Frequently Asked Questions
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’أنظر إلی ما قال ولا تنظر إلی من قال‘‘۔ یہ مقولہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے اور بہت سی کتابوں میں ہے۔(۱)
عموماً قائل کی بات دوسروں کے لئے مفید ہوتی ہے جب کہ بعض اوقات بات کہنے والا اچھا آدمی نہیں ہوتا؛ اس لئے قائل کے قول کی طرف دھیان دینا چاہئے، اگر کوئی مفید بات ہو، تو خواہ کوئی بھی کہے اختیار کرلینی چاہئے؛ اس لئے ضروری ہے کہ اختیار کرنے والا یہ جان سکتا ہو کہ کون سی بات مفید ہے اور کون سی بات غیر مفید ہے؛ لہٰذا جن امور میں کوئی فرق کر سکتا ہو ان امور میں سب کی بات سنے اور مفید کو اختیار کرے اور جن امور میں فرق ہی نہ کرسکتا ہو ان امور میں انہیں لوگوں کی بات پر عمل کرے جن کو قابل اعتماد اور ان امور میں ماہر سمجھتا ہو۔ اسی طرح امور شرعیہ میں قابل اعتماد ماہر علماء ہی کی بات پر عمل کیا جائے۔(۲)
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۰، رقم: ۲۱۶۔
(۲) إن الواجب علی من أراد أن یعمل لنفسہ أو یفتی غیرہ أن یتبع القول الذي رجحہ علماء مذہبہ۔ (محمد أمین بن عمر بن عبدالعزیز، رسم المفتی: ص: ۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص142
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام میں دعوت وتبلیغ اپنی اور دوسروں کی اصلاح اور اسلام واحکام اسلام کو عام وتام کرنے کا کوئی طریقہ متعین نہیں ہے؛ بلکہ زمانہ، علاقہ، ماحول، وعرف وعادات کے لحاظ سے جو بھی طریقہ بہتر ومؤثر معلوم ہو؛ اسی کو اختیار کیا جانا چاہئے۔
قرآن کریم میں {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (۱)
کسی ایک طریقہ کو لازم ومتعین سمجھنا اسلام کی وسعت وہمہ گیری کے ساتھ انتہائی نا انصافی ہے۔ مروجہ تبلیغی جماعت کا طریقہ بھی خصوصاً عوام کے لئے کافی مفید ہے، لیکن کچھ لوگ اس میں غلو وشدت سے کام لینے لگے ہیں، جس سے کافی نقصان ہو رہا ہے۔(۲)
(۱) سورۃ النحل: ۱۲۵۔
(۲){کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
عن سالم بن عبد اللّٰہ بن عمر عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہم، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیہا الناس أو مروا بالمعروف وأنہوا عن المنکر قبل أن تدعوا اللّٰہ فلا یستجیب لکم، وقبل أن تستغفروہ فلا یغفر لکم۔ (إسماعیل بن محمد، الترغیب والترہیب، ’’فصل‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۳۰۶)
{تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْھَاج وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَہ۲۲۹} (سورۃ البقرۃ: ۲۲۹)
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا} (سورۃ البقرۃ: ۱۴۳)
وأنا أری أن ’’الوسط‘‘ في ہذا لموضع، ہو ’’الوسط‘‘ اللذي بمعنی: الجزء اللذي ہو بین الطرفین، … وأری أن اللّٰہ تعالیٰ ذکرہ إنما وصفہم بأنہم ’’وسط‘‘ لتوسطہم في الدین، فلا ہم أہل غلو فیہ، غلو النصاری اللذین غلوا بالترہب، وقیل لہم في عیسیٰ ما قالوا فیہ، ولاہم أہل تقصیر فیہ، تقصیر الیہود اللذین بدلو کتاب اللّٰہ، وقتلوا أنبیاء ہم، وکذبوا علی دینہم، وکفروا بہ، ولکنہم أہل توسط واعتدال فیہ، فوصف اللّٰہ بذلک، إذ کان أحب الأمور إلی اللّٰہ أوسطہا۔ (محمد بن جریر، جامع البیان في تأویل القرآن، ’’سورۃ البقرۃ: ۱۴۳‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص351
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بالوں کے اندر نجاست سرایت نہیں کرتی ہے؛ اس لئے اگر زیر ناف بالٹی میں گر جائیں تو اس سے پانی ناپاک نہیں ہوگا،ایسے پانی سے غسل کرنا درست ہے۔
’’إن الشعر والصوف والوبر والریش طاہرۃ لا تنجس بالموت کمذہبنا‘‘(۳)
(۳) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: باب الماء الذي یجوز بہ والوضوء ومالا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص39
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی چپ، کیسٹ یا سی ڈی جس میں قرآن کریم محفوظ ہو اس کو بلاوضو چھونا درست ہے؛ اس لیے کہ یہاں پر چپ کو چھونا ایسے ہی ہے جیسے کہ اس موبائل کو بلاوضو چھونا، جس میں قرآن کریم محفوظ ہے۔ چپ یا کیسٹ میں عام طور پر قرآن کریم کی آواز محفوظ ہوتی ہے اور آواز قرآن کا جسم سے مس ہونا جائز ہے، اسی وجہ سے جنبی کے لیے قرآن کریم کا سننا جائز ہے۔
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت: کان رأس رسول اللّٰہ ﷺ في حجر إحدانا وھي حائض وھو یقرأ القرآن۔ (۱)
(۱) أخرجہ النسائي، في سننہ، کتاب الحیض والاستحاضہ، باب الرجل یقرأ القرآن و رأسہ في حجر إمرأتہ وھي حائض ج۱،ص:۴۴، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)، ولو کان المصحف في صندوق فلا بأس للجنب أن یحملہ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال،‘‘ ج۱، ص:۴۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص154
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ عذر ایسا نہیں ہے کہ اس صورت میں تیمم کی اجازت ہو۔(۱)
(۱)و یجوز لخوف فوت صلاۃ جنازۃ أو عید ابتداء … لا لخوف فوت جمعۃ أو وقتیۃ۔ (إبراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’باب التیمم‘‘ج۱، ص:۶۳) ؛ ولا یتیمم لفوت جمعۃ و وقت لو وترا، لفواتھا إلی بدل۔ (إبن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱، ص:۴۱۳) ؛والأصل: أن کل موضع یفوت فیہ الأداء لا إلی خلف، فإنہ یجوز لہ التیمم، وما یفوت إلی خلف، لا یجوز لہ التیمم کالجمعۃ۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱،ص:۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص357
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱)تکبیر کی صورت میں نماز نہیں ہوگی، مگر سلام کی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ہوجائے گی۔(۱)
(۲)اس میں بھی تکبیر کی صورت میں نماز نہیں ہوگی، مگر سلام کی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ہو جائے گی۔ (۲)
(۱) فإن قال المقتدي: اللّٰہ أکبر ووقع قولہ اللّٰہ مع الإمام وقولہ ’’أکبر‘‘ وقع قبل قول الإمام ذلک قال الفقیہ أبو جعفر: الأصح أنہ لا یکون شارعاً عندہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، مکتبہ زکریا دیوبند)
(وعن سبق تکبیر) علی النیۃ خلافاً للکرخي کما مر أو سبق المقتدي الإمام بہ فلو فرغ منہ قبل فراغ إمامہ لم یصح شروعہ والأول أولیٰ کما مر في توجیہ قولہ اتباع الإمام۔ …(رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث شروط النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۳، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(۲) قولہ: (ومتابعۃ الإمام) قال في شرح المنیۃ : لاخلاف في لزوم المتابعۃ في الأرکان الفعلیۃ إذ ہي موضوع الاقتداء واختلف في المتابعۃ في الرکن القولي وہو القرأۃ فعندنا لا یتابع فیہا بل یستمع وینصت وفیما عدا القرأۃ من الأذکار یتابع … والحاصل أن متابعۃ الإمام في الفرائض والواجبات من غیر تأخیر واجبۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: مہم في تحقیق متابعۃ الإمام‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۵، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(لہا واجبات) لا تفسد بترکہا وتعاد وجوباً في العمد والسہو إن لم یسجد … ولفط السلام مرتین فالثاني علی الأصح، دون علیکم الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب واجبات الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۴۶، ۱۴۷)
(ولو أتمہ) أي لو أتم المؤتم التشہد بأن أسرع فیہ فرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتي بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام أو کلام أو قیام جاز: أي صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد لکنہ قعد قدرہ لأن المفروض من القعدۃ قدر أسرع ما یکون من قرائۃ التشہد وقد حصل وإنما کرہ للمؤتم ذلک لترکہ متابعۃالإمام بلا عذر فلو بہ کخوف حدث أو خروج وقت جمعۃ أو مرور مارّ بین یدیہ فلا کراہۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في وقت إدراک فضیلۃ الافتتاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۰، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(وإنما یصیر شارعاً بالنیۃ عند التکبیر لابہ) وحدہ ولا بہا وحدہا بل بہما (ولا یلزم العاجز عن النطق) کأخرس وأمي (وتحریک لسانہ) وکذا في حق القرأۃ ہو الصحیح لتعذر الواجب فلا یلزم غیرہ إلا بدلیل فتکفی النیۃ۔ وقال في الشامي: وإذا کان تحریک اللسان غیر قائم مقام النطق لعدم الدلیل فکیف تقام النیۃ مقامہ بلا دلیل مع أن التحریک أقرب إلی النطق من النیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب إني حدیث ’’الأذان جزم‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۱، مکتبہ: زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص468
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:اگر وقت میں اتنی گنجائش ہے کہ جلدی کے ساتھ دوسری رکعت ادا کرسکتا ہے تو بہت جلدی دوسری رکعت ادا کرے اور اگر اتنی گنجائش نہیں ہے تو نماز کو چھوڑ دے اور سورج طلوع ہونے کے بعد قضا کرے، اگر نماز کے دوران ہی سورج طلوع ہوگیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔(۲)
(۲) قولہ بخلاف الفجر الخ، أي فإنہ لا یؤدي فجر یومہ وقت الطلوع لأن وقت الفجر کلہ کامل فوجبت کاملۃ فتبطل بطروّ الطلوع الذي ہو وقت فساد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج۲، ص: ۳۳، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص115
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر پورے سجدے میں دونوں پیر اٹھے رہے تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر ایک پیر اٹھا رہے تو مکروہ تحریمی ہے اور اگر پیر آگے پیچھے ہوجائیں تو اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی اور اگر تھوڑے سے اٹھ گئے ہوں تو بھی نماز صحیح ہے۔(۱)
(۱) وأما وضع القدمین فقد ذکر القدوري أنہ فرض في السجود اھـ۔ فإذا سجد ورفع أصابع رجلیہ لایجوز، کذا ذکرہ الکرخي والجصاص، ولو وضع إحداہما جاز۔ قال قاضي خان : ویکرہ۔ وذکر الإمام التمرتاشي أن الیدین والقدمین سواء في عدم الفرضیۃ إلی قولہ: وبہ جزم في السراج فقال لو رفعہما في حال سجودہ لایجزیہ، ولو رفع إحداہما جاز۔ وقال في الفیض : وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص85
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ عمل بلا کراہت جائز ہے، ’’أما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز الخ‘‘ (شامی ج۱، ص ۵۶۳) البتہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو کسی حنفی عالم سے دریافت کرلیا جائے کہ اس عمل میں اقتدا کی جائے گی یا نہیں۔(۲)
(۲) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف، وکل بروفاجر مالم یکن مبتدعا بدعۃ یکفر بہا، ومالم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ اھـ، وإذا لم یجد غیر المخالف ……فلا کراہۃ في الاقتداء بہ، والاقتداء بہ أولی من الإنفراد علی أن الکراہۃ لا تنافي الثواب، افادہ العلامہ نوح۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، دارالکتاب دیوبند؛ و إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ص: ۴۴۴،د ارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص306
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ طریقہ احادیث سے تو ثابت نہیں ہے اسی طرح سورت کے تکرار کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، ہوسکتا ہے کہ کسی بزرگ عامل نے بطور عمل بتلایا ہو، لیکن شرعی نقطہ نظر سے اس تکرار کو غیر افضل ہی کہا جائے گا۔(۱)
(۱) ولم یتعین شيء من القرآن لصحۃ الصلاۃ۔ لإطلاق ما تلونا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۲۷)
ویکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ واحدۃ في الفرائض ولابأس بذلک في التطوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷، مطبوعہ، کوئٹہ)
ویکرہ التعیین الخ ہذہ المسألۃ مفرعۃ علی ماقلبلہا، لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیراً علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص416