نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: اس پر نمازپڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(۱)

(۱) وأما طہارۃ مکان الصلاۃ فلقولہ تعالٰی: {أَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِہ۱۲۵} وقال في موضع والقائمین والرکع السجود ولما ذکرنا أن الصلاۃ خدمۃ الرب تعالٰی وتعظیمہ وخدمۃ المعبود المستحق للعبادۃ وتعظیمہ بکل الممکن فرض، وأداء الصلاۃ علی مکان طاہر أقرب إلی التعظیم فکان طہارۃ مکان الصلاۃ شرطا، وقد روي عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ أنہ نہي عن الصلاۃ في المزبلۃ والمجزرۃ ومعاطن الإبل وقوارع الطرق والحمام والمقبرۃ وفوق ظہر بیت اللّٰہ تعالٰی۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص264

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مقتدی کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔(۱)
(۱) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ قالوا: ہذا اذا ارتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری، وأما إذا قرأ أو تحول ففتح علیہ تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح أنہا لاتفسد صلاۃ الفاتح بکل حال وصلاۃ الامام لو آخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي، ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ لجوازہ أن یتذکر من ساعتہ فیبصیر قارئا خلف الإمام من غیر حاجۃ، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص92

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن افضل یہ ہے کہ فجر اور ظہر میں طوال مفصل، عصر وعشاء میں اوساط مفصل؛ مغرب میں قصار مفصل میں سے پڑھے۔(۲)
(۲) ففي جامع الفتاویٰ: روي الحسن عن أبي حنیفۃ أنہ قال: لا أحب أن یقرأ سورتین بعد الفاتحۃ في المکتوبات، ولو فعل لایکرہ، وفي النوافل لابأس بہ۔ (قولہ إلا بالمسنون) وہو القراء ۃ من طوال المفصل في الفجر والظہر وأوساطہ في العصر والعشاء وقصارہ في المغرب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۴)
واستحسنوا في الحضر طوال المفصل في الفجر والظہر، وأوساطہ في العصر والعشاء، وقصارہ في المغرب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص212

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں جب کہ وتر کی تیسری رکعت کے رکوع میں مسبوق شریک ہوا اور تیسری رکعت اس نے پالی تو تیسری رکعت میں اس کے آنے سے پہلے جو کچھ امام نے کیا ہے یہ مسبوق اس کا پانے والا کہلائے گا اس لیے مسبوق مذکور امام کے بعد اپنی دو رکعت ادا کرے مگر قنوت نہیں پڑھے گا۔(۱)

(۱) قولہ : فیقنت مع إمامہ فقط: لأنہ آخر صلاتہ، ومایقضیہ أولہا حکما في حق القراء ۃ وما أشبہھا وہو القنوت۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص321

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ الاوابین کی علاوہ سنت مؤکدہ مغرب کے کم از کم چھ رکعات ہیں زیادہ سے زیادہ بیس رکعات ہیں اور تہجد کی نماز آٹھ رکعت ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہی تھا اور زیادہ بارہ تک ہیں اور کم سے کم دو رکعات ہیں۔
’’عن أبی سلمۃ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیہا بینہن بسوء، عدلن لہ بعبادۃ ثنتي عشر سنۃ‘‘(۱)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من صلی بعد المغرب عشرین رکعۃ بنی اللّٰہ لہ بیتا في الجنۃ‘‘(۲)
’’عن أبي سعید وأبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا استیقظ الرجل مـن اللیــل وأیقظ امرأتہ، فصلیا رکعتین کتبــا من الذاکــرین اللّٰہ کثیرا والذاکرات‘‘(۱)
’’وصلاۃ اللیل وأقلہا علی ما في الجوہرۃ ثمان … قال یصلي ما سہل علیہ ولو رکعتین، والسنۃ فیہا ثمان رکعات بأربع تسلیمات … فینبغي القول بأن أقل التہجد رکعتان وأوسطہ أربع وأکثرہ ثمان‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم۴۳۵ نعیمیہ۔)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم۴۳۵ نعیمیہ۔)
(۱)أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فیمن أیقظ أھلہ من اللیل۔‘‘ ص۹۴،رقم ۱۳۳۵)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷،۴۶۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص430

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1254

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  اگر یقینی طور پر معلوم ہو تو دعوت قبول کرنے سے اجتناب  کریں ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1077

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

It is allowable. 

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1003/41-164

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Recite Surah Taha (in juzz 16) and make Dua. And read ‘Yaa Lateefu’ as often as possible. May Allah make it easy for you!

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1337/42-721

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زکوۃ کی رقم مدرسہ میں دیتے وقت وضاحت کے ساتھ بتادینا ضروری ہے کہ یہ زکوۃ کی رقم ہے۔ اس لئے کہ مدرسہ میں کچھ مصارف ایسے ہیں کہ ان میں زکوۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی ورنہ دینے والے کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ زکوۃ مالدار کے لئے میل کچیل ہے مگر غریب اور مستحق  طلبہ کے لئے وہ ایک صاف ستھرا اور حلال مال ہے۔ اس لئے آئندہ جب بھی زکوۃ کی رقم کسی مدرسہ میں دیں تو زکوۃ ہی کہہ کر دیاکریں۔ تاہم اگر آپ کسی مستحق کو زکوۃ کی رقم براہ راست دیں تو اس کو ہدیہ کہہ کردینا چاہئے تاکہ اس کو شرمندگی نہ ہو۔ اور اس طرح زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی۔

ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه (ھندیۃ، الباب السابع فی المصارف 1/188) وتبدل الملك بمنزلة تبدل العين وفي الحديث الصحيح «هو لها صدقة ولنا هدية» (شامی 2/342)

 واللہ اعلم بالصواب

کتبہ محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس
محترم مفتیان کرام السلام علیکم۔ ایک ضروری مسئلہ ھے۔ایک کمپنی ھے وہ اڈے کے مالکان سے کہتے ہیں کہ آپ ھر سواری سے 20 روپے اضافہ کرایہ کے علاوہ لے اور ہمیں دے دیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ھوجائے تو ھم اس فنڈ سے میت کے ورثا کو(5) پانچ لاکھ روپے دینگے اور گاڈی کو نقصان کی صورت میں (20 )بیس لاکھ روپے گاڈی پر خرچ کرینگے۔اور کوئی حادثہ نہ ھو جائے تو ھم اس فنڈ سے غریبوں پر خرچ کرینگے۔آیا یہ معاملہ جائز ھے یا حرام تفصیل سے جواب دے کر وضاحت کریں۔بینوا توجروا