نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض پڑھنے والے کی اقتداء میں نفل نماز درست ہے اس لیے صورت مسئولہ میں زید نے اپنی عشاء کی نماز ادا کرلینے کے بعد اگر فرض نماز پڑھانے والے کی اقتداء میں نماز نفل پڑھی تو نفل درست ہوگئی۔(۱)

(۱) ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرضًا آخر؛ لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا۔ وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللّٰہ  علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ‘‘: ج۲ ص۳۲۵، ۳۲۴،زکریا دیوبند)
ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإقامۃ حتی لو شرع علی نیۃ الانفراد فاقتدیٰ بہ یجوز۔ (إبراھیم، حلبي، غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلي المشتہر بشرح الکبیر: ص: ۲۵۱)
وہاہنا مسائل: إحداہا اقتداء المتنفل بالمفترض فہو جائز بالاتفاق لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سیکون أمراء بعدي یؤخرون الصلاۃ عن مواقیتہا فإذا فعلوا فصلوا أنتم في بیوتکم ثم صلوا معہم واجعلوا صلاتکم معہم سبحۃ أي نافلۃ، ولأن المقتدي بنی صلاتہ علی صلاۃ إمامہ کما أن المنفرد یبني آخر صلاتہ علی أول صلاتہ، وبناء النفل علی تحریمۃ انعقدت للفرض یجوز وکذلک اقتداء المتنفل بالمفترض فأما المفترض إذا اقتدی بالمتنفل عندنا فلا یصح الاقتداء۔ (السرخسي،المبسوط : ج۱، ص: ۱۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص433

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1013 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بسم الله، والله أكبر، اللهم لك وإليك، هذه عقيقة فلان (فلان کی جگہ بچہ کا نام لیں)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 1252 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Indeed, it is compulsory for an alim and Mufti to be fully aware of the current situation to give his final opinion regarding the issues faced by the Muslim Ummah. If he doesn’t know the current issues along with their dos and donts, he cannot guide people to the right way.

Moreover, one should always keep in mind that there are many issues which are impermissible in Shariah in common situation, but in some particular cases the same issues are permissible with some conditions.

And Allah knows best

Darul Ifta

 Darul Uloom Waqf Deoband

Usury / Insurance

Ref. No. 41/1020

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

A menstruating woman is not allowed to do tawaf. For, it is done in masjid and she is not allowed to enter the masjid being in period. She can do saee which is done outside the masjid premises. (2) In Umra it is very important to do all arkan in order. So, one is not allowed to do Saee before Tawaf.

وتقدیم طوافہا علی السعی شرط لصحۃ السعی و تقدیم سعیہا علی ا لحلق واجب (غنیۃ الناسک ص:١٩٧)و لایجب الطہارۃ عن الجنابۃ و الحیض سواء کان سعی عمرۃ او حج لانہ عبادۃ تؤدی لافی المسجد الحرام و الاصل ان کل عبادۃ تؤدی لا فی المسجد الحرام فی الاحکام المناسک فالطہارۃ لیست بواجبۃ لہا کالسعی و الوقوف بعرفۃ والمزدلفۃ(غنیۃ ص:٧٢)

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

نکاح و شادی

Ref. No. 1108/42-350

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استخارہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد جب سونے کا ارادہ ہو تو وضو کرکے دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں، اور نماز کے بعد دعاء کریں کہ یا اللہ یہ معاملہ ہے ، اس میں جو خیر ہو میرے دل میں ڈال دیجئے۔ یادرکھیں استخارہ  کی نماز کے بعد ذکر ودعاء کرتے ہوئے سوجائیں ، دنیوی باتیں نہ کریں۔  *استخارہ خود ہی کرنا چاہئے ، دوسروں سے نہیں کرانا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1339/42-719

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ حدیث والد کے نفقہ کو بیان کرنے کے لئے ہے۔ والد اگر ضرورتمند ہو تو وہ اپنے بیٹے کے مال میں بقدر ضرورت بلا اجازت استعمال کرسکتاہے۔ لیکن اس کے علاوہ وہ بیٹے کی جملہ پراپرٹی کا مالک نہیں ہے اور بیٹے کی اجازت کے بغیر اس کا مال استعمال کرنا کسی کو ہبہ کرنا یا کسی  دوسرے بیٹے کو دینے کے لئے مجبور کرنا یا زبردستی دیددینا جائز نہیں ہے۔ ضرورت کی حد تک ماں بھی اسی حکم میں شامل ہے، وہ بھی بقدرضرورت بیٹے کا مال خود کے لئے استعمال کرسکتی ہے۔

عَن أبي هُرَيْرَة ... كل أحد أَحَق بِمَالِه من وَالِده وَولده وَالنَّاس أَجْمَعِينَ) لَايناقضه "أَنْت وَمَالك لأَبِيك"؛ لِأَن مَعْنَاهُ إِذا احْتَاجَ لمَاله أَخذه، لَا أَنه يُبَاح لَهُ مَاله مُطلقًا". (التيسير بشرح الجامع الصغير 2/ 210) "وفي حديث جابر: أنت ومالك لأبيك. قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك، لأنّ مال الولد له وزكاته عليه وهو موروث عنه، انتهى". (شرح سنن الترمذي 20/ 262)
 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1566/43-1127

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔عمومی احوال میں عورتوں کو گھروں میں ہی رہنے کی تاکید ہے، کیونکہ از روئے حدیث ان کا گھر سے باہر نکلنا فتنہ کا باعث  ہے۔ عورتوں کے اندر مرودوں کی رغبت، اور مردوں کے اندر عورتوں کی رغبت ودیعت کی گئی ہے، اور شیطان اس سلسلہ میں آزاد چھوڑا گیا ہے، اس لئے اگر مرد و عورت دونوں گھر سے باہر ہوں گے تو فتنہ کا اندیشہ غالب ہے۔ تاہم مردوں کے ذمہ گھر کے اخراجات اور بہت سے کام ہوتے ہیں ان کو گھر سے نکلنا ضروری ہوتاہے، اس لئے مرد حضرات باہر کام کریں اور عورتیں گھر کے کام کاج سنبھالیں تو زندگی بہت پُرسکون گزرتی ہے۔ البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ بعض مرتبہ عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے، اور کوئی محرم ڈرائور نہیں ہوتاہے۔ لہذا بوقت ضرورت شدیدہ عورت اگر حجاب کے ساتھ گاڑی چلاکر باہر جائے تو اس کی گنجائش ہوگی۔ تاہم سفر شرعی کے لئے محرم کا ہونا ضروری ہے۔

"قال تعالی: {وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الأولی} [الأحزاب :۳۳]فدلت الآیة علی أن الأصل في حقهن الحجاب بالبیوت والقرار بها ، ولکن یستثنی منه مواضع الضرورة فیکتفی فیها الحجاب بالبراقع والجلابیب ۔۔۔۔ ۔۔۔ فعلم أن حکم الآیة قرارهن في البیوت إلا لمواضع الضرورة الدینیة کالحج والعمرة بالنص ، أو الدنیویة کعیادة قرابتها وزیارتهم أو احتیاج إلی النفقة وأمثالهابالقیاس، نعم! لا تخرج عند الضرورة أیضًا متبرجةّ بزینة تبرج الجاهلیة الأولی، بل في ثیاب بذلة متسترة بالبرقع أو الجلباب ، غیر متعطرة ولامتزاحمة في جموع الرجال؛ فلا یجوز لهن الخروج من بیوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب کل الاهتمام ۔ وما سوی ذلک فمحظور ممنوع"(احکام القرآن للفقیہ المفسر العلامۃ محمد شفیع رحمہ اللّٰہ 3/318-319) "لاتركب مسلمة على سرج. الحديث. هذا لو للتلهي، ولو لحاجة غزو أو حج أو مقصد ديني أو دنيوي لابد لها منه فلا بأس به". الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة (6/ 423("عن أبي أحوص عن عبد اللّٰه  عن النبي ﷺ قال : ’’ المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشیطان ‘‘ ۔ (سنن الترمذی 1/221 الرقم 1173) إن المرأة تقبل في صورة شيطان، وتدبر في صورة شيطان، فإذا أبصر أحدكم امرأة فليأت أهله، فإن ذلك يرد ما في نفسه»"(مسلم2/1021) " عن ابن عمر مرفوعاّ: ’’ لیس للنساء نصیب في الخروج إلا مضطرة ‘‘ (’’کنز العمال 16/391 الفصل الأول في الترهیبات) "وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم" (شامی3/146)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس
https://dud.edu.in/darulifta/?qa=3091/%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%8C-%DA%AF%D9%88%DA%AF%D9%84-%D9%81%D8%B1%DB%8C-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2-%DA%A9%DB%92%DB%94%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&show=3091#q3091

اسلامی عقائد

Ref. No. 1844/43-1663

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمانہ آئندہ میں ہونے والے واقعہ کی یقینی طور پر کسی کو خبر نہیں ہے، یہ مغیبات الہیہ ہیں جن کا صحیح  علم صرف اور صرف اللہ تعالی کو ہے۔  زمانہ آئندہ میں کسی چیز کے متعلق خیر یا شر کی بات معلوم کرنا  یا بتانا  بھی شرکیہ عمل ہے،  یہ سخت گناہ کبیرہ ہے، اس لئے ان امور سے اجتناب لازم ہے۔  البتہ اللہ تعالی نے دنیا کا ایک نظام مقرر کیا ہے، اس مقرر کردہ نظام کے تحت کسی یقینی علامت کو دیکھ کر آئندہ زمانہ میں ہونے والی بات  کی خبردینا شرک یا غیب کا علم نہیں کہلائےگا، جیسے کہ کل صبح کا سورج اتنے بج کر اتنے منٹ پر طلوع ہوگا وغیرہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت موسیٰ نبی تھے بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے۔(۱)

(۱) {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِأٰیٰتِنَا إِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِہٖ فَقَالَ إِنِّيْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ۴۶} (سورۃ زخرف: ۴۶)
{وَإِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ ٰیقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ أَنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْط} (سورۃ الصف: ۵)

 فتاوی دارالعلوم وق دیوبند ج1ص218