Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1000

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Yes, this Hadith ‘Allah created Adam in His image’ is recorded in Bukhari and other Hadith books. The pronoun 'ہ' in the hadith refers to Allah as it is stated in another hadith ‘in the image of Rahman’. In the hadith the word “image” refers to “attributes”, Thus, Adam was created possessing attributes of Allah while the attributes of Allah are eternal and absolute. (Faizul Bari 6/187)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1320/42-697

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مائک خریدنے کے لئے گرچہ چندہ محلہ والوں سے لیا گیا ہو مگر ان کے دینے کا مقصد بھی مسجد میں اذان دینا  اورمسجد سے متعلق دیگر امور ہیں۔ اس لئے  اگر مسجد میں کوئی چیز گم ہوگئی تو اس کا اعلان مسجد  کے مائک سے ہوسکتاہے، اسی طرح اگر کوئی بچہ گم ہوجائے تو اس کے لئے بھی اعلان کی گنجائش ہے، لیکن اس کے علاوہ مسجد کے مائک سے  ہر گمشدہ چیز کا اعلان کرنا جائز نہیں ہے۔ نیز اس کی عام اجازت دینے میں منتظمین کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑسکتاہے اور آپسی نزاع کا باعث بھی ہے۔ اس لئے مسجد کے مائک سے  انسانی جان کے علاوہ دیگرگمشدہ  چیزوں کا اعلان درست نہیں ہے۔  تاہم مسجد میں میت اور جنازہ کا اعلان درست ہے۔  رسول اللہ ﷺ نے نجاشی (شاہِ حبشہ) کی موت کا اعلان مسجد میں کیاتھا، اسی طرح ’’غزوۂ موتہ‘‘ کے امراء  کی شہادت کی اطلاع دی، اس وقت  آپ ﷺ   مسجد میں منبر پر تشریف فرماتھے۔( شرح البخاری للعینی  4/22) (آپ کے مسائل اور ان کا حل 3/261) تاہم اگر خاص مائک کے لئے ہی محلہ والوں سے چندہ کرکے مائک خریدا گیا  ہواور مسجد کے باہر سے اعلان ہو تو پھر اس سے عام اعلانات بھی ہوسکتے ہیں اور اذان بھی دی جاسکتی ہے۔

شرط الواقف کنص الشارع أی فی المفہوم والدلالة ووجوب العمل بہ۔ (الدر المختار، کتاب الوقف / مطلب فی قولہم شرط الواقف کنص الشارع،  وکذا فی الأشباہ والنظائر، کتاب الوقف / الفن الثانی، الفوائد: ۱۰۶/۲) (تنقیح الفتاویٰ الحامدیة ۱۲۶/۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1447/42-915

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سیاہ بالوں کو کسی دوسرے رنگ میں رنگنافی نفسہ جائز ہے، مگر چونکہ آج کل بطور فیشن غیروں کی تقلید  میں ایسا کیا جارہا ہے اس لئے مناسب نہیں ہے۔

 الاختضاب بالورس والزعفران يشارك الاختضاب بالحناء والكتم في أصل الاستحباب. وقد اختضب بهما جماعة من الصحابة. روى أبو مالك الأشجعي، عن أبيه، قال: كان خضابنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الورس والزعفران (4) ، وقال الحكم بن عمرو الغفاري: دخلت أنا وأخي رافع على أمير المؤمنين عمر، وأنا مخضوب بالحناء، وأخي مخضوب بالصفرة، فقال عمر: هذا خضاب الإسلام. وقال لأخي رافع: هذا خضاب الإيمان  (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، الاختضاب بالکتم والحناء 2/279)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنے والا سخت گناہگار ہے اور اعانت علی المعصیت کا شکار ہے، اس پر توبہ لازم ہے۔(۱)

 

(۱) من اعتقد الحرام حلالاً أو علی القلب یکفر، أما لو قال لحرام ہذا حلال لترویج السلعۃ أوبحکم الجہل لا یکون کافراً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالحلال والحرام‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)

{مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌہ۱۸} (سورۃ قٓ: ۸۱)

اسلامی عقائد

Ref. No. 1743/43-1498

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ﷺ سے دسترخوان پر کھانا ثابت ہے اور دستر خوان بچھا کر کھانا سنت ہے۔ آپ نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں خود دستر خوان پر کھانے کا ثبوت ہے ، حدیث میں سفر کا لفظ ہے جس کے معنی چمڑے کے دسترخوان کے ہیں ۔جہاں تک حدیث میں خوان کا لفظ ہےجس پر آپ ﷺ نہیں کھاتے تھے اس سے مخصوص قسم کا دسترخوان مراد ہے جو عام طورپر متکبرین لوگ استعمال کرتے تھے اور عموما یہ زمین سے کچھ بلندہوتاتھا اسی لیے بعض لوگوں نے کرسی کے سامنے ٹیبل پر کھانے سے اس کی تفسیر کی ہے ۔آپ ﷺ کھانے میں تواضع اور بندگی کا مظاہرہ کرتے ستھے اس لیے زمین پر دستر خوان بچھاکرکھاتے تھے ۔

وعن وهب بن كيسان قال كان أهل الشأم يعيرون ابن الزبير يقولون يا ابن ذات النطاقين. فقالت له أسماء يا بنى إنهم يعيرونك بالنطاقين، هل تدرى ما كان النطاقان إنما كان نطاقى شققته نصفين، فأوكيت قربة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بأحدهما، وجعلت فى سفرته آخر،-قوله: (السفرة) ما يوضع عليه الطعام من جلد، والخوان هو الصيني من خشب، وليس بطوالة منبر، ولا بمنضدة تصلى الله عليه وسلم - قوله: (على سكرجة) صحاف صغار، يوضع فيها ألوان من الطعام، والمراد نفي الألوان من طعامه.قوله: (ولا أكل على خوان) وهو لفظ فارسي، وحرف الواو لا تتلفظ في الفارسية، فإذا عربت تلفظ بها.(فیض الباری ،باب الخبزالمرقق،رقم 5388)

ولا أكل على خوان قط " أي ولا أكل في حياته كلها على مائدة من تلك الموائد النحاسية المرتفعة عن الأرض التي يأكل عليها العظماء والمترفون: " قيل لقتادة فعلى ما كانوا يأكلون " أي على أي شيء يأكل محمد - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه " قال: على السفر " التي تمد على الأرض تواضعاً وزهداً في الدنيا ومظاهرها. فقه الحديث: دل هذا الحديث على أنه - صلى الله عليه وسلم - اختار لنفسه طريق الزهد(منار القاری شرح صحیح  البخاری، باب الخبز المرقق والاکل علی الخوان،5/144)
خُونْجا أو خُونْجة: (من الفارسية خوان واللاحقة التركية للتصغير): منضدة صغيرة توضع عليها الصحاف، صينية من الخشب أو المعدن تقدم عليها الأواني والصحون والأكواب وغير ذلك(تکملۃ المعاجم العربیۃ،4/244

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل
سوال واضح کرکے لکھیں

Usury / Insurance

Ref. No. 2239/44-2383

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Whether the rate of interest is low or high, whether the interest is given by a private institution or by the government, the interest will be unlawful and haram in Islamic Shariah.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگرگھر کے لوگ جمع ہوں اور ساتھ میں کوئی فرد یا چند افرادبھی جمع ہوکر تلاوت وغیر ہ کریں اور یہ لوگ میت کے لیے ایصال ثواب کریں اور کسی کی طرح اجرت وغیرہ کی کوئی بات نہ ہو تو درست ہے اور جو کھانا ان کے لیے تیار کیا گیا ہے اس کا کھانادرست ہے (۱) اور مالدار لوگ اجرت کے طور پر پڑھنے کے لیے نہیں آئے ہیںاور نہ ہی وہ کھانا صدقہ و خیرات کا ہے؛ بلکہ لوگ جمع ہیں تو کھانا بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ ہاں اگر اکثر غرباء ہوتے تو شبہ ہوتا کہ کھانا صدقہ کے طور پر ہے یا پڑھنے والے اجرت کے طور پر پڑھ رہے ہیں۔ تاہم اس میں ثواب کی نیت معلوم نہیں ہوتی؛ بلکہ دکھاوا معلوم ہوتا ہے اس سے پرہیز ہی کرنا بہتر ہے۔ (۲) ہاں اگر بطور اجرت ہے، جیسا کہ عام طور پر ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کے موقع پر ہوتا ہے تو مالداروں کے لیے کھانا ناجائز ہے۔

(۱) یکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی المقبرۃ في المواسم واتخاذ الدعوۃ بقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام أو الإخلاص۔ قال البرہان الحلبي: ولا یخلو عن نظر لأنہ لا دلیل علی الکراہۃ إلا حدیث جریر المتقدم۔ (الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في حملہا ودفنہا: ص: ۶۱۷)
(۲) والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قرائۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ۔ وفیہا من کتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاما للفقراء کان حسنا۔ وأطال في ذلک في المعراج۔ وقال: وہذہ الأفعال کلہا للسمعۃ والریاء فیحترز عنہا، لأنہم لا یریدون بہا وجہ اللّٰہ تعالی۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
قال تاج الشریعۃ في شرح الہدایۃ: إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقارء۔ وقال العیني: في شرح الہدایۃ: ویمنع القارئ للدنیا، والآخذ والمعطی آثمان۔ فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال؛ فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا ’’إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘‘۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص415

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 2527/45-3996

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ہماری معلومات کے مطابق 'بوٹوکس' ایک طرح کا  پروٹین والا انجکشن ہے؛ جس کو جلد کے اوپری حصہ میں لگایا جاتاہے تاکہ پٹھوں کو محدود وقت کے لیے حرکت کرنے سے روکا جا سکے اور چہرے کی سکڑی ہوئی جلد کو چکنا اور برابر کرکے جھریوں کو مٹایاجاسکے، یعنی  یہ انجکشن چہرے پر جھریوں کو ہموار کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بوٹوکس انجکشن یا اس مقصد کے لئے استعمال ہونے والے دیگر انجکشن   کا کام یہ ہوتاہے کہ وہ نیوروٹرانسمیٹر ایسٹیلکولین کے اخراج کو روک دیتے ہیں  اور بعض نسوں میں روغن کی آمد و رفت کو روک دیتے ہیں ۔

 ظاہر ہے یہ طریقہ علاج غیرفطری ہے، اس میں بہت سارے مضرات  کا اندیشہ ہے ،۔ جو بیکٹریا ہمارے اجسام اور جلد کی حفاظت کے لئے ہیں ان کو مارنا یا ان کی فعالیت کو ختم کردیناکئی بیماریوں (جیسے بوٹولزم، فلیکسڈ فالج)  کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔

انسان کو اللہ تعالی نے جس خلقت پر بنایا ہے اسی کو باقی رہنے میں اس کی بھلائی ہے، اس میں چھیڑچھاڑ سے ناقابل برداشت امراض کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔ اس لئے خوبصورتی کے لئے مذکورہ  طریقہ علاج اختیار کرنا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت حلیمہ سعدیہ ایام رضاعت میں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کے زمانے میں مسلمان نہیں تھیں مگر موحد ہوسکتی ہیں، اگرچہ یہ بات کہیں نظر سے نہیں گزری اور غالباً وہ غزوۂ حنین کے بعد اسلام لائی ہیں۔(۱)

(۱) عن برۃ بنت أبي تجراۃ قالت: أول من أرضع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثویبۃ بلبن ابن لہا یقال لہ: مسروح أیاماً قبل أن تقدم حلیمۃ وکانت قد أرضعت قبلہ حمزۃ بن عبد المطلب وأرضعت بعدہ أبا سلمۃ بن عبد الأسد المخزومي۔
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کانت ثویبۃ مولاۃ أبي لہب قد أرضعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أیاماً قبل أن تقدم حلمیۃ وأرضعت أبا سلمۃ بن عبد الأسد معہ فکان آخاہ من الرضاعۃ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن سعد، الطبقات الکبری: ج ۱، ص: ۱۰۸)
وصحح ابن حبان وغیرہ حدیث إسلام حلیمۃ وانتہا الشیماء۔ (أبو مدین: بن أحمد: ج ۱، ص: ۸۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص236