نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ التسبیح احادیث سے ثابت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس کی ترغیب دی ہے اس کی بڑی فضیلت ہے اس کا انکار کرنا جہالت ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال للعباس یا عماہ… ألا أخبرک عشر خصال إذا أنت فعلت ذلک غفر اللّٰہ لک ذنبک؛ أولہ وآخرہ، قدیمہ وحدیثہ، خطأہ وعمدہ، صغیرہ وکبیرہ، سرہ وعلانیتہ أن تصلي أربع رکعات تقرأ في کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ فإذا فرغت من القرا ء ۃ في أول رکعۃ وأنت قائم قل سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر … فذلک خمس وسبعون في کل رکعۃ تفعل ذلک في أربع رکعات أن استطعت أن تصلیہا في کل یوم مرۃ فافعل فإن لم تفعل ففي کل جمعۃ مرۃ فإن لم تفعل ففي کل سنۃ مرۃ فإن لم تفعل ففي عمرک مرۃ، رواہ أبوداود وابن ماجہ والبیہقي في الدعوات الکبیر وروي الترمذي عن أبي رافع نحوہ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب تفریع أبواب التطوع و رکعات السنۃ، باب صلاۃ التسبیح‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۴۔
حدثناہ أبو علي الحسین بن علي الحافظ إملاء من أصل کتابہ، ثنا أحمد بن داؤد بن عبدالغفار بمصر، ثنا إسحاق بن کامل، ثنا إدریس بن یحیی، عن حیوۃ بن شریح، عن یزید بن أبي حبیب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: وجہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جعفر بن أبي طالب إلی بلاد الحبشۃ، فلما قدم اعتنقہ وقبل بین عینیہ، ثم قال: ألا أہب لک، ألا أبشرک، ألا أمنحک، ألا أتحفک؟ قال: نعم، یا رسول اللّٰہ۔ قال: تصلي أربع رکعات تقرأ في کل رکعۃ بالحمد وسورۃ، ثم تقول بعد القراء ۃ وأنت قائم قبل الرکوع: سبحان اللّٰہ، والحمد للّٰہ، ولا إلہ إلا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر، ولا حول ولاقوۃ إلا باللّٰہ خمس عشرۃ مرۃ، ثم ترکع فتقولہن عشراً تمام ہذہ الرکعۃ قبل أن تبتدئ بالرکعۃ الثانیۃ، تفعل في الثلاث رکعات کما وصفت لک حتی تتم أربع رکعات ہذا إسناد صحیح لاغبار علیہ، ومما یستدل بہ علی صحۃ ہذا الحدیث استعمال الأئمۃ من أتباع من أتباع التابعین إلی عصرنا ہذا إیاہ ومواظبتہم علیہ وتعلیمہن الناس، منہم عبداللّٰہ بن المبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ۔ (أخرجہ الحاکم ، في مستدرکہ: ج ۱، ص: ۱۶۴)
قال الذہبي: أخرجہ أبوداؤد والنسائي، وابن خزیمۃ في الصحیح ثلاثتہم عن عبدالرحمن بن بشر۔ (أخرجہ الحاکم ، في مستدرکہ، ج۱، ص: ۳۱۹)
وینبغي للمتعبد أن یعمل بحدیث ابن عباس تارۃً، ویعمل بحدیث ابن المبارک أخری۔ (ملا عي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ التسبیح‘‘: ج ۳، ص: ۳۷۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص431

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1020

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  والنا لہ الحدید(اور ہم نے ان کے لئے لوہا نرم کردیا)  کی تفسیر میں ائمہ تفسیر حضرت حسن بصری، قتادہ، اعمش وغیرہم نے فرمایا کہ یہ اللہ نے بطور معجزہ لوہے کو ان کے لئے موم کی طرح نرم بنادیا تھا(معارف القرآن ج7 ص261)۔ دوسری بات :اللہ کا ان کاموں کو اپنی طرف منسوب کرناکہ میں نے ایسا کردیا اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا ایک خرق عادت امر تھا۔ نبی کے ہاتھ پر خرق عادت امر کا ظاہر ہونا ہی معجزہ کہلاتا ہے۔تیسری بات :یہاں پر حضرت داؤد علیہ السلام کی خصوصیات کا بیان ہے اگر ان کو معجزہ نہ مانا جائے تو  آپؑ کے مخصوص فضل وشرف کے بیان میں ان کا شمار کرنا بے معنی ہوجائے گا(العیاذ باللہ) ۔ چوتھی بات: ذاتی کارنامے دنیاوی اسباب پر منحصر ہوتے ہیں ،جبکہ معجزات  کی بنیاد اسباب پر نہیں ہوتی ۔  ھذا ماظہر لی واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 38 / 1211

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حج تمتع میں عمرہ کے احرام سے نکلنے کے لئے بال  کٹوانا ضروری ہے  اور اس میں کوئی دم لازم نہیں ۔ کذا فی الفقہ  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 39/1065

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Ghusl doesn’t become invalid due to mere sensation without discharge of mani. If mani gets discharged then only ghusl becomes invalid. But when there was no virginal discharge at all, your wudu is still valid though it is better to repeat the wudu. In your case mentioned above, ghusl is not wajib on you due to mere feeling without any kind of discharge.  

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 40/???

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایام قربانی سے پہلے قربانی کی نیت سے خریدے ہوئے بکرے کو وہ غریب بیچ سکتا ہے لیکن اگر ایام قربانی میں ایسا ہوا ہے تو بکرے کی قربانی  کردے۔(2) ایام قربانی میں ہونے کی وجہ سے اس بکرے کی قربانی ہی واجب ہے۔ اس کو بیچنا درست نہیں ہے۔ (شامی ج4ص609)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 41/1003

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ والد کے ترکہ میں سے اس کو کیا ملنے والا ہے، کیا ترکہ سے ملنے ولاحصہ حاجت اصلیہ کے علاوہ اتنی مقدار ہے کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے؟ اس کی وضاحت کرکے دوبارہ مسئلہ معلوم کریں

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1107/42-336

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر نے جب طلاق نامہ تیار کرایا اور دستخط کرکے آپ کے پاس بھیج دیا تو  ان کاغذات پر جتنی طلاق لکھی تھی شرعا وہ ساری طلاقیں واقع ہوگئیں۔اگر ایک یا دو طلاقیں لکھی ہیں تو رجوع یا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے، اگر تین طلاق دیدی ہے تو دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں ہے۔

 ولو قال للکاتب: اکتب طلاق امرأتي کان إقراراً بالطلاق وان لم یکتب۔ ہدایہ فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ (القرآن- سورۃ البقرۃ)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1338/42-720

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق دینا یاد ہے مگر طلاق کتنی مرتبہ دی  یہ یاد نہیں تو ایسی صورت میں جتنی طلاقیں یقینی ہیں وہ طلاقیں واقع ہوں گی لہذا ایک طلاق رجعی تو یقینی طور پر واقع ہوگئی، اور اگر تیسری طلاق میں شک ہو  اور دوسری طلاق یقینی ہو تو دو طلاق رجعی  کا حکم لگے گا۔ صورت مسئولہ میں ایک یا دو طلاق کا اگر یقین ہے تو عدت (تین حیض ) گزرنے سے پہلے رجعت کرسکتے ہیں  اور اگر عدت کے دوران رجعت نہیں کی تو یہ ایک /دو طلاقیں بائن ہوجائیں  گی اور عدت کے بعد نکاح جدید کرکے دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اور اگر تین  طلاق کا یقین ہے تو فورا علیحدہ ہونا واجب ہے، یہ طلاق مغلظہ ہے جس کے بعد اب دونوں میں نکاح باقی نہیں رہا۔ مرد اپنا نکاح کہیں اور کرلے اور عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ 

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ الی قولہ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ (القرآن: سورۃ البقرۃ 229/230)

ولو شک أطلق واحدة أو أکثر بني علی الأقل أي کما ذکرہ الإسبیجابي إلا أن یستیقن بالأکثر أو یکون أکبر ظنہ․ (فتاوی شامی: 3/283)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1465/42-894

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کل کے موجودہ یہودی اور نصرانی بھی  اہل کتاب میں شامل  ہیں گوکہ ان کا ایمان محرف توریت  و انجیل پر ہے۔  

مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں: قرآنِ کریم کی بے شمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہلِ کتاب ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعوے دار ہوں۔ خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گم راہیوں میں جا پڑے ہوں،  قرآنِ کریم نے جن کو اہلِ کتاب کا لقب دیا، انہیں کے بارے میں یہ بھی جابجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں۔  اور یہ بھی فرمایا کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو۔ ان حالات وصفات کے باوجود جب قرآن نے ان کو اہلِ کتاب قرار دیا تو معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ جب تک یہودیت و نصرانیت کو بالکل نہ چھوڑ دیں وہ اہلِ کتاب میں داخل ہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ سیئہ میں مبتلا ہوں۔ 

مسلمان کا نکاح کسی  کافرہ  اور دہریہ عورت سے  جائز نہیں جو کسی رسول پر ایمان نہ رکھتی  ہو۔   البتہ اگر کوئی عورت یہودیہ یا  نصرانیہ ہو اور اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو، تو اس سے مسلمان کا نکاح درست ہے۔ خیال رہے کہ   اہل کتاب عورتوں سے نکاح گرچہ جائز ہے مگر بہت سارے مفاسد کے پیش نظر ان سے نکاح کو مکروہ لکھا ہے۔اس لیے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں  مسلمانوں کو کتابیہ عورتوں کے نکاح سےمنع فرمادیاتھا۔

"عن نافع عن ابن عمر أنه کان یکره نکاح نساء أهل الکتاب ولایری بطعامهن بأسًا". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۵۹ دار الکتب العلمیة بیروت)"عن ابن عمر أنه کره نکاح نساء أهل الکتاب وقرأ: {وَلَاتَنْکِحُوْا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ} [البقرة: ۲۲۱]". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۶۰ بیروت) الدرالمختار میں ہے: "(وصح نكاح كتابية)، وإن كره تنزيهاً (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلهاً". (ج:۳،ص:۴۵،ط :سعید)وفی الشامیۃ: "(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ. قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ".   (ج:۳،ص:۴۵،ط:سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1567/43-1087

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حالت حمل میں بھی بیوی سے صحبت کرنا جائز ہے بشرطیکہ کسی مضرت کا اندیشہ نہ ہو۔ تاہم اگرصحبت کرنا طبی اعتبار سے مضر ہو اور شوہر پر شہوت کا غلبہ ہو تو اس کی گنجائش ہے۔

"بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضًا". (شامی 2/399)

"ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز، تأمل". (شامی 2/399) "في الجوهرة: الاستمناء حرام، وفيه التعزير. ولو مكن امرأته أو أمته من العبث بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه". و في الرد: "(قوله: ولا شيء عليه) أي من حد وتعزير، وكذا من إثم على ما قلناه" (شامی 4/27)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند