنہ، ’’أبواب الدعوات، باب ذکر الشفاعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۹، رقم: ۴۳۱۱)
عبد الرحمن بن عمرو الأوزاعي قال: مررت بجدک عبد الواحد بن عبد اللّٰہ بن بسر، وأنا غازٍ وہو أمیر علی حمص، فقال لي: یا أبا عمروٍ، ألا أحدثک بحدیثٍ یسرک، فو اللّٰہ لربما کتمتہ الولاۃ؟ قلت: بلی۔ قال: حدثني أبي عبد اللّٰہ بن بسرٍ قال: بینما نحن بفناء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوما جلوساً إذ خرج علینا مشرق الوجہ یتہلل، فقمنا في وجہہ، فقلنا: سرک اللّٰہ یا رسول اللّٰہ، إنہ لیسرنا ما نری من إشراق وجہک، فقال رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن جبریل أتاني آنفاً، فبشرني أن اللّٰہ أعطاني الشفاعۃ، وہي في أمتي للمذنبین المثقلین۔ (سلیمان بن أحمد، المعجم الأوسط: ج ۵، ص: ۳۰۳-۳۰۴، رقم: ۵۳۸۲)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص218
 

متفرقات

Ref. No. 2532/45-3961

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فوٹوگرافی ناجائز ہے، اس میں کوئی کلام نہیں ہے، ہاں ڈیجیٹل تصاویر یعنی جب تک وہ موبائل کے ریل کے اندر ہے وہ عکس یا تصویر  ہے اس میں اختلاف ہے، اس لئے احتراز اولیٰ ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
https://dud.edu.in/darulifta/?qa=6620/%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%88%D8%B1%D8%AD%D9%85%DB%83-%D9%88%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%81-%D8%A2%DB%8C%D9%88%D8%B4%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D9%88%D9%84%D8%AA%DB%92-%D8%A8%D9%86%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A8%D9%86%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%A8%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%AA%D8%A7-%D8%A8%DB%8C%D9%85%D8%A7%D8%B1%DB%8C&show=6620#q6620

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اگر نماز جنازہ شروع ہونے جا رہی ہو اور لوگ مزید انتظار نہ کرسکیں، اب ایسے افراد کے وضو میں مشغول ہونے کی صورت میں نماز جنازہ فوت ہو جانے کا اندیشہ ہے، تو ایسی حالت میں تیمم کر کے نماز اداء کر سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ ایسا شخص غیر ولی ہو کیونکہ وضو کرنے تک ولی کا تو انتظار کیا جاتا ہے؛ اس لیے ولی کے لئے تیمم کر کے نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں ہے۔
’’قولہ: وجاز لخوف فوت صلاۃ الجنازۃ أي ولو کان الماء قریباً: ثم اعلم أنہ اختلف فیمن لہ حق التقدم فیہا فروی الحسن، عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أنہ لا یجوز للولي لأنہ ینتظر ولو صلوا لہ حق الإعادۃ وصححہ في الہدایۃ والخانیۃ‘‘(۱)
’’ویجوز التیمم إذا حضرتہ جنازۃ والولي غیرہ فخاف إن اشتغل بالطہارۃ
أن تفوتہ الصلاۃ ولا یجوز للولي وہو الصحیح ولا لمن أمرہ الولي‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۸۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الرابع، باب التیمم: الفصل الثالث في المتفرقات‘‘: ج ۱، ص: ۸۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص367

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا شخص فاسق اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے؛ اس لیے اس کی امامت درست نہیں ہے،(۲) کیوں کہ قادیانی متفقہ طور پر کافر ہیں؛ اس لیے مسلمان لڑکی کا نکاح اس سے جائز نہیں ہے،(۳) اس شخص پر واجب ہے کہ یا تو اپنے داماد کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرے اور اس کے مسلمان ہونے کے بعد تجدید نکاح کرے یا اپنی بیٹی کو اس سے علیحدہ کرلے اور اپنے اس عمل سے توبہ واستغفار کرے۔(۱)

(۲) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ ((ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
(۳) {وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْاط وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ أَعْجَبَکُمْط} (سورۃ البقرۃ: ۲۲۱)
(۱) أن ما یکون کفرا اتفاقا یبطل العمل والنکاح وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد‘‘: ج۹، ص:۴۴۲)
ینص الفقہاء علی أن من أدی أنہ شریک لمحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الرسالۃ، أو قال: بجواز اکتسابہا بتصفیۃ القلب وتہذیب النص فہو کافر۔ قال قاضي العیاض: لا خلاف في تکفیر مدعی الرسالۃ۔ (وزارۃ الأوقاف، الموسوعۃ الفقھیۃ: ج ۴، ص: ۳۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص154

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان شعائر دین میں سے ہے۔ اذان کا احترام اور محبت ہر مومن کا ایمانی تقاضا ہے۔ اذان دینے والے کی فضیلت بھی احادیثِ مبارکہ میں متعدد جگہ آئی ہے مسلم شریف کی حدیث ہے: جب قیامت کے دن مؤذن اٹھیں گے تو ان کی گردنیں سب سے بلند ہوں گی۔ ’’المؤذنون أطول الناس أعناقا یوم القیامۃ‘‘(۱)
مذکورہ حدیث کی تشریح میں علامہ نوویؒ نے لکھا ہے: لمبی گردن کا مطلب ہے کہ مؤذن میدان حشر میں سب سے ممتاز اور منفرد نظر آئیں گے، ایک روایت ہے: مؤذن کی آواز جہاں تک پہونچتی ہے سب چیزیں اس آواز کو سنتی ہیں اور مؤذن کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
’’عن أبي ہریرۃ سمعہ من فم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، یقول: المؤذن یغفرلہ مد صوتہ ویشہد لہ کل رطب ویابس‘‘(۱)
نیز آپ نے جو باتیں عالم دین سے سن رکھی ہیں وہ حدیث کا مضمون ہے، امام ترمذیؒ کی ایک روایت ہے:
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أذن محتسبا سبع سنین کتب لہ براء ۃ من النار‘‘(۲)
ایسے ہی امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مسند احمد میں ایک روایت نقل کی ہے کہ تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہونگے جسے دیکھ کر تمام اولین وآخرین رشک کریں گے۔
اول: ایسا غلام جو اللہ اور اپنے آقاء کے حقوق ادا کرتا ہو، دوم: وہ امام جس سے ان کے مقتدی راضی ہوں، سوم: وہ مؤذن جو پانچوں وقت کی اذان دیتا ہو۔
 ایک روایت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کے لیے خاص طور پر مغفرت کی دعاء فرمائی ہے۔
ان احادیثِ مبارکہ کے علاوہ اور بھی کئی روایتیں کتبِ احادیث میں موجود ہیں جو مؤذن کی فضیلت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما  قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ثلاثۃ علی کثبان المسک یوم القیامۃ: رجل أم قوما وہم بہ راضون، ورجل یؤذن في کل یوم ولیلۃ خمس صلوات الخ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان ،  وہرب الشیطان عند سماعہ، ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم: ۳۸۷۔
(۱) أخرجہ النسائی، في سننہ، ’’کتاب الأذان، باب رفع الصوت بالأذان‘‘ ج۱، ص: ۷۵، رقم: ۶۴۵۔
(۲) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، أبواب الأذان والسنۃ فیہا‘‘: ص: ۵۳، رقم: ۷۲۷۔
(۱)  أخرجہ أحمد في مسند عبداللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، ج ۸،ص: ۴۱۷، رقم: ۴۷۹۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص126

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  کھجور، انگور اور منقی سے بنی الکحل نجس اورحرام ہے۔ پھل یا دیگر مائعات سے کشید کردہ الکحل نجس اور حرام نہیں ہے؛ اس لیے دواؤں میں اس کا استعمال جائز ہے، ماہرین کی تحقیق یہی ہے کہ دواؤں میں جو الکحل استعال ہوتا ہے وہ پھل وغیرہ کا ہوتا ہے اس لیے سینیٹائزر کا استعمال کرنا جائز ہے، اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے اور اس کو استعمال کرنے کے فوراً بعد نماز پڑھنا درست ہے۔ ہاں! اگر کسی سینیٹائزر کے بارے میں یقین سے معلوم ہوجائے کہ اس میں مذکورہ تین چیزوں میں سے کسی کی آمیزش ہے، تو اس کا استعمال کرنا ناجائز ہوگا۔ ’’فقہ البیوع‘‘ میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’وقد ثبت من مذہب الحنفیۃ المختار أن غیر الأشربۃ (المصنوعۃ من التمر أو من العنب) لیست نجسۃ‘‘(۱)
’’تکملۃ فتح الملہم‘‘ میں ہے: ’’إن معظم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویۃ و العطور و غیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ کما ذکر نا في باب بیوع الخمر‘‘(۲)

(۱) مفتي محمد تقي العثماني، فقہ البیوع: ج ۱، ص: ۲۹۳۔
(۲) مفتي محمد تقي العثماني، تکملہ فتح الملہم: ج ۳، ص: ۴۸۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص258