Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو رطوبت داد یا زخم سے نکلتی ہے اگر اپنی جگہ سے بہہ پڑے، تو ناپاک اور نجس مغلظ ہے اور نجس مغلظ ایک درہم تک معاف ہے؛ اس لئے اگر وہ داغ ودھبہ پھیلاؤ میں ایک درہم سے زائد نہ ہو، تو ایسے کپڑے میں نماز درست ہو جائے گی اور اگر ایک درہم سے زائد ہو، تو اس کپڑے میں نماز درست نہیں ہوگی؛ بلکہ کپڑے کو دھونا ضروری ہے۔ اور اگر پانی یا پیپ زخم کے منہ پر ہو اور کپڑا اس پر بار بار لگنے کی وجہ سے وہ پانی کپڑے پر پھیل گیا، تو مبتلا بہ کو اگر معلوم ہو کہ زخم پر اگر کپڑا نہ لگتا تو بہہ پڑتا، تو اس صورت میں کپڑا ناپاک ہے اس کا دھونا واجب ہے اور اگر ایسا معلوم ہو کہ کپڑا نہ لگتا، تو نہ بہتا، اس صورت میں کپڑا ناپاک نہیں ہے نہ اس کا دھونا واجب ہے، اگر ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لی تو درست ہوگی۔
’’الدم والقیح والصدید وماء الجرح والنقطۃ وماء البثرۃ والثدي والعین والأذن لعلۃ سواء علی الأصح‘‘(۱)
’’وکذا کل ما خرج منہ موجبا لوضوء أو غسل مغلظ‘‘(۲)
’’کل ما یخرج من بدن الإنسان مما یوجب خروجہ الوضوء أو الغسل فہو مغلظ … فإذا أصاب الثوب أکثر من قدر الدرہم یمنع جواز الصلوٰۃ‘‘(۳)
’’إن مسح الدم عن رأس الجرح بقطنہ ثم خرج فمسح ثم وثم … ینظر إن کان بحال لو ترک لسال ینتقض وإلا لا‘‘(۴)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطھارۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۲؍ ۵۲۳۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع المغلظۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۴) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملی في شرح منیۃ المصلی: ج ۱، ص: ۱۳۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص41
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب تک اس وضو سے کم از کم دو رکعت نہ پڑھ لی جائے یا کوئی دوسری عبادت جس میںوضو شرط ہے، ادا نہ کرلی جائے یا کافی وقت نہ گزر جائے دوبارہ وضو کرنا مکروہ ہے۔
أن الوضوء عبادۃ غیر مقصودۃ لذاتھا، فإذا لم یؤدّ بہ عمل مما ھو المقصود من شرعیتہ کالصلاۃ و سجدۃ التلاوۃ و مس المصحف، ینبغي أن لا یشرع تکرارہ قربۃ لکونہ غیر مقصود لذاتہ، فیکون إسرافاً محضاً۔ (۲) و مقتضی ھذا کراھتہ و إن تبدل المجلس مالم یودّ بہ صلاۃ أو نحو۔(۱)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في الوضوء علی الوضوء،‘‘ ج۱، ص:ـ۲۴۱
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في الوضوء علی الوضوء،‘‘ ج۱، ص:ـ۲۴۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص156
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اگر مہلک مرض ایسا ہو کہ پانی سے غسل کرنے سے بھی مرض بڑھتا ہو، یا گرم پانی میسر نہیں آ سکتا ہو، تو تیمم کر کے نماز پڑھنا جائز ہے؛ لیکن صرف نزلہ کے بڑھنے کے خوف سے غسل نہ کرنا اور تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔
’’من عجز عن استعمال الماء المطلق الکافي لطہارتہ لصلاۃ تفوت إلی خلف لبعدہ أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم‘‘(۳)
’’ولو کان یجد الماء إلا أنہ مریض فخاف إن استعمل الماء اشتد مرضہ یتیمم‘‘ (۴)
’’لا یجوز التیمم في المصر إلا لخوف فوت جنازۃ أو صلاۃ عید أو للجنب الخائف من البرد‘‘ (۱)
(۳)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج ۱، ص:۳۹۵تا۳۹۷
(۴)بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم: ألعجز من استعمال الماء لمرض‘‘ ج۱، ص: ۵۱۶
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۲۴۴
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص358
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2730/45-4259
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں مسلمان قصائی کا اجرت پر ایسا عمل کرنا اگرچہ جائز اور درست ہے تاہم اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے، اور جو اجرت لی ہے وہ حلال ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: وہ جماعت میں شریک نہیں کہلائے گا اوراسے جماعت کا ثواب نہیں ملے گا۔(۲)
(۲) فلما قال: السلام جاء رجل واقتدی بہ قبل أن یقول علیکم لایصیر داخلا في صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لاینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وافقتہا روایۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص471
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وتر کی جماعت غیر رمضان میں مکروہ تحریمی ہے۔ کبیری میں ہے۔
’’ولا یصلی أي الوتر بجماعۃ إلا في شہر رمضان، ومعناہ الکراہۃ دون عدم الجواز، لأنہ نفل من وجہ ولأنہ لم ینقل عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا عن أحد من الصحابۃ فتکون بدعۃ مکروہۃ‘‘ (۲)
(۲) إبراھیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’فصل في النوافل‘‘: ص: ۳۶۴، دارالکتاب دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص309
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نمازوں کے علاوہ تمام نمازوں پر نفل کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے کہ نفل کے معنی زائد کے ہوتے ہیں اور نوافل فرائض پر زیادہ ہوتی ہے، ان نفل نمازوں میں بعض نمازوں کی بڑی فضیلت روایت میں آئی ہے اور بعض کے ترک کرنے میں وعید کا بھی تذکرہ ہے ایسی نمازیں فقہا کی اصطلاح میں واجب یا سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں، اس کے علاوہ دیگر نمازوں پر نفل یا مستحب کا اطلاق ہوتا ہے یہ نمازیں بھی احادیث سے ثابت ہیں اور ان کو ادا کرنے کی فضیلت روایت میں مذکور ہے، لیکن اگر کوئی نہ پڑھے تو آدمی گنہگار نہیں ہوگا، البتہ پڑھنے سے ثواب کا مستحق ہوگا اور اس کے ذریعہ فرائض کے کوتاہی کی تکمیل ہوتی ہے، بندہ کو اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔
’’وما تقرب إلی عبدي بشيء أحب إلی مما افترضت علیہ، وما یزال عبدي یتقرب إلي بالنوافل حتی أحبہ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الرقاق، باب التواضع‘‘: ج ۲، ص: ۹۶۳، رقم: ۶۵۰۲۔)
سنۃ مؤکدۃ قویۃ قریبۃ من الواجب حتی أطلق بعضہم علیہ الوجوب، ولہذا قال محمد: لو اجتمع أہل بلد علی ترکہ قاتلناہم علیہ، وعند أبي یوسف یجلسون وتضربون وہو یدل علی تأکدہ لا علی وجوبہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۳، ص: ۶)
ولہذا کانت السنۃ المؤکدۃ قریبۃ من الواجب في لحوق الإثم کما في البحر، ویستوجب تارکہا التضلیل واللوم کما فی التحریر: أي علی سبیل الإصرار بلا عذر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل ‘‘: ج ۲، ص:۴۵۱)
ترکہ لا یوجب إسائۃ ولا عتابا کترک سنۃ الزوائد، لکن فعلہ أفضل۔ (الحصکفي، ردالمحتار علی الدرالمختار: ج۱، ص: ۴۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص418
خوردونوش
Ref. No. 880 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خنزیر کے کسی بھی جز سے بالواسطہ اور بلاواسطہ ہر طرح انتفاع حرام ہے۔ ولاشک فی حرمتھا لمافیھا من ضیاع المال والاشتغال بمالایفید۔ شامی ج1 ص 135۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 1283
الجواب وباللہ التوفیق۔ اگر صراحةً یا عرفاً اجرت طے نہ ہو بلکہ تحفہ وہدیہ کے طور پر رقم یا کپڑے وغیرہ دیئے گئے ہوں تو ان کا استعمال درست ہے، ورنہ نہیں۔ کذا فی رسم المفتی۔ واللہ اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Family Matters
Ref. No. 38 / 1198
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Celebrating birthday is the way of non-Muslims. It has no basis in the shariah and sunnah. So you have to abstain from it. You have to create awareness about this false and baseless act. Muslims must understand that we are obliged to follow only the way and sunnah of our beloved prophet Muhammad (saws). Sahaba didn’t celebrate Prohpet’s birthday and Tabieen didn’t celebrate Sahaba’s birthdays. So how dare we celebrate our birthdays?
May Allah guide you to the right path! And give you taufeeq to follow only the Sunnah of our Prophet Muhammad (saws).
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband