فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوی کے ذریعہ قرآن وحدیث کا حکم بتلایا جاتا ہے، فتوی دینے والا در اصل اللہ تعالیٰ کا حکم بتلاتا ہے، دارالافتاء فتوی دیتا ہے ماننے پر مجبور نہیں کرتا، اس کا ماننا اور اس پر عمل کرنا ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہوتا ہے، اس سے انکار کرنابے جا جرأت اوربے دینی کا عمل ہے، ہاں اگر فتوی میں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یاقابل اشکال ہو، تو اس کو دوبارہ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ (۱)

(۱) رجل عرض علیہ خصمہ فتوی الأئمۃ فردہا وقال: ’’چہ بار نامہ فتوی آوردہ‘‘ قیل یکفر لأنہ رد حکم الشرع وکذا لو لم یقل شیئاً لکن ألقی الفتویٰ علی الأرض وقال: ’’ایں چہ شرع است‘‘ کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفرأنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)
الہازل أو المستہزئ إذا تکلم استخفافاً واستہزاء ومزاحاً یکون کفراً عند الکل، وإن کا اعتقادہ خلاف ذلک۔ (أیضا: ’’ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص:
۲۸۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص158

نماز / جمعہ و عیدین
https://dud.edu.in/darulifta/?qa=7081/%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DA%A9%D9%85%D8%8C%D8%A7%DA%A9%D8%A7%D8%A8%D8%B1-%D9%85%D9%81%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%88%D8%AF%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D8%AA%D9%84%D8%A7%D9%88%D8%AA-%DA%A9%D8%B1%DB%92%D8%9F&show=7081#q7081

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر سر پر مہندی لگی ہو اور وہ خشک ہوگئی، یا جم گئی ہو، تو اس صورت میں سر پر مسح کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ سر پر مہندی خشک ہونے یا جم جانے کی وجہ سے پانی کی تری سر پر پہنچنے سے مانع ہے؛ البتہ اگر مہندی گیلی ہو اور پانی کی تری بالوں تک پہونچنے میں کوئی مانع نہ ہو یا مہندی دھولی گئی ہو اور سر پر صرف مہندی کا رنگ باقی ہو، تو اس پر مسح کرنا درست ہوگا، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’والخضاب إذا تجسد ویبس یمنع تمام الوضوء والغسل، کذا في السراج الوہاج ناقلًا عن الوجیز‘‘(۱)
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’(ولا یمنع) الطہارۃ (ونیم) أي خرء ذباب وبرغوث لم یصل الماء تحتہ (وحناء) ولو جرمہ بہ یفتی، قولہ: (بہ یفتی) صرح بہ في المنیۃ عن الذخیرۃ في مسألۃ الحناء والطین والدرن معللا بالضرورۃ، قال في شرحہا: ولأن الماء ینفذہ لتخللہ، وعدم لزوجتہ وصلابتہ والمعتبر في جمیع ذلک نفوذ الماء ووصولہ إلی البدن‘‘(۲)
نیز آج کل جو مارکیٹ اور بازاروں میں مہندی دستیاب ہے، اگر اس کو استعمال کرنے سے تہ جم جاتی ہو، مثلاً نیل پالش اس کی تہ جم جاتی ہے اس لیے نیل پالش لگانے والی عورت کا وضو اور غسل درست نہیں ہوتا اسی طرح اگر وہ مہندی (جو مارکیٹ میں دستیاب ہے) جسم تک پانی پہنچنے سے مانع ہو، تو ایسی مہندی لگانے سے وضو اور غسل درست نہیں ہوتا ہے۔
اور اگر کیمیکل والی مہندی کی تہ نہیں جمتی، یا تہ جمتی ہے؛ لیکن ایسی نہیں جو جلد تک پانی کے پہنچنے سے مانع ہو؛ بلکہ کیمیکلز کی وجہ سے کھال ہی تہ وپپڑیوں کی شکل میں اترتی ہے، اگر یہی صورتحال ہے  تو ایسی مہندی لگانا جائز ہے۔ اور اس کی پہچان کے لیے فتاویٰ میں دو طریقے لکھے گئے ہیں:
(۱) کیمیکل والی مہندی جسم کے کسی بھی حصے پر لگائیں، سوکھنے کے بعد اسے اتاردیں اور دیکھیں کہ جلد پر مہندی کے کلر سے پسینہ نکلتاہے یا نہیں؟ اگر پسینہ نکلتا ہے، تو یہ محض کلر ہے، تہ وغیرہ نہیں ہے۔ تو ایسی مہندی کا استعمال کرنا جائز ہے۔
(۲) کیمیکل والی مہندی کو کسی کاغذ پر لگائیں، سوکھنے کے بعد اسے اتاردیں، کاغذ پر جو کلر آیا ہے، اس پر پانی کے چند قطرے ڈال کردیکھیں کہ پانی کی تری کاغذ کی دوسری سمت میں آتی ہے یا نہیں، اگرپانی جذب ہوکر دوسری سمت میں آجا تا ہے یا اس کی تری آجاتی ہے، تو معلوم ہوا کہ یہ محض کلر ہے، تہ وغیرہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اس طرح کی مہندی کا استعمال بھی درست ہے۔
’’إن بقی من موضع الوضوء قدر رأس إبرۃ أو لزق بأصل ظفرہ طین یابس أو رطب لم یجز وإن تلطخ یدہ بخمیر أو حناء جاز‘‘(۱)
’’إمرأۃ اغتسلت وقد کان الشان بقی في أظفارہا عجین قد جف لم یجز غسلہا وکذا الوضوء لا فرق بین المرأۃ والرجل لأن في العجین لزوجۃ وصلابۃ تمنع نفوذ الماء، وقال بعضہم: یجوز الغسل لأنہ لا یمنع،والأول أظہر‘‘(۲)
’’و ’’الثالث‘‘ زوال ما یمنع وصول الماء إلی الجسد ’’لحرمۃ الحائل‘‘ کشمع وشحم ’’قید بہ لأن بقاء دسومۃ الزیت ونحوہ لا یمنع لعدم الحائل‘‘(۳)

 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول في فرائض الوضوء، الفرض الثاني، غسل الیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۸۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول في فرائض الوضوء، الفرض الثاني، غسل الیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۔
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي المعروف الحلبي الکبیري، ’’في بیان فضیلۃ المسواک، (فروع)‘‘: ج۱، ص: ۴۲۔
(۳) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: شروط صحۃ الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص174

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزیک وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام سے پڑھنا واجب ہے، اگر درمیان میں دورکعت پر سلام پھیر دیا تو منافی نماز یعنی سلام کے پائے جانے کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے حنفی شخص کا حنبلی مسلک کے مطابق وتر کی نماز پڑھانا درست نہیں ہے۔
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے اس کا جواب یہی ہے کہ اگر حنفی شخص کا شوافع کی اقتدا میں وتر کی نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ تاہم بعض ائمہ احناف نے اس کی گنجائش دی ہے؛ اس لیے اگر ضرورتاً اس طرح نماز پڑھنے کی ضرورت پڑے تو اس کی گنجائش ہے؛ جیسا کہ بسااوقات حرمین شریفین میں اس کی نوبت آجاتی ہے تو ایسے مواقع میں اس طور پر امام کی اقتداء کرلینے کی گنجائش ہے۔
’’(وصح الاقتداء فیہ) ففي غیرہ أولٰی إن لم یتحقق منہ ما یفسدہا في اعتقادہ في الأصح کما بسطہ في البحر (بشافعي) مثلا (لم یفصلہ بسلام) لا إن فصلہ (علی الأصح) فیہما للاتحاد وإن اختلف الاعتقاد‘‘(۱)
’’(قولہ لما روت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا) روی الحاکم وقال علی شرطہما عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم إلا في آخرہن،  قیل للحسن إن ابن عمر کان یسلم في الرکعتین من الوتر فقال کان عمر أفقہ منہ وکان ینہض في الثانیۃ بالتکبیر ‘‘(۲)
’’ولا عبرۃ بحال المقتدي، وإلیہ ذہب الجصاص، وہو الذي اختارہ لتوارث السلف، واقتداء أحدہم بالآخر بلا نکیر مع کونہم مختلفین في الفروع، وإنما کانوا یمشون علی تحقیقاتہم إذا صلوا في بیوتہم، أما إذا بلغوا في المسجد فکانوا یقتدون بلا تقدم وتأخر، ولن ینقل عن إمامنا أنہ سأل عن حال الإمام في المسجد الحرام مع أنہ حج مرارا‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب الاقتداء بالشافعي‘‘: ج۲، ص: ۴۴۴۔
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۶۔
(۳) الکشمیري، فیض الباري، شرح البخاري،’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص254

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد اس جگہ کو کہتے ہیں جو جگہ مسجد کے لیے وقف کردی گئی ہو اور نماز باجماعت کے لیے خاص کردی گئی ہو اور وہاں پر نماز کی عام اجازت ہو، مسجد میں عام طور پر دو حصے ہوتے ہیں: ایک حصہ زمین وہ کہ جس کو نماز کے لیے متعین کرلیا جائے اس حصہ کو مسجد شرعی کہا جاتا ہے اور دوسرا حصہ وہ جو مسجد کی دیگر ضروریات کے لیے متعین کیا جاتا ہے مثلاً وضو خانہ جوتے نکالنے کی جگہ، امام مؤذن کے رہنے کی جگہ اور پانی کی ٹنکی اور ساز و سامان کی حفاظت کی جگہ اس وضاحت کے مطابق جو جگہ مسجد شرعی ہو اس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو مساجد جو راستہ کی مساجد کہلاتی ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ ان مساجد کے نمازی متعین نہ ہوں کوئی محلہ وغیرہ ان سے مربوط نہ ہو، امام و مؤذن متعین نہ ہو وغیرہ۔ اور دوسری وہ مساجد جو محلہ کی مساجد کہلاتی ہیں جہاں نمازی بھی متعین ہوتے ہیں کہ عموماً اہل محلہ وہاں نماز پڑھتے ہیں، امام و مؤذن بھی متعین ہوتے ہیں۔ مذکورہ تفصیل کے مطابق محلہ کی جو مسجد ہو اس کے اس حصہ میں جو نماز کے لیے مخصوص ہو جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے جس کی اصل علت یہ معلوم ہوتی ہے کہ منشاء شریعت تکثیر جماعت ہے اور اگر بار بار جماعت ہو تو وہ تقلیل جماعت کا سبب ہوگا لوگوں کو چاہئے کہ وقت جماعت کی پابندی کریں جماعت کو اپنا پابند نہ کریں اور اگر کسی کی جماعت چھوٹ جائے اوراتنے لوگ ہوں کہ جماعت کی جاسکے تو مسجد شرعی کے حصہ کو چھوڑ کر کسی علاحدہ جگہ جماعت کرلینی درست ہے۔ پس مذکورہ وضاحت کے مطابق دارالعلوم وقف کی دارالحدیث نہ مسجد ہے نہ مسجد کے حکم میں ہے وہ جگہ مسجد کے لیے وقف ہی نہیں ہے لیکن جماعت میں ہر جگہ تکثیر مقصود ہے اس لیے بلا وجہ و بلا عذر پہلی جماعت ترک کرنا غلط ہے۔ اول جماعت کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن اگر کسی کی جماعت چھوٹ جائے تو اسی دارالحدیث میں دوبارہ جماعت درست ہے۔ کوئی کراہت نہیں ہے۔(۱)
(۱) والمسجد إذا کان لہ إمام معلوم وجماعۃ معلومۃ في محلۃ فصلی أہلہ فیہ بالجماعۃ لایباح تکرارہا فیہ بأذان ثان۔ أما إذا صلوا بغیر أذان یباح إجماعاً وکذا في مسجد قارعۃ الطریق، کذا في شرح المجمع للمصنف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:  الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل في الجماعۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
من بنی مسجداً لم یزل ملکہ عنہ حتی یفرزہ عن ملکہ بطریقۃ ویأذن بالصلاۃ فیہ … أو أمرہم بالصلاۃ مطلقا ونوی الأبد ففي ہذین الوجہین صارت الساحۃ مسجداً لومات لایورث عنہ۔ وإما أن وقت الأمر بالیوم أو الشہر أو السنۃ ففي ہذا الوجہ لاتصیر الساحۃ مسجداً لومات یورث عنہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف: الباب الحادی عشر في المسجد ومایتعلق بہ، الفصل الأول فیما یصیر بہ مسجدا و في أحکامہ و أحکام ما فیہ‘‘: ج۱، ص: ۴۰۹، زکریا دیوبند)
ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ، وإذا علموا أنہا لاتفوتہم یتأخرون فتقل الجماعۃ وتقلیل الجماعۃ مکروہ بخلاف المساجد التي علی قوارع الطرق۔ الخ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۱، ص: ۳۸۰، زکریا دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 499

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گھر میں نماز پڑھنے والوں کے لیے اذان واقامت ضروری نہیں ہے تاہم اذان واقامت کے ساتھ نماز ادا کی جائے تو بہتر ہے تاکہ گھر کی نماز بھی مسجد کی جماعت کی ہیئت پر ہو جائے؛ لیکن اگر اذان واقامت کوترک کر دیا تو کوئی حرج نہیں، کیوں کہ مسجد محلہ کی اذان واقامت کافی ہے، تاہم اقامت کا اہتمام پھر بھی کرنا چاہئے۔
شامی میں ہے ’’لکن لا یکرہ ترکہ بمصلی في بیتہ في المصر لأن أذان الحي یکفیہ کما سیأتي‘‘(۱)

(۱) حصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۴۔
(بخلاف مصل) ولو بجماعۃ (وفی بیتہ بمصر) أو قریۃ لہا مسجد؛ فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحی یکفیہ  لأن أذان المحلۃ وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ۔ (ابن عابدین،رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳، زکریا، دیوبند)
فإن صلی في بیتہ في المصر یصلي بأذان وإقامۃ ’’لیکون الأداء علی ہیئۃ الجماعۃ‘‘ وإن ترکہما جاز، لقول ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ أذان الحي یکفینا۔ (المرغیناني، الہدایۃ في شرح بدایۃ المبتدي، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص141

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے باریک کپڑے میں نماز پڑھنا کہ جسم کا اندرون حصہ دکھائی دے درست نہیں ہے، اس لیے کہ نماز میں ستر عورت فرض ہے اور فرض کے فوت ہونے سے نماز نہیں ہوتی ہے ہاں اگر لباس اتنا موٹا ہو کہ جسم کا اندرون دکھائی نہ دیتا ہو لیکن لباس قدرے تنگ ہو کہ جسم کی ساخت معلوم ہوتی ہو تو اس صورت میں نماز درست ہوجائے گی اس لیے کہ ستر عورت پایا جارہا ہے لیکن اس طرح کا لباس پہننا جس سے جسم کی ساخت نمایاں ہوتی ہویہ درست نہیں ہے۔
’’أما لو کان غلیظا لا یری منہ لون البشرۃ إلا أنہ التصق بالعضو وتشکل بشکلہ فصار شکل العضو مرئیا فینبغي أن لا یمنع جواز الصلاۃ لحصول الستر‘‘(۱)
’’في شرح شمس الائمۃ السرخسي: إذا کان الثوب رقیقا بحیث یصف ما تحتہ أي لون البشرۃ لا یحصل بہ ستر العورۃ إذ لا ستر مع رؤیۃ لون البشرۃ‘‘(۲)
’’وکشف ربع عضومن أعضاء العورۃ یمنع صحۃ الصلاۃ‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۰۔)
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلی، ’’مباحث و فروع تتعلق بستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۴۔)
(۳) حسن بن عمار الشرنبلالي، نورالإیضاح، ص: ۶۶۔
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص99

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: قرآن کریم کی تلاوت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ مخارج وصفات کی رعایت کے ساتھ صاف تلفظ میں ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کی جائے خواہ ترتیل سے (خوب ٹھہر ٹھہر کے) پڑھے یا حدر کے ساتھ (قدرے روانی سے پڑھے)۔ باقی لہجے وغیرہ کے حوالے سے قرآنِ مجید کی تلاوت کا کوئی خاص طرز نہیں ہے، البتہ ترنم و نغمات سے پرہیز کرتے ہوئے بلاتکلف عربی لب و لہجے میں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایک روایت میں ہے ’’حسنوا القرآن بأصواتکم‘‘ کہ اپنی آواز کے ذریعہ قرآن کو خوبصورت بناکر پڑھو۔ معلوم ہوا کہ تجوید کی رعایت کے ساتھ بلاتکلف قرآن پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اس لیے نماز میں خاص طورپر خطابی لب ولہجہ جس میں تکلفات کا سہارا لیا جاتا ہے درست نہیں ہے۔
’’وعن حذیفۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (اقرؤوا القرآن بلحون العرب وأصواتہا) عطف تفسیری، أي: بلا تکلف النغمات من المدات والسکنات في الحرکات والسکنات بحکم الطبیعۃ الساذجۃ عن التکلفات (وإیاکم ولحون أہل العشق): أي: أصحاب الفسق (ولحون أہل الکتابین)، أي: أرباب الکفر من الیہود والنصاری، فإن من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘(۱)
’’قال الجزري: اللحون والألحان جمع لحن، وہو التطریب وترجیع الصوت وتحسین قراء ۃ القرآن أو الشعر أو الغناء (وأصواتہا) أي ترنماتہا الحسنۃ التي لا یختل معہا شي من الحروف عن مخرجہ لأن ذلک یضاعف النشاط۔ قال القاري: وأصواتہا عطف تفسیری أي بلا تکلف النغمات من المدات والحرکات الطبیعیۃ الساذجۃ عن التکلفات‘‘(۲)
’’وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: زینوا القرآن بأصواتکم۔ وقال عبد اللّٰہ بن مسعود: لا تنثروہ نثر الدقل، ولا تہذوہ ہذّ الشّعر وقفوا عند عجائبہ، وحرکوا بہ القلوب أي لا تسرعوا في قرائتہ کما تسرعون في قراء ۃ الشعر، والہذ: سرعۃ القطع ہذا، ولیس معنی قولہ سبحانہ {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا} أن یقرأ بطریقۃ فیہا تلحین أو تطریب یغیر من ألفاظ القرآن، ویخل بالقرائۃ الصحیحۃ من حیث الأداء، ومخارج الحروف، والغن والمد، والإدغام والإظہار … وغیر ذلک مما تقتضیہ القراء ۃ السلیمۃ للقرآن الکریم‘‘
’’وإنما معنی قولہ تعالی: {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا} أن یقرأ ہ بصوت جمیل، وبخشوع وتدبر، وبالتزام تام للقرائۃ الصحیحۃ، من حیث مخارج الحروف، ومن حیث الوقف والمد والإظہار والإخفاء، وغیر ذلک‘‘(۳)
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب فضائل القرآن: باب آداب التلاوۃ ودروس القرآن، الفصل الأول‘‘: ج ۵، ص: ۸۶، رقم: ۲۲۰۷۔
(۲) المبارکفوري، مرعاۃ المفاتیح، ’’کتاب فضائل القرآن: باب آداب الصلاۃ:ودروس القرآن‘‘ج ۹، ص: ۱۹۴، رقم: ۲۲۲۹۔
(۳) التفسیر الوسیط للطنطاوي: ج ۱۵، ص: ۲۱۸، قاہرہ۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص216

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہمارے یہاں بہتر اور راجح تو یہی ہے کہ قنوت نازلہ صرف فجر کی نماز میں پڑھی جائے مگر چوں کہ بعض علماء نے دوسری جہری نمازوں میں بھی جائز کہا ہے اس لیے تراویح میں اگر قنوت نازلہ پڑھ لی تو بھی نماز درست ہوگئی۔
قنوت نازلہ میں درود شریف کا پڑھنا بھی جائز ہے کیوں کہ درود شریف کے پڑھنے سے دعاء جلد قبول ہوتی ہے۔
’’وقال الحافظ أبو جعفر الطحاوي: إنما لا یقنت عندنا في صلاۃ الفجر من غیر بلیۃ، فإن وقعت فتنۃ أو بلیۃ فلا بأس بہ، فعلہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ وأما القنوت في الصلوات کلہا للنوازل فلم یقل بہ إلا الشافعي، وکأنہم حملوا ما روي عنہ علیہ الصلاۃ والسلام أنہ قنت في الظہر والعشاء کما في مسلم‘‘
’’وأنہ قنت في المغرب أیضاً کما في البخاري علی النسخ لعدم ورود المواظبۃ والتکرار الواردین في الفجر عنہ علیہ الصلاۃ والسلام اھـ۔ وہو صریح في أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹۔)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص324

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئلہ یہ ہے کہ نفل شروع کرنے سے واجب ہوجاتی ہے پس جب کسی نے نماز نفل شروع کرنے کے بعد کسی وجہ سے توڑ دی تو اس پر اس نماز کا اعادہ واجب ہے بشرطیکہ شروع کرنا صحیح ہو مگر یہاں پر شروع کرنا ہی صحیح نہیں ہوا اس لیے کہ مصلی کے کپڑے شروع سے ہی ناپاک تھے لہٰذا اعادہ اس نماز کا واجب نہیں ہے۔
’’ولزم نفل شرع فیہ …… شروعاً صحیحاً‘‘(۲)

(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص:۴۷۴، ۴۷۵۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص435