اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فجر کے علاوہ میں نماز کی اطلاع دینے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے؛ تاہم متأخرین نے اس کی اجازت دی ہے اور اس کو اچھا سمجھا ہے، لوگوں کی سستی کو دیکھتے ہوئے؛ لہٰذا ضرورت کے وقت اتفاقاً ہو، تو کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) (ویثوّب الخ) ہو لغۃ مطلق العود إلی الإعلام بعد الإعلام وشرعاً ہو العود إلی الإعلام المخصوص، قولہ: (بعد الأذان) علی الأصح لا بعد الإقامۃ کما ہو اختیار علماء الکوفۃ، قولہ: (في جمیع الأوقات) استحسنہ المتأخرون وقد روي أحمد في السنن والبزار وغیرہما بإسناد حسن موقوفاً علي ابن مسعود ما رآہ المسلمون حسناً فہو عند اللّٰہ حسن۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۸)

واستحسن المتأخرون التثویب: التثویب ہو الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفہ أہل کل بلدۃ من الأذانین مثل الصلوٰۃ الصلوٰۃ قوموا إلی الصلوٰۃ وغیرہما وقال: إنہ مکروہ في غیر الفجر، فیہ حدیثان ضعیفان أحدہما للترمذي وابن ماجہ۔ (مجمع الأنہر في ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۶۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص539

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحتِ سوال صورت مسئولہ میں اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو قیاس کے طریقے سے کتاب وسنت کی طرف لوٹانا۔
’’الاجتہاد بذل الوسع في طلب الأمر، والمراد بہ رد القضیۃ من طریق القیاس إلی الکتاب والسنۃ‘‘(۱) کسی فقیہ کا کسی حکم شرعی کو حاصل (استنباط) کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت خرچ کرنے کو بھی اجتہاد کہا جاتا ہے۔
اجتہاد کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْج فَأِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاًہع ۵۹}(۲)
اس آیت کریمہ میں ادلۃ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے۔ {أَطِیْعُوا اللّٰہَ} سے مراد قرآن کریم ہے {أَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} سے مراد سنت ہے {أُولِی الْأَمْرِ} سے مراد علماء اور فقہا ہیں۔ ان میں اگر اختلاف وتنازع نہ ہو؛ بلکہ اتفاق ہو جائے تو اسے اجماعِ فقہاء کہتے ہیں اور اگر {أُولِی الْأَمْرِ} میں علماء وفقہاء کا اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہے اس نئے اور غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن وسنت کی طرف لوٹانا اور استنباط کرنا اجتہادِ شرعی یا قیاسِ مجتہد کہلاتا ہے۔
’’قال أبو بکر الجصاص: إن أولی الأمر ہم الفقہاء لأنہ أمر سائر الناس بطاعتہم ثم قال فإن تنازعتم في شيء فردوہ إلی اللّٰہ والرسول فأمر أولی الأمر برد المتنازع فیہ إلی کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کانت العامۃ ومن لیس من أہل العلم لیست ہذہ منزلتہم لأنہم لا یعرفون کیفیۃ الرد إلی کتاب اللّٰہ والسنۃ ووجوہ دلائلہما علی أحکام الحوادث فثبت أنہ خطاب للعلماء‘‘(۱)
لہٰذا عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے کہ اختلافی مسائل کو کتاب وسنت کی طرف لوٹائے؛ اس لیے کہ لوٹانے کا کیا طریقہ ہے یہ اسے معلوم نہیں ہے اور نہ ہی انہیں نت نئے مسائل مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے؛ اس لئے یہ مقام اور یہ خطاب علماء اور فقہاء ہی کا ہے۔
اجتہاد کا دروازہ ہرایک کے لیے کھلا ہوا ہو اس کی شریعت اسلامیہ میں گنجائش نہیں ہے، البتہ عام تحقیق وتلاش کتاب وسنت میں تدبر وتفکر، ان کے لطائف اور حقائق کا استخراج ہر زمانے کے تکوینی حوادث سے تشریعی مسائل کو تطبیق دے کر مناسب فتاوی دینا ایسے ہی معاندین اسلام کے نئے نئے شکوک وشبہات اور اعتراضات کی تردید کے لیے نصوص شرعیہ سے استنباط کرنا اصول اسلام کے اثبات اور تحقیق کے لئے کتاب وسنت سے تائید پیدا کرنے کا کام ہر دور میں اہل علم کے لیے باقی ہے اور ہر دور میں اہل عمل کے لئے (مذکورہ) میدان باقی ہے اجتہاد کی یہی نوع کل بھی تھی اور آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔(۲)

(۱) محمد بن محمد الحسیني، تاج العروس من جواہر القاموس: ج ۷، ص: ۵۳۹۔
(۲) سورۃ النساء: ۵۹۔

(۱) أحمد بن علی أبوبکر الجصاص، أحکام القرآن، (سورۃ النساء: ۵۹) ’’باب في طاعۃ أولی الأمر‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۷۔
(۲) حکیم الإسلام قاري محمد طیب صاحب، تحقیق: محمد حسنین أرشد قاسمي، اجتہاد اور تقلید: ص: ۷۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص159

متفرقات

Ref. No. 2607/45-4119

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    آپ ﷺ کا معمول رات میں سرمہ لگانے کا تھا، اس لئے رات میں سرمہ لگانا سنت ہے، تاہم دن میں ایسا سرمہ لگانا جس سے زینت مقصود ہوتی ہے مردوں کے لئے مکروہ ہے؛ سادہ سرمہ  یا فائدہ کی غرض سے لگائے جانے والے سرمہ میں  دن میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے۔  خواتین کے لئے ہر طرح کا سرمہ  رات اور دن میں درست ہے۔ آپ ﷺ سے اثمد سرمہ لگانا ثابت ہے۔ سرمہ لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ رات کو سونے سے قبل دونوں آنکھوں میں تین تین سلائی سرمہ لگائے اور دائیں جانب سے ابتداء کرے۔

"عن عكرمة، عن ابن عباس:’’أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يكتحل بالإثمد كل ليلة قبل أن ينام، وكان يكتحل في كل عين ثلاثة أميال‘‘.(مسند أحمد (5 / 343)
"26149- حدثنا عيسى بن يونس ، عن عبد الحميد بن جعفر ، عن عمران بن أبي أنس ، قال : كان النبي صلى الله عليه وسلم يكتحل بالإثمد ، يكتحل اليمنى ثلاثة مراود واليسرى مرودين.
26150- حدثنا يزيد بن هارون ، عن عباد بن منصور ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: كان للنبي صلى الله عليه وسلم مكحلة يكتحل منها ثلاثة في كل عين". (مصنف ابن أبي شيبة – (ج 8 / ص 411)
"عن عكرمة، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن خير ما تداويتم به اللدود والسعوط والحجامة والمشي، وخير ما اكتحلتم به الإثمد، فإنه يجلو البصر وينبت الشعر. وكان لرسول الله صلى الله عليه وسلم مكحلة يكتحل بها عند النوم ثلاثا في كل عين". (جامع الترمذي (رقم الحدیث:2048)
"(لا) يكره (دهن شارب و) لا (كحل) إذا لم يقصد الزينة". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 417)
"ولايكره كحل، ولا دهن شارب كذا في الكنز. هذا إذا لم يقصد الزينة فإن قصدها كره كذا في النهر الفائق، ولا فرق بين أن يكون مفطراً أو صائماً كذا في التبيين". (الفتاوى الهندية (1/ 199)
"لا بأس بالإثمد للرجال باتفاق المشايخ، ويكره الكحل الأسود بالاتفاق إذا قصد به الزينة، واختلفوا فيما إذا لم يقصد به الزينة، عامتهم على أنه لايكره، كذا في جواهر الأخلاطي (الفتاوى الهندية (5/ 359)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جو پانی وضو یا غسل کرنے میں بدن سے گرا وہ پاک ہے مگر چونکہ اب ماء مستعمل (استعمال شدہ پانی) ہو چکا ہے؛ لہٰذا اس سے دو بارہ وضو اور غسل جائز نہیں ہے۔
’’والماء المستعمل لا یجوز استعمالہ في طہارۃ الأحداث والماء المستعمل: ہو ماء أزیل بہ حدث أو استعمل فی البدن علی وجہ القربۃ‘‘(۱)
فقہاء نے اس کی وضاحت کی ہے کہ استعمال شدہ پانی سے پاکی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس پانی کی دو قسمیں ہیں:
ایک استعمال شدہ پانی ایسا ہے کہ جس سے کوئی نجاست یعنی گندگی دھوئی جائے۔ یہ پانی نجس ہو جاتا ہے۔
دوسری قسم یہ کہ جسم پاک ہو لیکن قرب الٰہی کے لیے استعمال کیا جائے جیسے وضو کا پانی۔ یہ پانی تو پاک ہوتا ہے؛ لیکن اس سے پاکی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
پہلی قسم کا ماء مستعمل نجس ہوتا ہے یعنی ناپاک ہوتا ہے۔ دوسری قسم کا ماء مستعمل ناپاک نہیں ہوتا مگر اس سے جسم کو پاک نہیں کیا جا سکتا ہے یعنی دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسے پانی کے قطرے کپڑوں پر گر جائیں تو کوئی حرج نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کپڑے کو ناپاک کرتا ہے۔
’’(وہو طاہر) ولو من جنب وہو الظاہر، لکن یکرہ شربہ والعجن بہ تنزیہاً للاستقذار، وعلی روایۃ نجاستہ تحریماً (و) حکمہ أنہ (لیس بطہور) لحدث بل لخبث علی الراجح المعتمد‘‘(۱)
’’(قولہ: وہو طاہر إلخ) رواہ محمد عن الإمام وہذہ الروایۃ، ہي المشہورۃ عنہ، واختارہا المحققون، قالوا: علیہا الفتوی، لا فرق في ذلک بین الجنب والمحدث۔ واستثنی الجنب في التجنیس إلا أن الإطلاق أولی وعنہ التخفیف والتغلیظ، ومشایخ العراق نفوا الخلاف، وقالوا: إنہ طاہر عند الکل۔ وقد قال المجتبی: صحت الروایۃ عن الکل أنہ طاہر غیر طہور، فالاشتغال بتوجیہ التغلیظ والتخفیف مما لا جدوی لہ، نہر، وقد أطال في البحر في توجیہ ہذہ الروایات، ورجح القول بالنجاسۃ من جہۃ الدلیل لقوتہ‘‘(۱)

(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: مدخل‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص177

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجـواب وباللّٰہ التوفیق: اگر شریعت کے مطابق اور فقہ کی روشنی میں نماز صحیح پڑھاتا ہے اور اس کے عقائد کفر کی حد تک نہ ہوں تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا درست ہے، اولیٰ یہ ہے کہ اس سے بہتر کے پیچھے نماز پڑھے اور دیوبندی کے پیچھے بریلویوں کی نماز بہر صورت جائز اور درست ہے۔(۱)

(۱) روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: صلوا خلف من قال: لا إلہ إلا اللّٰہ وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: صلوا خلف کل بر وفاجر، والحدیث واللہ أعلم وإن ورد في الجمع والأعیاد لتعلقہما بالأمراء وأکثرہم فساق لکنہ بظاہرہ حجۃ فیما نحن فیہ، إذ العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب، وکذا الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم کابن عمر وغیرہ والتابعون اقتدوا بالحجاج في صلاۃ الجمعۃ وغیرہا مع أنہ کان أفسق أہل زمانہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل بیان من یصلح للإمامۃ في الجملۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۸۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص256

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: زید کا مذکورہ معمول درست نہیں ہے۔ مسجد کی پہلی جماعت کے ساتھ ہی سب کو باجماعت نماز اداکرنی چاہئے، درس حدیث بعد نمازبھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ مسجد میں ایک مرتبہ جماعت ہو جانے کے بعد اس میں دوبارہ جماعت کرنا مکروہ ہے۔ اور اس کا معمول بنالینا اور بھی زیادہ بُرا ہے۔
’’عن الحسن قال: کان أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إذا دخلوا المسجد، وقد صلی فیہ، صلوافرادی‘‘(۱)
’’لأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثرالجماعۃ، وإذا علموا أنہا لا تفوتہم یتأخرون فتقل الجماعۃ وتقلیل الجماعۃ مکروہ‘‘(۲)

(۱) ابن أبی شیبۃ، في مصنفہ ’’کتاب الصلاۃ: باب من قال: یصلون فرادی، ولا یجمعون۔ مؤسسۃ علوم القرآن جدید: ج۵، ص: ۵۵، رقم: ۷۱۸۸۔
أما لو کان لہ إمام ومؤذن معلوم فیکون تکرار الجماعۃ فیہ الخ۔ (غنیۃ المستملی المعروف بالحلبي الکبیری، ’’کتاب الصلاۃ، فصل فيأحکام المسجد‘‘: ج ، ص: ، دارالکتاب دیوبند)
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۰،زکریا دیوبند۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 500

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر اذان کے درمیان یاد آیاجائے، تو جو کلمہ چھوٹا ہے وہاں سے آخر تک کلمات اذان کہہ کر اذان کو پورا کرے اور اگر اذان پورا کرنے کے بعد یاد آجائے، تو غلطی درست کرکے آخر تک کلمات کا اعادہ کرے اور اگر کافی وقت گزرنے کے بعد یاد آئے، تو دوبارہ اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ عالمگیری میں ہے:
’’ویرتب بین کلمات الأذان والإقامۃ کما شرع کذا في محیط السرخسي وإذا قدم في أذانہ أو في إقامتہ بعض الکلمات علی بعض نحو أن یقول أشہد أن محمد رسول اللّٰہ، قبل قولہ: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ وإن مضیٰ علی ذلک جازت صلاتہ کذا في المحیط‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘ :الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ: ج ۱، ص: ۱۱۳، مکتبہ: فیصل، دیوبند۔
ویقول ندباً بعد فلاح أذان الفجر: الصلاۃ خیر من النوم مرتین قولہ: بعد فلاح الخ فیہ رد علی من یقول: إن محلہ بعد الأذان بتمامہ وہو اختیار الفضلی۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۴، زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص142

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے دروان اگر ناک سے خون نکل کر اپنی جگہ سے بہہ جائے تو اس کا وضو ٹوٹ گیا اور نماز فاسد ہوگئی اگر وہ تنہا نماز پڑھ رہا تھا تو اسے چاہیے کہ نماز توڑ کر دوبارہ وضوکر ے اور از سر نو نماز پڑھے اور اگر وہ امام یا مقتدی تھا، تو اگر جماعت ملنے کی امید ہے تو استیناف یعنی از سر نو پڑھنا افضل ہے اور اگر جماعت ملنے کی امید نہیںہے تو بناکرلے۔
’’من سبقہ حدث توضأ وبنی، کذا في الکنز، والرجل والمرأۃ في حق حکم البناء سواء، کذا في المحیط۔ ولایعتد بالتی أحدث فیہا، ولا بد من الإعادۃ، ہکذا في الہدایۃ والکافی۔ والاستئناف أفضل، کذا في المتون۔ وہذا في حق الکل عند بعض المشایخ، وقیل: ہذا في حق المنفرد قطعًا، وأما الإمام والمأموم إن کانا یجدان جماعۃً فالاستئناف أفضل أیضًا، وإن کانا لایجدان فالبناء أفضل؛ صیانۃً لفضیلۃ الجماعۃ، وصحح ہذا في الفتاوی، کذا في الجوہرۃ النیرۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس في الحدث في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲۔
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص99

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اس طرح کی آواز آنے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور نماز سری ہی رہے گی۔(۱)
 (۱) وأدنی (الجہرإسماع غیرہ) وأدنی (المخافتۃ إسماع نفسہ) ومن بقربہ، فلو سمع رجل أو رجلان فلیس بجہر، والجہر أن یسمع الکل۔ خلاصۃ (ویجري ذلک) المذکور (في کل مایتعلق بنطق، کتسمیۃ علی ذبیحۃ ووجوب سجدۃ تلاوۃ وعتاق وطلاق واستثناء) وغیرہا۔
قولہ: وأدنی الجہر إسماع غیرہ الخ۔ اعلم أنہم اختلفوا في حد وجود القراء ۃ علی ثلاثۃ أقوال: فشرط الہندواني والفضلي لوجودہا: خروج صوت یصل إلی أذنہ، وبہ قال الشافعي: وشرط بشر المریسی وأحمد: خروج الصوت من الفم وإن لم یصل إلی أذنہ، لکن بشرط کونہ مسموعاً في الجملۃ، حتی لو أدنی أحد صماخہ إلی فیہ یسمع۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ: مطلب في الکلام علی الجہر والمخافتۃ‘‘: ج ۲، ص:۲۵۲، ۲۵۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص218

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قنوت نازلہ نماز فجر میں اس وقت پڑھی جاتی ہے جب عام مسلمان کسی مصیبت وپریشانی میں پڑ جائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے سخت ترین مصائب میں قنوت نازلہ پڑھنا ثابت ہے اور حالات درست ہونے پر موقوف کردی جائے۔
’’عن عاصم عن أنس: إنما قنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (أي الفجر) شہراً یدعو علی أناس قتلوا أناسا من أصحابہ یقال لہم: القراء‘‘(۲)
’’عن عاصم بن سلیمان قلنا لأنس: إن قوماً یزعمون أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یزل یقنت في الفجر، فقال: کذبوا۔ إنما قنت شہراً واحداً یدعو علی حي من أحیاء المشرکین‘‘(۱)
’’ووفق شیخنا بین روایۃ الطحاوي عن أئمتنا أولا وبین ما حکی عنہ شارح المنیۃ: بأن القنوت في الفجر لا یشرع لمطلق الحرب عندنا وإنما یشرع بلیۃ شدیدۃ تبلغ بہا القلوب الحناجر، واللّٰہ اعلم، ولو لا ذلک للزم الصحابۃ القائلین بالقنوت النازلۃ أن یقنتوا أبداً ولا یترکوہ یوما لعدم خلو المسلمین عن نازلۃ ما غالباً، لا سیما في زمن الخلفاء الأربعۃ‘‘(۲)

(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ،’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب استحباب القنوت في جمیع الصلاۃ إذا نزلت بالمسلمین نازلۃ‘‘ :ج۱، ص۲۳۷ رقم: ۶۷۷۔)
(۱)  ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن: ج ۶، ص: ۹۶، رقم: ۱۷۱۱۔)
(۲) أیضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص325