زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2250/44-2399

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو صدقہ شریعت نے واجب کیا ہو یا آدمی نے خود اپنے اوپر منت یا نذر مان کر  واجب کیا ہو، وہ صدقہ صرف غریب مسلمانوں کا حق ہے، ایسا صدقہ غیرمسلم کو دینا یا مالدار مسلمان کو دینا جائز نہیں ہے، دینے سے پہلے اس کی تحقیق کرلینی چاہئے۔  اور یہ صدقہ مسجد یا خیراتی کاموں میں صرف کرنا بھی جائز نہیں ہے۔  اور جو صدقہ نفلی ہو یعنی آدمی اپنے کاروبار میں  برکت، بیماری سے شفا، کسی اہم کام میں سہولت وغیرہ کے مقصد سے اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتاہے ، ایسا صدقہ غریب، امیر، مسلمان اور غیرمسلم کسی کو بھی دیاجاسکتاہے، اور مسجد میں اسی طرح دیگر اوقاف میں خرچ کرنا بھی جائز ہے۔ ظاہر حال سے اگر لگتاہے کہ وہ غلط کاموں میں نہیں لگائے گا، تو اس کو صدقہ دیا جائے اور اگر اس کی حالت سے غالب گمان یہ ہو کہ وہ شراب یا جوا میں صرف کرے گا تو اس کو صدقہ دینے سے احتراز کیا جائے۔

الھدایہ: (223/1، ط: مکتبہ رحمانیہ)
ولا یدفع المزکی زکوۃ مالہ الی ابیہ وجدہ وان علا ولا الی ولدہ وولد ولدہ وان اسفل۔
الجوھرۃ النیرہ: (باب فی بیان مصارف الزکوۃ)
لا تدفع الی غنی وفیھا ولا یدفع الی بنی ھاشم ولا فیھا ولا یدفع المزکی زکوتہ الی ابیہ وجدہ وان علا ولا الی ولدہ وان اسفل و فیھا۔۔۔۔۔ ولا یبنی بھا مسجد ولا یکفن بھا میت۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عام طور پر شادی کے موقعہ پر فلمی اور بے ہودہ گیت گائے جاتے ہیں، جو کہ ناجائز ہیں اور اگر خوشی کے اشعار ہوں، نامحرموں کا مجمع نہ ہو، آواز نا محرموں تک نہ جائے، تو جائز ہے۔(۲)

۲) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شیء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔…  (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
’’لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: کل لہو المسلم حرام‘‘۔ والإطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعہ کالرقص والسخریۃ والتصفیق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنہا کلہا مکروہۃ لأنہا زي الکفار۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۶۰)
السماع والقول والرقص الذي یفعلہ المتصوفۃ في زماننا حرام لا یجوز القصد إلیہ والجلوس علیہ وہو والغناء والمزامیر سواء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السابع عشر في الغناء واللہو‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۶)
وأما الغناء بذکر الفواحش والمنکرات من القول، فہو المحظور من الغناء۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ج ۳، ص: ۱۰۶۵، رقم: ۱۴۳۲)
وأما الغناء المعتاد عن المشتہرین بہ الذي یحرک الساکن ویہیج الکامن الذي فیہ وصف محاسن الصبیان والنساء ووصف الخمر ونحوہا من الأمور المحرمۃ فلا یختلف في تحریمہ۔ (العیني، عمدۃالقاري: ج ۶، ص: ۲۷۱
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص430

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خوشی کے موقع پر خوشی کی درازی کی دعا کرنا اور غم کے موقعہ پر تسلی کے الفاظ کہہ دینا درست ہے؛ اس لئے جمعہ مبارک کہنا یا کوئی اور جملہ بطور دعا کہہ دینا درست ہے، مگر اس کو ضروری سمجھنا غلط ہے؛ البتہ عید کی نماز کے بعد مصافحہ ومعانقہ کرنے کا عمل چونکہ اسلاف سے ثابت نہیں ہے؛ اس لئے اس سے احتراز لازم ہے۔(۱)

۱) عن جبیر بن نفیر قال: کان أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا انفقوا یوم العید یقول لبعض تقبل اللّٰہ منا ومنکم، (الحاوي للفتاوی: ج ۱، ص: ۱۱۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص540

متفرقات

Ref. No. 2547/45-3884

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لائیو ویڈیو کال، تصاویر محرمہ کے زمرے میں نہیں آتی ہے، اس لئے ویڈیو کال کی گنجائش ہے، تاہم ویڈیو کال کرتے وقت بہت احتیاط کرنی چاہئے کہ تصویر میں گھر کے وہ افراد نہ آجائیں جن کی اجازت نہیں، یا جن کو دیکھنا شرعا جائز نہیں ہے وغیرہ۔ تاہم بعض حضرات ویڈیوکال کو بھی تصاویر محرمہ کے زمرے میں شامل کرتے ہیں، اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے بھی پرہیز کیاجائے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 2680/45-4148

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ۔  صورت مذکورہ میں دوسرے جانور کی بھی قربانی کرنا ضروری ہے اور اگر قربانی کے ایام گزر جائیں تو اس جانور کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔

’’اشتری الفقیر لہا ثم سرت واشتری أخری لہا فوجد الأولیٰ ضحی بہما ولو غنیا بالواحدۃ لانہا علی الغنی یایجاب الشرع وہو واحد لا غیر وعلی الفقیر بالشراء وہو متعدد‘‘ (بزازیہ علی الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الأضحیۃ‘‘: ج ٦، ص: ٢٩٢)

’’ولو کان معسرا فاشتری شاۃ وأوجیہا ثم وجہ الأولی قالوا علیہ أن یضحی بہما، کذا فی فتاوی قاضیخان‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ٥، ص: ٤٩٢)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:بوتلوں وغیرہ میں جو پانی ہے ظاہر ہے کہ وہ تھوڑا پانی ہے اور ماء قلیل یعنی تھوڑے پانی میں شراب پینے والا منہ ڈالے، تو دو صورتیں ہیں، اگر اس نے شراب پیتے ہی پانی میں منہ ڈالا تو شراب جو کہ ناپاک ہے اس کا اثر پانی میں آ گیا اور پانی ناپاک ہو گیا اس سے وضو نہیں ہوگا اور اگر کچھ دیر رکا رہا کہ لعاب کے ذریعے منہ سے شراب کے اجزاء ختم ہو گئے پھر اس نے بوتل سے منہ لگا کر پانی پیا، تو اس پانی کا استعمال مکروہ ہے۔
’’الماء الذي شرب منہ شارب الخمر کأن وضع الکوز الذي فیہ الماء أو القلۃ علی فمہ وشرب منہ بعد أن شرب الخمر وإنما یکرہ الوضوء من ذلک الماء بشرط واحد وہو: أن یشرب منہ بعد زمن یتردد فیہ لعابہ الذي خالطہ الخمر کأن یشرب الخمر ثم یبتلعہ أو یبصقہ ثم یشرب من الإناء الذي فیہ الماء أما إذا شرب باقي الخمر وبقي في فمہ ولم یبتلعہ أو یبصقہ ثم شرب من کوز أو قلۃ فیہا ماء فإن الماء الذي بہا ینجس ولا یصح استعمالہ‘‘(۱)
’’(وشارب خمر فور شربہا) أي بخلاف ما إذا مکث ساعۃ ابتلع ریقہ ثلاث مرات بعد لحس شفتیہ بلسانہ وریقہ ثم شرب فإنہ لا ینجس‘‘(۲)

(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: حکم الماء الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في السؤر‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص178

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال صورت میں اس عورت کا قول درست نہیں ہے، اس کو چاہئے کہ صحیح مسئلہ پر عمل کرے،احناف کے نزدیک حیض کی کم از کم مدت تین دن اور تین راتیںجب کہ زیادہ مدت دس دن اور دس راتیں ہیں اوراس عورت کو چاہئے کہ بہشتی زیور وغیرہ کا مطالعہ کرے تاکہ صحیح معلومات حاصل ہوں اور جتنے روز حیض آئے اتنے ہی روزوں کی قضا لازم ہے۔(۱)

(۱)عن أبي أمامۃ الباھلي قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: لا یکون الحیض للجاریۃ والثیب التي قد أیست من الحیض أقل من ثلاثۃ أیام ولا أکثر من عشرۃ أیام فھي مستحاضۃ، فما زاد علی أیام أقرائھا قضت و دم الحیض أسود خاثر تعلوہ حمرۃ و دم المستحاضۃ أصفر رقیق۔ (أخرجہ دار قطنی، في سننہ، ’’کتاب الحیض‘‘ ج۱، ص:۳۰۷، رقم :۸۳۳، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان) … أقل الحیض ثلاثۃ أیام و لیالیھا وما نقص من ذلک فھو استحاضۃ۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ج۱، ص:۶۲)؛ فإن لم یجاوز العشرۃ فالطھر والدم کلاھما حیض، سواء کانت مبتدأۃ أو معتادۃ إن جاوز العشرۃ ففی المبتدأۃ حیضھا عشرۃ أیام و في المعتادۃ معروفتھا في الحیض حیض والطھر طھر۔ (جماعۃ من علماء الہند، فتاوی ہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس: في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول: في الحیض و منھا : تقدم نصاب الطہر‘‘ ج۱، ص:۹۱ (مکتبۃ فیصل دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص375

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان کی مساجد بھی پاک ہوتی ہیں اس لیے اگر کوئی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، تو پڑھ سکتے ہیں، نماز بہر صورت ادا ہوجائے گی۔ تاہم غالی شیعہ کی امامت میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أعطیت خمسا لم یعطہن أحد من الأنبیاء قبلي: نصرت بالرعب مسیرۃ شہر، وجعلت لی الأرض وفي روایۃ ولأمتی مسجدا وطہورا، فأیما رجل من أمتي أدرکتہ الصلاۃ فلیصل (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الیتیم‘‘: ج۱، ص: ۳۹۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص256

متفرقات

Ref. No. 2756/45-4290

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فرائض کی ادائیگی سب سے پہلے لازم ہے پھر اس کے بعد آدمی نوافل پڑھے یا نہ پڑھے یہ اس کا اپنا اختیار ہے، تاہم اگر کوئی فرائض ادا نہیں کرتا اور کسی موقع پر نفل پڑھتاہے تو اس کی وہ عبادت امید ہے کہ قبول کی جائے گی گرچہ فرائض کے ترک کی بناء پر وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا اور اس کا گناہ اور وبال اس پر ہوگا، لیکن فرض چھوڑنے والے سے فرض کی ادائیگی کی ترغیب دی جائے گی نوافل پڑھنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعض روایات میں ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کی جگہ ’’صلو في بیوتکم‘‘ پڑھنا ثابت ہے؛ لیکن حضرات محدثین کی رائے ہے کہ اس جملہ کا اضافہ اذان کے بعد کیا جائے اذان کے اندر نہیں۔ علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ: اذان میں شامل نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ اذان کے بعد کہنا چاہیے تاکہ اذان اپنی ہیئت پر باقی رہے؛ اسی طرحانہوں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اذان کے درمیان اور اذان کے بعد دونوں طرح کی اجازت ہے۔(۱)
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگ عربی نہیں جانتے ہیں؛ اس لیے ’’صلوا في بیوتکم‘‘ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پھر لوگوں کو مسئلہ معلوم نہیں ہوتا ہے؛ اس لیے عام لوگوں میں بحث کا ایک موضوع بن جائے گا اور بسا اوقات انتشار کا سبب ہوگا؛ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اذان مکمل دی جائے ا ور اذان کے بعد اردو میں یا مقامی زبان میں یہ کہہ دیا جائے کہ گھر پر نماز پڑھ لیں۔(۲)
عرب میں ان کی زبان عربی ہے اور مؤذن سرکاری ہوتے ہیں اس لیے وہاں بحث کا موضوع نہیں بنتا اور انتشار پیدا نہیں ہوتا ہے۔

(۱) وقولہ ثم یقول یشعر بأن القول بہ کان بعد الأذان، فإن قلت قد تقدم في باب الکلام في الأذان أنہ کان في أثناء الأذان، قلت یجوز کلا ہما وہو نص الشافعي أیضاً في الأم ولکن الأولی أن یقال: بعد الأذان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب ہل یتبع المؤذن فاہ وہہنا‘‘: ج ۵، ص: ۱۴۶)(شاملۃ)
(۲) حدثنا یحيٰ عن عبید اللّٰہ بن عمر قال: حدثني نافع قال: أذن ابن عمر في لیلۃ باردۃ بضجنان ثم قال صلوا في رحالکم وأخبرنا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یأمر مؤذنًا یؤذن ثم یقول علی إثرہ ألا صلوا في الرحال في اللیلۃ الباردۃ أو المطیرۃ في السفر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب الأذان للمسافر إذا کانوا جماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۸، رقم: ۶۳۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص142