Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر چند نمازیں کسی وجہ سے چھوٹ جائیں توان کی قضاء کرتے وقت ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ خندق کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں رہ گئی تھیں، تو آپ نے بالترتیب ان کی قضاء فرمائی تھی۔(۱)
نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من نسی صلاۃ فلم یذکرھا إلا وھو مع الإمام فلیصل مع الإمام ولیجعلھا تطوعا ثم لیقض ماتذکر ثم لیعد ماکان صلاہ مع الإمام‘‘(۲)
(۱) عن جابر بن عبد اللّٰہ أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شغل یوم الخندق عن صلاۃ الظہر والعصر والمغرب والعشاء حتی ذہبت ساعۃ من اللیل فأمر بلالا فأذن وأقام فصل الظہر ثم أمرہ فأذن وأقام فصلی العصر ثم أمرہ فأذن وأقام فصلی المغرب ثم أمرہ فأذن وأقام فصل العشاء: ثم قال ما علی ظہر الأرض قوم یذکرون اللّٰہ في ہذہ الساعۃ غیرکم۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۸)(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲۔الترتیب بین الفروض الخمسۃ والوتر اداء وقضاء لازم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۳)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 185
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: درود ابراہیمی سب درودوں میں افضل ہے وہی پڑھنا چاہئے، تاہم جب اس کو پڑھنا مشکل ہو تو آپ پڑھیں: ’’اللھم صل علی محمد وعلی أٓل محمد وبارک وسلم‘‘ اور صرف ’’اللہم صلی علی محمد‘‘ پڑھنا بھی درست ہے(۱) دعاء ماثورہ کی جگہ پڑھیں:’’ربنا أٓتنا في الدنیا حسنۃ وفي الأخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ یا ’’اللھم اغفرلي‘‘ تین بار پڑھیں۔(۲)
(۱) وقد روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال لا یدخل الجنۃ أحد بعملہ إلا برحمۃ اللّٰہ قیل ولا أنت یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال ولا أنا إلا أن یتغمدني اللّٰہ برحمتہ، دل علیہ أنہ جاز قولہ: اللہم صلی علیہ محمد، والصلاۃ من اللّٰہ رحمۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: فصل، في سنن حکم تکبیر أیام التشریق‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳)(۲) ومن لا یحسن القنوت یقول: {رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِہالنصف ۲۰۱ } (سورۃ البقرہ: ۲۰۱) وقال ابو اللیث یقول: اللہم اغفرلي ویکرر ثلاثا انتہی۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۶، مکتبہ الاتحاد، دیوبند)وقیل یقول: یا رب ثلاثاً ذکرہ في الذخیرۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: في منکر الوتر والسنن أو الإجماع‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۳)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 184
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: زوال سے پہلے پہلے ادائیگی میں فجر کی فرض کے ساتھ سنت بھی ادا کی جائے گی در مختار میں ہے کہ اس سنت کی قضاء بھی سنت ہے۔
’’ولم تقض سنۃ الفجر إلا بفوتہا مع الفرض إلی الزوال‘‘(۱)
(۱) أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۴۵۳۔قولہ: (ترکہا أصلا) أي لا یقضیہا قبل الطلوع ولا بعدہ؛ لأنہا لا تقضی إلا مع الفرض إذا فات وقضی قبل زوال یومہا۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: في تکرار الجماعۃ والاقتداء بالمخالف‘‘: ج ۲، ص: ۴۰)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 183
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جائز ہے؛ مگر بہتر اور اولیٰ یہ ہے کہ عید کی نماز کے بعد قضاء کرے۔
’’إذا قضی صلاۃ الفجر قبل صلاۃ العید لا بأس بہ ولو لم یصل صلاۃ الفجر لا یمنع جواز صلاۃ العید وکذا یجوز قضاء الفوائت القدیمۃ قبلہا؛ لکن لو قضاہا بعدہا فہو أحب وأولیٰ، ہکذا في التتار خانیۃ ناقلا عن الحجۃ‘‘(۳)
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر: في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱۔
وفي الحجۃ: وإذا قضی صلاۃ الفجر قبل صلاۃ العبد لا بأس بہ، ولو لم یصل صلاۃ الفجر لا یمنع جواز صلاۃ العید، وإن لم یکن علیہ فجر ذلک الیوم، ولک أراد أن یقضي الفوائت القدیمۃ یجوز، لکن لو قضی بعدہا أحب وأولی لئلا یقع الناس في التقلید ولا یتبعہ غیرہ في النوافل۔ (ابن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل السادس والعشرون: في صلاۃ العیدین، نوع آخر من ہذا الفصل في المتفرقات‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:182
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذہب حنفی میں صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب تک فرض وسنت کے علاوہ تحیۃ المسجد یا تحیۃ الوضو وغیرہ نوافل پڑھنا جائز نہیں ہے،(۱) البتہ قضاء نماز پڑھنا جائز ہے؛ لیکن وہ بھی عوام کے سامنے نہ پڑھیں کہ اس سے اپنی غلطی پر لوگوں کو متنبہ کرنا ہوگا؛ اس لیے کہیں الگ جگہ پر پڑھ لیا کریں۔
’’وکذا الحکم من کراہۃ نفل وواجب لغیرہ لا فرض وواجب لعینہ بعد طلوع فجر سوی سنتہ لشغل الوقت بہ تقدیراً الخ‘‘(۲)
(۱) قولہ (وبعد طلوع الفجر بأکثر من سنۃ الفجر) أي ومنع عن التنفلبعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر بأکثر من سنتہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘:ج ۲، ص: ۳۷۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:181
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: چار رکعت جس طرح ادا نماز پڑھتے ہیں، مثلاً: دو بھری اوردو خالی پڑھنی چاہئیں اور عشاء کے ساتھ وتر نماز کی قضا بھی لازم ہے۔(۱)
(۱) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رقد أحدکم عن الصلاۃ أو غفل عنہا فلیصلہا إذا ذکرہا فإن اللّٰہ یقول {أقم الصلاۃ لذکری} (سورہ طٰہٰ: ۱۴) (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)عن النبي علیہ السلام: أنہ قال: إذا رقد أحدکم عن الصلاۃ أو غفل عنہا فلیصلہا إذا ذکرہا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب قضائہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:181
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے، نماز کواس کے وقت کے گزرنے کے بعد پڑھنے کی عادت ڈال لینا خلاف شریعت اور باعث گناہ ہے جس کی وجہ سے آدمی فاسق بن سکتا ہے؛ پس ایسا جان بوجھ کر نہ کرنا چاہئے ورنہ تو دنیاوی وبال اور آخرت کے عذاب کا مستحق ہوگا،(۱) اگر واقعی طور پر ایسا ہے تو اس کو نماز فجر (وقت گزرنے کے بعد) قضاء پڑھنی چاہئے؛ پس اگر یہ قضاء فرض کی استواء شمس سے پہلے ہے، تو سنت فجر کی قضاء بھی کی جائے گی اور اگر استواء الشمس کے بعد قضاء کرتا ہے، تو سنت فجر کی قضاء نہیں ہوگی۔(۲)
(۲) أي لا یقضی سنۃ الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فیقضیہا تبعا لقضاء ہ لو قبل الزوال، وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع للکراہۃ النفل بعد الصبح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۲)
وفي المحیط لا تقضی السنۃ بعد الزوال وإن تذکر مع الفرض من غیر ذکر خلاف ’’وفي جامع بدر الدین الورسکي‘‘ لا یقضي بعد الزوال لأن السنۃ جاء ت بالقضاء في وقت مجمل فلا یقاس علیہ آخر۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ، حکم من انتہی إلی الإمام في صلاۃ الفجر‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:180
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر کی فرض پڑھنے کے بعد سورج نکلنے سے قبل وتر کی قضاء درست ہے۔(۲)
(۲) ولا یکرہ قضاء فائتۃ ولو وتراً …… وعن ہذا قال في القنیۃ: الوتر یقضي بعد الفجر بالإجماع بخلاف سائر السنن۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۲۹)ومنع …… عن التنفل بعد صلاۃ الفجر والعصر لا عن قضاء فائتۃ۔ (مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلاۃ: الأوقات المنہي من الصلاۃ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:179
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جتنی نمازیں قضاء ہوں سب کی ادائے گی ضروری ہے۔ اگر صاحب ترتیب نہیں ہے، تو نمازوں کا اندازہ کر کے ان کو جس طرح چاہے ادا کرے خواہ وقتی نماز سے پہلے پڑھے یا بعد میں ہر ایک وقت میں بہت سی نمازیں ادا کرے جیسا بھی آسان ہو، مگر اس میں وتر کی بھی قضاء کرنی ہوگی۔(۱)
(۱) فالأصل فیہ أں کل صلاۃ فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاء ہا سواء ترکہا عمداً وسہواً أو بسبب نوم وسواء کانت الفوائت قلیلۃ أو کثیرۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۰، ۱۴۱)إذ ارقد أحدکم عن الصلاۃ أو غفل عنہا فلیصلہا إذا ذکرہا فإن اللّٰہ عز وجل یقول أقم الصلاۃ لذکري۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب تعجیل قضائہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:178
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وتر کی نماز امام صاحب کے نزدیک واجب ہے اور صاحبین کے نزدیک سنت ہے، سنت فرض کے تابع ہوتی ہے، اگر فرض نماز نہیں ہوئی تو فرض کے ساتھ سنت کا بھی اعادہ کرنا ہوتاہے، واجب فرض کے تابع نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے اگر فرض کا اعادہ کرنا ہو تو واجب کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اس اصول کی روشنی میں اگر کسی کی عشاء کی نماز کسی وجہ سے فاسد ہو جائے اور وتر کی نماز صحیح ہو تو صاحبین کے مذہب کے مطابق صبح صادق سے پہلے اگر عشاء کا اعادہ کرے تو وتر کا بھی اعادہ کرنا ہوگا اور اگر صبح صادق کے بعد عشاء کی قضاء کرے تو سنت کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن امام صاحب کے مذہب کے مطابق کسی صورت میں وتر کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اور متاخرین نے امام صاحب کے قول پر فتویٰ دیا ہے؟ اس لیے اگر کسی نے عشاء کی نماز بلا وضو کے یا ناپاکی کی حالت میں پڑھی پھر اس نے پاکی کی حالت میں وتر کی نماز پڑھی بعد میں معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز نہیں ہوئی ہے تو صرف عشاء کی نماز لوٹانی ہوگی وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وعند أبي حنیفۃ وقتہ وقت العشاء؛ لأن الوتر عندہ فرض عملا، والوقت إذا جمع بین صلاتین واجبتین کان وقتا لہما جمیعا کالفائتۃ والوقتیۃ۔ فإن قیل: لو کان وقت الوتر وقت العشاء لجاز تقدیمہ علی العشاء۔ أجاب بقولہ (إلا أنہ لا یقدم علیہ عند التذکر) یعني إذا لم یکن ناسیا (للترتیب) وعلی ہذا إذا أوتر قبل العشاء متعمدا أعاد الوتر بلا خلاف، وإن أوتر ناسیا للعشاء ثم تذکر لا یعیدہ عندہ؛ لأن النسیان یسقط الترتیب ویعیدہ عندہما؛ لأنہ سنۃ العشاء کرکعتي العشاء، فلو قدم الرکعتین علی العشاء لم یجز عامدا کان أو ناسیا فکذلک الوتر‘‘(۱)
’’إن أوتر في وقت العشاء قبل أن یصلي العشاء وہو ذاکر لذالک لویجزہ بالاتفاق وفي الکافي: ولو صلی العشاء بلا وضوء ثم توضأ وصلی السنۃ والوتر ثم علم أنہ صلی العشاء بلا وضوء یعید العشاء عندہ والسنۃ ولا یعید الوتر وعندہما یعید الوتر أیضاً‘‘(۲)
(۱) محمد بن محمد، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۴۔
(۲) ابن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل العشرون، قضاء الفوائت‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۰۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:177