Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں ہی تمام قسم کے خیر انجام پاتے تھے، بہت سے وہ کام جو آج مسجد میں نہیں ہوتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں انجام دئے جاتے تھے۔ تعلیم وتزکیہ کی مجلس مسجد میںہی ہوتی تھیں، وعظ ونصیحت مسجد میں ہوتے تھے، صحابہ قرآن کی تلاوت مسجد میں کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگی امور کے مشورہ مسجد میں ہی کیا کرتے تھے، دو لوگوں کے درمیان اگر نزاع ہوجائے، تو اس کا تصفیہ مسجد میں ہوتا تھا، ابتداء میں بہت سے صحابہ کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں تھا، تو صحابہ مسجد میں ہی سوتے تھے، غرض کہ آپ کے زمانہ میں ہر امور خیر کو مسجد میں ہی انجام دیا جاتا تھا، رات میں بھی صحابہ سے مسجد میں قرآن پڑھنا اور نفل پڑھنا ثابت ہے؛ اس لیے اگریہ کام تبلیغی حضرات مسجد میں اس طرح انجام دیں کہ کسی دوسرے کو اپنی عبادت میں کوئی خلل نہ ہو، تو یہ درست اور عہد صحابہ کے معمول سے ثابت ہے۔(۱)
(۱) {فِيْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللّٰہُ أَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗلا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْأٰصَالِہلا ۳۶} (سورۃ النور: ۳۶)
عن أبي ہریرۃ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الملائکۃ تصلي علی أحدکم مادام في مصلاہ، ما لم یحدث: اللہم اغفرلہ، اللہم أرحمہ، لا یزال أحدکم في صلاۃٍ مادامت الصلاۃ تحبسہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب من جلس في المسجد ینتظر الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۶۵۹)
وقد کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من صلاتہ قال بصوتہ إلا علی لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وتقدم وقد کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأمر من یقرأ القرآن في المسجد أن یسمع قراء تہ وکان ابن عمر یأمر من یقرأ علیہ وعلی أصحابہ وہم یستمعون ولأنہ أکثر عملاً وأبلغ في التدبر ونفعہ متعد لإیقاظ قلوب الغافلین وجمع بین الأحادیث الواردۃ بأن ذلک یختلف بحسب الأشخاص والأحوال فمتی خاف الریاء أو تأذی بہ أحد کان الإسرار أفضل ومتی فقد ما ذکر کان الجہر أفضل قال في الفتاوی لا یمنع من الجہز بالذکر في المساجد۔ (أحمد بن محمد، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صفۃ الأذکار‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸)
عبد اللّٰہ بن عمر، (أنہ کان ینام وہو شاب أعذب لا أہل لہ في مسجد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم) (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب لزم الرجال فی المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۸۰، رقم: ۴۴۰)
ولا بأس للغریب ولصاحب الدار أن ینام في المسجد في الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘ : ج ۵، ص: ۳۲۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص87
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آجکل مردوں کی تعلیم کی طرف تو علماء و دیگر حضرات توجہ دے رہے ہیں لیکن عورتوں کی تعلیم کے لئے کوئی خاص نظم موجودہ دور میں مسلم معاشرہ میں نہیں پایا جاتا حالانکہ جس طرح مردوں پر حصول تعلیم لازم و ضروری ہے اسی طرح دینی تعلیم، تشریع اسلامی فقہ و حدیث وغیرہ کا حاصل کرنا عورتوں پر بھی ضروری ہے کم ازکم اس درجہ حصول تعلیم تو فرض ہے کہ نماز، روزہ، حج وزکوٰۃ اور ان کے شرائط مثلاً طہارت وغیرہ سے پورے طور پر اس کو جانکاری حاصل ہوجائے اور ارکان اسلام کی صحیح ادائے گی پر عورت قادر ہو۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ‘‘ (الحدیث) بعض حضرات نے ’’مسلمۃ‘‘ کے لفظ کو مدرج فی الحدیث کہا ہے، اگر اس لفظ کو مدرج ہی مانا جائے تب بھی حدیث صرف مردوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ’’مسلم‘‘ کے لفظ میں تبعاً عورتیں بھی داخل ہیں، نیز اتنا علم حاصل کرنا ضروریات و واجبات دین میں سے ہے اور اس سے زائد حاصل کرنے میں دینی ومعاشرتی فائدے بیشمار ہیں۔
خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس عورتوں کو مسائل بتلاتے اور عورتیں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل دریافت کرتیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خصوصاً فقہ اسلامی میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مسائل دریافت کیا کرتے تھے، فقہاء کے یہاں بھی اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں صاحب بدائع صنائع علامہ کاسانی رحمہ اللہ جو فقہ حنفی کے اہم افراد و متبحرین میں شمار کئے جاتے ہیں، ان کی صاحبزادی اور اہلیہ فقہ میں بڑی مہارت رکھتی تھیں حتی کہ ہر فتویٰ پر ان کی صاحبزادی کے دستخط لازمی ہوتے تھے۔ لوگ ان سے مسائل معلوم کرتے اور وہ لوگوں کو مسائل بتلاتی تھیں۔ اسی طرح کی بہت سی مثالیں اسلامی معاشرہ میں ملتی ہیں۔ در مختار کے ایک مسئلہ سے اس کی پوری وضاحت ہوتی ہے در مختار میں ہے کہ: اگر کمسن لڑکی کی شادی باپ دادا کے علاوہ نے یا کسی کمسن باندی کی شادی غیر آقا نے کرادی تو وقت بلوغ ان دونوں کو خیار حاصل ہوگا کہ قاضی شرعی کے یہاں درخواست دے کر اس نکاح کو ختم کرادیں۔ شرط یہ ہے کہ جب بالغ ہو تو فوراً عدم رضا کا اظہارکرے اور اپنے تئیں یہ طے کرے کہ اس نکاح کو باقی نہیں رکھنا۔ اگر بلوغ کے سال دو سال بعد اپنا خیار فسخ حاصل کرنا چاہے تو خیار فسخ حاصل نہ ہوگا اگر آزاد عورت یہ کہے کہ مجھے مسئلہ معلوم نہیں تھا کہ فوراً فسخ کا اظہار ضروری ہے تو اس کی بات قابل اعتناء و اعتبار نہ ہوگی ہاں اگر باندی یہ کہے کہ مجھے مسئلہ معلوم نہیں تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ باندی کو تو حصول علم کا موقع نہیں ملتا کہ وہ اتنا علم حاصل کرے اور آزاد عورت کو مواقع حاصل ہیں۔ اس لئے اس پر لازم تھا کہ وہ اتنا علم حاصل کرتی (کتاب النکاح از درمختار) معلوم ہوا کہ ایسے باریک جزئیات پر بھی نظر ہونی ضروری ہے آجکل عورتیں نماز روزہ، نماز میں سجدۂ سہو، سے ہی غافل ہیں اس لئے کہ ان کی تعلیم کا مردوں نے کوئی نظم ہی نہیں کیا، رہا یہ کہ عورتوں کی تعلیم کے لئے اگر مردوں کو معلم رکھا جائے تو ’’صوۃ المرأۃ عورۃ‘‘ سے اعتراض لازم آئے گا سو مندرجہ بالا واقعات کے پیش نظر اس کی ضرورت بھی شدید ہے پس مدرسہ میں اگر پردہ کے ساتھ تعلیم کا نظم ہو اور مرد معلم ہو تو بھی مضائقہ نہیں حتی الامکان عورتیں ہی تعلیم دیں، لیکن ضرورت کے وقت پردہ کے معقول نظم کے ساتھ اگر مرد بھی تعلیم دے تو اس کی بھی گنجائش ہوگی۔
البتہ یہ لازم ہے کہ خود مرد عورتوں کی خبر گیری نہ کریں اسٹاف عورتوں ہی کا ہو۔ اختلاط ہر گز نہ ہو۔ جہاں کلام و بات چیت لازم ہوجائے وہاں معقول پردہ کا لحاظ رکھا جائے۔ دارالاقامہ میں پردہ کا معقول نظم ہو اس کی دیواریں اونچی ہوں وغیرہ لیکن اگر کسی لڑکی کے بارے میں یہ یقین مکمل طور پر ہو یا خود اس لڑکی کو یقین ہو کہ زنا میں مبتلا ہوجائے گی تو وہ گھر ہی میں رہ کر معمولی علم حاصل کرے جو حضرات ایسے وقت پر بھی دارالاقامہ یا مدرسہ میں طالبات یا کسی طالبہ کا آنا لازم قرار دیں یہ درست نہیں ان لوگوں کی بات شرعاً قابل تردید ہے۔ بعض خصوصی واقعات و ضروریات لازمہ کے پیش نظر علماء دیوبند مدارس البنات نہ کھول سکے ان کا مشن مردوں کی تعلیم رہا مواقع اس کے نہ مل سکے کہ اس طرف کامل طور پر توجہ دے سکتے۔ الحاصل عورتوں کی تعلیم کے نظم کی ضرورت ہے اس کی مخالفت درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) وعن الشفاء بنت عبد اللّٰہ قالت: دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أنا عند حفصۃ فقال: (ألا تعلمین ہذہ رقیۃ النملۃ کما علمتنیہا الکتابۃ، رواہ أبو داؤد۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطب والرقي، الفصل الثاني‘‘: ج ۸، ص: ۳۷۸، رقم: ۴۵۶۱)
وقال صاحب بذل المجہود، وفیہ دلیل علی جواز تعلم نساء الکتابۃ الخ۔ (بذل المجہود: ج ۵، ص: ۸)
وکن نسائٌ یبعثن إلی عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: بالدرجۃ فیہا الکرسف فیہ الصفرۃ، فتقول: ألا تعجلن حتی ترین القصۃ البیضاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض: باب إقبال المحیض وإدبارہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۶)
إعلم أنہ لما کان الرجال یہیجہم النظر إلی النساء علی عشقہن والتولہ بہن، ویفعل بالنساء مثل ذلک، وکان کثیراً ما یکون ذلک سبب لأن یبتغي قضاء الشہوۃ منہن علی غیر السنۃ الراشدۃ، کاتباع من ہي في عصمۃ غیرہ، أو بلا نکاح، أو غیر اعتبار کفائۃ والذي شوہد في ہذ الباب یغني عما سطر في الدفاتر اقتضت الحکمۃ أن یسد ہذا الباب۔ (الإمام الشاہ ولي اللّٰہ محدث الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ج ۱، ص: ۶۸۶)
وکل عمل ولو تبرعاً لأجنبي ولو قابلۃ أو مغلسۃ لتقدم حقہ علی فرض الکفایۃ، ومن مجلس العلم إلا لنازلۃ امتنع زوجہا من سؤالہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطلاق: باب النفقۃ، مطلب في الکلام علی المؤنسۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص182
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان کی امامت درست ہے۔ کتب فقہ میں ہے کہ صرف پانی یا صرف ڈھیلے سے استنجا کرنے سے سنت استنجا حاصل ہو جاتی ہے؛ لیکن افضل اور بہتر یہ ہے کہ دونوں سے استنجا کر ے ۔
فتاویٰ شامی میں ہے:ثم إعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل ویلیہ في الفضل الاقتصار علی الماء أو علی الحجر وتحصل السنۃ بالکل۔(۲)
و غسلہ بالماء أفضل لقولہ تعالیٰ فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا نزلت في أقوام کانوا یتبعون الحجارۃ الماء ثم ھو أدب و قیل سنۃ في زماننا۔(۳)
الأفضل الجمع بینھما، فإذا اقتصر علی أحدھما فالماء أولی۔ و إن اقتصر علی الحجر جاز۔(۱)
(۲)ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۰
(۳)المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۷۹۔
(۱) بدرالدین العیني، البنایہ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۷۵۶
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص90
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر گنجے کے سر میں زخم وغیرہ نہیں جس سے خون بہتا ہو تو امامت اس کی بلاکراہت درست ہے کوئی وجہ عدم جواز یا کراہت کی نہیں۔(۱)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ والعقل، والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار، کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ والثلثغ وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نورالایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸- ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص54
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: سنن مؤکدہ کا تارک اور ترک پر اصرار کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہوگیا اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، کسی نیک، دیندار سنت کے پابند شخص کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ مسنون طریقہ پر ادا کیا جاسکے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق … أما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً … بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۱)
’’الذي یظہر من کلام أہل المذہب أن الإثم منوط بترک الواجب أو السنۃ المؤکدۃ علی الصحیح لتصریحہم بأن من ترک سنن الصلوات الخمس قیل لا یأثم والصحیح أنہ یأثم۔ ذکرہ في فتح القدیر‘‘(۲)
’’رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقا فقد کفر لأنہ ترک استخفافاً وإن رأی حقا منہم من قال لا یأثم والصحیح أنہ یأثم لأنہ جاء الوعید بالترک‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب فيالسنۃ وتعریفہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، زکریا، دیوبند۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا ،دیوبند، وہکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج۱، ص: ۱۷۱، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص182
بدعات و منکرات
Ref. No. 2751/45-4285
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ مقولہ تو ہماری ناقص معلومات میں نہیں آسکا تاہم آپ صلی اللہ علیہ سلم کی محبت کے حوالے سے یہ حدیث مشکوۃ شریف میں مسلم شریف کے حوالے سے ضرور ملتی ہے۔
’’عن زر بن حبيش قال قال علي رضي الله عنه والذي فلق الحبة وبرء النسمة أنه لعمد النبي الامى صلي الله عليه وسلم الي ان لا يحبني الا مؤمن ولا يبغضني الا منافق‘‘ (رواه مسلم)
اسی مضون کی روایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’’قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحب عليا منافق ولا يبغضه مؤمن رواه أحمد والترمذي وقال هذا حديث حسن، غريب اسناداً وعنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من سب عليا فقد سبني، رواه أحمد‘‘ (مشكوة شريف: ص: 564، دار الكتاب ديوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وقت فجر شروع ہونے کے بعد فجر کی اذان پڑھی جائے وقت سے پہلے نہ پڑھی جائے، وقت سے پہلے پڑھی ہوئی اذان فجر کی اذان شمار نہیں ہوگی(۱) اور سحری کے ختم ہونے کی اطلاع کے لیے اذان نہیں ہے۔ امام صاحب کو بیان کردہ مسئلہ سے رجوع کرنا چاہئے اور صحیح مسئلہ پر عمل کرنا چاہئے کسی عمل کا صدیوں تک ہوتے رہنا اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
(۱) قال الحصکفي: وقت الفجر من طلوع الفجر الثاني إلی طلوع ذکاء۔ (الحصکفي الدر مع الرد، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب في تعبدہ علیہ السلام الخ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴، زکریا دیوبند)
وقال ابن عابدین تحت حد الصوم: وہو الیوم أي الیوم الشرعي من طلوع الفجر إلی الغروب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم‘‘: ج ۳، ص: ۳۳۰، زکریا دیوبند)
وقال الحصکفي: فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ وقال: وہو سنۃ للرجال … مؤکدۃ للفرائض الخمس۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، ۵۰، زکریا دیوبند)
وإن أذن قبل دخول الوقت لم یجزہ ویعیدہ في الوقت لأن المقصود من الأذان إعلام الناس بدخول الوقت فقبل الوقت یکون تجہیلاً لا إعلاماً۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص160
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس طرح نماز میں امام کو چاہئے کہ مقتدیوں کے حالات کے پیش نظر ہلکی نماز پڑھائے اسی طرح دعا میں بھی مقتدیوں کے حالات کو سامنے رکھے اور درمیانی طریقہ کار اختیار کرے نہ بہت وقت دعا میں لگائے اور نہ بہت ہی کم۔ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں ان میں سلام کے بعد مختصر دعا کر کے سنتوں میں مشغول ہو جانا چاہئے؛ البتہ سنتوں کے بعد انفرادی طور پر دیر تک دعا مانگنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔(۱)
(۱)فإن کان بعدہا أی بعد المکتوبۃ تطوع یقوم إلی التطوع بلا فصل إلا مقدار ما یقول: اللہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذ الجلال والإکرام، ویکرہ تاخیر السنۃ عن حال أداء الفریضۃ بأکثر من نحو ذلک القدر، وقد یوفق بأن تحمل الکراہۃ علی کراہۃ التنزیہ، ومراد الحلواني عدم الإسائۃ ولو فعل لا بأس بہ ولا تسقط السنۃ بذلک حتی إذا صلاہا بعد الأوراد تقع سنۃ موداۃ لا علی وجہ السنۃ، فالحاصل: أن المستحب فی حق الکل وصل السنۃ بالمکتوبۃ من غیر تاخیر إلا أن الاستحباب في حق الإمام أشد حتی یؤدي تاخیرہ إلی کراہۃ لحدیث عائشۃ بخلاف المقتدي، (والمنفرد الخ)۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي: ص: ۳۴۱-۳۴۴، مکتبہ: الاشرفیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص428
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق:ائمہ احناف کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ نہ سورہؐ فاتحہ کا جز ہے اور نہ ہی سورۂ نمل کے علاوہ کسی سورت کا؛ بلکہ یہ مستقل آیت ہے اور قرآن کریم کا جز ہے جو ہر سورت کے شروع میں دو سورتوں کے درمیان فصل کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، درمختار میں ہے۔
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال صلیت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان فلم أسمع أحدا منہم یقرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أنہ حدثہ قال صلیت خلف النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان فکانوا یستفتحون بالحمد للّٰہ رب العالمین لا یذکرون بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم في أول قرائۃ ولا في آخرہا‘‘(۲)
’’عن أنس قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان یفتتحون القرائۃ بالحمد للّٰہ رب العالمین، قال أبو عیسیٰ ہذا حدیث حسن صحیح‘‘(۱)
’’روی البخاري في صحیحہ من حدیث أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: کنت أصلي في المسجد فدعاني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم أجبہ فقلت: یا رسول اللّٰہ کنت أصلي ، فقال : ألم یقل اللّٰہ : استجیبوا للّٰہ وللرسول إذا دعاکم (الانفال: ۲۴) ثم قال لي : ألا أعلمک سورۃ ہي أعظم سورۃ في القرآن؟ قلت ما ہي ؟ قال الحمد للّٰہ رب العلمین ، ہي السبع المثاني والقرآن العظیم الذي أوتیتہ فأخبر أنہا السبع المثاني، ولو کانت البسملۃ آیۃ منہا لکانت ثمانیا، لأنہا سبع آیات بدون البسملۃ‘‘(۲)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب حجۃ من قال: لا یجہر بالبسملۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، رقم: ۳۹۹، نعیمیہ دیوبند)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب في افتتاح القرائۃ بالحمد للّٰہ رب العالمین‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۲۴۶، نعیمیہ دیوبند۔)
(۲) بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’باب في صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۹۶، نعیمیہ دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص225
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنتوں کا گھر میں پڑھنا اولیٰ ہے مسجد میں پڑھنا بھی درست ہے۔(۱)
(۱) الأفضل في السنن والنوافل المنزل لقولہ علیہ السلام: صلاۃ الرجل في المنزل أفضل إلا المکتوبۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع في النوافل، من المندوب صلاۃ الضحی‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)
والأفضل في عامۃ السنن والنوافل المنزل ہو المروي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص352