فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن وسنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں جنہیں معمولی پڑھا لکھا شخص سمجھ سکتا ہے اس کے برعکس قرآن وسنت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں کوئی ابہام یا اجمال یا قرآن کریم کی ایک آیت کا دوسری آیت اور حدیث سے بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے ان جیسے مسائل میں اجتہاد کیا جاتا ہے اور اجتہاد اتنی اہم اور نازک ذمہ داری ہے کہ ہر کس وناکس کو یہ ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی ہے اس کے لئے اخلاص وللہیت، تقویٰ، خدا ترسی شرط ہے اس کے ساتھ ساتھ عمیق علم، ذکاوت وفراست وسیع نظر اور زمانہ سے بھر پور آگہی کی بھی ضرورت ہے اسی مفہوم کو علامہ جلال الدین محلی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مجمع الجوامع میں لکھا ہے: وہ عامی جو کتاب وسنت کو نہیں جانتا اور نہ اس میں نصوص کے تتبع تلاش، سمجھنے اور ان سے حکم شرعی مستنبط کرنے کی صلاحیت ہے تو وہ کسی ایسے مجتہد کے اجتہاد پرعمل کرے جس کے استنباط مع دلائل مدون ہیں ان پر عمل کرنے والا شریعت پر عمل کرنے والا قرار دیا جائے گا۔
’’ویجب علی العامي وغیرہ فمن لم یبلغ مرتبۃ الاجتہاد والتزام مذہب معین من مذاہب المجتہدین‘‘(۱)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے عقد الجید میں امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے:
’’ویجب علی من لم یجمع ہذہ الشرائط تقلیدہ فیما یعن لہ من الحوادث‘‘(۲)
یعنی اس شخص پر جو ان شرائط کا جامع نہ ہو اس پر کسی مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے ان مسائل میں جو ان کو پیش آئیں۔
’’وبالجملۃ فالتمذہب للمجتہدین سر الہمہ اللّٰہ تعالیٰ العلماء وتبعہم علیہ من حیث یشعرون أولا یشعرون‘‘(۱)
مجتہدین کے مذاہب میں کسی مذہب کی پابندی ایک راز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علماء کے دلوں میں الہام کیا اور اس پر ان کو متفق کیا ہے وہ اس کی مصلحت اور راز کو جانیں یا نہ جانیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اصولیین کے نزدیک تقلید نام ہے کہ جس امام اور مجتہد کی ہم تقلید کر رہے ہیں ان سے دلیل کا مطالبہ کئے بغیر ان کی بات کو مان لینا اور ان پر پورا اعتماد کرنا ہے(۲) اس میں مجتہد کی حیثیت شارع کی نہیں؛ بلکہ محض شارح کی ہوتی ہے اور ہر شخص کے اندر چونکہ اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ قرآن وحدیث سے مسائل کو خود اخذ کر سکے؛ اس لیے ائمہ مجتہدین پر آپ کو اعتماد کرنا چاہئے اور وہ جو سمجھے ہیں اور امت کو سمجھاتے ہیں اس کو منشاء الٰہی اور مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر واجب الاتباع سمجھنا چاہئے۔(۳)

(۱) نور الہدایہ ترجمہ شرح الوقایۃ: ص: ۱۰۔
(۲) الشاہ ولی اللّٰہ محدث الدہلوي، عقد الجید في أحکام الاجتہاد والتقلید، ’’المقدمۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۔
(۱) الشاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوي، الاتصاف في بیان أسباب الاختلاف، ’’باب حکایۃ حال الناس‘‘: ج ۱، ص: ۷۳۔
(۲) مفتي محمد تقي عثماني، درس ترمذي: ج ۱، ص: ۱۳۔
(۳) الشاہ ولي اللّٰہ محدث الدہلوي، عقد الجید، ورسائل إمام ولي اللّٰہ الدہلوي: ج ۲، ص: ۱۳۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص151

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر مقلدین ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے، بلکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قرآن وحدیث سے خود مسائل کو سمجھتے ہیں، ظاہر ہے کہ ائمہ اربعہ نے قرآن کریم اور احادیث مقدسہ میں مہارت کے بعد انہیں سے مسائل کی تخریج فرمائی ہے، اور انہیں آج کے لوگوں کے مقابلہ زیادہ ہی علم تھا، تقلید کا انکار کرنے والے گویا خود ہی مجتہد ہیں، اور متعدد مسائل میں اختلاف کرتے ہیں، ان باتوں پر اعتماد درست نہیں، تفصیل وتحقیق کے لئے مطالعہ غیر مقلدیت مؤلفہ مولانا صفدر خاں صاحب کا مطالعہ مفید ہوگا۔(۱)

(۱) أہل الحق منہم أہل السنۃ والجماعۃ المنحصرون بإجماع من یعتد بہم في الحنفیۃ والشافعیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ، وأہل الہواء منہم غیر المقلدین یدعون اتباع الحدیث وأني لہم ذلک۔ (أشرف علي التھانوي، مأۃ دروس: ص: ۲۸)
فإن أہل السنۃ قد افترق بعد القرون الثلاثۃ أو الأربعۃ علی أربعۃ مذاہب ولم یبق مذہب في فروع المسائل سوی ہذہ الأربعۃ فقد انعقد الاجماع المرکب علی بطلان قول مخالف کلہم وقدقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یجتمع أمتي علی الضلالۃ، وقال اللّٰہ تعالیٰ: {وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَسَآئَ تْ مَصِیْرًاہع ۱۱۵} (محمد ثناء اللّٰہ پانی پتیؒ، تفسیر المظہري؛ ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘ ج ۱، ص: ۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص247

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2705/45-4183

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس نے قرآن کریم حفظ کیا اور اس کو یاد رکھنے میں  حتی المقدور کوشش کی تو وہ بھی حافظ قرآن کے زمرے میں ہی ہوگا۔ حافظ قرآن ہونا بڑی سعادت کی بات ہے اور جس قدر قرآن پختہ ہو اسی قدر سعادت کا درجہ بھی ہے تاہم بار بار یاد کرنے پر بھی کچھ حصہ کا پختہ نہ ہونا قیامت میں سرخروئی کے لئے مانع نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ ۔ بہرحال ، مسواک کا اہتمام،تقوی و پر ہیزگاری کو لازم پکڑنا، بدنگاہی اور بدزبانی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا، اور  اہل حق مشائخ سے رابطہ قوی رکھنا حفظ قرآن میں سہولت کا باعث  ہوگا،ان شاء اللہ تعالیٰ۔

:-’’اَلْمَاہِرُ بِالْقُرْأٰنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ ،وَالَّذِیْ یَقْرَئُ الْقُرْأٰنَ وَ یَتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَہُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَہٗ أَجْرَانِ۔‘‘ (رواہ البخاری ، ج:۱، ص:۲۶۹)

:-’’مَنْ قَرَأَ الْقُرْأٰنَ اسْتَدْرَجَ النُّبُوَّۃَ بَیْنَ کَتِفَیْہِ إِلَّا أَنَّہٗ لَا یُوْحٰی إِلَیْہِ لَا یَنْبَغِیْ لِصَاحِبِ الْقُرْأٰنِ أَنْ یَّحِدَّ مَعَ مَنْ یَّحِدُّ وَلَا یَجْہَلَ مَعَ مَنْ یَجْہَلُ وَفِيْ جَوْفِہٖ کَلَامُ اللّٰہِ۔‘‘ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان والحاکم فی المستدرک ، قلت: قال الحاکم فی المستدرک علی شرط الشیخین، ج:۱،ص:۵۵۲ )

اَلْقُرْآنُ أَفْضَلُ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ فَمَنْ وَقَّرَ الْقُرْأٰنَ فَقَدْ وَقَّرَ اللّٰہَ وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالْقُرْآنِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی، حَمَلَۃُ الْقُرْآنِ ہُمُ الْمَحْفُوْفُوْنَ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ الْمُعَظِّمُوْنَ کَلَامَ اللّٰہِ الْمُلْبَسُوْنَ نُوْرَ اللّٰہِ فَمَنْ وَالَاہُمْ فَقَدْ وَالَی اللّٰہَ وَمَنْ عَادَاہُمْ فَقَدِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی۔(الجامع لاحکام القرآن للقرطبیؒ، ج:۱،ص:۲۶)

:-’’إِنَّ عَدَدَ دَرَجِ الْجَنَّۃِ بِعَدَدِ آیِ الْقُرْآنِ، فَمَنْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ مِمَّنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلَیْسَ فَوْقَہٗ أَحَدٌ۔‘‘ (البیہقی فی شعب الایمان بسند حسن ، الجامع الصغیر،ج:۲،ص:۴۵۸)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر مسجد میں سونے کے دوران احتلام ہو جائے، تو تیمم کر لینا مستحب ہے ضروری نہیں ہے۔
درمختار میں ہے:
’’لو احتلم فیہ (المسجد) إن خرج مسرعاً تیمم ندباً وإن مکث لخوف فوجوبا ولا یصلی ولا یقرأ‘‘ وقال الشامي ولو أصابتہ جنابۃ في المسجد قیل لا یباح لہ الخروج من غیر تیمم اعتباراً بالدخول‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲؛
وکذا في التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص368

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: داڑھی منڈانے والا اور سنیما دیکھنے والا منکرات شرعیہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہے، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، اس کے علاوہ دوسرے شخص کو امام بنایا جائے۔(۲)

(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وأکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔… (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وأکل الربا ونمام، ومراء ومتصنع … قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہا أولی من الإنفراد، لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي، قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، (أیضًا: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص155

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر وہ زمین سرکاری ذمہ داروں نے بخوشی مسجد کے لیے دی تھی جیسا کہ تحریری سوال سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو مسجد ہی کہہ کر پکارا جاتا ہے اور ایک عرصہ سے پانچوں وقت نماز با جماعت بھی ہو رہی ہے تو اس صورت میں وہ شرعی مسجد بن گئی ہے اور چوں کہ اوقات نماز اور امام وغیرہ مقرر ہیں تو اس جگہ پر دوسری جماعت مکروہ ہوگی اور اگر زبردستی اس زمین پر قبضہ کر کے نماز کی جگہ بنائی ہے کہ سرکاری ذمہ دار اب بھی اس جگہ کے مسجد بنانے پر راضی نہیں ہیں تو وہ شرعی مسجد نہیں بنی اور نہ ہی اس میں نماز فی المسجد کا ثواب ملے گا البتہ جماعت کا ثواب ملتا رہے گا اور وہ مسجد چوں کہ شرعی مسجد قرار نہیں دی جا سکتی بناء بریں وہاں جماعت ثانیہ درست ہوگی۔(۱)
(۱) یکرہ تکرار الجماعۃ في مسجد محلۃ بأذان وإقامۃ  لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن
(قولہ ویکرہ) أي تحریما لقول الکافي: لا یجوز، والمجمع لا یباح، وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي (قولہ بأذان وإقامۃ إلخ) والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعا۔ (ابن عابدین،  رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 480

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں بنیان پہن کر اذان دینا جائز ہے، اس صورت میں اذان ہو جائے گی، قابل اعادہ نہیں ہوگی۔البتہ بلا عذر ایسا نہیں کرنا چاہئے متقیوں والا مہذب لباس پہن کر اذان دینی چاہیے(۲)

(۲) (ویستحب أن یکون المؤذن صالحاً) أي متقیاً لأنہ أمین في الدین (عالماً بالسنۃ)( في الأذان وعالماً بدخول (أوقات الصلاۃ) لتصحیح العبادۃ (و) أن یکون (علی وضوء) لقولہ علیہ السلام لا یؤذن إلا متوضئ (مستقبل القبلۃ) کما فعلہ الملک النازل (إلا أن یکون راکباً) لضرورۃ سفرو وحل ویکرہ في الحضر راکباً في ظاہر الروایۃ۔ (أحمد بن محمد ، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
من سنن المؤذن کونہ رجلاً عاقلاً صالحاً عالماً بالسنن والأوقات مواظباً علیہ محتسباً ثقۃ متطہراً الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص128

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: موجودہ تحقیق کے اعتبار سے پرفیوم کے اندر استعمال ہونے والا الکحل سبزیوں سے کشید کیا جا تا ہے، اس لیے اس کو لگاکر نماز پڑھنا جائز ہے؛ تاہم احتیاط پر عمل کرتے ہوئے بچنا چاہئے۔(۱)

(۱)وإن معطم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویۃ والعطور وغیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ … وحینئذ ہناک فسحۃ في الأخذ بقول أبي حنیفۃ عند عموم البلوی۔ (مفتي محمد تقي عثماني، تکملہ فتح الملہم، ’’کتاب الأشربۃ: حکم الکحول السکرۃ‘‘: ج ۹، ص: ۳۴۳، مکتبہ: اشرفی دیوبند)
المزر والجعۃ والبقع وما یتخذ من السکر والتین ونحو ذلک فیحل شربہ عند أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ قلیلاً کان أو کثیراً مطبوخاً کان أو نیاّ ولا یحد شاربہ وإن سکر۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الأشربۃ: باب حکم النبیذ‘‘: ج ۴، ص: ۲۸۶، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وظاہر أن الأحوط قول محمدؒ فلذا أفتی المتأخرون بہ لسد باب الفتنۃ لکن في زماننا فقد عارضہ عموم البلویٰ في شراب یقال لہ اسپریٹ فالأحوط في زماننا أن یؤدي إلی الجرأۃ في الإثم إذا لم یر الناس منہ خلاصاً کما لا یخفیٰ فالأولیٰ أن لا یتعرض للمبتلی بہ بشيء نعم من قدر علی الاحتراز منہ فلیتحرز ماشاء، کما قال العلامۃ التھانوي رحمہ اللّٰہ۔ (اشرف علی تھانوی، بہشتی زیور عکسی، ’’نواں حصہ: جمادات کا بیان‘‘: ص: ۱۰۱، کتب خانہ اختری، سہارنپور)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص259

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں آپ نے امام کی اقتداء اور ان کے پیچھے تلاوت کی ہے فقہاء احناف نے امام کے پیچھے قرأت کرنے کو مکروہ لکھا ہے تا ہم آپ کی نماز ادا ہو گئی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں امام کے پیچھے مقتدی کے لیے کسی بھی قسم کی قرأت کرنا مکروہ ہے، نیز اس حکم میں سری اور جہری، فرض اور تراویح کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے، کیوں کہ امام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہے، مثلاً: اگر تمام مقتدی باوضو ہوں اور امام کا وضو نہ ہو تو تمام مقتدیوں کی نماز ادا نہیں ہوگی، اسی طرح اگر مقتدی سے سجدہ سہو واجب ہو جائے تو امام پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا، لیکن امام سے سہو ہو جائے تو تمام مقتدیوں پر سجدہ سہو لازم ہوتاہے، اگرچہ کسی مقتدی سے کوئی سہو نہ ہو۔
لہٰذا نماز خواہ سری ہو یا جہری، فرض نماز ہو یا تراویح امام کی قرأت تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہوگی، اور سامع کو یا دیگر مقتدیوں کو امام کے پیچھے قرأت کرنا مکروہ ہوگا۔
’’عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ إمام فقرائۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۱)
’’وقال أبو حنیفۃ وأحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ، … وقال علي ابن أبي طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۲)
’’والمؤتم لا یقرء مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ تقدیرہ لا غیر الفاتحۃ ولا الفاتحۃ‘‘
’’قولہ: (في السریۃ) یعلم منہ نفی القراء ۃ في الجھریۃ بالأولی والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرأ کرہ تحریما) وتصح في الأصح۔ وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ إنھا تفسد ویکون فاسقا، وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذا جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرأ خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘:ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔
(۲) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأعراف: ۲۰۴‘‘: ج ۲، ص:۳۷۲، ۳۷۳، دارالاشاعت دیوبند۔
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، ۲۶۷، زکریا

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص204

 

Hadith & Sunnah

Ref. No. 820 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  مندرجہ ذیل حدیث میں ادنی درجہ کے جنتی کو دس گنا بڑی جنت ملنے کی صراحت موجود ہے۔

عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم – ((إني لأعلم آخر أهل النار خروجاً منها، وآخر أهل الجنة دخولاً الجنة: رجل يخرج من النار حبواً، فيقول الله له: اذهب فادخل الجنة فيأتيها، فيخيل إليه أنها ملأى، فيرجع فيقول: يا رب، وجدتها ملأى، فيقول الله عز وجل: اذهب فادخل الجنة فإن لك مثل الدنيا، وعشرة أمثالها أو إن لك مثل عشرة أمثال الدنيا، فيقول: أتسخر بي – أو أتضحك بي – وأنت الملك؟ قال: فلقد رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ضحك حتى بدت نواجذه، فكان يقال: ذلك أدنى أهل الجنة منزلة)) أخرجه البخاري ومسلم

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خداﷺ نے فرمایا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ یہ ایک ایسا شخص ہو گا جو اوندھے منہ دوزخ سے نکلے گا۔ پھر اللہ اس سے فرمائے گا کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا۔ پس وہ جنت کے پاس آئے گا تو اس کا یہ خیال ہو گا کہ یہ تو بھری ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ جائے گا اور عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا اس پر اللہ تعالی فرمائے گاجا کر جنت میں داخل ہو جا۔پھر وہ اس کی طرف آئے گا تو اسے یہی خیال گزرے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ پس وہ جا کر پھر عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا اس پر اللہ تعالی (تیسری بار)فرمائے گا کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا،تیرے لیے تو وہاں دنیا کے برابر جگہ ہے اور اس سے دس گنا زیادہ ہے۔(اس یقین نہ آئے گا اور وہ سمجھے گا کہ شاید اس سے مذاق کیا جا رہا ہے ) چنانچہ وہ عرض کرے گا کہ اے خدا تو بادشاہ ہو کر مجھ سے مذاق کر رہا ہے (اس حدیث کے راوی بتاتے ہیں کہ) پھر میں نے رسول خداﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔ (راوی یہ بھی بتاتے ہیں کہ )کہا جاتا تھا کہ یہ شخص اہل جنت میں سب سے کم رتبے والا ہو گا۔  

واللہ اعلم بالصواب  

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند