Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فتنہ وفساد، وبا وطاعون یا دیگر آفات اگر عام ہو جائیں، یا کسی ملک میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہو یا دشمن نے حملہ کر دیا ہو تو اس سے نجات کے لیے فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد قیام کی حالت میں دعائے قنوت کا اہتمام ہونا چاہئے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جب ستّر قراء کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک دعا ئے قنوت کا اہتمام کیا تھا جس میں آپ نے ان قبیلوں پر بدعا کی تھی، معلوم ہوا کہ اجتماعی مصائب و آلام کے حالات میں دعائے قنوت کا اہتمام نہ صرف شرعاً جائز ہے؛ بلکہ احادیث سے ثابت ہونے کی وجہ سے مستحب اور مسنون ہے۔ دعائے قنوت کے الفاظ مختلف ہیں اور قرآن کے کلمات نہیں ہیں اس لیے افضل تو یہی ہے کہ لقمہ نہ دیا جائے، لیکن اگر کوئی لقمہ دے دے تو بھی نماز صحیح ہو جائے گی۔
’’ولا یقنت إلا لنازلۃ فیقنت الإمام في الجہریۃ، قال في الصحاح :النازلۃ الشدیدۃ من شدائد الدہر، لکن في الأشباہ عن الغایۃ: قنت في صلاۃ الفجر الخ‘‘(۱)
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ، قال: قنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شہرا بعد الرکوع في صلاۃ الصبح، یدعوا علی رعل وذکوان، ویقول: عصیۃ عصت اللّٰہ ورسولہ‘‘(۲)
’’وقد روي عن الصدیق: أنہ قنت عند محاربۃ الصحابۃ مسیلمۃ وعند محاربۃ أہل الکتاب، وکذلک قنت عمر، وکذا علی في محاربۃ معاویۃ ومعاویۃ في محاربتہ، إلا ان ہذا ینشئ لنا أن القنوت للنازلۃ مستمر لم ینسخ وبہ قال جماعۃ من أہل الحدیث‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸، ۴۴۹۔)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب استحباب القنوت في جمیع الصلاۃ إذا نزلت بالمسلمین نازلۃ‘‘: ج ۱ ص: ۲۳۷، رقم: ۶۷۷۔)
(۱)ابن الھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۱، مکتبہ الاتحاد، دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص319
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1249
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: نماز درست ہے، سورت ملانے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1029
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
The amount of interest given to the poor is not required to be from the same account in which the interest was received. The amount in bank as it is in account holder’s hands. So, if the amount credited to any account of account holder it is regarded as in his hands. There is no wrong in giving the same amount of money (equal to interest) from other accounts or even from one’s pocket. (See Fiqhul Buyoo’ by Mufti Taqi Usmani for detail)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
مساجد و مدارس
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1002/41-000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال شرعی اعتبار سے، کل رقم 40 لاکھ کو 259200 حصوں میں تقسیم کریں گے۔
1. جن کے مطابق بیوی کو بیوی اور بیٹوں اور بیٹی کی ماں ہونے کے اعتبار سے کل 797499 روپئے دئے جائیں گے۔ اور پہلے بطن میں جو بیٹا زندہ ہے اس کو 700000 روپئے دئے جائیں گے۔ اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 350000 دئے جائیں گے۔
2. پھر بیٹی کے ورثہ میں دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 97222 روپئے اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 48611 روپئے دئے جائیں گے۔
3. پھر پہلے بیٹے کے ورثہ میں سے اس کی بیوی کو 87500 روپئے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 245000 روپئے دئے جائیں گے۔
4. پھر دوسرے بیٹے کے ورثہ میں سے اس کی بیوی کو 87500 روپئے اور دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 165277 روپئے دئے جائیں گے۔ اور اس کی دونوں بیٹیوں کو 82638 روپئے دئے جائیں گے۔
نوٹ: کل تقسیم شدہ روپئے ہوئے 3999995 اب باقی ماندہ پانچ روپئے کوباہمی اتفاق سے صدقہ کردیا جائے تو بہترہے۔
نوٹ: آئندہ وراثت کی تقسیم میں تمام ورثہ کا نام ضرور لکھیں تاکہ سمجھنے میں سہولت ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hadith & Sunnah
Ref. No. 1105/42-318
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Yes, the narration is authentic and recorded in Sahih Al-Bukhari.
عن نافع ان ابن عمر کان اذا دخل فی الصلوۃ کبر ورفع یدیہ واذا رکع رفع یدیہ واذا قال سمع اللہ لمن حمدہ رفع یدیہ واذا قام من الرکعتین رفع یدیہ رفع ابن عمر الی النبی ﷺ۔ (صحیح البخاری باب رفع الیدین اذا قام حدیث نمبر 739)
(Translation: it is narrated by Nafi' that whenever Ibn 'Umar started the prayer with Takbir, he used to raise his hands: whenever he bowed, he used to raise his hands (before bowing) and also used to raise his hands on saying, "Sami a-l-lahu Liman hamida", and he used to do the same on rising from the second Rak'a (for the 3rd Rak'a). Ibn 'Umar said: "The Prophet (Sallallähu Alaihi Wasallam) used to do the same."
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1367/42-778
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
There are differences between the Ahle-Hadeeth and the Hanafis on intellectual, jurisprudential and theological issues. Ahle-Hadeeth follow Salaf in Aqeedah whereas Hanafis are Maturidi and Ash'ari in Aqeedah. Similarly in Fiqh, Hanafis follow Imam Abu Hanifa, while Ahle-Hadeeth do not follow any Imam. According to the Hanafis, taqlid (following an Imam) is obligatory, while among the Ahl al-Hadith, taqlid is an un-Islamic act. There is disagreement in many such doctrinal discourses. Therefore, you have to opt for a madrassa or school of Hanafi school of thought, so that you can be aware of the correct point of view of Islamic sciences.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1467/42-907
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں سلمان کی بیوی پر تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں، صریح لفظوں سے طلاق دینے میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب میاں بیوی کے درمیان نکاح باقی نہیں رہا۔ عورت کی عدت وضع حمل ہے، لہذا عورت بچہ کی ولادت کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ سلمان سے اس کا نکاح نہ اب جائز ہے اور نہ عدت کے بعد جائز ہے، اب دونوں آزاد ہیں۔ فی الحال بیوی کو اپنے نکاح میں لانے کی کوئی صورت نہیں ہے البتہ اگر عورت کسی دوسرے مرد اے نکاح کرلیتی ہے اور پھر وہ طلاق دیدیتاہے یا اس کا انتقال ہوجاتاہے تو سلمان کا اس عورت سے نکاح ہوسکتاہے۔
لأن الصريح لا يحتاج إلى النية. (شامی، باب صریح الطلاق، 3/249) والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة، مثل أن يقول في عرف ديارنا: دها كنم أو في عرف خراسان والعراق بهشتم؛ لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان في الفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام والله أعلم. (بدائع الصنائع، فصل فی النیۃ فی احدنوعی الطلاق 3/102)
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(سورۃ البقرۃ 230)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1569/43-1084
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ پر گرچہ کوئی عبادت فرض نہیں ہے لیکن اگر وہ عبادت کرتاہے تو اس کواس کا ثواب ملتاہے، جب اس کو ثواب ملتاہے تو ایصال ثواب بھی کرسکتاہے۔اس لئے نابالغ بچہ بھی اگر قرآن کی تلاوت کرکے ثواب مردوں کو(رشتہ دار واجنبی) پہونچا ئے تو اس کا یہ ایصال ثواب درست ہے اور اس سے مردوں کو فائدہ پہونچے گا۔
عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم لقي ركبا بالروحاء، فقال: «من القوم؟» قالوا: المسلمون، فقالوا: من أنت؟ قال: «رسول الله»، فرفعت إليه امرأة صبيا، فقالت: ألهذا حج؟ قال: «نعم، ولك أجر»(صحیح مسلم کتاب الحج ،باب صحۃ حج الصبی واجر من حج بہ 2/974)
’ان المراد ان ذلك بسبب حملها له وتجنيبها اياه ما يجتنبہ المحرم واستدل به بعضهم على ان الصبي يثاب على طاعته ويكتب له حسناته وهو قول اكثر اهل العلم (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج7،ص553،مطبوعہ ملتان)
وتصح عباداته وان لم تجب عليه واختلفوا في ثوابها والمعتمد انه له وللمعلم ثواب التعليم وكذا جميع حسناته‘‘(الاشباہ والنظائر،ص264،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت) الاصل فی ھذا الباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره) يعني سواء كان جعل ثواب عمله لغيره(صلاةاو صوما او صدقة او غيرها)كالحج وقراءة القران والاذكار وزيارة قبور الانبياءوالشهداء والاولياءوالصالحين وتكفين الموتى وجميع انواع البر (البنایہ شرح ھدایہ،کتاب الحج ،باب الحج عن الغیر،ج4،ص422،مطبوعہ کوئٹہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند