نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ تکرارِ آیت کے سلسلے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر قاری نوافل میں تکرارِ آیت کرتا ہے تو نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی ہے؛ لیکن اگر قاری فرائض میں آیت کا تکرار کرتا ہے تو یہ مکروہ ہے۔
’’ولا یکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ أو في رکعتین من النفل؛ لأن باب التطوع أوسع وقد ورد أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ إلی الصباح بآیۃ واحد یکررہا في تہجدہ‘‘(۲)
’’فدل علی جواز التکرار في التطوع کذا في شرح المنیۃ وقد ثبت عن جماعۃ من السلف أنہم کانوا یحیون لیلتہم بآیۃ العذاب، أو آیۃ الرحمۃ أو آیۃ الرجاء، أو آیۃ الخوف، وإن کان ذلک في الفرائض فہو مکروہ إذ لم ینقل عن أحد من السلف أنہ فعل مثل ذلک کذا في التجنیس والمزید‘‘(۱)

(۲) أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’في کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب ما جاء في القراء ۃ في صلاۃ اللیل من حدیث سیدنا أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ قرأ: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأیۃ   … حتی أصبح یرددہا، والآیۃ: {إن تعذبہم فإنہم عبادک وإن تغفرلہم فإنک أنت العزیز الحکیم}ص :۹۶، رقم:۱۳۵۰ ۔
(۱) امداد الفتاح مع الحاشیۃ، ’’فصل فیما یکرہ في الصلاۃ‘‘: ص: ۳۸۱؛ وکذا في مراقي الفلاح، ’’فصل في المکروہات مکۃ المکرمہ‘‘: ص: ۱۲۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص203

 

Family Matters
Ref. No. 37/1166 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: For your mother the husband of your step daughter is a Ghayr-Mahram. It is necessary to observe hijab from him. Observing hijab is not necessary from the husband of your foster daughter. As there is no commandment of observing hijab from the husband of the real daughter. And the hadith says: “What becomes unlawful (for marriage) through breast-feeding is that which becomes unlawful through lineage.” So as the real son-in-law is a Mahram in the same way the foster son-in-law will also be a Mahram. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم:اپنے علاقہ میں پونے دو کلو گیہوں کی قیمت معلوم کرلیں، پونے دو کلو گیہوں ایک نماز کا فدیہ ہے۔ اس طرح ہر روز کی پانچ نمازوں  کے ساتھ وتر کا بھی فدیہ  اداکریں۔ فدیہ کی رقم کسی بھی غریب ومستحق کو دی جاسکتی ہے۔ قومی مدرسہ میں بھی اگرمستحق طلبہ کو  اس رقم کا مالک بنادیا جائے تو فدیہ ادا ہوجائے گا۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1001/41-163

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تین طلاق کے بعد نکاح بالکل ختم ہوجاتا ہے اور مرد و عورت دونوں اجنبی ہوجاتے ہیں۔ تین طلاق کے بعداب ایک ساتھ رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ لہذا عورت کو چاہئے کہ وہ پہلے شوہر سے جدا ہوجائے اور کسی دوسرے مرد سے نکاح کرکے اپنی زندگی گزارے۔ قرآن کریم نے سورہ بقرہ میں اس کو بیان کیا ہے:  فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔ الآیۃ (سورہ بقرہ)۔ 

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1328/42-707

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صفوں کی درستگی سنت مؤکدہ ہے،  اور صفوں کی درستگی کا اہتمام نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ اس لئے  یہ مقتدیوں کی ذمہ داری ہے کہ صف سیدھی کریں اور  صفوں کے بیچ میں خالی جگہیں پُر کریں۔ اور امام کو بیچ میں رکھیں، اگر کسی صف میں دائیں جانب کم لوگ ہوں تو آنے والا دائیں جانب صف میں کھڑا ہو تاکہ امام درمیان میں ہو اور دونوں جانب صف برابر ہوجائے۔ امام کو چاہئے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے مقتدیوں کی صف کا معائنہ کرکے ان کو درست کرائے لیکن یہ امام کے ذمہ لازم نہیں ہے، اگر اس کا اہتمام کرے تو بہتر ہے۔  نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام مقتدیوں کی صفوں کو درست کرانے کا اہتمام  کرتے تھے۔

قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - «لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ». وكان في زمن عمر رضي الله تعالى عنه رجلٌ مُوَكَّلٌ على التسوية، كان يمشي بين الصفوف ويسوِّيهم، وهو واجبٌ عندنا تُكْرَه الصلاة بتركه تحريمًا، وسنةٌ عند الشافعية لانتفاء مرتبة الواجب عندهم، وذهب ابن حَزْم إلى أنه فرضٌ. (فیض الباری علی صحیح البخاری ، باب تسویۃ الصفوف 2/299) عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ «سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلاَةِ». (فیض الباری 2/301)

قَالَ عليه السلام: (لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ) . / 95 - وفيه: أَنَسِ، قَالَ الرسول: (أَقِيمُوا الصُّفُوفَ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ من وراء ظَهْرِي) . تسوية الصفوف من سنة الصلاة عند العلماء، وإنه ينبغى للإمام تعاهد ذلك من الناس، وينبغى للناس تعاهد ذلك من أنفسهم، وقد كان لعمر وعثمان رجال يوكلونهم بتسوية الصفوف، فإذا استوت كبرا إلا أنه إن لم يقيموا صفوفهم لم تبطل بذلك صلاتهم. وفيه: الوعيد على ترك التسوية، (شرح البخاری لابن بطال، باب تسویۃ الصفوف 2/344)

قلت: قوله - صلى الله عليه وسلم -: تراصوا، وقوله: رصوا صفوفكم، وقوله: سدوا الخلل، ولا تذروا فرجات للشيطان، وقول النعمان بن بشير: فرأيت الرجل يلزق كعبه بكعب صاحبه الخ، وقول أنس: وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه الخ، كل ذلك يدل دلالة واضحة على أن المراد باقامة الصف وتسويته أنما هو اعتدال القائمين على سمت واحد وسد الخلل والفرج في الصف بإلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم، وعلى أن الصحابة في زمنه - صلى الله عليه وسلم - كانوا يفعلون ذلك، وأن العمل برص الصف والزاق القدم بالقدم وسد الخلل كان في الصدر الأول من الصحابة وتبعهم، ثم تهاون الناس به.(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، الفصل الاول 4/5)

أي يصفهم الإمام بأن يأمرهم بذلك. قال الشمني: وينبغي أن يأمرهم بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا مناكبهم ويقف وسطا (شامی، باب الامامۃ 1/568)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1643/43-1218

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں شوہر نے پیسے دینے پر "طلاق دے دوں گا" کہہ کر طلاق دینے کا وعدہ کیا تھا، طلاق نہیں دی تھی، اس لئے اگر اس نے اب تک طلاق نہیں دی ہے تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ پیسے لینے کے بعد وعدہ سے مکر گیا ، تو ایسی صورت میں شرعی عدالت سے رابطہ کریں، تاکہ آپ کو انصاف مل سکے۔

فقال الزوج أطلق (طلاق می کنم) فکررہ ثلاثاً طلقت ثلاثاً بخلاف قولہ: سأطلق (طلاق می کنم) لأنہ استقبالٌ فلم یکن تحقیقا بالشک۔

فِي الْمُحِيطِ: لَوْقَال بِالْعَرَبِيَّةِ: أُطَلِّقُ، لَايَكُون طَلَاقًا إلَّا إذَا غَلَبَ اسْتِعْمَالُهُ لِلْحَال؛ فَيَكُون طَلَاقًا (الھندیۃ، الفصل السابع فی الطلاق بالالفاظ الفارسیہ، 1/384)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1736/43-1427

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب ایک بار آپ کا عذر ثابت ہوگیا تو روئی کے رکھنے  سے عذر ختم نہیں ہوگا، آپ معذور ہی رہیں گے اور ہر نماز کے وقت وضو کرکے نماز ادا کریں گے۔

والمستحاضة هي التي لا يمضي عليها وقت صلاة إلا والحدث الذي ابتليت به يوجد فيه وكذا كل من هو في معناها وهو من ذكرناه ومن به استطلاق بطن وانفلات ريح لأن الضرورة بهذا تتحقق وهي تعمم الكل. (الھدایۃ 1/35)

(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل  - - - (قوله: إحليله) بكسر الهمزة مجرى البول من الذكر بحر (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عاليا عن رأس الإحليل أو مساويا له: أي ما كان خارجا من رأسه زائدا عليه أو محاذيا لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلا عن رأس الإحليل أي غائبا فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر (شامی، سنن الوضوء 1/148)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1928/44-1984

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور صورت میں جس پراڈکٹ کا لنک ویب سائٹ مالک نے لگایا ہے، اگر وہ پراڈکٹ جائز ہے اور کمیشن متعین رقم یا پراڈکٹ کی قیمت کے متعین فیصد کے بقدر طے شدہ ہے تو یہ کام کرنا اور اس کی  اجرت لینا جائز ہے۔چونکہ اس میں لنک تشکیل دینے والے کی حیثیت اجیر کی ہے اور اجیر کا کام اس میں یہ ہے کہ وہ ویب سائٹس پر بیچے جانے والی چیزوں کا لنک تشکیل دیتا ہے اور لوگوں کو اس چیز کی خریداری کی طرف رغبت دلاکر مخصوص ویب سائٹس تک لے کر جاتا ہے، لہٰذا اس صورت میں لنک تشکیل دینے والے کو جو کمیشن ملے گا وہ سامان کی لنک سوشل میڈیا پر شیئر کرنے اور اس کے بکوانے کے سلسلے میں جو اس نے کوشش اور محنت کی ہے اس کا حق المحنت ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جتنا کمیشن ملنا ہو، وہ پہلے سے طے ہو۔ اس میں کسی قسم کی جہالت نہ ہو۔

’’إجارۃ السمسار والمنادی والحمامی والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۶، ص: ۴۷، ط: دار الفکر)

’’وأما الدلال فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا فأجرتہ علی البائع وإن سعی بینہما وباع المالک بنفسہ یعتبر العرف وتمامہ في شرح الوہبانیۃ۔

(قولہ: فأجرتہ علی البائع) ولیس لہ أخذ شيء من المشتری؛ لأنہ ہو العاقد حقیقۃ شرح الوہبانیۃ وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا؛ لأنہ لا وجہ لہ۔ (قولہ: یعتبر العرف) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتری أو علیہما بحسب العرف جامع الفصولین‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار: ج ۴، ص: ۵۶۰)

’’إذا باع الدلال مالا بإذن صاحبہ تؤخذ أجرۃ الدلالۃ من البائع ولا یعود البائع بشیء من ذلک علی المشتری لأنہ العاقد حقیقۃ وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا لأنہ لا وجہ لہ أما إذا کان الدلال مشی بین البائع والمشتری ووفق بینہما ثم باع صاحب المال مالہ ینظر فإن کان مجری العرف والعادۃ أن تؤخذ أجرۃ الدلال جمیعہا من البائع أخذت منہ أو من المشتری أخذت منہ أو من الاثنین أخذت منہما  أما إذ باع الدلال المال فضولا لا بأمر صاحبہ فالبیع المذکور موقوف ویصبح نافذا إذ أجاز صاحب المال ولیس للدلال أجرۃ فی ذلک لأنہ عمل من غیر أمر فیکون متبرعا‘‘ (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام: ج ۱، ص: ۲۳۱) فقط

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2174/44-2291

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان کی زمین میت کی تدفین کے لئے وقف ہے، اس زمین کو اس مقصد کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس لئے سوال میں مذکور امور کے لئے کسی دوسری جگہ کا انتظام کیا جائے۔

مراعاة غرض الواقفين واجبة. (رد المحتار على الدر المختار، كتاب الوقف، مطلب مراعاة غرض الواقفين واجبة، ج:6، ص:665). 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اذان اصل میں نماز وجماعت کا وقت ہوجانے کی اطلاع کے لیے ہے، فقہاء نے آگ لگ جانے یا غموں اور پریشانیوں کے دور کرنے کے لیے، اس کی اگرچہ اجازت دی ہے(۱)؛ لیکن رخصتی کے وقت کی کوئی نظیر نہیں، قطعاً غیر مشروع اور ناجائز ہے۔ (۲)

(۱) رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ، کما في أذان المولود، والمہموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الآذان‘‘: ج ۲، ص: ۸۲)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص426