Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزارات پر جانا، اور آیات قرآنی پڑھ کر میت کو ثواب پہنچانا، اور دعائے مغفرت کرنا، بلا شبہ جائز ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنت البقیع میں تشریف لے جاتے، اور ایصال ثواب، دعاء مغفرت فرماتے تھے؛ البتہ مزارات پر جاکر خلاف شریعت امور کرنا اور رونا، یا صاحب مزار سے امداد طلب کرنا جائز نہیں ہے، مگر توسل کی اجازت ہے، اور حضرت ابوبکر وعمر اور دوسرے اکابر صحابہؓ سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے دعاء میں وسیلہ اختیار کیا جہاں تک نیاز کی بات ہے تو اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے بلا شبہ یہ بدعت ہے، اور اگر مزار ہی پر جاکر ایصال ثواب کی نیت سے بکرا ذبح کرکے کھانا وغیرہ بناکر فقراء کو تقسیم کردیا جائے تو مباح ہے، ممنوع نہیں لیکن مزار ہی پر جاکر ایسا کرنے کو اگر ضروری سمجھا جائے گا تو بدعت میں شمار ہوگا، جو بکرا ذبح کیا جاتا ہے وہ اللہ ہی کے نام ذبح کرتا ہے، اور ایصال ثواب کے لئے ذبح کرتا ہے؛ اس لئے اس بکرے کے گوشت کو کھانا بھی جائز ہے مگر صرف غرباء کا حق ہے، جو صاحب نصاب ہو ان کے لئے اس کا کھانا مناسب نہیں، اور اگر نذر مانی گئی ہو تو اس صورت میں صاحب نصاب کو کھانا بھی جائز نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کلما کان لیلتہا من رسول اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم یخرج من آخر اللیل إلی البقیع فیقول السلام علیکم دار قوم مؤمنین إلخ۔ ( أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في التسلیم عن أہل القبور والدعاء والاستغفار لہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۳)
إن الاراقۃ لم تعقل قربۃ بنفسہا وإنما عرفت قربۃ بالشرع والشرع ورد بہا في مکان مخصوص، أو زمان مخصوص فیتبع مورد الشرع فیتقید کونہا قربۃ بالمکان الذي ورد الشرع بکونہا قربۃ فیہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’کتاب الحج‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص337
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بالا صورت میں پہلی بات تو یہ ہے کہ زید کا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ہیں یہ قول بالکل درست ہے، جس مبتدع نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہا ہے اس نے بصراحت آپ کی ذات اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں کوئی فرق نہیں کیا ہے؛ چوںکہ قرآن نے علی الاعلان کہا ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے، من جملہ انہیں میں غیب کا علم بھی ہے۔(۱) انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے مقام پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ پر رکھیں، مگر ان بدعتیوں کو کیا کہئے، کار بد تو خود کریں، تہمت دھریں شیطان پر؛ نیز کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا کوئی سہل کام نہیں ہے، چوںکہ فقہاء نے صاف فرمادیا ہے کہ اگر کسی شخص میں ۹۹؍ احتمالات کفر کے اور ایک احتمال ایمان کا ہو، تو بھی اس کو کافر نہ کہا جائے۔(۲) پھر اس کی مثال تو غُلیل کے غلہ کی سی ہے کہ اگر غلہ کسی نرم زمین پر پڑے گا، تو اس میں پیوست ہوجائے گا اور اگر سخت زمین پر پڑے گا، تو پھینکنے والے پر لوٹ آئے گا۔(۳) خلاصہ کلام یہ کہ کسی کو کافر کہنے سے احتیاط ضرور برتنی چاہئے، زید کے یہاں کھانا پینا، اس کے پاس اٹھنا، بیٹھنا سب درست ہے اور اس کا ایک نہیں؛ بلکہ چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔
(۱) {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ج وَیَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًاط وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌم بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ ط إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌہع۳۴} (سورۃ لقمان: ۳۴)
{قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُط} (سورۃ النمل: ۶۵)
(۲) إن المسئلۃ المتعلقۃ بالکفر إذا کان لہا تسع وتسعون احتمالاً للکفر واحتمال واحد في نفیہ فالأولی للمفتي والقاضي أن یعمل بالاحتمال الثاني۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر: ص: ۱۹۹)
(۳) ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أیما إمرئ قال لأخیہ یا کافر فقد باء بہا أحد ہما إن کان کما قال وإلا رجعت علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب من قال لأخیہ المسلم یا کافر‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص250
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صرف دعاء کے لئے اجتماع اور اس کے لئے دن مقرر کرکے لوگوں کو دعوت دینا، اس کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ملتی؛ اس لئے اس کا رواج بنانا اور اس کے لئے دعوت دینا صحیح نہیں ہے، اس عمل کو ترک کردینا لازم ہے (۲)، ہاں اگر تبلیغ اسلام اور لوگوں کو قرآن و حدیث کی باتیں بتانے کے لئے کوئی دن مقرر کرلیں کہ لوگوں کے جمع ہونے میں سہولت ہو اور اس پروگرام کے اختتام پر دعاء بھی ہوجائے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (۳)
(۲) من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۳) {وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ إِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ إِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَہ۳۳} (سورۃ فصلت: ۳۳)
بلغوا عني ولو آیۃ۔ (محمد عبد الرحمن المبارکفوري، تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص365
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2679/45-4140
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ سے قبل چار رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں، اور جمعہ کے بعد چار رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں، اور دو رکعتوں کے بارے میں اختلاف ہے، امام ابو یوسف کے نزدیک یہ دو رکعتیں بھی سنت مؤکدہ ہیں جبکہ طرفین ان کو غیرمؤکدہ قرار دیتے ہیں اور غیرمؤکدہ ہونا ہی راجح ہے۔اور یہ چار رکعتیں ایک ساتھ ہی ادا کی جائیں گی، ان کو دو دو رکعت کرکے ادا کرنا درست نہیں ہے۔
"عن علي، رضي الله عنه أنه قال: «من كان مصليًا بعد الجمعة فليصل ستًا».
1979 - حدثنا يونس، قال: ثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن، قال: «علّم ابن مسعود رضي الله عنه الناس أن يصلوا بعد الجمعة أربعًا، فلما جاء علي بن أبي طالب رضي الله عنه علّمهم أن يصلوا ستًّا» ... عن أبي عبد الرحمن السلمي، قال: «قدم علينا عبد الله فكان يصلي بعد الجمعة أربعًا فقدم بعده علي رضي الله عنه فكان إذا صلى الجمعة صلى بعدها ركعتين وأربعًا، فأعجبنا فعل علي رضي الله عنه فاخترناه». فثبت بما ذكرنا أن التطوع الذي لاينبغي تركه بعد الجمعة ست، وهو قول أبي يوسف رحمه الله إلا أنه قال: أحب إلي أن يبدأ بالأربع ثم يثنى بالركعتين؛ لأنه هو أبعد من أن يكون قد صلى بعد الجمعة مثلها على ما قد نهي عنه ... عن خرشة بن الحر: «أن عمر رضي الله عنه كان يكره أن يصلي بعد صلاة الجمعة مثلها». قال أبو جعفر: فلذلك استحب أبو يوسف رحمه الله أن يقدم الأربع قبل الركعتين؛ لأنهن لسن مثل الركعتين فكره أن يقدم الركعتان؛ لأنهما مثل الجمعة. وأما أبو حنيفة رحمه الله، فكان يذهب في ذلك إلى القول الذي بدأنا بذكره في أول هذا الباب". (شرح معاني الآثار (1 / 337)
"وأما السنة قبل الجمعة وبعدها فقد ذكر في الأصل: وأربع قبل الجمعة، وأربع بعدها، وكذا ذكر الكرخي، وذكر الطحاوي عن أبي يوسف أنه قال: يصلي بعدها ستاً، وقيل: هو مذهب علي - رضي الله عنه -. وما ذكرنا أنه كان يصلي أربعاً مذهب ابن مسعود، وذكر محمد في كتاب الصوم أن المعتكف يمكث في المسجد الجامع مقدار ما يصلي أربع ركعات، أو ست ركعات أما الأربع قبل الجمعة؛ فلما روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتطوع قبل الجمعة بأربع ركعات»؛ ولأن الجمعة نظير الظهر، ثم التطوع قبل الظهر أربع ركعات كذا قبلها.
وأما بعد الجمعة فوجه قول أبي يوسف إن فيما قلنا جمعًا بين قول النبي صلى الله عليه وسلم وبين فعله؛ فإنه روي «أنه أمر بالأربع بعد الجمعة»، وروي أنه «صلى ركعتين بعد الجمعة»، فجمعنا بين قوله وفعله، قال أبو يوسف: ينبغي أن يصلي أربعاً، ثم ركعتين كذا روي عن علي - رضي الله عنه - كي لايصير متطوعاً بعد صلاة الفرض بمثلها، وجه ظاهر الرواية ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من كان مصلياً بعد الجمعة فليصل أربعاً». وما روي من فعله صلى الله عليه وسلم فليس فيه ما يدل على المواظبة، ونحن لانمنع من يصلي بعدها كم شاء، غير أنا نقول: السنة بعدها أربع ركعات لا غير؛ لما روينا". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 285)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام صاحب دونوں مسلکوں سے واقفیت رکھتے ہیں اور وہ دونوں مسلکوں کے اعتبار سے اس طرح رعایت کریں کہ نماز میں کسی بھی مسلک کے لحاظ سے کراہت نہ آتی ہو، تو اس طرح امامت درست ہے۔(۱)
(۱) وقال البدر العیني یجوز الاقتداء بالمخالف … ما لم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)
والاقتداء بشافعي المذہب إنما یصح إذا کان الإمام یتحامي مواضع الخلاف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲)
وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز ما لم یعلم منہ ما یفسد الصلاۃ علی اعتقاد المقتدي علیہ الإجماع … ذہب عامۃ مشایخنا إلی الجواز إذا کان یحتاط في موضع الخلاف وإلا فلا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب في الاقتداء یشافعي ونحو ہل یکرہ أم لا‘‘: ج۲، ص: ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص247
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسجد میں دو جماعتیں کرنا مکروہ تحریمی ہے؛ کیوں کہ دوسری جماعت سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت وعظمت ختم ہو جائے گی اور پہلی جماعت کے افراد بھی کم ہو جائیں گے جیسا کہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب در مختار میں ہے:
’’ ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن‘‘ (قولہ: ویکرہ) أي تحریماً؛ لقول الکافي: لایجوز، والمجمع: لایباح، وشرح الجامع الصغیر: إنہ بدعۃ، کما في رسالۃ السندي، (قولہ: بأذان وإقامۃ إلخ) … والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون، کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعاً‘‘(۱)
البتہ مسجد طریق یا ایسی مسجد جس میں امام مؤذن مقرر نہ ہوں اس میں دوسری جماعت جائز ہے نیز اگر کسی مجبوری اورعذر کی وجہ سے دوسری جماعت کرلی گئی تو نماز ادا ہو جاتی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
’’واختلف في کون الأمطار والثلوج والأوحال والبرد الشدید عذرا وعن أبي حنیفۃ: إن اشتد التأذي بعذر قال الحسن: أفادت ہذہ الروایۃ أن الجمعۃ والجماعۃ في ذلک سواء، لیس علی ما ظنہ البعض أن ذلک عذر في الجماعۃ لأنہا سنۃ لا في الجمعۃ لأنہا من آکد الفرائض‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸۔
(۲) أیضًا:ص: ۲۹۰۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 487
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سورہ جمعہ کی آیت {اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ} سے مراد اکثر مفسرین اور فقہا نے اذان اول کولیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے
میں جمعہ میں صرف ایک اذان ہوتی تھی، اس وقت {نُوْدِیَ} کا خطاب اسی اذان سے تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگوں کو مسجد میں آنے میں تاخیر ہوتی ہے اور لوگوں سے ’’سعی إلی الجمعہ‘‘ کا وجوب ترک ہورہا ہے، اس لیے انہوں نے منبر پر اذان سے پہلے زوال کے بعد مقام زوراء میں اذان کو جاری کیا اس طرح دو اذان ہونے لگیں، پہلی اذان زوراء کے پاس تاکہ لوگ اس اذان کو سن کر جلدی مسجد میں آجائیں پھر دوسری اذان لوگوں کے آنے بعد مسجد میں منبر کے سامنے دی جاتی تھی چوں کہ پہلی اذان کا مقصد ہی ہے کہ لوگ اذان سن کر ’’سعی إلی الجمعہ‘‘ میں مشغول ہوجائیں اور خرید وفروخت ترک کردیں تاکہ سعی الی الجمعہ میں مخل نہ ہو، اس لیے عموما حضرات فقہاء نے بھی {نُوْدِیَ} سے مراد اذان اول ہی کو لیا ہے۔
’’وکرہ البیع عند أذان الجمعۃ والمعتبر الأذان بعد الزوال، کذا في الکافي‘‘(۱)
’’وإذا أذن المؤذنون الأذان الأول ترک الناس البیع والشراء وتوجہوا إلی الجمعۃ ’’لقولہ تعالی: {فَاسْعَوْا إِلَی ذِکْرِ اللَّہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ} (سورۃ الجمعۃ: ۹) وإذا صعد الإمام المنبر جلس وأذن المؤذنون بین یدي المنبر بذلک جری التوارث ولم یکن علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلا ہذا الأذان ولہذا قیل ہو المعتبر في وجوب السعي وحرمۃ البیع والأصح أن المعتبر ہو الأول إذا کان بعد الزوال لحصول الإعلام بہ‘‘(۲)
تاہم موجودہ ماحول میں جب کہ اذان اول اور اذان ثانی کے درمیان کا وقفہ بعض جگہوں پر بہت زیادہ رہتا ہے، بعض جگہوں پر ایک گھنٹہ پہلے اذان ہوجاتی ہے اور ایک ایک گھنٹے اور بعض جگہ آدھا گھنٹے تک اردو تقریر ہوتی ہے ایسی صورت میں ’’سعی إلی الجمعہ‘‘ کے مقصد کی طرف نظر ہونی چاہیے اذان اول کی طرف نہیں، اس لیے اتنا پہلے کام بند کرنا اور خرید وفروخت ترک کرنا ضروری ہوگا کہ اگر کام بند نہ کیا گیا اور خرید وفروخت کوجاری رکھا تو ’’سعی إلی الجمعہ‘‘ میں
خلل ہوگا اور خطبہ سے پہلے پہونچنا دشوار ہوگا۔
اگر کسی جگہ اذان ایک گھنٹہ پہلے ہوتی ہو اوروہ شخص پندہ منٹ میں تیار ہوسکتا ہے تو خطبہ سے پندرہ منٹ پہلے خرید وفروخت بند کرنا لازم ہوگا اور اگر کسی جگہ اذا ن اول اور خطبہ کے درمیان صرف پندرہ بیس منٹ کا فاصلہ رہتا ہو تو ان کے حق میں کراہت کا تعلق اذان اول سے ہی ہوگا۔ اس لیے کہ خرید وفروخت سے ممانعت کی علت سعی الی الجمعہ میں خلل ہے۔
وسیذکر الشارح في آخر البیع الفاسد أنہ لا بأس بہ لتعلیل النہي بالإخلال بالسعي، فإذا انتفی انتفی، (قولہ: وفي المسجد) أو علی بابہ، بحر (قولہ: وفي الأصح) قال في شرح المنیۃ: واختلفوا في المراد بالأذان الأول، فقیل: الأول باعتبار المشروعیۃ، وہو الذي بین یدي المنبر؛ لأنہ الذي کان أولاً في زمنہ علیہ الصلاۃ والسلام وزمن أبي بکر وعمر حتی أحدث عثمان الأذان الثاني علی الزوراء حیث کثر الناس۔ والأصح أنہ الأول باعتبار الوقت، وہو الذي یکون علی المنارۃ بعد الزوال،۱ ہـ۔ والزوراء بالمد: إسم موضع في المدینۃ، (قولہ: صحۃ إطلاق الحرمۃ) قلت: سیذکر المصنف في أول کتاب الحظر والإباحۃ کل مکروہ حرام عند محمد، وعندہما إلی الحرام أقرب، ۱ ہـ۔ نعم قول محمد روایۃ عنہما، کما سنذکرہ ہناک إن شاء اللّٰہ تعالی، وأشار إلی الاعتذار عن صاحب الہدایۃ حیث أطلق الحرمۃ علی البیع وقت الأذان مع أنہ مکروہ تحریماً، وبہ اندفع ما في غایۃ البیان حیث اعترض علی الہدایۃ بأن البیع جائز، لکنہ یکرہ کما صرح بہ في شرح الطحاوی؛ لأن النہي لمعني في غیرہ لا یعدم المشروعیۃ ‘ ‘(۱)
’’الأذان المعتبر الذي یجب السعي عندہ ویحرم البیع الأذان عند الخطبۃ لا الأذان قبلہ، لأن ذلک لم یکن في زمن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وذکر شمس الأئمۃ الحلواني، وشمس الأئمۃ السرخسي أن الصحیح المعتبر ہو الأذان الأول
بعد دخول الوقت، وفي المنافع: سواء کان بین یدي المنبر أو علی الزوراء، وبہ کان یفتی الفقیہ أبو القاسم البلخي رحمہ اللّٰہ، وقال الحسن بن زیاد رحمہ اللّٰہ: الأذان علی المنارۃ ہو الأصل‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب البیوع، الباب العشرون في البیاعات المکروہۃ والأرباح الفاسدۃ‘‘:ج ۳، ص: ۱۹۸۔
(۲) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱، ۱۷۲۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب: في حکم المرقی بین یدی الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۸۔…(۲)وقال مفتی الحنیفۃ السلطنۃ السنیۃ الفاضل سعد اللّٰہ حلبي المعتبر في تعلق الأمر یعتبر قولہ تعالیٰ الآتي (فاسعوا) ہو الأذان الأول في الأصح عندنا لأن حصول الإعلام بہ لا الأذان بین یدي المنبر … أما کون الثاني لا إعلام فیہ فلا یضر لأن وقتہ معلوم تخمیناً ولو أرید ما ذکر وجب بالأول السعي وحرم البیع ولیس کذلک۔(علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الجمعۃ: ۹-۱۱‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۴۶)
والصحیح أن السعي وترک البیع ونحوہ یجب بالأذان الأول لعموم، قولہ تعالی: {إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ} وصدقہ علی الأذان الأول أیضاً:۔ (قاضي ثناء اللّٰہ پاني پتی، تفسیر مظہري، ’’سورۃ الجمعۃ: ۹‘‘: ج ۹، ص: ۲۷۵، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص133
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ زمین کے خشک ہوجانے کے بعد اس پر مصلی بچھا کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔(۲)
(۲) ومکانہ فلا تمنع النجاسۃ في طرف البساط ولو صغیرا في الأصح ولو کان رقیقا وبسطہ علی موضع نجس إن صلح ساترا للعورۃ تجوز الصلاۃ کما في البحر عن الخلاصۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص263
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ عنہا میں جب زید خارج صلوٰۃ ہے اور عمر داخل صلوٰۃ ہے تو وہ غلطی کرتا ہے اور زید خارج صلوٰۃ ہونے کے باوجود اس کو لقمہ دیتا ہے اور عمر لقمہ لیتا ہے تو اس صورت میں عمر کی نفل نماز ادا نہیں ہوگی بلکہ فاسد ہوجائے گی۔(۱) اور قضاء اس کی لازم ہوگی۔ دونوں صورتوں میں زید وعمر پر قضاء لازم ہے۔(۲)
(۱) وفتحہ علی غیر إمامہ إلا اذا أراد التلاوۃ وکذا الأخذ إلا إذا تذکر، قال في ردالمحتار: أو أخذ الإمام بفتح من لیس في صلاتہ۔ (الحصکفي ، رد المحتار مع الدر المختار، ج۲، ص: ۳۸۱)
(۲) ولزم نفل الخ أي لزم المضی فیہ حتی إذا أفسدہ لزم قضاء ہ : أي قضاء رکعتین، وإن نوی أکثر علی مایأتی۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار،’’باب الوتر والنوافل‘‘ج ۲، ص: ۴۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص91
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں (کسی آنے والے کی) رعایت سے قرأت کو طویل کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ اگر اس کو امام جانتا ہے، ورنہ تو نامناسب امر ہے۔(۱)
(۱) کرہ تحریماً إطالۃ رکوع أو قرائۃ لإدراک الجائي: أي إن عرفہ وإلا فلا بأس بہ، قال ابن عابدین: لکن یطول مقدار مالایثقل علی القوم بأن یزید تسبیحۃ أو تسبیحتین علی المعتاد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص211