فقہ

Ref. No. 2249/44-2398

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر نے اجازت دیدی اور بیوی اجازت کے بعد ہی اپنے میکہ گئی ہے ، اس لئے شرط کے مطابق بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، بیوی کو اس اجازت کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 758):

"(لاتخرجي) بغير إذني أو (إلا بإذني) أو بأمري أو بعلمي أو برضاي (شرط) للبر (لكل خروج إذن) إلا لغرق أو حرق أو فرقة ولو نوى الإذن مرةً دين، وتنحل يمينه بخروجها مرةً بلا إذن، ولو قال: كلما خرجت فقد أذنت لك سقط إذنه، ولو نهاها بعد ذلك صح عند محمد، وعليه الفتوى.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 2309/44-3472

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ واقعہ حیاۃ الصحابہ میں موجود ہے اور طبرانی کے حوالہ سے اس پر حسن ہونے کا حکم لگایاہے، اس لئے روایت درست ہے، آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ آٹھ رکعت تراویح کی روایت تو اس کے علاوہ بھی کتب حدیث میں موجودہے، تاہم احناف نے بیس رکعت تراویح کو ترجیح دی ہے، اس لئے کہ بیس رکعت تراویح بھی روایت اور تواترعمل سے ثابت ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ حضرات اور دیگر دیوبندی حضرات بلاشبہ مسلمان اور اہل سنت والجماعت ہیں۔(۱)  کلمہ گو اور ارکان اسلام کے ماننے والے اور اس پر عمل کرنے والے کو کافر کہنا بہت بڑا گناہ ہے؛ بلکہ کفر کہنے والے ہی کی طرف لوٹتا ہے، جیسا کہ احادیث میں صراحت سے واضح ہوتا ہے(۲) بلا شبہ علماء دیوبند صراط مستقیم پر ہی ہیں۔

(۱) وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعین ملۃ کلہم في النار إلا ملۃ واحدۃ قالوا: من ہي یارسول اللّٰہ؟ قال: ما أنا علیہ وأصحابي۔  (أخرجہ الترمذي، فی سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۱)
(۲) أیما رجل قال لأخیہ یا کافر فقد باء بہا أحد ہما إن کان کما قال وإلا رجعت علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب من قال لأخیہ المسلم یا کافر‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۶۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص252

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو رواج بنا کر نہ کیا جائے، البتہ بغیر تاریخ کی تعیین کے اور بغیر کسی زبردستی کے کبھی بھی لوگوں کو بلا کر جتنا بھی وہ خوشی سے پڑھنا چاہیں پڑھوا کر دعاء یا ایصالِ ثواب کرادیا جائے، اور آیت کریمہ یا سورۂ یٰسین یا ختم قرآن کے ان موقعوں پر شیرینی وغیرہ کا التزام بھی نہ کیا جائے کہ اس میں ناموری کا اور کھانے کا لالچ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ثواب یا تو بالکل ہی نہیں ہوتا یا کم ہو جاتا ہے۔(۱)
(۱) من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص367

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مولانا مودودی کے بعض عقائد معتزلہ اور خوارج کے عقائد سے میل کھاتے ہیں جو کہ فرقہ باطلہ میں شمار کئے گئے ہیں؛ اس لیے جو مولانا مودودی کا ان کے اعتقاد میں بھی مقلد ہے، اس کی امامت مکروہ ہوگی، جماعت اسلامی کے صدر مولانا ابو اللیث نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جماعت اسلامی ان کے عقائد میں ان کا اتباع نہیں کرتی پس جن کے عقائد ان عقائد باطلہ سے میل نہیں کھاتے ان کے پیچھے نماز مکروہ نہیں ہوتی۔(۱)

(۱) وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز ما لم یعلم منہ ما یفسد الصلاۃ علی اعتقاد المقتدي علیہ الإجماع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الاقتداء بشافعي ونحوہ الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۲)
وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بر وفاجر ما لم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص250

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر مذکورہ مسجد میں امام اور مؤذن مقرر ہیں اور نماز وجماعت کے اوقات بھی مقرر ہیں، تو اس مسجد میں جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ شرعی مسجد سے الگ ہٹ کر دوسری جگہ پر جماعت ثانیہ کر سکتے ہیں؛ لیکن اس کی عادت نہ ڈالیں کہ اس میں جماعت اولیٰ کی تقلیل اور اس کی طرف سے بے توجہی ہے جو ایک مسلمان کے لیے مناسب نہیں ہے۔
’’یکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أوفي مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن ویکرہ أي تحریماً لقول الکافي، لا یجوز، والمجمع لا یباح، وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي ’’قولہ بأذان وإقامۃ‘‘۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ مالہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا، قال في المنبع: والتقیید بمسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعاً‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸، زکریا دیوبند۔
المسجد إذا کان لہ إمام معلوم وجماعۃ معلومۃ في محلۃ، فصلی أہلہ فیہ بالجماعۃ لایباح تکرارہا فیہ بأذان ثان، أما إذا صلوا بغیر أذان یباح إجماعاً وکذا في مسجد قارعۃ الطریق، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، فصل في الجماعۃ‘‘:ج۱، ص: ۴۱، ۱۴۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 491

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اگر عورت اذان کہہ دے تو وہ اذان طریقہ مسنونہ کے مطابق ادا نہیں ہوگی۔ بنا بریں دو بارہ کسی مرد کا اذان کہنا مستحب ہوگا۔
(۲) ۱۲؍ سال سے کم عمر کا بچہ، جنبی، مدہوش، مجنون، عورت، اگر اذان کہہ دیں تو اعادہ کرنا ہوگا یعنی کوئی مرد دوبارہ اذان کہے۔(۱)

(۱) وکرہ أذان المرأۃ فیعاد ندباً، کذا في الکافي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا دیوبند)
وأنہ یکرہ أذان المرأۃ والصبي العاقل ویجزی حتی لا یعاد لحصول المقصود وہو الإعلام وروي عن الإمام أنہ تستحب إعادۃ أذان المرأۃ … وذکر في البدائع أیضا أن أذان الصبي الذي لا یعقل لا یجزی ویعاد لأن ما یصدر لا من عقل لا یعتد بہ کصوت الطیور۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲، مکتبہ: زکریا دیوبند)
ویکرہ بل لا یصح أذان صبي لا یعقل… وأذان المرأۃ لأنہا إن خفضت صوتہا أخلت بالإعلام وإن رفعتہ ارتکبت معصیۃ لأنہ عورۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹-۲۰۰، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
ویعاد أذان جنب ندباً لا إقامتہ وکذا یعاد أذان إمرأۃ ومجنون و معتوہ وسکران وصبي لا یعقل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰-۶۱، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص137

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئلہ میں آپ نے ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ‘‘ کہنے کے  بجائے ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہہ دیا، اگر آپ ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ‘‘ کہنا بالکل بھول جائیں تو بھی نماز ادا ہوجائے گی اس لیے کہ یہ تکبیراتِ انتقالیہ ہیں اور تکبیراتِ انتقالیہ نماز کی سنتوں میں سے ہیں اور سنت کو چھوڑ نے یا چھوٹ جانے سے نہ تو نماز فاسد ہوتی اور نہ سجدہ سہو لازم ہوتا ہے۔ ایسے ہی آپ کے ’’ربنا لک الحمد‘‘ کی جگہ آمین کہنے سے بھی نماز نہیں ٹوٹتی اس لیے کہ لفظ ’’آمین‘‘ ایک دعائیہ کلمہ ہے جس کا معنی ہے: اے اللہ! قبول فرما لیجیے! اور نماز کی حالت میں کسی دعائیہ کلمہ کا زبان سے ادا کرنا نماز کے لیے مفسد نہیں ہے، خواہ آپ امام کے پیچھے پڑھ رہے ہوں یا انفرادی طور پر، دونوں صورتوں میں لفظ ’’ربنا لک الحمد‘‘ کی جگہ ’’آمین‘‘ کہہ دیا تو بھی اس سے نماز فاسد نہیں ہو ئی۔ جیسا کہ کتب فقہ میں اس کی تفصیلات مذکور ہیں۔
’’(قولہ: والدعاء بما یشبہ کلامنا) ہو ما لیس في القرآن ولا في السنۃ ولا یستحیل طلبہ من العباد، فإن ورد فیہما أو استحال طلبہ لم یفسد‘‘(۱)
’’وہو إسم فعل معناہ اسمع واستجب أو معناہ کذلک فلیکن أو إسم من أسمائہ تعالی قالہ ابن الملک‘‘(۲)
’’ومعناہا: کذلک فلیکن۔ وقیل: اللہم اسمع واستجب‘‘(۳)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۷۔)
(۲)ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ج ۳، ص: ۳۴۵،  إدارۃ شؤون الإسلامیۃ، دولۃ قطر۔)
(۳) منحۃ السلوک في شرح تحفۃ الملوک،  ’’ کتاب الصلاۃ، فصل في بیان شروط الصلاۃ و أرکانھا‘‘: ص: ۱۳۲۔
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص92

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زبان سے قرأت کرنا نماز میں ضروری ہے صرف دل دل میں سوچتے رہنا کافی نہیں ہے۔ اس سے نماز ادا نہیں ہوگی؟(۱) البتہ جو شخص زبان سے قرأت کرنے پر قطعاً قادر نہ ہوتو وہ مجبور سمجھا جائے گا۔
(۱) ثم المخافتۃ أن یسمع نفسہ والجہر أن یسمع غیرہ، وہذا عند الفقیہ أبي جعفر الہندواني لأن مجرد حرکۃ اللسان لایسمی قراء ۃ بدون الصوت وقال الکرخي: أدنی الجہر أن یسمع نفسہ وأدنی المخافۃ تصحیح الحروف، لأن القراء ۃ فعل اللسان دون الصماخ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷،۱۱۸)
وقال الشیخ کمال الدین بن الہمام، واعلم أن القراء ۃ وإن کانت فعل اللسان لکن فعلہ الذي ہو کلام والکلام بالحروف والحروف کیفیۃ تعرض للصوت لا للنفس فمجرد تصحیحہا بلا صوت إیماء إلی الحروف بعضلات المخارج لاحروف فلا کلام۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلی، ’’متی تتحقق القراء ۃ شرعاً‘‘: ج ۲، ص: ۹۷، جدید)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص213

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قنوت نازلہ میں کچھ الفاظ کا اضافہ کرنے اور کسی ملک کا نام لینے کی اجازت ہے اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلوں کا نام لے کر لعنت فرمائی ہے۔(۱)

(۱) عن سالم عن أبیہ أنہ سمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رفع رأسہ ……من الرکعۃ الآخرۃ من الفجر یقول: اللّٰہم العن فلانا وفلاناً وفلاناً۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب المغازي، باب: لیس لک من الأمر شیء‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۲، رقم:۴۰۶۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص322